علامہ اسد: تاریخ کا گمشدہ ورق

جاسم محمد

محفلین

علامہ اسد: تاریخ کا گمشدہ ورق —- محمد عبداللہ
جولائی 19, 2019

علامہ محمد اسد کو بیسویں صدی کے نہایت اثر انگیزمسلمانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔علامہ محمد اسد پیدائشی طور پر ایک یہودی تھے، 20 جولائی 1900 میں لیمبر گ آسٹریا میں پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کا نام لیوپولڈ ویس رکھا. چونکہ ان کا خاندان یہودی مذہب کے ربی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس لیے انہوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی۔ویانا یونیورسٹی کو چھوڑنے کے بعد وہ 1920 کی دہائی کے دوران جرمنی میں اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔کچھ عرصہ اظہاریت پسند فلم ڈائریکٹر فریٹز لینگ کے ساتھ بھی کام کیا۔پھر برلن کی ایک امریکی نیوز ایجنسی میں ٹیلی فون آپریٹر کی ملازمت اختیار کر لی اور اتفاقاً صحافی بن گئے۔

پھر اس کے بعد ان کے ماموں نے انہیں برطانیہ کے زیر انتظام فلسطین بلالیا۔ علامہ محمد اسد اپنی کتاب ”شاہراہ مکہ” میں لکھتے ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے نہایت عجیب سفر اور دنیا کا یہ ایک عجیب حصہ تھا۔جس میں لوگ بڑی سادگی سے زندگی بسر کر رہے تھے اور اور یورپ کے برعکس ان کی زندگی بہت پرسکون اور پر کشش تھی۔

علامہ محمد اسد نے اس سفر کے دوران ہی یورپ اور مشرق وسطیٰ یعنی عرب دنیا کا موازنہ شروع کر دیا اور ان کے اندر موجود پوشیدہ سوالات کے جواب ان کو ملنا شروع ہو گئے جیسا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ یورپ میں لوگوں نے اپنے مذہب کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور وہ سائنس کی دنیا میں محو ہو چکے ہیں۔ اور شاید سائنس کو ہی اپنا خدا سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ میں لوگ اب بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں۔اور ان کا یہ یقین بہت پختہ ہے۔وہ اپنے پہلے سفر کے دوران ہی اسلام سے بہت متاثر ہوئے اور اسلامی طرز زندگی کو جاننے کے لئے اور بے چین ہوگئے۔ چناچہ اس کے لیے انہوں نے دوسرے عرب ممالک کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔اور اپنے ان تجربات کو آرٹیکل کی صورت میں لکھنا شروع کر دیا اور آپ نے یہ آرٹیکل یورپ میں مشہور اخبارات کو بھجوانا شروع کر دیے۔ ان میں سے ایک اخبار فرینکفرٹ زائییونگ نے ان کو اپنا مشرق وسطیٰ میں نمائندہ مقرر کردیا۔

علامہ محمد اسد اپنی کتاب ”شاہراہ مکہ” میں لکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا یہ سفر ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب بنا۔ مشرق وسطیٰ کے سفر کی واپسی پر کافی سوچ و بچار کے بعد انہوں نے 1926میں برلن کی ایک مسجد میں امام کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ اور مسجد کے امام نے ان کا نام محمد اسد رکھا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ مشرق وسطیٰ کا رخ کیا اور سعودی عرب میں قیام کیا۔اس قیام کے دوران حج ادا کیا اور اس حج کی ادائیگی کے دوران کی ان کی پہلی بیوی ”ایلسا ”کا انتقال ہوا۔ ان کے سعودی عرب کے بادشاہ سعود کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ 1929میں شاہ سعود نے انہیں ایک خفیہ مشن پر بھی بھیجا تاکہ فیصل الدویش کو ملنے والی بیرونی امداد کا سراغ لگایا جا سکے اس کے علاوہ انہوں نے عمر المختار سے خفیہ ملاقات کی۔

علامہ محمد اسد نے عرب کو خیرباد کہا اور 1932 میں برطانوی ہندوستان آ گئے جہاں ان کی ملاقات علامہ محمد اقبال سے ہوئی۔ ڈاکٹر ارشاد کلیمی جو کہ (ڈپٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان ریٹائرڈ ہیں) کے مطابق علامہ محمد اسد اور علامہ محمد اقبال کے درمیان بہت اچھی دوستی تھی اور یہ ڈاکٹر اقبال ہی تھے جنہوں نے علامہ محمد اسد کو مشورہ دیا کہ وہ یہاں یعنی ہندوستان میں اسلامک ری کنسٹرکشن پر کام کریں۔چناچہ علامہ محمد اسد نے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی تجویز پر کام کرنا شروع کر دیا۔لیکن 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر نازیوں نے ان کے والدین کو ایک کنسنٹریشن کیمپ میں قید کر دیا اور وہیں پر ان کی موت واقع ہوئی. خود محمد اسد کو بھی جاسوسی کے الزام میں لاہور سے گرفتار کر لیا گیا اور 3 سال جیل کی سزا سنائی گئی۔ان کی گرفتاری کے دوران ان کی بیوی منیرہ اور بیٹے طلال پٹھان کوٹ سے پانچ کلومیٹر دور جمالپور میں چودھری نیاز علی خان کے پاس رہے 1945 میں دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر محمد اسد بھی اہل خانہ کے پاس چلے گئے۔

