کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
روایتی اپروچ کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اس نوع کے مسائل و معاملات میں نظریہ استحسان اور مصالح مرسلہ کو پیش نظر رکھیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جتنی زور آزمائی کم عمری کی شادی پر کر رہے ہیں اتنا زور جبری شادیوں کے خلاف دیں۔ ماڈرن جمہوری اقوام میں تو بوجوہ شادی کا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ جبری شادی تو ایک نوع کا ریپ ہوتی ہے مگر افسوس یہاں پسند کی شادی پر اٹھنے والی غیرت قتل و غارت تک لے جاتی ہے
اس ٹوئیٹ پر کمنٹس اس بھی زیادہ مزے دار ہیں!!!
 

جاسم محمد

محفلین
کم عمری کی شادی؟
ذیشان الحسن عثمانی ہفتہ 4 مئ 2019
1654983-shaadi-1556871110-551-640x480.jpg

کیا کم عمر میں شادی درست اقدام ہے؟ (فوٹو:۔ انٹرنیٹ)

مغرب زدہ معاشرے میں ایک سوال جو آج کل بہت اٹھتا ہے وہ اسلام میں کم عمری کی شادی کی اجازت ہے۔ دیکھا دیکھی ہمارے اپنے ٹی وی چینلز اور صحافیوں نے بھی اس پر بولنا شروع کردیا ہے کہ اسلام اتنی چھوٹی عمر میں شادی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ یہ تو معصوم بچیوں پر سراسر ظلم ہے۔

اس سوال کا جواب تو آپ خود ہی دے سکتے ہیں، صرف تھوڑے سے کامن سینس کی ضرورت ہے۔ اجازت اور حکم میں بڑا فرق ہے۔

اسلام بلوغت کے بعد شادی کی اجازت دیتا ہے، والدین کی رضامندی کے بعد۔ جسے آپ امریکا میں پیرینٹل کونسینٹ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ملک و معاشرے کی روایات بھی تو ہیں۔ اگر بات صرف اتنی ہے کہ کم عمر میں شادی کی اجازت دینی ہی نہیں چاہیے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ تھوڑا سا تاریخ کا، اور تھوڑا امریکا کے قانون کا مطالعہ کرلیں۔

اسلام سے پہلے رومن ایمپائر میں شادی کے لیے قانونی عمر دس سے چودہ سال تھی اور قانون تو تھا ہی اشرافیہ کے لیے۔ باندی غلاموں یا نچلے طبقے کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ چوتھی صدی عیسوی تک چرچ میں قانونی عمر بارہ سال تک تھی۔ سولہویں صدی کے آغاز میں یورپین ممالک میں یہ عمر تیرہ سے سولہ سال کے درمیان تھی اور امریکا میں پانچ سے دس سال کے درمیان۔ تاریخ میں 1689 میں ورجینیا کی ریاست میں دس سالہ بیویوں کے کئی حوالہ جات موجود ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں انگلستان میں قانونی عمر آٹھ سے دس سال تھی، اور پندرھویں صدی تک امریکن کالونیوں میں بھی یہی رواج تھا۔ شیکسپیئر کی جولیٹ بھی تو تیرہ سال کی تھی۔

جی، آپ کی بات بجا ہے۔ میں ماضی کی بات نہیں کرتا، میں تو آج کل کے دور کی بات کرتا ہوں۔

آج کل کے ماڈرن، پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ اور حقوق نسواں کے علمبردار دور میں بھی کیا یہ ممکن ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر میں بچیوں کی شادی کردی جائے؟

امریکا میں شادی کی اوسط عمر خواتین کے لیے تیس سال یا اس سے کچھ زائد ہے۔ یہ اٹھارہ کے آس پاس بیس اکیس سال کی عمر کچھ مناسب نہیں لگتی۔

عبداللہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہمیں یہ بتائیں ’’کاغذ کے ایک ٹکڑے‘‘ سے آپ کو پریشانی کیا ہے؟

بالکل نہیں! ہمیں تو پریشانی لڑکیوں کی صحت کی ہے کہ وہ اس کم عمر میں جنسی معاملات کو کیسے نبھائیں گی اور حمل کے مراحل کیسے طے کریں گی۔

عبداللہ نے شوخ آنکھوں کے ساتھ اپنی بات جاری رکھی۔

خدایا! آپ جیسے معصوم لوگ تو ملکوں کا سرمایہ ہوتے ہیں، کیا آپ اخبار نہیں پڑھتے؟ ٹی وی، ریڈیو بھی نہیں؟

