رعد فرشتے کی تسبیح اور بادل کی گرج

ام اویس

محفلین
دو دن سے وقفے وقفے سے بارش ہو رہی ہے ۔ اس دوران پورے آسمان پر ہر طرف بجلی چمکتی ہے اور زور دار دل دہلا دینے والی آواز میں بادل گرجتے ہیں ۔

کتاب ھدایت قرآن مجید فرقان حمید میں الله تعالی کا فرمان ہے
سورة رعد آیة ۱۲-۱۳

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ

اردو:
وہی تو ہے جو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔

وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ

اردو:
اور رعد اور فرشتے سب اسکے خوف سے اسکی تسبیح و تحمید کرتے رہتے ہیں اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ جبکہ وہ الله کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور وہ بڑی قوت والا ہے۔

یہ دنیا عالم اسباب ہے الله سبحانہ وتعالی چاہے اور چاہتا تو سب کچھ بغیر اسباب وجود میں آجاتا لیکن اس نے ہر چیز کے ہونے میں کوئی نہ کوئی سبب رکھ دیا ہے اور انسان بھی ان اسباب کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ کلام الله کی اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک کے ساتھ ہر دور کے انسانوں کے مختلف اعتقادات و توہمات جڑے ہیں ۔
بادل کی ہیبت ناک گرج سے میرے ذہن میں ان سوالوں نے سر اٹھایا
قدیم دور کے انسان بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج کے بارے میں کیا سوچتے تھے، کیا اعتقادات رکھتے تھے ؟
الله جل جلالہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسے کیسے بیان فرمایا ؟
محققین نے کیا اسباب تلاش کیے ؟
اور
تازہ ترین سائنسی تحقیقات اس کے متعلق کیا کہتی ہیں ؟

ان سوالوں کے جوابات تلاشنے کے لیے موضوع سے متعلق معلومات شئیر کی جائیں اور بغیر کسی مذہبی یا سائنسی تعصب کے جواب دینے کی کوشش کی جائے تو شکر گزار رہوں گی ۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
بجلی کر گرج
بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔ ابن عباس رضی الله عنہ نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا کہ برق پانی ہے۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ، وہی بوجھل بادلوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔
پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ ہر چیز الله کی تسبیح وحمد کرتی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں ۔ ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے۔
سعد بن ابراہیم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔
محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے
دعا
(اللہم لا تقتلنا بغضبک ولا تہلکنا بعذابک وعافنا قیل ذالک )
(ترمذی)
اور روایت میں یہ دعا ہے
(سبحان من سبح الرعد بحمدہ)
حضرت علی گرج سن کر پڑھتے سبحان من سبحت لہ
ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کر کہے دعا (سبحان اللہ وبحمدہ) اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔
عبداللہ بن زبیر (رض) گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے اور فرماتے دعا (سبحان اللہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملائکتہ من خیفتہ) اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لئے بہت تنزیر وعبرت ہے
مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں کہ تمہارا رب العزت فرماتا ہے اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا
طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا ۔ وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لئے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔
مسند کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟ وہ کہیں گے فلاں فلاں پر ۔
ابو یعلی راوی ہیں آنحضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ ؟ اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا ؟ یا پیتل کا ؟ قاصد واپس آیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئے میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر، مغرور شخص ہے۔ آپ اسے نہ بلوائیں آپ نے فرمایا دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا۔ قاصد نے واپس آ کر پھر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا آپ نے تیسری مرتبہ بھیجا اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا کہ ایک بادل اس کے سر پر آ گیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔
قتادہ کہتے ہیں مذکور ہے کہ ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔
اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے ۔ یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کرلیں ۔ آپ نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے ، اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا پھر یہ دونوں مدینے میں ٹہرے رہے کہ موقعہ پا کر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔ اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے عرب کو آپ کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔ اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔
اور روایت میں ہے کہ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال۔ اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ امر خلافت نہ تیرے لئے ہے نہ تیری قوم کے لئے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہوگا ۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کر لوں ۔ آپ نے فرمایا نہیں ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کر لوں گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا ۔ اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ کا کام تمام کر دے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟ زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔ اب یہ دونوں پھر آپ کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔ اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھرے لیکن حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر (رضی الله عنھم ) وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ، راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا
پس ان کے بارے میں یہ آیتیں (اللہ یعلم سے من وال) تک نازل ہوئیں ان سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ۔
پس یہ آیت مثل آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50؀) 27- النمل:50)
کے ہے یعنی انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔ اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ۔
حوالہ ۔ تفسیر ابن کثیر
 

