اسکول کے زمانے کی یادیں تازہ کریں

imissu4ever

محفلین
وقت تو گذر ہی جاتا ہے مگر کچھ یادیں کچھ باتیں سنہری ہوتی ہیں چاہے عمر کا کوئ حصہ ہو یا کوئ بھی ادارہ یا تعلیمی سیٹ اپ !!!
 

رانا

محفلین
وقت تو گذر ہی جاتا ہے مگر کچھ یادیں کچھ باتیں سنہری ہوتی ہیں چاہے عمر کا کوئ حصہ ہو یا کوئ بھی ادارہ یا تعلیمی سیٹ اپ !!!
کچھ یادیں کچھ باتیں تو کسی بھی دور کی سنہری ہوتی ہیں لیکن اسکول کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے لئے سنہری ہونا ضروری نہیں بلکہ مس یا سر سے مار بھی کھائی ہو تو وہ بھی دماغ کے خوشگوار یادوں کے خانے میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔:)

یہ لڑی بھی دو دن سے زندہ ہوگئی ہے تو اب اس میں بھی کچھ شئیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔:)
 
ہمارے ایک عربی کے استاد تھے ان کا پہلا لیکچر ہر کلاس میں یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنا نام مع القاب اور اسناد عربی میں لکھ کر یاد کرواتے تھے، اور یہ 5 نمبر کا سوال ہوتا تھا جو لازمی ہر پیپر میں آتا تھا۔
ما اسم استاذک
علامہ حکیم جام نیاز احمد دریک بکالوریوس فی التعلیم و ماجستیر فی التعلیم ۔۔۔
آدھے نمبر حاصل کر سکوں گا۔ :)
 

رانا

محفلین
ہمارے اسکول کے قریب ایک دکان ہوا کرتی تھی جہاں سے ہم اسکول لگنے سے چند منٹ پہلے یا ہاف ٹائم کے دوران کھانے پینے کی چیزیں خریدا کرتے تھے۔ اس نے باہر ایک تختہ کھڑا کیا ہوا ہوتا تھا اور اس پر آٹھ آنے اور ایک روپے والی کہانیاں لگائی ہوئی ہوتی تھی۔ ہمارا اکثر جیب خرچ ان کہانیوں پر خرچ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایسی ہی ایک دکان جو گھر کے قریب تھی اس سے ایک کہانی جس کا نام بھی یاد ہے ٹارزن اور نیلی بلا بڑے شوق سے آٹھ آنے کی وہ خریدی گھر لا کر جب کھولی تو اس کا اسٹارٹ کچھ اس طرح سے ہو رہا تھا کہ عبدل ایک لڑکا تھا۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ ٹارزن کی کہانیاں اس طرح تو شروع نہیں ہوا کرتیں۔ پوری کہانی پڑھ ڈالی لیکن کہیں ٹارزن کا ذکر نہیں تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ٹائٹل کسی اور کہانی کا لگ گیا تھا اور اندر کہانی کوئی اور تھی۔ ہم کہانی لے کر گئے دکاندار کے پاس اور کہا کہ ہم نے تو ٹارزن کی کہانی لی تھی جبکہ یہ تو کوئی اور ہے۔ دکاندار نے کہا جاؤ یہاں سے پوری کہانی پڑھ لی اب واپس نہیں ہوتی۔ بڑی بحث کرنے کے بعد بھی آخر ہمیں ہی آٹھ آنے کا نقصان اٹھانا پڑا۔:)
 

