روشن صبح

611779_5601486_chiniot_magazine.jpg


چنیوٹ کے گاؤں کی پہلی پولیس کانسٹیبل ’’ثمینہ نورین‘‘
 
سرگودھا میں بیوہ خواتین نے اپنا ہوٹل قائم کرلیا

616354_6813192_womenhotel_updates.jpg

سرگودھا کی ایک باہمت بیوہ خاتون نے 4 بیوہ خواتین کے ساتھ مل کر اپنا ہوٹل قائم کرلیا۔ ہوٹل چلانے والی خواتین کا کہنا ہے کہ ہمت اور ارادے مضبوط ہوں تو انسان مشکلات کے باوجود تمام تر مسائل آسانی سے حل کر سکتا ہے۔
سرگودھا کے علاقہ غلہ منڈی میں 48سالہ باہمت بیوہ کوثر بی بی نے دیگر4 خواتین کے ساتھ مل کراپنی مدد آپ کے تحت کرائے کی دکان میں ہوٹل قائم کیا۔
کوثر بی بی سمیت چاروں ہوٹل چلانے والی خواتین کے شوہر وفات پا چکے ہیں، ان خواتین نے ہمت ہارنے کی بجائے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے خواتین کا ہوٹل قائم کیا اور آج یہ ہوٹل علاقے کا سب سے معروف ہوٹل بن گیا ہے۔
خواتین کہ اس ہوٹل پر کھانے کھانے کیلئے آنے والے گاہکوں کا کہنا ہے کہ با ہمت عورتوں نے ایک ایسا ہوٹل قائم کردیا ہے جہاں پر کھانا انتہائی لزیز ،مزیدار اور سستا ہوتا ہے۔کوثر بی بی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مدد کرے تو وہ مزید خواتین کو روزگار فراہم کر سکتی ہے۔
لنک
 

جاسمن

لائبریرین
فیصل آباد کی رہائشی 18 گولڈ میڈلز حاصل کرنے والی میڈیکل کی ہونہار طالبہ
سمیرا فقیرحسین جمعہ 22 مارچ 2019

فیصل آباد کی رہائشی میڈیکل کی ہونہار طالبہ ڈاکٹر رعنا اسلم نے اپنے کانووکیشن میں 18 گولڈ میڈلز حاصل کر لیے ۔ کانووکیشن کی تقریب میں گورنر پنجاب چودھری سرور نے طالبہ کو 18 گولڈ میڈلز پہنائے۔ یہ گولڈ میڈلز ہونہار طالبہ کو امتحانات میں پوزیشن لینے، سب سے زیادہ نمبرز لینے اور بہترین کارکردگی پر پہنائے گئے۔
اس موقع پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور ہال میں موجود دیگر طلبا اور اُساتذہ نے اس محنتی طالبہ کو خوب سراہا جس میں اپنی محنت اور لگن سے قابل تعریف کامیابی حاصل کی۔ سوشل میڈیا پر طالبہ کے 18 گولڈ میڈلز حاصل کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے جس پر صارفین نے اس محنتی اور ہونہار طالبہ کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ بلاشبہ پاکستان کے طلبا زندگی کے ہر شعبے میں محنت اور لگن کے ساتھ اپنا نام کما سکتے ہیں۔
اس طالبہ کی ویڈیو دیکھ کر صارفین کا کہنا ہے کہ ایک نقاب پوش طالبہ نے 18 گولڈ میڈلز حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا کہ نقاب ہرگز ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ بلکہ اگر محنت اور لگن سے کام کیا جائے تو ہر صورت کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

فیصل آباد کی رہائشی 18 گولڈ میڈلز حاصل کرنے والی میڈیکل کی ہونہار طالبہ اُردو پوائنٹ پاکستان
 

جاسمن

لائبریرین
یو ٹیوب کا مولانا طارق جمیل کے لیے اعزاز
یکم اپریل 2019
دنیا کی مقبول ترین ویڈیو اسٹریمنگ و شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب نے عالمی شہرت یافتہ عالم دین مولانا طارق جمیل کو منفرد اعزاز سے نواز دیا۔
5ca1b6080872e.png


