یہ بھی گھگو گھوڑے

جاسم محمد

محفلین
یہ بھی گھگو گھوڑے
15/05/2019 ضیا الرحمان، سرگودھا



چند دن پہلے ایک بڑے کالم نگار کا کالم نظر سے گزرا۔ یہ ایک نہایت غیر سیاسی کالم تھا، جس میں بارہا گھگو گھوڑے کا ذکر تھا۔ اس کالم کو پڑھنے کے بعد میرا خیال گھگو گھوڑوں کی ایک دوسری قسم کی طرف گیا۔ یہ وہ گھگو گھوڑے ہیں، جو شام سات سے لے کر رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرین پر نظر آتے ہیں، اور یہ لوگوں کی رائے قائم کرنے کا ایک اہم کام سر انجام دیتے ہیں۔

بظاہر تو یہ گھگو گھوڑے نہایت ذہین ہیں لیکن ان میں سے بھی اکثریت میں عقل کا فقدان ہے۔ یہ لوگ نظر تو نہایت چرب زبان آتے ہیں، لیکن الفاظ ان کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ ان کے منہ میں دوسروں کی طرف سے بھرے جاتے ہیں۔ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اور قلم سے نکلنے والے تحریروں کی قیمت کبھی ایک در سے لگتی ہے تو کبھی کسی دوسرے در سے۔

یہ گھگو گھوڑا دوسرے گھگو گھوڑے سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ کیونکہ یہ صرف جہاں فائدہ دیکھتا ہے، وہاں جا بیٹھتا ہے۔ اسی کے گن گاتا ہے۔ اس میں لچک بھی زیادہ ہے اور یہ بوقتِ ضرورت اپنے دیوتا بدلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ بیان دے کر پھرنا اس کے اجزائے ترکیب کا اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔ یہ کبھی کسی نجی کمپنی یا ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک سے مراعات لیتا ہے، تو کبھی کسی کی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے ایک مہرہ بن کر استعمال ہوتا ہے۔ مراعات بھی کئی اقسام کی ہوتی ہیں، کبھی مہنگی گاڑی اور موبائل فون تو کبھی کوئی حکومتی اعزاز کی صورت ہوتی ہے۔

ان کے اجزائے ترکیب میں بھی ثقافت کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے اور اسے بھی لوکل ساخت پر بنایا جاتا ہے، بلکہ یہ لوگ تو خود ثقافت کو ایک نیا رنگ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسی اشیا کو فروغ دیتے ہیں، جس کا فائدہ صرف اور صرف امرا کو ہوتا ہے۔ کبھی مہنگے کرتے یا جوتوں کو فروغ دے کر خواہشات کو ابھارا جاتا ہے۔ اور بڑے بڑے برینڈ چلانے والوں کو فائدہ پہنچا کر مراعات وصول کی جاتی ہیں، تو کبھی بڑی گاڑیوں کا کلچر عام کر کے یہ کام سر انجام دیا جاتا ہے۔

یہ گھگو گھوڑا دوسرے گھگو گھوڑوں سے مشابہت بھی رکھتا ہے، کہ یہ بھی دور سے نہایت چمکدار اور خوبصورت نظر آتا ہے لیکن اس کا اندر بہت کھوکھلا اور بد صورت ہے۔ اس کے دیوتا کسی کو اس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ یہ گھگو گھوڑے بھی خود کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کو بس لگام کھینچ کر چلایا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ان کی لگام کبھی ایک کے ہاتھ میں ہوتی ہے، تو کبھی دوسرے کے۔ غرض یہ کہ ان کے خریدار بدلتے چلے جاتے ہیں اور ان کے اکاؤنٹس کا حجم بڑھتا رہتا ہے۔

در اصل یہ گھگو گھوڑا خود بھی بہت سے ابہام میں مبتلا ہے۔ اس کو خود اپنے کردار کی سمجھ نہیں آتی۔ یہ کبھی ریاست کا چوتھا ستون ہونے کا دعوا کرتا ہے، لیکن اس دعوے کے ساتھ آنے والی ذمہ داریوں سے گھبرا کے کہہ دیتا ہے کہ ہم تو انڈسٹری ہیں، جو کہ انٹرٹینمنٹ کے ذریعے پیسہ بنا رہا ہے۔ اس سے کوئی سوال پوچھ لیا جائے ان کے مکر کے بارے میں تو فوراً مظلوم بن جاتا ہے، کہ ہمیں تو اَن دیکھی بیڑیوں میں جکڑ کے رکھا گیا ہے اور ہمارے بولے گئے سچ کو تو دبا دیا جاتا ہے۔ در اصل انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی جکڑ رکھا ہے۔ کیونکہ ان کو بیڑیوں کے ساتھ ملنے والی مراعات حد درجہ تک محبوب ہیں۔ یہ قوم کی آنکھوں میں نہایت آسانی سے دھول جھونک رہے ہیں۔

نوٹ: اس کالم کی بہت سی جانی مانی شخصیات سے مشابہت بالکل غیر حقیقی ہوگی۔
 
Top