گفتگو ”ناصر کاظمی اور میں“ 21 مارچ 2019ء

منیب الف

محفلین
عرفان: اچھا ہم بات کر رہے تھے کہ ناصر کاظمی صاحب کے ساتھ آپ کا محبت اور عقیدت کا تعلق کیسے قائم ہوا؟
منیب: وہ ایسے ہوا ۔۔ جیسے میں نے کہا یہ وہ وقت ہے جب ایک طرح سے میری تلاش یا میرے سفر کی شروعات تھی۔
عرفان: بالکل ٹھیک!
منیب: میں ڈھونڈ رہا تھا معنی کو۔
یعنی کہ 2011 سے 2015 تک میں جو بھی اپنے سکول جا رہا ہوں، کالج جا رہا ہوں۔۔ جا رہا ہوں۔
میرے اندر کوئی بیدار نہیں ہوئی چیز۔
لیکن یونیورسٹی لائف یعنی 12-2011ء کا جو وقت آیا پھر مجھ میں معنی کی طلب بیدار ہوئی۔
عرفان: meaning۔
منیب: ہاں، meaning کہ یار اِس سب کے پیچھے ہے کیا وجہ؟
عرفان: بالکل صحیح!


منیب: تو ایسے وقت میں نا میرے لیے سب کچھ ریگستان تھا۔
ہر طرف بنجر زمین تھی۔ میرے لیے واحد جگہ جہاں مجھے کچھ معنی نظر آتے تھے نا، وہ شاعری تھی۔
عرفان: واہ!
منیب: شاعروں کے ہاں اور شعروں میں مجھے نظر آتا تھا کہ یار! یہاں پہ کچھ زندگی ہے۔ یہاں پہ کچھ ہے جو کہ higher than what is present ہے۔
یعنی جو موجود ہے، جو ظاہری طور پر ہمارے لین دین سب ہو رہے ہیں، اُس سے کچھ بڑھ کے ہے شاعری میں۔
پھر میں نے شاعری کو پڑھا اور اردو ادب میں گریجویشن کرنے بھی اسی لیے گیا۔
پھر شاعروں میں غالب نے بھی متاثر کیا، اقبال نے بھی لیکن جو میرے دل کے قریب آئے نا، وہ ایک تو میر تھا ۔۔ غالب بھی کسی حد تک، اقبال بھی لیکن میر اور ناصر کاظمی سے نا آپ سمجھ لیں ایک طرح سے روحانی تعلق قائم ہو گیا۔
عرفان: تبھی آپ کے چینل کو میں فالو کرتا ہوں اور اس میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے میر کو اور ناصر کاظمی کو زیادہ portray کرنے کی کوشش کی ہے، ان کی زیادہ شاعری چنی ہے جیسے کہ پہلی بارش اور پھر ساتواں در۔۔
اچھا، لٹریچر مجھے خود بھی بہت زیادہ پسند ہے۔ میں خود بھی بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے جیسا کہ ہم ایک دفعہ پہلے discuss کر رہے تھے کہ اقبال صاحب نے جو جاوید نامہ کے اختتام پر کہا کہ اصل میں کافر و زندیق تو وہ شخص ہے جو تخلیقی نہیں ہے۔
منیب: بالکل!
عرفان: کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے جمال میں سے اپنا حصہ ہی نہیں لیا۔
کیونکہ جو creator ہے، جو کائنات کا خالق ہے، وہ تو تخلیقی ہے، تخلیق کیا ہے اُس نے۔۔ تو جس کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں آئی ہے تو درحقیقت کافر و زندیق تو وہ ہے۔
منیب: بالکل!
عرفان: اور پھر دوسرا یہ کہ واقعی، میں اس سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ جب کوئی شخص یا پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر شخص شعر کہتا نہیں ہے اور یہ کسی کا خونِ جگر ہی ہوتا ہے جو وہ نچوڑ کے اس کو دو لائنوں میں لکھ دیتا ہے اور اس میں بڑی wisdom چھپی ہوتی ہے، اس کے پس منظر میں بہت سے حالات و واقعات اور بہت سی کہانیاں۔۔
منیب: امیر مینائی نے کہا ہے نا،
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت​
عرفان: واہ وا!