مولانا طارق جمیل ایک معروف پاکستانی مبلغ اور عالم دین ہیں اور دنیا بھر میں وہ دین کی دعوت و تبلیغ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، ان کی انہی تبلیغ کی کوششوں کے باعث کئی گلوکار، اداکار اور کھلاڑیوں کی زندگیوں میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔

جہاں معروف عالم دین کی کاوشوں کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے وہیں اب سرچ انجن گوگل کی ذیلی کمپنی یوٹیوب نے بھی ان کی خدمات کو تسلیم کرلیا اور انہیں یوٹیوب کے مخصوص ’گولڈن پلے بٹن‘ کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔
یوٹیوب کا مولانا طارق جمیل کیلئے اعزاز - Pakistan - Dawn News
 

زیک

مسافر
یو ٹیوب کا مولانا طارق جمیل کے لیے اعزاز
یکم اپریل 2019
دنیا کی مقبول ترین ویڈیو اسٹریمنگ و شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب نے عالمی شہرت یافتہ عالم دین مولانا طارق جمیل کو منفرد اعزاز سے نواز دیا۔
5ca1b6080872e.png


مولانا طارق جمیل ایک معروف پاکستانی مبلغ اور عالم دین ہیں اور دنیا بھر میں وہ دین کی دعوت و تبلیغ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، ان کی انہی تبلیغ کی کوششوں کے باعث کئی گلوکار، اداکار اور کھلاڑیوں کی زندگیوں میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔

جہاں معروف عالم دین کی کاوشوں کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے وہیں اب سرچ انجن گوگل کی ذیلی کمپنی یوٹیوب نے بھی ان کی خدمات کو تسلیم کرلیا اور انہیں یوٹیوب کے مخصوص ’گولڈن پلے بٹن‘ کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔
یوٹیوب کا مولانا طارق جمیل کیلئے اعزاز - Pakistan - Dawn News
اس کا خدمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس چینل کے دس لاکھ سبسکرائبر ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
پنجاب کے شہرگوجرخان کے قریب تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت
19 اپریل 2019
وزارت پٹرولیم کے ترجمان کے مطابق پٹرولیم ڈویژن کی کمپنی ماڑی پیٹرولیم نے گوجرخان کے قریب تیل کے ذخائر ملنے کی خوشخبری سنائی ہے۔

غوری بلاک کے ڈھاریاں ون ویل سے خام تیل دریافت ہوا ہے جو کہ ماڑی پٹرولیم کی پنجاب میں دوسری بڑی دریافت ہے۔

ڈھاریاں ون سے یومیہ 372 بیرل خام تیل ملنےکا تخمینہ لگایا گیا ہے اور نئی دریافت ملک میں انرجی بحران پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
ماڑی گیس غوری بلاک میں 65 فیصد جبکہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ 35 فیصد کی حصے دار ہے۔
پنجاب کے شہرگوجرخان کے قریب تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت
 

جاسمن

لائبریرین
وزیراعلیٰ پنجاب کا قیدیوں کوریلیف دینے کیلئے احسن اقدام،پیرول پررہائی پر عائد پابندی ختم کرنے کافیصلہ
20 1پریل 2019
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قیدیوں کوریلیف دینے کیلئے احسن اقدام اٹھا لیا ،وزیراعلیٰ پنجاب نے قیدیوں کی پیرول پر رہائی پرعائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔وزیراعلیٰ نے پنجاب کی جیلوںمیں قید کے پی کے سے تعلق رکھنے 400 قیدیوں کو ان کے صوبے میں بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ قیدیوں کو خیبرپختونخوا بھجوانے کیلئے قواعد و ضوابط کے تحت فوری اقدامات کئے جائیں ،انہوں نے کہاکہ قیدیوں کو بھی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوںگے ۔انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو جیلوں میں جیل مینوئل کے تحت سہولتیں دینگے ،خواتین قیدیوں کے بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا قیدیوں کوریلیف دینے کیلئے احسن اقدام،پیرول پررہائی پر عائد پابندی ختم کرنے کافیصلہ
 

