ریکوڈک کیس کا فیصلہ؛ پاکستان پر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد

جاسم محمد

محفلین
ریکوڈک کیس کا فیصلہ؛ پاکستان پر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد
ویب ڈیسک ہفتہ 13 جولائ 2019

1741961-rekodiqonline-1563031569-565-640x480.jpg

پاکستان کے خلاف فیصلہ انٹر نیشنل سینٹرفارسیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے سنایا۔ فوٹو:فائل


اسلام آباد: انٹرنیشنل سینٹر فارسیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے سات سال پرانے ریکوڈک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان پر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق انٹرنیشنل سینٹر فارسیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرنے کی پاداش میں پاکستان پر 4 ارب 10 کروڑ روپے جرمانہ عائد کردیا جب کہ ایک ارب 87 کروڑ ڈالر سود بھی ادا کرنا ہوگا، یہ رقم مجموعی طور پر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

آج ٹربیونل نے پاکستان کے خلاف 700 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے معاہدہ منسوخ کرنے کی وجہ نامناسب ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے جرمانے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بہت جلد جرمانے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی تاہم پاکستان کی جانب سے نظرثانی کی اپیل کے فیصلے پر 2 سے 3 سال لگ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کیا تھا جس پر 2012ء میں ٹیتھیان کمپنی نے ورلڈ بینک کے ٹربیونل میں پاکستان کے خلاف مقدمہ درج کردیا تھا، پاکستان 7 سال تک انٹرنیشنل ٹربیونل میں اپنا مقدمہ لڑتا رہا اور اب اس کا فیصلہ آیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کیا تھا جس پر 2012ء میں ٹیتھیان کمپنی نے ورلڈ بینک کے ٹربیونل میں پاکستان کے خلاف مقدمہ درج کردیا تھا، پاکستان 7 سال تک انٹرنیشنل ٹربیونل میں اپنا مقدمہ لڑتا رہا اور اب اس کا فیصلہ آیا ہے۔
تمام جمہوریت پسند ججز اور پارٹیز سے یہ ۶ ارب ڈالر وصول کئے جائیں: عمران خان
 

رانا

محفلین
اللہ رحم کرے وطن عزیز ہر۔ انتہائی افسوسناک اور دردناک۔ کچھ خبیث آتے ہی لوٹنے کے لئے ہیں تو کچھ ریاکار اپنی واہ واہ کرانے کے چکر میں اصلاح کے نام پر بے سوچے سمجھے نشتر چلا جاتے ہیں۔ بعد میں ملک کا جو بھی حال ہو ان کی بلا سے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اللہ رحم کرے وطن عزیز ہر۔ انتہائی افسوسناک اور دردناک۔ کچھ خبیث آتے ہی لوٹنے کے لئے ہیں تو کچھ ریاکار اپنی واہ واہ کرانے کے چکر میں اصلاح کے نام پر بے سوچے سمجھے نشتر چلا جاتے ہیں۔ بعد میں ملک کا جو بھی حال ہو ان کی بلا سے۔
بابا رحمتے سے متعلق جمہوری جماعتوں کا دعوی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر غلط فیصلے صادر کرتا تھا۔ مگر یہ افتخار چوہدری تو ان جمہوری جماعتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر آیا تھا تو پھر اس نے ایسے ملک کو نقصان پہنچانے والے فیصلے کیوں کئے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اللہ رحم کرے وطن عزیز ہر۔ انتہائی افسوسناک اور دردناک۔ کچھ خبیث آتے ہی لوٹنے کے لئے ہیں تو کچھ ریاکار اپنی واہ واہ کرانے کے چکر میں اصلاح کے نام پر بے سوچے سمجھے نشتر چلا جاتے ہیں۔ بعد میں ملک کا جو بھی حال ہو ان کی بلا سے۔
ذمہ داروں کو الٹا لٹکاؤ
 