ام اویس

محفلین
یعنی گرجنے والا بادل یا فرشتہ زبان "حال" یا "قال" سے حق تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتا ہے
{ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَلٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ }
(بنی اسرائیل۔۴۴)
اور تمام فرشتے ہیبت و خوف کے ساتھ اس کی حمد و ثنا اور تسبیح و تمجید میں مشغول رہتے ہیں
(تنبیہ) "رعد" و "برق" وغیرہ کے متعلق آج کل کی تحقیق یہ ہے کہ بادلوں میں "قوت کہربائیہ موجبہ" پائی جاتی ہے اور زمین میں "کہربائیہ سالب" جو بادل زمین سے زیادہ نزدیک ہو اس میں گاہ بگاہ زمین کی "سالب کہربائیہ" سرایت کر جاتی ہے پھر اس بادل کے اوپر بسا اوقات وہ بادل گذرتے ہیں جن میں "کہربائیہ موجبہ" موجود ہے۔
اور یہ قاعدہ تجربہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ مختلف قسم کے "کہربائیہ" رکھنے والے دو جسم جب محاذی ہوں تو ہر ایک اپنے کہربائیہ کو اپنی طرف کھینچنے ہیں تو دونوں کے مل جانے سے شدید حرارت پیدا ہو جاتی ہے اور اس حرارت شدیدہ سےدونوں بادلوں کے حجم کے مناسب ایک آتشیں شعلہ اٹھتا ہے جو "صائقہ" کہلاتا ہے اسی صائقہ کی چمک اور روشنی "برق" کہلاتی ہے اور ہوا میں اس کے سرایت کرنے سے جو آواز نکلتی ہے وہ "رعد" ہے "کہرباء" کا یہ ہی آتشیں شرارہ کبھی بادلوں اور ہواؤں کو پھاڑ کر نیچے گرتا ہے ۔ جس کے نہایت عجیب و غریب افعال و آثار مشاہدہ کئے گئے ہیں ، علاوہ اس کے کہ وہ مکانوں کو گراتا ، پہاڑوں کو شق کرتا اور جانداروں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے ۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اس نے نہایت احتیاط سے ایک آدمی کے کپڑے اتار کر کسی درخت کی شاخ پر رکھ دیے ہیں مگر پہننے والے کے جسم کو کچھ صدمہ نہیں پہنچا۔
(دائرۃ المعارف فریدوجدی)
جسے دیکھ کر خیال گذرتا ہے کہ بجلی کے اس آتشین شعلہ میں کوئی ذی شعور اور ذی اختیار قوت غیر مرئی طریقہ سے کام کر رہی ہے ہم کو ضرورت نہیں کہ اوپر بیان کئے ہوئے "نظریہ" کا انکار کریں۔ لیکن یہ بیان کرنے والے خود اقرار کرتے ہیں کہ "روح" کی طرح "قوت کہربائیہ" کی اصل حقیقت پر بھی اس وقت تک پردہ پڑا ہوا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے ارباب کشف و شہود کا بیان یہ ہے کہ تمام نظام عالم میں ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کا ایک عظیم الشان سلسلہ کار فرما ہے۔ جو کچھ ہم یہاں دیکھتے ہیں وہ صرف صورت ہے ۔ لیکن اس صورت میں جو غیر مرئی حقیقت پوشیدہ ہے اس کے ادراک تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ۔ صرف آنکھ رکھنے والے اسے دیکھتے ہیں۔