جناب والا 1960 تک ڈیلاوئیر میں سات سال کی عمر کی بچی سے جنسی تعلق جائز تھا، اگر ماں باپ کی مرضی سے شادی ہوئی ہو۔

سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر آج بھی امریکا کی تمام ریاستوں میں شادی کی قانونی عمر سولہ سال ہے اٹھارہ نہیں۔ میساچوسیٹس کی ریاست میں بارہ سال ہے۔ انڈیانا، ہوائی اور جارجیا میں پندرہ اور پینسلوانیا اور نیویارک میں چودہ۔

کیلیفورنیا میں کم از کم عمر کی تو کوئی قید ہی نہیں ہے۔ اگر ماں باپ کی مرضی شامل ہو تو کسی بھی عمر میں شادی جائز ہے۔ کتنی ہی ایسی ریاستیں ہیں جو عمر کی حد میں مزید کمی کردیتی ہیں اگر لڑکی حاملہ ہو تو۔

اور جہاں تک جنسی معاملات یا حمل کی مشکلات کا سوال ہے تو امریکا میں قریباً نصف کے قریب ہائی اسکول میں پہنچنے والے ان مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ سال میں کوئی دس لاکھ بچیاں تیرہ سے انیس سال کی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں، یعنی ہر ایک منٹ میں دو۔ امریکی حکومت سال کا چالیس بلین ڈالر صرف انہی کی دیکھ بھال، بچاؤ اور مشورے اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ حاملہ ہونے والی ان لڑکیوں سے ان کے ہونے والے بچوں کے باپ شادیاں نہیں کرتے۔ ہر دس میں سے آٹھ لڑکے بغیر شادی کے بھاگ جاتے ہیں۔ 89 فیصد یہ لڑکیاں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتیں۔

یہ بچیاں امریکا میں ہونے والی پیدائشوں کا اکیس فیصد بنتی ہیں۔ 1975 تک یہ باون فیصد تھیں۔ آج بھی امریکا میں اکتالیس فیصد بچے شادی سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔

آپ فرما رہے تھے کہ اوسطً عمر تیس سال ہے شادی کی۔

ارے بھائی امریکا کے اپنے صدر گرو کلیولینڈ نے 2 جون 1886 کو وائٹ ہاؤس کے بلیو روم میں فرانسس فولسوم سے شادی کی۔ جب خاتونِ اوّل کی عمر صرف اکیس سال تھی تو آپ کی اوسط سے تو وہ بھی قابل تعزیر قرار پائے۔

آپ لوگوں کی حقائق کے برخلاف انہی تقریروں کی وجہ سے پاکستان، انڈیا اور ایسے ہی کئی ممالک میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال کردی گئی ہے، مگر آپ کے یہاں نہیں ہے اور مسلمانوں کا ہی رونا کیوں؟ اندورا، کولمبیا اور پیراگوئے میں آج تک یہ عمر چودہ سال ہے، مالی اور انگولا میں پندرہ سال، میکسیکو، اسکاٹ لینڈ، سیریا لیون، گیمبیا، انگلینڈ اور لائبیریا میں سولہ سال اور ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔

کتنے ہی ڈیوک آف انگلینڈ ہیں جن کی شادیاں سولہ سال کیا چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر میں ہوئیں۔

بحث اس بات کی نہیں کہ کون کیا کررہا ہے، میں تو صرف اتنا عرض کر رہا ہوں کہ ہر معاشرے، ہر ملک، ہر طبقہ، ہر تاریخ، ہر جغرافیہ کے اپنے اپنے اطوار ہوتے ہیں اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی کسی مفلوک الحال بچی کے ساتھ ظلم کررہا ہے تو وہ بلاشبہ قابل تعزیر ہے، وہ چاہے پاکستان میں ہو یا امریکا میں۔

آئیے مل کر ارلی ٹین ایج پریگننسی پر فون کی کوئی ایپ بناتے ہیں کہ بے چاری بچیوں کا بھلا ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کم سنی کی شادی اور اس سے متعلق قانون سازی
04/05/2019 اعظم پیرزادہ



گزشتہ دنوں سے جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ ہے کم سنی کی شادی اور اس سے متعلق قانون سازی؟

