ٹائپنگ مکمل جنگلی جانور اور ان کے طور طریقے

قیصرانی

لائبریرین
باب ۱۳
مگرمچھ
ممالیہ جانوروں میں خزندے کا تذکرہ کچھ عجیب سا لگتا ہے مگر اس کی آماج گاہ دریائی گھوڑے والی ہی ہوتی ہے اور اسی کی طرح پانی اور خشکی پر رہ سکتا ہے، سو میں نے اسے بڑے جانوروں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
دنیا بھر میں چھپکلیاں ہر جگہ پھیلی ہوئی ملتی ہیں اور ان میں سب سے بڑی قسم مگرمچھ ہے جو تقریباً تمام استوائی دریاؤں میں مختلف ناموں سے پایا جاتا ہے۔ امریکہ میں اسے ایلیگیٹر کے نام سے پکارتے ہیں مگر میرے نزدیک مگرمچھ اور ایلیگیٹر میں ویسا ہی فرق ہے جیسا لیپرڈ اور پینتھر میں، یعنی محض نام کا فرق ہوتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے بلی کے خاندان کے کئی اراکین کو پینتھر کے نام سے دیکھا ہے، اسی طرح اس کی تمام اقسام کو بھی مگرمچھ کے نام سے جاننا چاہیے۔ دریائے گنگا، برہم پتر اور دیگر ہندوستانی دریاؤں میں ایک قسم رہتی ہے جو باقی تمام مگرمچھوں سے فرق ہوتی ہے اور اسے گھڑیال کہا جاتا ہے۔ اس کا منہ لمبا اور چونچ نما ہوتا ہے اور ناک کے سرے پر ایک ابھار پایا جاتا ہے۔ گھڑیال کی لمبائی بسا اوقات بیس فٹ سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے مگر وزن اتنا نہیں ہوتا اور نہ ہی اُتنا خطرناک۔ یہ جانور مچھلیوں پر گزارا کرتا ہے اور شاید ہی انسان یا دیگر جانوروں پر حملہ کرتا ہو۔ عام مگرمچھ کی نسبت اس کا سر دیگر تمام سے کہیں لمبا ہوتا ہے اور اسے ہم الگ قسم مان سکتے ہیں اور مگرمچھ اور گھڑیال کی درمیانی قسم کا کوئی جانور آج تک نہیں ملا۔ باقی ہر اعتبار سے مگرمچھ اور گھڑیال ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں کی مادائیں دریا کے کنارے ریت پر پچاس سے ساٹھ انڈے دیتی ہیں اور جب انڈے دھوپ سے پک جاتے ہیں تو بچے نکل کر دریا میں گھس جاتے ہیں۔
کم ہی لوگوں نے مگرمچھ کو شکار پر حملہ آور ہوتے دیکھا ہے کہ اس کی رفتار کتنی تیز ہوتی ہے۔ تاہم مگرمچھ کی خوراک کا بڑا حصہ مچھلیوں پر مشتمل ہوتا ہے، سو اس کی تیزی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تیز ترین تیراک جانور سے بھی تیز ہوتا ہوگا۔
دریائے نیل کے مگرمچھ بھی سائیلون اور ہندوستانی مگرمچھوں سے مماثل ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں اسے ‘مگر‘ کہا جاتا ہےمگر جسامت میں یہ سائیلون اور افریقہ کے مگرمچھوں سے عموماً چھوٹا ہوتا ہے۔
اس کے دانت عموماً پکڑنے کے لیے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ بند ہو جاتے ہیں۔ نچلے جبڑے کے دو سب سے بڑے دانت بالائی جبڑے سے باہر نکلے دکھائی دیتے ہیں۔اس کے بالائی جبڑے میں ۳۴ دانت ہوتے ہیں اور نچلے جبڑے میں بھی ۳۴ہی ہوتے ہیں۔ یہ دانت کھوکھلے ہوتے ہیں اور مسلسل اگتے رہتے ہیں۔ یعنی جب دانت نکلتا ہے تو اوپر کو نکال پھینکتا ہے اور خود بھی چند سال بعد اسی طرح نکل جاتا ہے۔ یہ خوبی مگرمچھوں کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔
چند مشرقی ممالک میں کچھوے کو اور باقی ہر جگہ مگرمچھ کو طویل عمری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کولمبو کے نزدیک متوّل باغ میں ایک کچھوا ہے جو ڈیڑھ سو سال سے انسانی قید میں ہے۔ تاہم ایک ولندیزی نے پکڑا تھا اور بعد میں اسے برطانویوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ جب اسے پکڑا گیا ہوگا تو اس وقت اس کی کیا عمر ہوگی، یہ بات معمہ ہے۔
مگرمچھ کے اگلے پنجے کسی حد تک انسانی ہاتھ سے مشابہہ ہوتے ہیں اور ان میں پانچ ناخن ہوتے ہیں جو بعض اوقات چار انچ لمبے ہو جاتے ہیں۔ پچھلے پنجوں کے ناخن چھوٹے ہوتے ہیں اور تعداد میں چار۔ یہ غلط فہمی عام ہے کہ مگرمچھ اپنے شکا رکو پکڑتے ہی ہڑپ کر جاتا ہے۔ اگر کسی جانور کا بچہ پکڑے تو اسے بے شک فوراً کھا جاتا ہے مگر کتا یا بڑا جانور ہو تو اسے پانی کے نیچے لے جا کر اس کو ڈبوتا ہے اور پھر کسی تنہا مقام پر جا کر آرام سے پیٹ بھرتا ہے۔
نر اور مادہ کا فرق بتانا مشکل ہوتا ہے کہ عضوِ تناسل اور خصیے جسم کے اندر ہوتے ہیں۔ سانپوں کے برعکس مگرمچھ کا ایک ہی عضوِ تناسل ہوتا ہے۔ نر میں بو پیدا کرنے والے چار غدود ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو جبڑے کے نیچے اطراف میں اور دو پچھلی ٹانگوں کے اندر کی جانب ہوتے ہیں۔ سوڈان میں مگرمچھ کے پیشہ ور شکاری عرب ان کی بہت قدر کرتے ہیں ۔ اوسط جسامت کے چار غدودوں کی قیمت ۳۰ شلنگ بنتی ہے۔ بہت بڑے نر کے غدودوں کی قیمت ان کی جسامت کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہے۔
سوڈانی خواتین ان غدودوں کو سُکھا کر ان کے ساتھ دیگر منکے ملا کر ہار بناتی ہیں۔خشک ہونے پر ان کا حجم جائفل کے پھل جتنا رہ جاتا ہے۔ میں نے ہندوستان میں بے شمار لوگوں سے اس کے بارے پوچھا مگر وہ اس غدود کے وجود سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ اس غدود کی بو کافی تیز ہوتی ہے اور سفید نیل پر کشتی میں گزرتے ہوئے اسی بو کی وجہ سے مجھے مگرمچھوں کے وجود کا اندازہ ہو جاتا تھا اور بعدمیں ہم انہیں کنارے پر دھوپ سینکتے دیکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مادہ اسی بو کی وجہ سے نر کی جانب متوجہ ہوتی ہے۔ مادہ میں بھی یہی غدود پائے جاتے ہیں مگر ان کی جسامت چھوٹی ہوتی ہےا ور بو بھی اتنی تیز نہیں۔
عرب مگرمچھ کا شکار ہارپون کی مدد سے کرتے ہیں جیسے وہ دریائی گھوڑے کا کرتے ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ دریا میں تیرتے ہوئے حملہ کرنے کی بجائے شکاری ریتلے کنارے پر سوئے ہوئے مگرمچھ کے قریب تیرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اور پھر ہارپون مارتے ہیں۔ زخمی ہوتے ہی مگرمچھ فوراً پانی میں کود جاتا ہے اور شکاری فوراً کنارے پر نکل آتا ہے۔ سوڈان میں بہت سی جگہوں پر شکاریوں کے پاس رائفلیں بھی ہیں مگر ماہر شکاری کے ہاتھ میں ہارپون مہلک ہتھیار بن جاتا ہےا ور مگرمچھ شاید ہی کبھی بچ پاتا ہو۔ بہت سے مگرمچھوں پر گولی چلائی جاتی ہے مگر اصل میں بہت کم ہی ہاتھ لگتے ہیں کیونکہ مرتے ہی ان کی لاشیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں اور کئی دن بعد ابھرتی ہیں۔ تب تک لاش سڑنا شروع ہو جاتی ہے اور جسم کے اندر گیس بھرچکی ہوتی ہے۔
پچھلے چند برسوں سے مگرمچھ کی کھال سے سفری بیگ اور دیگر چیزیں بنائی جانے لگی ہیں۔ امید ہے کہ بڑھتی ہوئی طلب سے ان کی تعداد میں کمی واقع ہوگی کہ ہر ملک میں ان کے وجود سے نقصان پہنچتا ہے۔ اصولی طور پر مگرمچھ والے پانی میں تیرنے سے مجھے سخت نفرت ہے۔ تاہم یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مقامی عرب کسی فقیر یا اپنے ملا کے دیے ہوئے تعویز پر بھروسہ کرتے ہوئے دریا بے خطر عبور کرتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کو دریا میں مگرمچھ دبوچ لے تو اس کا بچنا ممکن نہیں رہتا۔ہاں مگرمچھ بہت چھوٹی جسامت کا ہو تو اور بات ہے۔بڑے مگرمچھ کے جبڑے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ انسانی ہڈیاں توڑ سکتے ہیں۔
تیز اور نوکیلے ۶۸ دانت جب کسی کو دبوچتے ہوں گے تو بچنے کا کوئی امکان نہ رہتا ہوتا۔ مگرمچھ کا گلا نہ صرف بڑا ہے بلکہ کافی حد تک پھیل بھی سکتا ہے۔ عام طور پر مگرمچھ اپنے شکار کو کسی ایسی جگہ رکھتا ہے جہاں وہ آرام سے اسے کھا سکے مگر بعض اوقات بہت بڑی لاش کو سالم بھی نگل سکتا ہے۔ مسٹر بینّٹ نے سائیلون کے بارے ۱۸۴۳ میں چھپنے والی اپنی بہترین کتاب میں ایک واقعہ درج کیا ہے جو اس نے خود دیکھا تھا: ‘ایک مقامی نہا رہا تھا کہ اسے مگرمچھ نے پکڑ کر نگل لیا۔ اس کا سر اور ایک ہاتھ دریا کے کنارے ملے۔ اس بندے نے مگرمچھ کو آتے دیکھ لیا تھا اور تیر کر کنارے کو جا رہا تھا کہ مگرمچھ نے دبوچ لیا۔ اس بندے نے آخری کوشش کے طور پر ایک ٹہنی کو پکڑا ہی تھا کہ مگرمچھ نے اسے نگل لیا۔ اسی وجہ سے سر اور ایک ہاتھ بچ گئے جبکہ باقی پورے انسان کو مگرمچھ نے نگل لیا‘۔
‘جونہی ضلعے کے کلکٹر جیمز ایگنیو فیرل کو اطلاع ملی، اس نے فوراً مگرمچھ کی تلاش کا حکم دے دیا جو دوسرے دن نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ ہم کھانے کے لیے بیٹھ ہی رہے تھے کہ دروازے پر دو جڑی ہوئی بیل گاڑیاں آن پہنچیں۔ اس پر سترہ فٹ لمبے مگرمچھ کی لاش تھی۔ جب اسے کھولا گیا تو اندر انسان کی سڑتی ہوئی لاش دکھائی دی۔ فوراً ہی موقعے پر لاش کا طبی معائنہ ہوا‘۔ یہ براہ راست اور معلوماتی واقعہ ہے کہ اس میں مگرمچھ کی لمبائی بھی دی گئی ہے۔ یعنی سترہ فٹ لمبا مگرمچھ اگر چاہے تو انسان کو نگل سکتا ہے۔ سائیلون میں ۲۲ فٹ کے مگرمچھ بھی بکثرت مارے جاتے ہیں اور ان سے بھی بڑے مگرمچھ ملنا ممکن ہیں۔ ان کے دانت اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان سے مزل لوڈر کی ٹوپیاں رکھنے کا ڈبہ بن سکتا ہے۔
اس کے جبڑے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ایک بار میں نے موٹی تار کا ایک کانٹا بنایا تھا جس کی موٹائی ٹیلیگراف کی تار کے برابر تھی۔ مگرمچھ نے اسے چبا کر بیکار کر ڈالا۔ میں نے ایک بطخ کے پر کے نیچے یہ کانٹا چھپا دیا تھا اور جب مگرمچھ نے اسے دبوچا تو میں نے غلطی کی اور فوراً اسے کھینچنا شروع کر دیا۔ چند گز بھاگ کر مگرمچھ سرکنڈوں میں چھپ گیا۔ میں نے ایک کشتی پر ہارپون والے کو بھیجا کہ جا کر مگرمچھ کو نکالے۔ مگرمچھ کی کھال اتنی موٹی تھی کہ اس پر ہارپون بیکار تھا اور اچانک ہی لائن ڈھیلی پڑی گئی۔ جب اسے واپس کھینچا تو بالکل چپٹی بطخ اور کانٹا نکل آئے۔
میں نے بہت سارے ممالک میں بے شمار مگرمچھوں پر گولیاں چلائی ہیں۔ اگروہ کنارے پر ہوں تو اکثر میں انہیں مارنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ۔ تاہم اس کے لیے عمدہ نشانے کی حامل رائفل درکار ہے اور محض دو جگہیں ایسی ہیں جہاں لگنے والی گولی فوری مہلک ثابت ہوتی ہے۔ پہلی جگہ آنکھ کے عین پیچھے اور دوسری شانے کے وسط میں۔ شانے کے وسط والی گولی دونوں اگلی ٹانگیں توڑ دے گی اور پھیپھڑوں سے گزرے گی۔میں اس مقصد کے لیے اعشاریہ ۵۷۷ کی رائفل کو ترجیح دیتا ہوں مگر عین اسی جگہ لگنے والی اعشاریہ ۴۵۰ کی گولی بھی ہمیشہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔
مگرمچھ کی کھال کے بارے مشہور ہے کہ وہ اتنی سخت ہوتی ہے کہ رائفل کی گولی اثر نہیں کرتی۔ یہ بات صدی کے اوائل کی حد تک تو بجا ہے کہ تب رائفل میں محض ایک ڈرام بارود ڈالتے تھے اور گولی بھی بہت چھوٹی ہوتی تھی۔ تب تو گرزلی ریچھ کو بلٹ پروف مانا جاتا تھا کہ چھوٹی گولی اور کم بارود اس کی کھال کے سامنے بیکار ثابت ہوتے تھے۔ تاہم ۶ ڈرام بارود اور سخت گولی مگرمچھ سے ایسے گزرتی ہے جیسے کاغذ ہو۔
جنرل ایچ براؤن نے جبل پور میں مجھے اعشاریہ ۵۷۷ کی ایک ٹھوس گولی دکھائی تھی جو ٹِن سے بنی تھی اور کنارے پر سوتے ہوئے مگرمچھ سے اتنی سہولت سے گزری کہ دوسرے کنارے کی سخت مٹی کھود کر اسے نکالنا پڑا۔ وہاں بھی تقریباً ایک فٹ اندر دھنس گئی تھی۔ یہ گولی اتنی عمدہ حالت میں تھی کہ دوبارہ بھی استعمال ہو سکتی تھی۔
اگرچہ مگرمچھ اور دریائی گھوڑا دونوں ہی جل تھلیے ہیں مگر دونوں میں پانی کے اندر رہنے کی طاقت کا فرق ہے۔ دریائی گھوڑے کے پھیپھڑے بہت بڑے ہوتے ہیں اور جب ان میں ہوا بھی ہو تو پانچ سے دس منٹ تک دریائی گھوڑے کو پانی کے اندر رکھ سکتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد دریائی گھوڑے کو سطح پر آنا پڑتا ہے۔
مگرمچھ کے کانوں کی جگہ سوراخ ہوتے ہیں اور ان پر اور نتھنوں پر والو ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے پھیپھڑے بہت بڑے نہیں ہوتے۔ پھر بھی یہ پانی کے اندر جتنی دیر چاہے رہ سکتا ہے۔ جب بھی یہ سطح پر آتا ہے تو دریائی گھوڑے کی مانند پھنکارتا نہیں بلکہ آرام سے نمودار ہوتا ہے اور آس پاس خوراک یا خطرے کا جائزہ لیتا ہے۔
