قرآن کوئز 2019

ام اویس

محفلین
سورۂ توبہ آیت نمبر5، جس میں حرمت والے مہینوں اور مشرکین کا بیان ہے
آیت السیف

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اردو:

پس جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ اور انکو پکڑ لو۔ اور گھیر لو۔ اور ہر گھات کی جگہ انکی طاق میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
سورة التوبہ ۔ آیة ۔5
 

عباس رضا

محفلین
تزکیہ فعل لازم نہیں فعل متعدی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس خود سے نہیں ہوتا، کسی سے کروایا جاتا ہے۔۔۔
سطر کشیدہ بات مطلق نہیں ہے۔ تفسیرِ طبری میں دونوں وضاحتیں موجود ہیں کہ تزکیۂ نفس خود کرے یا ربّ کریم تزکیہ فرمائے۔ زکّٰی فعل کی اسناد ذاتِ خداوندی کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور مَنْ موصولہ کی طرف بھی۔ حذفِ اسناد کے ساتھ ذِکْر کررہا ہوں:
[arabic]عن ابن عباس ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) يقول: قد أفلح من زكَّى اللهُ نفسه.
عن مجاهد وسعيد بن جُبير وعكرِمة: ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) قالوا: من أصلحها.
عن قتادة ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) من عمل خيرا زكَّاها بطاعة الله.
عن قتادة ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) قال: قد أفلح من زكَّى نفسَه بعمل صالح.
قال ابن زيد، في قوله: ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) يقول: قد أفلح من زكى اللهُ نفسَه .[/arabic]
 

سید عمران

محفلین
سطر کشیدہ بات مطلق نہیں ہے۔ تفسیرِ طبری میں دونوں وضاحتیں موجود ہیں کہ تزکیۂ نفس خود کرے یا ربّ کریم تزکیہ فرمائے۔ زکّٰی فعل کی اسناد ذاتِ خداوندی کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور مَنْ موصولہ کی طرف بھی۔ حذفِ اسناد کے ساتھ ذِکْر کررہا ہوں:
[arabic]عن ابن عباس ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) يقول: قد أفلح من زكَّى اللهُ نفسه.
عن مجاهد وسعيد بن جُبير وعكرِمة: ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) قالوا: من أصلحها.
عن قتادة ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) من عمل خيرا زكَّاها بطاعة الله.
عن قتادة ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) قال: قد أفلح من زكَّى نفسَه بعمل صالح.
قال ابن زيد، في قوله: ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) يقول: قد أفلح من زكى اللهُ نفسَه .[/arabic]
تو تعارض کیا ہوا؟؟؟
تزکیہ فعل لازم نہیں فعل متعدی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس خود سے نہیں ہوتا، کسی سے کروایا جاتا ہے۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
درست یہ ہے کہ بندہ خود سے بھی تزکیۂ نفس کرسکتا ہے۔
کسی حد تک۔۔۔
لیکن بڑے امور میں استاد اور شیخ کی ضرورت رہے گی۔۔۔
ورنہ ’’ویزکیھم‘‘ کہہ کر اس کارِ عظیم کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ کی جاتی۔۔۔
چار کتابوں پر عمل کرانے کے لیے لاکھوں انبیاء کرام کی بعثت اس کا ثبوت ہے کہ محض کتابیں پڑھنے سے تزکیہ نہیں ہوتا جب تک مزکّی نہ ہو!!!
 

ام اویس

محفلین
کس آیة مبارکہ میں واضح کیا گیا
کہ تمہاری پسندیدگی و ناپسندیدگی کے باوجود تمہارے حق میں کیا بہتر ہے اسے صرف الله سبحانہ وتعالی جانتا ہے تم نہیں
 

عباس رضا

محفلین
[arabic]وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[/arabic]
ترجمہ: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(پارہ ۲، البقرۃ: ۲۱۶)
 

عباس رضا

محفلین
اولاد دینا ربِّ کریم کی شان ہے۔ خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے:
[arabic]لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ[/arabic]
ترجمہ: اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، پیدا کرتا ہے جو چاہے، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں، اور جسے چاہے بانجھ کردے بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔
(پارہ ۲۵، الشورٰی: ۴۹)
لیکن وہ کونسی آیت ہے جس میں (ربِّ کریم کی عطا سے) بیٹے دینے کی نسبت روحِ امین سیدنا جبرائیل [arabic]على نبينا وعليه الصلوة والسلام[/arabic] کی طرف کی گئی ہے؟
 

ام اویس

محفلین
بیٹا دینے کی نسبت تو جبرائیل علیہ السلام کی طرف نہیں کی گئی ۔
البتہ ان کو جبرائیل امین (جنہیں روح القدس کا خطاب دیا گیا ) سے مدد دی گئی اور ان کی تائید کی گئی ۔

جیسا کہ سورة بقرہ آیت 87 میں ہے

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

اردو:

اور ہم نے موسٰی کو کتاب عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسٰی ابن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس یعنی جبرائیل سے انکو مدد دی۔ تو کیا ایسا ہے کہ جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جنکو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تو تم سر کش ہو جاتے رہے اور ایک گروہ انبیاء کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔


ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے الله روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں۔
(فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی)۔

اور وہ دوسری آیت سورہ بقرہ آیت 253 ہے

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

اردو:

یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسٰی ابن مریم کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں۔ اور روح القدس سے ان کو مدد دی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے۔ لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

البتہ مندرجہ ذیل آیت کی تفسیر امام ابن کثیر یوں بیان فرماتے ہیں

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا

اردو:

اے اہل کتاب اپنے دین کی بات میں حد سے نہ بڑھو اور الله کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسٰی بس الله کے رسول ہی تھے اور اس کا خاص حکم تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے۔ تو الله اور اسکے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں اس اعتقاد سے باز آؤ کہ ایسا کرنا تمہارے حق میں بہتر ہے۔ الله ہی معبود واحد ہے۔ اور اس سے پاک ہے کہ اسکے اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔

تفسیر ابن کثیر

کلمۃ الله کا مطلب ہے کہ لفظ کن سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے حضرت مریم علیہ السلام تک پہنچایا گیا۔ روح الله کا مطلب وہ (پھونک) ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام الله کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے الله تعالٰی نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کر دیا۔ یوں عیسیٰ علیہ السلام الله کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں جسے لے کر جبرائیل علیہ السلام مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔
 

ام اویس

محفلین
جبرائیل على نبينا وعليه الصلوة والسلام کی طرف کی گئی ہے؟
جبرائیل علیہ السلام

علی نبینا کا مطلب ہے ہمارے نبی پر
اور جبرائیل علیہ السلام ہمارے نبی نہیں بلکہ الله کے مقرب فرشتے ہیں ۔ فرشتوں کے سردار اور روح الامین و روح القدس ہیں ۔
 

عباس رضا

محفلین
لیکن وہ کونسی آیت ہے جس میں (ربِّ کریم کی عطا سے) بیٹے دینے کی نسبت روحِ امین سیدنا جبرائیل على نبينا وعليه الصلوة والسلام کی طرف کی گئی ہے؟
بیٹا دینے کی نسبت تو جبرائیل علیہ السلام کی طرف نہیں کی گئی ۔
ایک احتیاط کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، یہ کہنا چاہیے کہ ”میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ براہ راست نفی نہیں کردینی چاہیے۔

ربِّ کریم فرماتا ہے:
[arabic]وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا[/arabic]
ترجمہ: اور کتاب میں مریم کو یاد کرو! جب اپنے گھر والوں سے پورب کی طرف ایک جگہ الگ گئی، تو ان سے ادھر ایک پردہ کرلیا، تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا، وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا۔ بولی: میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ بولا: میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔
(پارہ ۱۶، مریم: ۱۶-۱۹)
جبرائیل علیہ السلام
علی نبینا کا مطلب ہے ہمارے نبی پر
اور جبرائیل علیہ السلام ہمارے نبی نہیں بلکہ الله کے مقرب فرشتے ہیں ۔ فرشتوں کے سردار اور روح الامین و روح القدس ہیں ۔
[arabic]على نبينا وعليه الصلوة والسلام[/arabic] کا مطلب ہے: ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان (جبریلِ امین) پر درود وسلام ہو۔
 

ام اویس

محفلین
ایک احتیاط کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، یہ کہنا چاہیے کہ ”میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ براہ راست نفی نہیں کردینی چاہیے۔

جی بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے یہ میری غلطی ہے ۔معذرت چاہتی ہوں مجھے ایسے نفی نہیں کرنی چاہیے تھی ۔
اللھم اغفر وارحم

على نبينا وعليه الصلوة والسلام کا مطلب ہے: ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان (جبریلِ امین) پر درود وسلام ہو۔
درست ہے ۔
لیکن
سیدنا جبرائیل و علی نبینا علیہ الصلوة والسلام ہونا چاہیے
 

ام اویس

محفلین
على نبينا وعليه الصلوة والسلام
سمجھ آگئی ۔ جزاک الله خیرا کثیرا
جبرائیل کے بعد توقف ہے پھر علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام یعنی ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم اور ان (جبرائیل ) پر صلوة و سلام
علیہ کی ضمیر جبرائیل کی طرف ہے ۔

عربی زبان ۔۔۔ الله الله
 

سید عمران

محفلین
وَ رَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنَاھَا عَلَیْہِمْ(الحدید:۲۷)
رہبانیت ان کی اپنی ایجاد ہے، ہم نے اُن کو اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا۔
 
اسلام میں رہبانیت کا حکم نہیں ۔ قرآن مجید کی کس آیت مبارکہ میں ذکر کیا گیا ہے ؟
پارہ نمبر 28 سورۃ الحديد، 57 : 27

وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ.

’’اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی)۔‘‘
 
Top