مسئلہ حقیقت پسند اور مسلمہ ہے مگر اس کے حل کی کسی بھی تجویز سے قبل اگر اس معاملے کے سیاق و سباق کو سمجھ لیا جائے تو معاشرتی بحث کافی حد تک سمٹ سکتی ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ کم سنی کی شادیاں مسائل اور الجھنوں کا باعث بنتی ہیں سو شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال ہونی چاہیے۔ جو کہ ایک قانون کی صورت میں نافذالعمل کی جائے۔ جبکہ علما ء کرام اور فقہاء کے نزدیک یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی حل کرنا چاہیے۔ جو کہ عین مناسب اور درست موقف ہے۔ لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ علماء کرام کو بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں بلوغت کو صرف جسمانی بلوغت پر ہی موقوف نہیں کر دینا چاہیے بلکہ مکمل حالات، موسمی تغیرات اور معاشرتی حقائق کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کیونکہ اسلام نے اس معاملے کو کسی قانون کی شکل میں نافذ نہیں کیا بلکہ احسن فعل قرار دے کر معاشرتی پس منظر سے مشروط کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کافی حد تک ہمارے علما ء کے نزدیک یہ طے ہے کہ اسلام کم سنی کی شادی کے حق میں ہے۔

اس ضمن میں کسی بھی موقف کو قانونی رنگ دینے سے پہلے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے شادی کو سمجھا جائے کہ شادی ہے کیا؟ اگرانسان اور حیوان میں امتیازی فرق تلاش کیا جائے تو شادی ان میں سے ایک ہے۔ انسان ہوں یا حیوان دونوں کو اپنی نسل بڑھانے کی فطری ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مگر انسان کو ممتاز اسی لئے رکھا گیا ہے کہ وہ نہ صرف نسل کو بڑھانے کا کام کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی اولاد کی مکمل پرورش اور تربیت کا ذمہ دار بھی بنتا ہے۔ یعنی کسی کا بچہ اگر معاشرے میں فساد یا کسی بھی قسم کے بگاڑ کی وجہ بنتا ہے تو لا محالہ اس کے والدین کی تربیت پر انگلیاں اٹھیں گی۔ خود اسلام بھی اگر نیک اولاد کو صدقہ جاریہ قرار دیتا ہے تو کیا بد اولاد کے معاملے میں وہ والدین کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے؟ یقیناً نہیں۔

آنے والے ہر نئے دور اور زمانے کی بنیادی اکائی ہمارے آج کے بچے ہیں۔ جس قسم کے بچے ہوں گے معاشرہ ویسے ہی رنگ میں رنگا جائے گا۔ تربیت یافتہ، با اخلاق اور با تہذیب بچے آپ کے آنے والے معاشرے کی خوبصورتی کی گواہی دے رہے ہوں گے اور اس کے برعکس خود رو پودوں کی طرح پلتے برہتے بچوں سے کسی اچھے مستقبل کی توقع رکھنا چلملاتی دھوپ میں بارش کی توقع کے مترادف ہی ہے۔ اسی طرح اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم سنی کی شادی میں کوئی قباحت نہیں اگر یہ کم سنی عمر کی بلوغت پر ہی اکتفا نہ کرتی ہو بلکہ ذہنی بالیدگی اور ذمہ دارانہ سوچ کی بھی حامل ہو۔

جب شادی شدہ جوڑا مذہبی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہو اور اپنی اولاد کے ہر اچھے برے فعل کو قسمت پر ڈالنے کی بجائے اپنی کوتاہی اور عاقبت نااندیشی کا اعتراف کرنے کی ہمت رکھتا ہوتو یقیناً وہ لائق شادی کہلائے گا۔ ورنہ عمر کے بڑھنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنا جب کسی بھکارن کے بچے نے بھیک ہی مانگنی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی ماں دس سے پندرہ سال کی کوئی بچی ہے یا پچیس سال کی لڑکی۔

اسلام آفاقی مذہب اور قیامت تک کے انسانوں کے لئے راہ ہدایت ہے۔ اسلام بھی اہل لوگوں پر ذمہ داریاں ڈالنے اور امانتیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یعنی اگر کوئی اہل نہیں تو اس پر وہ ذمہ داری ڈالنا سراسر غیر اسلامی فعل ہے جس کو مذہب کی چادر میں لپیٹنے کی کوشش آج کے علماء کر بھی رہے ہیں۔ شادی ضرور کریں اور جلد از جلد کریں لیکن سب سے پہلے اس بات کا یقین کر لیں کہ جن افراد کی شادی کی جارہی ہے کیا وہ اس اہلیت کے حقدار ہیں بھی کہ نہیں؟

یہ عذر بھی تسلیم ہے کہ دیر سے شادیاں معاشرتی اور جنسی بے راہ روی کو جنم دیتی ہیں مگر معذرت کے ساتھ پورے معاشرے سے اک سوال ہے کہ اگرپانچویں سے نویں جماعت کے بچے اگر جنسی بے راہ روی کی مرتکب ہو جائیں تو کیا اس کی وجہ بھی دیر سے شادی کرنا ہے یا کچھ اور؟

اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر آج کے دور میں جنسی بے راہ روی کا شکار ہماری یہ نوخیز نسل ہی ہے جو سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی آڑ میں گھروں سے نکل کر راستے بھٹکتی پھر رہی ہے۔

یقیناً اس بدحالی کی وجہ ان بچوں بچیوں کی دیر سے شادی نہیں بلکہ کسی حد تک ان کے والدین کی کم عمری میں یا کم عقلی کی عمر میں شادی ہے۔ جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ بچے ماں باپ کی غیر ذمہ دارانہ تربیت اور ناپختہ فہم وفراست کا شکار ہو گئے۔ کیونکہ جن افراد نے ان بچوں کو اچھا برا سمجھانا تھا وہ خود ہی اچھے برے کی تمیز سے لاعلم رہے تو اپنے بچوں کو سمجھاتے بھی تو کیا؟ آج کی بے راہ روی کی وجہ آج کے بچے نہیں بلکہ گزشتہ کل کے بچے ہیں جو خود بھی غیر تربیت یافتہ رہے اور اپنی اولاد کو بھی تربیت دینے سے قاصر ہیں۔

اگر ہمیں آنے والے کل کو محفوظ اور معقول بنانا ہے تواپنی آج کی نسل پر توجہ دینا ہوگی اور ان کی شادیوں سے قبل ان کی تربیت کی فکر کرنی ہوگی۔ ماں باپ کے درجے پر پہنچنے سے قبل ان کو ماں باپ کے حقوق اور فرائض کو سمجھنا ہوگا ہم میں سے کتنے ایسے والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو بتایا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ بطور ایک باپ کے یا شوہر کے کیسے تھے اور اسلام ہم سے کیا طلب کرتا ہے؟ بحث کو سمیٹنے کے لئے ایک حدیث کا مفہوم بیان کردوں کہ ”باپ اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دیتا ہے وہ ان کی اچھی تربیت ہے۔ “ (ترمذی) ۔ یعنی وقت پر شادی شاید ایک احسن تحفہ ہو مگر تربیت کو بہترین تحفہ کہا گیا ہے سو ہمیں پہلے اس پر توجہ دینی ہے۔

کیا ہی احسن ہو! اگر ہمارے علماء اور حکومت ِوقت میں شادی کی کم سے کم عمر کے قانون کی بحث کی بجائے اچھی تربیت اور والدین کی ذمہ داریوں سے متعلق قوانین وضع کیے جائیں کہ اگر کوئی بچہ غیر تعلیم یافتہ رہ گیا تو اس کے ماں باپ قصوروار کہلائیں گے۔ اسی طرح چائلڈ لیبر اور کم عمری کی جنسی بے راہ روی کے قصور وار بھی والدین ہی ٹھہرائے جائیں گے تو شاید کسی کو بھی اعتراض نہ ہو کہ شادی کس عمر میں ہو رہی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں شادی کا مطلب جنسی تعلق قائم کرنے سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر میں شریعت سے متفق ہوں کہ جنسی بلوغت کی عمر ہی شادی کی کم سے کم عمر ہونی چاہئے۔
ارے نہیں بھئی جاسم محمد ! اس کا مقصد محض یہ ہے کہ ان کاموں میں بلاوجہ تاخیر سے کچھ معاشرتی فساد پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں جنہیں نہیں ہونا چاہیئے ۔ اسلام معاشرتی مصلحتوں کی حفاظت کئی سطحوں پر کرتا ہے اور یہ بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔اور بس۔
 

زیک

مسافر
محترم چوہدری صاحب!

میں آپ کی بات اور اس لڑی سے متعلق موضوع کے سلسلے میں مختصرا چند ایک نکات تفصیل میں جائے بغیر ذکر کروں گا۔

: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا - سورة الطلاق اية 4

اس آیت کریمہ میں ان عورتوں کا جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں (بوڑھی ) اور ان عورتوں کا جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا (کم عمری کی وجہ سے حیض نا آنا یا کسی بیماری کی وجہ سے بلوغت کو تو پہنچ چکی ہیں لیکن حیض نہیں آیا) ان کی مدت عدت تین ماہ ہے، لم یحضن کا مطلب ہے کہ ابھی تک انھیں ماہواری آنی شروع نہیں ہوئی ۔

