ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانا غیر شرعی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل

سید عمران

محفلین
آج تک موجود کسی بھی روایت کی کتاب میں نماز کا طریقہ موجود نہیں۔ بلکہ کتب روایات کا کوئی وجود 700 ہجری تک نہں ملتا، سنی سنائی پر آپ یقین کیجئے لیکن سنی سنائی پر کوئی بھی عدالت یقین نہیں کرتی ہے۔
۷۰۰ ہجری کے بعد جو مسلمان بھی فرض نماز پڑھتا ہے وہ سنی سنائی پر عمل کرتا ہے جس پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے۔۔۔
یعنی ۷۰۰ ہجری کے بعد کم از کم فرض نمازیں تو معاف ہوگئیں کیوں کہ بقول آپ کے اب ان کی حیثیت محض سنی سنائی بات کی رہ گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آپ خود جانتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ۔ اب جن نکات کا واضح تذکرہ ہے ، ان نکات کو آپ کیا اس لئے جھٹلائیں گے کہ ظہر کی نماز کی رکعتوں کی تعداد قرآن حکیم میں نہیں۔
بات جھٹلانے کی نہیں ، ہم نے ابھی تک آپ کی کوئی بات جھٹلائی ہے نہ اس کی تصدیق کی ہے۔۔۔
بات ہر چیز کی دلیل قرآن سے طلب کرنے کی ہے جیسے آپ نے قرآن سے دلیل مانگی، ہم نے بھی مانگ لی۔۔۔
اس میں براماننے کی کیا بات ہے؟؟؟
ہم نے بھی تو برا نہیں مانا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
مدیران حضرات سے درخواست ہے کہ وہ عمران صاحب اور میرے وہ مراسلے جن کا تعلق اس دھاگے سے نہیں ہے، پلیز حذف کردیجئے۔
مدیران مراسلےضرور حذف کریں لیکن پہلے بقول آپ کے اخلاقاً یہ واضح کریں کہ ہماری پوسٹس غیر متعلق کیسے ہیں؟؟؟
اگر آپ ہمیں قرآن سے ہماری مانگی ہوئی دلیلیں دے دیتے تو یہ آپ کے حق میں ہی بہتر ہوتا کیونکہ یہ آپ کے دلائل کو مزید قوت بخشتیں اور آپ کا نکتہ نظر ناظرین زیادہ توجہ سے ملاحظہ فرماتے!!!
 
۔واپس آتے ہیں موضوع کی طرف۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو معاملات توجہ طلب ہیں ان پر یہ نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے۔ میں نے لکھا۔
ہاتھ کاٹنا اور سنگسار کرنا بھی غیر قرانی ، غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے۔ اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے؟
ٹیکس یعنی زکواۃ کی مٓقدار 20 فی صد ہے، جو کماتے ہی واجب الادا ہے، اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے۔
حدود اللہ صرف اور صرف چند معاملات کے لئے نہیں، ان باقی معاملات کے بارے مٓیں یہ کونسل کیا کہتی ہے۔

ہاتھ کاٹنے بارے میں محترمہ نے درج ذیل آیت عطا فرمائی۔

سلام میں چور کی سزا قطع ید ہی ہے۔
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۳۸﴾
چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا ، عذاب اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالٰی قوت و حکمت والا ہے.
(سورة المائدة, آیت:

اس ہاتھ کاٹ دیا کرو کے ترجمے کو اس مثال کے ساتھ دیکھئے جو اللہ تعالی عطا فرماتے ہیں۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَ۔ذَا بَشَرًا إِنْ هَ۔ذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ
پھر جب سنی اس نے ان کی عیّارانہ باتیں تو بُلا بھیجا اُنہیں اور آراستہ کی اُن کے لیے تکیہ دار مجلس اور دی ہر ایک عورت کو اُن میں سے ایک چھُری اور کہا (یُوسف سے) نکل آ، ان کے سامنے۔ پھر جب دیکھا ان عورتوں نے یوسف کو دنگ رہ گئیں اور کاٹ بیٹھیں اپنے ہاتھ اور بولیں حاشا لِلّہ: نہیں ہے یہ شخص انسان۔ نہیں ہے یہ مگر کوئی بزرگ فرشتہ۔

