سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
’چیئرمین نیب کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا‘
مئی 23, 2019
javed-iqbal-Nab.jpg

پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب کے سربراہ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

معتبر ذرائع نے کہا ہے کہ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کو ہٹانے کا فیصلہ طاقتور اور فیصلہ کن افراد نے کیا ہے جس کے بعد ان کے خلاف ٹی وی چینلز پر جنسی سیکنڈل نشر کرنے کی اجازت دی گئی۔

جاوید اقبال اس سے قبل سپریم کورٹ کے جج کے طور پر بھی طاقتور حلقوں کے استعمال میں آنے کے الزامات کا شکار رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے ایک مشیر طاہر اے خان کے ٹی وی چینل نیوز ون نے سب سے پہلے نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کا سیکس سکینڈل نشر کیا ہے۔ احتساب بیورو کے سربراہ کی ویڈیو بھی ٹی وی چینل پر نشر کی گئی ہے جس میں وہ اپنے دفتر میں خاتون سے گلے مل رہے ہیں۔

چینل پر ایک آڈیو کو بھی مبینہ طور پر جاوید اقبال سے منسوب کیا جا رہا ہے جس میں نیب کے چیئرمین خاتون سے بیہودہ گفتگو کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بعض صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ چیئرمین نیب سے طاقت ور ادارے کے افسران نے گذشتہ رات استعفا لے لیا ہے۔

خیال رہے کہ جاوید اقبال نے کالم نگار جاوید چودھری کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کو ہٹانے کے طاقت ور لوگ متحرک ہیں تاہم وہ سیاست دانوں کا احتساب جاری رکھیں گے۔

جاوید اقبال نے گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور اپنا کام جاری رکھیں گے۔
---
احتساب سے بھاگنے اور این آر او لینے کا پرانا طریقہ منظر عام پرآگیا۔ اب اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ چیئرمین نیب کو بلیک میل کرےگی۔
 
آخری تدوین:
احتساب سے بھاگنے اور این آر او لینے کا پرانا طریقہ منظر عام پرآگیا۔ اب اپوزیشن چیئرمین نیب کو بلیک میل کرےگی۔
کیا پتا۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے نصب شدہ حکومت یا نکے دا ابا اس سارے قضیے کو لیکر چئیرمین نیب کو بلیک میل کرتے آئے ہوں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ!
23/05/2019 ارشاد بھٹی


بلاول بھٹو کا افطار ڈنر، دو تصویریں بھلائے نہیں بھول رہیں، پہلی تصویر، بلاول بھٹو سینے پر ہاتھ رکھے، چہرے پہ مسکراہٹ سجائے، مسکراتی مریم نواز کا استقبال کر رہے، دوسری تصویر حمزہ شہباز کی، ایک طرف بیٹھے، تناؤ زدہ چہرہ، ایک ہاتھ ٹیبل پر، دوسرا ہاتھ غصے یا بے بسی میں مٹھی بنا ہوا، جب سے یہ تصویریں دیکھیں تب سے طرح طرح کے خیالات آجا رہے، سوچوں، جب بلاول، مریم کا آمنا سامنا ہوا، دونوں کے اندرکا موسم کیسا ہوگا۔

بندہ چاہے جتنا بڑا اداکار ہو، مجبوریاں چاہے جتنی بڑی ہوں، چہروں پر چاہے جتنی مسکراہٹیں ہوں مگر اندر کا اپنا موسم، دل و دماغ کی اپنی دنیا، چہرے پر اپنائیت بھری مسکراہٹ سجائے مریم نواز کو خوش آمدید کہتے بلاول بھٹو کے دل و دماغ میں تو آیا ہوگا کہ یہ وہی مریم نواز، جن کے بارے میں، میں کہا کرتا تھا کہ ’’ضیاءالحق کا اصل بیٹا نواز شریف اپنی بیٹی کو سوفٹ امیج کیلئے استعمال کررہا‘‘۔

یہ خیال تو آیا ہوگا کہ ’’یہ وہی مریم نواز جو میرے والد زرداری صاحب کے نام کو طعنے کے طور پر استعمال کرتی رہیں‘‘، استقبال سے الوادع تک ان چند گھنٹوں میں ایک آدھ بار بلاول نے سوچا تو ہوگا شریفوں نے کیا کیا باتیں نہ کیں ہمارے متعلق، میری ماں کو سیکورٹی رسک کہنا، میر ے نانا کو نقلی شہید کہہ دینا، میاں صاحب کا یہ فرمانا ’’پیپلز پارٹی کا نام سن کر میرا خون کھول اُٹھتا ہے‘‘۔