فرقان احمد

محفلین
آئی ایم ایف سے پکڑ کر انہیں دے دیں یا آئی ایم ایف سے کہیں، ہمارے حصے کا قرض انہیں دے کر شرطیں بھی ان سے ہی منوا لے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
نظرثانی فیصلہ تسلیم نہ کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
بہت سنگین۔ پاکستانی طیارے بین الاقوامی ایئر پورٹس پر نہیں اتر سکتے کہ ضبط کئے جا سکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان سے لین دین بند کر سکتے ہیں۔
جرمانہ ہوا ہے تو ادا تو کرنا پڑے گا۔ ہاں اس کے ذمہ داروں کو زندہ نہ چھوڑیں۔
 

فلک شیر

محفلین
بہت سنگین۔ پاکستانی طیارے بین الاقوامی ایئر پورٹس پر نہیں اتر سکتے کہ ضبط کئے جا سکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان سے لین دین بند کر سکتے ہیں۔
جرمانہ ہوا ہے تو ادا تو کرنا پڑے گا۔ ہاں اس کے ذمہ داروں کو زندہ نہ چھوڑیں۔
افتخار چودھری ت ایہدے منڈے نوں لمیاں پا لوو
اس سے زیادہ پیسے برآمد ہو جائیں گے
 
اب یہ دعوی بھی کر دیں کہ افتخار محمد چوہدری نے فوج کے کہنے پر ایسے فیصلے دئیے تھے جس سے قومی خزانے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے :)
کوئی دعوی نہیں کیا، جو خبر ہے وہی بیان کی ہے اور اس سے جو چاہے نتائج اخذ کر لیں۔
دو حاضر سروس جج بھی اس فیصلے میں شامل تھے، تینوں کو سزا ہونی چاہئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی دعوی نہیں کیا، جو خبر ہے وہی بیان کی ہے اور اس سے جو چاہے نتائج اخذ کر لیں۔
دو حاضر سروس جج بھی اس فیصلے میں شامل تھے، تینوں کو سزا ہونی چاہئے۔
ریکوڈک کیس میں پاکستان کو جرمانہ؛ وزیراعظم کی کمیشن بنانے کی ہدایت
ویب ڈیسک اتوار 14 جولائ 2019
1742709-imrankhane-1563090463-826-640x480.jpg

کمیشن ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا تعین بھی کرے گا۔

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے ریکوڈک کیس میں کمیشن بنانے کی ہدایت کردی۔

ریکوڈک کیس میں پاکستان کو جرمانے کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے کمیشن بنانے کی ہدایت کردی، کمیشن تحقیقات کرے گا یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور پاکستان کو جرمانہ کیوں ہوا، کمیشن ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا تعین بھی کرے گا۔

حکومت پاکستان نے ریکوڈک کیس پر مایوسی کا اظہار کیا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق عالمی عدالت نے کئی سو صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعہ کے روز سنایا، اٹارنی جنرل آفس اور صوبائی حکومت بلوچستان فیصلے کے قانونی اورمالی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں حکومت پاکستان مشاورت سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی قوانین کے تحت تمام قانونی آپشنز استعمال کرنے کاحق رکھتی ہے تاہم حکومت پاکستان ٹی ٹی سی کمپنی کی جانب سے معاملے کے مذاکرات کے ذریعے حل کے بیان خوش آئند قراردیتی ہے اور تمام بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق پاکستان ریکوڈک ذخائر کی ڈیلپمنٹ میں دلچسپی رکھتا ہے اور پاکستان بطور ذمہ دار ریاست بین الاقوامی معاہدوں کوسنجیدگی سے دیکھتی ہے، بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے قانونی حقوق اورمفاد کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا جب کہ وزیراعظم نے ریکو ڈک معاملہ پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ہدایت کی ہے جو تحقیقات کرے گا یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور پاکستان کو جرمانہ کیوں ہوا۔

واضح رہے انٹرنیشنل سینٹر فارسیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرنے کی پاداش میں پاکستان پر 4 ارب 10 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا ہے جس پر ایک ارب 87 کروڑ ڈالر سود بھی ادا کرنا ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ریکو ڈک میں کیا ہوتا رہا؟
17/07/2019 حبیب اکرم