قطع ید کیا ہاتھ کات کر الگ کردینے کا حکم ہے کہ ایک فرد کبھی کما ہی نا سکے؟ یا قطع ید ہاتھ پر محض کاٹ لگانے کا حکم ہے تاکہ چور پہچانا جائے؟ فیصلہ آپ پر کہ آپ اللہ تعالی سے زیادہ۔ حکیم ، رحیم و کریم ہیں یا اللہ تعالی ؟


آپ کی آسانی کے لئے زکواۃ کی آیات اگلے مراسلے میں۔
 

ٹرومین

محفلین
وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ

اور کاٹ بیٹھیں اپنے ہاتھ
یہاں اُردو زبان کے حوالے سے میری معلومات میں بھی اضافہ ہوا کہ ’’ہاتھ کاٹنا‘‘ دراصل ہاتھ پر ’’کٹ‘‘ لگانے کو کہتے ہیں۔ :)
اس سے ایک اور سوال ذہن میں آیا کہ جہاں گفتگو میں ’’ہاتھ کاٹ کر الگ کردینے‘‘ کا مفہوم مطلوب ہو، اس کے لیے اُردو میں کون سا لفظ استعمال ہوگا؟ :)
اسی طرح چونکہ آپ نے قرآنی آیت کے لفظ قَطَّعْنَ (جو عربی زبان میں ہے) کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا مطلب محض ’’کٹ لگانے‘‘ کے ہیں تو اس سے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ پھر جہاں کاٹ کر الگ کرنے کا مفہوم مراد ہو تو اس کے لیے عربی میں کون سا لفظ استعمال ہوتا ہے؟ اور کیا قرآن میں اس کی کہیں کوئی مثال موجود ہے؟
 

سید عمران

محفلین
یہاں اُردو زبان کے حوالے سے میری معلومات میں بھی اضافہ ہوا کہ ’’ہاتھ کاٹنا‘‘ دراصل ہاتھ پر ’’کٹ‘‘ لگانے کو کہتے ہیں۔ :)
اس سے ایک اور سوال ذہن میں آیا کہ جہاں گفتگو میں ’’ہاتھ کاٹ کر الگ کردینے‘‘ کا مفہوم مطلوب ہو، اس کے لیے اُردو میں کون سا لفظ استعمال ہوگا؟ :)
اسی طرح چونکہ آپ نے قرآنی آیت کے لفظ قَطَّعْنَ (جو عربی زبان میں ہے) کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا مطلب محض ’’کٹ لگانے‘‘ کے ہیں تو اس سے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ پھر جہاں کاٹ کر الگ کرنے کا مفہوم مراد ہو تو اس کے لیے عربی میں کون سا لفظ استعمال ہوتا ہے؟ اور کیا قرآن میں اس کی کہیں کوئی مثال موجود ہے؟
یہ ساری خود ساختہ باتیں حدیث کا انکار کرنے کے فتنہ سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو ہاتھ کاٹے گئے ان کی نوعیت ہم مسلمانوں پر تو واضح ہے۔۔۔
لیکن منکرین حدیث کا ناقص علم انہیں گمراہیوں کی وادیوں میں بھٹکاتا رہتا ہے!!!
 