مگرمچھ ‘سرمائی نیند‘ بھی لے سکتا ہے۔ ہندوستان میں مگرمچھ بہت سی جگہوں پر ملتا ہے اور چھوٹی جھیلیں یا تالاب خشک موسم میں سوکھ جاتے ہیں۔ مگرمچھ خود کو مٹی میں دفن کر لیتا ہے ۔ جب برسات میں یہ تالاب یا جھیل بھرتی ہے تو یہ باہر نکل آتا ہے۔ اس طرح رہنے والے مگرمچھ عموماً آٹھ یا نو فٹ سے زیادہ بڑے نہیں ہو پاتے۔
سب سے بڑا مگرمچھ جو میں نے دیکھا تھا، اس کی جسامت پر مجھے پہلے اعتبار نہ ہوا۔ اسے میں نے اپنی کشتی سے چند گز دور دیکھا اور عمر بھر مگرمچھ دیکھنے کے باوجود مجھے یقین نہ ہوا کہ مگرمچھ اتنے جسیم بھی ہو سکتے ہیں۔ وکٹوریہ نیل پر سفر کے دوران میری بیوی، میں، دو ملازمین اور تیس فٹ لمبی کشتی کا عملہ ہمارے ساتھ تھا۔
دوسری کشتی ہم سے پچاس گز دور تھی اور اس پر زخمی فوجی سوار تھے۔ یہاں دریا کی چوڑائی ۵۰۰ گز تھی اور کافی گہرا تھا۔ بہاؤ اتنا سست کہ پتا بھی مشکل سے چلتا تھا۔ فوجی اس کے کنارے چل رہے تھے اور پچھلے سات روز سے سخت لڑائی ہوتی رہی تھی اور اگرچہ ہم دوست قبیلے کے ہاں پہنچنے والے تھے مگر پھر بھی میں نے مناسب نہ سمجھا کہ گولی چلاؤں۔
ہمارے پاس چھ ملاح تھے جو چپو چلا رہے تھے۔ دونوں جانب پپائرس اور جنگل اگے ہوئے تھے۔ اچانک ہمیں ایک چھوٹا سا جزیرہ دکھائی دیا جس کا کچھ حصہ جھاڑ جھنکار سے بھرا ہوا تھا۔ یہ جزیرہ گرینائٹ کی بہت بڑی چٹان پر مشتمل تھا۔ پانی سے نکلتے ہوئے یہ چٹان بتدریج بلند ہوتی گئی اور اس کا رقبہ پانی سے باہر ساٹھ فٹ تھا۔ اس پ ردو بہت بڑے اور گول پتھر نما چیزیں پڑی تھیں۔ بہت خوبصورت منظر تھا اور جزیرے کی یہاں موجودگی حیران کن تھی۔
کشتی قریب تر ہوتی گئی اور جب ہم بیس گز دور ہوں گے کہ اچانک یہ بڑی پتھر نما چیزیں ہلیں اور سیدھی ہو کر پانی کی طرف چل پڑیں۔ ان کے جسم کسی دریائی گھوڑے جتنے چوڑے تھے۔ پانی میں آدھے جانے کے بعد جب ان کی کمر دکھائی دی تو اتنے برس مگرمچھوں کے شکار کا شکار کھیلنے کے باوجود میرے لیے انتہائی اچھنبے کا منظر تھا۔
ہم نے کچھ دیر کے لیے کشتی روک دی مگر مندرجہ بالا وجہ کی بنا پر گولی نہ چلائی۔ کچھ دیر ہمیں دیکھنے کے بعد دونوں مگرمچھ پانی میں گم ہو گئے۔میں ان مگرمچھوں کی جسامت کے بارے اندازہ لگانے سے قاصر ہوں۔
دیگر مخلوقات کی طرح مگرمچھ بھی حالات کے مطابق مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی خوراک میں لگ بھگ تمام ہی جاندار آتے ہیں مگر پانی میں رہنے کی وجہ سے ان کی عام خوراک مچھلیاں ہوتی ہیں۔ایک بار جب ہم سفید نیل پر کشتی رانی کے لیے راستہ بنا رہے تھے کہ وہاں اگی نباتات نے بالکل ہی راستہ روک دیا تھا کہ ہمیں کئی جگہوں پر دلدلی قطعے دکھائی دیے جو ہر طرف سے نباتات سے گھرے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان ہمیں بہت سے سانپ ملتے اور ہوا ساکن اورانتہائی بدبودار تھی۔ مچھروں کی بھرمار ہوتی تھی اور وہیں دلدل کے وسط میں چھوٹے ریتلے ٹکڑے پر مگرمچھ کے چلنے کے نشانات ہمیں دکھائی دیتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی جگہ مگرمچھ محض مچھلیوں سے ہی پیٹ بھر سکتے ہیں۔
ایک بار مجھے یاد پڑتا ہے کہ البرٹ نیانزا میں ہمیں آدھی مچھلی دکھائی دی جو ایسے کٹی ہوئی تھی جیسے کسی نے چاقو سے کاٹا ہو۔ یہ مگرمچھ کا کام تھا۔ آدھی مچھلی کا وزن ۳۵ پاؤنڈ ہوگا۔
مجھے یقین ہے کہ رات کو ہمارے جال میں پھنسی مچھلیوں کو مگرمچھ نکال کر لے جاتے ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے انہیں جال میں محض بڑا سا سوراخ کرنا پڑتا تھا۔
دریا میں گھسنے کا سب سے خطرناک وقت غروبِ آفتاب سے ذرا پہلے یا ذرا بعد میں ہے کہ جب مچھلیاں باہر نکلتی ہیں اور مگرمچھ ان کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ بڑی مچھلیاں ان سے بچنے کے لیے پانی کی سطح سے اوپر کو جست لگاتی ہیں۔
جب میں خدیو کی مہم کی سربراہی کر رہا تھا تو مگرمچھوں سے ہمارا بہت نقصان ہو رہا تھا، سبھی مگرمچھ بہت خطرناک اور کمینے بھی تھے۔ مگرمچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک بار ہماری کشتیاں سفید نیل پر شمالی ہوا کے سہارے کم از کم ۷ ناٹ کی رفتار سے جا رہی تھیں اور ایک ترک فوجی کشتی کے سامنے ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا۔ اس کی ٹانگیں پانی سے کم از کم آدھا گز اوپر ہوں گی۔ اچانک ایک بہت بڑے مگرمچھ کے حرکت کرنے کی آواز آئی اور وہ بندہ غائب ہو گیا۔ کشتی پر کم از کم سو بندے سوار تھے اور بدقسمت فوجی کا پھر پتہ نہ چل سکا۔
ایک بار ایک ملاح پتوار پر بیٹھا نہا رہا تھا اور کشتی چل رہی تھی۔ عرشے پر اس کے ساتھی موجود تھے کہ ایک مگرمچھ اسے لے گیا۔
ان حملوں سے واضح ہوتا ہے کہ چلتی ہوئی کشتی سے ان جانوروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ وہ اس کی حرکت کے باوجود اس سے اپنا کھاجا پا لیتے ہیں۔
میں نے مگرمچھوں کے ہاتھوں اپنے اتنے ساتھی گنوائے ہیں کہ میں نے اصول بنا لیا ہے کہ جو بھی مگرمچھ سطح پر دکھائی دے یا کنارے پر دھوپ سینکتا دکھائی دے، اسے گولی مار دوں۔ اس مقصد کے لیے انتہائی عمدہ نشانے کی حامل اعشاریہ ۵۷۷ کی رائفل میرے ساتھ رہتی تھی اور میں نے بہت سارے مگرمچھ اسی وجہ سے مارے ہیں۔
ایک بار میں نے ایک مگرمچھ مارا جو سوا بارہ فٹ لمبا اور بہت موٹا تھا۔ اس کے پیٹ سے دو کڑے اور ایک گلوبند نکلا جو ایک گمشدہ لڑکی کا تھا جو اُس وقت لاپتہ ہو چکی تھی۔ اس کے معدے سے پانچ پاؤنڈ وزنی پتھر اور ریت نکلی تھی اور آبی پودوں کی باقیات بھی تھیں۔ اس کے علاوہ متوفیہ کے بالوں کے گچھے بھی ملے۔گلوبند کے منکےلکڑی سے بنے ہوئے اور دھاگے میں پروئے گئے تھے۔ پتھروں کی رگڑ سے یہ منکے گھسنے لگے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مگرمچھ نے یہ پتھر ہاضمے میں مدد دینے کے لیے ہی نگلے ہوں گے۔ میرے شکار کردہ تقریباً سبھی مگرمچھوں میں پتھر اور ریت ملی ہے۔ اس کا معدہ انتہائی لچکدار ہوتا ہے اور طویل عرصے بغیر کھائے بھی مگرمچھ زندہ رہتا ہے اور اچانک بہت زیادہ خوراک مل جائے تو بھی اسے ہضم کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
میرے مہم پر ہونے والے دیگر حادثات میں ایک میں ایک بندے کے بازو کو کہنی کے پاس سے مگرمچھ نے کاٹ کر الگ کر دیا تھا۔ یہ بندہ دریا سے آبی نباتات جمع کر رہا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کی جان بچائی ورنہ مگرمچھ اس کے بازو کو دبوچے اسے پانی میں لے جاتا۔اس کے ساتھی اسے انتہائی تکلیف کی حالت میں میرے پاس لائے اور اس کے بازو کو زخم کے اوپر سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک آدمی جب کشتی کو ریتلے کنارےسے دھکا دے کر دور کر رہا تھا تو مگرمچھ نے اس کی ٹانگ ناپ لی۔ اس کے ساتھ کشتی کو دھکیلنے والے فوجیوں نے اسے بچایا۔ اس کی ٹانگ بھی ضائع ہو گئی تھی۔
نمبر دس ٹگ کا کپتان ڈاک پر ڈوب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ یہ ڈاک ۱۰۸ ٹن سٹیمر کی روانگی کے بعد خالی تھا اور دریا سے ملانے کے لیے ایک نہر کاٹی گئی تھی جو تیس گز لمبی اور تین فٹ گہری تھی۔ کسی کو شک بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ مگرمچھ اس جگہ بھی چھپ سکتا ہے۔ اسے فوجیوں کے نہانے کے لیے محفوظ ترین مقام سمجھا جاتا تھا۔
ایک شام کو اجتماع کے وقت کپتان غائب تھا اور کئی لوگوں نے اسے کچھ دیر قبل نہانے کے لیے جاتے دیکھا تھا۔ سو اس کی تلاش شروع ہو گئی۔ اس کے کپڑے اور وردی کنارے پر رکھے تھے مگر بندہ غائب تھا۔ کئی لوگوں نے ڈاک میں غوطہ لگا کر تہہ چھانی اور چند منٹ بعد اس کی لاش مل گئی۔ اس کی ایک ٹانگ کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی جو مگرمچھ کے دانتوں سے ٹوٹی تھی۔ مگرمچھ اسے ڈبو کر ہلاک کر کے چلا گیا تھا کہ شاید بعد میں آ کر اسے کھاتا۔
لگاتار انسانی آمد و رفت والی جگہ پر آنے والا مگرمچھ کافی مکار ہوگا۔ ہمیں اس جگہ یا آس پاس کوئی بھی مشکوک مگرمچھ نہیں دکھائی دیا۔ چند ماہ بعد ایسا ہی ایک اور حادثہ عین اسی جگہ پیش آیا مگر یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی مگرمچھ ہوگا۔
شام سات بجے رائل نیوی کا کمانڈر جولیان بیکر، میری بیوی اور میں نسبتاً ٹھنڈی شام کو برآمدے میں بیٹھے تھے کہ ایک بندہ سنتریوں کے درمیان سے بھاگتا ہوا آیا اور اس نے ہمارے سامنے زمین پر گر کر میری ٹانگیں پکڑ لیں۔ سنتری فوراً بھاگ کر آئے اور اسے تھام لیا۔ میں نے سنتریوں اسے چھوڑنے کا حکم دیا اور وہ بندہ فوراً بولا: ‘سعید، سعید گیا۔ مگرمچھ اسے میرے ساتھ سے پکڑ کر ابھی ابھی لے گیا ہے‘۔ میں نے پوچھا: ‘کون سعید؟‘ یہاں کئی سعید تھے۔ اس نے جواب دیا: ‘نمبر دس والا سعید، وہی جسے آپ کافی پسند کرتے تھے۔ ہم دونوں نہر کو عبور کر رہے تھے کہ دریا سے مگرمچھ دخانی کشتی کی طرح آیا اور اسے دبوچ کر لے گیا۔ریئس محمت بھی اسی جگہ ہلاک ہوا تھا۔ مگرمچھ اسے دریا کو لے گیا ہے۔ میں بھاگا بھاگا آپ کو بتانے آیا ہوں‘۔ یہ کہہ کر بیچارہ زمین پر بیٹھا اور زور زور سے سسکیاں لینے لگا۔ سعید میرے بہترین آدمیوں میں سے ایک، ہمیشہ کے لیے جا چکا تھا۔
مقامی افراد کے ساتھ ایسے حادثات بکثرت پیش آتے ہیں کہ وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ اکثر دریا عبور کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر مگرمچھ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض اوقات وہ مویشیوں کی بجائے مالک کو لے جاتے ہیں۔
میں آپ کو اب ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں جو بہت کم ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ میرے پاس تین بہت بڑی گائیں تھیں جن کے سینگ بہت لمبے تھے اور دور سے لائی گئی تھیں۔ یہ مقامی گائیوں سے بہت مختلف اور بہت بڑی تھیں۔ مقامی لوگ انہیں بہت پسند کرتے تھے۔جب میں اندرون کی طرف جانے لگا تو میں نے ان قیمتی جانوروں کو ہمسائے سردار کو اس شرط پر دے دیا کہ وہ ان کے دودھ کو استعمال کر سکتا ہے مگر ان کی حفاظت اس کے ذمے ہوگی۔
دو سال بعد میری واپسی ہوئی اور سردار ملنے آیا۔ میں نے جب گائیوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ بالکل بخیریت ہیں اور اس کے گاؤں والے ایک گائے کی بہت عزت کرتے ہیں اور ہر صبح اس کےسینگوں پر پھولوں کے ہار چڑھاتے ہیں۔ اس نے جو کام کیا تھا وہ آج تک کسی اور جانور نے نہیں کیا۔اس نے ایک مگرمچھ پکڑا تھا۔ یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ گائے پانی پینے دریا کو گئی تھی جہاں کنارہ بتدریج نیچا ہوتا ہوا پانی تک جا پہنچتا ہے۔ جب وہ پانی پی رہی تھی تو ایک بڑے مگرمچھ نے اسے ناک سے پکڑ کر پانی کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ چونکہ گائے بہت جسیم تھی، اس نے پیچھے کی طرف زور لگایا۔ اسی جدوجہد میں گائے مگرمچھ کو گھیسٹ کر پانی سے باہر لے آئی۔ گائے کے شور و غل کو سن کر دیہاتی بھاگے ہوئے پہنچے اور مگرمچھ کو نیزےمار مار کر مار دیا۔انہوں نے مگرمچھ کے سر کو محفوظ کر لیا اور گائے ہیروئن بن گئی۔
ایک بار میں نے اپنی آنکھوں سے ایک بہت بڑے مگرمچھ کو ایک بیل پکڑتے دیکھا اور پانی کے اندر گھسیٹ کر لے گیا۔ پانی کی سطح پر بیل کی جدوجہد دکھائی دیتی رہی کہ اس کا سر پانی کے اندر جبکہ دھڑ پانی سے باہر تھا۔ آخرکار اس کی دم کے علاوہ سب کچھ پانی کے نیچے چلا گیا اور دم کسی زخمی سانپ کی طرح ہوا میں گھومتی رہی۔ دو منٹ بعد بیل کی جدوجہد ختم ہو گئی اور پوری لاش سطح پر تیرنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ فاتح مگرمچھ کا سر بھی ابھرا جو اپنے شکار کو چپ چاپ گھور رہا تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ مگرمچھ پانی کے اندر بھی کافی دور تک دیکھ سکتے ہیں، چاہے وہ پانی صاف ہو یا گدلا۔ تاہم وہ بہت کم ہی شکار کو قوتِ باصرہ سے تلاش کرتے ہیں۔ مگرمچھ پانی کی سطح سے اپنی آنکھیں نکال کر جانور کو تلاش کرتا ہے جو کنارے سے اتنا قریب ہو کہ اسے پریشان کیا جا سکے۔ پھر مگرمچھ پانی کے اندر چلا جاتا ہے اور اپنے شکار کے قریب پہنچ کر ایک بار پھر آنکھیں باہر نکال کر اس کا جائزہ لیتا ہے۔ جب اس کے مقام کا تعین پوری طرح ہو جائے تو مگرمچھ پھر نیچے چلا جاتا ہے اور تیرتے ہی تیرتے اپنے شکار کے بالکل قریب پہنچ کر انتہائی تیزی سے اس پر جھپٹتا ہے اور عام طور پر اسے اپنے بے رحم جبڑوں میں دبوچ لیتا ہے اور بدقسمت شکار کے پاس بچاؤ کا کوئی امکان نہیں رہتا۔
