سلیکٹڈ کی بات وہ کر رہے ہیں جنہوں نےامریکا کو این آر او کیلئے کہا، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
سلیکٹڈ کی بات وہ کر رہے ہیں جنہوں نےامریکا کو این آر او کیلئے کہا، وزیراعظم
ویب ڈیسک 42 منٹ پہلے
1723755-imrankhan-1561809275-433-640x480.jpg

جن پر عوام کا پیساچوری کرنے کاالزام ہے وہ اسمبلی میں کیسے تقریر کرسکتے ہیں؟ عمران خان، فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سلیکٹڈ کی بات وہ کر رہے ہیں جنہوں نےامریکا کو این آر او کیلئے کہا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ شہبازشریف نے دکھ بھری تقریر کی اور الزام ہمارے اوپر ڈال دیا، شہباز شریف نے کہا روپیہ گر گیا ہے وہ یہ بھی بتا دیتے کہ قیمتیں کیوں گریں؟ روپے کی قیمت گرنے کی وجوہات بھی بتا دیتے۔

عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ جس کو مجرم کہے وہ پارٹی کا سربراہ کیسےبن سکتا ہے وہ جن پر عوام کے پیسے چوری کرنے کا الزام ہے وہ اسمبلی میں تقریر کیسے کرسکتے ہیں، اسپیکر صاحب آپ نے بھی انہیں بات کرنے کی اجازت دے دی۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہاں کے پاکستانیوں کا 10 ارب ڈالر باہر پڑا ہوا ہے، یہاں سے پیسا باہر لے جانے کے ذمےدارتو یہ لوگ ہیں جب کہ یہ لوگ تاریخی خسارہ چھوڑ کرگئے اور ہم سنبھال رہے ہیں تو اس پر سوال کررہےہیں؟

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اور لعنت منی لانڈرنگ ہے، منی لانڈرنگ پر پورا کریک ڈاؤن کریں گے اور کوشش ہے نچلے طبقے پر کم سے کم بوجھ پڑے، 70 فیصد بجلی صارفین کے لئے 270 ارب کی سبسڈی رکھی ہے جب کہ کسانوں کے لیے ایک جامع پیکیج لے کر آ رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور جو پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے۔۔ حملہ کرے وہ تنخواہ لے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟ معصومانہ سوال
عمران خان کو نامزد کہلوانے پر اعتراض کیوں ہے؟
30/06/2019 سید مجاہد علی



تحریک انصاف کی جس ایک پیج حکومت کی سربراہی عمران خان کررہے ہیں اس کے ہوتے تو انہیں ’نامزد ‘ کہلوانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن وزیر اعظم کو اس لفظ کے کچھ ایسے معانی سمجھا دیے گئے ہیں کہ بجٹ سیشن کو سمیٹتے ہوئے قائد ایوان کے طور پر تقریر میں بھی وہ اس معاملہ پر تفصیل سے بات کرنا نہیں بھولے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جو لوگ انہیں ’نامزد وزیراعظم ‘ کہتے ہیں ، وہ خود فوج کی نرسری میں پلے بڑھے ہیں۔ عمران خان کی یہ بات سو فیصد درست ہونے کے باوجود ، کیا اس بات کا جواز بن جاتی ہے کہ اب خود انہیں یا کسی دوسرے کو بھی وہی طاقتیں سیاست میں لے کر آئیں جو نواز شریف یا بھٹو خاندان کے لئے سیاسی میدان ہموار کرنے کا سبب بنی تھیں؟

بظاہر اس ملک پر ایک آئین کی فرماں روائی ہے۔ اسی آئین کے تحت منتخب ہونے والی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والے شخص کو قائد ایوان اور ملک کا وزیر اعظم بننے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ دیانت کی ضمانت دینے والے عمران خان، کیا صدق دل سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کی سیاسی کامیابی اور وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہونے کی اصل وجہ ایوان میں ان کی اکثریت ہی ہے۔ آئین کی شقات 62 اور 63 کے تحت ’صادق و امین‘ کہلواتے ہوئے کیا عمران خان یہ حلف لے سکتے ہیں کہ بیس بائیس سال تک سیاست میں ایڑیاں رگڑنے کے بعد جب انہیں کامیابی کی کوئی امید دکھائی نہیں دی تو انہوں نے بھی آزمودہ راستہ اختیار کیا۔

