سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف نے کہا کہ زندگی میں اتنا جھوٹا وزیراعظم نہیں دیکھا جس کے 10 ماہ کے ظالمانہ اقدامات نے عادم آدمی کی زندگی جہنم بنا دی، عام آدمی سے مل کر حکومت کو غریب دشمن بجٹ واپس لینے پر مجبور کریں گے۔
10 ماہ کے اندر اندر تمام بڑے قومی چور پکڑ کر اندر کر دئے ہیں۔ چیخیں تو نکلیں گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے صد شہباز شریف، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ منظور نہ ہونے دینے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کے نمائندوں نے بنایا ہے جو عوام اور ملک دشمن ہے۔
Beggars can't be choosers
 

جاسم محمد

محفلین
تھوک کر چاٹنے والے
17/06/2019 حامد میر

پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے بہت اچھا ہو رہا ہے۔ یہ مت سمجھیے گا کہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خوف کی فضا پر بہت خوش ہوں۔ کل سیالکوٹ میں شادی کی ایک تقریب کے دوران ایک بڑے صنعتکار نے مجھے پوچھا کہ چند سال پہلے پاکستان میں روزانہ بم دھماکے ہوتے تھے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی لیکن اتنی مہنگائی نہ تھی جتنی آج ہے، اسٹاک مارکیٹ میں اتنی بے یقینی نہیں تھی جتنی آج ہے، میڈیا اتنا خوفزدہ نظر نہیں آتا تھا جتنا آج ہے پھر وزیراعظم عمران خان نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ملک میں استحکام آگیا ہے؟

اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ایک اور صنعتکار نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ وزیراعظم کے دعوے کے اندر آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔ وزیراعظم نے چند دن پہلے رات کے پچھلے پہر اپنے ایک مشہور زمانہ خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں استحکام آگیا ہے اور اب میں پاکستان کو لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اُن صاحب نے کہا آپ اس تقریب میں اپنے اردگرد موجود دس افراد سے باری باری پوچھ لیجیے کہ کیا وزیراعظم نے جو کچھ بھی کہا سچ کہا؟

اطمینان نہ ہو تو پھر بیس افراد سے پوچھ لیں۔ پھر بھی تسلی نہ ہو تو سو لوگوں سے پوچھ لیں۔ دل گھبرانا بند نہ کرے تو شادی کی اس تقریب سے نکلئے اور کسی چوک چوراہے پر جا کر لوگوں کو روک روک کر پوچھیں کہ بھائی صاحب کیا پاکستان میں استحکام آگیا ہے؟ کیا عمران خان جو کر رہا ہے وہ ٹھیک کر رہا ہے؟ ابھی اُنکے الفاظ زبان پر باقی تھے کہ اردگرد موجود افراد نے خوشی کی اس تقریب میں اپنے چہروں پر رقت طاری کر کے انتہائی درد ناک انداز میں کہنا شروع کر دیا۔

نہیں نہیں کوئی استحکام نہیں آیا، سب جھوٹ ہے۔ ایک صاحب نے ماتمی لہجے میں کہا ہم تو کہیں کے نہ رہے، لٹ گئے، برباد ہو گئے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں، کدھر جاؤں؟ پھر انہوں نے اپنے نوجوان برخوردار کو آواز دی۔ جون کی گرمی میں سوٹ ٹائی پہنے ایک خوبصورت نوجوان گود میں دو سال کی پیاری سی بچی اٹھائے والد صاحب کے سامنے حاضر ہو گیا۔ بچی نے دادا کو دیکھا تو باپ کی گود سے چھلانگ مار کر دادا کے کندھے سے جا لگی۔

مضطرب اور پریشان دادا کے چہرے پر کچھ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انہوں نے قدرے اطمینان سے اپنے بیٹے کو کہا ”ذرا میر صاحب کو بتاؤ کہ پچھلے سال کے عام انتخابات میں آپ نے کس کو ووٹ دیا تھا؟ “ بیٹے نے جھکی جھکی نظروں کے ساتھ کہا کہ میں نے اور امی جان نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا، ابو نے مسلم لیگ(ن) کو ووٹ دیا تھا۔ ابو نے پوتی کا گال چومتے ہوئے برخوردار سے کہا کہ اب ذرا یہ بھی بتاؤ کہ کیا پاکستان میں استحکام آگیا ہے؟ کیا عمران خان جو کر رہا ہے وہ ٹھیک کر رہا ہے؟

بیٹے نے اپنی پیشانی سے پسینے کے قطروں کو رومال سے پونچھا اور انگریزی لہجے میں اردو بولتے ہوئے کہا کہ میں نے عمران خان کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ اس نے ”اسٹیٹس کو“ توڑنے کا وعدہ کیا تھا، وہ ہمیں نیا پاکستان دینے کی بات کر رہا تھا۔ اُس نے ہمیں جو خواب دکھائے وہ خود ہی توڑ دیے اُس نے جو وعدے کیے وہ خود ہی توڑ دیے۔ نوجوان نے کہا کہ 2011 ءمیں وہ برطانیہ میں پڑھتا تھا اور والد کہہ رہے تھے کہ وہیں بزنس شروع کر دو پاکستان واپس نہ آؤ لیکن میں اکتوبر 2011 ءمیں مینارِ پاکستان لاہور کے سائے میں عمران خان کی تقریر سے متاثر ہو کر پاکستان واپس آ گیا۔

اُس زمانے میں خان صاحب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈاکو اور زرداری کو سب سے بڑی بیماری قرار دیتے تھے۔ 2014 ءمیں عمران خان نے اسلام آباد میں نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنا دیا تو میں اپنے دوستوں کے ساتھ کئی دن تک اس دھرنے میں شریک رہا۔ 2018 ءمیں ہم نے بڑی بے لوثی کے ساتھ تحریک انصاف کو صرف ووٹ ہی نہیں دیا بلکہ انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا لیکن پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب عمران خان نے پرویز الٰہی کو اسپیکر پنجاب اسمبلی بنا دیا۔

پھر جھٹکے پر جھٹکا لگتا رہا اور سب سے بڑی بیماری آصف علی زرداری کا وزیر خزانہ حفیظ شیخ ”اسٹیٹس کو“ توڑنے کے دعویدار عمران خان کا مشیر خزانہ بن گیا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ اب عمران خان معیشت کو سنبھالنے پر توجہ دے گا لیکن جس دن بجٹ آنا تھا اُس دن ہمیں اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کی خبریں مل رہی تھیں۔ زرداری تو پہلے بھی کئی سال جیل کاٹ چکا ہے اُس سے پرویز مشرف ایک روپیہ نہیں نکلوا سکا تو عمران خان کیا نکلوائے گا؟

ہماری حکومت اور معیشت کی حالت ہماری کرکٹ ٹیم جیسی ہو چکی ہے وزیراعظم کا کچھ پتہ نہیں کس وقت کیا تقریر کر دے، کس وقت کون سا وعدہ توڑ کر یوٹرن پر اترانے لگے۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ ہماری کرکٹ ٹیم کبھی کبھار دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں کو شکست بھی تو دے ڈالتی ہے۔ اُس نے بہت تلخ لہجے میں کہا کہ کرکٹ میں ہار جیت سے پاکستان میں استحکام نہیں آسکتا، کرکٹ ٹیم جیت جائے تو ہم بھی ناچتے ہیں لیکن ہمارے ناچنے سے ڈالر کی قیمت تو نیچے نہیں آئیگی اس لیے عمران خان کو اب کرکٹر بن کر نہیں وزیراعظم بن کر سوچنا چاہیے۔