اس سوال کے جواب میں کہ اسلامی نظریاتی کونسل ٹیکس یا زکواۃ کی وصولی پر کوئی توجہ کیوں نہیں دیتی
محترمہ نے حوالے عطا فرمائے کہ زکواۃ کی رقم کس پر خرچ کی جائے گی
جو لوگ صدقہ و خیرات کے مستحق ہیں وہی زکوة کے حقدار بھی ٹھہرتے ہیں۔ زکوٰة کے مصارف درج ذیل ہیں۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)

وصول شدہ ٹیکس یا زکواۃ کے مندرجہ بالاء مصارف کے مندرجہ بالاء ڈپارٹمنت سے میں متفق ہوں۔ یہ احکامات ایک سے زائید جگہ دہرئے گئے ہیں۔

ہم سب یہ جانتے ہیں کہ زکواۃ فرض ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ کیا اس کے لئے آیات کا حوالہ درکار ہے؟
سول یہ ہے کہ زکواۃ یعنی ٹیکس کی مقدار کتنی ہے؟
اور کمانے والا کس کو ادا کرے گا؟ یعنی زکواۃ کس کا حق ہے؟
اور یہ کب واجب الادا ہوتی ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت عمر نے زکواۃ کی وصولی کے لئے تلوار اٹھائی۔ کیوں ، یہ تو آپ نے ادا کرنی ہے، حضرت عمر کا کیا حق تھا کہ اس کو تلوار سے قائم کرتے؟

زکواۃ کس کا حق ہے؟۔،زکواۃ کب واجب الادا ہے؟ جب کمایا،تو اللہ کا حق زکواۃ یعنی ٹیکس واجب الادا ہوگیا۔ سرخ شدہ حصہ اس اللہ کے اس حق کی ادائیگی کا حکم ، جس دن کماؤ اس دن ادا کرو۔ یہ اللہ کا حق ہے۔ اب اللہ کو کیسے ادا کریں گے؟ محترمہ نے متفہ نکتہ فراہم کیا کہ حاکم الوقت کی اطاعت فرض ہے۔ یہ غریب غرباء کو ادا کیا جانے والی محض خیرات نہیں۔ بلکہ حکومت کو ادا کی جانے والا ٹیکس ہے جو ہر اس شخص پر فرض ہے جو کماتا ہے یا جس کے پاس اضافہ یا بڑھوتری ہوتی ہے۔

6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور وہی ہے جس نے پیدا کیے باغات، چھتریوں پر چڑھے ہُوئے اور بے چڑھے اور کھجور کے درخت اور کھیتی کہ مختلف ہیں اُن کے پھل اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جُلتے اور جُدا جُدا۔ کھاؤ اُن کے پھل جب وہ پھل لائیں اور ادا کرو حق اللہ کا اسی دن جب اُن کی فصل کا ٹو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا حد سے گزرنے والوں کو۔


تو اللہ تعالی کا یہ حق کتنا ہے یعنی اس واجب الادا زکواۃ ، اللہ کے حق، یا حکومت کو واجب الدا رقم کی مقدار کتنی ہے؟ آپ کو کسی بھی شے سے اضافہ ہو ، بڑھوتری ہو، غناء حاصل ہو، فائیدہ ہو، کمائی ہو ۔۔۔ تو اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالی کے لئے ہے۔ یہی اصول مال غنیمت پر بھی لاگو ہو۔ یہ صرف مال غنیمت کے لئے نہیں اس لئے کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ "جس کسی شے بھی غناء حاصل ہو" تو اللہ تعالی کے لئے پانچوا حصۃ یعنی بیس فی صد رقم ہے۔
8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ تم کو جس کسی بھی شے ساے غناء ملے، تو ہے اللہ کے لیے اُس کا پانچواں حصّہ اور رسول کے لیے اور قرابت داروں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے، اگر تم رکھتے ہو ایمان اللہ پر اور اس (نصرت) پر جو نازل کی تھی ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس دم ٹکرائی تھیں دو فوجیں۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