imissu4ever

محفلین
اب کچھ باتیں سیکنڈری اسکول کی ہو جائیں
پرائمری سے سیکنڈری میں بھی ہم اسی اسکول یعنی ابراہیم علی بھائ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول میں چلے گئے صدر ضیاءالحق مرحوم نے اعلان کیا کہ اردو میں ہی بورڈ کے پیپر ہونگے اور ہم نے پانچویں میں بیٹر انگلش بک فائو پڑھنے کے بعد چھٹی میں دوبارہ اے بی سی پڑھی
ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کا نام عطا الہی تھا جوکہ ایک پرانی ہونڈا موٹر سائکل پر آتے تھے
بہت قابل اور ڈسپلن والے تھے
شاگردوں کی بہتری کے لئے بسا اوقات پرانے پاپی جو اسکول سے ٹلا مار کرآدھی چھٹی میں بھاگ جاتے تھے انکا تعاقب کرکے موٹر سائکل پر بٹھا کر واپس لے آتے تھے
چھٹی اچھی ہوگئ ساتویں میں ایک عجیب و غریب واقع ہوا جس کا سوچ کر ابھی بھی ہمارے سر میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے
۰۰۰۰ مس گوگو سے پٹائ۰۰۰۰۰
مس گوگو سفید ڈاکٹر والے اوور آل کے ساتھ ایک چھ فٹ کی خاتون تھیں جو کہ اپنی گول بڑی برائون کلر کی موٹے پلاسٹک والی عینک کے ساتھ نہا یت ہی منفرد شخصیت کی حامل تھیں ۔
وہ مشہور تھیں دو باتوں سے
ایک سختی
دوسرا کراٹے !!!
شومئ قسمت ایک دن وہ ہماری کلاس میں ایک ٹیچر کی غیر حاضری میں آ گئیں ۔کلاس حسب معمول شور کر رہی تھی ۔ مس گو گو نے آتے ہی ڈانٹا اور ہم سب کو ڈیسک کے اوپر مرغا بنا دیا
میں فرنٹ کی لائن میں کرسی پر مرغا بنا ہوا تھا پیریڈ میں ابھی دس منٹ باقی تھے مس سامنے میز پر کسی بک کو پڑھ رہی تھیں میں نے ساتھ والے مرغے سے کلائ کے اشارے سے ٹائم کا پوچھا
ابھی جواب بھی نہیں ملا تھا کہ مس گوگو اٹھیں اور مجھے سر کے بالوں اور ہاتھ سے پکڑ کر بائ ایئر دیوار پر مار دیا ۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا اور میں اٹھ نہ سکا شکر ہے سر نہیں پھٹا اور میرے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ بیل بج گئ اور پیریڈ اوور ہو گیا
پوری کلاس دوست و دشمن سب میرے پاس تھے پانی ٹافی رومال سے ہوا دی گئ ۔سب نے ہمدردی کا اظہار کیا اور ہماری ایک سینئر ٹیچر مس نازلین نے باقاعدہ اسٹاف روم میں اس پر باقی ٹیچرز سے بات بھی کی

