زندگی کی اساس کچھ بھی نہیں

صفی حیدر

محفلین
زندگی کی اساس کچھ بھی نہیں
حیف صد حیف پاس کچھ بھی نہیں
تشنگی کا عذاب مجھ سے پوچھ
کیا ہے صحرا کی پیاس ؟ کچھ بھی نہیں
روح کو کیسے ڈھانپوں، میرے پاس
جزدریدہ لباس کچھ بھی نہیں
وہ امیدیں ہوں خواب یا خواہش
مجھ کو ان میں سے راس کچھ بھی نہیں
گل خزاں برد ہو چکا کب کا
یاد جزاس کی باس کچھ بھی نہیں
بند ہیں سوچ کے دریچے صفی
کیا یقیں کیا قیاس کچھ بھی نہیں
 
Top