’محکمہ زراعت‘ نے گزشتہ برس ہونے والے انتخابات سے پہلے الیکٹ ایبلز کو جوق در جوق تحریک انصاف کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔ ان میں دیگر لوگوں کے علاوہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ہمارے عہد کے سب سے بڑے دیانت دار اور ’سیاست کے وسیم اکرم‘ عثمان بزدار بھی شامل ہیں۔ وہ انتخابات سے چند ہفتے پہلے تک مسلم لیگ (ن) کے رکن تھے اور اب عمران خان کی آنکھ کا تارا اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حکمران ہیں۔ مخالفین سے قطع نظر تحریک انصاف کے اکثر ارکان کو عثمان بزدار کی کسی ایسی خوبی کا علم نہیں ہوسکا جو عمران خان کی عقابی نگاہوں نے بھانپ رکھی ہے۔ گویا انہیں بھی نامزد کیا گیا ہے۔

یوں توایوان میں منتخب ہونے سے پہلے ہر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نامزد ہی کیا جاتا ہے۔ پھر اس کا تائید کنندہ سامنے آتا ہے ۔ اس کے بعد ایوان سے رائے لی جاتی۔ مختلف نامزدگیوں میں جو ’نامزد شدہ‘ زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے ، وہی وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ عمران خان بھی اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گویا منتخب ہونے سے پہلے وہ نامزد ہی ہوئے تھے۔ پھر اس لفظ میں ایسی کیا برائی ہے کہ ہر بدلتے موسم کے ساتھ رنگ بدلنے والے تحریک انصاف کے وزیر توانائی عمر ایوب خان کی طرف سے عجلت میں پیش کی گئی ایک تجویز پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے سیلیکٹڈ یا نامزد کو غیر پارلیمانی لفظ قرار دیتے ہوئے ارکان اسمبلی کے لئے اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی۔

سب جانتے تھے کہ منتخب ارکان کی حرمت کے نام پر قومی اسمبلی کے ضابطہ کے برعکس دی گئی اس رولنگ کا محرک کیا تھا اور یہ لفظ کس کے لئے استعمال کرنا ناگوار سمجھا جارہا تھا۔ تاہم عمران خان نےگزشتہ شب ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کم فہموں کے لئے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ یہ لفظ ان کے بارے میں استعمال کرنے پر ہی عمر ایوب متحرک ہوئے تھے اور ڈپٹی اسپیکر نے فوری رولنگ دینا ضروری سمجھا تھا۔ یہ وضاحت شاید اس لئے بھی ضروری تھی کہ عمران خان کی طرح بہت سے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جنہیں اس لفظ کی حکمت اور ’مخفی معانی‘ سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہو۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو گزشتہ اگست میں قائد ایوان منتخب ہونے پر عمران خان کو مبارک باد دیتے ہوئے یہ لفظ استعمال کیا تھا لیکن تحریک انصاف کو اس کی تہ تک پہنچنے میں دس ماہ لگ گئے۔

اس لئے یہ ممکن ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے باوجود ملک میں بعض ایسے لوگ باقی رہ گئے ہوں جنہیں یہ خبر نہ ہوسکی ہو کہ اپوزیشن دراصل ان کے وزیر اعظم کو نامزد کہتی ہے جسے اب کم از کم ایوان میں ناقابل قبول طریقہ اظہار قرار دیا جاچکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے بجٹ کی منظوری پر شکر ادا کرنے، مہنگائی کے ستائے عوام کو تشفی دینے اور کوئی سہانے سیاسی خواب دکھانے کی بجائے، یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ اگر بھٹو اور شریف خاندان فوجی نرسری سے سیاست میں آسکتے ہیں تو ان پر نامزدگی کی تہمت وہ کس منہ سے لگاتے ہیں۔ وجہ اس بیان کی یہ ٹھہری کہ ہر کس و ناکس کو خبر ہو کہ ان کا وزیر اعظم کسی ایسے کام کو الزام نہیں، اعزاز سمجھتا ہے جو اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔

اس حد تک تو معاملہ واضح ہوگیا۔ عمران خان نے سب کو کھول کر بتا دیا کہ انہیں ہی نامزد کہہ کر چڑایا جاتا ہے اور وہ بھی بخوبی اس بات کو سمجھ چکے ہیں ۔ اس لئے وہ اپنے سے پہلے نامزد رہنے والے ’چور اچکوں‘ سے خوفزدہ نہیں ہوں گے کیوں کہ کپتان تو بہادری کی علامت ہے۔ اگر نامزدگی قبول کی ہے تو اس پر گھبرانے کی کیا بات ہے۔ آخر جب کپتان اپنی باری کے لئے ایڑیاں رگڑ رہا تھا تو ان پر حرف زنی کرنے والے یہی بھٹو اور شریف نامزد ہوتے تھے۔ اب وہ کس منہ سے انہیں نامزد کہہ کر ’چھیڑتے‘ ہیں۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ آپ برا ہی کیوں مناتے ہیں۔ آپ ہنس کر بات کو ٹال دیں تو چڑانے والے خود اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بہت حد تک المناک اور خوفناک ہے۔ خدا نہ کرے کہ عمران خان کو اس انجام سے دوچار ہونا پڑے۔