جب تک دریا یا جھیل کا کنارہ پانی سے کئی فٹ اونچا نہ ہو، اس کے بالکل سرے پر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر مگرمچھ کسی شکار کو جبڑوں میں نہ دبوچ سکے تو وہ اسے اپنی دم کا کوڑا مارتا ہے اور اس کا شکار پانی میں گر جاتا ہے اور مگرمچھ اس کا تیاپانچہ کر ڈالتا ہے۔ میں نے کئی بار ایسی جگہوں پر مگرمچھ کو چھوٹے پرندوں کا شکار کرتے دیکھا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں عتبہ دریا پر پانی پینے آتے تھے۔ یہ پرندے بڑی تعداد میں پانی کی سطح کے قریب شاخوں پر بیٹھتے تھے اور ان کے مجموعی وزن سے ٹہنیاں جھک جاتی تھیں۔ مگرمچھ کچھ دور سے ان کو دیکھتا اور پھر پانی میں چھپ کر قریب آ جاتا۔ جب پرندے آپس میں لڑ رہے ہوتے، جگہوں پر قبضہ کرتے اور جب ٹہنی پانی کی سطح کے قریب پہنچتی تو چونچ ڈبوتے تو مگرمچھ اپنی آنکھیں اور نتھنے پانی سے نکالے ان کے قریب تر ہوتا جاتا۔ پھر چند لمحے بعد یہ آنکھیں چھپ جاتیں اور پھر پانی میں جھپاکا ہوتااور کھلے ہوئے جبڑے پانی کے اوپر نکلتے اور بہت سے پرندے لقمہ بن جاتا۔ یہ حملہ بار بار دہرایا جاتا ہے اور عموماً کامیاب رہتا تھا۔
سوڈانی عرب مگرمچھ کا گوشت کھاتے ہیں اور اس کا پیشہ ور شکاری اچھائی کمائی کر سکتا ہے۔ مگرمچھ کے گوشت کے مختلف حصے اور بو والے غدود سے مناسب آمدنی ہوتی ہے۔ اس کی کھال کو پانی میں بھگو کر نرم کیا جاتا ہےا ور پھر لمبی اور پتلی پٹیاں سی کاٹی جاتی ہیں جو لکڑی کے تختوں کو باندھنے کے کام آتی ہیں۔ اس طرح تیار ہونے والی مگرمچھ کی کھال سب سے سخت ہوتی ہے اور کسی بھی مہم پر نکلنے سے قبل اس کی اچھی خاصی مقدار ساتھ لے جانا ضروری ہوتا ہے۔ جب گیلی کھال خشک ہوتی ہے تو سکڑتی ہے اور اس سے بندوق کے ٹوٹے ہوئے کندے کو باندھا جاتا ہےا ور وہ اصل سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔
میں نے توپوں کے پہیے دیکھے ہیں جن کے ڈنڈے وقت اور دھوپ کے ساتھ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور جب ان کو مگرمچھ کی کھال کی پٹیوں سے باندھا جاتا ہے تو وہ اصل سے بہتر کام کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دو سے تین روز تک کھال کو گیلا کیا جاتا ہے اور پھر بتدریج سائے میں خشک کیا جاتا ہے اور وہ لکڑی سے بھی زیادہ سخت ہو جاتی ہے۔
وسطی افریقہ کے باشندے مگرمچھ کے گوشت کو پسند نہیں کرتے حالانکہ وہ سڑتی ہوئی مچھلیاں کھا لیتے ہیں۔ عرب بھی مگرمچھ کو کھاتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی بو یا ہیک نہ ہو۔
مگرمچھ کے انڈے شکل اور جسامت میں بطخ کے انڈوں جیسے ہوتے ہیں۔ مادہ ریت میں گڑھا کھود کر پچاس سے سو انڈے دیتی ہے اور پھر عموماً انڈے دفن کر دیے جاتے ہیں۔ بچے نکلتے ہی دریا کا رخ کرتے ہیں اور انہیں ماں کی ضرورت نہیں رہتی۔
میں نے مگرمچھ کے انڈے کھائے ہیں اور بعض قبائل میں انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے تو بعض میں ان کو یکسر ناپسند کیا جاتا ہے۔
دریائے برہم پتر کے پاس جاڑو پہاڑوں کے مقامی لوگ افزائشِ نسل کے دوران ان انڈوں کو جمع کرتے ہیں اور یہ وہی وقت ہوتا ہے جب دریا سکڑ چکا ہوتا ہے اور ریتلے کنارے وسیع ہو جاتے ہیں۔ مگرمچھ کا گھونسلہ تلاش کرنا مشکل نہیں کہ ریت پر مگرمچھ کے چلنے کے نشانات بہت واضح ہوتے ہیں۔
مگرمچھ کو جال میں پکڑنا بھی آسان ہوتا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کھال کی مناسب قیمت ہونے کے باوجود بھی لوگ اس کا شکار کتنا کم کرتے ہیں۔ مگرمچھ کے شکاری کو چاہیے کہ اس کے پاس نصف انچ موٹا اور بہت تیز نوک والا ہارپون ہو جس میں پچیس فٹ لمبا ہلکا مگر مضبوط دستہ ہو۔ اس کے ساتھ رسی بندھی ہوئی ہو اور جب مگرمچھ کو گولی ماری جائے تو وہ ڈوب جاتا ہے۔ پھر کشتی پر جا کر اس ہارپون کی مدد سے اسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۱۴
جنگلی بھینسا
گائے یا بھینس کی نسل انسان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
بیل کو زمانہ قدیم سے قوتِ تولید کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانوی عجائب گھر میں نینوا کے پروں والے بیل کے مجسمے موجود ہیں اور مصرقدیم تاریخ کے حوالے سے ہمیں مقدس بچھڑوں کا ذکر ملتا ہے جو طاقت اور قوتِ تولید سے متعلق تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی مدد کے لیے مویشی پیدا کرتا ہے۔ بیل کی پوجا اتنی شدت سے انسانی ذہن میں جگہ بنا چکی ہے کہ حضرت موسٰیؑ جب طورِ سینا پر خدا سے ہدایات لینے گئے تو ان کی امت نے ان کے نائب ہارون سے کہہ کر بچھڑے کی شکل کا بت بنوایا۔
وسطی افریقہ کے وحشی علاقوں میں جہاں دیوتاؤں کی پوجا نہیں ہوتی، بیل کو دیگر جانوروں سے ممتاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بے پناہ طاقت، اس کی نر توانائی اور ناقابلِ شکست حوصلے کے پیشِ نظر انسان اس کی عزت کرتا ہے۔
یہ نوع پوری دنیا میں مختلف اقسام کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ البتہ افریقہ میں ایک عجیب بات دیکھنے کو آتی ہے کہ وہاں مویشی تو پائے جاتے ہیں مگر جنگلی حالت میں کوئی ایسا جانور نہیں ملتا جو مویشیوں کا جدِ امجد کہلا سکے۔ یہاں اس کی تین اقسام ملتی ہیں مگر تینوں ہی یورپ یا دیگر ممالک سے فرق ہیں۔
افریقی جنگلی بھینسے کی دو اقسام ہیں جو محض سینگ کی شکل تک محدود ہیں۔ پہلی قسم میں سینگ ماتھے کے اوپر مڑ کر ملے ہوئے ہوتے ہیں اور دوسرے میں چپٹے اور سیدھے سینگ ہوتے ہیں جو ماتھے پر ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ اس کے علاوہ ایک اور قسم ہے جو ان سب سے فرق ہے اور اس کے سینگ چھوٹے ہوتے ہیں۔
یہ قسم افریقہ کے مغربی ساحل پر ملتی ہے اور بہت خوبصورت ہوتی ہے۔ اس کا رنگ بھورا ہوتا ہے اور لمبے کانوں پر بالوں کا گچھا سا ہوتا ہے۔ آنکھیں موٹی اور سر کافی چھوٹا اور نفیس ہوتا ہے۔ سینگ ایک فٹ لمبے اور ان کی بنیاد چوڑی ہوتی ہے مگر خم نہیں کھاتے۔ سینگ نوکیلے ہوتے ہیں۔ جسم پر موجود بال چھوٹے اور نرم ہوتے ہیں اور گلے کے نیچے لٹکی ہوئی کھال نرم اور بڑی ہوتی ہے۔ دم پر کالے بالوں کا گچھا ہوتا ہے۔
گائے کی اقسام کے دیگر نروں کی طرح اس کا نر بھی چھیڑے جانے پر خطرناک ہوتا ہے اور میرا بھتیجا کمانڈر جولیان بیکر ایک بار اس کے ہاتھوں مرتے مرتے بچا تھا۔ وہ افریقہ کے مغربی ساحل پر بحریہ کے ایک جہاز کا کمانڈر تھا اور یہ لوگ ایک مناسب مقام پر اترے۔ جولیان آگے کو چل پڑا اور اس کی اضافی رائفل اٹھائے ایک مقامی وفادار شکاری بھی ساتھ تھا۔
کچھ دور جانے پر انہیں ایک بیل چرتا ہوا دکھائی دیا۔ سو گز کے فاصلے سے اس نے گولی چلا دی اور بیل گر کر اٹھا اور پاس موجود چھوٹی جھاڑی میں چھپ گیا۔نئے جانور کو شکا رکرنے کی خوشی میں یہ بھاگا بھاگا گیا کہ بیل مر چکا ہوگا یا مرنے والا ہوگا کہ اچانک بیل نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے گولی چلائی تو وہ گولی خراب نکلی۔ اگلے لمحے بیل نے اس کی ران میں سینگ چبھو کر اسے اٹھا لیا۔
اس طرح جب بیل نے اسے اچھالا تو وہ اس کے سینگ پر پھنس گیا۔ خوش قسمتی سے اسے جمناسٹک کی مشق تھی، سو اس نے ایک ہاتھ سے دوسرا سینگ پکڑا اور اپنی ران آزاد کرا لی اور فوراً نیچے گرا۔ مگر اس نے سینگ نہ چھوڑا۔ زمین پر چِت پڑے ہوئے اس نے دائیں ہاتھ سے بیل کے سینگ کو جکڑ کر اور دوسرے ہاتھ سے ناک پکڑ کر اسے پوری طاقت سے موڑا۔ اس طرح بیل اپنے سینگ اس کے سینے میں نہ گھسا سکا۔ جولیان کو علم تھا کہ بیل کے شانے سے گولی گزری ہے، سو جلد ہی بیل گر جائے گا۔ اس کا شکاری بھاگا بھاگا آیا اور اس خدشے کہ گولی جولیان کو نہ لگے، اس نے بیل کے کان کے پاس دونوں نالیں چلا دیں۔ بیل پر کوئی فرق نہ پڑا۔
اس نے خالی رائفل کو پھینکا اور اپنا انتہائی تیز شکاری چاقو نکال کر اس نے بیل کی گردن پکڑی اور ایک ہی جھٹکے میں گردن کو منکے تک کاٹ دیا۔ خون کا فوارہ نکلا اور بیل گر گیا۔ کافی وقت کے بعد جہاز سے مدد پہنچی اور جولیان کو جہاز پر لے جایا گیا۔ تین ماہ تک وہ پشت کے بل لیٹا اس مہم کو یاد کرتا رہا۔
اس بیل کے سر کو پکاڈلی سٹریٹ کے مشہور ماہر رولینڈ وارڈ نے محفوظ کیا اور اب وہ میرے پاس موجود ہے۔ سر کافی چھوٹا اور انتہائی نفیس ہے۔ اگر یہی جدوجہد عام بھینسے کے ساتھ ہوئی ہوتی تو کسی بھی انسان کے لیے بچنے کا کوئی امکان نہ ہوتا۔
یہ نسل ہندوستانی بیل کی طرح ہوتی ہے مگر سینگوں کی ساخت اور شکل فرق ہوتی ہے۔ اس نسل کے سبھی جانور لگ بھگ وحشی ہوتے ہیں مگر افریقہ جنگلی بھینسا تو زخمی ہونے کے بعد او ربھی خطرناک ہو جاتا ہے۔
سبھی بھینسوں کودلدلی خطے پسند ہوتے ہیں جہاں ایسا چارہ ملتا ہے جو پالتو مویشی نہیں کھا سکتے۔ اس کے علاوہ انہیں دوپہر کے وقت کیچڑ میں لیٹنا بھی پسند ہوتا ہے اور محض سر پانی سے باہر ہوتا ہے۔ بھینسا ذرا سے فرق سے جل تھلیا نہیں کہلایا جا سکتا۔ پانی سے اس کی محبت اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیل کو چاہے باربرداری کے لیے استعمال کیا جائے یا کسی اور مقصد کے لیے، دوپہر کےو قت اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے نہانے اورپانی میں وقت گزارے سے روکا جائے تو پھر یہ کام میں دلچسپی نہیں لیتا اور آخرکار بیکار ہو جاتا ہے۔
اٹلی اور مصر کے بیل اپنی اصل نسل کوبرقرار رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی جسامت کم ہو گئی ہے اور سینگوں کی لمبائی اور وزن بھی گھٹ گیا ہے۔ پالتو بنائے جانے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے تبدیلیوں کے مشاہدے کے لیے یہ بہترین جانور ہے۔ مختلف مقامات کے ماحول مختلف جانوروں میں مختلف خصوصیات پیدا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سائیلون کے بھینسے ہندوستانی بھینسوں سے مماثل ہوتے ہیں مگر ان کے سینگ کمتر ہوتے ہیں۔ سائیلون میں سبھی جانوروں کے سینگ کمتر ہوتے ہیں جو شاید چارے میں کسی معدن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہوگا۔ سائیلون میں دانت والے ہاتھی بھی بہت کم ملتے ہیں اور ہرن اور بھینسوں کے سینگ بھی ہندوستان میں اسی نسل کے دیگر جانوروں سے کافی چھوٹے ہوتے ہیں۔
سائیلون میں پالتو مویشی بھی کافی جنگلی ہوتے ہیں۔ مصر اور اٹلی میں اس کا الٹ ہے اور بچے بھی ان کو جب چرانے لے جاتے ہیں تو ان کی پیٹھ پر سوار ہو جاتے ہیں۔ چین میں بھی ایسا ہی ہے۔
ہندوستانی بھینسے کے سینگ بہت بڑے ہوتے ہیں اور جب خم کے مطابق پیمائش کی جائے تو بارہ فٹ سے بھی زیادہ کے ہو جاتے ہیں۔
دیگر تمام جنگلی جانوروں کی مانند ہندوستان کے جنگلی بھینسوں کی تعداد بھی کافی کم ہو گئی ہے۔ جدید دور کی بریچ لوڈر اور نقل و حمل کی آسانی سے یورپی افراد آسانی سے ان جنگلی جانوروں کے مسکن تک پہنچ سکتے ہیں اور اتنی آسانی سے مارے جا سکتے ہیں کہ شاید بیس سال بعد ان کا نام و نشان بھی نہ ملے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے بہت ساری جگہوں پر تکلیف دہ تبدیلی آتے دیکھی ہے۔ جب میں جوان تھا تو ایسی جگہوں پر جنگلی بھینسے اور دیگر جانوروں کی بھرمار ہوتی تھی۔
لوگ کبھی اس کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ جنگلی بھینسےسے میر اپہلا تعارف سائیلون میں منریا کے مقام پر ہوا تھا جو۱۸۴۵ کی بات ہے۔ اب وہاں اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ جو چند ایک بچ گئے ہیں، انہوں نے میدانوں کو چھوڑ کر دور دراز کے جنگلوں کا رخ کر لیا ہے۔
