حُسنِ یوسف پر کٹی تھیں انگلیاں دو چار کی-----برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔-----------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
حُسنِ یوسف پر کٹی تھیں انگلیاں دو چار کی
سر ہمارے کٹ رہے ہیں چاہ میں سرکارﷺ کی
------------------
ہم ہزاروں جان سے قربان اُن کی ذات پر
لوگ قیمت پوچھتے ہیں ہم سے اُن کے پیار کی
--------------
ہم جہاں میں جی رہے ہیں بس انہیں کے واستے
ہے زیادہ زندگی سے بھی طلب دیدار کی
-----------یا---
زندگی میں اک طلب ہے اُن کے ہی دیدار کی
--------------
اُن کے رستے پر ہی نکلے جان میری اے خدا
یہ ملے تو پھر نہیں ہے چاہ اس سنسار کی
--------------
دل میں میرے جل رہا ہے اُن کی یادوں کا دیا
بس خدایا چاہتا ہوں حاضری دربار کی
-----------------
اُن کے رستے پر چلوں میں دل سے اُٹھتی ہے دعا
اے خدایا سُن دعائیں تُو ہی اس لاچار کی
-----------------
اُن سے ارشد اس جہاں میں سب اجالا ہے بھرا
اُن سے گلشن چل رہا ہے جان ہیں گلزار کی
 

فلسفی

محفلین
حُسنِ یوسف پر کٹی تھیں انگلیاں دو چار کی
سر ہمارے کٹ رہے ہیں چاہ میں سرکارﷺ کی
واہ ارشد بھائی آج تو کمال کردیا، بھئی واہ، مزہ آگیا

ویسے حسن یوسف دیکھ کر۔۔۔۔ ہونا چاہیے تھا اور شاید دوسرا مصرع بھی مزید بہتر ہوسکتا ہے لیکن آپ کے تخیل کے کیا کہنے۔۔۔ بھئی واہ بہت سی داد

اللہ پاک کرے زور قلم اور زیادہ
 

الف عین

لائبریرین
حُسنِ یوسف پر کٹی تھیں انگلیاں دو چار کی
سر ہمارے کٹ رہے ہیں چاہ میں سرکارﷺ کی
------------------ آج تخیل نے اچھی اڑان بھری ماشاء اللہ
اگرچہ 'دیکھ کر' واقعی ابلاغ کے لیے ضروری تھا لیکن شعر اچھا ہو تو ایسی غلطیاں فراموش کی جا سکتی ہیں، شعر معمولی ہوتا، ہزار بار کا گھسا پٹا مفہوم ہوتا تو سخت گرفت ہوتی!

ہم ہزاروں جان سے قربان اُن کی ذات پر
لوگ قیمت پوچھتے ہیں ہم سے اُن کے پیار کی
-------------- یہ بھی اچھا خیال ہے، خاص کر دوسرا مصرع بولتا ہوا ہے۔ پہلے میں قربان کی بجائے 'قرباں ہیں' کر دیں

ہم جہاں میں جی رہے ہیں بس انہیں کے واستے
ہے زیادہ زندگی سے بھی طلب دیدار کی
-----------یا---
زندگی میں اک طلب ہے اُن کے ہی دیدار کی
-------------- دوسرا مصرع یوں بہتر ہو گا؟
اپنی ہستی سے زیادہ ہے طلب دیدار کی

اُن کے رستے پر ہی نکلے جان میری اے خدا
یہ ملے تو پھر نہیں ہے چاہ اس سنسار کی
-------------- یہ ملے؟ یعنی کیا ملے؟ واضح نہیں
'رستے میں' بہتر رہے گا؟
دوسرا مصرع شاید یوں واضح ہو
یوں اگر ہو، پھر نہیں ہے چاہ.....