آخر تم جو نظریات بیان کرتے ہو (مثلاً یہ ہی قوت کہربائیہ کا موجبہ سالبہ ہونا وغیرہ) اس کا علم بھی چند حکمائے طبیعین کے سوا بلاواسطہ کس کو ہوتا ہے۔ کم از کم اتنا ہی وثوق انبیاء کے مشاہدات و تجربات پر کر لیا جائے تو بہت سے اختلافات مٹ سکتے ہیں ۔
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے نوامیس طبیعیہ کی طرح بادلوں اور بارشوں کے انتظامات پر بھی فرشتوں کی جماعتیں تعینات ہیں جو بادلوں کو مناسب مواقع پر پہنچانے اور ان سے حسب ضرورت و مصلحت کام لینے کی تدبیر کرتی ہیں۔ اگر تمہارے بیان کے موافق بادل اور زمین وغیرہ کی "کہربائیہ" کا مدبر کوئی غیر مرئی فرشتہ ہو تو انکار کی کونسی وجہ ہے ؟ جس کو تم "شرارہ کہربائیہ" کہتے ہو چونکہ وہ فرشتہ کے خاص تصرف سے پیدا ہوتا ہے لہذا اسے "وحی" کی زبان میں "مخاریق من نار" (فرشتہ کا آتشیں کوڑا) کہدیا گیا تو کیا قیامت ہو گئ۔ اس کی شدت اور سخت اشتعال سے جو گرج اور کڑک پیدا ہوئی اگر حقیقت کو لحاظ کرتے ہوئے اسےفرشتہ کی ڈانٹ سے تعبیر فرمایا تو یہ نہایت ہی موزوں تعبیر ہے۔
بہرحال "سائنس" نے جس چیز کی محض صورت کو سمجھا "وحی" نے اس کی روح اور حقیقت پر مطلع کر دیا ۔ کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ دونوں کو ایک دوسرے کا حریف مقابل قرار دے لیا جائے۔ علامہ محمود آلوسیؒ نے بقرہ کے شروع میں اس پر معقول بحث کی ہے ۔ فلیر اجع۔
ان جھگڑنے والوں پر عذاب کی بجلی نہ گرا دے۔
حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے عرب کے ایک متکبر رئیس کے پاس آدمی بھیجا کہ اسے میرے پاس بلا لاؤ ۔ قاصد نے اس کو کہا کہ رسول اللہ ﷺ تجھے بلاتے ہیں کہنے لگا رسول اللہ کون ہے ؟ اور اللہ کیا چیز ہے ؟ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا ؟ (العیاذ باللہ) تین مرتبہ یہ ہی گفتگو کی ۔ تیسری مرتبہ جب وہ یہ گستاخانہ کلمات بک رہا تھا ، ایک بادل اٹھا فورًا بجلی گری اور اس کی کھوپڑی سر سے جدا کر دی ۔
بعض روایات میں ہے کہ عامر بن طفیل اور اربد بن ربیعہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ ہم اسلام لاتے ہیں بشرطیکہ آپ کے بعد خلافت ہم کو ملے آپ نے انکار فرما دیا۔ دونوں یہ کہہ کر اٹھے کہ ہم "مدینہ" کی وادی کو آپ کے مقابلہ میں پیدل اور سواروں سے بھر دیں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ اس کو روک دے گا اور "انصار مدینہ" روکیں گے ۔ وہ دونوں چلے ، راستہ میں "اربد" پر بجلی گری اور عامر طاعون کی گلٹی سے ہلاک ہوا۔
(فائدہ) رعد کی آواز سن کر کہنا چاہئے
{ سَبْحَانَ مَنْ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلَائِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلَنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ }
حوالہ :- تفسیر عثمانی
 