۱۸۴۵ تا ۱۸۴۹ منریا کے علاقے تک کوئی سڑک نہیں تھی۔ایک جگہ بائیس میل لمبی پگڈنڈی تھی جس پر جھاڑ جھنکاراگا ہوا تھا۔ اگر کسی کو سفر کرنا ہوتا تو اس راستے کی صفائی کا خرچہ اسے خود اٹھانا پڑتا تھا۔ پہلی بار جب ہم یہاں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے گزرے تو مجھے وہ وقت کبھی نہیں بھولے گا۔ انتہائی شدید گرمی اور حبس میں ہمارے سنہالی راہنما راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے اور جب ہم کھلے سبز قطعے کو پہنچے تو ہماری خوشی دیدنی تھی۔گھاس چھ انچ لمبی ہوگی اور میدان بہت دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی تفصیل میں اپنی کتاب Rifle and Hound in Cylon میں بیان کر چکا ہوں:
چار بجے ہم کینڈی سے ۸۰ میل دور جنگل سے نکلے اور ہمارے سامنے منریا جھیل موجود تھی۔ اسے دیکھتے ہی سارے دن کی تھکان اتر گئی۔ سہ پہر بہت خوبصورت تھی۔بیس میل دائرے پر محیط جھیل کا پانی سورج کی روشنی میں جھلملا رہا تھا۔ سبزہ اتنا تھا کہ جیسے برطانوی سبزہ زار ہو۔ ساتھ موجود جنگل کے اونچے اونچے درخت دکھائی دے رہے تھے۔ جگہ جگہ جنگل جھیل کے اندر دور تک چلا گیا تھا جہاں جنگلی پرندے بکثرت تھے۔ ہرنوں کے غول جگہ جگہ چر رہے تھے یا درختوں کے سائے میں آرام کر رہے تھے۔ خوبصورت منظر کا ہر جزو یہاں موجود تھا۔ بعض جگہوں پر زمین جھیل کے اندر دور تک چلی گئی تھی اور ان پر درخت اگے ہوئے تھے تو کہیں ایسی جگہ درختوں سے یکسر فارغ تھی۔ دور پیچھے نیلے پہاڑ اور ان کی بادلوں سے ڈھکی چوٹیاں دکھائی دیتی تھیں۔
گھاس بہت سبز تھی اور گھنی تھی۔ اگرچہ زمین بالکل خشک تھی مگر ہر بیس یا تیس قدم پر سنائپ اڑتے رہے۔ جھیل کے کناروں سے مرغابیوں کے جھنڈ اڑتے تھے۔ ہم ایک ایسی جگہ داخل ہوئے جہاں زمین کا لمبا ٹکڑا جھیل میں دور تک گیا ہوا تھا۔ اس کی چوڑائی دو سو گز سے کم ہوگی اور ہم جلد ہی اس سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوئے۔ ایک طرف جھیل کا پانی میلوں تک پھیلا ہوا تھا تو دوسری جانب بہترین جنگل تھے۔ کنارے کے قریب کچھ اونچی چٹانیں پانی سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور یہاں جنگلی پرندوں کی بھرمار تھی۔ تاہم میدانی علاقے میں جنگلی بھینسوں کا راج تھا۔ چوتھائی میل دور ایک سو کے قریب بھینسوں کا غول چر رہا تھا۔
کئی بڑے نر میدانی علاقے میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ جھیل کے دوسرے کنارے ہمیں میدان پر جگہ جگہ دھبے سے دکھائی دے رہے تھے جو درحقیقت جنگلی بھینسوں کے غول تھے۔ اس جگہ جنگلی پرندوں کے علاوہ کسی قسم کی آواز نہ سنائی دے رہی تھی۔ ہوا اتنی ساکن تھی کہ درختوں کے پتے تک ساکت تھے۔ سورج اب افق کے قریب ہو رہا تھا اور ہوا نسبتاً ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھی۔ بھینسوں کے غول جیسے ہمیں بلا رہے ہوں اور ہم نے دو ہلکی دونالی رائفلیں لیں اور قریب ترین بھینسوں کی طرف چل پڑے۔
میں نے یہ قطعہ اپنی پرانی کتاب سے نقل کیا ہے کہ شکاریوں کے لیے جنت نظیر کیسا مقام ہوتا ہے۔ ابھی تک یہ منظر ویسا ہی ہے مگر شکار کے قابل جانور ختم ہو چکے ہیں۔
تب جنگلی بھینسے اتنے نڈر تھے کہ انسان کے قدم وہاں تک نہ پہنچے تھے۔ تاہم اس سے زیادہ میں یہاں نقل نہیں کروں گا۔ میں اپنے مرحوم بھائی کے ساتھ جب دو ہلکی دونالی رائفلیں لے کر نکلا تو جنگلی بھینسوں کے ساتھ یہ پہلی ملاقات آخری ثابت ہوتے ہوتے بچی۔
دو نالی رائفلیں بہت ہلکی تھیں اور تب سے میں نے ہمیشہ بھاری رائفلیں ہی استعمال کی ہیں۔ میری بھاری رائفل کو تین اونس کی گولی اور ۱۲ سے ۱۶ ڈرام بارود بھینسوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی اور اگلی صبح پہنچی تھی۔
ہندوستانی جنگلی بھینسے بھی کافی خطرناک ہوتے ہیں مگر سائیلون کے بھینسے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان کے سینگ زیادہ بڑے اور بھاری ہوتے ہیں مگر چونکہ ہندوستان میں شکاری ہاتھی پر سوار ہوتا ہے، سو اسے نقصان نہیں پہنچتا۔ سائیلون میں شکار کے لیے پیدل چلنا ہوتا ہے۔
اگر شکاری ٹھنڈے مزاج کا، بہترین نشانے باز اور بھاری رائفل سے مسلح نہ ہو تو خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کی کھال بہت سخت ہوتی ہے اور موٹی بھی۔ اس کی کھال پر نہ ہونے کے برابر بال ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے ربر کی بنی ہو۔ ماتھے کی ہڈی موٹی ہوتی ہے مگر رائفل کی گولی اس کے پار ہو سکتی ہے۔ تاہم اس کا نشانہ لینا مشکل ہوتا ہے کہ جب بھی اسے دشمن دکھائی دے تو وہ ناک شکاری کی سمت کر کے سر اٹھا لیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نشانہ ہمیشہ ناک کا لینا چاہیے تاکہ گولی براہ راست دماغ میں ترازو ہو۔ یاد رہے کہ جب آپ جنگلی بھینسے کے سامنے ہوں تو یہ زندگی اور موت کا معاملہ بن جاتا ہے۔ سو آپ کی گولی فیصلہ کن ثابت ہونی چاہیے۔ اگر آپ کا نشانہ خطا جائے یا گولی درست مقام پر نہ لگے تو جنگلی بھینسا فوراً حملہ کر دیتا ہے۔
جنگلی بھینسے کا حملہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کئی جنگلی جانور غصے سے حملہ کرتے ہیں مگر انہیں رائفل کی گولی سے روکا یا موڑا جا سکتا ہے چاہے وہ گولی مہلک نہ بھی ثابت ہو۔ جنگلی بھینسا جب حملہ کرنے کا سوچ لے تو موت کے سوا کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی۔
اگر جنگلی بھینسا ہلاک نہ ہو تو لازمی طور پر اپنے دشمن کو مار دیتا ہے۔ جب جنگلی بھینسا آپ پر آخری حملہ کرنے آئے تو اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جنگلی جانور نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ اپنے دشمن کو گرا دے تو پھر نہ صرف سینگ گھونپتا ہے بلکہ سموں سے لاش کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔
میں نے کئی سو جنگلی بھینسے مارے ہیں اور کبھی بھی افسوس نہیں ہوا۔ یہ جانور فطری طور پر بہت غصہ ور اور خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کا غصہ بلاوجہ ہوتا ہے۔ سائیلون میں جنگلی بھینسوں کی تمام اقسام ایک جیسی خطرناک ہوتی ہیں۔ نروں کا آپس میں برابر کا مقابلہ ہوتا ہے۔ شکست خوردہ نر میدان چھوڑ کر بھاگتا ہے اور فاتح اسے کھدیڑتا ہوا کچھ فاصلے تک پیچھے جاتا ہے اور اس کو سینگ مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ سینگ ایسے مڑے ہوتے ہیں کہ براہ راست نہیں چبھوئے جا سکتے۔ سو اس کا مقابلہ انسان سے ہو یا جنگلی بھینسے سے، یہ ہمیشہ لڑائی کے تیار رہتا ہے۔ اگر اس کا مقابلہ انسان سے ہو تو توقع کرنی چاہیے کہ انسان پوری طرح تیار ہو۔
میں نے ایسے کئی مقابلے دیکھے ہیں اور فاتح نر کا سامنا تین اونس والی رائفل سے کیا ہے۔
اگر آپ کے پاس ۸ بور کی دو نالی رائفل ہو جس میں ۱۲ ڈرام بارود یا تین اونس گولی والی رائفل ہو جس میں ۱۴ یا ۱۶ ڈرام بارود ڈالا گیا ہو تو ایسے نر کا مقابلہ کرنے کا بڑا مزہ آتا ہے۔
تین اونس والی گول شکل کی گولی کا امتحان کرنے کے لیے منیریا کے میدان تھے جہاں طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک بھینسے موجود رہتے تھے۔ رائفل کو مضبوطی سے پکڑ کر درست نشانہ لگایا جاتا اور تین اونس والی رائفل انتہائی مہلک ثابت ہوتی تھی اور جنگلی بھینسے کے بچنے کے امکانات ختم ہو جاتے تھے۔ تاہم یہ رائفل مزل لور تھی اور خطرے کے وقت نشانہ خطا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے میں نے اسے چلانے میں خوب مہارت حاصل کر لی تھی اور اس رائفل کی طاقت پر پورا بھروسہ تھا۔
ایک بار میرا سامنا ایک ایسے نر سے ہوا جو دوسرے نر سے لڑ چکا تھا۔ اس کی کھال پر جا بجا زخم تھے اور وہ اپنا غصہ نرم زمین پر نکال رہا تھا۔ جب میں اپنے پونی سے اتر کر اس کی طرف بڑھا تو اس نے مجھے دیکھ لیا۔ پھر اس نے اپنے اشتعال کا مظاہرہ کیا اور میری طرف پیش قدمی شروع کر دی جیسے مجھے مارنا چاہتا ہو۔ سو گز پر پہنچ کر وہ چند منٹ رکا اور زمین پر سم مارتا رہا۔ پھر اس نے میری طرف دوڑ لگا دی۔ میرے پاس اس کے سینے میں گولی اتارنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ گولی سے اس کی ہلاکت اتنی اچانک ہوئی کہ وہ گر کر قلابازی کھا گیا اور مجھ سے تیس گز پر آن رکا۔ گولی اس کے سینے میں لگی، دل اور دیگر اعضائے رئیسہ کو جلاتے ہوئے اس کی پچھلی ٹانگ کی جلد کے قریب جا کر رکی۔
منیریا کے میدانوں میں دو بار میں نے ایک ہی گولی سے دو بھینسے ہلاک کیے۔ دونوں بار ۳ اونس والی رائفل تھی۔ ایک بار میں پہنچا تو دیکھا کہ غول کے سبھی جنگلی بھینسوں میں ہیجان برپا ہے اور درمیان میں دو نر لڑ رہے ہیں۔ جب قریب پہنچا تو ان دو نروں کے سوا باقی سبھی بھاگ نکلے۔ ان نروں کو میری آمد کا احساس تک نہ ہوا۔
میں نے ان کی جانب پیش قدمی جاری رکھی اور پچاس گز کے فاصلے پر رک گیا۔ پھر انہیں میرے وجود کا احساس ہوا۔ انہوں نے لڑائی چھوڑنے کی کوشش کی مگر ان کے سینگ اتنی بری طرح پھنس چکے تھے کہ الگ نہ ہو سکے۔ دونوں پہلو بہ پہلو کھڑے تھے۔ میں نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سامنے والے بھینسے کے شانے پر گولی چلائی۔ وہ وہیں گر گیا اور اس کے مدِمقابل نے اپنے سینگ چھڑائے اور بھاگا۔ تھوڑی دور جا کر رکا اور ایک منٹ اِدھر اُدھر چلا اور پھر اس کے منہ سے خون آلود جھاگ نکلا اور وہ وہیں گر کر مر گیا۔
تین اونس کی گولی اور ۱۶ ڈرام بارود نے پہلے نر کے دونوں شانوں کو توڑ کر اپنا سفر جاری رکھا اور دوسرے نر کے شانے کے پیچھے گھسی اور پھیپھڑوں سے ہوتی ہوئی دوسری جانب کھال کے نیچے جا رکی۔ اس کی شکل زیادہ نہیں بگڑی تھی۔
دوسری بار میرے سامنے ایک ریوڑ پوری رفتار سے گزر رہا تھا اور میں نے ایک بڑے نر پر گولی چلائی جو وہیں گر گیا جبکہ ریوڑ بھاگتا رہا۔ پھر ایک مادہ کی رفتار کم ہوئی اور رک گئی۔ پھر اس نے دائیں بائیں موڑ کاٹا اور وہیں گر کر مر گئی۔ گولی نر کے پار ہوئی اور مادہ کو جا لگی۔
رائفل اتنی عمدہ کارکردگی دکھا رہی تھی کہ اس کے بارے جتنے واقعات بیان کیے جائیں کم ہیں۔ تاہم ایک واقعہ سناتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ اتنی موٹی کھال والے خطرناک شکار پر ہلکی رائفل کا کیا نقصان ہوتا ہے۔
میرا دوست فریڈرک ڈِک میرے ساتھ منیریا میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ وہ پولیس میجسٹریٹ تھا اور بعد ازاں ایک مجرم کو پکڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ وہ میرے ساتھ شکار کھیل رہا تھا اور اس کے پاس ۲۰ بور کی گول شکل کی گولی چلانے والی رائفل تھی۔ میری تین اونس والی رائفل بہترین کام کر رہی تھی اور جنگلی بھینسے بے شمار تھے۔ اس رائفل سے اسے لگا کہ جنگلی بھینسے اتنے بھی خطرناک یا مشکل نہیں ہوتے۔ تاہم اس کی گولیاں بیکار جا رہی تھیں اور میں بھینسے پر بھینسا مار رہا تھا۔ اس کی رائفل ایک نالی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ تم بارود کی مقدار دو گنا کر دو۔ کچھ وقت کے بعد ہم کافی فاصلے طے کر کے جھیل کے قریب پہنچے اور لگ بھگ نصف میل دور ایک بھینسا دکھائی دیا۔ جب اس نے ہمیں دیکھا تو غصے سے زمین پر کھر مارنے لگا۔ تاہم وہ اونچے کنارے پر کھڑا تھا جو بارہ فٹ اونچا تھا۔ سو وہ نیچے اترنے کے قابل نہیں تھا۔ ہم اتنی دیر میں کھاڑی کے ایک کنارے پر پہنچ گئے اور ہم سے تیس گز دور بھینسا کھڑا تھا۔ ڈِک نے اپنی رائفل میں بارود کی دگنی مقدار ڈال رکھی تھی جو ۳ ڈرام بنتی تھی۔ بھینسے کا غصہ بہت بڑھ گیا تھا مگر کنارے سے جست لگانے سے معذور تھا۔ میں نے ڈِک سے کہا کہ جونہی بھینسا اپنا سر جھکائے، اس کی گردن کے پیچھے گولی اتار دے۔ پھر میں نے مٹی کا ڈھیلا اٹھایا اور بھینسے کے سامنے پانی پر مارا۔ جونہی بھینسے نے اپنا سر جھکایا، ڈِک نے گولی چلا دی۔ بھینسا مڑا اور پھر گر گیا۔ میں نے نعرہ لگایا: ‘شاباش ڈِک، تم نے تو کمال کر دیا‘۔ پھر ہم نے دوڑ کر کھاڑی کو کم گہرے مقام سے عبور کیا اور بھینسے تک جا پہنچے۔ بہت بڑا بھینسا ہمارے سامنے پڑا تھا اور اس کی گردن کے عین وسط میں ایک ننھا سا سوراخ تھا۔ میرے دوست اتنی چھوٹی سی گولی سے اتنا بڑا بھینسا مار لیا تھا۔ ڈِک اس کے سامنے کھڑا تھا اور اپنے پہلے بھینسے کو فخر سے دیکھ رہا تھا جو اس نے اتنی ہلکی رائفل سے مارا تھا۔
