نظارے پیارے پیارے لگے ہیں......غزل برائے اصلاح

اسلام و علیکم محفلین ایک غزل پیش خدمت ہے استاد محترم سے اصلاح کی درخواست ہے....
الف عین
محبت کے دن یاد آنے لگے ہیں
نظارے سبھی پیارے پیارے لگے ہیں

یہ کالی گھٹائیں یہ مستی کا عالم
ہمیں یاد تیری دلانے لگے ہیں

کنارے تھے دو،ہم کبھی اک ندی کے
خدا کا کرم,پاس آنے لگے ہیں

ادھر بھی ادھر بھی وہی اضطرابی
یہ راتوں کے تارے ستانے لگے ہیں

کہاں سے کروں ابتدائے کہانی
چمن پھول سے اب مہکنے لگے ہیں

یہ آنکھیں,یہ زلفیں یہ رخسار تیرا
ہمیں اب تو پاگل دِوانے لگے ہیں

گھڑی دو گھڑی کی نہیں بات مصباح
مسلسل وہ اب یاد آنے لگے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سات اشعار میں سے پانچ اشعار کے قوافی آنے، جانے، سنابے وغیرہ ہیں جب کہ محض دو قوافی مہکتے اور پیارے ہیں۔ مطلع کیونکہ قوافی کا تعین کرتا ہے تو سارے قوافی میں مشترک حرف محض ے کا التزام رکھنا تھا، حروف 'ن ے' کا نہیں ۔ کچھ قوافی بدل دیں
اس کے علاوہ دوسری اغلاط بھی بتا دوں جو دہرائی نہ جائیں تو بہتر ہے
مطلع دو لخت ہے یعنی دونوں مصرعوں میں آپسی ربط محسوس نہیں ہوتا
یہ کالی گھٹائیں یہ مستی کا عالم
ہمیں یاد تیری دلانے لگے ہیں
گھٹا کے ساتھ فعل کا صیغہ 'لگی ہھ' ہو گا، مستی کا عالم کے ساتھ 'لگا ہے' لیکن جب دونوں استعمال کیے جائیں تو صیغہ مؤخر الذکر کا ہوتا ہے یعنی یہاں عالم، واحد کے ساتھ 'لگا ہے' درست تھا۔اس کے علاوہ مستی کا عالم خود ایک کیفیت ہے، وہ دوسری کیفیت، تری یاد، کی یاد کس طرح دلائے گی؟ دونوں جگہ عوامل ہی ہوں تو درست۔
ادھر بھی ادھر بھی وہی اضطرابی
یہ راتوں کے تارے ستانے لگے ہیں
... دونوں مصرعوں میں تعلق؟ محض اضطراب کافی تھا، اضطرابی صفت کے ساتھ کچھ اسم ہونا چاہیے تھا، حالت یا کیفیت۔

کہاں سے کروں ابتدائے کہانی
چمن پھول سے اب مہکنے لگے ہیں
یہ بھی بے ربط، دو لخت ہے
کہانی لفظ ہندی کا ہے، عربی فارسی کی اضافت نہیں لگ سکتی.
باقی دو اشعار درست ہیں
 
جناب الف عین صاحب...دوسری کوشش کر رہا ہوں رہنمائ کرنے کی زحمت کریں...شکریہ
وہ پہلو میں جب گنگنانے لگے ہیں
نظارے تبھی سب سہانے لگے ہیں

یہ کالی گھٹائیں یہ مستی کا عالم
وہ پہلو میں آکے ستانے لگے ہیں

کنارے تھے دو, ہم کبھی اک ندی کے
خدا کا کرم پاس آنے لگے ہیں

ادھر بھی ادھر بھی وہی اضطرابی
یہ کیسے کہوں وہ بھلانے لگے ہیں

ہوئ اسک باری خدا جانتا ہے
گلوں کی یہ رنگت بڑھانے لگے ہیں

یہ آنکھیں,یہ زلفیں,یہ رخسار تیرا
ہمیں اب تو پاگل دِوانے لگے ہیں

گھڑی دو گھڑی کی نہیں بات مصباح
مسلسل وہ اب یاد آنے لگے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع اور مقطع درست ہو گیا اور قوافی بھی، مگر

یہ کالی گھٹائیں یہ مستی کا عالم
وہ پہلو میں آکے ستانے لگے ہیں
... میرے لکھے پر پھر غور کریں۔ وہ کوں؟

کنارے تھے دو, ہم کبھی اک ندی کے
خدا کا کرم پاس آنے لگے ہیں
... تکنیکی طور پر درست لیکن پھر ندی کا وجود باقی رہے گا؟

ادھر بھی ادھر بھی وہی اضطرابی
یہ کیسے کہوں وہ بھلانے لگے ہیں
... وہی جو لکھا تھا

ہوئ اسک باری خدا جانتا ہے
گلوں کی یہ رنگت بڑھانے لگے ہیں
... کون بڑھانے لگے ہیں، واضح نہیں

یہ آنکھیں,یہ زلفیں,یہ رخسار تیرا
ہمیں اب تو پاگل دِوانے لگے ہیں
.... سمجھ نہیں سکا کہ زلفیں یا رخسار پاگل کیسے ہو سکتے ہیں
 
Top