جب بھی کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ زکواۃ کی مقدار کتنی ہے تو متفقہ جواب یہی ملتا ہے کہ صاحب ڈھائی فی صد۔ یہ ڈھائی فی صد کہاں سے آیا؟ جن آٹھ ڈپارٹمنٹس پر صرف کئے جانے کا حکم محترمہ نے فراہم کیا ، وہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے تاکہ حکومتی اخراجات چلائے جاسکیں
20 کو آٹھ سے تقسیم کرکے ، ڈھائی فی صد آیا اور ملاؤں نے اپنے ڈھائی فی صد حصے کی وصولی لئے اس نظریہ کو فروغ دیا۔ کبھی فقراء بن کے، کبھی مساکین بن کے ، کبھی دین قائم کرنے والا بن کے ۔ صاحب اس کتاب کے مطابق بیس فی صد اللہ تعالی کا حق ہے۔ یہ حق حکومت وقت کو واجب الادا ہے۔ آپ اس کو زکواۃ کہئے، ٹیکس کہئے یا جو بھی نام دیں ہم سب ییہ جانتے ہیں کہ ٹیکس ادا کئے بغری کوئی ترقی نہیں ہو سکتی۔ زکواۃ ، اپنا تزکیہ کرکے ، معیشیت کی ترقی کے لئے ادا کی جانے والی رقم کا کیا نام آپ کو پسند ہے ، وہ رکھ لیجئے۔

یہ وصول شدہ رقم کس پر خرچ کی جائے گی؟ یہ آٹھ ڈپارٹمنٹس محترم پہلے ہی فراہم کرچکی ہیں۔

اب یہ طے آپ نے کرنا ہے کہ آیا وہ رقم جو آپ بطور خیرات ادھر ادھر اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں ، زکواۃ ہے یا پھر یہ رقم مرکزی حکومت کو حکومت چلانے اور حکومتی اخراجات کے لئے ، جس دن کمایا، اسی دن ادا کیا کی بنیاد پر ادا کی جائے؟
 
یہ ساری خود ساختہ باتیں حدیث کا انکار کرنے کے فتنہ سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو ہاتھ کاٹے گئے ان کی نوعیت ہم مسلمانوں پر تو واضح ہے۔۔۔
لیکن منکرین حدیث کا ناقص علم انہیں گمراہیوں کی وادیوں میں بھٹکاتا رہتا ہے!!!

کونسی حدیث؟ یار یہ نکتہ بہت ہی پرانا ہو گیا ہے۔ کتب روایات کی حقیقت یہ ہے کہ جب ابن الحجار العسقلانی جو کہ مصر کے جج تھے، کسی بھی معاملے بھی معاملے میں ایک کی مخالف ایک حدیث پیش کی جاتے تھے تو یہ حضرت بہت ہی پریشان ہوتے تھے۔ آٹھویں صدی ہجری میں جناب نے ان سنی سنائی اور یادواشتوں کو قلم بند کرنے کا کارنامہ فتح الباری صحیح البخاری کے نام سے کیا ۔ اس وقت تک لوگوں کو صرف یہ روایات زبانی یاد تھیں۔ یعنی قلم بند نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس اپنا اپنا اور اپنے اپنے مطلب کا متن تھا۔ کتب روایات کو قلم بند کرکے کتاب کی شکل میں کب لایا گیا ، اس پر تھوڑی ریسرچ کر لیجئے تو آپ کو یہ نکتہ بھی پتہ چل جائے گا کہ 98 فی صد حدیثوں کا منکر بھی یہی شخص تھا۔ جن کو اس کتاب میں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔ اس کا اعتراف یہ صاحب خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں کرتے ہیں۔ 98 فی صد روایات، جناب نے اٹھا کر ان سے انکار کردیا۔ تو منکرحدیث کون ہوا؟ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ :)

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔

آپ کی مرضی ہے کہ آپ اللہ کے کلام سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر منکرحدیث کی کتاب سے

8:31 وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَ۔ذَا إِنْ هَ۔ذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب تلاوت کی جاتی ہیں اُ کے سامنے ہماری آیات تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں سن لیا ہم نے، اگر ہم چاہیں تو بناسکتے ہیں ہم بھی ایسی ہی باتیں، نہیں ہیں یہ، مگر کہانیاں پہلے لوگوں کی۔

