ام اویس

محفلین
رمضان المبارک کا مہینہ درحقیقت مسلمانوں کی تربیت کا مہینہ ہے۔ گویا ایک ریفریش کورس ہے جس میں باقی گیارہ مہینوں کی کارگزاری کا تعین کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو الله تعالی کے احکام کا پابند بنانے کے لیے رمضان میں ان پر حلال چیزوں کے استعمال پر بھی مخصوص اوقات میں پابندی لگا دی جاتی ہے ۔ تاکہ حرام سے بچنے کی تربیت ہوجائے۔
عبادت بندگی کا نام ہے اور بندگی یہ ہے کہ زندگی کے ہر لمحے کو خالق ومالک حقیقی کے حکم کے مطابق گزارا جائے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رُک رہنا نہیں بلکہ اپنی طبیعت، مزاج، عادات و اخلاق کو معبود کی اطاعت و بندگی کے دائرے میں لانے کا نام ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد تقوی کا حصول ہے۔
رمضان المبارک میں چونکہ عبادت کا ایک ماحول بن جاتا ہے اس لیے عبادت عادت میں بدلنے لگتی ہے اور چند دنوں میں انسان بھوک پیاس کا عادی ہوجاتا ہے ۔
جو شخص جھوٹ بولنا ، غیبت کرنا ، اپنے فرائض سے لاپرواہی برتنا ، رشوت لینا ، مال حرام کے لیے کوشش کرنا ، چوری اور چور بازاری کرنا ، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کرنا نہیں چھوڑ سکتا اس کا روزہ عبادت کی بجائے محض ایک عادت ہے ۔ اسی طرح اگر گھروں میں رشتوں کی حق تلفی ہورہی ہو ، قطع رحمی اور لاپرواہی اختیار کرلی جائے اور ماں باپ کا ادب واحترام اور بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو توعبادت کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
علاوہ ازیں روزے کا ایک مقصد غریب کی بھوک کا احساس کرنا ہے ۔ اگر غریبوں ، مسکینوں اور گھر کے ملازموں کی بھوک اور مجبوریوں کا احساس پیدا نہ ہو تو بھی روزے کا حق ادا نہیں ہوتا۔
جس طرح رمضان میں نیک اعمال کا اجربڑھ جاتا ہے اسی طرح الله تعالی کی نافرمانی اور حقوق العباد میں کوتاہی کے گناہ کا وبال بھی زیادہ ہوجاتا ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان کے مہینے کے اثرات مسلمان کے دل ودماغ پر اور اس کی عادات وکردار پر اسقدر مثبت اثرات ڈالیں کہ سال کے باقی گیارہ مہینے اس کے زیر اثر رہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ آخری روزے کے ساتھ ہی رمضان اور اس کی عبادات وبرکات کو لپیٹ کر اگلے سال کے رمضان تک رکھ دیا جاتا اور رمضان کے آخری عشرہ سے ہی گھروں ، گلی محلوں اور بازاروں میں ہر طرف ایک ہنگامہ ، جشن ، میوزک، فائرنگ ، پٹاخے اور گانوں کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں ۔ چھوٹے بڑے شہروں کے بازاروں میں خواتین ، لڑکیاں ، لڑکے اور بچے نکل پڑتے ہیں ۔ مرد و عورت کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ۔ مبارکبادیوں کے میسجز شروع ہوجاتے ہیں ۔ نامحرم مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنی جاتی ہیں ، مہندی لگوائی جاتی ہے ۔ خاص طور پر چاند رات کے موقع پر یہ سب دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ نئے مہینے کا چاند نکلتے ہی شیطان آزاد ہو گیا ہے اور لوگوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنی آزادی کا جشن منا رہا ہے ۔
رمضان کا آخری عشرہ جس میں برکت والی رات یعنی لیلة القدر ہے ۔ قرآن مجید کا نزول اسی رات میں ہوا اور جو ہزار راتوں سے بہتر ہے اسے بھی خریداری وافطاری کے جھمیلوں میں بھلا دیا جاتا ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر طاق رات میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا جائے ، غریبوں اور ناداروں پر خوب صدقہ کیا جائے اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی و نرمی کا معاملہ کیا جائے اس کی بجائے آخری عشرہ عید کی تیاریوں اور دوستوں کی افطاریوں میں گزر جاتا ہے ۔ رمضان کی آخری رات مہینہ بھر کی محنت کا صلہ پانے کی رات ہے ، الله کی رحمت اور بخشش وصول کرنے کی رات ہے لیکن وہ بھی اسی لاپرواہی کی نذر ہوجاتی ہے ۔
یہ تو بالکل ایسا ہے کہ ایک مزدور دن رات محنت کرتا رہے ۔ اور جب مزدوری لینے کا وقت ہو تو میلہ دیکھنے چلا جائے ۔
ذرا سوچیے ! پورے مہینے کی تربیت کو ایک چاند رات کے لیے کیوں ضائع کیا جائے ۔ کیوں اپنے ہاتھوں سے باغ کی دیکھ بھال کرنے کے بعد اس کے پھل سے نفع اٹھانے کی بجائے جلا کر راکھ کر دیا جائے ۔ نادانی کی اس سے بڑی بھلا اور کون سی مثال ہو سکتی ہے ۔
رمضان المبارک میں اعمال کے قبول ہونے کی ایک نشانی اور پہچان یہ بھی ہے کہ بندے کو الله سبحانہ و تعالی کی طرف سے رمضان کے بعد بھی نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق رہتی ہے ۔ اپنے اعمال کو مقبول بنانے اور اپنی محنت کا صلہ پانے کے لیے آئیے ہم بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوجائیں جن کے ایمان کو چاند رات جیسی ایک تو کیا کئی راتیں بھی کمزور نہیں کر سکتیں ۔
 
آخری تدوین:
Top