عباس رضا

محفلین
پرسوں دوپہر کو دفتر سے واپسی آرہا تھا، غنی چورنگی کے سگنل پر رکنا ہوا، دوپہر کے کوئی ڈیڑھ بج رہے ہوں گے، گرمی تھی، کچھ پیاس مٹانے کے لئے ٹریفک کانسٹیبل گنڈیریاں کھارہے تھے، اتنے میں ایک کانسٹیبل خود ہی آگے بڑھا اور کچھ گنڈیریاں ایک سوزوکی ڈرائیور کو پیش کیں۔ اچھا لگا
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستانی طلبا نے دل کے دورے سے خبردار کرنے والاآلہ تیارکرلیا
January 20
2017
AR Sajid
جامعہ کراچی اور سرسید یونیورسٹی کے طالبعلموں نے دل کے دورے سے خبردار کرنے والا ایک آلہ بنایا ہے جو کسی مریض میں ہارٹ اٹیک کا پتا لگا کر خبردار کرسکتا ہے اور وہ قریبی عزیزوں کو ایس ایم ایس سے مطلع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جامعہ کراچی میں واقع ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولرمیڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی ) کی پی ایچ ڈی طالبات اور سرسید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک طالبعلم نے مشترکہ طور پر یہ آلہ تیار کیا ہے۔

پاکستان میں تیار کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا واحد پروٹوٹائپ ہے جس میں موجود سرکٹ ڈسپلے پر دل دھڑکنے کی رفتار ظاہر کرتا رہتا ہے۔
فی الحال یہ ایک نمونہ یا پروٹوٹائپ ہے جسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ صبا مجید، کنول افتخار، ماہا شاہد، عائشہ عزیز، مہوش سبحان، مہوش تنویراور مریم آسکانی نے اس کے پیرامیٹرز اور اصول وضع کئے ہیں جب کہ سرکٹ ڈیزائننگ اور تیاری کا کام سعد احمد خان نے کیا ہے جو سرسید یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ تمام طالبات نے یہ پروجیکٹ ڈاکٹر پروفیسر شبانہ سیم جی کی نگرانی میں بنایا ہے۔
ٹیم میں شامل طالبات پی سی ایم ڈی میں فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ان میں ایک بلوچ طالبہ مریم آسکانی بھی ہیں جو کراچی کے علاقے لیاری میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے خاندان میں ڈاکٹریٹ کرنے والی پہلی لڑکی ہیں۔ مریم نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا اور اب ان کی تعلیم کو دیکھ کر خاندان کے دیگر لوگ بھی اپنی بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔
صبا مجید نے مقامی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آلے کو انگلی پر پہنا جاتا ہے جو نبض اور جسمانی درجہ حرارت کو نوٹ کرتا رہتا ہے ۔ اگریہ دونوں اشاریئے معمول سے زیادہ یا کم ہوں تو اس کا الارم بج جاتا ہے اور اس میں جی ایس ایم ٹیکنالوجی سے مریض کے مقام کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے جبکہ سم کارڈ کے ذریعے ایمبولینس، ڈاکٹر، عزیز رشتے دار سمیت کئی افراد کو ایس ایم ایس کے ذریعے مریض کی کیفت سے آگاہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہارٹ اٹیک ڈٹیکشن ڈیوائس نامی یہ آلہ ای سی جی کی جگہ تو نہیں لے سکتا لیکن ابتدائی صورتحال سے خبردار کرسکتا ہے۔ دل کے دورے میں فوری طور پر ابتدائی طبی امداد ضروری ہوتی ہے اور ہر گزرتا ہوا منٹ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اسی لیے ابتدائی حالت ظاہر کرکے یہ جانی نقصان سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
طالبات کے مطابق اسے اسلام آباد میں منعقدہ ایک اختراعاتی مقابلے کے لیے طبی و حیاتیاتی اختراع کے زمرے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس مقابلے کا نام ڈسٹنگوئشڈ انوویشن کولیبریشن اینڈ اینٹرپرونیئرشپ (ڈائس) تھا جہاں اس نے پہلا انعام حاصل کیا تھا۔
اس پروٹوٹائپ کی تیاری پر 30 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے تاہم تمام طالبات نے اتفاق کیا کہ اسے مریضوں پر آزمانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آلے کی معیاربندی اور کیلبریشن کی بہت ضرورت ہے جو فیلڈ ورک کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ دوسری جانب پورے آلے کو کسی کڑے (ہینڈ بینڈ) میں سمونے سے یہ مزید بہتر، مختصر اور مؤثر ہوسکتا ہے۔
صبا مجید کے مطابق اس کامیابی کے بعد ہمیں مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ امراضِ قلب کے ماہرین، بایومیڈیکل انجینئر اور دیگر پروفیشنلز کی ایک سرگرم ٹیم کی ضرورت ہے تاکہ اس کام کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔ دوسری جانب اس کی کامیابی کے لیے امراضِ قلب کے ماہرین اور بایو میڈیکل انیجینئروں پر مشتمل ایک ماہرانہ ٹیم کی ضرورت پر بھی زوردیا گیا ہے۔
http://urdu.educationist.com.pk/?p=407
 

