آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019

فرقان احمد

محفلین
1992 یا 2019: مماثلتوں سے باہر نکلیں
201694_2895520_updates.jpg

کرکٹ ایک کھیل ہے نجومیوں کی مشاہدہ گاہ نہیں جہاں صرف مشاہدات کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو 1992 میں تھے۔ فوٹو: بشکریہ اے ایف پی
کرکٹ ورلڈکپ 2019 میں پاکستان کا مایوس کن آغاز ہوا جس کے بعد ٹیم کی نپی تلی کارکردگی کے بعد شائقین ٹیم کی جیت کے لیے اس آس پر خوش ہیں کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، یہی نہیں خوش فہم تو یقین کر بیٹھے ہیں کہ ورلڈکپ 2019 کا نتیجہ بھی وہی ہوگا جو 27 سال قبل عمران خان کی قیادت میں ہوا تھا۔

یہ درست ہے کہ رواں ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کے نتائج کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے ایسا ہی 27 سال قبل ایونٹ میں بھی ہوا تھا، لیکن کرکٹ ایک کھیل ہے نجومیوں کی مشاہدہ گاہ نہیں جہاں صرف مشاہدات کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو 1992 میں تھے۔

1992 کے ورلڈکپ اور 2019 کے ورلڈکپ میں مماثلت تلاش کرنے والے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ 92 کے ورلڈکپ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ بدھ کے روز کھیلا گیا اور دونوں ٹیمیں 27 سال بعد ایک مرتبہ پھر مدمقابل ہیں، 92 کے ورلڈکپ میں وسیم اکرم گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے اور آج وہ گراؤنڈ میں کمنٹری کر رہے ہیں، یہی نہیں یہاں تک کہا جارہا ہے کہ 1992 کے ورلڈکپ میں عمران خان ٹیم کے قیادت کر رہے تھے اور آج ملک کی قیادت کر رہے ہیں۔

ٹیم کی کامیابی کے لیے مماثلت تلاش کرنا یا دعائیں کروانا قومی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر نہیں کرسکتا اس کے لیے کھلاڑیوں کو خود محنت کرنا ہوگی، ٹیم کے لیے دعائیں کرنا اچھی بات ہے لیکن جیت کے لیے کارکردگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔

کھلاڑی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال نہیں کریں گے، کھلاڑیوں کا انتخاب کنڈیشن کے مطابق نہیں ہوگا اور کھلاڑیوں کو اعتماد نہیں دیں گے تو مماثلت تلاش کرتے رہیں لیکن ٹیم جیت نہیں سکے گی۔

ٹیم کی فتح کے لیے ٹیم کو جرات مندانہ انداز میں مخالف ٹیم کے مدمقابل اتارنا ہوگا، بے جا تنقید، کھلاڑیوں کی غیر ضروری ڈانٹ ڈپٹ، شکست کا خوف یہ تمام عوامل ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ورلڈکپ 2019 اور 1992 سے جڑی چند مماثلتیں:

27 سال قبل بھی پاکستان نے ویسٹ انڈیز کیخلاف شکست کے ساتھ ٹورنامنٹ کا آغاز کیا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

1992 میں گرین شرٹس نے ایونٹ کا دوسرا میچ جیتا اور تیسرا میچ بارش کی نظر ہوا اور 27 سال بعد بھی ایسا ہی ہوا۔

پاکستان ٹیم نے 27 سال قبل جب اپنا چھٹا میچ جیتا تو مین آف دی میچ لیفٹ آرم بیٹسمین عامر سہیل تھے، اس بار جب قومی ٹیم نے چھٹے میچ میں جنوبی افریقا کو شکست دی تو مین آف دی میچ لیفٹ آرم بیٹسمین حارث سہیل تھے، دونوں کے نام میں سہیل کی مماثلت ہے۔
ہم خواہ مخواہ ہی مماثلت سے نکل جائیں جب کہ تب بھی گراؤنڈ میں دو ایمپائر ہوا کرتے تھے۔ دس کھلاڑی فیلڈنگ کرتے تھے؛ ایک باؤلنگ کرواتا تھا۔ تب بھی دو بلے باز کھلاڑی میدان میں اُترتے تھے۔ تب بھی اوور چھ بالز کا ہوتا تھا، اور تو اور میچ بھی پچاس اوورز پر مشتمل ہوتا تھا۔
 
ہم خواہ مخواہ ہی مماثلت سے نکل جائیں جب کہ تب بھی گراؤنڈ میں دو ایمپائر ہوا کرتے تھے۔ دس کھلاڑی فیلڈنگ کرتے تھے؛ ایک باؤلنگ کرواتا تھا۔ تب بھی دو بلے باز کھلاڑی میدان میں اُترتے تھے۔ تب بھی اوور چھ بالز کا ہوتا تھا، اور تو اور میچ بھی پچاس اوورز پر مشتمل ہوتا تھا۔

اسکے آگے یہی بچتا ہے۔
92 میں آسٹریلیا بھی انگلینڈ تھا اور ایم سی جی، لارڈز تھا
 

فرقان احمد

محفلین
اسکے آگے یہی بچتا ہے۔
92 میں آسٹریلیا بھی انگلینڈ تھا اور ایم سی جی، لارڈز تھا
اس وقت جو کمنٹری باکس میں دو ہستیاں تبصرے فرما رہی ہیں، یہ بھی اتفاق سے 1992ء کے ورلڈ کپ میچ میں بطور کھلاڑی موجود رہیں ۔۔۔! یعنی کہ رمیز راجا اور نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر آئن سمتھ ۔۔۔!
 

