مختصر تفسیر پارہ سولہ

ام اویس

محفلین
*پارہ ~~~16~~~قَالَ َاَلَمْ*

سولہوں پارے کی ابتدا حضرت موسٰی علیہ السلام کے حضرت خضر کے ساتھ علمی سفر پر روانہ ہونے سے ہوئی۔ اور حضرت خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو پہلے ہی تنبیہ کر دی کہ آپ کوئی سوال نہیں پوچھیں گے ۔ اس سفر میں تین واقعات پیش آئے ۔
دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے ۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان کر مفت بٹھا لیا ۔ منزل کے قریب پہنچ کر خضر علیہ السلام نے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا ۔ لوگ تو نہیں ڈوبے لیکن کشتی کا نقصان ہوگیا تو حضرت موسی علیہ السلام نے تعجب سے سوال کیا کہ انہوں نے آپ سے بھلائی کی اور بدلے میں آپ نے ان کا نقصان کر دیا ۔
دوسرے واقعہ میں دوران سفر راستے میں ایک لڑکا ملا تو خضر علیہ السلام نے اسے مارڈالا ۔ موسی علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے ناحق ایک بے گناہ کو بغیر وجہ کے مار ڈالا یہ تو بہت برا کیا ۔
تیسرے واقعہ میں دونوں ایک گاؤں کے پاس پہنچے اور ان سے کچھ کھانے کو طلب کیا ۔ جس پر انہوں نے صاف انکار کر دیا ۔ خضر علیہ السلام نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی ۔ اسے سیدھا کر دیا ۔
موسی علیہ السلام نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کا معاوضہ لیتے تاکہ کھانے کا کچھ انتظام ہو جاتا ۔ اور گاؤں والوں نے تو مسافر کا حق نہ سمجھا کہ مہمانی کریں اور آپ نے ان کی دیوار مفت میں بنا دی ۔
خضر علیہ السلام نے فرمایا ۔اب میری تمہاری جدائی ہے ۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے کیونکہ الله کا ایک علم مجھ کو ہے جو تمہیں نہیں اور ایک علم تمہیں ہے جو مجھے نہیں اس لئے ہمارا ساتھ رہنا دشوار ہے ۔ البتہ میں تمہیں اس کی تاویل بتا دیتا ہوں کہ میں نے یہ الله تعالی کے حکم سے کیا ۔۔۔
یہ کشتی غریب لوگوں کی تھی جس پر ان کی روزی کا مدار تھا اورمنزل پر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک سے زبردستی کشتی چھین لیتا تھا ۔ اس لئے میں نے اس کو عیب دار کر دیا ۔
پھر وہ لڑکا اس کے والدین مؤمن نیکو کار تھے اور اس کی وجہ سے خدشہ تھا کہ کہیں ان کو گناہ و سرکشی میں گرفتار نہ کروا دے ۔ اس لئے میں نے اس کو مار ڈالا ۔
بعد میں الله تعالی نے ان کو ایک بیٹی عطا کی جس کی شادی ایک نبی سے ہوئی اور ان سے ایک نبی پیدا ہوئے جن سے ایک امت چلی ۔
اور گاؤں میں جو دیوار میں نے مرمت کی وہ دویتیم بچوں کی تھی ۔ جس کے نیچے ان کا خزانہ تھا ۔ اور ان کا باپ مؤمن صالح تھا ۔ وہ دیوار درست کر دی تاکہ ان بچوں کے جوان ہونے تک خزانہ محفوظ رہے ۔
پہلا سوال موسی علیہ السلام کا بھول کر تھا ۔۔ دوسرا اقرار کرنے کے لئے اور تیسرا رخصت کے لئے ۔