دو ماہ پہلے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے مجھے بتایا کہ ریکوڈک میں تانبے کی تلاش کرنے والی کمپنی ٹیتھیان اورپاکستان کے درمیان ثالثی فیصلے کا اعلان کسی بھی وقت ہو جائے گا اور ہمیں چھ ارب ڈالر دینا پڑیں گے۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا ”حبیب بھائی چھ ارب ڈالر کا مطلب ہے بلوچستان کے چار سالانہ بجٹ کے برابر رقم۔ اگر یہ رقم ہمیں دینی پڑی تو آپ اندازہ کرلیں ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ “۔

میں نے کہا :جام صاحب ’چھ ارب ڈالر سے زیادہ کی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی۔ دنیا کی کوئی کمپنی بلوچستان کی معدنیات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی۔ اگر کوئی آئے گا بھی تو پہلے سے کہیں سخت شرائط پر۔ میں نے جام صاحب سے پوچھا کہ آپ اس معاملے میں کس کو ذمہ دار گردانتے ہیں‘ تو انہوں نے مجھے کہانی سنائی کہ کیسے بلوچستان کی خوشحالی اور ترقی کا یہ معدنی خزانہ ہمارا بوجھ بنا دیا گیا۔ اب جبکہ ٹیتھیان کاپر کمپنی پاکستان کے خلاف چھ ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ جیت چکی ہے تو مجھے وہ ساری داستان یاد آرہی ہے۔

جام صاحب نے مجھے تمام کرداروں کے نام تو نہیں بتائے ’لیکن پاکستان اور بلوچستان کو عالمی سطح پر شرمندہ کرانے والوں کے نام پورا ملک جاننا چاہتا ہے۔ مجھے امیدہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ریکو ڈک منصوبے کی تباہی اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کے اسباب کے تعین کے لیے جس کمیشن کا اعلان کیا ہے‘ وہ ان لوگوں کے نام بھی ریکارڈ پر لائے گا۔ اس کمیشن نے اگر دیانتداری سے کام کیا تو قوم کو پتا چلے گا کہ کس درجے کے نالائق ’خود غرض اور بدعنوان لوگ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھ کر تباہی کی داستانیں رقم کرتے رہے ہیں۔

جب یہ کمیشن اپنا کام شروع کرے گا تو اسے اپنی تحقیقات کا آغازپاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے کرنا ہوگا۔ افتخار چودھری صاحب نے ریکو ڈک کیس کی سماعت کرتے ہوئے دوہزار گیارہ کے ایک حکم میں خود لکھا تھا ”ریکوڈک میں معدنیات کی موجودگی کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد صورتحال بدل گئی“۔ کمیشن کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ آخر صورتحال کیسے بدلی اور ان کے اس فقرے کا مطلب کیا ہے؟ جب انیس سو ترانوے میں یہ معاہدہ ہوا تو یہ طے تھا کہ معدنیات تلاش کرنے والی کمپنی کو ہی معدنیات نکالنے کا لائسنس ملے گا۔ جب معدنیات کی موجودگی کا یقین ہوا تو وہ کونسا قانون ہے جس نے ”صورتحال“ کو بدل ڈالا۔ ان سے غالباً یہ بھی پوچھا جائے گا کہ بلوچستان حکومت نے ہائیکورٹ میں ٹیتھیان کاپر کمپنی سے ہونے والے معاہدے کا دفاع کیا تو اسے سپریم کورٹ میں مؤقف بدلنے کی اجازت کیوں ملی؟ پھر یہ سوال بھی ان کے سامنے رکھنا چاہیے کہ اٹھارہ سال پرانے اور چلتے ہوئے معاہدے سے چھیڑ چھاڑ کی بجائے عدالت نے اسی معاہدے کو جاری رکھنے کی ہدایت کیوں نہ دی۔

ان سے اس قانونی نکتے پر بھی بحث ہونی چاہیے کہ جب حکومت بلوچستان سپریم کورٹ نہیں آئی ’ٹیتھیان کاپر کمپنی نہیں آئی تو ایک غیر متعلقہ شخص کی درخواست پر حکومتوں کے کیے ہوئے معاہدے عدالتوں میں زیر سماعت کیسے آ سکتے ہیں؟ معلوم نہیں وہ بتائیں گے یا نہیں‘ لیکن ان پوچھ لینا چاہیے کہ عبدالحق بلوچ ’جس نے یہ مقدمہ شروع کیا تھا‘ وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا؟