میں نے اسے سمجھایا کہ بھینسا چاہے زندہ ہو یا مردہ، اس کے سامنے کبھی نہیں کھڑا ہونا چاہیے اور اس کی پشت کی جانب کھڑے ہوتے ہیں۔ ابھی میں نے یہ الفاظ ادا ہی کیے تھے کہ بھینسا اچانک کھڑا ہوا اور سیدھا ششدر کھڑے ڈِک کی سمت بڑھا جو محض تین فٹ کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ ڈِک نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی مگر جڑیں وغیرہ اتنی زمین سے نکلی ہوئی تھیں کہ وہ جنگلی بھینسے کے عین سامنے گر گیا۔ عین اسی لمحے میرے دائیں ہاتھ نے لمبا شکاری چاقو نکال کر بھینسے کے شانے کے عین پیچھے اتار دیا۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ چاقو لگتے ہی بھینسا وہیں گر گیا اور ٹانگیں چلانے لگا۔ اس کی دم بھی ہلک رہی تھی۔ میرے لمبے چاقو سے خون کی دھار بہہ رہی تھی اور میں چلایا کہ اس بار بھینسا پوری طرح مر گیا ہے۔
ہمارا مقامی ساتھی جب پہنچا تھا تو ہم بظاہر مردہ بھیینسے کا معائنہ کر رہے تھے کہ وہ اٹھا اور پھر میرے چاقو کے وار سے گر کر مر گیا۔ سارے کام میں ایک منٹ بھی نہ لگا ہوگا۔
یہ خطرے سے بچ نکلنے کی عمدہ مثال تھی۔ اب آپ سوچیں گے کہ یہ کون سا چاقو تھا اور کون سے عضو پر وار ہوا کہ جنگلی بھینسا فوراً وہیں گر گیا؟ یہ چاقو ایک بہت پرانی سکاٹش تلوار سے بنایا گیا تھا۔ اس کی لمبائی ۱۸ انچ جبکہ چوڑائی ۲ انچ تھی۔ دو دھاری ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تیز بھی تھا۔ اس کا سرا جراح کے نشتر کی طرح باریک تھا اور شکاری چاقو اسی حالت میں ہی رکھنے چاہیئں۔ ہر روز شکار پر نکلنے سے قبل میں اس چاقو کی دھار دیکھتا تھا اور اگر ضرورت پڑتی تو خود ہی اسے پتھر پر تیز کرتا تھا۔
پھر ہم نے بھینسے کی لاش کو بغور کھول کر دیکھا۔ بیس بور کی گولی اس کی گردن کے پیچھے منکے پر رک گئی تھی اور ہڈی سالم تھی۔ دھکے سے بھینسا چند منٹ بے ہوش رہا تھا۔ چاقو کا وار اس کے دل کے اس حصے پر لگا جہاں سے خون کی بڑی شریان نکلتی ہے اور اسے کاٹ گیا تھا۔
اُس روز سے میرے دوست نے جنگلی بھینسے پر گولی چلانے سے انکار کر دیا اور میں نے اس کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کر لیا کیونکہ اس کی رائفل ہرگز اس کام کے لیے مناسب نہ تھی۔
آپ کو شاید یہ قتلِ عام لگے مگر مجھے اس پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ یہ جانور انتہائی مشتعل مزاج اور خطرناک ہوتے ہیں اور اُن دنوں بندوق سے سنائپ کا شکار کھیلنے جانا انتہائی خطرناک ہوتا تھا کہ جگہ جگہ یہ خطرناک جانور پھر رہے ہوتے تھے۔ تین اونس کی رائفل کے ساتھ نشانے کی مشق کرنا انتہائی دلچسپ کام تھا۔ اس سے چلنے والی گولی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کتنا اندر تک جائے گی اور حملے کو کتنی عمدگی سے روک سکتی ہے۔ ایک بار میں نے ایک ریوڑ کو الگ کیا اور پانچ نر الگ ہو کر پانی میں گھسے اور جھیل کے اندر ایک طویل اور تنگ پٹی پر چڑھ گئے۔ یہ پٹی کئی سو گز تک جھیل کے اندر گھسی ہوئی تھی۔
اس جگہ پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بھینسے مشتعل ہیں۔ سو میں محتاط ہو کر اپنی ۳ اونس رائفل کے ساتھ آگے بڑھا جبکہ میری لمبی دو اونس والی رائفل پیچھے ایک مقامی بندے نے اٹھائی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کو میری رائفلوں پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ ایسی جگہ بھی جانے کو تیار رہتے تھے جہاں وہ عام حالات میں کبھی نہ جاتے۔
ابھی ہم کچھ ہی دور گئے تھے کہ وہ سب اکٹھے ہو گئے۔ اچانک ایک بڑے نر نے سیدھا ہم پر حملہ کیا جبکہ اس کے دیگر ساتھی وہیں رکے رہے۔
۳ اونس کی گولی اس کے سینے کے وسط میں لگی۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ گولی لگتے ہی اس نے قلابازی کھائی اور وہیں مر گیا۔ دو چکروں والی رائفل کا بھرنا آسان تھا کہ گولی بہ آسانی سما جاتی تھی۔ جونہی میں نے رائفل بھر کر نپل پر ٹوپی چڑھائی تو دوسرے نر نے نسبتاً کم رفتار کے ساتھ حملہ کیا۔ میں نے اس پر بھی گولی چلائی اور وہ وہیں لیٹ گیا اور اس کے منہ سے خون آلود جھاگ نکلنے لگا جو پھیپھڑوں کے مہلک زخم کی علامت تھا۔
رائفل کو دوبارہ بھر کر میں نے پیش قدمی جاری رکھی اور ایک اور نر گرا لیا۔ اب دو بچ گئے تھے۔ ان میں سے ایک تو پانی میں گھسا مگر اسے گردن پر گولی لگی۔ آخری نر نے ہمارے قریب سے بھاگ کر خشکی کا رخ کرنے کا ارادہ کیا اور دو اونس والی رائفل نے اس کے دونوں کندھے توڑ دیے اور وہ وہیں گر گیا۔
دونوں رائفلیں ایک نالی تھیں مگر ان کا سامنا کرنا بھینسوں کے بس سے باہر تھا۔
ان ہتھیاروں کی طاقت کو دیکھ کر میں نے انگلستان سے دو عدد دو نالی ۱۰ بور کی رائفلیں منگوائیں جن میں دو چکر تھے۔ یہ رائفلیں عین میری توقع کے مطابق نکلیں کہ ان کی طاقت ۲ اونس والی رائفل کے تقریباً برابر تھی اور دو گولیاں بیک وقت تیار ہوتی تھیں۔
اصولی طور پر پیدل حالت میں خطرناک شکار پر ایک نالی رائفل لے جانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ موجودہ بریچ لوڈر میں گولی بھرنا آسان ہو گیا ہے مگر بہت مرتبہ ایسے حادثات پیش آتے ہیں جو دو نالی رائفل کے ہوتے ہوئے نہ پیش آتے۔ایک بار میرے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
تین اونس والی رائفل اتنی عمدہ تھی کہ میں اسے ناقابلِ شکست سمجھنے لگا۔ میرے پاس چار اونس کا سانچہ تھا، سو میں نے تین اونس کی گول شکل کی گولی کی بجائے چار اونس کی نوکدار مخروطی گولی ڈھالی۔ تاہم یہ گولی بیکار ثابت ہوئی کہ ہڈی سے ٹکراتے ہی اس کا رخ بدل جاتا۔
ایک بار میں نے یہ گولی ایک بہت بڑے پاگل ہاتھی پر آزمائی جو جھیل میں چر رہا تھا۔ ہم نے اسی پر نئی گولی آزمانے کا سوچا۔ یہ جھیل کئی میل کے دائرے میں پھیلی تھی اور چاروں طرف گھاس کے قطعے تھے اور دور گھنے جنگل بھی۔ ایک جگہ دو یا تین ایکڑ کا جھاڑ جھنکار سے بھرا قطعہ تھا جو کچھ پانی میں اگا ہوا تھا۔ اس جگہ اصل جنگل سو گز دور ہوگا اور درمیان میں گھاس اگی ہوئی تھی۔ اگر ہم اصل جنگل میں چھپ کر کسی تدبیر سے ہاتھی کو اپنی سمت بلاتے تو وہ سیدھا ہمارے قریب سے گزرتا۔
میرے ساتھ میرا بھائی تھا، سو ہم نے اپنے ساتھیوں کو دوسری سمت بھیجا تاکہ وہ ہاتھی کو چھیڑیں اور کوشش کریں کہ ہاتھی ہماری جانب آئے۔
میں ایک چھوٹی سی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوا تھا جو اصل جنگل سے چند گز دور تھی۔ ہمارے سامنے نوے گز دور وہ قطعہ تھا جہاں سے ہاتھی گزرتا۔
ہانکے والے پوری طرح تجربہ کار تھے اور ہوا بھی موافق چل رہی تھی اور جلد ہی پانی میں کسی بھاری جانور کے چلنے کی آواز سے ہمیں پتہ چل گیاکہ ہاتھی جھاڑیوں والے قطعے کو آن پہنچا ہے۔ ہانکے والے قریب آ پہنچے مگر ہاتھی نہ دکھائی دیا۔
ہاتھی تو وہاں موجود تھا، مگر سوال یہ تھا کہ اسے باہر کیسے نکالا جائے؟ زمین کیچڑ سے بھری تھی، سو انسان اس میں تیز نہ چل سکتا تھا۔ اس لیے ہانکے والوں نے پیش قدمی سے انکار کر دیا کہ وہاں خاردار جھاڑیاں بھی تھیں۔ میں نے انہیں بندوق دی اور ہدایت کی کہ اس قطعے کی دوسری جانب جا کر کئی کارتوس چلائیں اور شور کرتے ہوئے ہاتھی کو ہماری جانب بھیجیں۔
انہوں نے اس بات پر عمل کیا۔ ہمیں دو یا تین کارتوسوں کی آواز سنائی دی اور درخت پر چڑھے ہانکے والے خوب شور کرنے لگے۔ اگلے لمحے ایک شاندار ہاتھی نمودار ہوا اور سیدھا میری جانب بڑھتا آیا۔ بہت خوبصورت منظر تھا اور مجھے رائفل پر اتنا بھروسہ تھا کہ میں جھاڑی سے نکل کر سامنے آ گیا۔ ہاتھی نے مجھے دیکھا تو ایک لمحے کو رکا اور سر دائیں بائیں گھمانے کے بعد سیدھا مجھ پر چڑھ دوڑا۔ میں نے اس کے ماتھے کا نشانہ لیا ہوا تھا اور پھر میں نے گولی چلا دی۔ بارود کی بھاری مقدار سے نکلنے والا دھواں کمبل کی طرح چھا گیا۔ اگرچہ میرے سامنے کا منظر چھپ گیا مگر مجھے یقین تھا کہ ہاتھی گر گیا ہوگا۔ جب میں نے جھک کر دیکھا تو دہشت ناک منظر سامنے تھا۔ پہلے ہاتھی کی سونڈ، پھر اس کے کان اور پھر پورا ہاتھی دکھائی دیا جو حملے کے تیار عین میرے سر پر تھا۔
رائفل کو پھینک کر دوڑ لگانے میں آدھا لمحہ بھی نہیں لگا۔ ہاتھی نے تعاقب شروع کر دیا۔ یہاں زمین انتہائی مسطح تھی اور گھاس چھوٹی۔ مجھے دوڑنے کی عادت تھی سو دوڑ شروع ہو گئی۔ ہاتھی لمحہ بہ لمحہ قریب ہو رہا تھا۔
میں نے جنگل کے متوازی دوڑ جاری رکھی تاکہ ہاتھی میرا پیچھا چھوڑ کر جنگل میں چھپ جائے۔ مگر اس نے دوڑ جاری رکھی۔ سو گز کے بعد اچانک میں بائیں جانب مڑا اور میرا ارادہ تھا کہ اس طرح ہاتھی بھی میرے ساتھ ہانکے والوں کے قریب پہنچ جائے۔ تاہم ہاتھی نے دائیں جانب موڑ کاٹا اور خاردار جنگل میں غائب ہو گیا۔ میرا سانس پھولا ہوا تھا مگر جان بچنے کی خوشی بھی تھی۔
ہم نے اس کی تلاش میں کئی گھنٹے صرف کیے مگر ناکام رہے۔
میرے بھائی اور شکاریوں نے بھی یقین دلایا کہ میری گولی عین ماتھے کے وسط میں لگی تھی مگر چونکہ سر اونچا اٹھا ہوا تھا، سو نوکدار گولی ہڈی سے لگنے کے بعد سیدھا جانے کی بجائے مڑ گئی۔
ایک اور ہاتھی کے ساتھ میں نے ایسا ہی ناکام تجربہ کیا اور پھر چار اونس والی نوکدار گولی کی بجائے ۳ اونس والی گولی پر ہی اکتفا کیا۔
اُن دنوں ہم باریک پسا ہوا بارود ہی استعمال کرتے تھے تاکہ مزل لوڈنگ رائفل میں مس فائر نہ ہو۔ یہ طاقتور اور تیز جلنے والا بارود شدید دھکے کا سبب بنتا تھا مگر اس سے گولی بہت اندر تک جاتی تھی۔ جنگلی بھینسے اور گینڈےو غیرہ کے شکار کے لیے اس کی بہت اہمیت ہے۔ اگر یہ جانور حملہ کریں تو انہیں روکنے کا واحد طریقہ رائفل کی گولی کا ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا ہوتا ہے۔ جب ایسی کسی صورتحال میں جنگلی بھینسا مارا جائے تو اس کی لاش کا اندرونی معائنہ کرنا بہت معلوماتی ہوتا ہے کہ گولی کیسے سخت پٹھوں اور عضلات کے علاوہ ہڈیوں کو توڑتی اور اپنا راستہ بناتی گزری ہے۔ سینے کی گہرائی دو فٹ سے زیادہ ہوتی ہے جو سارے کا سارا ٹھوس عضلات اور ہڈیوں سے بنا ہوتا ہے جن پر عام گولی اثر نہیں کرتی۔ تاہم دو اونس کی سخت گولی اور بارہ ڈرام بارود اس جانور کے ایک سرے سے دوسرے تک گزرے گی اور دوسرے سرے پر کھال کے نیچے کہیں پھنسی ہوئی مل جائے گی۔
تین اونس کی سخت مخروطی گولی نر افریقی ہاتھی کے شانے پر لگ کر دوسری جانب سے پار ہو جاتی ہے۔ خطرناک جانوروں کے شکار پر ایسے یہ ہتھیار کام دیتے ہیں اور اگر شکاری کی ہمت ساتھ دے تو اس کے پاس دو نالی رائفل ہوگی ورنہ جلد یا بدیر اس کا نام جنگلی جانوروں کے ہاتھوں شکار ہونے والے شکاریوں کی فہرست میں چلا جائے گا جو ہتھیار کی کمزوری کے سبب سے ہوتا ہے۔
میں نے ایک اونس والی سولہ بور کی گولی سے ہاتھی، ۲۴م بور یعنی اعشاریہ ۵۷۷ اور دو ڈرام بارود سے افریقی جنگلی بھینسے اور گینڈے شکار کیے ہیں مگر یہ شکار انتہائی موزوں زاویے سے کیے گئے تھے جہاں گولی کو کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میں کسی نئے شکاری کو اس کی تجویز نہیں دوں گابلکہ انہیں مطلوبہ جانور کی مناسبت سے ہتھیار کا انتخاب کرنا چاہیے۔
اگرچہ نر بھینسا مادہ کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے مگر اپنے بچے کے دفاع کے لیے جب مادہ تیار ہو جائے تو پھر وہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ میں اس کی ایک مثال شیر والے باب میں دے چکا ہوں جس میں جنگلی بھینس ریوڑ کو چھوڑ کر شیر پر حملے کو تیار ہوئی تھی۔ جب جنگلی بھینسا لڑائی کے لیے تیار ہو جائے تو پھر آخری سانس تک ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔
بہت کم لوگوں نے مختلف ممالک میں جنگلی بھینسوں کے شکار کا وسیع تجربہ پایا ہے اور بہت مرتبہ جنگلی بھینسوں کا شکار بہت آسانی سے ہو جاتا ہے مگر اسے اصول نہیں مان لینا چاہیے۔ برسوں کے شکاری کو جب ایک بار جنگلی بھینسے کے حملے کا سامنا کرنا پڑے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ جنگلی بھینسا کس چیز کا نام ہے۔