اس نوجوان کی گفتگو سن کر میں خاموش رہا لیکن میرے اندر یہ اطمینان پیدا ہوا کہ اس وقت ہمیں پاکستان میں جو افراتفری، مہنگائی اور خوف نظر آرہا ہے اس میں بھی ایک خیر اور تعمیر کا پہلو ہے اور وہ یہ کہ بڑے بڑے لوگوں کا چھوٹا پن تیزی کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ تحریک انصاف کے وہ رہنما جنہوں نے صرف ایک سال پہلے علی جہانگیر صدیقی کی امریکا میں بطور سفیر تقرری کو مسلم لیگ(ن) کی اقربا پروری قرار دیا تھا اُسی تحریک انصاف نے علی جہانگیر صدیقی کو اپنی حکومت کا سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری بنا ڈالا ہے۔

اگر میں یہ کہوں کہ اسے کہتے ہیں تھوک کر چاٹنا تو تحریک انصاف کے حامی کہیں گے کہ کیا صرف ہم تھوک کر چاٹتے ہیں؟ جی نہیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی والے بھی تھوک کر چاٹتے ہیں۔ جس طرح عمران خان کہا کرتے تھے کہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو پرویز الٰہی ہے اسی طرح بلاول بھٹو زرداری بھی کہتے تھے کہ نواز شریف مودی کا یار ہے۔ مریم نواز اپنے جلسوں میں زرداری عمران بھائی بھائی کے نعرے لگواتی تھیں۔ اب ان دونوں کے والد صاحبان گرفتار ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے دستر خوان کو رونق بخش رہے ہیں۔

لیکن یہ دونوں جماعتیں تو ٹھہریں پرانے پاکستان کی نمائندہ ”اسٹیٹس کو“ کی طاقتیں۔ یہ اپنا تھوکا چاٹ کر نئے پاکستان کا نعرہ نہیں لگاتیں نئے پاکستان کا نعرہ تو عمران خان نے لگایا تھا۔ کیا وہ حفیظ شیخ اور علی جہانگیر صدیقی کے ساتھ مل کر نیا پاکستان بنائیں گے؟ مان لیں کہ آپ بھی وہی ہیں جو ماضی کے حکمران تھے۔

اب آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ اس ناچیز کو ملکی حالات پر کوئی پریشانی کیوں نہیں؟ بڑے بڑے سیاستدان گرفتارکیے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے مزید سیاستدانوں کو گرفتار کر لیں۔ کچھ صحافیوں کو بھی گرفتار کر لیں۔ الٹا لٹکانے اور پھانسیاں لگانے کی خواہش بھی پوری کر لی جائے۔ کرپشن اور غداری کے الزامات میں سے جو نکالنا ہے اب نکال ہی ڈالیں۔ جو نچوڑنا ہے وہ نچوڑ لیں تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ کرپشن اور غداری کے غلغے کی اصل حقیقت کیا ہے؟

آخر کب تک آپ لوگوں کو یہ کہہ کر چپ کراتے رہیں گے کہ اس ملک کی معیشت کو نواز شریف اور زرداری نے تباہ کیا؟ آخر کو لوگ بھی تو پوچھیں گے نا کہ ٹھیک ہے نواز شریف اور زرداری لٹیرے تھے لیکن آپ لٹیروں کے ساتھیوں کو حکومت میں شامل کر کے بھی معیشت کیوں نہیں سنبھال پا رہے؟ کرپشن اور غداری کے الزامات کا بیانیہ نیا نہیں بہت پرانا ہے لیکن اس دور میں یہ بیانیہ اپنے آخری سانسوں پر ہے۔ اس بیانئے سے نجات میں پاکستان کا بہت فائدہ ہے لہٰذا پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے بہت اچھا ہو رہا ہے۔ تھوک کر چاٹنے والے بے نقاب ہو رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عبرت ہی عبرت!
17/06/2019 ارشاد بھٹی

سوچوں نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، کیا جو نہ ملا۔ نام، مقام، پہچان، عزت، دولت، شہرت، بادشاہتیں، چاہتیں۔ الطاف حسین کو غریبوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا، ایک پھٹپھٹی موٹر سائیکل سے اٹھا کر لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنادیا، چاروں جانب بھائی بھائی، جواباً غربیوں، بے سہاروں کا بھائی دیکھتے ہی دیکھتے ڈان بن گیا، قتل و غارت، اغوا، بھتے، کبھی ملک توڑنے کی باتیں تو کبھی بھارت کو پاکستان پر چڑھائی کی دعوتیں، کبھی پاکستان مخالف نعرے تو کبھی فوج کو گالیاں، آج حالت یہ، دو قدم چلے سانس پھول جائے، بیماریاں، چھاپے، تفتیش، گرفتاریاں، برا حال، بانکے دیہاڑے، نواز شریف، ایک اوسط ذہن کا کاروباری، حکمت، دور اندیشی، نام و نشان نہیں مگر جنرل جیلانی، ضیاء الحق، قسمت، نصیب، مقدر، 2 بار وزیراعلیٰ، 3 بار وزیراعظم، جواباً میاں صاحب نے کیا کیا، اولادیں اچھے وقتوں کے مزے لوٹ کر عین وقت پر غیر ملکی نکلیں، جائیدادیں غیر ملک میں، 17 سال سے پاکستان میں ایک ٹیکہ لگوایا نہ یہاں کسی اسپتال میں لیٹنا پسند فرمایا، اندرون ملک حال یہ، سپریم کورٹ نا اہل کر کے کہے ”آپ نے عدلیہ، پارلیمنٹ، عوام کو بے وقوف بنایا“ بیرون ملک ڈیلی میل ’پینٹ ہاؤس بحری قزاق‘ کہہ چکا، بیٹوں سے مل کر پشن کرنے پر خود جیل میں، بیٹے مفرور، بیٹی، داماد ضمانتوں پر، سمدھی بھاگے ہوئے، اب جیل میں بیٹھ کر پیش گوئیاں فرما رہے، اس عید پر فرمایا ”میری یہ عید غریبوں کے نام“ حالانکہ اگر ضمانت مل جاتی تو یہ عید بھی لندن میں ہوتی، ضمانت نہ ملی تو عید غریبوں کے نام، بے وقوف بنانے کی عادت گئی نہ ہیرا پھیریاں گئیں۔ یاد آیا مریم نواز بھی یہ تاریخی بیان دے چکیں کہ ”اس ملک میں غریب کے لئے قانون الگ، امیر کے لئے قانون الگ“۔

کوئی مریم صاحبہ سے پوچھے، سب کے لئے، ایک قانون کس کو بنانا تھا، یہی تو آپ کو کرنا تھا، اب کیافائدہ، جب بابا جانی، پیارے چچا کی حکومتیں تھیں، تب یہ کر لیتے لیکن تب تو تخت و تاج تھا، چار سوراج تھا، تب یہ قانون شنون کسے یاد، شہباز شریف کی سنتے جائیے، چند دن پہلے لندن سے فرمایا ”غریب عوام کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے“۔ غریبوں کا یہ مسیحا کہاں تھا، لندن میں، لند ن کیا کرنے گیا، چیک اپ کروانے، 3 مرتبہ وزیراعلیٰ رہ کر ایک ایسا اسپتال نہیں، جہاں اپنا علاج ہوسکے، ایک ڈاکٹر ایسا نہیں جو غریبوں کے اس مسیحا کا علاج کر سکے، بیٹا، داماد، اہل خانہ لندن میں، علاج، چیک اپ لندن میں اور کہنا یہ ”ہائے مجھ سے غربیوں کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی“ یار یہ کتنے، پکے، سُچے، اداکار، اس اعتماد سے جھوٹ بولیں کہ سچ گھبرا جائے، کل زرداری صاحب کو لاڑکانہ، لاہور، پشاور، کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹ رہے، چوکوں پر لٹکا رہے تھے، آج زرداری صاحب، بلاول بھٹو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑ ے ہوئے، مجال ہے چہرے پر رتی بھر بھی شرمندگی ہو، جس اعتماد سے کل سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے اسی اعتماد سے آج جپھیاں ڈال رہے، کل کیا کریں گے یہ تو پتا نہیں مگر جو بھی کریں گے کمال اعتماد سے کریں گے۔

