فقط ذوق پرواز ہے زندگی

با ادب

محفلین
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی

تیز رفتار ریل گاڑی تیزی سے پٹڑی سے گزرتی چلی جا رہی تھی ....

" ریل کے ڈبے میں بیٹھے لوگ ساعتیں گنتے ہیں کب منزل ائے گی اور ریل سے باہر کھڑے لوگ ریل کی تیز رفتاری کو محسوس بھی نہیں کر پاتے کہ وہ منظر سے گزر کے چلی جاتی ہے ۔ " اس نے سوچا ........

یہ سنہ انیس سو پچپن کا زمانہ ہے ۔ جب لوگ سادہ اور مقصدیت کے تحت جیتے تھے ۔ رسموں رواجوں سے لڑ کر قبیلے برداری کا ساتھ چھوڑنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ تب کسی گاؤں دیہات کا وہ واحد سپوت جو پڑھا لکھا بابو بن جاتا وہ یا تو شعور کی منزل پا کے برادری کے لوگوں کو اپنے خیالات کے متصادم جان کر ان سے رشتہ توڑ ڈالتا ۔ یا پھر تمام عمر ان میں رہتے رہتے گیان کو انکی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرتا ۔

اور یہ کہانی ہے اس نوجوان کی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا لیکن اپنی راہیں کھوٹی کر کے گاؤں میں بسیرا ڈال.کے بیٹھ گیا تھا ۔ ہر صبح وہ گاؤں کے ہر گھر میں جاتا اور سب بچوں کے والدین کو سمجھا بجھا کے گاؤں کے باہر بنی پہاڑی پہ برگد کے سائے تلے اکٹھا کرتا اور ان میں شعور کی شمع جلانے کی کوشش کرتا ۔
زندگی کے دس سال وہ گاؤں گاؤں گھومتا رہا لوگوں کو دور دیسوں کی کہانیاں سناتا انھیں اس بات پہ آمادہ کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ اپنی اولاد کو بغرض تعلیم شہروں کو بھیجیں اور انھیں اچھے انسان بنائیں ۔

نوجوانی کے دس قیمتی سال اس نے گاؤں داسیوں کو دان کر دیے تھے ۔ وہ گاؤں کا روشن ستارہ تھا ۔

اور آج !......انیس سو پچپن کو گزرے تیس سال بیت چکے تھے ۔
بالکل اس ریل گاڑی کے منظر سے غائب ہونے کی طرح زندگی کے وہ سبھی ماہ و سال کسی پٹڑی سے گزر کے غائب ہو چکے تھے ۔
اس نے ریل کے ڈبے میں موجود سبھی افراد کو بغور دیکھا ۔
رات کا سناٹا ' چھک چھک کرتی گاڑی کی آواز اور ڈبے میں موجود بے فکرے نوجوان ........

کیا یہ نوجوان میرے دل کا حال جانتے ہیں؟ ؟ اپنے دل کی حالت زار کے مد نظر خیال کی برقی رو اسے چھو کے گزر گئی .....

بڑھاپا بھی کیا غضب شے ہے انسان کو کمزور کر دیتا ہے اس نے اپنا مذاق اڑایا ۔
لیکن وہ تو بوڑھی نہیں ۔ پھر اسکی آواز میں کمزوری کی جھلک کیوں در آتی محسوس ہوئی ۔
کیا وہ میرا گمان تھا؟ ؟
اس نے ذہن پہ زور دیکھ کے بیٹی سے ہوئی ٹیلی فون کی بات چیت یاد کرنے کی کوشش کی ۔

ابا! آپ سے ملنا ہے؟ ؟
چھ سال بعد بیٹی نے فون کیا تھا ۔ چھ سال بعد اس کی آواز سنی تھی ۔ چھ سال پہلے ذہین آنکھوں والی بیٹی نے باپ کا گھر یہ کہہ کر چھوڑا تھا کہ مجھے آج سے اپنے آسمان کی کھوج خود لگانی ہے ۔
گھنے پیڑ کے نیچے رہتے چھوٹے پودے کبھی پروان نہیں چڑھتے ۔
ایک بار سمجھانے کی غرض سے بیٹی سے کہا تھا ۔

