یوسفی انتخاب خاکم بدہن از مشتاق احمد یوسفی

فرخ منظور

لائبریرین
یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ نہ پائے ورنہ یہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کر دیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ "یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟" مزاح نگار اس وقت تک تبسمِ زیر لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ اُن سے، اُن کی بے مہری و کم نگاہی سے، اُن کی سرخوشی و ہشیاری سے، ان کی تر دامنی اور تقدس سے، ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کر دیکھنے والا ہاتھ
؎ صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے اُن کے ہاتھوں کی
(خاکم بدہن، دستِ زلیخا (دیباچہ) صفحہ 9)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اب کی دفعہ جو لنچ پر ہمیں ہوٹل انٹر کانٹی ننٹل کے چاندنی لاونج میں لے گئے تو ہم نے دیکھا کہ بُوفے میز پر سوائے اُن کیمیائی تجربات کے جو یورپین باورچیوں نے نسل بعد نسل آلو پر کیے تھے ، اور کچھ نہ تھا ۔۔۔۔۔۔
آلو مُسلّم ، آلو دو نیم ، آلو سوختہ و کوفتہ ، آلو چھلکے دار ، آلو بِریاں ، آلو نیم بریاں ، بلکہ کہیں کہیں بالکل عُریاں !!!
" مرزا ! یہ کیا ؟ "
" ٹرپل بی ( Busy Businessmen's Buffet )
" یا اللہ ! کراچی کے کروڑ پتی یہ کھاتے ہیں ! مگر ہم نے تو انکم ٹیکس کی چوری بھی نہیں کی ۔ پھر یہ سزا کیوں ؟ بھوکا ہی مارنا تھا تو ہمیں گز بھر کی ٹائی بندھوا کے نَو منزلیں لانگتے پھلانگتے یہاں کاہے کو لائے ؟ نیچے ہی نقد پیسے دے کر رخصت کر دیتے ۔ "
" ہماری صحبتیں اُٹھاتے ایک عمر گزری ، مگر رہے جنگلی کے جنگلی !!! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فائیو سٹار ( اعلیٰ درجہ ) ہوٹلوں میں قیمت کھانے کی نہیں دی جاتی ، اُس رومانی فضا کی دی جاتی ہے ، جہاں آپ دوسرے معززین کو اپنی طرح بھوکا مرتا دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ بل میں جو رقم درج ہوتی ہے وہ بساندے گوشت اور اُبلے چقندر کی قیمت نہیں ہوتی ۔ دراصل اس میں گھر سے بھاگنے کا جُرمانہ ، دوسری میزوں پر بیٹھی ہوئی خواتین کے فرنچ سینٹ لگانے کا تاوان ، کھلکھلاتی ہوئی ویٹرس کے ٹوتھ پیسٹ کی قیمت بلکہ اس کا پورا نان نفقہ شامل کرنا پڑتا ہے ، جب جا کے کہیں ایک بل بنتا ہے ۔ ۔۔۔۔ اور جہاں تک لذت کا تعلق ہے تو صاحب ! ہر شب آنگن میں اُترنے والے من و سلویٰ کے مقابلے میں باہر کی پیاز کی گنٹھی مزا دے جاتی ہے ۔ ورنہ دیکھا جائے تو چائے کی پیالی گھر کی انگیٹھی پر " چراغ تلے " جلا کر بھی بنائی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔ اور صاحب دس دس روپے کے نوٹ جلا کر بھی "

(مشتاق احمد یوسفی، خاکم بدہن، بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے)
 
Top