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی

19 اکتوبر 1897 کو لکھنؤ ( برٹش انڈیا ) میں پیدا ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اُن چند افراد میں شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج میں قابلِ قدر کردار ادا کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹر صدیقی نے 1927 میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے کیمیاء میں پی ایچ ڈی کیا، وہ کافی عرصے تک طبیہ کالج دہلی اور انڈین کاؤنسل آف سائنٹیفک ریسرچ سے وابستہ رہے۔

1961 میں انھیں پاکستان کاؤنسل آف سائنٹیفک ریسرچ کا چیئرمین منتخب کیا گیا، اسی برس ڈاکٹر صدیقی کو رائل سوسائٹی لندن کی فیلو شپ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا، ان کا شمار ابتدائی ادوار کے اُن سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے سائنسی تعلیم کو عام کرنے کے لیے غیر معمولی خدمات سر انجام دیں اور ان ہی کی کوششوں سے حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ کراچی یونیورسٹی اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کا قیام عمل میں آیا۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی تحقیقات کا مرکز قدرتی مرکبات کی کیمیاء تھا، جن پر انہوں نے 300 ریسرچ پیپرز تحریر کیے، جو معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوتے رہے اور فارما کولوجی (ادوایات کی تیاری) میں ایک انقلاب برپا کرنے کا سبب بنے، یوں جنوبی ایشیاء میں کثرت سے اُگنے والے پودوں کو دواؤں کی تیاری میں استعمال کیا جانے لگا، جن میں ’نیم ‘، ’راؤل فیا‘ (ایک انڈین پودے کی جڑ) اور دیگر نباتات شامل ہیں، جو آج دنیا بھر میں دماغی انتشار اور دل کے امراض کے شافی علاج کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

سائنس کی ترویج اور شعبۂ کیمیاء میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس، ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز اور تمغۂ پاکستان سے نوازا، ان کا انتقال 1994 کو کراچی میں ہوا۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
ہندوستان کے شہر بھوپال میں ایک اردو بولنے والے پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آئے۔

عبد القدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز" کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔

بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

عبد القدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں ۔ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا۔

عبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔

مئی 1998ء کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی اور حکومتی اجازت کے بعد چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کئے گئے۔

پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔

انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر منیر احمد خان

ڈاکٹر منیراحمد خان 26 مئی کو ضلع قصور میں پیدا ہوئے، ان کا شمار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے، جن کی اَن تھک محنت کی بدولت ہمارا وطن دنیا کے نقشے پر پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بن کر ابھرا۔

نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے نیوکلیئر انرجی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر منیر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوئے اور تقریباً 40 برس تک اس کے سائنٹیفک اسٹاف ممبر اور بورڈ آف گورنرز کے رکن کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔

1972 میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کے جنگی اور ایٹمی ہتھیاروں کے جنون کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر منیر احمد خان کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا، تاکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مؤثر بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکے۔

آج نوجوان نسل میں بہت کم لوگ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ابتدائی دور میں یورینیئم کے بجائے پلوٹونیم کو ایٹمی ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور ڈاکٹر منیر احمد خان نے 1974 سے 1976 تک فرانس سمیت چند دیگر ممالک سے اس سلسلے میں کچھ معاہدات بھی کیے، مگر چند غیر ملکی سازشوں کے باعث وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکے اور پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بم پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا، جو یورینیئم افزودگی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