اس کے بعد ذوالقرنین کا قصہ بیان ہوا ہے ۔ وہ ایک صاحب حشمت بادشاہ تھے ۔ الله جل شانہ نے انہیں ہر طرح کا سامان عطا کیا ۔ چنانچہ انہوں نے سامان سفر تیار کیا اور مغرب کی انتہائی حدود تک پہنچے ۔وہاں ایک قوم ملی جس میں ایماندار اور صالح بھی تھے اور کفر والے بھی ۔ الله تعالی نے ذوالقرنین کو اختیار دیا خواہ انہیں سزا دو یا ان سے بھلائی کا معاملہ کرو ۔
اسی طرح وہ مشرق کی انتہائی حد تک پہنچے کہ وہاں سورج کا قرب تھا ۔ پھر وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے اور ایسے لوگوں کو پایا جو کوئی بات نہ سمجھتے تھے ۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے۔ یاجوج اور ماجوج قوم کے فساد کا ذکر کیا ۔اور عرض کی ایسی دیوار بنادیجئے کہ وہ مفسد قوم ہماری طرف نہ آ سکے ۔ چنانچہ لوہے کی چادروں اور پگھلائے ہوئے تانبے سے وہ دیوار تعمیر کر دی گئی تاکہ یا جوج ماجوج اس پر نہ چڑھ سکیں ۔ اور نہ اس میں سوراخ کر سکیں ۔
جب قیامت آئے گی تو الله تعالی کے حکم سے وہ دیوار پاش پاش ہو جائے گی ۔کیونکہ الله کا وعدہ سچا ہے ۔ قیامت ضرور آئے گی اور کافروں کے لئے جہنم کو پیش کیا جائے گا ۔ جو دنیا میں الله کے ذکر سے غافل تھے ۔

کیا کافر خیال کرتے ہیں کہ وہ الله کے سوا کسی دوسرے کو اپنا حمایتی بنا لیں گے ؟
پھر فرمایا جو لوگ دنیا کی محبت میں غرق ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں ۔ قیامت کے دن ان کے اعمال بے کار ہو جائیں گے ۔کیونکہ انہوں نے الله تعالی کی آیات اور رسولوں کا مذاق اڑایا تھا
البتہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح کئے ان کے لئے جنت الفردوس ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
الله تعالی کی باتوں اور کلمات لکھنے کے لئے اگر سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی وہ کلمات ختم نہ ہو گے ۔ سمندر ختم ہو جائیں گے۔
اوررسول الله صلی الله علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنی بشریت کا اعلان کریں ۔ لیکن امتیاز یہ ہے کہ آپ پر وحی آتی ہے ۔ جس میں تعلیم ہے کہ الله ایک ہے ۔ پس جسے اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو تو وہ عمل صالح کرے اور الله جل شانہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائے ۔