زرداری صاحب کی سن لیں، اپنی 64 ویں سالگرہ سے 46 دن پہلے 10 جون 2019 کو اسلام آباد سے گرفتار ہونے والے زرداری صاحب 28 برس 10 ماہ پہلے 10 اکتوبر 1990 بروز بدھ پہلی بار گرفتار ہوئے، 27 ماہ 6 دن کی قید کے بعد 6 فروری 1993 کو رہا ہوئے، 4 نومبر 1996 کو دوسری بار گرفتار ہوئے، 2967 دن جیل میں رہ کر 22 نومبر 2004 کو رہا ہوئے، یہ تیسری گرفتاری، پہلے دونوں با ر رہائی ڈیل، ڈھیل کا نتیجہ، 14 کیسوں میں یوں چھوٹے کبھی ثبوت غائب توکبھی گواہ، کبھی صدارتی استثناء تو کبھی ریکارڈ چوری ہوگیا، تب ہی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی اکاؤنٹس کیس کے دوران زرداری صاحب کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے کہا ”آپ کے موکل بری نہیں ہوئے، ٹیکنیکل بنیادوں پر چھوٹے“ اس بار ثبوت ہمارے منہ پر ماریں تاکہ آپ کو بے گناہی کا سرٹیفیکٹ دے سکیں ”، ثبوت کیا دینے تھے، 25 والیمز والی جے آئی ٹی منی لانڈرنگ رپورٹ کے بعد جو ہونا تھا، وہی ہوا، زرداری صاحب، فریال تالپور، انور مجید اینڈ کمپنی اندر، مراد علی شاہ سمیت جو باہر ان کے سروں پر تلواریں لٹک رہیں، اللہ تعالیٰ نے زرداری صاحب کو کس چیزسے نہ نوازا، کیا تھے، بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی، کیا ہو گئے، بی بی نہ رہیں بھٹو کی پارٹی، وراثت، ملک کی صدارت ملی، 11 سال سے سندھ کے سیاہ و سفید کے مالک، جواباً کیا کیا، بھٹو ازم ماردیا، پیپلز پارٹی کو مرحومہ مغفورہ بناچھوڑا، سندھ قبرستان بنادیا، سرے محل سے شوگر ملوں تک مبینہ طو رپر ایسی لوٹ مار کہ خدا کی پناہ۔

آج نواز شریف، زرداری صاحب اندر، الطاف حسین ضمانت پر، سب کے خاندان تتر بتر، بے بسی، بے کسی کا یہ عالم کہ بلاول بھٹو، مریم نواز کو افطاری پر بلارہے، مریم نواز، بلاول بھٹو کو جاتی امرا لنچ کرا رہیں، آسان لفظوں میں ”بھٹو، ضیاء کو افطاریاں کرا رہا، ضیا، بھٹو کو لنچ کرارہا، عبرت کا مقام، جو دیکھ سکیں، سوچ سکیں، ان کے لئے عبرت ہی عبرت، یہ تو جو بویا، وہی کاٹ رہے، اب باری عمران خان کی، گوکہ 22 سالہ اپوزیشن کے بعد اقتدار میں آئے تو تیاری، ٹیم، وژن نہ سمت، 10 مہینوں کی کارکردگی صفر، غریب رل گیا، انڈسٹری سے زراعت تک، سب کچھ کھوہ کھاتے میں، گوکہ 22 سالوں میں جو جو کہا، 10 مہینوں میں اپنی ایک ایک بات سے پھرگئے، قدم قدم پر یوٹرن، ہر وہ کام کر لیا، جو نہ کرنے کی قسمیں کھائیں، گوکہ 10 مہینوں میں ستیاناس کا سوا ستیاناس کردیا مگر ابھی 10 ماہ ہی ہوئے، فرسٹریشن ضرور مگر مایوسی نہیں، نا امیدی نہیں لیکن قائد انقلاب سے گزار ش یہی، کبھی چند لمحے نکال کر یہ ضرور سوچیں، آپ سے زیادہ طاقتور، عقل مند، ہوشیار، سیاسی طور پر مضبوط، نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین کا یہ حال کیوں ہوا، انہوں نے کیا غلطیاں کیں اور کیا آپ وہی غلطیاں تو نہیں کررہے، قائد انقلاب سے یہ بھی کہنا، وقت تیزی سے گزرہا، یہ وقت کسی کاہوا نہ آپ کا ہوگا، وقت ایک سا بھی نہیں رہتا، لہٰذا اس سے پہلے وقت نہ رہے، وہ کریں جو کرنے آئے تھے اور ہاں حکومت وہی کامیاب جس کا حکمران ذہین، یا حکمران کی ٹیم ذہین، یہ کبھی نہیں ہوا کہ دونوں نہلے اور حکومت کامیاب، کیا کہنا چارہ رہا، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ن لیگ اور پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر متفق
حسنات ملک منگل 18 جون 2019
1708765-sadiqsanjrani-1560807613-263-640x480.jpg

عدم اعتماد کیلیے ایوان کے57 ارکان کی حمایت درکار،اپوزیشن جماعتیں آسانی سے عددی اکثریت ثابت کرسکتی ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ن لیگ اور پیپلزپارٹی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلیے متفق ہوگئی ہیں جب کہ یہ اتفاق رائے گزشتہ دنوں بلاول اور مریم نوازکے مابین ملاقات کے دوران طے پایا۔

صادق سنجرانی گزشتہ سال پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت سے چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔ انھوں نے 57 ووٹ لیے تھے جبکہ ن لیگ کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے،اس وقت بھی ن لیگ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔

ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی (ف) کے سینیٹ میں 46 ارکان ہیں،29 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں بیشتر کا تعلق ن لیگ کے ساتھ ہے،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2سینیٹرہیں، اے این پی، فنکشنل لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔

پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 14 ،متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی 5جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 2 ہے ۔سینیٹ کو چلانے کیلیے چیئرمین کی اہمیت ہونے کے علاوہ وہ صدر پاکستان کی غیرموجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ بھی سنبھالتے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلیے 53 ارکان کی حمایت درکار ہے جو پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی،جے یو آئی ف اوردیگراپوزیشن جماعتیں مل کرآسانی سے پورے کرسکتی ہیں کیونکہ اے این پی پہلے ہی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کرچکی ہے۔

اے این پی کے رہنما زاہد خان کہہ چکے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کو نہ ہٹایا گیا تو عوام بلاول اور مریم نواز پر اعتماد نہیں کریں گے،چیئرمین سینیٹ کے خلاف کارروائی آئین کے سیکشن 11کے تحت کی جاتی ہے۔

اس سیکشن میں دیے گئے طریقہ کارکے مطابق ایوان کے ایک چوتھائی ارکان آرٹیکل 61 کے تحت قرارداد کیلیے سیکریٹری کے پاس تحریری نوٹس جمع کرواتے ہیں جس کی کاپی ارکان میں تقسیم کی جاتی ہے اور خفیہ ووٹنک کرائی جاتی ہے۔

چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جس کیخلاف بھی قرارداد آئی ہو وہ اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ جو کہتے تھے کہ قومی چور کبھی واپس نہیں آئیں گے:

اسحاق ڈار کی وطن واپسی کیلئے برطانیہ کے ساتھ معاہدہ ہو چکا: شہزاد اکبر
201369_3640771_updates.jpg

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جلد وطن واپس آئیں گے: شہزاد اکبر۔ فوٹو: فائل
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے لیے برطانیہ کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوش عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جلد وطن واپس آئیں گے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کیلئے برطانیہ کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہو چکے ہیں،سابق وزیر خزانہ کو جلد برطانوی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ تحویل مجرمان کے معاہدے پر دستخط ہونے باقی ہیں۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اسحاق ڈار کی جلد ہی صحافیوں سے ملاقات کرا دی جائے گی۔

شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی بتایا کہ وفاقی کابینہ نے نے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کو کرپشن کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ بنانے کی منظوری دیدی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل گزشتہ 10 برسوں کے دوران ہونے والی کرپشن کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سابق صدر آصف علی زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری
201427_866048_updates.jpg

اپوزیشن ارکان کے پروڈکشن آرڈر بجٹ سیشن کے لیے جاری کیے گئے ہیں اور بجٹ سیشن 29 جون تک جاری رہے گا — فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیئے گئے۔


اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے بجٹ سیشن اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے آصف علی زرداری، خواجہ سعد رفیق اور فاٹا کے دو ممبران کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

تین روز قبل وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں ہدایت کی تھی کہ آصف علی زرداری سمیت کسی بھی ملزم کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیے جائیں۔

اپوزیشن کی جانب سے ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لیے اسپیکر اسد قیصر کو تحریری طور پر درخواست دی گئی تھی۔

اب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سابق صدر آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیے ہیں۔

پروڈکشن آرڈر بجٹ سیشن کے لیے جاری کیے گئے ہیں اور قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن 29 جون تک جاری رہے گا۔

ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق اسپیکر اسد قیصر نے آصف زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے ہیں، پروڈکشن آرڈر قومی اسمبلی میں کارروائی اور طریقہ کار کے قاعدہ 108کے تحت جاری کیےگئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے سے پہلے خورشید شاہ نے اسد قیصر کو کئی بار فون کیا۔

خورشید شاہ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کل صبح کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔
 
عمران خان کا برانڈ بتدریج غیرمقبول ہو رہا ہے لیکن ان کی حکومت اپوزیشن کے ساتھ محاذآرائی پر بضد ہے۔ اعزازسید کا ڈی ڈبلیو کے لیے بلاگ۔

دنیا میں برانڈز کی شہرت ان کے معیارسے جڑی ہوتی ہے۔ جو برانڈ جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اتنا ہی معیاری تصورکیا جاتا ہے۔ سیاست اور سیاسی جماعتیں بھی ایک طرح کا برانڈ ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا معیارعوام کے بجائے طاقتورحلقوں یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات پر منحصرہوتا ہے۔ جس کے ان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں وہ اتنا ہی اہم ہے۔ جو طاقتوروں کو نہیں بھاتا، وہ اتنا ہی غیر مقبول بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے برانڈ کو تباہ کیا گیا۔ پھر نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن برانڈ کی باری آئی۔ آج کل مگر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا برانڈ اونچا ہے۔

2018 ء میں عمران خان برانڈ کی حکومت اقتدار میں آئی تو اسے سب سے پہلے معیشت کے پہاڑ جیسے چیلنج کا سامنا تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں کو دس ارب ڈالر کی قسط دینا تھی۔ آپشن دو ہی تھے، اول ری شیڈولنگ اور دوسرا رقم کی ادائیگی۔ ظاہر ہے ڈیفالٹ آپشن تو نہیں تھا اس لیے ری شیڈولنگ پراتفاق کیا گیا۔

جب وزیر خزانہ اسد عمر ورلڈ بینک سے مذاکرات کررہے تھے تو بیرون ملک مقیم ایک سابق وزیراعظم نے ملک کی ایک طاقتور شخصیت کو فون کیا اور بتایا کہ ورلڈ بینک حکام وزیرخزانہ سے بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وزیرخزانہ نے چین کے بارے میں ایک ایسا بیان دے دیا ہے جس سے امریکا اور اس کے عالمی ادارے پاکستان کے بارے میں پریشان ہوگئے ہیں۔ اسد عمر نے کہا تھا کہ چین ہمیں باقی سب پر مقدم ہے۔ ایک ہدایت نامہ آیا اور اسد عمرگھر بھیج دیے گئے۔ سیاست کے میدان میں عمران خان برانڈ کے لیے یہ سب کسی بڑے دھچکے سے کم نہ تھا۔

اسد عمر وزیراعظم کے بعد اہم وزراء کی سرخیل تھے۔ ان کے بعد اہم وزراء بھی اپنی اپنی پریشانیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ پرویزخٹک وزارت کے معاملے اور نیب کیس میں پہلے سے پریشان تھے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ایوان وزیراعظم میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا اور ان کا دوسرا مسئلہ جہانگیر ترین سے ضد بھی رہا۔

صرف یہی نہیں کابینہ میں تبادلے ہوئے تو عمران خان کے قریب تصور کیے جانے والے کم وبیش تمام وزراء کے محکمے بدل دیے گئے۔ ان میں سب سے اہم فواد چوہدری اور شہریارآفریدی تھے۔ جب کابینہ کی اہم وزارتیں غیر منتخب یا کسی اور کے نامزد کردہ لوگوں کے پاس چلی گئیں تو ان وزارتوں کا کنڑول بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ برانڈ عمران خان کے لیے یہ دھچکا اس لیے بھی اہم تھا کہ ان کے تمام قریبی لوگ ایک جھٹکے میں باہر ہوچکے تھے۔ اس وقت کابینہ کے اکثر لوگ ناراض ہیں، وجہ وزیراعظم کے گرد موجود تین افراد ہیں جوعملی طورپر سول حکومت چلا رہے ہیں۔

ایک خاتون، ایک غیر منتخب وزیر اور ایک سرکاری افسر۔ یہ وہ تین شخصیات ہیں جن کا طواف وفاقی کابینہ کے کم و بیش تمام اراکین اور بیوروکریسی پرلازم ہے۔ ہاں وفاقی وزیر مراد سید بدستور عمران خان کے چہیتے ہیں۔ ان سے عمران خان کے سامنے وہ سچ بولنے کی توقع کی جاسکتی ہے جوشاید ان کے مصاحبین بھی نہ بولیں۔ مگران کو بھی عمران خان سے دور کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ یعنی برانڈ عمران خان کو ایوان اقتدار کے اندر ہی تنہا اور ناکام بنانے کا کام جاری ہے۔

دوسری طرف بے تحاشا مہنگائی کے باعث صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ برانڈ عمران خان بتدریج غیر مقبول ہورہا ہے لیکن بعض لوگوں کا اعتبار اب بھی قائم ہے۔ اگرعام لوگوں سے پوچھیں تو وہ مہنگائی کا رونا روتے ہیں لیکن پھر خود کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ شاید معیشت کا مسئلہ حل ہو ہی جائے۔ ایسا جلد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خدشہ ہے کہ کہیں لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔

اس پس منظر میں ایک طرف عمران خان برانڈ کی حکومت چل رہی ہے تو دوسری طرف نیب اور اس کے سرپرستوں کی متوازی حکومت موجود ہے۔ نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری کو دس جون کو گرفتار کیا اور پھر بعد میں فریال تالپور کو بھی گھر پر نظربند کردیا گیا۔