دل میں میرے جل رہا ہے اُن کی یادوں کا دیا
بس خدایا چاہتا ہوں حاضری دربار کی
----------------- درست

اُن کے رستے پر چلوں میں دل سے اُٹھتی ہے دعا
اے خدایا سُن دعائیں تُو ہی اس لاچار کی
-----------------
اُن سے ارشد اس جہاں میں سب اجالا ہے بھرا
اُن سے گلشن چل رہا ہے جان ہیں گلزار کی
.. روانی اچھی نہیں۔ پہلے مصرع میں آخر میں
....... ہر طرف ہے روشنی
بہتر ہو گا، اجالا بھرا کی جگہ۔ ویسے گلزار کی مناسبت سے
یہ جہاں سارا معطر ہو گیا
بہتر ہو گا
اور دوسرا
ہیں چمن کی آبرو وہ، جان ہیں گلزار کی
 
الف عین
----------
آپ کی منشا کے مطابق حسنِ یوسف والا شعر تبدیل کیا ہے
جس کی وجہ سے مطلع تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئی
--------------------
جو بھی کرتا ہے حفاظت دنیا میں کردار کی
وہ ہی پائے گا شفاعت حشر میں سرکار کی
------------
آج رحمت جوش میں ہے میرے رب ، غفّار کی
اُس سے مانگو سب دعائیں ہے گھڑی افطار کی
-----------------
حسنِ یوسف دیکھ کر تو کٹ گئی تھیں انگلیاں
سر ہمارے کٹ رہے ہیں چاہ میں سرکار کی ( سر ہمارے کٹ رہے ہیں آن پر سرکارﷺ کی )
------------------
ہم ہزاروں جان سے قرباں ہیں اُن کی ذات پر
لوگ قیمت پوچھتے ہیں ہم سے اُن کے پیار کی
----------------
ہم جہاں میں جی رہے ہیں بس انہیں کے واستے
اپنی ہستی سے زیادہ ہے طلب دیدار کی
--------------
اُن کے رستے میں ہی نکلے جان میری اے خدا
یوں اگر ہو ، پھر نہیں ہے چاہ اس سنسار کی
-------------
دل میں میرے جل رہا ہے اُن کی یادوں کا دیا
بس خدایا چاہتا ہوں حاضری دربار کی
----------------
اُن کے رستے پر چلوں میں دل سے اُٹھتی ہے دعا
اے خدایا سُن دعائیں تُو ہی اس لاچار کی
-----------------
اُن سے ارشد اس جہاں میں ہر طرف ہے روشنی
ہیں چمن کی آبرو وہ، جان ہیں گلزار کی
-----------
اُن سے ارشد یہ جہاں سارا معطّر ہو گیا
ہیں چمن کی آبرو وہ ، جان ہیں گلزار کی
 

الف عین

لائبریرین
مطلع بدل دیا، اچھا کیا کہ اب وہی شعر زیادہ رواں ہو گیا۔
نیا مطلع
جو بھی کرتا ہے حفاظت دنیا میں کردار کی
وہ ہی پائے گا شفاعت حشر میں سرکار کی
------------ دنیا کا الف گر رہا ہے جو اچھا نہیں، اس کی بجائے 'دہر' استعمال کریں
وہ ہی' بجائے' وہی' پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے، الفاظ بدل کر دیکھیں،' حشر میں' نکال کر
جیسے
مل گئی اس کو شفاعت بالیقیں سرکار کی

آج رحمت جوش میں ہے میرے رب ، غفّار کی
اُس سے مانگو سب دعائیں ہے گھڑی افطار کی
----------------- میرے رب پہلے مصرع میں اور' سب' دوسرے میں بھرتی کا ہے۔ سوال یہ بھی آٹھ سکتا ہے کہ آج ہی کیوں؟ کیا شاعر نے آج کا ایک ہی روزہ رکھا ہے؟
جوش میں رحمت ہے ربِّ غافر و غفار کی
مانگ لو جو مانگنا ہے، ہے گھڑی....
ایک مشورہ

اُن کے رستے پر چلوں میں دل سے اُٹھتی ہے دعا
اے خدایا سُن دعائیں تُو ہی اس لاچار کی
------------- یہ شعر چھوٹ گیا تھا پہلے
دعا لفظ کو دونوں مصرعوں میں دہرایا نہ جائے تو بہتر ہے
پہلے مصرع میں 'دل میں ہے یہ آرزو' کیا جا سکتا ہے

واستے اب بھی غلط املا کے ساتھ موجود ہے 'واسطے' کے لیے!
باقی تو میرے مشوروں پر عمل ہی کیا گیا ہے
 
Top