سائیلون میں آٹھ سال کے تجربے میں مجھے یا میرے ساتھیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اگرچہ کئی بار بال بال بچے تھے مگر افریقہ میں میرا بہترین ساتھی کمزور اسلحے کی وجہ سے مارا گیا۔
ایک بار سفید نیل پر شام ڈھلے میں نے ایک نر بھینسا شکار کیا۔ دس بور کی گولی لگتے ہی وہ گر گیا جیسے مر گیا ہو۔ میرے ساتھی اس کی لاش پر کھڑے ہو کر ناچنے لگے کہ بہت دنوں سے تازہ گوشت نہیں ملا تھا۔ بجائے اس کے کہ اس بھینسے کو ذبح کرتے، انہوں نے ناچ گانا جاری رکھا اور اچانک بھینسا اٹھا اور یہ سب دوڑ کر دریا میں کود کر کشتی کی جانب تیرنے لگے۔ جنگلی بھینسا اونچے سرکنڈوں اور آبی نباتات میں غائب ہو گیا۔
اگلی صبح ان لوگوں نے سوچا کہ بھینسا مر چکا ہوگا، سو چند دو نالی بندوقیں لے کر یہ لوگ اس کی لاش تلاش کرنے چل پڑے۔ چند ہی منٹ بعد مجھے ایک گولی کی آواز آئی، پھر دوسری اور پھر تانتا بندھ گیا۔ جب میرے ساتھی واپس لوٹے تو ان کے ساتھ بھینسے کا سر اور ڈھیر سارا گوشت بھی تھا مگر میرے بہترین شکاری کی لاش بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ شکاری سب سے آگے چل رہا تھا کہ اچانک اس کے عین سامنے بھینسا اٹھا اور اس پر حملہ کر دیا اور گولیاں اسے روک نہ سکیں۔
بھینسے کا مڑا ہوا سینگ اس کے کان کے نیچے لگا اور گلے کو کاٹتا ہوا سامنے سے باہر نکلا۔ پھر بھینسا اس پر جھکا اور اس کی لاش کو کچلنے لگا۔ آخرکار تیس بندوقوں کی گولیوں کے سامنے اس نے دم توڑ دیا۔
مجھے افریقی جنگلی بھینسے کے شکار میں زیادہ مسئلہ کبھی نہیں ہوا۔ سب سے اہم وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ میں ہمیشہ انتہائی محتاط رہا اور انتہائی طاقتور رائفلوں سے شکار کیا تھا۔ بیرن ہارنیئر سفید نیل کی سیر کو آنے والا پہلا شوقیہ شکری تھا۔ اس کی اپنی کشتی اور دو جرمن ملازم ہمراہ تھے جو جلد ہی بخار سے مر گئے۔ اگرچہ اسے جنگلی بھینسوں کے شکار کا وسیع تجربہ تھا مگر وہ خود جنگلی بھینسے کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے پاس ایک نالی رائفل تھی جس سے اس نے جنگلی بھینسے کو مہلک زخم پہنچایا مگر بھینسے نے اس کے ملازم پر حملہ کر دیا۔ چونکہ رائفل خالی ہو چکی تھی، سو اس نے رائفل سے جنگلی بھینسے کو دھکیلنے کی کوشش کی مگر بھینسا اس پر الٹ پڑا اور اسے گرا کر اس کے جسم میں سینگ گھونپتا رہا۔ مقامی مشنریوں نے اگلے روز اس کی مسلی ہوئی لاش کو اس کے گلے میں موجود سونے کے تعویذ سے پہچانا۔ ساتھ ہی بھینسے کی لاش بھی پڑی تھی۔
حمران عرب کے تلوار سے شکار کھیلنے والے شکاری گھوڑے پر سوار ہو کر بھینسے کا پیچھا کرتے اور اپنی تلوار سے اس کی ٹانگ کے پٹھے کاٹ دیتے ہیں۔ میں نے ایک بار یہ شکار دیکھا تھا جو پہاڑی علاقے میں کھیلا گیا جہاں موجود پتھر شکاریوں اور گھوڑوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔ ان لوگوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ جنگلی بھینسے کا تعاقب جاری رکھا اور آخرکار ایک چھوٹی سی سطح مرتفع پر پہنچ کر رک گئے۔ یہاں بھینسا ان کا سامنا کرنے کو تیار تھا۔ چند منٹ رکنے کے بعد ہم نے ایسا ظاہر کیا کہ جیسے ہم لوٹ رہے ہوں اور اگلے ہی لمحے بھینسا پوری رفتار سے نیچے کو بھاگا۔ اگلے لمحے چار گھوڑے اس کے پیچھے ہوا ہو گئے۔ پانچ منٹ تک انتہائی ناموافق جگہ پر دوڑ کے بعد بھینسا سب سے آگے ایک تنگ مگر انتہائی دشوار گزار جنگل میں داخل ہو گیا۔ میرے ساتھیوں نے دوسری جانب جا کر ہوا کے رخ پر اپنی بو بھینسے کی طرف بھیجی اور شور مچاتے ہوئے پتھر پھینکے کہ شاید بھینسا نکل آئے۔
میں نے جھاڑیوں میں حرکت کی آواز سنی اور اس جانب بڑھا اور کنارے تک آن پہنچا۔ یہاں میں نے سائے میں کھڑے بھینسے کو دیکھا جس کا پہلو میری جانب تھا۔ میں نے آرام سے محتاط نشانہ لے کر اپنی ۲۴ بور کی چھوٹی رائفل اور ۲ ڈرام بارود سے گولی چلا دی۔ بھینسے کا بال بھی نہ ہلا۔ میں نے رائفل دوبارہ بھری مگر بھرنے سے قبل ہی بھینسا دائیں بائیں گھوما اور گر گیا۔ گولی اس کے پھیپھڑوں کے عین وسط میں لگی تھی اور دوسری جانب پسلی میں اٹک گئی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہائی چھوٹے ہتھیار سے بھی جنگلی بھینسے کا شکار ممکن ہے مگر ایسا کم ہی ممکن ہوتا ہے کہ جنگلی بھینسا تیس گز کے فاصلے پر بالکل پہلو آپ کی جانب کیے کھڑا ہو اور آپ آرام سے گولی چلا سکیں۔ میرے بیان کردہ واقعات سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جنگلی بھینسے کے شکار میں کسی قسم کا غیر ضروری خطرہ مول لینا انتہائی نادانی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زخمی بھینسے کی تلاش میں گھنے جنگل میں بالکل بھی نہیں گھسنا چاہیے ورنہ بھینسا کہیں بھی چکر کاٹ کر اپنی گزرگاہ کے قریب چھپ کر اپنے پیچھے آنے والے شکاری پر دھاوا بول سکتا ہے۔ اگر جنگل اتنا کھلا ہو کہ تیس یا پچاس گز تک دکھائی دیتا ہو تو پھر خون کے نشانات کا پیچھا کرنا ممکن ہے۔ تاہم اگر جنگل گھنا اور زیادہ دور تک دکھائی نہ دیتا ہو تو لازمی بات ہے کہ کوئی نہ کوئی حادثہ ہو سکتا ہے اور اس کا انجام صرف موت ہوگا کیونکہ بھینسا جب تک اپنے دشمن کو مکمل طور پر کچل نہ دے، پیچھے نہیں ہٹتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۱۵
امریکی بھینسا (بائزن)
شمالی امریکہ میں گھاس کے میدان سے زیادہ دنیا کا کوئی خطہ انسانی دست و برد سے متاثر نہیں ہوا۔ مقامی انڈین لوگ سفید فاموں کے سامنے سے ہٹ گئے ہیں اور ان کی تعداد بھی سکڑ گئی ہے اور جنگلی جانور بھی اسی مناسبت سے سکڑتے ہوئے معدومیت کے قریب پہنچ گئے ہیں یا دور دراز کے جنگلوں کو منتقل ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے جنگلی بھینسے یا بائزن کبھی اتنی بڑی تعداد میں ہوتے تھے کہ گھاس کے میدان ان کے بے شمار ریوڑوں سے سیاہ دکھائی دیتے تھے اور اب یہ کہیں کہیں معدودے چند دکھائی دیتے ہیں۔
بائزن بہت شاندار دکھائی دیتا ہے اور میرے خیال میں تمام تر جنگلی جانوروں میں سب سے منفرد ہوتا ہے۔ بوڑھے نر کی سرمائی کھال میں عجیب سی وحشت دکھائی دیتی ہے جو دیگر تمام جنگلی جانوروں سے اسے ممتاز کرتی ہے۔
حقیقت دیکھی جائے تو اس جانور کو امریکی جنگلی بھینسا کہا جا سکتا ہے۔ اس کے نر کی اونچائی شانے پر ۱۵ سے ۱۶ ہاتھ ہوتی ہے مگر حقیقت میں اس کے شانے بہت اونچے ہوتے ہیں اور پچھلی ٹانگوں کی طرف اس کی کمر نیچے کو ترچھی ہوتی ہے۔ ان کے جسم کا اگلا حصہ بہت زیادہ بھاری ہوتا ہے اور پچھلا حصہ کافی چھوٹا۔ اس کی دم دیگر بھینسوں سے کہیں چھوٹی ہوتی ہے۔ اس کے عظیم جثے کے باوجود اس کے کُھر چھوٹے ہوتے ہیں۔
اس کی بے پناہ طاقت کا راز اس کے سر، گردن اور اگلی ٹانگوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس کے سر پر سیاہ رنگ کے ایال نما بال ہوتے ہیں جو اس کی آنکھوں کو بھی کسی حد تک ڈھک لیتے ہیں۔ یہی بال اس کی تھوڑی پر گھٹنوں تک لٹکے ہوتے ہیں۔ سینگ چھوٹے اور خمیدہ ہوتے ہیں۔ سردیوں میں کھال پر گھنگھریالے بالوں کی موٹی تہہ آ جاتی ہے جو اون سے مشابہہ ہوتی ہے۔ سردیوں میں اس کی کھال بہت عمدہ سمجھی جاتی ہے اور بہت عرصے تک اس کی کافی مانگ رہی ہے۔ تاہم اب اس کی گھٹتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر طلب بھی کم ہو گئی ہے۔
بائزن بہت مشتعل مزاج ہوتے ہیں مگر نقصان نہیں پہنچاتے۔ افریقہ اور ہندوستان کے جنگلی بھینسوں کے برعکس یہ کبھی بھی حملے میں پہل نہیں کرتے۔ اگر اسے اشتعال دلایا جائے اور فرار کا راستہ مسدود ہو جائے پھر یہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔
انڈین قبائل کی جانب سے ان کے سالانہ قتلِ عام کے بارے کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہ شکار سردیوں کے اوائل میں شروع ہوتا تھا جب کھالیں بہترین حالت میں اور موسم اس کے گوشت کو سکھانے کے لیے مناسب ہوتا تھا۔
انڈین ان بھینسوں کے طور طریقوں سے بخوبی واقف ہوتے تھے اور گھوڑوں پر بیٹھ کر ان کا شکار کرتے اور بہت بڑے غول کو مناسب جگہ پر لے آتے تھے جہاں پورا قبیلہ انہیں گھیر لیتا تھا۔ پھر تیز اور نیزے سے آخری بھینسا تک شکار کر لیا جاتا تھا۔
سردیوں میں گہری برف میں جب ان بھینسوں کے لیے چلنا دشوار ہو جاتا تھا تو یہ بیچارہ چارے کی تلاش میں ہلکان ہوتے تھے۔ مقامی انڈین برفانی جوتے پہن کر برف پر چلتے ہوئے ان کا تعاقب کرتے اور تھکے ہوئے بھینسوں کو آسانی سے مار لیتے تھے۔ یہ معدومیت کی جنگ تھی اور جب سفید فام افراد پہنچے تو تباہی کے فطری رحجان کی وجہ سے انہوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
میں نے بائزن کے بارے بہت ساری داستانیں پڑھ رکھی ہیں۔ سو میں جب ۱۸۸۱ میں بگ ہارن رینج پر پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھے بہت مسرت ہوئی کہ اگرچہ میدان خالی تھے مگر کافی مقدار میں بائزن پہاڑوں پر پائے جاتے تھے۔
ہم پہاڑ پر کئی گھنٹے سے چڑھائی کر رہے تھے اور دامن میں پاؤڈر دریا بہہ رہا تھا۔ جب ہم چوٹی پر پہنچے تو ہمارے رہنما نے ہمیں صاف بتا دیا کہ وہ یہاں وہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ یہاں ہم الجھ گئے کہ ہمارے سامنے پہاڑ در پہاڑ تھے اور کہیں کوئی راستہ نہیں تھا اور بظاہر پانی بھی کہیں نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے حالات میں چاہے آپ دل ہی دل میں کتنا ہی جھلس رہے ہوں، مگر زبان خاموش رہنی چاہیے ورنہ رہنما مزید پریشان ہو جائے گا۔
اس لیے میں نے اسے ہدایت کی کہ سامنے موجود چھوٹی وادی عبور کر کے دوسری پہاڑی پر چڑھے اور وہاں سے اسے بہتر منظر دکھائی دے گا۔ اگر اسے پانی دکھائی دے تو ہمیں مطلع کرے۔
میں اور میری بیوی اپنے گھوڑوں پر اسی وادی کو عبور کر کے دائیں جانب پہاڑوں پر چڑھے جہاں ہمیں بہت دور تک کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک میں نے زرد گھاس کے بیچ سبز رنگ کی طویل پٹی دیکھی جو مخمل جیسی لگ رہی تھی۔ مجھے علم ہو گیا کہ یہ کوئی ندی ہوگی۔ ہمارے بائیں جانب چھ یا سات سو فٹ اترائی تھی جو ایک گہری وادی کو جا رہی تھی اور اس کی تہہ میں ہی یہ ندی بہہ رہی تھی۔
ایک میل دور مجھے چار کالے دھبے دکھائی دیے جو اس سبز پٹی کی دوسری جانب تھے۔ جب دوربین استعمال کی تو پتہ چلا کہ ندی سے پچاس گز دور چار بائزن لیٹے تھے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ دیگر ساتھیوں کو لے کر ہمارے بائیں جانب نیچے والے جنگل میں کیمپ لگانے کی تیاری کرے جبکہ میں بائزن کے شکار کو نکلتا ہوں۔ بائیں جانب والے جنگل سے بھی ایک ندی گزر رہی تھی۔ دونوں ندیوں کے درمیان کچھ اونچی جگہ تھی۔ سو کیمپ کی مجوزہ جگہ اور بائزن کا درمیانی فاصلہ ایک میل سے بھی کم تھا۔
ہم دونوں الگ ہو گئے اور پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر حسبِ توقع پانی ملا جو چند انچ گہری ندی تھی۔ پھر میں یہاں سے دوسری اور بڑی ندی کو پہنچا۔ میرے ساتھ میرا شکاری جم بورن تھا اور ہم نے گھوڑے کیمپ کی مجوزہ جگہ بھیج دیے۔ گھڑ سواری والے میرے لمبے بوٹ گھاس پر پھسل رہے تھے۔ میں نے ندی کے اندر چلنے کو ترجیح دی کہ بائزن کے قریب پہنچ کر ندی سے نکلیں گے تاکہ وہ پانی میں چلنے کی آواز نہ سن لیں۔