یوں تو آصف زرداری گرفتار ہیں مگر ان کو تمام سہولتیں بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ ریمانڈ کے دوران ان کی اپنی اولاد سے ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ انہیں رام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مگر شاید آصف علی زرداری کے دل میں پچھتاوا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کاش چیئرمین سینٹ کے معاملے پر وہ غیر جمہوری اقدام کی غلطی نہ کرتے اور اٹھ کھڑے ہوتے۔ انہوں نے آج جوموقف اپنایا ہے وہ گزرے سالوں میں اپنا لیتے تو شاید اتنی بدنامی اور تکلیف نہ اٹھانا پڑتی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور بالکل بے قصور ہیں۔ کچھ غلطیاں تو ان سے بھی ہوئی ہیں۔

آصف زرداری کو عدالتوں سے ریلیف ملے یا نہ ملے۔ پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے سروں پر بھی گرفتاری کی تلواریں لٹک رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں آج نہیں تو کل یہ سب اندر ہوں گے۔

شاید زرداری کی ضمانت پر رہائی تک پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما بچے رہیں۔ مگر پھر ان کا نمبر ضرور آئے گا۔ اصل ڈر تو وزیراعلیٰ سندھ کی ممکنہ گرفتاری کا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کو اندر بھیج کر کیا حاصل کیا جانا ہے؟ کیا یہ صوبائیت کو ہوا دینے کے مترداف نہیں ہوگا؟ ایسی کسی کارروائی سے برانڈ عمران خان پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ ملکی معیشت کی کمزوری گرفتار کیے جانے والوں کو ہیرو بنائے گی۔

ادھر پنجاب میں نواز شریف جیل میں بیٹھے ہیں اور مریم نواز بھی جلسوں سے خطاب کر کے برانڈ عمران خان پر ہی تنقید کر رہی ہیں۔ یعنی اپوزیشن مل کر برانڈ عمران خان کو ٹارگٹ کر رہی ہے نہ کہ کسی اور کو۔ اگر غور کیا جائے تو فی الحال اپوزیشن جماعتوں کے تمام برانڈ وقتی طور پر غیر اہم ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سب مل کر برانڈ عمران خان کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو اس وقت غیر مقبول ہوتا جارہا ہے لیکن اپوزیشن سے محاذ آرائی پر بضد بھی ہے۔

اگر یہ لڑائی جاری رہی اور معیشت اور گورننس کے شعبوں میں کارکردگی صفر رہی تو برانڈ عمران خان ہی نہیں بلکہ برانڈ جمہوریت خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔

ربط
 

جاسم محمد

محفلین
اصل ڈر تو وزیراعلیٰ سندھ کی ممکنہ گرفتاری کا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کو اندر بھیج کر کیا حاصل کیا جانا ہے؟ کیا یہ صوبائیت کو ہوا دینے کے مترداف نہیں ہوگا؟
جن منتخب نمائندگان کو سالہا سال اپنے ہی صوبہ کے وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن پر سندھی کارڈ کھیلنا یاد نہیں رہتا۔ وہ احتساب ہونے پر یہ کارڈ کیوں کھیلنا شروع کر دیتے ہیں؟ کیا آپ کے نزدیک جمہوریت کامطلب صرف یہ ہے کہ حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو۔ اس کے بعد بیشک عوام کی چمڑی ادھیڑ دے۔ سب جائز ہے۔ اور اگر کوئی پکڑے تو سیاسی شہید۔ یہ آج کی خبر ہے:
Capture.jpg

Capture.jpg

اور یہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ:
Financial irregularities of trillions highlighted by Sindh AGP report
 

جاسم محمد

محفلین
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور بالکل بے قصور ہیں۔ کچھ غلطیاں تو ان سے بھی ہوئی ہیں۔
نہیں نہیں۔ جمہوریت پسند کیسے کوئی غلطی کر سکتے ہیں ۔ سارا قصور تو غیرجمہوری فوج کا ہے۔
آج جب زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے تو انہوں نے ایوان میں اپنے حلقہ کے عوام کیلئے ایک لفظ نہیں بولا۔ بلکہ اپنے ذاتی کیس کا دفاع کرتے رہے۔ پھر اپوزیشن روتی ہے کہ سپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کیوں نہیں کرتے۔
پکڑ دھکڑ اور حساب کتاب بند کرکے آگے کی بات کی جائے، آصف زرداری
 

جاسم محمد

محفلین
سندھ کرپٹ ترین صوبہ، بجٹ کا ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1712075-SupremeCourt-1561016765-846-640x480.JPG

لاڑکانہ میں ایچ آئی وی دیکھیں، پورا شہر ایچ آئی وی پازیٹو ہوجائے گا، جسٹس گلزار احمد فوٹو:فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ سندھ کرپٹ ترین صوبہ ہے جہاں بجٹ کا ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ میں سکھر پریس کلب مسمار کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہر لحاظ سے کرپٹ ترین صوبہ ہے، جس کا ہر محکمہ ہر شعبہ ہی کرپٹ ہے، بدقسمتی سے وہاں عوام کیلئے کچھ نہیں ہے اور صوبائی بجٹ کا ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا، لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کی صورتحال دیکھیں، دیکھتے دیکھتے پورا لاڑکانہ ایچ آئی وی پازیٹو ہوجائے گا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سکھر شہر میں بجلی ہے نہ پانی، شہریوں کے پاس پینے کیلئے پانی ہے نہ واش روم کیلئے، یہ گرم ترین شہر ہے لیکن عوام کثیر منزلہ عمارتوں میں رہتے ہیں، شہر کی ایسی تیسی کردی گئی ہے، گرم شہروں میں کثیر منزلہ عمارتیں نہیں بن سکتیں، وہاں کے میئر صاحب کثیر منزلہ عمارتیں گراتے کیوں نہیں ہیں؟۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ پارکوں میں کوئی بزنس یا کاروبار نہیں چلنے دینگے، ہمیں پارک ہر صورت خالی چاہئیں، کراچی میں ہم نے ایدھی اور چھیپا کی ایمبولنس بھی پارکوں سے ہٹوا دیں، پہلے کراچی سے نمٹ لیں پھر سکھر کی طرف آئیں گے، میڈیا عوام کی خبر لگائے تو اشتہار بند ہوجاتے ہیں، صحافی بھی عوام کے مسائل کی خبریں نہیں لگاتے، عوام کو بنیادی سہولیات نہ ملیں تو وہ پُرتشدد ہوجاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ سکھر پریس کلب کو شہر کے درمیان میں ہی جگہ دیں، پریس کلب انتظامیہ اور کمشنر سکھر ایک ہفتے میں متبادل جگہ کا انتخاب کریں۔ عدالت نے سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ جو کہتے تھے این آر او لینے اور دینے والے پر لعنت۔ آج چیخ چیخ کر حکومت سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ لیکن خان کو سیاست نہیں آتی :)
 

جاسم محمد

محفلین
پلیز چیف جسٹس کی بات کو تو سیریس لے لیں
جاوید چوہدری جمع۔ء 21 جون 2019
1712834-JavedChaudhryNew-1561055238-640x480.JPG


’’ گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے‘‘ ان کا جواب دلچسپ بھی تھا‘ ادبی بھی اور بیورو کریٹک بھی‘ یہ پیشے کے لحاظ سے بیورو کریٹ ہیں اور بھرپور سرکاری زندگی کے بعد آج کل ریٹائرمنٹ گزار رہے ہیں‘ سارا دن ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں‘ اخبارات اور کتابیں پڑھتے ہیں‘ واک کرتے ہیں‘ گالف کھیلتے ہیں اور شام کو اپنی بھرپور سرکاری زندگی کے لطیفے سناتے ہیں۔