قرآن دنیا دستور کی سب سے بہترین کتاب ہے ۔ کسی بھی دستور یا آئین کی بنیادی خوبی اس کی زبان کا جامع و مانع ہونا ہوتا ہے ۔ جامع کا مطلب کہ احکامات میں شامل ہونے والی تمام تر صورتیں حکم کے ذکر کرنے میں جمع ہو جائیں اور مانع کا مطلب یہ ہے کہ جو اس حکم سے خارج ہیں یہ تعریف یا حکم انھیں خارج کر دے ۔

لم یحضن کا یہ مطلب کہ ایسی عورتیں جنہیں ابھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آئی اور وہ عورتیں جو ماہواری کی عمر تک پہنچ گئی ہیں لیکن انھیں کسی بیماری کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آ سکا اس آیت سے دونوں مراد ہیں اس پر تمام مفسرین کا اجماع ہے چاہے وہ امام طبری ہوں ، ابن کثیر ، صاحب جلالین ، ابن تیمیہ ، سید قطب وغیرہ وغیرہ ۔

البتہ کچھ عہد جدید کے مفسرین لم یحضن کا ترجمہ محض یہ کرتے ہیں کہ وہ عورتیں جنہیں کسی بیماری کی وجہ سے ابھی تک حیض نہیں آیا۔ اس عام حکم کو خاص کرنے کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ جبکہ مفسرین کے قول کے احادیث میں دلائل ملتے ہیں ۔

دوسری بات نابالغ لڑکیوں کی شادی کیا شریعت اسلامی میں عام جائز ہے یا اس سلسلے میں شرائط ہیں ؟

تو فقہاء نے اس سلسلے میں جو احکامات و شرائط ذکر کی ہیں ان کا میں خلاصہ تفصیل میں جائے بغیر ذکر کرتا ہوں ، یاد رہے یہ احکامات احادیث صحیحہ سے مستنبط ہیں :

  • نابالغ بیٹے یا بیٹی کی شادی صرف اور صرف والد ہی کروا سکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی بھی ولی کو یہ حق حاصل نہیں ۔ والد کے علاوہ بھی دوسرے افراد والد کی عدم موجودگی میں جیسا کہ دادا ،بھائی چچا وغیرہ ولی بن سکتے ہیں لیکن نابالغ کی شادی کے سلسلے میں یہ ولی نہیں بن سکتے بلکہ یہ حق صرف والد کے پاس ہے ۔

  • والد بھی اس صورت میں ہی کرے گا جب کوئی مصلحت راجحہ ہوجو تاخیر سے ختم ہو سکتی ہو ( جیسا کہ والد ضعیف العمر ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اس کی جلد موت کے بعد ورثاء اس سلسلے میں حق تلفی سے کام لیں گے ۔

  • نابالغ کی شادی کی صورت میں کفو (ہم پلہ )ہونا بھی ضروری ہے ۔ کفو کی مزید تفصیل بھی ہے لیکن اسے مختصرا ہم پلہ ہی سمجھ لیجئے ۔

  • والد کا اس میں کوئی ذاتی مفاد پوشیدہ نہ ہو۔

  • نکاح کے بعد اس وقت تک رخصتی نہ کی جائے جب تک لڑکی اس قابل نہ ہو جائے ۔
فقہاء اسلام کے اس مسئلہ میں کلام سے واضح ہوتا ہے کہ کم عمر لڑکی کی شادی ان تمام تر شرائط کے پورا ہونے پر کی جائے گی اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کی جا سکتی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی رضامندی حاصل کر لی جائے ۔

اچھا ہم کچھ دیر کیلئے دیکھتے ہیں کہ ہمارا درمیان نکتہ اختلاف کیا ہے ؟

آپ کہتے ہیں کہ نابالغ کی شادی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔

ہم اسے فہم کا اختلاف کہتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ نابالغ کی شادی کسی صورت جائز نہیں ۔

اب ہم اس بات پر تو متفق ہیں کہ بالغ کی شادی بہت زیادہ تاکید کے ساتھ شریعت اسلامی میں ذکر ہے بلکہ کچھ صورتوں میں یہ واجب تک کے حکم میں ہو جاتی ہے جب کسی شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو۔ (اس سلسلے میں بہت سی تاکیدنبی کریم ﷺ سے ذکر ہے جو احادیث کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں جیسا کہ آپ نے حکمافرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت شادی کرو اور جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ روزے رکھے )

جیسا کہ بیہقی نے شعب الایمان میں انس بن مالک رضی اللہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کیلئے وعید بیان کی کہ جن کی اولاد بالغ ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کریں اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کا گناہ والدین کو بھی ہو گا۔

