پاکستانی میڈیا، پروپیگنڈا اورعوام

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی میڈیا، پروپیگنڈا اورعوام
آصف ملک منگل 26 مارچ 2019

1605732-propagandatvx-1553502570-907-640x480.jpg

ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت لوگوں پر اپنی سوچ تھوپی جا رہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جدید دنیا میں سب سے مہلک پروپیگنڈا، جرمنی کی نازی پارٹی کا قرار دیا جاتا ہے اور جوزف گوئبلز کو پروپیگنڈا کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس کا پروپیگنڈا اس قدر اثر رکھتا تھا کہ جرمن عوام اور فوج کسی دوسرے کی رائے سننے کےلیے تیار ہی نہیں تھے؛ اور پھر اسی پروپیگنڈے نے جرمنی کو جنگ میں جھونک دیا، 7 کروڑ افراد ہلاک ہوئے اور دنیا کا نقشہ تبدیل ہو گیا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں ’’پروپیگنڈا‘‘ کے مختلف معنی ہیں، جیسے کوئی شخص جب کسی بات پر زور دے رہا ہو تو عام طور پر آپ نے سنا ہوگا کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص ’’پروپیگنڈا‘‘ کررہا ہے، جبکہ کچھ کے نزدیک ایک ہی بات کو بار بار کرنا پروپیگنڈا کہلاتا ہے؛ اور کچھ لوگوں کے نزدیک جب جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جائے تو اسے پروپیگنڈا کہتے ہیں۔

یہ الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے اس لیے مثال بھی ٹیلی ویژن کی دی جائے تو آسانی سے مدعا سمجھایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ بھی پروپیگنڈا نہیں۔ اگر کسی ملک میں ٹیلی ویژن چینلز پر ایک ہی بات تواتر سے کی جائے تو اسے لوگ پروپیگنڈا کا نام دیتے ہیں جبکہ دراصل وہ پروپیگنڈا نہیں Opinion making یا رائے سازی کا عمل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی خاص شخصیت کو ملک کے حوالے سے کہا جائے کہ وہ دہشت گرد ہے اور اس کےلیے اپنی مرضی کے ثبوت بھی پیش کیے جائیں تو ایک خاص وقت کے بعد لوگوں کی رائے تبدیل ہوجائے گی۔ جیسے ایک وقت تھا کہ پوری دنیا میں صدام حسین کے چرچے تھے مگر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کیسے اس پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔

اسی طرح اگر کسی ملک کے میڈیا پر ہر چیز پر بحث کرنے کی اجازت ہو مگر کچھ موضوعات پر بات کرنے کی اجازت نہ ہو، تواتر سے کسی بھی موضوع پر بات کریں مگر اس خاص موضوع پر بات نہ کریں تو اسے ’’کنٹرول‘‘ یا ’’سنسرشپ‘‘ کہا جائے گا، نہ کہ پروپیگنڈا۔ جیسے مغرب میں یہودیوں کے خلاف بات کی جائے تو اسے ’’ہولوکاسٹ‘‘ یا ’’اینٹی سمیٹک‘‘ کہہ کہ خاموش کروا دیا جاتا ہے۔

جب ایک ہی بات مختلف لوگ مختلف زبانوں میں مختلف طریقوں سے کرتے ہیں مگر ان کا معنی یا مقصد ایک ہوتا ہے تو اسے پروپیگنڈا کہا جاتا ہے۔ مثلاً پاک بھارت تعلقات پر نظر ڈالی جائے اور اس معاملے میں ہندوستانی میڈیا کا کردار دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ چاہے ہندوستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں کا چینل ہو یا انگریزی زبان کا، تمام پر ایک ہی بات ہورہی ہے کہ پاکستان پر حملہ کیا جانا چاہیے؛ اور اسے ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ ماردو، چڑھ جاؤ، ختم کردو، جھکا دیا، وغیرہ جیسی باتیں ہندوستانی میڈیا پر سب نے دیکھیں بھی اور سنیں بھی۔

اسی طرح دوسری مثال پاکستان کی ہے۔ اگر ہم گزشتہ پانچ سال میں اپنے الیکٹرونک میڈیا پر چلنے والے پروگراموں، خبرناموں، تجزیات اور مہمانوں کی سلیکشن کو غور سے دیکھیں تو یہ سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک مقصد کے حصول کےلیے کیا گیا۔ ہم اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ وہ الزامات درست تھے یا غلط، مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ٹیلی ویژن چینلز کسی کے زیر اثر ایسا کچھ کررہے تھے یا نہیں۔