مجھے پچھلے دنوں ان سے ملاقات کا موقع ملا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو آج کا پاکستان کیسا دکھائی دیتا ہے‘‘ انھوں نے فوراً جواب دیا ’’ گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے‘‘ انھوں نے مختصر فقرے کے ذریعے بات مکمل کر دی لیکن میں اس مکمل بات کی وضاحت اور تشریح کا متمنی تھا لہٰذا میں نے عرض کیا ’’ جناب مجھے سمجھ نہیں آئی‘‘ وہ مسکرائے اور شوخ آواز میں بولے ’’ تمہارا تعلق گاؤں سے ہے‘‘ میں نے ہاں میں گردن ہلا دی‘ وہ بولے ’’دیہات میں چارے کے گٹھے‘ گھاس کے پلندے اور سوکھے سرکنڈوں‘ کانوں اور سٹوں کے پیکٹ پر گھاس کی گرہ لگا دی جاتی ہے۔

یہ گرہ اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ گاؤں کی عورتیں تیس چالیس کلو کا گٹھا سر پر اٹھا کر چل پڑتی ہیں‘ اگر گرہ کمزور ہو جائے یا راستے میں کمزور پڑ جائے تو سارے سٹے‘ سارے کانے‘ سارے سرکنڈے‘ ٹانڈے اور گھاس کے سارے تار بکھر جاتے ہیں‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلادیا‘ وہ بولے ’’ حکومت کاری بھی چارے کے گٹھے کی طرح ہوتی ہے‘ اس میں محکمے‘ شعبے اور دفتر بندھے ہوتے ہیں اور ان پر سسٹم کی گرہ ہوتی ہے‘ اگر یہ گرہ کمزور پڑ جائے تو دفتروں‘ شعبوں اور محکموں کے ٹانڈے الگ الگ ہو جاتے ہیں‘ سارا نظام بکھر جاتا ہے اور ہمارے سسٹم کی گرہ بھی کھل رہی ہے‘ سیاست کی زبان میں اس صورت حال کو انارکی کہتے ہیں‘‘۔

مجھے ان کی بات سے اتفاق نہیں تھا کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس گئے گزرے دور میں بھی پاکستان میں بے شمار خوبیاں‘لاتعداد خوب صورتیاں موجود ہیں‘ پاکستان کے عوام کو ملک سے محبت ہے‘ آج بھی اگر خدانخواستہ پاکستان پر کوئی برا وقت آجائے تو 20 کروڑ لوگ بلبلا کر باہر آ جائیں گے ‘ آپ کو فروری میں بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کے دن یاد ہوں گے‘ پورا پاکستان کس طرح باہر نکل آیا تھا‘ ابھی نندن اس کا گواہ ہے لہٰذا میں نے کبھی پاکستان ٹوٹنے کی تھیوری سے اتفاق نہیں کیا‘ملک معمولی ڈپریشن سے ٹوٹا نہیں کرتے‘ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ افغانستان میں 1979 میں حالات خراب ہوئے اور حالات کی یہ خرابی آج 2019 تک قائم ہے‘ ان 40 برسوں میں افغانستان نے سکون اور امن کی ایک رات نہیں دیکھی لیکن اس کے باجود افغانستان قائم ہے‘ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوا‘ 40 برسوں کی قیامت کے باوجود آج بھی افغانستان کے بازار کھلے ہیں‘ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کلاسیں چل رہی ہیں۔

سڑکوں پر ٹریفک جاری ہے اور باغوں میں پھول اورپھل لگتے ہیں‘ افغانستان میں بجلی بھی موجود ہے‘ گیس کے سیلنڈر بھی بک رہے ہیں اور فیکٹریاں اور ملیں بھی چل رہی ہیں جب کہ پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ہزار گنا بہتر ملک ہے‘ اس میں سوویت فوجیں داخل ہوئی ہیں اور نہ ہی امریکا نے ڈیزی کٹر بم برسائے ہیں چناںچہ اسے توڑنا یا اس کا خاتمہ ممکن نہیں‘ میں پاکستان کی اہمیت سے بھی واقف ہوں‘ پاکستان اگر اہم ملک نہ ہوتا تو جاپان سے لے کر یورپ اور مشرق وسطیٰ سے لے کر امریکا تک پوری دنیا اس کے بارے میں متفکر نہ ہوتی‘ دنیا میں فرینڈز آف پاکستان کا فورم ہوتا اور نہ سعودی عرب‘یو اے ای اور چین مشکل معاشی حالات میں پاکستان کی مالی مدد کرتے‘ یہ پاکستان کی اہم پوزیشن ہے جس کے باعث دنیا ہمیں اکیلا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں لیکن اس کے باوجود میں پاکستان کے نظام میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بھی متفکر رہتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے پاکستان کا سرکاری‘ دفتری اور سیاسی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

پاکستان کو اب پرانے طریقے سے چلانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا 1902 کے ڈرائیوروں کے لیے آج کی جدید گاڑیاں ڈرائیو کرنا‘ پاکستان کے ادارے بھی اب کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں‘ ملک کی اصل طاقت کس کے پاس ہے‘ کون سا ادارہ حکومت چلا رہا ہے؟ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔آج کے پاکستان میں افسروں کے دل سے حکومت کا خوف بھی ختم ہو چکا ہے‘ سرکاری افسر ہوں یا سائل ہوں تمام لوگ ایک دوسرے کے گلے پڑتے ہیں‘ پاکستان میں ایک وقت تھا جب معطلی یا برطرفی سب سے بڑی سزا ہوتی تھی لیکن آج کوئی سرکاری ملازم‘ کوئی سرکاری افسر اس سے نہیں ڈرتا‘ یہ آج سینہ کھول کر سینئرز کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ آپ کو لاہور کے ڈی ایس پی عمران بابر یاد ہوں گے‘ یہ مارچ 2010 میں معطل ہوئے اور انھوں نے عوام میں دل کھول کر بولنا شروع کر دیا تھا۔

آپ کو فیصل آباد کا 22 مارچ 2010 کا واقعہ بھی یاد ہوگا‘ فیصل آباد کے ایک وکیل لیاقت علی جاوید نے بھری عدالت میں سول جج چوہدری طارق محمود کہوٹ کو تھپڑ مار دیا تھا ‘آپ کو یاد ہوگا سول جج کو تھپڑ لگنے کے بعدلاہور‘ فیصل آباد‘ ساہیوال‘ سیال کوٹ‘ قصور‘ خانیوال‘ شیخو پورہ‘ پاک پتن‘ گوجرانوالہ‘ سرگودھا‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ دیپال پور اور عارف والا کے سول ججوں نے ہڑتال کر دی تھی‘ فیصل آباد کے تمام ججوں نے ایک ماہ کی رخصت کی درخواست بھی دے دی تھی‘ دیپال پور کے سارے جج مستعفی ہو گئے تھے اور ڈیڑھ سو کے قریب ججوں نے تبادلوں کی اپیل کر دی تھی‘یہ واقعات آج تک جاری ہیں‘ آج بھی جونیئر پولیس افسر سینئرپولیس افسروں‘ وکلاء ججوں اور جج وکلاء اور سرکاری کارندے سرکار کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