اللہ تعالی کا جواب ، ان آیات سے انکار کرنے والوں کے لئے۔
 

سید عمران

محفلین
کونسی حدیث؟ یار یہ نکتہ بہت ہی پرانا ہو گیا ہے۔ کتب روایات کی حقیقت یہ ہے کہ جب ابن الحجار العسقلانی جو کہ مصر کے جج تھے، کسی بھی معاملے بھی معاملے میں ایک کی مخالف ایک حدیث پیش کی جاتے تھے تو یہ حضرت بہت ہی پریشان ہوتے تھے۔ آٹھویں صدی ہجری میں جناب نے ان سنی سنائی اور یادواشتوں کو قلم بند کرنے کا کارنامہ فتح الباری صحیح البخاری کے نام سے کیا ۔ اس وقت تک لوگوں کو صرف یہ روایات زبانی یاد تھیں۔ یعنی قلم بند نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس اپنا اپنا اور اپنے اپنے مطلب کا متن تھا۔ کتب روایات کو قلم بند کرکے کتاب کی شکل میں کب لایا گیا ، اس پر تھوڑی ریسرچ کر لیجئے تو آپ کو یہ نکتہ بھی پتہ چل جائے گا کہ 98 فی صد حدیثوں کا منکر بھی یہی شخص تھا۔ جن کو اس کتاب میں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔ اس کا اعتراف یہ صاحب خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں کرتے ہیں۔ 98 فی صد روایات، جناب نے اٹھا کر ان سے انکار کردیا۔ تو منکرحدیث کون ہوا؟ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ :)

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔

آپ کی مرضی ہے کہ آپ اللہ کے کلام سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر منکرحدیث کی کتاب سے

8:31 وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَ۔ذَا إِنْ هَ۔ذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب تلاوت کی جاتی ہیں اُ کے سامنے ہماری آیات تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں سن لیا ہم نے، اگر ہم چاہیں تو بناسکتے ہیں ہم بھی ایسی ہی باتیں، نہیں ہیں یہ، مگر کہانیاں پہلے لوگوں کی۔

اللہ تعالی کا جواب ، ان آیات سے انکار کرنے والوں کے لئے۔
اسی لیے تو کہاکہ منکرین حدیث گمراہ فرقہ ہے۔۔۔
احادیث کے علوم سے سراسر ناواقف۔۔۔
جو فرقہ ایمان کے بعد سب سے اہم رکن نماز ہی کو ثابت نہ کرسکے اس کی گمراہی میں کیا شک رہ جاتا ہے!!!
 
کسی کو بحرہند میں ساحل سے ہزار میل دور پھینک دیا جائے اور وہ کہے کہ میں گیلا نہیں ہوں گا تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ جس ملک میں بے ایمانی، ٹیکس چوری ، چور بازاری، کا قانونی دور دورہ ہو، جی قانونی طور پر دور دورہ ہو، اس ملک کے رہنے والوں کے ذہن کچھ اس طرح بن جاتے ہیں کہ ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ خیالات کو پاک صاف کرکے اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے ۔ جب تک بہشتی زیور جیسی کتب کے محدب عدسے سے اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش کی جاتی رہے گی ۔ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

کوئی مثال دے سکتا ہے کہ اس ملک میں قانونی طور پر ٹیکس چوری کے قوانین موجود ہیں؟ تین دن انتظار کروں گا پھر ان قوانین کو سامنے لاؤں گا جو ٹیکس چوری سے متعلق ہیں۔ تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ لوگ بحر ہند میں ڈوب کر بھی اپنے آپ کو گیلا نہیں سمجھتے۔
 

ابوعبید

محفلین
جتنی لڑیوں کا میں نے مطالعہ کیا ہے جن میں مذہبی بحث مباحثے ہوئے ہیں فاروق سرور صاحب کو پہلی دفعہ بیک فٹ پہ کھیلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔
میرے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ، یہ فقرہ واضح طور پہ شکست کا اقرار ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔ آمین
 