سابق چیف جسٹس کے علاوہ جس شخص کو اس کمیشن میں بلانے کی ضرورت ہے ’وہ ہیں اعظم سواتی صاحب۔ یہ صاحب جو فی الحال تحریک انصاف کی حکومت کا اہم حصہ ہیں‘ اُس وقت ریکو ڈک میں ایک فریق بن کر سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ ایک سیاستدان جب اس معاملے میں پڑا تو عدالت سے چٹ پٹی خبریں نکلنے کا سلسلہ تیز ہوگیا اور اس شور شرابے میں کوئی انجام کے بارے میں کہی ہوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لگے ہاتھوں اعظم سواتی صاحب سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر ہوتے ہوئے اپنے ساتھی وزیرحامد سعید کاظمی پر حج میں کرپشن کا الزام لگایا تھا ’اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔ معاملہ چلا تو اس کیس کے سارے ملزم بری ہوگئے۔ اعظم سواتی صاحب نے حج کیس میں بھی عالمی سطح پر ملک کو گندا کیا اور ریکو ڈک میں بھی یہ ایک فریق تھے۔ ان دونوں کیسوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی قوتِ متحرکہ تھے۔ یہ دونوں کیس محض اتفاق تھے یا کچھ اور؟

کمیشن نے کام شروع کیا تو مشتاق رئیسانی کو بھی بلائے گا۔ جی ہاں ’یہ وہی مشتاق رئیسانی ہیں جو بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ تھے تو ان کے گھر سے پینسٹھ کروڑ سے زائد کے کرنسی نوٹ ملے تھے اور انہیں نیب نے پکڑ لیا تھا۔ جب ریکو ڈ ک کیس میں پاکستان کی ہزیمت کا سامان کیا جارہا تھا تو یہ صوبائی وزارت ِ معدنیات میں تھے۔ اسے اتفاق کہیے کہ جب یہ صوبے کی تباہی کا سامان کر رہے تھے تو ان کے قبیلے کے سردار نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے۔

اسی زمانے میں نواب اسلم رئیسانی کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بلایا اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے کے لیے کہا۔ صدرزرداری چاہتے تھے کہ یہ کمپنی پاکستان میں کام کرے‘ تاکہ ملک میں کان کنی کی صنعت عالمی معیار کے مطابق استوار ہو۔ اسلم رئیسانی نے صدر آصف علی زرداری کو انکار کر دیا کیونکہ انہیں مشتاق رئیسانی خاص طرح کی معلومات دے رہے تھے۔ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے ’اس کا جواب بھی تلاش کرنا اس کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ممکن ہو تو کمیشن سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے بھائی رازق سنجرانی کو بھی بلا لے جو سیندک کاپر گولڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی بتائیں کہ سیندک اور ریکو ڈک کے درمیان کوئی تعلق تھا یا نہیں؟

وہ لوگ بھی کمیشن میں حاضر ہو ں جنہوں نے عدالت کے اند ردعویٰ کیا کہ وہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کی نسبت کہیں کم قیمت پر ریکو ڈک سے تانبا اور سونا نکال کر دکھائیں گے۔ عدالت کی تھپکی کے بعد یہ ہوائی منصوبہ بجلی کی سی رفتار سے پلاننگ کمیشن سے گزرا ’اس سے بھی زیادہ رفتار سے ایکنیک سے پاس ہوا اور یہ لوگ حکومتِ بلوچستان سے دو ارب روپے لے کر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے لگے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کبھی بیلچے سے مٹی بھی نہیں ہٹائی تھی‘ لیکن قانون کے تیشے سے یہ لوگ سنگلاخ پہاڑو ں کو کھودنے چل پڑے۔

ان کی کل معلومات یہ تھیں کہ مٹی کھودنے کے لیے ”کوئی“ مشین ہوتی ہے لہٰذا انہوں نے کھدائی کرنے والی عام سی مشین خریدی ’اسے کوئٹہ پہنچایا اور بھاگ نکلے۔ جو لوگ معدنیات سے ذرا سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ وہ اس مشین کو دیکھ کر ہنستے چلے جاتے۔ آخر کار یہ مشین کوئٹہ کی میونسپل کارپوریشن کو دے دی گئی۔ کاریگروں کا یہ گروپ سندھ حکومت کو تھر سے کوئلہ نکالنے کے چکر میں بھی مبینہ طور پر ایک ارب روپے کا چونا لگا چکا ہے۔

