ہماری صلاح: ڈاکٹر خورشید رضوی سے معذرت کے ساتھ

اتوار کی صبح آنکھ کھلتے ہی یہ خیالِ جانفزا مشام جاں کو معطر کرنے کے لیے کافی ہے کہ آج چھٹی ہے، فوراً رگِ شرارت پھڑک اٹھتی ہے۔ آج بھی یہی ہوا۔ عصرِ حاضر کے نامور اور مستند شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کی مندرجہ ذیل غزل باصرہ نواز ہوئی تو ان کی غزل پر بھی اپنی 'صلاح' دینے کی سوجھی، حالانکہ حال ہی میں ایک بزعمِ خود شاعر کے ہاتھوں اپنی بھد اّڑوا چکے! بہر حال ذہنی رو بہک گئی سو بہک گئی۔

ڈاکٹر صاحب نے شاید بحر "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" کے ساتھ ایک خوبصورت تجربہ کرتے ہوئے یہ غزل کہی ہے (اساتذہ بہتر خیال آرائی کرسکتے ہیں) ، ادھر ہم بھی غالب کے خط کو منظوم کر چکے ہیں، لہذا قلم اٹھایا اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی غزل کو واپس "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" میں لا نے کی سعی کرڈالی۔ کہاں تک کامیاب ہوپائے یہ اساتذہ و دیگر محفلین جانیں۔

غزل
ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ

ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ

گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ

بتا اے زندگی یہ کون سی منزل ہے
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ

یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصر
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ

گری ہے تاک پر شاید چمن میں بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ

غزل کس بحر میں خورشیدؔ یہ لکھ ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ
خورشید رضوی

ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ آزردہ

ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ آزردہ

گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں بھی یہ سّن سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ آزردہ

بتا اے زندگی یہ کون سی منزل پہ لے آئی
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ آزردہ

یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصرِ خاکی
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ آزردہ

گری ہے تاک پر شاید چمن میں آج ہی بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ آزردہ

غزل کس بحر میں خورشیدؔ کی میں نے بنا ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ آزردہ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
محمد خلیل الرحمٰن ، محمد ریحان قریشی ، الف عین
محمد وارث حضرات ویسے اس کی صحیح تقطیع کیا یے خورشید صاحب کی غزل کی؟؟؟؟
کئی مصرع (نیام ۔ بام اور جام والے) "مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن" پر بھی آ رہے ہیں ۔ لیکن صاحب غزل کے مقطع سے یہ تجربہ ہی معلوم ہوتا ہے اور اگر اس تجربے کو مقبول سمجھا جائے تو یہ مصرع ذو بحرین پر پورے اترتے ہیں ۔
البتہ تجربے میں خلیل بھائی نے بہت خوب ڈینٹ نکالے ہیں بغیر ہتھوڑے کے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سید عاطف علی حضرت مصرعہ ذوبحرین کیا ہے؟
کچھ اشعار یا مصرع ایک ہی وقت میں بغیر کسی تبدیلی کے ایک سے زیادہ بحروں میں تقطیع کیے جاسکے ہیں انہیں ذو بحرین کہا جاتا ہے ۔

کس کا جمال ناز ہے جلوہ نما یہ سو بسو
گوشہ بگوشہ دربدر قریہ بہ قریہ کو بہ کو
رئیس امروہوی۔
یہ شعر ان دو بحروں پر پورا اترتا ہے۔
فاعلتن مفاعلن فاعلتن مفاعلن
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
 
آخری تدوین:
فرحان محمد خان بھائی یہ بحر تو کچھ نئی معلوم ہوتی ہے، پہلے کبھی نہیں سنی، سید ذیشان بھائی کی عروض سائٹ پر بھی نہیں ہے۔
یا الہی! یہ ماجرا کیا ہے؟

غزل کس بحر میں خورشیدؔ یہ لکھ ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ
خورشید رضوی
 
فرحان محمد خان بھائی یہ بحر تو کچھ نئی معلوم ہوتی ہے، پہلے کبھی نہیں سنی، سید ذیشان بھائی کی عروض سائٹ پر بھی نہیں ہے۔
یا الہی! یہ ماجرا کیا ہے؟
عروض پر اردو کی مستعمل اور مانوس بحور ہی شامل ہیں اور یہ بحر اُردو میں مستعمل نہیں شاید اس لیے وہاں سے آپ کو اس کی درست تقطیع نہیں مل سکے گئی
 

الف عین

لائبریرین
استاد ِِ محترم ہمارا تجربہ بھی دیکھیے کہ کیا اسے دوسری بحر میں کامیابی کے ساتھ منتقل کر پائے ہیں؟
معذرت کہ محض زبردست کا بٹن دبا کر چھوڑ دیا اور جس نکتے پر بحث چل رہی تھی صرف اس کا جواب دیا اوپر
واقعی زیادہ خوبصورت اور رواں ہو گئی ہے غزل
 

یاسر شاہ

محفلین
ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ آزردہ

ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ آزردہ

گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں بھی یہ سّن سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ آزردہ

بتا اے زندگی یہ کون سی منزل پہ لے آئی
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ آزردہ

یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصرِ خاکی
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ آزردہ

گری ہے تاک پر شاید چمن میں آج ہی بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ آزردہ

غزل کس بحر میں خورشیدؔ کی میں نے بنا ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ آزردہ
السلام علیکم خلیل بھائی
بہت خوب آپ نے غزل کو معمولی تبدیلیوں سے کہاں سے کہاں پہنچا دیا -ایسا لگتا ہے یہ تبدیل شدہ غزل ہی اصل ہے -


ایک صلاح ہماری بھی سن لیجیے - مذاقا ہی سہی دو بار آپ فرما چکے ہیں کہ آپ نے مجھے خرید لیا تو سوچا کچھ عرض کر لوں -

حال ہی میں ایک بزعمِ خود شاعر کے ہاتھوں اپنی بھد اّڑوا چکے!

