نشیمن پر نشیمن۔۔۔۔یہ اشعار کس کے ہیں؟

شکیب

محفلین
http://www.urduweb.org/mehfil/threa...ر-ہو-جائے-۔-جگر-مرادآبادی.24706/#post-1760804
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بے زار ہو جائے
میں سینہ تان کے کب سے کھڑا ہوں دیکھتے کیا ہو؟
اک ایسا تیر پھینکو جو جگر کے پار ہو جائے

میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ دو اشعار اگر اس غزل کے نہیں ہیں، تو کس شاعر کے ہیں۔ہمارے جونیر کالج میں غزل سرائی کے مقابلے میں یہی غزل پڑھی گئی تھی، اور پانچ اشعار میں سے دو یہ تھے۔ شروعات 'یہ مصرع کاش۔۔۔۔' سے ہوئی تھی۔
 

شبّیر احمد

محفلین
مذکورہ شعر سعیدؔ شہیدی کا ہے۔ ان کا اصل نام میر عابد علی، تخلص: سعیدؔ اور قلمی نام: سعیدؔ شہیدی تھا۔ وہ شہید یار جنگ (مشیر خاص نواب میر عثمان علی خاں نظام ہفتم) کے بیٹے تھے۔ 14 جولائی 1914 ء کو پیدا ہوئے اور 15 مئی 2000 ء کو وفات پائی۔ حیدرآباد دکن کی سرزمین کو اپنے اس فرزند ارجمند پر ناز ہے۔ ریختہ پر ان کا ایک شعر سعید شاہدی کے نام سے درج ہے۔ ریختہ پر اچھا کام ہو رہا ہے مگر ابھی انہیں معیار بننے کیلئے تحقیق و جستجو کے کئی سنگ میل اور عبور کرنے ہوں گے۔ سعید شہیدی کی شاعری کے مجموعے اہلیان حیدرآبادمیں آج بھی مقبول ہیں۔
ڈاکٹر فاروق شکیل 28 اکتوبر 2016ء کو روزنامہ سیاست، حیدرآباد میں ادبی ڈائری میں اپنے کالم بعنوان "زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے سعید شہیدی اجمالی تعارف" میں لکھتے ہیں:

نام: میر عابد علی، تخلص : سعید، قلمی نام: سعید شہیدی، تاریخ پیدائش: 14 جولائی 1914 ء ، تعلیم : ایف اے ، تاریخ وفات : 15 مئی 2000 ء ، کتابیں : ’’خاکِ شفا‘‘ (سلام ، مرثیے، نوحے) ، عرفانِ وفا، (منقبتیں) ،کوثر و تسنیم ، (حمد ، نعت ، قصائد) ، اے رات ذرا آہستہ گزر، (سلام ، نوحے) ، کوثر پر ہم ملیں گے (قصائد) ، ’’برق و آشیاں (غزلیں، شفق، (غزلیں) ، آفتاب غزل ، (غزلیں) ’’کف گل فروش‘‘ (غزلیں) ، ’’سرِ شام (غزلیں)، اسفار: پاکستان، لندن ، کویت ، دوحہ قطر
سعید شہیدی ، شہید یار جنگ کے فرزند ارجمند تھے جو نواب میر عثمان علی خاں نظام ہفتم کے مشیر خاص تھے اور شہید یار جنگ کے لقب سے نوازے گئے تھے ۔ سعید شہیدی کئی حیثیتوں سے ممتاز تھے ، نہ صرف وہ بڑے باپ کے بیٹے تھے بلکہ انہوں نے خاندانی وجاہت کے ساتھ علم و ادب کے چراغ کو بھی روشن رکھا ۔ ڈاکٹر وحید اختر رقم طراز ہیں۔ سعید شہیدی نے روایتی غزل کی لفظیات کو اپنے انفرادی مجربات اور اپنے عہد کے شعور کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ یہی ان کی غزل کی منفرد خصوصیت ہے جس کی وجہ سے حیدرآباد کے روایتی غزل نگاروں کے ہجوم میں اپنے لہجے اور اپنی لفظیات کی بنا پر الگ پہچان لئے جاتے ہیں ۔ سعید شہیدی نے روایت کا احترام کیا ہے ۔ غزل کے حسن کو روایتی حسن سے اس طرح سنوارا کہ ایک زمانے کو گرویدہ کرلیا ۔ نہایت عام فہم زبان سادگی اور سلاست سے بھرپور۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کو ہندوستان کے مشہور فنکاروں نے دلنشین دھنوں میں پیش کر کے مقبول کردیا جن میں قابل ذکر بیگم اختر، جگجیت سنگھ ، رؤف ، وٹھل راؤ، طلعت عزیز وغیرہ ہیں۔ سعید شہیدی کے فرزند دل بند رشید شہیدی نے اپنے والد کی وراثت کی حفاظت کی ہے اور ’’بزم سعید‘‘ قائم کی ہے جس کے تحت ا کثر مشاعروں کا انعقاد بھی عمل میں آیا ہے۔ رشید شہیدی خود جدید لب و لہجہ کے منفرد شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کی صد سالہ تقاریب منانے کا فیصلہ کیا ہے جو عنقریب منعقد ہونے والی ہیں۔ سعید شہیدی کا دور شعر و ادب کا سنہری دور تھا ان کے بغیر بڑے مشاعروں کا تصور بھی نہیں کیاجاتا تھا۔ ان کے بغیر حیدرآباد کی ادبی تاریخ ادھوری ہے۔
منتخب اشعار
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہوجائے
اہلِ حق کی فطرت ہے ، حق پہ آنچ جب آئے
سر کٹا تو سکتے ہیں سر جھکا نہیں سکتے
کیسے سکون پاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اب کیا غزل سناؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اللہ جانے پھر یہ اندھیرا ہے کس لئے
آیا تھا انقلاب اجالا لئے ہوئے
ہنساتے ہیں مجھ کو رلانے سے پہلے
بنانے کی کوشش مٹانے سے پہلے
سعید اچھی تھی پہلی بے قراری
سکوں سے اور جی گھبرا رہا ہے
شبِ فراق تم آئے تو یوں ہوا محسوس
کہ جیسے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھا ہے
ہمیں یاد آ آ کے تڑپانے والے
تجھے بھی جو ہم یاد آئیں تو کیا ہو
بہار آنے میں عرصہ ہے مانتا ہوں میں
اگر چمن میں کوئی آگیا تو کیا ہوگا
نہ فصلِ گل کی خطا ہے نہ بادلوں کا قصور
تری نظر نے بنایا ہے بادہ خوار مجھے
ابھی ابتدائی منازل ہیں غم کے
ابھی مسکرانے کی زحمت نہ کیجئے
اللہ اللہ میرے مرنے پر
ہورہا ہے زمیں کا سینہ چاک
غزل
دل جو وقفِ ستم ہوگیا
بے نیازِ کرم ہوگیا
حاجتِ چارہ گر اب نہیں
خود بخود درد کم ہوگیا
دل میں اب تم ہو ارماں نہیں
بتکدہ بھی حرم ہوگیا
جس نے غم کی اُڑائی ہنسی
خود گرفتارِ غم ہوگیا
دور نظروں سے جب وہ ہوئے
فاصلہ دل سے کم ہوگیا
ربط تھا برق سے اس قدر
آشیاں اس میں ضم ہوگیا
اصل میں ہے وہ انساں سعیدؔ
جس کو ادراکِ غم ہوگیا

حوالے کے لئے روزنامہ سیاست، حیدرآباد دکن کا ویب لنک درج کیا جاتا ہے:
/زمیں-کھا-گئی-آسماں-کیسے-کیسے-سعید-شہید-848357/https://urdu.siasat.com/news
 
محترم شکیب صاحب، جگر مراد آبادی کی غزل اسی زمین میں ہے، لیکن مذکورہ دونوں اشعار اس غزل کا حصہ نہیں۔ جگر مراد آبادی کی مکمل غزل درج ذیل ہے :
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے

وہی مے خوار ہے جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے

دل انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لب خاموش فطرت ہی لب گفتار ہو جائے

ہر اک بے کار سی ہستی بروئے کار ہو جائے
جنوں کی روح خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے

سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے

حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے

معاذ اللہ اس کی واردات غم معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو اور چمن بے زار ہو جائے

یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالم انسانیت پر بار ہو جائے

اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے
نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہو جائے

یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
 
photo.php
حاضر خدمت ہے حیدرآباد دکن کے معروف شاعر سعیدؔ شہیدی کےمجموعہ کلام شفق مطبوعہ 1975ء کے صفحہ 22-23 کی تصویر کا فیس بک لنک:
 
آخری تدوین:
حیدرآباد دکن کے معروف شاعر سعیدؔ شہیدی کےمجموعہ کلام شفق مطبوعہ 1975ء کے صفحہ 22-23 کی تصویر کا فیس بک لنک:
<iframe src="Facebook" width="500" height="542" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allow="encrypted-media"></iframe>
 
Top