دوسری طرف سینے پر ہاتھ رکھے مسکرا مسکرا کر استقبال کرتے بلاول بھٹو کو دیکھتے مریم نواز کے ذہن میں ایک آدھ بار تو آیا ہی ہوگا کہ یہ وہی بلاول جو میرے والد نواز شریف کو مودی کا یار کہا کرتا، نواز شریف ڈرامے کرنے والا، بچوں جیسی سیاست کرنے والا، بے نظیر حکومت گرانے کیلئے اسامہ سے فنڈنگ لینے والا اور زرداری، بلاول کے یہ نعرے، مک گیا تیرا شو نواز، گونواز گونواز۔

زیادہ نہیں تو بلاول کے ساتھ، زرداری صاحب کے سامنے بیٹھی مریم نواز نے ایک آدھ بار تو یہ سوچا ہوگا کہ یہی تو تھے جو کل تک نواز شریف کو دھرتی کا ناسور، درندہ کہا کرتے، جو کل تک کہا کرتے ’’مغل اعظم نواز شریف کا اصلی احتساب کیا جائے اور ہم نے اگر اب نواز شریف کو معاف کردیا تو پھر اللہ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا‘‘ پھر جب مریم نواز کے کہنے پر حمزہ اور بلاول گلے مل رہے ہوں گے تو سینے سے سینہ لگائے دونوں کے سینوں میں دھڑکتے دلوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔

سوچوں، کیا لمحے، کیا گھڑیاں، کیا پل، مریم کے کہنے پر حمزہ، بلاول کی جپھی، کیا یہ تینوں اب زندگی بھر کسی کو یوٹرن کا طعنہ دے سکیں گے اور پھر ’جادو کی اس جپھی‘ کے بعد حمزہ شہباز کا چہرہ اترا، مٹھی بھنچی ہوئی کیوں، کیا یہ سوچ تو نہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی، مستقبل مریم نواز کی مٹھی میں، یہ خیال تو نہیں کہ اب ساری عمر مریم نواز کے ماتحت کام کرنا ہوگا یا ضمیر کی آواز کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آپہنچے، دلوں میں کیا، واللہ اعلم بالصواب، دلوں کے بھید اللہ جانے مگر حمزہ کا چہرہ جو کہانی سنا رہا تھا، یہ وہ کہانی ہرگز نہ تھی، جو اس محفل میں سنی سنائی جارہی تھی۔

کیا کہوں، دنیا بھر کی جمہوریت، سیاست تین ستونوں پر، اصول، اخلاقیات، منطق، اپنی جمہوریت، سیاست میں تینوں نہیں، کوئی ایک بھی ایسا سیاستدان نہ ملے جس کی سیاست اصولوں، اخلاقیات اور منطق پر، 71سالہ تاریخ میں ایک محمد علی جناح ؒ ہی ایسے جو ان اصولوں پر پورا اتریں۔

اب تو وہ تباہی، بربادی، وہ مندے کا رجحان کہ موجودہ کھیپ میں کوئی بھی لیڈر، رہنما کہلانے لائق ہی نہیں، سب نے مل ملا کر جمہوریت جیسے خوبصورت نظام کو مذاق، سیاست کو گالی بنادیا، اقتدار میں لوٹ مار، ڈیلیں، اپوزیشن میں عوامی درد، جس کا جب داؤ لگے، داؤ لگالے، حالت یہ ٹاپ ٹین سیاست دانوں کو سامنے رکھیں، سیاست میں آنے سے پہلے کے اثاثے دیکھیں، اب کی دولتیں دیکھ لیں، انہی ٹاپ ٹین سیاست دانوں کو سامنے رکھیں، تحقیق کر لیں، کسی کی جمہوریت، سیاست اصول، اخلاقیات اور منطق پر کھڑی ہو۔

لیکن میں کس دیس میں کن اصولوں کو لے کر بیٹھ گیا، یہاں ان چیزوں کا کیا کام، اپنی جمہوریتیں، سیاستیں چائنا مارکیٹ، سودا بیچنے، خریدنے والے، سبحان اللہ، مجھے یقین بلاول، مریم، حمزہ کے دِلوں، دماغوں میں کوئی ’اصولی خیال‘ نہیں آیا ہوگا، اگر آیا بھی ہوگا تو اگلے ہی لمحے خیال کا وہی حشر ہوگیا ہوگا، جو حشر ان کے میثاقی معاہدوں کا ہو چکا، ویسے خیال آئے بھی کیسے، سب کے دل و دماغ مفادات بھرے، سب کی تازہ تازہ موجیں ختم، نئی نئی چوہدراہٹیں گئی ہوئیں۔