اس کے بعد علامہ محمد اسد نے تحریک پاکستان کا بغور مشاہدہ کرنا شروع کردیا اورانہوں نے ایک رسالہ ماہنامہ عرفات شائع کیا.ماہنامہ عرفات میں انہوں نے پاکستان کو اپنے وجود میں آنے کے بعد جن مسائل کا سامنا تھا وہ بڑی تفصیل سے بیان کیے۔مثال کے طور پر انہوں نے سب سے پہلے زبان اور ثقافت کا مسئلہ بیان کیا کہ پاکستان اپنے وجود کے بعد بہت سی ثقافتوں پر مشتمل ہو گا اور اس کو متحد رکھنے کے لیے ایک ہی ذریعہ ہو گا اور وہ ذریعہ اسلام ہوگا گا لہذا اپنے وجود میں آنے کے بعد پاکستان کو ایسے قوانین بنانے چاہیے جو کہ اسلام کے مطابق ہوں۔

چنانچہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد مغربی پنجاب کے چیف منسٹر نواب افتخار حسین خان ممدوٹ نے انہیں” محکمہ اسلامی تعمیر نو” کا ڈائریکٹر بنا دیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محکمہ قائد اعظم کی مرضی کے مطابق بھی بنا تھا۔ علامہ محمد اسد نے محکمہ اسلامی تعمیر نو میں اپنا کام شروع کر دیا۔ لیکن انہوں نے کیا کیا کام کیا سرکاری طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔البتہ پیرعبدالرحمٰن قریشی جو کہ ایک اسکالر ہیں ان کے مطابق علامہ محمد اسد کا کام آبجیکٹیو ریزولوشن کی صورت میں نظر آتا ہے۔ علامہ محمد اسد اپنا کام سرانجام دے رہے تھے کہ اچانک پراسرار طریقے سے اس محکمہ کو آگ لگادی گئی۔سینئر تجزیہ کار” اوریا مقبول جان ”اور اسکالر” پیر عبدالرحمن قریشی” کے مطابق یہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ اور” پیر عبدالرحمن قریشی” کے مطابق یہ آگ اس وقت کے کے وزیر خارجہ ”سر ظفر اللہ خان ”جو کہ قادیانی تھے شاید ان کی مرضی کے مطابق لگائی گئی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بنے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست بنے۔

اس کے بعد یہ محکمہ بند ہوگیا اور لیاقت علی خان جو کہ اس وقت کے وزیر اعظم تھیانہوں نے علامہ محمد اسد کو پاکستان کی طرف سیمشرق وسطیٰ کا سربراہ بنا دیا۔مشرق وسطیٰ کا سربراہ ہونے کے ناطے علامہ محمد اسد نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خوشگوار بنائے اور انہیں کی کاوشوں کی وجہ سے سعودی عرب نے پاکستان ہاؤس بنانے کی اجازت دی۔

مشرق وسطیٰ میں وہ اپنا کام سرانجام دے رہے تھے کہ ان کو وہاں سے ہٹا کر یو نائیٹڈ نیشن میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے بھیج دیا گیا۔جب وہ یونائیٹڈ نیشنز کے لیے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ کی فرمائش کی کیونکہ اس وقت پاکستانی پاسپورٹ نہیں بنا تھا لیکن ان کی فرمائش پر وزیراعظم” لیاقت علی خان ”نے بالخصوص ان کے لیے پاکستانی پاسپورٹ تیار کروایا اور اس طرح وہ پاکستانی شہریت اور پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔

یونائیٹڈ نیشن میں اپنے کام کے دوران ہی انہوں نے استعفیٰ پیش کیا ان کے استعفیٰ کی وجہ اسکالر” پیر عبدالرحمن قریشی” کے مطابق ان کی ”پولا حمید ”نامی خاتون سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ان سے شادی کی درخواست حکومت پاکستان کو بھجوائی اور لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی گئی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔

اپنے استعفیٰ کے بعد بھی وہ پاکستان کے ساتھ متصل رہے اور ضیاء الحق کے دور میں وہ دوبارہ پاکستان آئے مشہور تجزیہ نگار ”اوریا مقبول جان ”کے مطابق ضیاء الحق کے دور میں بھی لوگوں نے ان کو چلنے نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ پاکستان کو خیرآباد کہہ کے واپس چلے گئے۔

پاکستان کو خیرباد کہہ کہ وہ لندن چلے گئے اور لندن سے پرتگال گئے اور پرتگال سے اسپین منتقل ہوگئے۔ اور 20 فروری 1992 میں غرناطہ میں ان کا انتقال ہوا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک اتنا بڑا مفکر جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں پاکستان کے لیے وقف کردی ہم نے بحثیت قوم ان کی خدمات کا کیا صلہ دیا؟ کیا ہمیں بحیثیت قوم اپنے رویے کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے؟
 

جاسم محمد

محفلین
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک اتنا بڑا مفکر جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں پاکستان کے لیے وقف کردی ہم نے بحثیت قوم ان کی خدمات کا کیا صلہ دیا؟ کیا ہمیں بحیثیت قوم اپنے رویے کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر عبدالسلام، چوہدری ظفراللہ خان، تحریک پاکستان میں شامل ہندو رہنماؤں کے ساتھ بھی اس قوم نے ایسا ہی سلوک کیا۔
علامہ اسد تو پھر یہودیت چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔
 

ام اویس

محفلین
نہ مجموعی اخلاقی حالت بہتر ہوئی۔ نہ حقیقی راہ نما میسر ہوئے۔ نہ وہ پاکستان بن سکا جس کا مقصد اور مطلب لا الہ الا الله تھا۔
 
Top