پاکستان کے قرض اور کچھ ذکر حاجی صاحب کی وفات کا

حاجی صاحب آدھی رات میں گھبرا کر اٹھے اور بیگم کو جگاتے ہوئے بولے، ”تمہیں پتہ چلا ہر پاکستانی پر 22,000 روپے قرضہ بڑھ گیا ہے؟ “ اس سے پہلے بیچاری، قسمت کی ماری کچھ بولتی، حاجی صاحب نے اپنی سیکنڈ لاسٹ ہچکی لی اور بے ہوش ہو گئے۔ ہوش میں آتے ہی اسٹاک ایکسچنج کے انڈیکس کا پوچھا، پاس کھڑے سالے نے جواب دیا، ”بہت نیچے ہے لیکن حاجی صاحب کون سا آپ کے پاس کسی کمپنی کے شئیرز ہیں“۔ پھر انہوں نے ڈالر کے مطابق روپے کی قدر کا استفسار کیا اور معلوم پڑنے پر آخری ہچکی لی اور— حاجی صاحب اب ہم میں نہیں۔ قریب کھڑے لوگوں نے بتایا حاجی صاحب کی زبان سے جو آخری جملہ ادا ہوا وہ تھا، ”اللہ پاکستان کو سلامت رکھے“

جب سے سیاست دانوں نے بالعموم اور بڑے صاحب نے بالخصوص عوام کو معشیت کے بارے میں بتانا اور سمجھانا شروع کیاہے اس کے بعد نہ ہماری معشیت میں بہتری کے آثار رہے اور نہ ہی عوام کو سکون آیا۔ اسے کہتے ہیں علم کا نقصان۔

ملک پر قرضہ کیوں بڑھ گیا ہے؟ اس دکھ کو پالتے پالتے کئی پاکستانی فشار خون کے عارضے میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے استاد سیاست دان، صحافی اور سینئر صحافی نمک مرچ سے پرہیز نہیں فرما رہے۔ دوستو، مریض نے مر جانا ہے۔

سیانا بننا اور پڑھانا مقصود نہیں، مطلوب بلڈ پریشر کم کرنا ہے۔ ہم نے غیر ملکی قرضہ ڈالرز میں لیا ہے اور ڈالرز میں ہی واپس کرنا ہے اس لیے روپوں میں فی شخص قرض نکالنا — حد ہے۔ اس طرح ہماری آبادی دگنی ہوجائے تو فی شخص قرض آدھا ہو جانا ہے، چلیں بڑھائیں آبادی پھر؟ ڈالر ہم خود چھاپ نہیں سکتے ( شاید ہم نے کوشش بھی نہیں کی ) اور قرض واپس ہو گا ڈالرز میں۔ کہاں سے اور کیسے آتے ہیں یہ ڈالرز؟

فرد کے لئے گئے قرض اور ملکوں کے قرض میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ملک قرض لیتے ہیں، اپنی انڈسٹری کے لئے ”سازگار ماحول“ پیدا کرتے ہیں، اپنے جوانوں کو ہنر مند کرتے ہیں، اس ”ساز گار ماحول“ کی وجہ سے ہماری انڈسٹری برآمدات کرتی ہے، ہنر مند نوجوان خدمات ایکسپورٹ کرتے ہیں یا دوسرے ملکوں میں جاکر ڈالرز بجھواتے ہیں۔ یہ تمام ڈالرز سٹیٹ بینک اپنے پاس رکھ کر روپے دے دیتا ہے۔ یا پھر ”سازگار ماحول“ کی وجہ سے باہر سے ڈالرز میں انوسٹمنٹ آتی ہے اور ڈالرز

سٹیٹ بینک اپنے پاس رکھ کر روپے دیتا ہے کیونکہ ملک کے اندر روپیہ ہی چلتا ہے۔ یہ اسٹیٹ بینک میں پڑے ڈالر ز جنہیں فارن ریزروز کہا جاتا ہے قرضوں کی ادائیگیوں یا پھر درآمدات کے حصول میں استعمال ہوجاتے ہیں۔

اس لیے میرے جیسے لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے والوں نے کوئی قرضہ واپس نہیں کرنا۔ یہ اس ”سازگا ماحول“ سے ہونا ہے جس سے ہمارے لوگ اشئیا اور خدمات برآمد کرکے، باہر سے انوسٹمنٹ آنے سے یا پھر تارکین وطن کے ڈالرز بھیجنے سے ہوگا۔ اور ہاں استاد ایک اور ڈنڈی مار گیا، ڈالر ایک روپیہ بڑھنے سے جو روپوں میں قرض بڑھتا ہے وہ بھی ٹھیک نہیں، ہوسکتا ہے ڈالر کی قدربڑھے تو ہماری برآمدات سستی ہوکر بڑھ جائیں یا پھر تارکین وطن کو یہاں اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنا زیادہ سستا پڑے اور وہ مزید ڈالرز بھیجیں۔ پھر ان ڈالرز سے ہم قرض واپس کردیں؟ یہاں تک ہوگئی مثبت رپورٹنگ۔

بات رہ گئی پھر اس ”ساز گار“ ماحول کی جو ہم سب نے مل کر پیدا کرنا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری تھوڑی زیادہ ہے۔ اپنے بچوں کو پڑھانا ہے ساتھ کچھ ہنر بھی سکھانا ہے۔ برداشت کا حوصلہ، تنقید سننے کی ہمت، آزادی اظہار رائے، بلا خوف اور جلد انصاف، سیاسی رواداری، ہمسایوں سے اچھا سلوک، دنیا کا ماما بننے سے توبہ، مذہبی آزادی، ڈرامہ، موسیقی اور ذرا دور کا سوچنے سے ہی ”ساز گار ماحول پیدا ہونا ہے۔ مشکل کام ہے نا؟ اللہ حاجی صاحب کو جنت نصیب کرے۔

۔۔۔
معاج حسن
ربط
 
Top