بلاول بھٹو کو نامزد وزیر اعظم کی پھبتی کسنے کے لئے اپنے نانا، ماں اور ماموں کی لاشوں سے گزرنا پڑا ہے اور باپ کو ایک دہائی سے زیادہ قید دیکھنا پڑا ہے۔ شریفوں کو 8 سال جلاوطنی کے علاوہ اب قید وبند کی مشکلات اور درجنوں مقدمات کا سامنا ہے۔ عمران خان اگر یہ سمجھ سکیں تو ان کے لئے راستہ آسان ہو سکتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ نامزد کرنے والوں کو اپنی ہی نرسری میں پلنے بڑھنے والے پرانے کھلاڑیوں کی بجائے نئے سواروں پر بازی لگانا پڑی ہے؟ اگر کل کے نامزد آج معتوب ہیں تو آج کے محبوب کو نگاہوں سے گرنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ کیا اس معاملہ کی یہ ستم ظریفی کم ہے کہ نامزد کہنے اور کہا جانے والا دونوں ہی ایک دوسرے کی گردن تو ماپ رہے ہیں لیکن اس کا نام نہیں لیتے جس کی نامزد گی کسی کو ناگوار گزرتی ہے اور کسی کو نامزد ہونے کے بعد نامزد کہلوانا پسند نہیں ہے کیوں کہ اس سے اس کی بے اختیاری کا تاثر ملتا ہے۔

عمران خان اگر یہ سمجھ سکیں کہ بے اختیار ہونا، بے اختیار کہلوانے سے زیادہ شرمناک ہے تو شاید وہ اپوزیشن کی طعن زنی سے لطف اندوز ہونا شروع کردیں۔ جناب وزیر اعظم اگر سمجھ سکیں کہ سابقہ ’نامزدگان‘ کو گالیاں دینے اور دھمکانے کے سوا کون سا ایسا اختیار ہے جو اس ملک کے سب سے بااختیار عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہیں حاصل ہوسکا ہے۔ وہ تو اپنی کابینہ بھی خود چننے کے اہل نہیں ہیں ۔ جب ان کی آنکھ کا تارا اور ہونہار ساتھی اسد عمر ایک خاص چوکھٹے میں فٹ نہ رہ سکا تو اسے خود عمران خان کے ہاتھوں مکھن میں سے بال کی طرح نکلوا دیا گیا ۔ کیا عمران خان نے کبھی بتایا کہ اسد عمر کو نکالنے اور حفیظ شیخ کو گلے لگانے کی کیا وجہ تھی؟ کیا ہمارے منہ پھٹ وزیر اعظم نے کبھی پرویز مشرف کی اس بات کا جواب دیا کہ عمران کی کابینہ تو انہیں کے ساتھیوں پر مشمل ہے۔

جو حکومت بجٹ منظور کروانے کے لئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سیمینار کی محتاج ہو، جس کا وزیر اعظم دفاعی بجٹ کے سوال پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہتا ہو اور جس کی کابینہ کا ہر رکن ایک پیج کی کہانی سنا کر اپنے وقار میں اضافہ کرتا ہو، اسے نامزدگی پر کیوں اعتراض ہے۔ جناب وزیر اعظم یا تو نامزدگی کے اس اعزاز کو قبول کیجئے جو آپ نے بصد کوشش اور برضا و خوشی قبول کیا ہے یا ان عوامل کو تبدیل کرنے کے لئے کام کیجئے جو اس ملک کے ہر سیاست دان کو نامزدگی کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔

عمران خان کو اگر ان عوامل کا ادراک ہوجائے تو وہ ایک پیج پر ہونے کو کامیابی سمجھنے کی بجائے یہ سچ جان سکیں گے کہ وہ تب ہی عوام کے نمائندے بن سکیں گے جب پارلیمنٹ انہیں قائد چننے سے پہلے اشاروں کی منتظر نہیں رہے گی۔
 
Top