سورۃ مریم

یہ سورۃ مکی ہے ۔ اس میں اٹھانوے آیات اور چھ رکوع ہیں ۔

شروع سورت میں زکریا علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کی اہلیہ بانجھ تھیں ۔ لیکن انہوں نے اولاد کے لئے دعا کی تو الله تعالی نے ان کو بیٹے کی بشارت دی ۔ الله نے ہی ان کا نام یحیٰی رکھا جن کو بچپن میں ہی نبوت دی گئی ۔وہ بڑے متقی اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے تھے ۔ اور ان پر الله تعالی کی سلامتی ہے ۔
اس کے بعد مریم علیہا السلام کی پارسائی اور ریاضت کا ذکر ہے ۔ جن کے بابرکت نام پر اس سورۃ کا نام مریم رکھا گیا ۔
ان کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اورانہیں بیٹے کی بشارت دی ۔ وہ تعجب میں تھیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔
مریم علیھا السلام پر لوگوں نے بہتان لگایا تو انہوں نے عیسی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے جھولے ہی میں فرمایا کہ ۔۔۔ میں الله کا بندہ ہوں ۔اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ۔یہ بھی فرمایا کہ مجھے الله نے مبارک بنایا ( لوگوں کو نفع پہنچا سکوں ) اور مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید فرمائی ۔
عیسی علیہ السلام کو جو لوگ خدا کا بیٹا کہتے ہیں ان کی بھی تردید کر دی گئی ۔کہ الله تعالی کسی کو اپنا بیٹا نہیں ٹہراتا ۔ اور کافروں کے لئے قیامت کے روز بڑا پچھتاوہ ہو گا ۔ الله تعالی فرماتے ہیں ہم ہی زمین کے اور جو اس پر بستے ہیں سب کے وارث ہیں ۔ اور سب کو ہماری ہی طرف لوٹنا ہے ۔
اس کے بعد ابراھیم علیہ السلام کا ذکر ہے کہ انہوں نے بھی حق کی دعوت دی ۔ اپنے باپ کو صراط مستقیم پر چلنے کی ترغیب دی ۔اور الله کے عذاب سے بچنے کی نصیحت کی ۔ ان کے باپ نے ابراھیم علیہ السلام کو سنگسار کرنے اور علیحدہ کرنے کی دھمکی دی ۔
جب ابراھیم علیہ السلام اپنے باپ سے اور بتوں سے انکے کفر کی وجہ سے دور ہوگئے تو الله تعالی نے ابراھیم علیہ السلام کو بیٹے اور پوتے بھی ایسے دئیے جو پیغمبر ہوئے ۔ اور ان پر الله کی رحمتیں تھیں ۔
اس کے بعد موسی علیہ السلام کا ذکر شروع ہوا کہ وہ بھی الله کے پسندیدہ نبی تھے ۔ انہیں کوہ طور پر الله تعالی نے کلام کرنے کا شرف بخشا اور اپنے اسرار عطا کئے ان کے بھائی ھارون کو بھی نبی بنایا ۔
اسماعیل علیہ السلام بھی وعدے کے سچے تھے ۔الله کے پسندیدہ تھے ۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کی تاکید کرتے تھے
ادریس علیہ السلام بھی نہایت سچے نبی تھے ۔ اور الله تعالی نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا ۔
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اولاد آدم میں سے الله تعالی نے ان پر فضل کیا یعنی نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں میں سے اور ابراھیم اور یعقوب علیہ السلام کی اولادوں میں سے ۔ وہ چنے ہوئے لوگ تھے جو الله تعالی کی آیات سن کر خشوع و خضوع سے روتے اور سجدے کرتے تھے ۔
پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے اپنی نمازیں ضائع کیں ۔اور اپنی خواہشات کی پیروی کی ان کو ان کی گمراہی کی سزا ملے گی ۔ مگر جنہوں توبہ کی اور ایمان و اعمال صالح کئے وہ جنتی ہیں ۔
فرشتے صرف الله تعالی کے حکم سے آتے ہیں ۔ اور الله ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے ۔ پس اسی کی عبادت کرو اور اسی کے ہو جاؤ ۔
پھر فرمایا کہ جو لوگ مرنے کے بعد کی زندگی پر تعجب کرتے ہیں وہ پہلے کچھ بھی نہ تھے پھر الله نے انہیں وجود بخشا تو ہو گئے ۔ تو اب کیوں دوبارہ نہیں ہو سکتے ؟ جو لوگ دوبارہ جی اٹھنے کے قائل نہیں وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔ اور سب کا گزر دوزخ پر سے ہوگا ۔ لیکن ایمان والے نجات پا لیں گے اور جو لوگ لباس فاخرانہ پہن کر غریب مسلمانوں کو مرعوب کرنا چاہتے وہ سب تباہ کر دئیے جائیں گے ۔
گمراہوں کو ڈھیل دی جاتی ہے لیکن انہیں جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ کھاٹے میں کون ہے ۔ جو لوگ الله کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کا مال ، اولاد کچھ بھی فائدہ مند نہ ہوگا ۔
کافروں کو شیاطین ہی بہکاتے ہیں ۔ اور گناہوں پر آمادہ کرتے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے ۔
شفاعت وہی کریں گے جن کو الله تعالی کی طرف سے اجازت ہو گی ۔
جو لوگ کہتے ہیں الله تعالی کی اولاد ہے انہوں نے بہت بڑی بے ادبی کی اور الله کے سخت غضب اور غصہ کے مستحق ہوئے ۔
الله کے سامنے سب حاضر ہوں گے اور فردا فردا حاضر ہوں گے ۔
پھر فرمایا بےشک جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح کئے تو عنقریب الله تعالی ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا ۔
اے پیغمبر ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں آسان نازل کیا ہے تاکہ آپ ماننے والوں کو خوشخبری سنا دیں اور جھگڑا کرنے والوں کو ڈرا دیں۔ اور منکرین کتنے تھے جو تباہ کردئیے گئے آج انہیں کوئی جانتا بھی نہیں ۔

سورۃ طه

یہ سورۃمکی ہے ۔اس میں ایک سو پینتیس آیات اور آٹھ رکوع ہیں ۔
سورۃ کے شروع میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے خطاب ہے
ارشاد ہے ۔اے محبوب صلی الله علیہ وسلم تم پر یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تم مشقت میں پڑو ۔ جو شخص ڈر رکھتا ہے اس کے لئے یہ قرآن نصیحت ہے ۔ اور یہ اس کا اتارا ہوا ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے ۔عرش والا ہے ہر چیز کا مالک ہے پوشیدہ اور ظاہر سے باخبر وہی معبود ہے اور اسی کے اچھے نام ہیں