ہم اس بات پر متفق ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد شریعت کی رو سے شادی میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ، بالخصوص جب ان کے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو۔اب شرعا ، عقلا، اور اردگرد معاشرے کو دیکھ کر بتائیں کہ کیا بچے 18 سال کی عمر میں بالغ ہو رہے ہیں ؟

شریعت میں تو بلوغت کی چار صورتیں ہیں ان میں سے کوئی ایک پوری ہو جائے تو بچہ بالغ ہو جاتا ہے ، احتلام ، شرمگاہ کے گرد بالوں کا آنا، پندرہ سال کی عمر تک پہنچنا ، اور خواتین میں ماہواری کا آنا۔

ایک شخص 17 سال کا ہے وہ پاکدامن رہنے کیلئے نکاح کرنا چاہتا ہے لیکن قانون اس کے آڑے آ رہا ہےتو کیا یہ قانون اسلامی ہے یا خلاف شریعت؟

اور اس وجہ سے وہ گناہ میں مبتلا ہو رہا ہے تو اس کا گناہ کس کے سر ہے …؟

اسلام میں نکاح کے بہت سے مقاصد میں سے ایک پاکدامنی کا حصول بھی ہے ۔

اچھا اب خرابی کی جتنی بھی صورتیں بیان کی جاتی ہیں ان کا بہترین حل تویہ ہے کہ ان کے تدارک کیلئے شریعت کی روشنی میں قانون سازی کی جائے ۔

جیسا کہ ابو داؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر کر دی اور اسے وہ شادی ناپسند تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔

لیکن بجائےلڑکی کی رضامندی عملی طور پر یقینی بنانے اور اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے کے غیروں کے دباؤ تلے ایسی قانون سازی کئے جاتے ہیں جو صریحا شریعت اسلامی کے متصادم ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

والسلام
یعنی بقول آپ کے تمام کلاسیکل مفسرین کا اجماع ہے کہ کسی بھی عمر کی بچی کی شادی اسلام میں جائز ہے چاہے وہ ایک دن ہی کی کیوں نہ ہو۔ ماشاءاللہ!
 

زیک

مسافر
ارے نہیں بھئی جاسم محمد ! اس کا مقصد محض یہ ہے کہ ان کاموں میں بلاوجہ تاخیر سے کچھ معاشرتی فساد پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں جنہیں نہیں ہونا چاہیئے ۔ اسلام معاشرتی مصلحتوں کی حفاظت کئی سطحوں پر کرتا ہے اور یہ بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔اور بس۔
لیکن اسی لڑی سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اسلام نابالغ کی شادی کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے
 

ربیع م

محفلین
یعنی بقول آپ کے تمام کلاسیکل مفسرین کا اجماع ہے کہ کسی بھی عمر کی بچی کی شادی اسلام میں جائز ہے چاہے وہ ایک دن ہی کی کیوں نہ ہو۔ ماشاءاللہ!
تمام سمجھدار انسانوں کا اجماع ہے کہ آپ پورا مراسلہ پڑھے بغیر تبصرہ کرنے کے عادی ہیں .
 

آصف اثر

معطل
کم عمری کی شادیاں کیوں؟
04/05/2019 افضال ریحان



کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے لائے گئے بل پر بحث جاری ہے حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے کہ پارلیمنٹ انسانی مفاد میں کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے شادی کا تعلق رضا مندی اور بلوغت سے ہے مان لیتے ہیں کہ بلوغت مختلف خطوں یا مختلف لوگوں میں مختلف اوقات میں ہو سکتی ہے لیکن جب ہم نے قومی سطح پر بلوغت کی عمر یونیورسل اصول کی مطابقت میں اٹھارہ سال مقرر کر رکھی ہے تو لڑکے یا لڑکی کی شادی کا پیمانہ بھی اسی کو کیوں نہ بنایا جائے۔

عربوں میں اگر پہلے ہو جاتی تھی یا ہو جاتی ہے تو لازم نہیں کہ ہم عرب کلچر کو ہو بہو کاپی کریں۔ جب میڈیکلی یہ چیز ثابت ہے کہ کچی عمر کی شادیاں کئی جسمانی عوارض یا پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہیں تو پھر اس پر اصرار کیوں کیا جائے؟ مسئلہ محض جسمانی بلوغت کا نہیں ہے بالخصوص بچیوں کے معاملے میں ذہنی و شعوری بلوغت کی پختگی کا بھی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں جب مائیں بنتی ہیں تو یہ بڑی تکلیف دہ کیفیت ہوتی ہے وہ بچیاں ابھی خود سنبھالے جانے کے قابل ہوتی ہیں چہ جائیکہ وہ آگے اپنی بچیوں یا بچوں کو سنبھال رہی ہوں۔ 18 سال بھی کوئی بہت زیادہ عمر تو نہیں ہے کہ اس حد تک بھی صبر نہ کیا جائے۔