اسی گروہ نے چند سال پہلے اسی طریقۂ واردات کے ذریعے پنجاب حکومت کو چنیوٹ کے قریب لوہے اور نجانے کن کن دھاتوں کی موجودگی بتائی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی مرکز و صوبے میں حکومت تھی ’وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے۔ دونوں کی سادہ لوحی کا عالم دیکھئے کہ چنیوٹ میں جلسہ کرکے کان کُنی کا اعلان بھی کر ڈالا۔ اس گروہ سے بھی پوچھ تاچھ ہونی چاہیے‘ تا کہ سچ سامنے آ سکے۔

ہمارے ساتھ ہونے والی معدنیاتی نوسر بازی میں ملوث کچھ کرداروں کے نام میڈیا لے رہا ہے ’لیکن ریکو ڈک سے جڑی داستان کے سارے کرداروں کا پردہ چاک کرنے کی خواہش تنہا وزیراعظم کی نہیں‘ ہر اس شخص کی ہے جس کے دل میں ذرا سی بھی محبت اپنے ملک کے لیے موجود ہے۔ وزیراعظم نے اگر یہ کمیشن بنا دیا تو یقین مانیے پاکستان میں بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کمیشن کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق ہمیں اس چھ ارب ڈالر کے تاوان سے بھی بچا لیں۔

بشکریہ: روزنامہ دنیا
 

جاسم محمد

محفلین
ریکوڈک ۔ اب آرام ہے؟
17/07/2019 یاسر پیرزادہ

ریکوڈک کا غلغلہ آج سے آٹھ دس سال پہلے اٹھا تھا، ان دنوں اخبارات میں خبریں شائع ہوئی تھیں اور بچے بچے کی زبان پر ریکوڈک کا نام چڑھ گیا تھا، کہانی سب کی ایک ہی تھی کہ سونے اور تانبے کے ان ذخائر کی مالیت دو ٹرلین ڈالر سے کم نہیں، یہ پاکستان کا مستقبل سنوار دیں گے مگر غیر ملکی کمپنیاں نہایت چالاکی کے ساتھ یہ ذخائر ہم سے ہتھیانا چاہتی ہیں، ہم پاکستان کو کانگو نہیں بننے دیں گے، کسی مغربی ملٹی نیشنل کو اس کا ٹھیکہ نہیں دیں گے، ہم خود یہ سونا نکالیں گے، ثمر مبارک مند صاحب یہ کام کر سکتے ہیں، حکومت کے لوگ کرپٹ ہیں لہٰذا عدالت عظمیٰ سو موٹو نوٹس لے کر عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

آپ اس زمانے کے اخبارات نکال کر پڑھ لیں، ٹی وی ٹاک شوز کے کلپ دیکھ لیں یا نام نہاد سائنسدانوں کے انٹرویو سن لیں، سب یہی راگ الاپتے نظر آئیں گے کہ غیر ملکی کمپنی نے سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے ایک فراڈ قسم کا معاہدہ کیا ہوا ہے جسے بنیاد بنا کر ہمارے معدنی وسائل پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ یہ وہ بیانیہ تھا جس پر ہماری قوم کو ایمان کی حد تک یقین تھا۔ بچپن سے ہمیں ہیروں کی کان، سونے کے پہاڑ اور تانبے کے ذخائر کی مدد سے امیر ہونے کا بہت شوق ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ پاکستان میں اس قسم کے ذخائر کی کمی نہیں تاہم معدنیات کے بارے میں ہمارے علم کا حال یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب کہیں سونے کے ذخائر دریافت ہو جائیں تو اس کے بعد بس انہیں کھود کر نکالنے کا کام باقی رہ جاتا ہے، لیکن جب غیر ملکی کمپنیاں جب سونا تلاش کر لیتی ہیں تو وہ غریب اور پسماندہ ممالک کو اصل مالیت نہیں بتاتیں بلکہ انہیں چند ٹکے دے کر باقی کا سونا اپنے ملک میں تھیلے بھر کے لے جاتی ہیں۔ ریکوڈک میں بھی یہی ہونے جا رہا تھا مگر ہم نے صحیح وقت پر کمپنی کو اس کام سے روک دیا۔

