جہالت 2.0

جاسم محمد

محفلین
جہالت 2.0
محمد اطیب اسلم ہفتہ 20 اپريل 2019
1635479-jahalat_x-1555502232-884-640x480.jpg

ہمارے نظامِ تعلیم کے ماہرین، جدید سے جدید جاہلوں کی فوج تیار کرنے میں پوری نیک نیتی سے کوشاں ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تعلیم کسی بھی معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم کے متعلق نہ صرف متعدد احادیث موجود ہیں بلکہ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خاندان کی تعلیم ایک مرد کے تعلیم یافتہ ہونے سے مشروط ہے جبکہ ایک تعلیم یافتہ عورت کا مطلب ایک مکمل نسل کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ لیکن قربان جاؤں اپنے معاشرے کے کہ جہاں ہر شعبے میں ترقی ہوئی ہے، وہاں جہالت میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ پہلے جاہل ان پڑھ ہوا کرتے تھے، آج کل جاہل بھی وقت کے ساتھ اپ گریڈ ہوگئے ہیں۔ اب آپ کو جاہل بننے کےلیے بھی ڈگری حاصل کرنا ضروری ہے۔

اس بڑھتی ہوئی جہالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے طلباء اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں سے باقی تعلیم کے ساتھ ساتھ جہالت کی ڈگری بھی لے کر نکلتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ جو جتنا بڑا جاہل ہے وہ اتنی بڑی پوسٹ پر بیٹھا ہے۔ گویا ایک شاپنگ پلازہ میں معمولی نوکری کرنے سے لے کر گورنمنٹ کے بڑے عہدوں پر بھی انتہائی قابل جاہل تعینات ہیں۔

اب کیونکہ زمانہ بدل گیا ہے لہذا نئے دور کے تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ اب ادب، اخلاقیات، ملنساری اور خوش اخلاقی سب فرسودہ سی چیزیں بن کر رہ گئی ہیں اور ہمیں انسانوں کے بجائے ایسے روبوٹس چاہئیں جو فزکس، کیمسٹری اور سائنس کے مضامین پر عبور رکھتے ہوں جبکہ معاشرتی روایات اور اسلام سے جتنا زیادہ نابلد ہوں، اتنا ہی بہتر ہے۔ شاید اسی لیے ہم ناظرہ مکمل ہونے پر بچوں کو مسجد بھیجنا بند کردیتے ہیں کہ کہیں خدانخواستہ مولوی نہ بن جائیں۔

زمانے کی اسی تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے ہمارے نظامِ تعلیم کے ماہرین جدید سے جدید جاہلوں کی فوج تیار کرنے میں پوری نیک نیتی سے کوشاں ہیں۔ بچوں کو کمرہ امتحان میں نقل کروانے سے لے کر رشوت اور سفارش سے کام نکلوانے تک، ہم نئے دور کی تمام روایات کو بخوبی اور احسن طریقے سے نئی نسل کو منتقل کررہے ہیں۔

مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں: ’’اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘

مجھے حیرت ہوتی ہے جب دس دس سال کے بچوں کو ڈپریشن کا شکار دیکھتا ہوں۔ ہمارے بچے اندرونی خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ہم نے انہیں مقابلے کی آگ میں جھونک رکھا ہے۔ بچپن ہی سے ہم اپنے بچوں کا موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس بات پر تالیاں بجا بجا کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ بدتمیزی کرتے ہوئے کتنا کیوٹ لگتا ہے۔ پھر ان کی ویڈیوز ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے پرچی دانشوروں سے داد وصول کرتے ہیں اور دِل ہی دِل میں خود کو سراہتے ہیں کہ دیکھا! میں نہ کہتا تھا کہ میرا بچہ بہت ذہین ہے۔

پھر انہی بچوں کے ذہنوں میں ہم نفرت، قوم پرستی، حسد اور تکبر کی آگ بھڑکاتے ہیں اور بڑا ہونے پر وہی بچے معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں اور پھر ہمارے بڑے، نئی نسل کی بے ادبی، تہذیب اور مذہب سے دوری پر رونا روتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دِل کرتا ہے کہ ایک زور دار قہقہہ لگاؤں اور لب پہ آیا اقبال کا یہ شعر ان داناؤں کے گوش گزار کروں:

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جَو


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top