ظاہر ہے ایسا نہیں تھا۔ وہ سب ایک ہی مقصد کو حاصل کروانے میں مددگار ثابت ہورہے تھے اور ہورہے ہیں۔ ہمارا میڈیا ’’پروپیگنڈا‘‘ کے ایک آلے کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ روز ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ماضی کی حکومتوں کو کسی نہ کسی طریقے سے کمتر دکھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ پرانے انٹرویوز، پرانی خبریں اور معاشی صورت حال اس طرح دکھائی جاتی ہے کہ لوگ موجودہ حکومت سے سوالات نہ پوچھیں یا اس کی کارکردگی پر سوال نہ اٹھائیں۔

اگر آپ غور کریں تو پاکستان میں اس وقت میڈیا کا کردار خود عوام کےلیے خطرناک ہے کیونکہ ایک خاص وقت کے بعد لوگ میڈیا کو ’’ریسلنگ میچ‘‘ کے طور پر لینا شروع ہوجائیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہاں سب کچھ ’’فکس‘‘ ہے اور ’’اداکار‘‘ اپنی اپنی پرفارمنس دے کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔

گزشتہ حکومتوں کو ولن جبکہ موجودہ حکومت کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے وجود سے خطرہ ہے۔ روز آپ کی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک جنگ جاری ہے۔ کس طرح عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کیا جائے؟ یہ سوچے سمجھے طریقے سے بنایا گیا ایک منصوبہ ہے جو ہر آنے والے دن مزید خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ ایک کروڑ تیس لاکھ ووٹ لے کر آنے والی پارٹی مسلم لیگ نواز اور ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لے کر آنے والی پارٹی تحریک انصاف کے قائدین تو ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں۔ کیا وہ لوگ جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے، وہ ایک دوسرے کے قائدین کو برداشت کرسکتے ہیں؟

اپنے خاندان میں ہی سیاست کے موضوع پر بحث کرکے دیکھ لیجیے، اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح تقسیم کیا جارہا ہے۔ جب یہ سب کچھ دیکھنے کو ملے تو ہم اسے ’’پروپیگنڈا‘‘ قرار دیں گے کیونکہ یہاں ایک ہی بات مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر، مختلف انداز سے، بار بار دکھائی جارہی ہے۔ اب آپ خود ہی سوچیے کہ اس کا اثر لوگوں پر کیا ہوگا اور اسے کیا نام دیا جائے گا؟

بات نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن کی ہورہی ہوتی ہے مگر مقصد سیاستدانوں کو نااہل ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلیے کوئی چینل بی بی سی کی ڈاکومنٹری پرنسس اینڈ دی پلے بوائے کا سہارا لیتا ہے تو دوسرا ریمنڈ بیکر کی کتاب Capitalism’s Achilles Heel: Dirty Money and How to Renew the Free-Market System کے اقتباسات پڑھ کر سناتا ہے اور اردو زبان میں ترجمہ کرکے اسکرینوں پر چلاتا بھی ہے۔ مگر مقصد وہی ایک ہے۔

یاد رکھیے! یہ بات بہت سنجیدہ ہے کہ ہم اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر کیا دیکھ رہے ہیں؛ اور جو دیکھ رہے ہیں وہی دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں… اینکرز کا مخاطب عوام نہیں بلکہ ڈائریکٹرز ہیں جو ایک خاص مقصد کو مختلف انداز سے پیش کروانا چاہتے ہیں۔ لازم ہے کہ جو کچھ ٹیلی ویژن پر دکھایا جارہا ہے، لوگ اس کے بارے میں سوچ سکیں، سوال کرسکیں، سچائی جان سکیں، تصویر کا دوسرا روخ دیکھنے کی خواہش کرسکیں۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہورہا! ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت لوگوں پر اپنی سوچ تھوپی جارہی ہے… بظاہر ایک بڑے بے ضرر طریقے سے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے جیسے کچھ بھی نہیں ہورہا۔

اب ہو یہ رہا ہے کہ ایک خاص سوچ کو ٹیلی ویژن کے ذریعے بارود فراہم کیا جا رہا ہے کہ سب نکمے ہیں اور انہیں لانے والے یعنی عوام کچھ نہیں جانتے؛ انہیں ہم بتائیں گے کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط۔؛ بطور صحافی ہمارا کام ہے کہ ہم سوشل ایشوز پر بات کریں، عوامی مسائل کی بات کریں، نہ کہ کسی کے آلہ کار کے طور پر اس کا پروپیگنڈا ٹول بنیں۔

اب اگر یقین نہیں آتا کہ کیا یہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت نہیں ہورہا، تو پیر سے جمعے تک، شام 7 بجے سے رات 12 بجے کے درمیان نیوز چینلز کی نشریات دیکھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ یہ صحافت ہورہی ہے یا پروپیگنڈا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top