آپ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو ہر انارکی ‘ ہر انقلاب سے پہلے اس قسم کے درجنوں واقعات نظر آئیں گے‘یہ چھوٹی چھوٹی بغاوتیں انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں تاہم اس ساری کنفیوژن‘ اس سارے بحران میں ایک اچھا ٹرینڈ بھی سامنے آ رہا ہے‘ ماضی میں میڈیا بے مہار ہوتاتھا‘ صحافی اور ٹیلی ویژن رپورٹرز جو چاہتے تھے وہ کہہ دیا کرتے تھے‘یہ اپنی مرضی کی خبریں بھی چھاپ دیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا ‘میڈیا اب حقائق کو دس دس چھاننیوں سے چھان کر شایع کرتا ہے‘میں میڈیا کے اس ٹرینڈ کو گٹھے کی گرہ سمجھتا ہوں‘یہ گرہ اگر مضبوط ہو گئی تو چھوٹی بڑی انارکی ملک کو تباہ نہیں کر سکے گی۔

حکومت کو چاہیے یہ میڈیا کے اس ٹرینڈ کو سپورٹ کرے‘ ہمارا معاشرہ کھائی کے کنارے تک پہنچ چکا ہے‘ پاکستان میں لوگ معمولی معمولی باتوں پر خود کشیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں‘ لوگ تیل کی بوتلیں اور ماچسیں لے کرگھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ملک میں نوجوان خود کش حملہ آور بننے کے لیے تیار ہیں‘ پاکستان میں نظریاتی‘ لسانی اور مذہبی اختلاف پر لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں ‘ لوگ مہنگائی اور بے روزگاری پر سرکاری املاک پرحملوں کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے ہیں اور صوبے بجٹ پر ایک دوسرے سے الگ ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ملک میں اب ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس پر پورے ملک میں ابال آ رہا ہے اور معاشرے میں اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے‘ ہمارے حکمرانوں‘ ہمارے سیاستدانوں کو اس بدلتے ہوئے پاکستان کو سمجھنا چاہیے‘ ملک کی کوئی بھی حکومت اب سسٹم 1980 اور 1990 کے فارمولوں سے نہیں چلاسکے گی‘ یہ لوگ گاڑیوں کو چابک سے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ ابھی تک دھمکیوں‘ دھونس‘ دھاندلی‘ کرپشن اور ’’ لو اور دو‘‘ کی سیاست کر رہے ہیں‘ یہ ابھی تک چائے کے ساتھ کھیرے کھا رہے ہیں‘ یہ دھوتی کے اوپر ٹائی باندھ رہے ہیں‘یہ ٹیلی ویژن کا سوئچ آف کر کے یہ سمجھ رہے ہیں اب خبر رک جائے گی اور ان کا خیال ہے لوگ آج 2019 میں 1988 کی طرح ان کے سارے وعدوں‘ ساری باتوں پر یقین کر لیں گے‘ یوٹرن کو یو ٹرن اور ڈیڈ لاک کو ڈیڈ لاک نہیں سمجھیں گے‘ یہ سوچ اتنی ہی بڑی بے وقوفی ہے جتنی بڑی بے وقوفی جیٹ جہاز کو اونٹ کی نکیل ڈالنے کی کوشش ۔

پاکستان تبدیل ہو چکا ہے اور اس تبدیل شدہ پاکستان کی سرکاری پوٹلی کی گرہ ڈھیلی پڑ رہی ہے چناں چہ اگراس پاکستان کو آج کے تقاضوں کے مطابق چلانے کی کوشش نہ کی گئی‘ اسے کارپوریٹ اسپرٹ نہ دی گئی‘ اسے فیکٹریوں‘ فرموں اور کمپنیوں کے اسٹائل میں نہ چلایا گیا اور پاکستان کے صدر سے لے کر چپڑاسی تک تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابر نہ کیا گیا تو ملک کو انارکی سے نہیں بچایا جا سکے گا۔آپ یقین کیجیے اگر ہمارے حکمران نہ سنبھلے تو وہ وقت دور نہیں جب محروم لوگ اینٹیں لے کر گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ جائیں گے اور ہر ٹائی کو پھانسی کا پھندا بنا دیں گے۔

یہ درست ہے پاکستان بدتر انارکی میں بھی قائم اور زندہ رہے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہماری پولیٹیکل کلاس اس انارکی کا نوالہ بن جائے گی بالکل ایران اور افغانستان کی اس رولنگ کلاس کی طرح جس نے سنبھلنے سے انکار کر دیا تھا اور آج ان کے بچے یورپ میں برتن مانج رہے ہیں‘ ملک بچ گئے لیکن ان کی حکمران کلاس دنیا کے جوتے صاف کر رہی ہے اور ہم بھی تیزی سے اس صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں لہٰذا میری عمران خان سے درخواست ہے آپ حالات کا تجزیہ کریں۔

معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں اور پلیز پلیز! چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہونے والی 19 جون کی تقریر نکال کر پڑھ لیں‘ چیف جسٹس کی گفتگو فائر بریگیڈ کا سائرن ہے‘ آپ اگر اس سائرن پر بھی نہیں جاگتے تو یہ جان لیں گانٹھ کھل جائے گی اور ہم تنکوں کی طرح بکھر جائیں گے‘ چیف جسٹس کی بات سیریس ہے‘ آپ خدا کے لیے اس کو تو سیریس لے لیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب سارے دیسی لبرل کیوں چپ ہیں؟ فیصل واڈا کے بیان پر تو بہت شور مچایا ہوا تھا!

مولانا فضل الرحمان کی حکومت آئی تو عمران خان کو سنگسار کرے گی: بلاول بھٹو
22/06/2019 ہم سب نیوز



چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کی حکومت آ گئی تو عمران خان کو سنگسار کر دیا جائے گا- حکومت آٹھویں ترمیم اور صوبوں کے حقوق ختم کرنا چاہتی ہے، پیپلزپارٹی اس میں رکاوٹ ہے۔

نواب شاہ میں بے نظیر بھٹو کے یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آصف زرداری سے کہا گیا کہ وزارت عظمیٰ لے لو لیکن بے نظیر کوچھوڑ دو لیکن آصف زرداری نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے اپنے بہادر باپ پر اور پور ے سندھ کو اپنے بہادر فرزند پر فخر ہے جس نے غریبوں کا تحفظ کیا، پورے پاکستان کو آصف زرداری پر فخر ہے جس نے بے نظیر بھٹو کی لاش پر کھڑے ہوکر پاکستان کھپے کا نعرے لگایا اور ملک کو بچایا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری کا جرم کیا ہے؟ اس کی ساری جوانی جیلوں میں گل گئی لیکن ان کا جی نہیں بھرا، اس عمر اور اس کیفیت میں پھر قید کیا گیا جبکہ وہ کہیں ملک چھو ڑکر بھاگا نہیں بلکہ عدالتوں اور نیب میں پیش ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تو پنجاب کے سپیکر سمیت کئی حکومتی وزراء کے خلاف نیب میں کیسز ہیں لیکن وہ تو آزاد پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری ہنستے ہوئے جیل چلے گئے لیکن ان کا جرم یہ ہے کہ ان کی جانب سے اختیارات پارلیمان کو واپس کئے گئے، اٹھارہویں ترمیم کو منظور کرایا، فیڈریشن کو مضبوط کیا، این ایف سی ایوارڈ دیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریبوں کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کو جیل بھیجنا اس لئے ضروری تھا کہ حکومت 1973 کے آئین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ صوبوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور پیپلز پارٹی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا آصف زرداری عوام کے حقوق کا محافظ ہے، اس لئے تو ان کے جرائم کی فہرست بہت لمبی ہے، وہ جرم جس سے فیڈریشن مضبوط ہو، مزدور سر اٹھا سکے، وہ جرم جس سے جمہوریت مضبوط ہو اور انسانی حقوق کا تحفظ ہو، اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہ سارے کام اب جرم بن چکے ہیں اور اگر یہ جرم ہیں تو یہ جرائم میں نے بھی کرنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ جرم کریں گے اور بار بار کریں گے، اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینی پڑی، اس سے نہ پہلے کوئی دریغ کیا اور نہ اب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر کسی کو اس کی جائیداد یا خاندانی پس منظر کی بنا پر چھوٹا نہیں سمجھتا، میں نے ہمیشہ انسانی سوچ اور کردار کی بنا پر انسان کو پہچانا ہے، آصف زرداری کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے لیکن ان کی جانب سے کبھی اس کا جواب نہیں دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ والے جانتے ہیں کہ زرداری قبیلہ سندھ کا ایک بڑا قبیلہ ہے، میرے دادا اس قبیلے کے سردار بھی تھے اور کراچی کے ایک بہت بڑے بزنس مین بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ زرداری کے خاندان کے بزرگ حسن علی آفندی نے سندھ مدرستہ الاسلام بنایا تھا جہاں قائد اعظم سمیت بہت سے بڑے لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ چندہ مانگ کرہسپتال بناتے ہیں اوراس کی بنیاد پر ووٹ لیتے ہیں، ہم جانتے ہیں آصف زرداری کو انتقام کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے، بزدل لوگ ہی خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ عمران خان اتنا کریں جتنا کل برداشت کرسکیں۔