اس طرح چلتے ہوئے ہم مطلوبہ جگہ پہنچے جو ایک بڑے پتھر کے پاس تھی۔ میں نے روانگی سے قبل اس جگہ کا اندازہ لگا لیا تھا۔ میں نے دوربین سے جانچ لیا تھا کہ اسی پتھر کی دوسری جانب ڈھلوان پر تیس گز دور بائزن لیٹے تھے۔ ندی سے نکل کر میں پوری احتیاط سے کنارے پر چڑھا اور بالائی سرے کے قریب پہنچا۔ ہوا بہت ہلکی تھی اور موافق بھی۔ بتدریج میں اوپر کو اٹھا اور عین اسی وقت بھاری سموں کے دوڑنے کی آواز سنائی دی۔ اگلے لمحے جب میں پوری طرح کھڑا ہوا تو چاروں بائزن بھاگ رہے تھے۔ نزدیک ترین ساٹھ گز دور تھا، سو میں نےاپنی اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل سے اس کی دم کی جڑ کا نشانہ لیا۔ گولی مطلوبہ نشانے سے دو انچ ہٹ کر لگی اور بائزن وہیں گر گیا۔ باقی تین نر بھاگتے ہوئے ندی سے گزرے۔ ندی کا کنارہ عمودی تھا، سو وہاں چڑھتے ہوئے انہیں بہت دقت ہوئی۔ اتنا وزنی کوئی بھی پالتو مویشی ایسے کنارے پر نہ چڑھ سکتا۔ میں نے رائفل کو دوبارہ بھرا اور ہر ایک نر کے شانوں کے بیچ کا نشانہ لیا۔ چاہتا تو گولی چلا سکتا تھا مگر بائزن کا شکار اتنی بے رحمی سے ہوتا رہا ہے کہ مجھے اپنا نام ان قصابوں کی فہرست میں لکھوانے کا کوئی شوق نہ پیدا ہوا۔
اس دوران پہلا نر جس پر گولی چلائی تھی، زمین پر پچھلی ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا۔ گولی کے صدمے سے نکلنے کے بعد اس نے حرکت کی کوشش کی تھی اور اگلی ٹانگوں کی مدد سے چند فٹ آگے کو گیا تھا اور اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے جم بورن کو اعشاریہ ۵۷۷ کی ٹھوس گولی کی طاقت کا مظاہرہ دکھایا اور اس نرکے شانے میں گولی اتار دی اور وہ دائیں پہلو پر گر کر مر گیا۔
امید ہے کہ آپ مجھے ظالم اور سنگ دل نہیں سمجھیں گے کہ میں محض مخصوص رائفلوں کو مخصوص جانوروں پر آزمائے جانے کے اثرات کے بارے سائنسی معلومات دینا چاہتا ہوں۔
اگر میں جوان ہوتا تو ناتجربہ کاری کی وجہ سے تیس یا چالیس بائزن مارتے ہوئے مجھے کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ مگر اس بائزن کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں مزید بائزن نہیں ماروں گا۔ سو میں نے بہت مرتبہ ان پر گھات لگائی اور ان کا پیچھا کیا۔ پھر رائفل اٹھا کر نشانہ لیا اور لبلبی کو چھو کر رائفل رکھ دی اور بائزن کو بھگا دیا تاکہ وہ اپنی زندگی آرام سے پوری کرے۔ اگر میں گولی چلاتا تو اس کی لاش یا تو وہیں سڑتی رہتی یا پھر اسے بھیڑیے اور ریچھ کھا جاتے۔ تاہم میری یہ مہم جوئی میرے امریکی ملازم کو پسند نہ آئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ اتنا طویل فاصلہ طے کر کے شکار کھیلنے آئے ہیں اور شکار کا موقع ملنے کے باوجود بھی شکار نہیں کرتے تو آنے کا کیا فائدہ؟میری رحم دلی کا یہ جواب ملتا تھا۔
مجھے اس تبصرے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بائزن اکثر ہمارے کیمپ سے تین یا چار سو گز قریب چرنے آ جاتے تھے اور ہم ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے۔
میرا شکار کردہ یہ نر بائزن ہماری ضروریات کے لیے قطعی کافی تھا اور اتنا بھاری تھا کہ جب ٹیکساس بل پہنچا تو ہم سب مل کر اسے ذرا سا بھی ہلا نہ سکے۔
یہ بہترین بائزن تھا اور اس کا سر اس وقت میرے ہال میں لگا ہوا ہے۔ رولینڈ وارڈ نے اس کو محفوظ کیا ہے اور اس کے مطابق بائزن کا آج تک اتنا بڑا اور اتنا شاندار سر اس نے نہیں دیکھا۔
پھر ہم نے بیل کی لاش کو چیر پھاڑ کر دیکھا۔ خواتین چاہیں تو اس حصے کو نظرانداز کر دیں۔ اعشاریہ ۵۷۷ کی ٹھوس گولی ۶ ڈرام کے بارود کی مدد سے دم سے دو انچ بائیں جانب لگی اور کولہے کو توڑتی ہوئی آنتوں، معدے اور پھیپھڑوں سے گزرتے ہوئے گردن کی کھال کے نیچے جا رکی۔ کولہے کی ہڈی ٹوٹنے سے اس کا پچھلا دھڑ معذور ہو گیا تھا۔
اب میں یہاں ایکسپریس کی کھوکھلی گولی کا دفاع کرنے والے ماہرین سے پوچھوں گا کہ اگر وہ گولی نر بائزن کے کولہے کی ہڈی پر لگتی تو کیا ہوتا؟ گولی کے فوراً سینکڑوں ٹکڑے ہو جاتے اور بائزن کو فرق نہ پڑتا اور وہ بھاگنے میں کامیاب ہو جاتا۔
بائزن کا مشاہدہ بہت دلچسپ تھا اور تقریباً روز ہی نظر آتے تھے۔ کبھی کیمپ کے پاس چرنے آتے تو کبھی شکار کے دوران ان پر نظر پڑتی۔ بہت مرتبہ چوٹی پر کھڑے ہو کر میں نے انہیں نیچے چرتے ہوئے دیکھا یا کبھی پہاڑ سے اترتے ہوئے ان پر نظر پڑتی تھی۔ تاہم میں نے ان پر دوبارہ کوئی گولی نہیں چلائی کہ ہمارے پاس شکار کا گوشت بہت ہوتا تھا۔
ٹیکساس بِل لاسو کا ماہر تھا اور ایک بار اس نے ایک مادہ بائزن کو پکڑا مگر اکیلا اسے سنبھال نہ سکا۔ میرے خیال میں جانور کو پھانسنا مشکل نہیں، اصل مشکل اس کو قابو میں لانا ہوتی ہے۔
میکسیکن زین پر نو انچ کا ایک ابھرا ہوا حصہ ہوتا ہے جسے سینگ کہتے ہیں۔ جب لاسو سے کوئی جانو رپکڑا جائے تو رسی کا ایک بل اس کے گرد ڈال دیتے ہیں۔ اسی کی مدد سے چاہیں تو جانور کو ڈھیل دیں یا پھر اسے قریب لائیں۔ تاہم جانور کے بھاگنے سے قبل لازمی ہوتا ہے کہ انگوٹھا بچا لیا جائے۔ میری موجودگی میں ایک بندے کی دو انگلیاں رسی اور اس سینگ کے درمیان آ کر ایسے کٹ گئیں جیسے چاقو سے کاٹی گئی ہوں۔
امریکی بائزن پر بالکل بھی ترس نہیں کھاتے۔ ان کا خیال ہے کہ ایک بائزن دو بیلوں جتنا چارہ کھاتا ہے اور یہ بھی کہ ان کی موجودگی سے انڈین لوگ بھی ان کا شکار کرنے آ جاتے ہیں۔ میرے خیال میں دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ پہلی تو اس لیے کہ بائزن عام رینچ سے کہیں دور پہاڑوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔ دوسرا یہ بھی کہ انڈین لوگوں کے اپنے مخصوص علاقے ہیں اور وہ قانونی طور پر وہاں سے نکل کر شکار کے لیے نہیں آ سکتے۔ شاید امریکیوں کو بائزن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا جنون ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ محض امریکی بائزن ہی اصل بائزن ہے۔
ہندوستان میں بھی ایک نام نہاد بائزن ملتا ہے مگر سائنسی طبقہ اسے بائزن نہیں مانتا اور اسے گاؤر کہا جاتا ہے۔ میں نے ہماری ہندوستانی سلطنت کے پانچ چکر لگائے ہیں مگر کبھی اس جانور کے شکار کا موقع نہ مل سکا۔ اس بار ارادہ ہے کہ سردیوں میں ہندوستان جاؤں گا اور خشک موسم میں اس کے شکار پر نکلوں گا کہ اس موسم میں شکار کی تلاش آسان ہوگی۔
چونکہ گاؤر کے ساتھ میرا ذاتی طور پر کوئی واسطہ نہیں رہا، اس لیےمیں اس کی عادات پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہوں۔ تاہم اس کی آبادی وسطی صوبجات میں بہت گھٹ گئی ہے جس کی وجہ اس کا شکا رنہیں بلکہ وہ وبائی امراض ہیں جو اس خاندان کے جانوروں کو لاحق ہوتے ہیں اور جنگلی اور پالتو، دونوں قسموں کے سینکڑوں جانور مر جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چالیس برس قبل سائیلون کے شمالی حصے میں بعض جگہوں پر ناقابلِ برداشت تعفن تھا کہ جنگلی اور پالتو بھینسے بے شمار تعداد میں مرے تھے۔
کئی سال قبل رائے پور کے جنگلوں میں ایسی ہی آفت آئی تھی جس سے اتنے زیادہ گاؤر مرے کہ اب کئی جگہوں پر ان کا کوئی نشان نہیں بچا۔
گاؤر کو اپنی نوع کا سب سے بڑا جانور مانا جاتا ہے۔ اس کی اونچائی شانے پر ۱۷ سے ۱۸ ہاتھ ہوتی ہے۔ سر بہت بڑا ہوتا ہے اور ماتھے پر ایک اضافی ہڈی ہوتی ہے جو کھوپڑی کے اوپر آتی ہے۔ اس لیے عام بیلوں کی نسبت اس کا نشانہ نسبتاً نیچے کو لینا چاہیے۔
یہ شاندار جانور پہاڑی جنگلات میں ملتا ہے جہاں بانس کی کثرت ہوتی ہے جو اس کی خوراک ہے۔ سرمائی مہینوں میں یہ علاقہ انتہائی سبز اور ناقابلِ رسائی ہوتا ہے۔ سو گاؤر کی تلاش ناممکن ہوتی ہے کہ وہ چوٹیوں کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔
یاک ایک اور نسل ہے جس کے ساتھ میرا کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ یہ خوبصورت جانور فلک بوس پہاڑوں پر رہتا ہے جہاں اس کے وزن کا کوئی اور جانور نہیں رہ سکتا۔ ہمالیہ میں اسے سفر کے لیے پالا جاتا ہے اور اس کا سفر انتہائی محفوظ ہوتا ہے۔
جنگلی بیل یا بائزن کی ایک قسم وسطی یورپ میں لتھوانیا کے جنگلوں میں پائی جاتی ہے مگر انسانی آبادی میں اضافے اور آتشیں اسلحے کی وجہ سے یہ جانور انتہائی دور افتادہ جنگلوں میں چلا گیا ہے اور اب اس کی تعداد معدومیت کا شکار ہونے والی ہے۔
اب یہ حقیقت ہے کہ اصلی بائزن کی محض دو اقسام بچی ہیں جن میں سے ایک امریکی بائزن ہے اور دوسرا یورپی بائزن۔ دونوں ہی میں پسلیوں کے ۱۴ جوڑے ہوتے ہیں۔
باب ۱۶ گینڈا
زمانہ قدیم کے یونی کارن یا ایک سینگ والی مخلوق جو انسانی حملوں سے بچتی رہی ہے، ضرور کوئی گینڈا ہوگی۔ کاویئے نے اس بارے لکھا ہے: ‘یہ بڑے جانور ہیں اور ہر پیر میں تین انگلیاں ہوتی ہیں۔ ناک کی ہڈیاں محراب نما ہوتی ہیں اور ان پر ایک سینگ اگتا ہے جو کھال سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ریشے دار ہوتا ہے جو بالوں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ یہ جانور فطری طور پر بے وقوف اور مشتعل مزاج ہوتا ہے۔ اکثر دلدلی جگہوں پر ملتا ہے جہاں یہ درختوں اور جھاڑیوں کے پتے کھا کر زندہ رہتا ہے۔ اس کا معدہ سادہ ہوتا ہے اور طویل آنت‘۔
ہندوستانی گینڈا: اس میں چبانے والے بیس دانت ہوتے ہیں اور ہر جبڑے میں دو کاٹنے والے دانت ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی دو چھوٹے دانت بھی جو زیادہ بڑے نہیں ہوتے۔ اس کا ایک سینگ ہوتا ہے اور کھال تہہ دار ہوتی ہے جیسے پشت، کمر اور رانوں پر کسی نے رکھ دی ہو۔
جاوا کا گینڈا: اس کے چار کاٹنے والے دانت ہوتے ہیں اور ایک سینگ۔ کھال پر زیادہ تہیں نہیں ہوتیں مگر گردن والی تہہ کافی بڑی ہوتی ہے۔ ساری کھال مربع حصوں میں بٹی ہوتی ہے۔
سماٹرا کا گینڈا: اس کے چار کاٹنے والے دانت ہوتے ہیں۔ کھال پر کوئی تہہ نہیں دکھائی دیتی اور بالدار ہوتی ہے۔ بڑے سینگ کے پیچھے ایک اور چھوٹا سینگ بھی ہوتا ہے۔
افریقی گینڈا: اس کی تین اقسام پائی جاتی ہیں۔ دو سینگوں کے علاوہ اس کی جلد پر تہیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی کاٹنےو الے دانت۔ لگ بھگ سارا جبڑا ہی مولرز سے بنا ہوتا ہے۔ کاٹنے والے دانتوں کی عدم موجودگی کی بنا پر بعض اوقات اسے الگ نسل مانا جاتا ہے۔ بڑے گینڈے کی جسامت دیگر اقسام سے بڑی ہوتی ہے اور اس کا رنگ بھی نسبتاً ہلکا ہوتا ہے اور اس کا اگلا سینگ بہت لمبا اور نسبتاً سیدھا ہوتا ہے اور دوسرا سینگ مختصر سا ہوتا ہے۔ اس کا بالائی ہونٹ کسی حد تک آگے کو لٹکا ہوتا ہے۔ یہ گینڈا سب سے زیادہ میل جول کا شائق اور بالکل بھی خطرناک نہیں ہوتا۔ عام کیپ گینڈے کا رنگ گہرا اور اس کے دو چھوٹے بڑے سینگ ہوتے ہیں۔پچھلا حصہ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے اور کیٹلوا گینڈا جو حال ہی میں ڈاکٹر سمتھ نے دریافت کیا ہے، تنہائی پسند ہے اور اس کے دونوں سینگ یکساں لمبائی کے حامل ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ مشتعل مزاج ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا تعریف میں نے کاویئے کی کتاب سے درج کی ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ اس نسل کی کیا خاصیتیں ہیں۔ جنوبی افریقہ کا سفید گینڈا خطِ استوا کے شمال میں نہیں ملتا۔ اس کی خاص بات اس کا ہونٹ ہے جو چوڑا اور گول ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ جانور گھاس کھاتا ہے۔ لٹکے ہوئے ہونٹ والے گینڈے ٹہنیاں اور شاخیں کھاتے ہیں۔ شاید یہ ہونٹ ارتقا کی اگلی منزل میں ٹیپر کی مانند تھوتھنی نما ہو جائے۔ اس کے مولر دانتوں کے بارے کاویئے لکھنا بھول گیا ہے کہ جب اس کا منہ بند ہو تو دانت ایسے بند ہو جاتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہتا۔
لٹکا ہوا ہونٹ ٹہنیاں پکڑنے اور انہیں جمع کرنے کے لیے مفید ہے اور اس کے دانت آسانی سے انہیں کاٹ سکتے ہیں۔
گینڈے کی اقسام کے بارے بہت بحث ہوتی ہے اور میرا خیال ہے کہ سینگ کی شکل یا لمبائی سے ان کی اقسام کا اندازہ لگانا بیکار ہے کہ ہرنوں کی ایک ہی قسم میں سینگوں کی شکل اور لمبائی فرق ہو سکتی ہے۔ بڑا سفید گینڈا ایک الگ نسل ہے اور اس کی تھوتھنی زیادہ نوکیلی نہیں ہوتی بلکہ گول ہوتی ہے اور ہونٹ لٹکا ہوا نہیں ہوتا۔ سر کی ساخت اور بہت جسیم ہونے کے علاوہ سینگ بہت لمبا ہوتا ہے۔
گینڈوں کی سبھی اقسام میں پیروں کی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے اور ان میں تین انگلیاں ہوتی ہیں جو نصف دائرے کی شکل میں ہوتی ہیں۔ ہندوستانی گینڈے کا سینگ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے ٹرافی کے طور پر نہیں رکھ سکتے۔ آٹھ انچ لمبا سینگ غیرمعمولی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس کےسینگ کی بنیاد کافی موٹی ہوتی ہے۔