جو لوگ اس ایشو کو مذہب سے جوڑتے ہیں اور طرح طرح کی روایات لا رہے ہوتے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ درویش بھی ریٹائرڈ مولوی کی حیثیت سے بڑی بڑی روایات لا سکتا ہے مگر یہ کہ اس نزع یا بحث میں نہ ہی پڑا جائے تو بہتر ہے۔ اس بحث میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا آپ 20 برس کی عمر میں ایک ایسی 35 سالہ بیوہ سے شادی کرنا پسند فرمائیں گے جو دو خاوند دیکھ چکی ہو اور جس کے پانچ بچے بھی ہوں۔ اس نوع کے بیسیوں سوالات اٹھیں گے اور بات بہت دور چلی جائے گی۔

سیدھی سی بات ہے کہ شادی ایک عقد یا کنٹریکٹ ہے اور معاہدہ دو بالغ فریقین میں ہی ہوتا ہے اور دونوں کی باہمی رضا مندی سے ہی قائم بھی رہ سکتا ہے اگر کوئی ایک فریق اسے ختم چاہے تو طے شدہ شرائط کے مطابق اسے ختم بھی سکتا ہے بلوغت کی جو عمر ہمارے ملکی قانون میں طے ہے اس ایشو پر بھی اس کی پابندی لازم ہے۔ اسے خواہ مخواہ ایک مذہبی رنگ دینا یا یا سیاست سے جوڑتے ہوئے اس نوع کے بیانات جاری کرنا کہ میں وزارت چھوڑ دوں گا یہ نہیں ہونے دوں گا ایک قطعی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔

اگرآپ روایتی ضوابط کے اتنے بڑے علمبردار ہیں تو پھر دیکھیں کہ پہلی بی بی کی اجازت کے بغیر چار چار بیبیاں بسانے کے مسائل اور مثالیں بھی موجود ہیں کیا انہیں اپنانے کے لیے بھی اسی نوع کی بحثیں اٹھائیں گے؟ بہتر ہے ان تنگناؤں میں الجھنے سے اجتناب کیا جائے۔ جہاں تک کسی غیر منتخب شخص یا ادارے سے رہنمائی لینے کا سوال ہے یہ بھی خواہ مخواہ کا ایک غیر ضروری فیشن بن گیا ہے۔

منتخب پارلیمنٹ پر کسی بھی غیر منتخب ادارے کی اجارہ داری نہیں اورنہ ہی ممبران پارلیمنٹ مخصوص آراء ماننے کے پابند ہیں وہ شخصی تفہیم یا عوامی مفاد میں کسی بھی پڑھے لکھے یا قابل شخص سے رائے لیتے ہوئے اپنی تسلی کر سکتے ہیں مگر فیصلہ انہیں بہر صورت وسیع تر عوامی یا قومی مفاد میں کرنا ہوتا ہے۔ درویش کی نظر میں تو نظریاتی کونسل جیسے نان ایشوز میں الجھانے والے ادارے فی زمانہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اور قومی معیشت پر غیر ضروری بوجھ ہیں حکومتی پارٹی کو چاہیے تھا کہ یہ ایشو پہلے اپنی پارلیمان پارٹی کے اجلاس میں طے کر کے آگے لاتے کیونکہ سینٹ تو پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی ہے۔

خاتون وفاقی وزیر کا یہ موقف قابلِ فہم ہے کہ کئی قدیمی اسلامی ممالک جیسے ترکی اور مصر میں شادی کے لیے عمر کی اٹھارہ سالہ حد پہلے سے موجود ہے اور مصر ی مسلمانوں نے تو باقاعدہ الازہر یونیورسٹی کے ماہرین کی مشاورت سے یہ قانون تشکیل دے رکھا ہے جبکہ ترکی ایک جمہوری اسلامی ملک ہے اور ان کی منتخب پارلیمنٹ نے عوامی مفادمیں یہ قانون سازی کر رکھی ہے۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارا مذہب کوئی جامد مذہب نہیں ہے اس کا نظریہ اجتہاد بہت مضبوط اور وسیع تر ہے۔