ام اویس

محفلین
گرج یعنی بادل سے جو آواز ہوتی ہے اس کے تسبیح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس آواز کا پیدا ہونا خالِق ، قادر ، ہر نقص سے منزّہ کے وجود کی دلیل ہے ۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ تسبیح رعد سے وہ مراد ہے کہ اس آواز کو سن کر اللہ کے بندے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔
بعض مفسرین کا قول ہے کہ رعد ایک فرشتہ کا نام ہے جو بادل پر مامور ہے اس کو چلاتا ہے ۔
یعنی اس کی ہیبت و جلال سے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔
صاعقہ وہ شدید آواز ہے جو جَوّ ( آسمان و زمین کے درمیان ) سے اترتی ہے پھر اس میں آگ پیدا ہو جاتی ہے یا عذاب یا موت اور وہ اپنی ذات میں ایک ہی چیز ہے اور یہ تینوں چیزیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں ۔ (خازن)
شان نزول : حسن رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے ایک نہایت سرکش کافر کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اپنے اصحاب کی ایک جماعت بھیجی ، انہوں نے اس کو دعوت دی کہنے لگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا رب کون ہے جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو ، کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا یا لوہے کا یا تانبے کا ؟
مسلمانوں کو یہ بات بہت گراں گزری اور انہوں نے واپس ہو کر سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا کہ ایسا اکفر ، سیاہ دل ، سرکش دیکھنے میں نہیں آیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اس کے پاس پھر جاؤ ، اس نے پھر وہی گفتگو کی اور اتنا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت قبول کرکے ایسے رب کو مان لوں جسے نہ میں نے دیکھا نہ پہچانا ۔ یہ حضرات پھر واپس ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور اس کا خبث تو اور ترقی پر ہے ، فرمایا پھر جاؤ ، بہ تعمیل ارشاد پھر گئے جس وقت اس سے گفتگو کر رہے تھے اور وہ ایسی ہی سیاہ دلی کی باتیں بک رہا تھا ، ایک ابر آیا اس سے بجلی چمکی اور کڑک ہوئی اور بجلی گری اور اس کافر کو جلادیا ۔ یہ حضرات اس کے پاس بیٹھے رہے اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو راہ میں انھیں اصحاب کرام کی ایک اور جماعت ملی وہ کہنے لگے کہیے وہ شخص جل گیا ، ان حضرات نے کہا آپ صاحبوں کو کیسے معلوم ہوگیا ؟
انہوں نے فرمایا سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس وحی آئی ہے۔
(وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيْبُ بِهَا مَنْ يَّشَاۗءُ 13۝ۭ) 13- الرعد:13)
(خازن)
بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ عامر بن طفیل نے اربد بن ربیعہ سے کہا محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس چلو میں انھیں باتوں میں لگاؤں گا تو پیچھے سے تلوار سے حملہ کرنا ، یہ مشورہ کرکے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور عامر نے حضور سے گفتگو شروع کی بہت طویل گفتگو کے بعد کہنے لگا کہ اب ہم جاتے ہیں اور ایک بڑا جرّار لشکر آپ پر لائیں گے یہ کہہ کر چلا آیا ، باہر آکر اربد سے کہنے لگا کہ تو نے تلوار کیوں نہیں ماری ؟ اس نے کہا جب میں تلوار مارنے کا ارادہ کرتا تھا تو تو درمیان میں آجاتا تھا ۔
سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان لوگوں کے نکلتے وقت یہ دعا فرمائی ۔
''اَللّٰھُمَّ اکْفِہِمَا بِمَا شِئْتَ ''
جب یہ دونوں مدینہ شریف سے باہر آئے تو ان پر بجلی گری اربد جل گیا اور عامر بھی اسی راہ میں بہت بدتر حالت میں مرا ۔
(حسینی)
حوالہ :- تفسیر کنز الایمان
 

ام اویس

محفلین
اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اور شواہد پیش کیے جا رہے ہیں کہ بادلوں میں جو بجلی کوندتی ہے ۔ جس کی خیرہ کن چمک کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں بیم ورجا کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تم دل ہی دل میں ڈر بھی رہے ہوتے ہو کہ کہیں تم پر گر کر تمہیں ہلاک نہ کردے اور خوش بھی ہو رہے ہوتے ہو کہ بارش ہوگی۔ کھیت اور باغات سیراب ہو جائیں گے اور تم نہال ہو جاؤ گے۔ یہ بجلی اور یہ بھاری بھر کم بادل جو ادھر ادھر منڈلاتے پھر رہے ہیں تمہیں معلوم ہے یہ کس نے پیدا کیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے جس کی تخلیق کا یہ کرشمہ ہے۔
خوفا اور طمعا کے منصوب ہونے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ حال ہیں اور یہ بھی کہ یہ مفعول لٰہ ہیں قال ابو البقا، خوفا و طمعا مفعول من اجلہ (بحر) سحاب: اسم جنس ہے مذکر، مونث، مفرد جمع سب پر یہ استعمال ہوتا ہے۔