سید ذیشان

محفلین
اس وقت جو کمنٹری باکس میں دو ہستیاں تبصرے فرما رہی ہیں، یہ بھی اتفاق سے 1992ء کے ورلڈ کپ میچ میں بطور کھلاڑی موجود رہیں ۔۔۔! یعنی کہ رمیز راجا اور نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر آئن سمتھ ۔۔۔!
19 کو الٹا لکھیں اور 1 جمع کریں تو 92 بنتا ہے۔ :D
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت جو کمنٹری باکس میں دو ہستیاں تبصرے فرما رہی ہیں، یہ بھی اتفاق سے 1992ء کے ورلڈ کپ میچ میں بطور کھلاڑی موجود رہیں ۔۔۔! یعنی کہ رمیز راجا اور نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر آئن سمتھ ۔۔۔!
ویسے میں اسٹار اسپورٹس پر ہندی کمنٹری کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ پاکستانی میچز انگریزی کمنٹری کے ساتھ کم از کم مجھے برداشت نہیں :)
 
It was 39 for 3 in 1992...
کرک انفو
:p
1992 یا 2019: مماثلتوں سے باہر نکلیں
201694_2895520_updates.jpg

کرکٹ ایک کھیل ہے نجومیوں کی مشاہدہ گاہ نہیں جہاں صرف مشاہدات کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو 1992 میں تھے۔ فوٹو: بشکریہ اے ایف پی

کرکٹ ورلڈکپ 2019 میں پاکستان کا مایوس کن آغاز ہوا جس کے بعد ٹیم کی نپی تلی کارکردگی کے بعد شائقین ٹیم کی جیت کے لیے اس آس پر خوش ہیں کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، یہی نہیں خوش فہم تو یقین کر بیٹھے ہیں کہ ورلڈکپ 2019 کا نتیجہ بھی وہی ہوگا جو 27 سال قبل عمران خان کی قیادت میں ہوا تھا۔


یہ درست ہے کہ رواں ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کے نتائج کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے ایسا ہی 27 سال قبل ایونٹ میں بھی ہوا تھا، لیکن کرکٹ ایک کھیل ہے نجومیوں کی مشاہدہ گاہ نہیں جہاں صرف مشاہدات کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو 1992 میں تھے۔

1992 کے ورلڈکپ اور 2019 کے ورلڈکپ میں مماثلت تلاش کرنے والے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ 92 کے ورلڈکپ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ بدھ کے روز کھیلا گیا اور دونوں ٹیمیں 27 سال بعد ایک مرتبہ پھر مدمقابل ہیں، 92 کے ورلڈکپ میں وسیم اکرم گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے اور آج وہ گراؤنڈ میں کمنٹری کر رہے ہیں، یہی نہیں یہاں تک کہا جارہا ہے کہ 1992 کے ورلڈکپ میں عمران خان ٹیم کے قیادت کر رہے تھے اور آج ملک کی قیادت کر رہے ہیں۔

ٹیم کی کامیابی کے لیے مماثلت تلاش کرنا یا دعائیں کروانا قومی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر نہیں کرسکتا اس کے لیے کھلاڑیوں کو خود محنت کرنا ہوگی، ٹیم کے لیے دعائیں کرنا اچھی بات ہے لیکن جیت کے لیے کارکردگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔

کھلاڑی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال نہیں کریں گے، کھلاڑیوں کا انتخاب کنڈیشن کے مطابق نہیں ہوگا اور کھلاڑیوں کو اعتماد نہیں دیں گے تو مماثلت تلاش کرتے رہیں لیکن ٹیم جیت نہیں سکے گی۔

ٹیم کی فتح کے لیے ٹیم کو جرات مندانہ انداز میں مخالف ٹیم کے مدمقابل اتارنا ہوگا، بے جا تنقید، کھلاڑیوں کی غیر ضروری ڈانٹ ڈپٹ، شکست کا خوف یہ تمام عوامل ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ورلڈکپ 2019 اور 1992 سے جڑی چند مماثلتیں:

27 سال قبل بھی پاکستان نے ویسٹ انڈیز کیخلاف شکست کے ساتھ ٹورنامنٹ کا آغاز کیا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

1992 میں گرین شرٹس نے ایونٹ کا دوسرا میچ جیتا اور تیسرا میچ بارش کی نظر ہوا اور 27 سال بعد بھی ایسا ہی ہوا۔

پاکستان ٹیم نے 27 سال قبل جب اپنا چھٹا میچ جیتا تو مین آف دی میچ لیفٹ آرم بیٹسمین عامر سہیل تھے، اس بار جب قومی ٹیم نے چھٹے میچ میں جنوبی افریقا کو شکست دی تو مین آف دی میچ لیفٹ آرم بیٹسمین حارث سہیل تھے، دونوں کے نام میں سہیل کی مماثلت ہے۔

آئی سی سی بھی 92 کا شکار ہوا پڑا ہے۔ :)

54.jpg
 
Top