جاسمن

لائبریرین
غزل
(حسین تاج رضوی)
ڈھلی جو شام نظر سے اتر گیا سورج

ہوا کسی نے اڑا دی کہ مر گیا سورج

سحر ہوئی نہیں کب سے گزشتہ شام کے بعد

غروب ہو کہ نہ جانے کدھر گیا سورج

سجی ہوئی ہے ستاروں کی انجمن اے دل

کہ پارہ پارہ فلک پر بکھر گیا سورج

لگا کہ کھینچ لی اس نے زمین پیروں سے

لگا کہ تلووں کو چھو کر گزر گیا سورج

یہ کیسا جلوہ کہ بینائی لٹ گئی میری

کہ میری آنکھ کے اندر اتر گیا سورج

چھپا تھا مصلحتاً شام سے سمیٹ کے نور

مہیب رات یہ سمجھی کہ ڈر گیا سورج

شفق تمام لہو رنگ ہو گیا لیکن

ہجوم غم سے بہت پر جگر گیا سورج

ہمیشہ تاج کا اقبال یوں بلند رہا

جدھر جدھر نظر آیا ادھر گیا سورج
 

جاسمن

لائبریرین
شام کے دھندلکوں میں ڈوبتا ہے یوں سورج
جیسے آرزو کوئی میرے دل میں مرتی ہے
عتیق النظر
 

جاسمن

لائبریرین
آیا تھا میرے پاس وہ کچھ دیر کے لیے
سورج مگر گہن میں بہت دیر تک رہا
ذیشان ساحل
 

جاسمن

لائبریرین
ساون شعلے بھڑکے گلشن گلشن آگ لگی
کیسا سورج ابھرا جس نے صبح کو آتش نام کیا
عبد الرؤف عروج
 

جاسمن

لائبریرین
نیند بھری آنکھوں سے چوما دیئے نے سورج کو اور پھر
جیسے شام کو اب نہیں جلنا کھینچ لی اس انداز میں چپ
عبیداللہ علیم
 

جاسمن

لائبریرین
ہیں قید ترے بخت کے سورج کی شعاعیں
یہ صبح کا دھوکا ہے ابھی جاگتے رہنا

لڑنا ہے تجھے شب کے اندھیروں سے مسافر
سورج کہاں نکلا ہے ابھی جاگتے رہنا
راز الہ آبادی
 
Top