ذو معنیٰ اشعار

فاتح

لائبریرین
کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف
جیسے کسی کا بندِ قبا کھولتے رہے

سراج الدین ظفر
وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب
اس قد کی زینت قہر بلا، اس کافر چھب کا زیب غضب
ان ڈبیوں کا آزار بُرا، ان گیندوں کا آسیب غضب
وہ چھوٹی چھوٹی سخت کچیں، وہ کچے کچے سیب غضب
انگیا کی بھڑک، گوٹوں کی جھمک، بُندوں کی کساوٹ ویسی ہے
بفیضان نظر حضرت قبلہ فاتح صاحب
دی شب وصل موزن نے اذاں پچھلے پہر
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

اب آپ نے ٹیگ کر دیا ہے تو پوچھ ہی لیتا ہوں کہ ان سب میں "ذو معنویت" کیا ہے؟
یہی کیا بلکہ اس لڑی کے چھ آٹھ اشعار کے علاوہ باقی کوئی شعر بھی کم از کم "ذو معنی" کے زمرے میں تو نہیں آتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
محبوب کے اعضا کی کھلے کھلے الفاظ میں تعریف کر دینا یا فحش گوئی کر دینا "ذو معنی" کلام کہنا نہیں ہے۔ ذو کا مطلب دو، یعنی وہ شعر جس کے دو مطلب نکلتے ہوں۔

شاعری کی ایک صنعت ایہام گوئی ہے اُس میں بھی دو مطلب ہوتے ہیں، ایک ظاہری جو فوراً سمجھ میں آ جاتا ہے اور دوسرا انتہائی چُھپا ہوا جو کافی تردد کے بعد سمجھ میں آتا ہے۔ ذو معنویت اور ایہام گوئی میں فرق یہ ہے کہ ذو معنی شعر میں جو دوسرا مطلب ہوتا ہے وہ پہلے ذہن میں آتا ہے جب کہ پہلا اور عام مطلب بھی عام فہم ہوتا ہے جس کی وجہ سے شاعر "حدود آرڈیننس" سے بچ جاتا ہے جبکہ ایہام گوئی میں دوسرا مطلب، جیسا کہ پہلے لکھا، کافی غور و حوض کے بعد سمجھ میں آتا ہے۔

ذو معنی اشعار زیادہ تر فحش ہوتے ہیں جیسے کہ اس تھریڈ میں دختر درزی اور دختر قصاب والے اشعار ہیں، ذو معنی تو ہیں لیکن فحش بھی ہیں۔ ذو معنی اشعار میں اگر فقط فخاشی ہی ہے تو وہ شعر ہونے سے زیادہ "چَوَل" کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں جیسے کہ آج کل کے اسٹیج ڈراموں میں ماری جاتی ہیں۔

اچھے شاعر، ذو معنی شعر کہتے ہوئے بھی اپنا معیار برقرار رکھتے ہیں، جیسے کہ اس تھریڈ میں ابھی تک کا سب سے اچھا شعر مومن کا ہے، "خدا خدا" کرنے والا۔

اور آخر میں ایک شعر میری طرف سے بھی، امیر خسرو کا ہے، اس کا پہلا مصرع ضرب المثل بن چکا ہے اور دوسرا مصرع عموماً نہیں لکھا جاتا، شعر پڑھ کر اندازہ کر لیجیے

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

میرے محبوب کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اُس کی زبان میرے منہ میں ہو۔
 

فاتح

لائبریرین
محمد حسین آزاد اپنی کتاب "آبِ حیات" میں "نظم اردو کی تاریخ" کے عنوان کے تحت لکھتا ہے:
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔​
نظم اردو کے آغاز میں یہ امر قابل اظہار ہے کہ سنسکرت میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنے ہیں۔ اسی واسطے نظمِ اُردو اور برج بھاشا دونوں کی بنیاد ذومعنین الفاظ اور ایہام پر ہوتی تھی، فارسی میں یہ صنعت ہے مگر کم، اُردو میں پہلے پہلے شعر کی بنا، اسی پر رکھی گئی اور دورِ اوّل کے شعرا میں برابر وہی قانون جاری رہا اوراس عہد کے چند اشعار بھی نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں :

لام نستعلیق کا ہے اُس بُتِ خوشخط کی زُلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اسلام کے

کیوں نہ ہو ہم سے وہ سجن باغی
قد ہو جس کا نہال کی مانند

تو جو دریا کے پار جلتا ہے
دل مرا وار وار جاتا ہے

تم دیکھو یا نہ دیکھو ہم کو سلام کرنا
یہ تو قدیم ہی سے سر پر ہمارے کر ہے
("کر" ہندی میں محصول کو، سنسکرت میں ہاتھ کو کہتے ہیں، سَر کے بالوں کی جڑوں میں جو خشکی ہو جاتی ہے اسے بھی "کر" کہتے ہیں۔)

نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ آخر بدنما لگتا ہے دیکھو چاند کو گہنا

سج دکھا بانکی نہیں چھوڑے گا میرا نقد دل
آج وہ افغاں پسر آتا یہی ہے دل میں ٹھان

نہ دیوے لے کے دل وہ جعدہ مشکیں
اگرباور نہیں تو مانگ دیکھو
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رحمتِ حق ۔"بہانہ می جوید"
رحمتِ حق ۔بہا "نمی جوید"

اللہ کی رحمت نزول کا بہانہ تلاش کرتی ہے ۔
رحمت حق بہا یعنی قیمت طلب نہیں کرتی۔
 

ملک حبیب

محفلین
اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب
اس قد کی زینت قہر بلا، اس کافر چھب کا زیب غضب
ان ڈبیوں کا آزار بُرا، ان گیندوں کا آسیب غضب
وہ چھوٹی چھوٹی سخت کچیں، وہ کچے کچے سیب غضب
انگیا کی بھڑک، گوٹوں کی جھمک، بُندوں کی کساوٹ ویسی ہے
بفیضان نظر حضرت قبلہ فاتح صاحب
یہ کلام کس کا ہے،،،،،،،،،، ؟؟
 

سیما علی

لائبریرین
گھر مرے مہمان آیا،تمہارے باغ میں سویا
سر اس کا کاٹ کر لادو کہ دعوت مہماں کی ہے

یہاں سویا سے وہ سویا(سبزی) مراد ہے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ شعر ولی دکنی کا نہیں بلکہ شرف الدین مضمون کا ہے۔صحیح شعر اس طرح سے ہے :

اس گد ا کا دل لیا دلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ولی کے اشعار میں ایہام کا انداز سادگی ، سلاست اور اثر آفرینی کا حامل ہے
خودی سے اولاً خالی ہوا اے دل
اگر شمع روشن کی لگن ہے!!!!!!


موسیٰ جو آکے دیکھے تجھ نور کا تماشا
اس کو پہاڑ ہو وے پھر طو ر کا تماشا
 

سیما علی

لائبریرین
قرآں کی سیر باغ پہ جھوٹی قسم نہ کھا
سیپارہ کیوں ہے غنچہ اگر تو ہنسا نہ ہو



سید محمدشاکرناجی
 

سیما علی

لائبریرین
صبا کہیو اگر جاوے ہے تو اس شوخ دلبر سوں
کہ کر کے قول پرسوں کا گئے برسوں ہوئے برسوں

ٓٓاحسن اللہ احسن
 
Top