اگر قوانین اور معاشرت کا علمی و فکری بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو ہم چودہ صدیوں میں ان گنت تغیرات سے گزرے ہیں۔ ابتدائی ادوار میں فقہی طور پر اس نوع کے تقاضے بھی مسلمہ حقائق خیال کیے جاتے رہے کہ حکمران ہونے کے لیے قریشی کی شرط لازم ہے۔ جمہوریت کے بالمقابل بادشاہتوں کی حمایت میں شرعی دلائل بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف تو ابھی کل تک دھواں دار تقاریر ہوتی رہیں لیکن وقت کے ساتھ مسلم سوادِ اعظم شعوری طور پر آگے بڑھتا رہا اور آج تمام تر اجتہادی فیصلے اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ روایتی الذہن لوگ بھی ان کی مخالفت کا یارا نہیں رکھتے ہیں۔

روایتی اپروچ کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اس نوع کے مسائل و معاملات میں نظریہ استحسان اور مصالح مرسلہ کو پیش نظر رکھیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جتنی زور آزمائی کم عمری کی شادی پر کر رہے ہیں اتنا زور جبری شادیوں کے خلاف دیں۔ ماڈرن جمہوری اقوام میں تو بوجوہ شادی کا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ جبری شادی تو ایک نوع کا ریپ ہوتی ہے مگر افسوس یہاں پسند کی شادی پر اٹھنے والی غیرت قتل و غارت تک لے جاتی ہے
سرخ متن سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ تمام عجمی لڑکیوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے؟ وضاحت فرمائیے۔
 

آصف اثر

معطل
یعنی بقول آپ کے تمام کلاسیکل مفسرین کا اجماع ہے کہ کسی بھی عمر کی بچی کی شادی اسلام میں جائز ہے چاہے وہ ایک دن ہی کی کیوں نہ ہو۔ ماشاءاللہ!
فقہاء اسلام کے اس مسئلہ میں کلام سے واضح ہوتا ہے کہ کم عمر لڑکی کی شادی ان تمام تر شرائط کے پورا ہونے پر کی جائے گی اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کی جا سکتی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی رضامندی حاصل کر لی جائے
ان شرائط کے ساتھ کون ذی عقل ایک دن کی بچی کی شادی کو جائز سمجھتا ہے؟
بلاؤ ذرا 8 ارب انسانوں کو۔
 

فرقان احمد

محفلین
چلیں اس بات کا جواب دے دیں: اگر باقی شرائط پوری ہوں تو کیا ایک دن کی بچی کا نکاح اس کا باپ کر سکتا ہے؟
نکاح کے لیے بچی کی رضامندی ضروری ہے اور یہ رضامندی تبھی لی جا سکتی ہے جب بچی بالغ ہو جائے۔ کسی استثنائی مثال میں ایسا ہو بھی جائے کہ بچی کا نکاح اُس کا باپ کر دے (اس بابت ہمیں بھی اشکال ہے کہ آیا ایک دن کی بچی کا باپ اس کا نکاح کر بھی سکتا ہے یا نہیں)، تب بھی جب بچی بالغ ہو گی، تو اُس سے اس بابت رائے لی جائے گی اور تبھی اس کی رخصتی عمل میں آئے گی جب بچی اس بابت اپنی رضامندی ظاہر کر دے، یعنی کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا تعلق کسی دوسرے کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا ہے، شاید اس حوالے سے کسی فقہ میں گنجائش موجود ہو تو الگ معاملہ ہے۔۔! واللہ اعلم ۔۔۔!
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔۔۔!
ان النبی صلی الله عليه وسلم قال : لا تنکح الايم حتی تستامر ولاتنکح البکر حتی تستاذن.
(بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لا تنکح الاب وغيره البکر و الثيب الابر ضاها
ترجمہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔‘‘
 

آصف اثر

معطل
صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔۔۔!
ان النبی صلی الله عليه وسلم قال : لا تنکح الايم حتی تستامر ولاتنکح البکر حتی تستاذن.
(بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لا تنکح الاب وغيره البکر و الثيب الابر ضاها
ترجمہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔‘‘
یہ احادیث نظر کیوں نہیں آرہیں۔
 
آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
میرا خیال ہے کہ جہالت کو یہاں تعصب سے مراد لیا جائے۔ آصف بھائی یقینا تعصب لکھنا اور کہنا چاہ رہے ہونگے
 

جاسم محمد

محفلین
کچھ معاشرتی فساد پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں
کیسے معاشرتی فسادات؟ مثالوں سے واضح کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر جلد سے جلد جنسی طور پر بالغوں کی شادی نہ کرائی گئی تو معاشرہ میں فحاشی پھیل جائے گی۔ اس لایعنی خوف کے پیچھے کوئی حقائق نہیں ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top