منیب: اچھا یہ جو معنی مجھے شاعری میں نظر آ رہا تھا نا، میں اس کے پیچھے لپکا۔
عرفان: صحیح!
منیب: اور میرؔ اور ناصرؔ سے میرا ایک تعلق پیدا ہوا۔۔
اچھا یہاں پہ میں ایک یہ بات کرنا چاہوں گا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ معنی ۔۔ آپ نے جس طرح کہا ہے نا کہ ہر شخص شعر نہیں کہتا تو یہ کوئی قید نہیں ہے کہ جو شعر کہتا ہے، وہی بامعنی ہے اور جو شعر نہیں کہہ سکتا، وہ بےمعنی ہے۔
عرفان: بالکل!
منیب: اصل میں ہر ایک شخص کا نا معنی الگ الگ ہے۔ کسی کو مصوری میں معنی نظر آ جائے گا، کسی کو موسیقی میں نظر آ جائے گا۔۔
عرفان: واہ!
منیب: کوئی موسیقی سے وہ معنی تلاش کر لے گا۔۔
عرفان: واہ وا!
منیب: گویا کہ یہ فنونِ لطیفہ جو ہیں نا ۔۔ حتیٰ کہ اِن کی بھی قید نہیں ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ ایک شخص تھا، وہ software engineering کی فیلڈ میں گیا۔۔
عرفان: میں اس میں ایک چھوٹی سی چیز add کرنا چاہ رہا تھا۔
ایک تو میں آپ کی اس بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ تمام ہی فنونِ لطیفہ جو ہیں۔۔ اس کے اندر موسیقی بھی آ جاتی ہے، دوسری چیزیں بھی آ جاتی ہیں اور سب کو جس چیز کی تلاش ہے، جس حقیقت کی ہم اکثر بات کرتے ہیں جو انھیں نفسِ مطمئنہ کی طرف لے جائے گی، وہ انھیں ان میں سے کسی بھی چیز میں مل سکتی ہے اور واقعی ہر شخص کا جو فن ہے وہ productive نہیں ہوتا کیونکہ اب موسیقی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف شور مچا رہے ہیں اور شاعری میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا گیا کہ
شاعری چارا نہیں کہ سب گدھے چرنے لگے
اردو زباں آتی نہیں اور شاعری کرنے لگے​
منیب: بالکل، بالکل!
عرفان: ہاہاہا۔۔
یعنی کہ صرف ردیف اور قافیے کو ملانا کہ ہم آئے اور اس میں نہا کے چل دیے اور this kind of literature ۔۔
منیب: ہاں، میں آپ کو مثال دیتا ہوں۔
دیکھیں، ایک فن ہے۔ اس سے آپ کیا لے سکتے ہیں؟
مثلاً شاعری ہے اور شاعری میں ایک مضمون ہے زلفوں کا۔
اب ایک نے اسی مضمون کو پکڑا، اس نے بھی ایک پیکر دیکھا، ایک نسوانی پیکر دیکھا، اس کی زلفیں دیکھیں، اس سے متاثر ہوا اور اس کو اس نے کیسے بیان کیا؟
مری جاں! زلف کے پھندے بنانا کس سے سیکھا ہے؟​
اب اس نے کافی apparent دیکھا جس میں کوئی ایسی چاشنی یا ذوق نہیں ہے، اُس طرح سے۔۔
لیکن اب غالبؔ نے دیکھا اُسی زلف کو، اُسی پیکر کو اور اس نے کیا کہا؟
اُس نے کہا،
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز​
عرفان: واہ!
منیب: اب اُس نے کتنے صنائع اِس میں پرو دیے۔۔
عرفان: واہ!
منیب: اور کتنے اندیشوں میں اِسے لے گیا جبکہ دوسرے نے کہا کہ مری جاں! زلف کے پھندے بنانا کس سے سیکھا ہے؟
اُس نے سطح پہ رہتے ہوئے وہیں پھندے کی ایک گرہ لگا کے بات ختم کر دی۔
عرفان: اور پیر نصیر صاحب نے بھی کہا کہ
اے ہوا! ایک زحمت ذرا پھر
اُن کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں​
منیب: ہاں!
یعنی کہ جو جتنا گہرا ہوتا ہے نا، وہ اُتنی گہرائی میں اتر جاتا ہے اِن چیزوں کو پکڑ کے۔
عرفان: بےشک، بےشک۔۔
 
آخری تدوین:
Top