قسط اوّل ختم ہوئ باقی آئندہ ان شا ء اللہ
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
اب کچھ باتیں سیکنڈری اسکول کی ہو جائیں
پرائمری سے سیکنڈری میں بھی ہم اسی اسکول یعنی ابراہیم علی بھائ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول میں چلے گئے صدر ضیاءالحق مرحوم نے اعلان کیا کہ اردو میں ہی بورڈ کے پیپر ہونگے اور ہم نے پانچویں میں بیٹر انگلش بک فائو پڑھنے کے بعد چھٹی میں دوبارہ اے بی سی پڑھی
ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کا نام عطا الہی تھا جوکہ ایک پرانی ہونڈا موٹر سائکل پر آتے تھے
بہت قابل اور ڈسپلن والے تھے
شاگردوں کی بہتری کے لئے بسا اوقات پرانے پاپی جو اسکول سے ٹلا مار کرآدھی چھٹی میں بھاگ جاتے تھے انکا تعاقب کرکے موٹر سائکل پر بٹھا کر واپس لے آتے تھے
چھٹی اچھی ہوگئ ساتویں میں ایک عجیب و غریب واقع ہوا جس کا سوچ کر ابھی بھی ہمارے سر میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے
۰۰۰۰ مس گوگو سے پٹائ۰۰۰۰۰
مس گوگو سفید ڈاکٹر والے اوور آل کے ساتھ ایک چھ فٹ کی خاتون تھیں جو کہ اپنی گول بڑی برائون کلر کی موٹے پلاسٹک والی عینک کے ساتھ نہا یت ہی منفرد شخصیت کی حامل تھیں ۔
وہ مشہور تھیں دو باتوں سے
ایک سختی
دوسرا کراٹے !!!
شومئ قسمت ایک دن وہ ہماری کلاس میں ایک ٹیچر کی غیر حاضری میں آ گئیں ۔کلاس حسب معمول شور کر رہی تھی ۔ مس گو گو نے آتے ہی ڈانٹا اور ہم سب کو ڈیسک کے اوپر مرغا بنا دیا
میں فرنٹ کی لائن میں کرسی پر مرغا بنا ہوا تھا پیریڈ میں ابھی دس منٹ باقی تھے مس سامنے میز پر کسی بک کو پڑھ رہی تھیں میں نے ساتھ والے مرغے سے کلائ کے اشارے سے ٹائم کا پوچھا
ابھی جواب بھی نہیں ملا تھا کہ مس گوگو اٹھیں اور مجھے سر کے بالوں اور ہاتھ سے پکڑ کر بائ ایئر دیوار پر مار دیا ۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا اور میں اٹھ نہ سکا شکر ہے سر نہیں پھٹا اور میرے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ بیل بج گئ اور پیریڈ اوور ہو گیا
پوری کلاس دوست و دشمن سب میرے پاس تھے پانی ٹافی رومال سے ہوا دی گئ ۔سب نے ہمدردی کا اظہار کیا اور ہماری ایک سینئر ٹیچر مس نازلین نے باقاعدہ اسٹاف روم میں اس پر باقی ٹیچرز سے بات بھی کی

قسط اوّل ختم ہوئ باقی آئندہ ان شا ء اللہ
بہت عمدہ آپ کے واقعات تو بڑے مزے کے ہیں۔ جاری رکھیں انہیں۔:)
 

فلسفی

محفلین
مس گوگو اٹھیں اور مجھے سر کے بالوں اور ہاتھ سے پکڑ کر بائ ایئر دیوار پر مار دیا ۔
یعنی آپ کو "ککڑوں کڑوں" کرنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ :ROFLMAO:

ویسے مرد اساتذہ کے بارے میں ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن خاتون استاد کا ایسا رویہ میں نے پہلی بار سنا ہے۔
 

imissu4ever

محفلین
یعنی آپ کو "ککڑوں کڑوں" کرنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ :ROFLMAO:

ویسے مرد اساتذہ کے بارے میں ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن خاتون استاد کا ایسا رویہ میں نے پہلی بار سنا ہے۔
بھائ شکر ہے ذبح ہوتے ہوتے بچا ککڑوں کوں کوں دور کی بات ہے
 