موسی علیہ السلام نے طور پر آگ دیکھی ۔ وہاں پہنچے تو آواز آئی کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ یہاں جوتے اتار ڈال اور میں نے تجھے چُن لیا ہے ۔اور غور سے وحی سن ۔ الله کی عبادت اور نماز قائم کرنے کا حکم ہوا ۔منکروں سے بچنے کی ھدایت بھی فرمائی ۔
الله جل شانہ نے سوال کیا کہ اے موسی تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ ( حالانکہ الله خوب جانتا ہے )
موسی علیہ السلام نے بھی گفتگو کو طول دینے اور الله جل شانہ سے قربت کا خوب لطف اٹھانے کے لئے جواب دیا ۔ یہ میرا عصا ہے ۔ میں اس سے ٹیک لگاتا ہوں ، بکریاں ہنکاتا ہوں اور دوسرے کام بھی لیتا ہوں ۔
الله نے دو معجزے لاٹھی کا اژدھا بن جانا اور ہاتھ کا سفید و چمکدار ہو جانا ( ید بیضا ) عطا فرمائے ۔ اور ہارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام کے لئے مدگار کے طور پر پیغمبر بنا دیا ۔
پھر موسی علیہ السلام کو الله جل شانہ نے پچھلے احسانات بھی بتلائے کہ کس طرح فرعون سے بچایا ۔ ان کی والدہ نے جب انہیں صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیا تو اسی فرعون کے ہاتھوں محبت سے موسی علیہ السلام کی پرورش کروائی ۔ اور انہی کی والدہ کا دودھ پلوایا ۔
پھر ذکر کیا کہ جب ان کے ہاتھوں کافر قتل ہوا تو الله نے انہیں مواخذہ سے بچایا ۔اور کئی بار ان کی آزمائش کی ۔ مدین میں کئی سال تک شعیب علیہ السلام کے پاس رہے ۔ اس کے بعد الله تعالی نے موسی و ہارون علیھما السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تاکہ اس کی اصلا ح ہو ۔ اور بنی اسرائیل کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جائے ۔

فرعون نے الله کی نشانیاں ماننے اور ھدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ تم اپنے جادو کے زور پر میری بادشاہی اور خدائی پر قبضہ کرنا چاہتے ہو ۔

پھر فرعون کے جادوگروں سے موسی علیہ السلام کے مقابلے کا بیان ہے ۔ کہ کس طرح جادوگروں نے رسیاں ڈالی تو وہ درڑتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ موسی علیہ السلام کا عصا ان کی رسیوں کو نگل گیا ۔ وہ جادوگر سجدے میں گر پڑے اور رب موسی پر ایمان لے آئے ۔فرعون کی ناراضگی کی چنداں پرواہ نہ کی ۔ اور اپنے ایمان پر قائم رہے ۔ اور کہا کہ جو شخص الله کے دربار میں گنہگار ہوکر جائے گا جہنم کی سزا پائے گا ۔ جس میں نہ وہ جئے گا نہ مرے گا ۔اور جو شخص اس کے حضور ایمان کی حالت میں جائے گا اور عمل صالح کئے ہوں گے اس کے لئے بلند درجات ، جنت ، نہریں اور باغات ہوں گے جن میں ہمیشہ رہے گا ۔اور یہی پاکیزہ لوگوں کا بدلہ ہے ۔
موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جائیں اور فرعون کا خوف نہ کریں ۔ فرعون نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل کا پیچھا کیا ۔ اور الله تعالی نے دریا کی موجوں کو ان پر چڑھا دیا ۔ اور فرعون خود بھی گمراہ ہوا اور اپنی قوم کو بھی بھٹکایا ۔
بنی اسرائیل پر اپنے انعامات کا ذکر فرمایا ۔ دشمن سے نجات کا مژدہ ، کوہ طور پر تورات کا ملنا ، من وسلوی اور پاکیزہ چیزوں کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ۔
موسی علیہ السلام جب طور پر الله سے ملاقات کو گئے تو جلدی سے الله تعالی سے ملاقات کے اشتیاق میں آگے بڑھ گئے ۔
پیچھے سے واقعہ یہ پیش آیا کہ سامری نے دریا پار کرتے وقت فرشتے کو دیکھا اور اس کے قدموں سے مٹی اٹھا لی ۔اور قوم کے لوگوں سے زیورات لے کر انہیں بھٹی میں ڈال کر بچھڑے کی صورت دے دی اور وہ مٹی اس میں ڈال دی ۔اور بنی اسرائیل سے کہا کہ یہ تمہارا معبود ہے اور موسی علیہ السلم کا بھی معبود ہے وہ بھول گئے ہیں چنانچہ اس کی پرستش کرو ۔
اور ہارون علیہ السلام نے انہیں کہا کہ لوگو۔ اس سے تمہاری آزمائش کی جا رہی ہے ۔ مگر قوم نے ان کی بات نہ مانی اور جواب دیا جب تک موسی واپس نہیں آتے ہم اس بچھڑے کی عبادت کریں گے ۔
موسی علیہ السلام واپس آئے تو شدید غصہ ہوئے اور ہارون علیہ السلام ہر بھی ناراض ہوئے کہ سامری کو سزا کے طور پر سب سے دور کر دیا ۔ ان کی قوم جب سامری کے فساد سے محفوظ ہو گئی تو پھر اس کو تبلیغ کی گئی ۔