یہ تو ہوا مقبول بیانیہ، اب ذرا ایک نظر حقائق پر بھی۔ 1993 میں BHP نامی ایک کمپنی نے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے معاہدہ کیا کہ چاغی کے علاقے میں جو معدنی وسائل دریافت ہوں گے اس میں سے 25% بلوچستان جبکہ 75% کمپنی کا حصہ ہو گا جبکہ ان وسائل کو دریافت کرنے اور نکالنے کی ذمہ داری اور اس ضمن میں ہر قسم کی سرمایہ کاری کمپنی کرے گی۔ عالمی معیار کے حساب سے یہ ایک بہترین معاہدہ تھا کیونکہ دنیا میں کہیں بھی ریاست کو معدنیات میں حصہ نہیں ملتا، ریاست کا حصہ ٹیکسوں اور رائلٹی کی صورت میں آتا ہے، یہ اپنی نوعیت کی غالباً اچھوتی مثال تھی جہاں ریاست پاکستان کو بنا کچھ کیے معدنیات کا 25% حصہ دار بنایا گیا۔ بعد میں اس معاہدے میں تبدیلی کی گئی جس کے تحت بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جگہ حکومت بلوچستان نے لے لی جبکہ BHPکی جگہ TCC نے لے لی مگر شراکت داری کی شرائط وہی رہیں۔

TCC آسٹریلیا کی ایک کمپنی ہے جس میں دو کمپنیوں کے برابر کے شئیر ہیں جن میں سے ایک کمپنی یو کے میں رجسٹرڈ ہے جس کا صدر دفتر چلی میں ہے جبکہ دوسری کینیڈا میں ہے جو سونا نکالنے کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ کمپنی نے معاہدے کے مطابق کام شروع کر دیا مگر اسی دوران 2009ء میں بلوچستان نے چین کی ایک کمپنی کو بھی دعوت دی کہ وہ اپنی پروپوزل دے اور ہمارے ثمر مبارک مند نے بھی ایک پی سی ون بنا دیا کہ ہم یہ کام خود ہی کر لیں گے۔ موصوف کے پراجیکٹ کو ’’بلوچستان کاپر گولڈ پراجیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا اور اسے منظور کر کے آٹھ ارب روپے مختص کر دیے گئے۔

15 فروری 2011 کو TCC نے حکومت کو مائننگ لیز کی درخواست دی، جو مسترد کر دی گئی۔ کمپنی نے اس کے خلاف اتھارٹی کو اپیل کی وہ بھی خارج کر دی گئی۔ کمپنی کی درخواست کو جیسے نمٹایا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متعلقہ افسر نے جو پہلا اعتراض اٹھایا وہ یہ تھا کہ کمپنی تو کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں، یہ اس سلوک کی ہلکی سی جھلک ہے جو ہم نے اس کمپنی کے ساتھ کیا۔

ریکوڈک سے 13 ملین اونس سونے کے ذخائر ملنے کی امید تھی مگر یہ ذخائر کہیں دفن نہیں تھے، اس کے لئے کمپنی کو پورے علاقے میں انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنا تھا جو وہاں مفقود تھا، ایک ایسی جگہ جہاں صرف ریت ہو وہاں سے یہ سونا 56 برس میں کئی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد نکلنا تھا۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا، کمپنی نے جو فیزبیلٹی اسٹڈی جمع کروائی اس کے مطابق ہر قسم کے منافع، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو پورے منصوبے کے دوران distributable cash flow کا 50% ملنا تھا مگر ہمیں اس میں بھی سازش کی بو آئی لہٰذا کمپنی کے معاہدے کو ہم نے غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا۔ کمپنی نے آسٹریلیا پاکستان سرمایہ کاری معاہدے کے تحت عالمی بینک کے ثالثی ادارے سے رجوع کیا، اس ادارے نے پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ اب ہمیں آرام ہے۔