بیٹی! آکاس بیل بن کے تناور درخت سے لپٹ جا دور تلک تیری بیلیں پھیل جائیں گی ۔

وہ نہیں مانی .... نظریاتی باپ کی نظریاتی بیٹی ... اسے منانا آسان نہیں تھا

ابا بیل ہی بنانا تھا تو بیج بھی بیل کا ڈالا ہوتا ۔ درخت کا بیج لگا کے کمزور بیل کی توقع عبث ہے ۔

باپ نے منہ نہیں موڑا اور بیٹی کو جانے دیا ۔

چھ سال لگائے تھے اس نے باپ کو پکارنے میں ۔

ابا! مل لیں

اور بس اس ایک جملے کو سن کر ابا ریل گاڑی میں بیٹھے کشا کش رواں تھے ۔ پانیوں کے دیس میں بنی چراگاہ پہ ملاقات کا وقت دیا تھا ۔
گاڑی چھک چھک چلتی جاتی اور کالی رات کے سبھی پہر ایک ایک کرتے پیچھے رہتے جا رہے تھے ۔
..........................................................

صبح کی پھو پھٹنے والی تھی ۔ پانیوں کے پاس بنی چراگاہ پہ اونچے پتھر پہ بیٹھی اس نے دماغ پہ زور دینے کی کوشش کی ۔
وہ اُن سے کیا کہے گی؟ ؟
ابا! میں تھک گئی؟ ؟؟
یا
ابا! آپ صحیح تھے؟ ؟
یا پھر ..............
سوچ کی رو بہک گئی تھی مشرق کی سمت سے ابا آتے دکھائی دیے تھے ۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔ پتھروں پہ مضبوطی سے قدم جماتی انکی سمت چلتی انکے قریب آئی ۔
ابا کی سرخ انگارہ آنکھیں شیر کی مانند چمکتی تھیں ۔ سفید اجلی رنگت دھوپ کی تمازت سے آنکھیں خیرہ کرتی ۔
بھورے بالوں میں سرمئی بالوں کی تعداد بڑھ گئی تھی ۔

ابا بوڑھے ہو چکے تھے ۔ اسے پچھتاووِں نے آگھیرا ۔ کیا بوڑھے باپ کے سامنے اپنی ہار کا اعتراف اسے زیب دیتا تھا ۔

لیکن راہ فرار مسدود تھی ۔ ابا کی آنکھیں اندر تک اترتی تھیں ۔ اور اسے لگتا اب وہ سبھی راز کھول دے گی ۔

ابا کے بیٹھتے وہ ان کے پاس موجود پتھر پہ بیٹھ گئی ۔
سوچا تھا ابا آئے تو مان جائے گی وہ بزدل تھی ۔ ہار گئی ۔ اپنا آسمان ڈھونڈنے نکلی تھی زمین بھی گنوا بیٹھی ۔ ہوا میں معلق ڈول رہی ہے لیکن کہا تو بس اتنا
" ابا ! بھیڑ ریوڑ سے الگ ہو جائے تو اسے بھیڑیے کھا لیتے ہیں ۔ بھیڑیوں سے اسی صورت بچنا ممکن ہے جب وہ جان بچا کے ریوڑ سے آن ملے اور ریوڑ مل کر بھیڑیے کو.مار گرائے "

اسے لگتا ابا جتاتی نظروں سے تائید کریں گے ۔ کہ دیکھا بیٹا! میں نہ کہتا تھا
لیکن ابا نے عجیب سوال پوچھا تھا ۔

یہ چراگاہ دکھائی دے رہی ہے ؟؟؟
جی ابا!
کہاں تک دیکھ سکتی ہیں؟ ؟
دور تلک ....
کتنی دور تک ؟؟؟
جہاں یہ آسمان کے ساتھ جا ملتی ہے وہاں تک ....
اور جہاں یہ آسمان سے جا ملتی ہے وہاں سے آگے تمھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا؟ ؟؟
ابا کی چمک دار آنکھیں مزید چمکیں ۔
اس سے آگے تو کچھ بھی نہیں ابا ....
اسکے آگے مت دیکھو ... اسی مقام سے دیکھو جہاں چراگاہ اور آسمان ملتے ہیں وہاں سے آسمان کی حدیں شروع ہوتی ہیں ۔
بھیڑ بھیڑیے سے بچنے کے لیے اڑ سکتی ہے؟ ؟/
ابا بھیڑ کیسے اڑے گی؟ ؟