اگر (ن) لیگ کی حکومت آئی توآپ کے گھر میں بھی خواتین ہیں۔ آصف زرداری کی حکومت آئی توزرداری بدلہ نہیں لیتا، عمران خان دعا کریں کہ آصف زرداری کی حکومت آئے، اگر مولانا فضل الرحمان کی حکومت آئی تو آپ کو سنگسار کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ عمران خان آپ 70 سال کے بوڑھے اور میں نوجوان ہوں، شہیدبےنظیرکی بیٹی کو آپ نے رلایا، ہم ایک ایک آنسو کا حساب لیں گے، میں حساب لوں گا ان غریبوں کا جن کوآپ نے بے گھر کیا، میں حساب لوں گا ان مزدوروں کا جن کی آپ نے کمر توڑی، احتساب کے نام پر ایک اور جھوٹ بولا جا رہا ہے، ایک عمران خان کا پاکستان اور دوسرا عوام کا ہے، نیب گردی اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اب سارے دیسی لبرل کیوں چپ ہیں؟ فیصل واڈا کے بیان پر تو بہت شور مچایا ہوا تھا!

مولانا فضل الرحمان کی حکومت آئی تو عمران خان کو سنگسار کرے گی: بلاول بھٹو
22/06/2019 ہم سب نیوز



چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کی حکومت آ گئی تو عمران خان کو سنگسار کر دیا جائے گا- حکومت آٹھویں ترمیم اور صوبوں کے حقوق ختم کرنا چاہتی ہے، پیپلزپارٹی اس میں رکاوٹ ہے۔

نواب شاہ میں بے نظیر بھٹو کے یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آصف زرداری سے کہا گیا کہ وزارت عظمیٰ لے لو لیکن بے نظیر کوچھوڑ دو لیکن آصف زرداری نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے اپنے بہادر باپ پر اور پور ے سندھ کو اپنے بہادر فرزند پر فخر ہے جس نے غریبوں کا تحفظ کیا، پورے پاکستان کو آصف زرداری پر فخر ہے جس نے بے نظیر بھٹو کی لاش پر کھڑے ہوکر پاکستان کھپے کا نعرے لگایا اور ملک کو بچایا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری کا جرم کیا ہے؟ اس کی ساری جوانی جیلوں میں گل گئی لیکن ان کا جی نہیں بھرا، اس عمر اور اس کیفیت میں پھر قید کیا گیا جبکہ وہ کہیں ملک چھو ڑکر بھاگا نہیں بلکہ عدالتوں اور نیب میں پیش ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تو پنجاب کے سپیکر سمیت کئی حکومتی وزراء کے خلاف نیب میں کیسز ہیں لیکن وہ تو آزاد پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری ہنستے ہوئے جیل چلے گئے لیکن ان کا جرم یہ ہے کہ ان کی جانب سے اختیارات پارلیمان کو واپس کئے گئے، اٹھارہویں ترمیم کو منظور کرایا، فیڈریشن کو مضبوط کیا، این ایف سی ایوارڈ دیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریبوں کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کو جیل بھیجنا اس لئے ضروری تھا کہ حکومت 1973 کے آئین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ صوبوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور پیپلز پارٹی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا آصف زرداری عوام کے حقوق کا محافظ ہے، اس لئے تو ان کے جرائم کی فہرست بہت لمبی ہے، وہ جرم جس سے فیڈریشن مضبوط ہو، مزدور سر اٹھا سکے، وہ جرم جس سے جمہوریت مضبوط ہو اور انسانی حقوق کا تحفظ ہو، اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہ سارے کام اب جرم بن چکے ہیں اور اگر یہ جرم ہیں تو یہ جرائم میں نے بھی کرنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ جرم کریں گے اور بار بار کریں گے، اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینی پڑی، اس سے نہ پہلے کوئی دریغ کیا اور نہ اب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر کسی کو اس کی جائیداد یا خاندانی پس منظر کی بنا پر چھوٹا نہیں سمجھتا، میں نے ہمیشہ انسانی سوچ اور کردار کی بنا پر انسان کو پہچانا ہے، آصف زرداری کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے لیکن ان کی جانب سے کبھی اس کا جواب نہیں دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ والے جانتے ہیں کہ زرداری قبیلہ سندھ کا ایک بڑا قبیلہ ہے، میرے دادا اس قبیلے کے سردار بھی تھے اور کراچی کے ایک بہت بڑے بزنس مین بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ زرداری کے خاندان کے بزرگ حسن علی آفندی نے سندھ مدرستہ الاسلام بنایا تھا جہاں قائد اعظم سمیت بہت سے بڑے لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ چندہ مانگ کرہسپتال بناتے ہیں اوراس کی بنیاد پر ووٹ لیتے ہیں، ہم جانتے ہیں آصف زرداری کو انتقام کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے، بزدل لوگ ہی خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ عمران خان اتنا کریں جتنا کل برداشت کرسکیں۔

اگر (ن) لیگ کی حکومت آئی توآپ کے گھر میں بھی خواتین ہیں۔ آصف زرداری کی حکومت آئی توزرداری بدلہ نہیں لیتا، عمران خان دعا کریں کہ آصف زرداری کی حکومت آئے، اگر مولانا فضل الرحمان کی حکومت آئی تو آپ کو سنگسار کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ عمران خان آپ 70 سال کے بوڑھے اور میں نوجوان ہوں، شہیدبےنظیرکی بیٹی کو آپ نے رلایا، ہم ایک ایک آنسو کا حساب لیں گے، میں حساب لوں گا ان غریبوں کا جن کوآپ نے بے گھر کیا، میں حساب لوں گا ان مزدوروں کا جن کی آپ نے کمر توڑی، احتساب کے نام پر ایک اور جھوٹ بولا جا رہا ہے، ایک عمران خان کا پاکستان اور دوسرا عوام کا ہے، نیب گردی اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی کیرئیر میں اب تک سوائے طنز کے تیر چلانے کے اور کچھ بھی نہیں کیا!
 
Top