ڈاکٹر منیر بدستور اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ رہے اور اپنی تمام تر توجہ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج پر مرکوز رکھی، ان ہی کی کوششوں سے نتھیا گلی میں انٹرنیشنل سمر کالج آف فزکس اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنسز کا قیام ممکن ہوا، اس کے علاوہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری، خوشاب ون اور کراچی نیوکلیئر پاور ٹریننگ سینٹر جیسے عظیم الشان منصوبے بھی ڈاکٹر منیر خان کی سرکردگی میں پایۂ تکمیل کو پہنچے، جہاں نیوکلیئر انجینئرز اور سائنسدانوں کی تربیت کا مکمل انتظام کیا گیا۔

پاکستان کے میزائل پروگرام میں بنیادی کردارادا کرنے والے نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے، ڈاکٹر منیر کی گراں قدر خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز جیسے اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا، ان کا انتقال 1999 میں آسٹریا میں ہوا۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر وڈل شاہ بخاری

ڈاکٹر وڈل شاہ بخاری ان خوش قسمت ترین افراد میں شامل ہیں جو سندھ کے ایک غیر معروف قصبے ’امین لاکھو‘ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے باوجود اپنی اعلیٰ صلاحیتیوں اور قابلیت کی بنا پر کامیابی کی سیڑھیاں بتدریج چڑھتے گئے۔

1963 میں سندھ یونیورسٹی سے نامیاتی کیمیاء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کرنے کے فوراَ بعد وہ لیکچرر تعینات ہوئے اور پھر اس نوجوان سائنسدان نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، انہوں نے 1967 میں ایمپیریل کالج لندن سے محض 6 ماہ کی مختصر مدت میں پی ایچ ڈی مکمل کیا اور وطن واپس لوٹنے کے بعد صوبہ سندھ میں سائنس اور کیمیاء کی ترویج کے لیے قلیل عرصے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔

ڈاکٹر وڈل شاہ صرف 32 برس کی عمر میں 5 کتابوں اور 6 ریسرچ پیپرز تصنیف کرنے کے ساتھ متعدد سائنسی کتب کے تراجم بھی کرچکے تھے، ان کے ریسرچ پیپرز معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوتے رہے، جس سے بین الاقوامی سطح پر ان کی پہچان بنی اور یوں بیرون ملک تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے وہ پاکستان میں سائنس کی ترویج کے لیے فنڈز جمع کرتے رہے، جس کی بدولت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ کیمیاء کی لیبارٹری میں تحقیق کی سہولیات دستیاب ہوئیں اور محض 3 برس میں ان کی سربراہی میں پانچ طلباء نے پی ایچ ڈی کیا۔

وہ نواب شاہ اور سندھ کے دوسرے اضلاع میں انٹرنیشنل سائنس کانفرسز کا انعقاد کراتے رہے اور ان ہی کی کوششوں سے سندھ کے پہلے ماہانہ سائنس جنرل کی اشاعت ممکن ہوئی، ان کی تحقیقات کا مرکز ’قدرتی مرکبات کی کیمیاء‘ تھا، جس کا ادویات اور امراض کے علاج سے گہرا تعلق ہے۔

قدرت اگر انہیں مزید زندگی عطا کرتی تو آج پاکستان نامیاتی کیمیاء میں ’سینٹر آف ایکسی لینس‘ کے درجے کا حامل ہوتا، مگر بد قسمتی سے ہمارا یہ انتہائی با صلاحیت سائنسدان صرف 36 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

وفات کے وقت ڈاکٹر وڈل شاہ کی سربراہی میں 11 طلباء پی ایچ ڈی کررہے تھے اور پاکستان میں مناسب تحقیقی سہولیات نہ ہونے کے باعث وہ ناروے میں مقالات پر تحقیق مکمل کرکے چند دن میں وطن واپس لوٹنے کو تھے کہ 16 دسمبر 1975 کو پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ شعبۂ کیمیاء میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 2012 میں انہیں پاکستان کے دوسرے بڑے سول ایوارڈ ’ستارۂ امتیاز‘ سے نوازا گیا۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر ایوب خان امیہ

ڈاکٹر ایوب خان امیہ 1930 میں راوالپنڈی میں پیدا ہوئے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ان کی زندگی کا بیشتر حصہ امریکا میں گزرا، بلاشبہ ان کا شمار پاکستان کے اُن نامور فرزندوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت دنیا بھر میں ملک و قوم کا نام روشن کیا۔