یہ جملہ آپ کے شایان شان نہیں تھا جبکہ یہ صاحب سر محفل معافی بھی مانگ چکے تھے -آپ سے تو عالی ظرفی کی توقع زیادہ ہے کہ آپ نئی نسل کو دل سے معاف کر دینے کا عملی سبق دیں گے -اب تو خیر یہ صاحب بھی آپے سے باہر ہو گئے ہیں یا کر دیے گئے ہیں -

ایک واقعہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے معاف کر دینے پہ اکساتا ہے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒاپنے کسی خادم سے ناراض ہوگئے خادم معافی مانگتا تھا اور حضرت فرماتے تھے کہ یہ غلطی تم پہلے بھی کئی بار کر چکے ہو "میں تمھیں کتنا بھگتوں ؟" پاس ہی حضرت کے چچا بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاسؒ بیٹھے تھے انھوں نے حضرت کے کان میں فرمایا :"میاں بھتیجے! جتنی اپنی بھگتوانی ہے اتنا بھگت لو "یعنی جتنی اپنی خطائیں قیامت کے دن معاف کروانا چاہتے ہو اتنی مخلوق کی خطائیں معاف کر دیا کرو -

میرا ماننا ہے اصلاح مسلّط کرنے والی چیز ہی نہیں -جس طرح باطن کی اصلاح کا معاملہ ہے کہ جس شیخ سے مناسبت ہو وہیں سے اصلاح کروانے سے فائدہ ہوتا ہے ورنہ نقصان ،شاعری کا بھی قریب قریب یہی معاملہ ہے -ماضی میں بھی استاد شعراء نے جس سے شعری مناسبت دیکھی وہیں سے اصلاح کروائی اور شہرہ ہوا کہ فلاں کا استاد فلاں اور فلاں کا استاد فلاں -میں ہرچند استاد نہیں ،اس سیکشن میں آپ کی طرح صلاح دیتا ہوں اور تنقید کرتا ہوں لیکن اگر کوئی مجھے ٹیگ نہ کرے تو حتی الامکان تبصرے سے گریز کرتا ہوں اور دیگر سیکشنز میں بھی جہاں قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف میری صلاح سے بدکیں گے وہاں کچھ لکھنے سے گریز ہی کرتا ہوں -

فاخر صاحب کی مناسبت اعجاز صاحب سے ہے اور ان کے ساتھ نہایت مؤدّبانہ سلوک روا رکھتے ہیں تو رہنے دیجیے -یہ جانیں اور اعجاز صاحب جانیں -

خواہ محفل کے اصول کچھ بھی ہوں ایک اصول مشعل راہ بنانے کے قابل ہے کہ بقول انیس :


خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
 

عرفان سعید

محفلین
اتوار کی صبح آنکھ کھلتے ہی یہ خیالِ جانفزا مشام جاں کو معطر کرنے کے لیے کافی ہے کہ آج چھٹی ہے، فوراً رگِ شرارت پھڑک اٹھتی ہے۔ آج بھی یہی ہوا۔ عصرِ حاضر کے نامور اور مستند شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کی مندرجہ ذیل غزل باصرہ نواز ہوئی تو ان کی غزل پر بھی اپنی 'صلاح' دینے کی سوجھی، حالانکہ حال ہی میں ایک بزعمِ خود شاعر کے ہاتھوں اپنی بھد اّڑوا چکے! بہر حال ذہنی رو بہک گئی سو بہک گئی۔

ڈاکٹر صاحب نے شاید بحر "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" کے ساتھ ایک خوبصورت تجربہ کرتے ہوئے یہ غزل کہی ہے (اساتذہ بہتر خیال آرائی کرسکتے ہیں) ، ادھر ہم بھی غالب کے خط کو منظوم کر چکے ہیں، لہذا قلم اٹھایا اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی غزل کو واپس "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" میں لا نے کی سعی کرڈالی۔ کہاں تک کامیاب ہوپائے یہ اساتذہ و دیگر محفلین جانیں۔



ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ آزردہ
کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ آزردہ

ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ آزردہ
کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ آزردہ

گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں بھی یہ سّن سُن کر
ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ آزردہ

بتا اے زندگی یہ کون سی منزل پہ لے آئی
ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ آزردہ

یہ خاکِ سُست رَو اس کے ہیں اپنے عنصرِ خاکی
نہ ہو اس سے ہوائے تیز گام آزردہ آزردہ

گری ہے تاک پر شاید چمن میں آج ہی بجلی
پڑے ہیں سر نگوں مینا و جام آزردہ آزردہ

غزل کس بحر میں خورشیدؔ کی میں نے بنا ڈالی
نہ کر محفل کو یوں اے کج خرام آزردہ آزردہ
آزردہ آزردہ کی تکرار نے بھی کیا حسن پیدا کیا ہے۔
بے اختیار یہ نعت یاد آ گئی، جو کہ اسی بحر میں ہے۔

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

غلامانِ محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دلِ گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ

کہاں میں اور کہاں اس روضہِ اقدس کا نظّارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ

مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ، فضا سنجیدہ سنجیدہ

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

وہی اقبؔال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
 
Top