یہ بجلی کی کڑک جسے سن کر تم دہل جاتے ہو اور تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ بھی اپنی زبان حال سے یہ گواہی دے رہی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ہر عیب اور ہر ناتوانی سے پاک ہے۔ ہر خوبی اور ہر کمال سے متصف ہے اور فرشتے بھی اسی کی پاکی اور حمد کے ترانے گا رہے ہیں۔ سب اس کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ کوئی بڑی سے بڑی قوت اور مقرب سے مقرب فرشتہ اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔
رعد اس کڑک کو کہتے ہیں جو بادلوں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے اور اس فرشتہ کا نام بھی ہے جس کے ذمہ بادلوں کی تدبیر اور انتظام ہے۔
قال ابن عباس الرعد ملک انہ مؤکل بالسحاب یصرفہ حیث یأمر (بحر)
حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بادل گرجے اور بجلی کڑکے تو جو شخص یہ کلمات پڑھے۔ اگر اس کو بجلی سے نقصان پہنچے تو اس کی دیت کا میں ذمہ دار ہوں۔ سبحان من یسبع الرعد بحمدہ والملئکۃ من خیفتہ وھو علی کل شیء قدیر۔
اسی کے حکم سے بجلی گرتی ہے اور اسی پر جا گرتی ہے جس پر گرانا چاہتا ہے۔ لوگ بڑی بےفکری سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو موضوع سخن بنائے ہوتے ہیں۔ اپنے علم و فہم پر اتنے نازاں ہوتے ہیں کہ ادب و احترام کا دامن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور جو جی میں آئے وہ زبان پر لے آتے ہیں اور ان کی بےباکی پر جب اللہ تعالیٰ کے غضب کی بجلی گرتی ہے تو ان کو خاک سیاہ بنا کے رکھ دیتی ہے۔
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے شدید المحال کا معنی کیا ہے۔ بڑی سخت گرفت کرنے والا شدید الاخذ قالہ علی بن ابی طالب (رض الله عنہ )
اس آیت کی شان نزول میں علماء کرام نے متعدد اقوال لکھے ہیں۔ میں حضرت صدر الافاضل مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ خزائن العرفان سے اس کی شان نزول نقل کر رہا ہوں۔
’’حسن (رضی الله عنہ ) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عرب کے ایک نہایت سرکش کافر کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اپنے اصحاب کی ایک جماعت بھیجی۔ انہوں نے اس کو دعوت دی کہنے لگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا رب کون ہے جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو۔ کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا یا لوہے کا یا تانبے کا۔ مسلمانوں کو یہ بات بہت گراں گزری اور انہوں نے واپس جاکر سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا کہ ایسا کفر سیاہ دل سرکش دیکھنے میں نہیں آیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اس کے پاس پھر جاؤ۔ اس نے پھر وہی گفتگو کی اور اتنا اور کہا کہ میں (محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ) کی دعوت قبول کرکے ایسے رب کو مان لوں جسے نہ میں نے دیکھا نہ پہچانا۔ یہ حضرات پھر واپس آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا خبث تواردترقی پر ہے۔ فرمایا پھر جاؤ۔ بتعمیل ارشاد پھر گئے۔ جس وقت اس سے گفتگو کر رہے تھے، اور وہ ایسی ہی سیاہ دلی کی باتیں بک رہا تھا۔ ایک ابر آیا اس سے بجلی چمکی اور کڑک پیدا ہوئی اور بجلی گری اور اس کا فر کو جلا دیا۔ یہ حضرات اس کے پاس بیٹھے رہے۔ جب وہاں سے واپس ہوئے تو راہ میں انہیں اصحاب کرام کی ایک اور جماعت ملی۔ وہ کہنے لگے۔ کہئے وہ شخص جل گیا۔ ان حضرات نے کہا کہ آپ صاحبوں کو کیسے معلوم ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس وحی آئی ہے ویرسل الصواعق الآیۃ۔
(خزائن العرفان)
حوالہ :- ضیاء القرآن
 

ام اویس

محفلین
۱۲۔
بجلی چمکتی ہے تو کبھی وہ نئے خوشگوار موسم کی آمد کا پیغام ہوتی ہے اور کبھی وہ صاعقہ بن کر زمین پر گرتی ہے اور چیزوں کو جلا ڈالتی ہے۔ اسی طرح بادل اٹھتے ہیں تو کبھی وہ مفید بارش کی صورت میں زمین پر برستے ہیں اور کبھی طوفان اور سیلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں ایک ہی چیز میں ڈر کا پہلو بھی ہے اور امید کا پہلو بھی۔ دنیا کا تنظام کرنے والا جس چیز کے ذریعہ دنیا والوں پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اسی کو وہ تباہ کن عذب بھی بنا سکتا ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ آدمی کبھی اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے مامون نہ سمجھے۔
غافل انسان ہمیشہ کسی انوکھی اور طلسماتی نشانی کے ظہور کے منتظر رہتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کا شعور بیدار ہے، وہ اپنے آس پاس روز مرہ کے واقعات میں ہر قسم کی اعلی نشانی پا لیتے ہیں۔ بجلی کی کڑک چمک ان کے دل کی دھڑکنیں تیز کردیتی ہے۔ اور بارش کے قطرے دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسؤوں کا سیلاب بہہ پڑتا ہے۔ خدا کی طاقتوں کو براہ راست دیکھ کر فرشتوں کا جو حال ہوتا ہے وہی حال سچے انسانوں کا اس وقت ہوجاتا ہے جب کہ انہوں نے خدا کی طاقتوں کو ابھی براہ راست نہیں دیکھا ہے۔
حوالہ :- تذکیر القرآن
 
Top