La Alma

لائبریرین
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ تم کو جس کسی بھی شے ساے غناء ملے، تو ہے اللہ کے لیے اُس کا پانچواں حصّہ اور رسول کے لیے اور قرابت داروں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے، اگر تم رکھتے ہو ایمان اللہ پر اور اس (نصرت) پر جو نازل کی تھی ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس دم ٹکرائی تھیں دو فوجیں۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
محترم! آیت کے آخری حصّے سے اسی بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ آیت صریحًا مالِ غنیمت سے ہی متعلق ہے ۔
جب میدانِ جنگ میں فوجیں آمنے سامنے ہوں اور دشمن پر غلبہ پا لینے کے بعد اگر کسی کے ہاتھ کوئی شے لگ جائے تو اس کا پانچواں حصّہ خدا کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ انتہائی مخصوص حالات میں اس کا حکم ہے۔ اسے زکوة پر کیسے منطبق کیا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور وہی ہے جس نے پیدا کیے باغات، چھتریوں پر چڑھے ہُوئے اور بے چڑھے اور کھجور کے درخت اور کھیتی کہ مختلف ہیں اُن کے پھل اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جُلتے اور جُدا جُدا۔ کھاؤ اُن کے پھل جب وہ پھل لائیں اور ادا کرو حق اللہ کا اسی دن جب اُن کی فصل کا ٹو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا حد سے گزرنے والوں کو۔
قران میں جا بجا زکوٰة کا لفظ آیا ہے۔ خدا کو کیا چیز مانع تھی کہ جس آیت میں زکوة کے بارے تفصیلی بیان مقصود ہو وہاں زکوة کا لفظ سرے سے موجود ہی نہ ہو۔
اس آیت میں ہر نفع بخش تجارت میں، برضا و رغبت خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کسی قسم کی کوئی شرح بھی مقرر نہیں کی۔ بلکہ الٹا اسراف سے منع کیا گیا ہے کیونکہ بعض لوگ احکامِ الہٰی کی بجا آوری میں حد سے گزر جاتے ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
اس ہاتھ کاٹ دیا کرو کے ترجمے کو اس مثال کے ساتھ دیکھئے جو اللہ تعالی عطا فرماتے ہیں۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَ۔ذَا بَشَرًا إِنْ هَ۔ذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ
پھر جب سنی اس نے ان کی عیّارانہ باتیں تو بُلا بھیجا اُنہیں اور آراستہ کی اُن کے لیے تکیہ دار مجلس اور دی ہر ایک عورت کو اُن میں سے ایک چھُری اور کہا (یُوسف سے) نکل آ، ان کے سامنے۔ پھر جب دیکھا ان عورتوں نے یوسف کو دنگ رہ گئیں اور کاٹ بیٹھیں اپنے ہاتھ اور بولیں حاشا لِلّہ: نہیں ہے یہ شخص انسان۔ نہیں ہے یہ مگر کوئی بزرگ فرشتہ۔
ہاتھ کاٹنے سے متعلق ایک اور مثال دیکھئے ، شاید بہتر تفہیم ممکن ہو سکے۔
‎اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾
‎جو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔

کیا کہتے ہیں یہاں بھی صرف ضرب لگانے کا بیان ہے؟
قطع ید کیا ہاتھ کات کر الگ کردینے کا حکم ہے کہ ایک فرد کبھی کما ہی نا سکے؟ یا قطع ید ہاتھ پر محض کاٹ لگانے کا حکم ہے تاکہ چور پہچانا جائے؟ فیصلہ آپ پر کہ آپ اللہ تعالی سے زیادہ۔ حکیم ، رحیم و کریم ہیں یا اللہ تعالی ؟
آپ کی بات سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ہر چوری پر ہاتھ کاٹ کر جدا کر دینے کی سزا نہ ہو ۔ معمولی درجے کے واقعات پر صرف علامت کے طور پر ہو۔ لیکن کیا ایک عادی چور ، جو سنگین نوعیت کے واقعات میں ملوث ہو، وہ بھی اسی رعایت اور نرمی کا مستحق ہے۔ یہ تو بعید از انصاف اور مجرم کی پشت پناہی کرنے کے مترادف ہے۔
 
Top