آسمان پہ غول کی شکل میں کبوتر اور کوے اڑتے ہیں بیٹا .....
لیکن شاہین کی اپنی پرواز ہے ۔ وہ فضاؤں کا بادشاہ ہے ۔ دور تلک اکیلا اڑتا ہے اکیلے شکار کرتا ہے اور مشکل آئے تو گھبراتا نہیں بلکہ اسکی آنکھیں اپنے شکار پہ گڑی ہوتی ہیں ۔ اسکی گرفت مضبوط ہوتی ہے اور حوصلے بلند رہتے ہیں ۔

تم نے خود کو بھیڑ کیوں سمجھا؟ ؟؟
تم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ تم پرندوں کی دنیا کا شاہین ہو ۔
تم نے کہا تھا اپنا آسمان ڈھونڈنا ہے اور آسمان کو زمین پہ بھیڑوں کے ساتھ ڈھونڈنے لگ گئی ۔
بھیڑوں نے تمھیں چرنا سکھا دیا ہے اور تمھیں فقط چرنے اور جان بچانے کی فکر لا حق ہے ۔ بلند نگاہی اور پرعزم پرواز جو بھول جائیں انکی سوچ بھیڑیوں سے آگے نہیں جاتی ۔
شکار اہم نہیں ہے لیکن حملہ اہم ہے بقا کی جنگ اہم ترین ہے ۔
بھیڑ بننا ہو تو لوٹ آنا ۔ شاہین بننا ہو تو اڑ جانا ۔

وہ بت بنی ساکت و صامت بیٹھی رہی ۔ دور افق پہ شفق کی لالی چمکنے لگی تو اس نے سورج سے بنے گول تھال پہ نگاہ ڈالی ....

سورج میاں آج تو جا رہے ہو لیکن کل کے دن ان فضاؤں میں ہماری پرواز دیکھنے ضرور آنا
سورج کو دعوت دے کر وہ بھی اپنے آشیانے کی جانب لوٹ گئی ۔

سمیرا امام
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم بہن جی !
ابا بیل ہی بنانا تھا تو بیج بھی بیل کا ڈالا ہوتا ۔ درخت کا بیج لگا کے کمزور بیل کی توقع عبث ہے ۔
یہ تو یوں لگا ابابیل پرندے کا ذکر ہورہا ہے -حیرت میں پڑ گیا کہ ابابیل کہاں بیج سے اگتے ہیں -پھر غور کیا تو لگا بیل جانور کا ذکر ہے پھر حیرت ہوئی کہ جانور بیج سے کیسے اگے گا-آخر کار سوچتے سوچتے بیل یعنی پودے تک فکر کی رسائی ہو ہی گئی -بہر حال اس میں غلطی آپ کی نہیں میری اپنی ہے -

اچھا لکھا ہے -لکھتی رہیے -

بقول اقبال:

صاحب ساز پہ لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
 

با ادب

محفلین
السلام علیکم بہن جی !

یہ تو یوں لگا ابابیل پرندے کا ذکر ہورہا ہے -حیرت میں پڑ گیا کہ ابابیل کہاں بیج سے اگتے ہیں -پھر غور کیا تو لگا بیل جانور کا ذکر ہے پھر حیرت ہوئی کہ جانور بیج سے کیسے اگے گا-آخر کار سوچتے سوچتے بیل یعنی پودے تک فکر کی رسائی ہو ہی گئی -بہر حال اس میں غلطی آپ کی نہیں میری اپنی ہے -

اچھا لکھا ہے -لکھتی رہیے -

بقول اقبال:

صاحب ساز پہ لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

غلطی میری ہی ہے مجھے ابا کے آگے ! ڈالنا چاہیے تھا ..معذرت
 
Top