اس کے بعد الله تعالی فرماتے ہیں ۔ یہ قصے پہلی قوموں کے تمہاری نصیحت کے لئے بیان کئے جاتے ہیں ۔ جو شخص قرآن کی نصیحت سے منہ پھیرے گا قیامت کے دن گناہ کا بوجھ اٹھائے گا ۔ ہمیشہ کے لئے عذاب میں گرفتار رہیں گے ۔ اور کتنا برا ہوگا ۔ اس دن صور پھونکا جائے گا اور کفار وہاں کے مناظر دیکھ کر اپنی دنیا کی زندگی کو قلیل مدت قرار دیں گے ۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور ہیبت کی وجہ سے کوئی کچھ نہ بول سکے گا ۔ لیکن اعمال صالح کرنے والے اور ایمان والے کوئی خوف نہ کریں گے ۔
یہ قرآن عربی میں ہے اس میں مختلف وعیدیں ہیں تاکہ لوگ ڈریں اورفکر کریں ۔ اور اے میرے محبوب صلی الله علیہ وسلم وحی کو یا دکرنے میں آپ جلدی سے کام نہ لیں ۔اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے ۔
بعد ازاں آدم و ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا ۔ الله تعالی نے فرمایا کہ اے آدم شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ۔ جنت میں تو نہ تم بھوکے رہتے ہو نہ ننگے نہ پیاس سے واسطہ ہے نہ گرمی سے ۔ ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے اور تم مشقت میں پڑ جاؤ ۔ جب شیطان نے ان کو بہکا دیا اور جنت کا لباس اور نعمتیں ان سے چھن گئیں ۔ تب الله تعالی نے ان پر مہربانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ دکھائی ۔
اور فرمایا جب بھی میری طرف سے ھدایت آئے جو اس کو قبول کرے گا کامیاب ہوگا اور جو انکار کرے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی ۔ اور وہ قیامت کے دن اندھا اٹھایا جائے گا ۔۔ وہ کہے گا مجھے اندھا کیوں اٹھایا میں تو دنیا میں آنکھوں والا تھا ۔جواب ملے گا تیرے پاس الله کی آئتیں آئیں تھیں لیکن تم ایمان نہیں لائے ۔
دنیا میں کتنی ہی نافرمان قومیں ھلاک کر دی گئیں ۔کہ ان کے آثار اب بھی عبرت کا سبق دے سکتے ہیں۔ پس منکروں کی باتوں پر صبر کرو ۔ اور الله کو یاد کرو سورج نکلنے سے پہلے یعنی فجر کے وقت اور اس کے ڈوبنے سے پہلے یعنی ظہر اور عصر کے وقت اور رات کی گھڑیوں میں یعنی مغرب اور عشاء کے وقت ۔ اور کفار وغیرہ کو جو دنیوی ساز و سامان دیا گیا ہے اس پر نظر نہ کرو ۔وہ چیزیں ان کے لئے آزمائش ہیں ۔
الله کا دیا جو رزق تمہیں حاصل ہے وہ سب سے اچھا اور دیر پا ہے ۔ اپنے گھر والوں کو بھی نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر قائم رہو ۔
کفار تو یہی کہتے ہیں ان کے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے ۔ حالانکہ ان کے پاس پہلے بھی الله کی نشانیاں آچکی ہیں۔ اور ان کو اگرہم رسول کے آنے سے پہلے ہلاک کر دیتے تو یہ کہتے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا ؟
اب حشر کے دن پتہ چل جائے گا کہ سیدھے راستے پر چلنے والے اور جنت کی راہ پانے والے کون ہیں ہم یا کہ تم ؟
 

ام اویس

محفلین
کچھ سال پہلے میں نے جی پلس پر اپنے گروپ میں تفسیر عتیق شئیر کی تھی
ماخذ میں سولہویں پارے کا متن دستیاب نہ تھا ۔۔۔۔
چنانچہ اسی طریقے پر سولہویں پارے کی مختصر تفسیر لکھی تھی ۔
 
Top