ڈاکٹرایوب خان امیہ ایک خوش باش اور ہنس مکھ نیورو سرجن اور برین انجریز (اندرونی دماغی چوٹوں) کے ماہر تھے، انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بائیو کیمسٹری میں گریجویشن کرنے کے بعد، نف فیلڈ کالج آف سرجیکل سائنسز لندن سے نیورو سرجری کی ٹریننگ حاصل کی اور 1980 میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ امریکا سے بحیثیت اسٹاف منسلک ہوئے، ساتھ ہی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں 2003 تک کلینکل پروفیسر کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔

دماغی امراض اور سرطان پر اپنی تحقیق کے دوران ڈاکٹر ایوب خان امیہ نے ٹیومر (رسولی) کے خاتمے کے لیے ایک آلہ ایجاد کیا، جسے ’امیہ ریزروائر‘ کہا جاتا ہے،اس کی بدولت برین ٹیومرکاعلاج بذریعہ کیموتھراپی ممکن ہوا، جوایک انقلابی تکنیک ثا بت ہوئی اور مستقبل میں اس طرز پر لا تعداد طبی آلات بنائے گئے، یعنی یہ آلہ بہت سی ایجادات کے لیے نمونہ ثابت ہوا۔

ڈاکٹر ایوب خان امیہ نے سر پر لگنےوالی حاد ثاتی چوٹوں پر بہت سی تھیوریز بھی پیش کیں، جن میں ٹرامیٹک تھیوری قابل ذکر ہے، جس کا تعلق چوٹ لگنے کے بعد انسانی سوچ و جذبات میں آنے والی تبدیلیوں اور مذہبی شدت پسندی سے ہے، ان کے تحریرکردہ 200 سے زائد آرٹیکلز معروف سائنس جنرلز میں شائع ہوئے، اس نامورنیورو سرجن کا انتقال 11 جولائی 2008 کواسلام آباد میں الزائمر کے باعث ہوا۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹرعطا الرحمٰن

22 ستمبر 1942 کو برٹش انڈیا میں جنم لینے والے ڈاکٹرعطا الرحمٰن نے 1963 میں کراچی یونیورسٹی سے نامیاتی کیمیاء میں ماسٹرز کرنے کے بعد 1968 میں کنگ کالج کیمبرج یونیورسٹی سے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کیا،ان کی بے پناہ قابلیت اوراعلیٰ صلاحیتوں پر انہیں دنیا کی نامور ترین یونیورسٹیز کی جانب سے اعزازی ڈگریوں سے نوازا جا چکا ہے، جن میں کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف سائنس، کووینٹری یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف ایجوکیشن، بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف سائنس اور ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ڈاکٹوریٹ آف فلاسفی کی ڈگریاں شامل ہیں۔

اس ذہین اور با صلاحیت سائنسدان کا جتنا شاندار تعلیمی ریکارڈ رہا، عملی میدان میں اس کی فتوحات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں، ڈاکٹرعطاء الرحمٰن کو رائل سوسائٹی آف لندن کی فیلو شپ کا اعزاز حاصل ہے۔

2 برس تک وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ایجوکیشن کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دینے کے بعد وہ 2002 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین منتخب ہوئے اور 2008 تک پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیےانقلابی اقدامات سر انجام دیے، جنھیں سراہتے ہوئے انہیں ’انرگو ایکسی لینس ایوارڈ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے اعزاز سے نوازتے ہوئے 50 لاکھ کی خطیر رقم انعام میں دی گئی۔

بہت سے دیگر اعلیٰ اعزازات کے علاوہ وہ اسلامی ممالک کے نیٹ ورک آف اکیڈیمیز آف سائنس، ورلڈ ڈیویلپنگ کاؤنسل، کورین اکیڈمی آف سائنس اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے صدر بھی ہیں اور ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری، پنجوانی سینٹر آف مالیکیولر بائیولوجی اینڈ ڈرگ ڈیویلپمنٹ کراچی یونیورسٹی کے کوچیئرمین کے طور پر بھی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔

اس باہمت اورغیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل سائنسدان کو اس کی بے پناہ خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان اب تک چاروں بڑے سول ایوارڈز سے نواز چکی ہے اور ان کی فتوحات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر احمد حسن دانی

معروف تاریخ دان، ماہرلسانیات و آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی 20 جون 1920 کو بسنہ (برٹش انڈیا) میں پیدا ہوئے، انہیں وسطی اور جنوبی ایشیاء کے آثارِ قدیمہ پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے پہلے مسلم گریجویٹ کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد انہوں نے یہاں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر مسلم کش پالیسیز کے باعث ناکام ہونے کے بعد انہوں نے موہن جو دڑو اور ٹیکسلا پر تحقیق کا آغاز کیا، جسے دیکھتے ہوئے برٹش حکومت نے انہیں تاج محل آگرہ میں آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ میں تعینات کردیا۔

ڈاکٹر حسن دانی نے یونیورسٹی کالج لندن کے آرکیالوجی انسٹی ٹیوٹ سے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ میں ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے راج شاہی میوزیم کی تجدید نو کی، وہ ایشیاٹک سوسائٹی آف پاکستان میں 12 برس تک جنرل سیکرٹری رہے اور ہڑپہ، موئن جو دڑو اور ٹیکسلا کے آثارِ قدیمہ پر بھرپور تحقیق کے علاوہ پشاوراور سوات میں گندھارا تہذیب کی دریافت میں مرکزی کردارادا کیا، جسے سراہتے ہوئے 1979میں حکومت پاکستان نے انہیں آرکیالوجی اینڈ ہسٹوریکل ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا۔

1962 سے 1971 تک پشاور یونیورسٹی میں آرکیالوجی پڑھاتے رہے اور لاہور و پشاور میوزیمز کی تجدید نو کروائی، کچھ عرصے بعد وہ اسلام آباد یونیورسٹی (موجودہ قائداعظم یونیورسٹی) میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین مقرر کیے گئے۔

1992 میں ڈاکٹر دانی کو منسٹری آف کلچر میں آثار قدیمہ کے ایڈوائزر کے طور پر تعینات کیا گیا، وہ 1994 سے 1998 تک نیشنل فنڈز آف کلچرل ہیریٹیج کے صدر اور ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشین سویلائزیشن کے تاحیات اعزازی ڈائریکٹر بھی مقرر کیے گئے، آثارقدیمہ پر تحقیقات کے دوران انہیں نامور بین الاقوامی سائندانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں ہیڈل برگ اکیڈیمی آف سائنسز اور یونیسکو کی انٹرنیشنل سائنٹیفک ٹیم بھی شامل تھی۔

انہیں 30 سے زائد زبانوں پر مکمل عبور تھا، جن پر انہوں نے 30 کتابیں اور سیکڑوں ریسرچ پیپر لکھے، ان کی نمایاں خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں یونیسکو نے ارسطو ایوارڈ، حکومت جرمنی نے آرڈر آف میرٹ، حکومت اٹلی نے نائٹ کمانڈر، حکومت فرانس نے پالمز ایوارڈ اور حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیازاور ہلال امتیاز سے نوازا، اس عظیم محقق اور سائنسدان کا انتقال جنوری 2009 میں اسلام آباد میں ہوا۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹر نوید سید

ڈاکٹر نوید سید کینیڈین نژاد پاکستانی نیورو سرجن ہیں، انہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے دنیا کو بدل دینے والا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر نوید نے بایومیڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن اور پھر لیڈز یونیورسٹی سے نیورو سرجری میں پی ایچ ڈی کیا، وہ طویل عرصے سے کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں اور وہاں کیلگری یو نیورسٹی کے برین انسٹی ٹیوٹ میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔

ڈاکٹر نوید نے کینیڈین اور جرمن ٹیموں کے ساتھ انسانی دماغ کے میکینزم ، دماغی خلیات ’نیورانز‘ کی مسلسل جنریشن اور اُن کے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے براہ راست تعلق پر تحقیق کرتے ہوئے انسانی دماغی خلیات کو سیلیکون چِپ پر اس طرح گرو نمو کیا ہے کہ اس چپ کے نیورانز دماغی خلیات سے اور دماغی خلیات ان نیورانز سے باآسانی رابطہ اور باتیں کر سکتے ہیں، اس بایونک چِپ کے ذریعے انسانی افعال کو کسی حد تک کنٹرول کرنا ممکن ہوا اور اب تک کی تحقیق کے مطابق نشے کی لت اور رعشہ جیسی اعصابی بیماریوں کا علاج اس سے کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر نوید کی اس ایجاد نے نہ صرف شعبۂ طب بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روبوٹکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا اور ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ نئی، حیران کن اور انوکھی ایجادات سامنے آرہی ہیں مگر پھر بھی سائنسدان اب تک انسانی دماغ کے اصل میکینزم پر سے مکمل طور پر پردہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

ڈاکٹر نوید نیورو سائنسز پر 120 سے زائد ریسرچ پیپرز تحریر کر چکے ہیں جو معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوئے، ان کی غیر معمولی صلاحیتوں پر انہیں البرٹا ہیریٹیج فاؤنڈیشن میڈیکل ریسرچ ایوارڈ، کینیڈین-پاکستان کمبائنڈ بایو میڈیکل ریسرچ، کینیڈین سینسیشن ایوارڈز اور رائل کالج آف فزیشن ایڈن برگ کی اعزازی فیلو شپ سے نوازا جا چکا ہے۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکٹرعمر سیف

ڈاکٹر عمر سیف کا شمار ان چند افراد میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے وطنِ عزیز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کی ترقی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے بیچلر کرنے کے بعد انہوں نے 2001 میں 23 برس کی عمر میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی جبکہ پوسٹ ڈاکٹورل ایم آئی ٹی سے کیا، وہ کیمبرج یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی تھے، انہیں 2013 میں ہارورڈ کینیڈی اسکول سے گلوبل لیڈر شپ اور پبلک پالیسی میں خصوصی تعلیم حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔

ایم آئی ٹی میں وہ مسلسل 4 برس تک کمپیوٹرسائنس اورآرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری میں محقق سائنسدان کے طور پر پڑھاتے رہے اور اس دوران یو ایس ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے 50 لاکھ ڈالر کے منصوبے ’پراجیکٹ آکسیجن‘ کا بھی حصہ رہے، جس کا مقصد مستقبل کی کمپیوٹر ٹیکنالوجیز بنانا تھا۔

2008 میں ڈاکٹر عمر کو انٹرنیشنل الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرنگ ایسوسی ایشن کی طرف سے بیسٹ پیپرایوارڈ، مائیکرو سوفٹ کی طرف سے ڈیجیٹل انکلوژن ایوارڈ اور مارک ویزر ایوارڈ سے نوازا گیا، ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 2010 میں ورلڈ اکنامکس فورم نے انہیں ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا۔

2011 میں ایم آئی ٹی ریویو کی جانب سے ڈاکٹر عمرکو دنیا بھر سے ایسے 35 نوجوان افراد میں شمار کیا گیا، جو آئی ٹی کے میدان میں نئی جہت متعارف کروانے میں سب سے آگے ہیں، 2013 میں ڈاکٹر عمر کو پنجاب یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وائس چانسلر منتخب کیا گیا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص آپریٹنگ سسٹمز، موبائل سسٹمز اور ہائی اسپیڈ راؤٹنگ آرکیٹیکچر میں ان کی تحقیقات اورخدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں گوگل، مائیکرو سوفٹ، کیمبرج ایم آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ، آکسیجن کنسیورشم، ورلڈ بینک اور ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھرپور سہولیات اور گرانٹ دی جاتی رہی ہیں، جن کی بدولت وہ اندرونِ ملک آئی ٹی سیکٹر کو فعال کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

فی الوقت وہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں پبلک سیکٹر کے تمام آئی ٹی منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں اور اب تک تعلیم و صحت کے علاوہ پولیس اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے نئی تکنیکس متعارف کروا چکے ہیں۔

ان بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کے ایڈیٹر اِن چیف بھی ہیں، ڈاکٹر عمرسیف کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ایم آئی ٹی ٹیکنو ویئر،آئی ڈی جی ٹیکنالوجی ایوارڈز اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔
پاکستان کے نامور سائنسدان - Pakistan - Dawn News
 
آخری تدوین:
Top