چودہویں سالگرہ محفلین کے لیے اشعار

16141.jpg


اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں ، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے ، یہ شب نہیں گزاروں گا

شکست سے ، میرا اخلاق اجنبی ھے ندیم
سحر مِلے نہ مِلے ، رات سے نہ ھاروں گا​
 
نور وجدان

میں دوستوں سے تھکا ، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی ، سو میں اپنے دُکھ بُھلا بیٹھا

سنی جو ، شہرتِ آسُودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لیے ، میرے دِل میں آ بیٹھا

بس ایک بار ، غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ھجر میں ، دستِ دُعا اٹھا بیٹھا

خدا گواہ کہ لٹ جاؤں گا ، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے ، تیرا دَرد بھی گنوا بیٹھا

تیرا خیال جب آیا تو ، یوں ھُوا محسُوس
قفس سے اُڑ کے پرندہ ، شجر پہ جا بیٹھا

سزا ملی ھے مجھے ، گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ھے کہ ، میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا

کٹے گی کیسے ، اس انجامِ نا شناس کی رات
ھَوا کے شوق میں ، جو شمع ھی بُجھا بیٹھا

مجھے خدا کی خدائی میں ، یہ ھُوا محسوس
کہ جیسے عرش پہ ھو ، کوئی دُوسرا بیٹھا

 

زیرک

محفلین
سید شہزاد ناصر ہور کرو ٹیگ
وہ رِند ہُوں کہ فنا ہے مِری بقا کی طرح
ابد کے دوش پہ ہُوں پیرِ تسمہ پا کی طرح
شادو بھائی کی عرفیت میں نے پیر تسمہ پا رکھی ہے،یہ جسے چمٹ جائیں کوئی مائی کا لعل پیر فقیرجھاڑ پھونک والا ایسا نہیں جو انہیں اتار سکے۔:D
 
10297944_10152046800315919_123422782094272594_n.jpg

اوشو
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے​
 

زیرک

محفلین
Top