ثالثی ادارے کا یہ جرمانہ کسی ایک فرد یا ادارے کا قصور نہیں، یہ پوری قوم کی سوچ کے خلاف چارج شیٹ ہے، ہم آئے دن ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کرتا، ثالثی ادارے کا فیصلہ ہمارے اس سوال کا جواب ہے۔ گزشتہ ستّر برس میں ہم نے کئی ایڈونچر کیے، بے شمار حماقتیں کیں، عجیب و غریب بیانیے تشکیل دیے، ان تمام باتوں کی قیمت ہم کسی نہ کسی شکل میں چکاتے رہے مگر ہمیں احساس نہیں ہوا کیونکہ ہماری ان حرکتوں پر کسی بین الاقوامی ادارے نے عالمی معیارات کے مطابق جرمانے عائد نہیں کیے۔

مثلاً ہم آج تک ایوب خان کے دور کو سنہری کہتے ہیں حالانکہ اگر کوئی عالمی ایجنسی اس دور کا cost-benefit analysis کرے تو ہمیں پتا چلے کہ ہم نے اس کے نتیجے میں کیا گنوایا، اسی طرح 1977 یا 1999 کے مارشل لا کو اگر عالمی عدالت انصاف میں پرکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ قوم کو یہ کتنے ارب ڈالر اور کتنی دہائیاں پیچھے لے گئے۔ ہم نے اعلیٰ ترین سطح پر جو فیصلے کیے اور جن کی کبھی باز پرس نہیں ہوئی، ان کا خمیازہ قوم نے تنزلی کی شکل میں بھگتا مگر چونکہ کسی تھرڈ پارٹی نے ہمیں یوں جرمانہ عائد کرکے احساس نہیں دلایا اس لئے ہم اپنی ناکامی کی وجہ پاپولر بیانیے کے تحت کرپشن اور عالمی سازشوں کو قرار دیتے رہے۔

سو، اس ملک میں اگر ہم نے سازشی اور مقبول بیانیہ بغیر سوچے سمجھے اپنانا ہے، اگر ہماری jurisprudenceبھی اسی پر چلنی ہے، ہمارے انتظامی فیصلے بھی حقائق کے برخلاف ہونا ہیں اور آئین میں بنیادی انسانی حقوق اور مفاد عامہ سے متعلق شقوں کی تشریح ایسے ہونا ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا تو پھر ہمیں اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے، اس قسم کے ایڈونچرکی قیمت چھ ارب ڈالر ہے۔ اگر ہم یہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں تو بسم اللہ پوری دنیا کو بیوقوف اور خود کو عقل مند سمجھتے رہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
کمپنی کے ساتھ ڈیل کر لیں۔ بات ختم! اور ایسی کمپنیاں عام طور پر سخت شرائط پر ہی سہی، ڈیل کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ کمپنی سے بیک ڈور بات چیت چل رہی ہو گی۔ کوئی نہ کوئی معاملہ کر لیں تو اچھا ہے اور اس واقعہ سے سبق سیکھیں۔ سرمایہ کاروں کو بھگائیں مت! ریاست ایسا کرتی ہے تو اس کے اسی طرح کے ہی نتائج نکلتے ہیں۔ مسئلہ ریکوڈک سے زیادہ بڑا ہے اور یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کا ہے۔ جب ہم یوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دھوکے دیں گے تو پھر یہاں کون آئے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
ان کی کل معلومات یہ تھیں کہ مٹی کھودنے کے لیے ”کوئی“ مشین ہوتی ہے لہٰذا انہوں نے کھدائی کرنے والی عام سی مشین خریدی ’اسے کوئٹہ پہنچایا اور بھاگ نکلے۔ جو لوگ معدنیات سے ذرا سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ وہ اس مشین کو دیکھ کر ہنستے چلے جاتے۔ آخر کار یہ مشین کوئٹہ کی میونسپل کارپوریشن کو دے دی گئی۔ کاریگروں کا یہ گروپ سندھ حکومت کو تھر سے کوئلہ نکالنے کے چکر میں بھی مبینہ طور پر ایک ارب روپے کا چونا لگا چکا ہے۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
Top