اوپر سے سب سے سوال پوچھے جارہے، دولتوں کا حساب کتاب ہو رہا، یہ تو باریوں والے لوگ تھے، آج میری باری، کل تیری باری، مل بانٹ کر کھانے والے، درمیان میں عمران خان آگیا، اب جان کے لالے پڑے ہوئے، کم ازکم مجھے تو یہ خوش فہمی نہیں کہ یہ سب 22کروڑ کیلئے تڑپ رہے، عوامی درد میں بیٹھکیں سجا رہے، ان کا کل بھی، ان کا آج بھی اپنے لئے، اپنوں کیلئے، باقی سب کمپنی کی مشہوری، جمہوریت کا تو نام استعمال ہورہا، ملک و قوم کا درد تو ایک دکھاوا۔

سوچئے بلاول بھٹو کے دل میں اگر واقعی عوام کا درد تو سندھ میں گزشتہ 11سال سے اپنی حکومت، وہاں ہی خوشحالی آجاتی، اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو سندھ میں وسائل بمعہ اختیارات بلاول کے پاس، لاڑکانہ کیوں ایڈز گھر ہو چکا، کراچی کیوں کوڑا کوڑا، سندھ کیوں اجڑا اجڑا، یہ جمہوری ڈرامے، یہ میثاقی مجلسیں، یہ سستے روپے مہنگے ڈالر کے رونے، یہ بدتر معاشی حالات کے ٹسوے، یہ آنیاں جانیاں، سب فلمی بلکہ ویری فلمی، ایسی فلمیں ابھی اور آنے والیں۔

میری قوم کتنی خوش نصیب کہ اس مہنگائی، بے روزگاری کے دور میں مفتو مفت یہ فلمیں دیکھنے کو مل رہیں، واہ، کیا منظر، کل پیٹ چیرو، چوکوں پہ لٹکاؤ پروگرام، آج مریم کا استقبال بلاول کررہا، بلاول کو حمزہ سینے سے لگائے کھڑا، زرداری صاحب بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیر رہے اور پاس کھڑے مولانا افضل الرحمٰن مسکرا رہے، انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ، انجوائے کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
مصلحتوں کے مارے لوگ۔ اعتراف جرم کرنےوالوں سے پیسے نہیں لےسکتے۔ ملک کےخلاف بکواس کرنے والوں کے خلاف ثبوت ہیں کاروائی نہیں کر سکتے ۔مجرموں کو لیڈر بننے سے نہیں روک سکتے ۔ملک میں فساد برپا کرنے والے غیر ملکیوں کو واپس نہیں بھیج سکتے۔ ہم کیا ہیں آخر آخر ہم ہیں کیا؟ ہم غلام ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
حقائق جاننے کے بعد اپنا محبوب سیاسی لیڈر پسند کریں۔۔۔
  • بھٹو: جنرل ایوب کی کابینہ سے سیاست کا آغاز
  • نواز شریف: جنرل ضیا کی کابینہ سے سیاست کا آغاز
  • بینظیر: موروثی لیڈر
  • زرداری: خاندانی لیڈر
  • شہباز: خاندانی لیڈر
  • حمزہ: موروثی لیڈر
  • بلاول: موروثی لیڈر
  • مریم: موروثی لیڈر
  • عمران: سڑک سے سیاست کا آغاز۔ دو اسٹیبلشڈ پارٹیز کے خلاف ۲۲ سالہ جد و جہد۔ وزیر اعظم بننے سے قبل کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھا
 

جاسم محمد

محفلین
اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی: برطانیہ اور پاکستان میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
ef76a178261a38c9ec5dbcaab7ef71a8_1.jpg

لندن: سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی کے طریقہ کار پر بات چیت کے لیے برطانیہ اور پاکستان میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوگئے۔

مفاہمت کی یادداشت پر برطانوی عہدیدار گرائم بگر اور پاکستان کی طرف سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے دستخط کیے۔

ذرائع کے مطابق مفاہمت کی یادداشت تحویل مجرمین کے معاہدہ کی عدم موجودگی میں قانونی بنیاد فراہم کرے گی۔

مفاہمتی یادداشت کے متن کے مطابق پاکستان اور برطانوی حکومتیں اسحاق ڈار کی پاکستان حوالگی کے لیے ہم آہنگی پر پہنچ گئی ہیں اور مفاہمت کی یادداشت کا مطلب ہے کہ اسحاق ڈار کو قانونی کارروائی کے لیے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

متن کے مطابق مفاہمت کی یادداشت جرم سے نمٹنے میں زیادہ متحرک تعاون فراہم کرے گی۔

یاد رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف احتساب عدالت میں نیب ریفرنس زیرسماعت ہے اور وہ پاناما کیس کے فیصلے کے کچھ عرصے بعد علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے جس کے بعد وطن واپس نہیں آئے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت کی جانب سے ان کے اور اہلیہ کے پاسپورٹ منسوخ کردیے گئے ہیں اور وہ بغیر پاسپورٹ کے برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔
 
Top