imissu4ever

محفلین
قسط دوم روداد سیکنڈری اسکول

آٹھویں کلاس میں ہم خراب ہو گئے
گورنمنٹ اسکول ہونے کی وجہ سے ہمیں فیلیئر گروپ سے کلاس فیلو بننے کا شرف حاصل ہو گیا
یہ گاڈ فادر سیسلیئن مافیا گروپ ہر معاملے میں ٹانگ آڑانا اپنا حق سمجھتا تھا
--- مس سائرہ کا بے ہوش ہونا-----
اس زمانے میں ہماری پوری کلاس کی اکھٹی بید کے ڈنڈوں سے پٹائ ہوئ جس کے بعد ساری کلاس کی آنکھیں رو رو کے لال ٹماٹر اور سوج گئ
مس سائرہ اور مس غزالہ ۲ ینگ ٹیچرز تھیں اسکول پالیسی کے مطابق ساتویں جماعت کے بعد جونیئر لیڈی ٹیچرز کو پیریڈ نہیں دیئے جاتے تھے
مس سائرہ بہت ہی زیادہ سوفٹ اسپوکن اور حساس تھیں اور انکی آواز کچھ اتنی اونچی ہوتی تھی کہ اگلی دو لائنز کے علاوہ کسی کو سنائ نہ دیتی تھی
کراچی کے حالات کچھ خراب تھے اور کافی ٹیچر ایک ساتھ غیر حاضر ہو گئے
مس سائرہ کو ایک ساتھ ۲ کلاسیں ساتویں اور آٹھویں مل گئ کہ بچوں کو شور نہ کرنے دیں
ٹیچر کے نہ ہونے یا لیٹ ہونے کی صورت میں ہمارے مشغلے یہ ہوتے تھے
--ایک دوسرے کو چاک کے ٹکرے مارنا
--ربڑ بینڈ سے کھینچ کر کاغذ کے فولڈ ہوئے ٹکڑے مارنا
---کسی کے دامن کی پچھلی سائیڈ اگر ڈیسک سے لٹک رہی ہو تو اسکو باتوں میں لگا کر کاغذ کے چھلے کو پرو کر دم بنانا
اور
--شور کرنا
ٹیچر سائرہ آئیں اور انہوں نے کیپ کوائیٹ ہیڈ ڈائون کا کہا
ہم سب حیران اتنے میں پیچھے والی مافیا نے کورس کے انداز میں شور مچانا شروع کردیا
چپ ہو جائیں ۔۔۔۔شور۔۔۔۔ چپ ہو جائیں ۔۔۔۔۔ شور شور شور اور مس کا چہرہ غصے میں لال ہوگیا اور انہوں نے اپنا پورا زور لگا کر منع کیا اور کہا کہ شور نہ کرو
اور جوابا شور شور اور شور ساتھ پیچھے سے ڈیسک بھی بجے
اور مس اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور کرسی پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو گئیں
کلاس میں ایسا سناٹا چھا گیا کہ ہمیں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن سنائ دینے لگی اور ہم سب کے اپنے بلڈ پریشر لو ہوگئے کیونکہ ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہو گئے
دو اسٹوڈنٹ پانی لینے دوڑے اور باقی پھولئے ہوئے سانس کے ساتھ مشورہ پھر ہم اپنی انتہائ شفیق قابل احترام اسلامیات کی ٹیچر کو لائے اور کہا کہ بیٹھے بیٹھے اسطرح ہو گئیں پانی کے چھینٹے مارنے سے ہوش میں آئیں اور پانی پیا
اسٹاف روم میں حالت سنبھلنے پر انہوں نے دل خراش داستان سنائ
پھر اپ سب کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کلاس کے ساتھ اگلا پورا ہفتہ کیا ہوا
مگر ہم سب پوری کلاس نے اجتماعی توبہ پہلی بار خود کسی کے کہے بغیر کی ۔۔۔۔۔ !!!
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
آٹھویں کلاس میں ہم خراب ہو گئے
ایسے لگا جیسے کوئی پھل سبزی رکھے رکھے خراب ہوگیا ہو :p

ٹیچر کے نہ ہونے یا لیٹ ہونے کی صورت میں ہمارے مشغلے یہ ہوتے تھے
ایک دوسرے کو چاک کے ٹکرے مارنا
ربڑ بینڈ سے کھینچ کر کاغذ کے فولڈ ہوئے ٹکڑے مارنا
کسی کے دامن کی پچھلی سائیڈ اگر ڈیسک سے لٹک رہی ہو تو اسکو باتوں میں لگا کر کاغذ کے چھلے کو پرو کر دم بنانا
اور
شور کرنا
بہت خوش قسمت تھے بھائی۔ ہم تو چھٹی جماعت سے ہی مرد اساتذہ کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ پی ٹی ماسٹر علیحدہ سے ایک خوف طاری کیے رکھتے تھے۔ ہماری تو چوں نہیں نکلتی تھی اسکول میں۔:quiet: مار کٹائی سے بہت ڈر لگتا تھا، اس سے زیادہ ڈر بے عزتی خراب ہونے کا ہوتا تھا۔ کیونکہ کبھی کبھار استاد محترم ٹھکائی کرنے سے پہلے دو چار جگتیں بھی لگا دیا کرتے تھے۔:ROFLMAO:
 
Top