میں ڈاکٹر سمتھ کا ہم خیال نہیں ہوں کہ کیٹلوا گینڈا کے دونوں سینگوں کی لمبائی یکساں ہوتی ہے۔ کچھ گینڈوں کے سینگ یکساں لمبے ہو سکتے ہیں کہ اگلا سینگ کھدائی وغیرہ کرنے کی وجہ سے گھِس جاتا ہوگا مگر اندرونی سینگ ہمیشہ زیادہ لمبا ہوتا ہے اور شکل بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد گول ہوتی ہے اور نوکیلے سرے تک یہ گول گول سا ہوتا ہے۔اگلا سینگ اطراف سے چپٹا ہوتا ہے اور اوپر اٹھتے ہوئے نوکدار ہو جاتا ہے۔
تمام گینڈوں کے سینگوں کی رنگت ایک جیسی ہوتی ہے اور یہ محض جمے ہوئے بال ہوتے ہیں۔ آپ اس کو تراش کر تراشوں کو خوردبین سےد یکھیں تو یہ سب بال ہوتے ہیں جو گوند نما مادے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس گوند نما مادے سے زیادہ سخت چیز اور کوئی نہیں اور زمانہ قدیم سے اس کے کئی مفید اور کئی فرضی استعمال چلے آ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ بشمول سوڈان کے عرب یہ سمجھتے ہیں کہ اس سینگ کے بنے ہوئے پیالے سے زہر کا پتہ چل جاتا ہے۔ میرے پاس تین سینگ ہیں اور ان پر چاندی کا پتر چڑھا ہوا ہے جو افریقہ کو چھوڑتے وقت مجھے وہاں کے بڑے شیخ حسین خلیفہ پاشا نے تحفتاً پیش کیے تھے۔
سینگ کھوپڑی سے جڑے نہیں ہوتےبلکہ ناک کے اوپر ہڈی پر رکھے ہوتے ہیں۔ اس کی جہاں سے سینگ نکلتا ہے، وہاں کی کھال انتہائی موٹی ہوتی ہے اور اس کی بالدار شکل سے اندازہ ہوتا ہے کہ سینگ کیسے بنتے ہوں گے۔
اگر گینڈے کو شکار کر کے اس کی لاش کو دھوپ میں پڑارہنے دیا جائے تو تیسرے دن چھڑی کی ہلکی سی ضرب سے گر جاتے ہیں۔ سینگ اگرچہ سخت کام کے لیے مناسب نہیں محسوس ہوتے کہ محض کھال سے جڑے ہوتے ہیں، مگر یہ دفاع کا بہت اہم ہتھیار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گینڈا اپنے سینگ کی مدد سے ہاتھی کو مار سکتا ہے مگر یہ حملہ اچانک ہو تو اور بات ہے ورنہ نر ہاتھی کی طاقت اور وزن گینڈے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اس کے دو بہت بڑے دانت بھی ہوتے ہیں۔
ہاتھیوں کو گینڈے سے ڈر لگتا ہے مگر ہاتھی کو اکثر جانوروں سے ڈر لگتا ہے جبکہ گینڈا احمق ہوتا ہے اور کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔
سفید نیل کے مشرق میں میں نے گینڈے کی محض ایک ہی قسم دیکھی ہے اور اسے ہی کیٹلوا کہتے ہیں۔ اس کی مشتعل مزاجی واضح ہے اور انسان یا جانور، بغیر کسی وجہ کے کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس کےعلاوہ اگر اسے دور سے کسی انسان یا اجنبی جانو رکی بو محسوس ہو تو بھی حملہ کر دیتا ہے۔ گھنے جنگل یا لمبی گھاس میں یہ گینڈا بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ خود مجھے ایک بار گینڈے کے تازہ گوبر سے ان کی موجودگی کا علم ہوا ہی تھا کہ دو گینڈوں نے حملہ کر دیا۔ شکر ہے کہ کوئی خاتون ہمراہ نہ تھی اور میرے ساتھ صرف حمران عرب تھے۔ تین بار سیٹی نما آواز آئی اور پوری رفتار سے دوڑتے ہوئے دو گینڈے ہماری جانب آئے اور ہم سب بھاگ کھڑے ہوئے۔
ہمارے ساتھ اگر کوئی خاتون ہوتی تو اس کا بچنا محال تھا۔ جب ہم کچھ دیر بعد گینڈوں کی نظروں سے اوجھل ہوئے تو انہوں نے ہمار اپیچھا چھوڑ دیا۔ سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے تو پتھروں پر گرنے اور خاردار جھاڑیوں سے الجھنے کی وجہ سے سبھی کا حال خراب تھا۔
سرخ چھال والے مموسا کے آس پاس گینڈے کی موجودگی یقینی ہوتی ہے کہ یہ ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس کی ٹہنیوں کو غور سے دیکھیں۔ اگر وہ کتری ہوئی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ گینڈا اسے کھا رہا تھا۔ عموماً یہ ایک ہی سیدھ میں کتری ہوئی ہوتی ہیں۔ گینڈے کی موجودگی کی دوسری علامت کسی بڑے درخت کے تنے کے پاس اس کے گوبر کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ گینڈے کی یہ عجیب عادت ہے کہ وہ ایک ہی جگہ بار بار گوبر کرنے آتا ہے۔ اسی عادت کی وجہ سے گینڈا مقامی شکاریوں کے پھندے میں پھنس جاتا ہے۔
مقامی شکاری پھندے کے لیے ایک گول سوراخ بناتے ہیں۔ جب یہ مکمل ہو جائے تو اس پر پتلے بانس کے چپٹے ٹکڑے ایسے رکھے جاتے ہیں کہ جالی سی بن جاتی ہے۔ جب آپ اس میں ہاتھ ڈالیں گے تو ہاتھ اندر چلا جائے گا باہر نہیں نکل پائے گا۔ تاہم اگر کوئی جانور اس پر چلے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس لیےرسی کا ایک پھندہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ بہت مضبوط رسی ہوتی ہے اور اس کا ایک سرا دو یا تین سو پاؤنڈ وزنی درخت کے تنے سے باندھ دیا جاتا ہے۔ رسی اور تنا زمین میں تھوڑی گہرائی پر دفن ہوتے ہیں۔ پھر اس پرگینڈے کا گوبر پھیلا دیا جاتا ہے تاکہ اسے شک نہ ہو۔
دیگر جانوروں کی مانند گینڈا بھی زمین کو اگلے پیر سے کھرچتا ہے اور اس طرح جب رات کو وہ فراغت کے لیے آتا ہے تو پھندے میں پھنس جاتا ہے۔اس کا پیر جونہی اس جالی سے گزرتا ہے تو اس کا پیر پھندے میں پھنس جاتا ہے۔
جونہی گینڈے کو شک ہو کہ اس کا پیر کسی پھندے میں آ گیا ہے تو وہ دوڑ لگاتا ہے اور پھندا سخت ہو جاتا ہے۔ جب وہ جھٹکا دیتا ہے تو دفن شدہ تنا نکل آتا ہے۔گینڈا دہشت زدہ ہو کر فرار ہوتا ہے تو بھاری تنا اس کے پیچھے گھسٹنے لگتا ہے۔ اگلی صبح گینڈے کا پیچھا تنے کے نشانات کی وجہ سے آسان ہو جاتا ہے۔ جب تنا زمین پر گھسٹتا ہے تو بے شمار چیزوں سے الجھتا جاتا ہے اور گینڈا تھکنے لگتا ہے۔ آخرکار تھکن کی وجہ سے گینڈا دم لینے کو رک جاتا ہے۔ اکثر جب شکاری اسے تلاش کرتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی درخت کے ساتھ پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ شکاری اسے نیزے سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور کم ہی نیزے اس کی کھال کے پار ہوتے ہیں۔ جب گینڈا پوری طرح مشتعل ہو جائے اور رسی کو توڑ ڈالے تو پھر مہلک حادثات ہوتے ہیں۔
ایک بار خرطوم میں گینڈے کا ایک سینگ سفید نیل سے لایا گیا تھا جو مقامی غلام بنانے والی کمپنی کی ملکیت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مغرب کے کسی دور افتادہ مقام سے آیا تھا جو جھیل چاڈ کے قریب کہیں واقع تھا۔ یہ کسی عجیب قسم کے گینڈے کا سینگ تھا کہ اس کی لمبائی تین فٹ تھی اور انتہائی موٹا تھا۔ میرے علم میں کسی اور گینڈے کا سینگ اتنا بڑا نہیں۔ میں نے ۲۳ انچ سے زیادہ لمبا سینگ کبھی کسی مقامی یا غیر ملکی کے پاس نہیں دیکھا۔
اباسینیہ کے سرحدی قصبے گلابٹ میں اس کی کافی مانگ تھی۔ مقامی سردار اس سے اپنی تلوار کا دستہ بنواتے تھے۔ ۱۸۶۱ میں ایک پاؤنڈ سینگ کی قیمت ایک ڈالر تھی۔
گینڈے کی کھال بہت سخت اور بھاری ہوتی ہے۔ جب اسے خشک کیا جائے تو ریگمال سے اس کی چھلائی کی جاتی ہے اور پھر تیل لگاتے ہیں۔ اس طرح یہ کھال نیم شفاف ہو جاتی ہے اور مقامی لوگ اس سے بہترین اور خوبصورت ڈھال بناتے ہیں۔ اس طرح کی کھال اگر ۵۸۷ مربع انچ ہو تو اس کا وزن ۱۳۱ پاؤنڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔تاہم تازہ کھال اس سے دو گنا بھاری ہوتی ہے۔
سوڈان کے عرب گینڈے کا گوشت کھاتے ہیں مگر مقامی قبائل اسے پسند نہیں کرتے۔ مقامی قبائل کا خیال ہے کہ عرب تو لگڑبگڑ ہوتے ہیں جو مگرمچھ کو بھی کھا جاتے ہیں۔ تاہم مقامی افراد کو اس کا گوشت اس لیے پسند نہیں کہ گینڈے کا خون دیگر جانوروں سے فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ کا ہاتھ گینڈے کے خون سے سن جائے اور آپ چند لمحے کو مٹھی بند کریں تو پھر مٹھی کھولنا مشکل ہو جاتا ہے۔
میں نے کم عمر گینڈے کا گوشت کھایا اور اس کا ذائقہ بچھڑے جیسا ہوتا ہے۔ تاہم کوئی بھی جانور جب ابھی بچہ ہو، اس کا ذائقہ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی دلچسپ واقعہ تھا۔ میں اباسینیہ سے نیل میں گرنے والے نالوں کی مہم جوئی اور شکار میں مصروف تھا اور اتبارہ اور ستیتی دریاؤں کے معائنے کے بعد مک نمر کی حد میں داخل ہو گیا۔ یہ لوگ مصریوں کےساتھ حالتِ جنگ میں تھے۔ پہلے روزکا سفر ہمیں دریائے سلام اور انگرب کی طرف لے آیا اور ان کے سنگم پر پہنچ کر میں دریا کے ساتھ جا رہا تھا کہ ہمیں گینڈوں کے پیروں کے نشانات ملے۔ میں نے دو اونٹ پیچھے چھوڑ دیے اور ان پر رسیاں بھی تھیں کہ میں ہمیشہ شکار شدہ جانور کو لادنے اور لے جانے کے لیے تیار ہو کر نکلتا ہوں۔
ہم چھدرے جنگل میں زیادہ دور نہ گئے تھے کہ ہمیں ایک پہاڑی دکھائی دی۔ اس جگہ کافی ٹول پڑے تھے اور اچانک میرے عرب ساتھی نے میرے کندھے کو چھو کر ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا جو عین اسی لمحے گینڈا بن کر اٹھ کھڑا ہوا۔ شاید اسے ہماری بو آ گئی ہوگی۔ میں نے دس بور کی رائفل سے اس کے شانے پر گولی چلائی اور دو چکر کاٹنے کے بعد اس نے سیٹی نما آواز نکالی اور گر کر مر گیا۔ اب ہمیں دکھائی دیا کہ گینڈے کی دوسری جانب اور ایک اور چھوٹا گینڈے کا بچہ کھڑا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کیوں نہ اس بچے کو زندہ پکڑ لیں کہ ہمارے پاس رسیاں بھی کافی ہیں۔
عربوں نے صاف انکار کر دیا اور بولے کہ اس کے سینگ نکل رہے ہیں اور اس کو پکڑنا بہت خطرناک ہوگا۔
میرا خیال اس سے فرق تھاسو میں نے اونٹ بلوائے اور رسیاں تیار کر لیں۔ پھندے تیار کر کے میں نے تجویز دی کہ سب بھاگ کر اس کی جانب جاتے ہیں اور اس کی ٹانگوں کو پھندوں سے جکڑ لیں گے۔عربوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے کہا کہ زمین مناسب نہیں اور بڑے بڑے پتھر ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر اس بچے نے حملہ کیا تو جان بچانی دشوار ہو جائے گی۔ آخرکار ان عربوں کے سربراہ نے کہا کہ میں پہلے جاؤں اور وہ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئیں گے۔ پھر نور نامی اس سربراہ نے اپنی تلوار نکال کر مجھے دی جو اس کے خاندان میں کئی نسلوں سے چلی آ رہی تھی۔ اس خوبصورت تلوار کا دستہ خالص چاندی سے بنا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ تلوار کو پتھر سے بچاؤں۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ مجھے تلوار نہیں دینا چاہ رہا۔
گینڈے کا بچہ تین فٹ اونچا تھا اور اپنی ماں کی لاش کے ساتھ بے خبر کھڑا تھا۔ جب میں احتیاط کے ساتھ اس کے قریب ہوا تو دیکھا کہ وہ میری توقع سے کہیں بڑا تھا اور عربوں کا قول سچ ثابت ہوا کہ اس کا پکڑنا بہت خطرناک ہوگا۔ جونہی اس نے مجھے دیکھا، فوراً تین سیٹیاں سی بجا کر سیدھا میری جانب لپکا۔
میں نے جست لگائی اور پیچھے ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں ہو گیا۔ گینڈا مجھ سے تین فٹ کے فاصلے پر پہنچ کر اچانک رک گیا۔ اگر وہ سیدھا آگے جاتا تو سامنے عرب پھندے لیے تیار کھڑے تھے۔پھر وہ مڑا اور مجھے دیکھ کر الٹے قدموں مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ تاہم میں نے ایک اور جست لگائی اور جست کے دوران ہی میں نے طاہر نور کی خاندانی تلوار سے اس کی گردن پر وار کیا۔ گینڈے کا بچہ وہیں گر کر مر گیا۔ عرب بھاگ کر قریب آئے۔ طاہر نور نے اپنی تلوار احتیاط سے میرے ہاتھ سے لی اور اسے لمبائی کے رخ دیکھا اور پھر گینڈے کی لاش پر صاف کیا۔ پھر اس نے اپنی کلائی سے چند بال کاٹے تاکہ دھار کی تسلی ہو۔ پھر طویل سانس لے کر اس نے ماشاءاللہ کہا اور تلوار کو میان میں ڈال دیا۔
پھر ہم نے گینڈے کے بچے کا معائنہ کیا۔
یہ بچہ کافی بڑا تھا اور اس کی گردن پندرہ انچ موٹی تھی۔ تلوار کی دھار اس کی گردن کے منکوں کے عین وسط سے گزری اور گردن ککڑی کی طرح کٹ گئی۔ صرف گلے کی کچھ کھال بچی تھی جس سے سر اور دھڑ جڑے ہوئے تھے۔
یہ کمال کا وار تھا اور عربوں کو بہت پسند آیا۔ کاش کہ میں ان کی داستان کو پھر سے سن سکوں کہ ہر بار وہ اور ان کی اولاد اس داستان میں مزید حاشیہ آرائی کرتے رہیں گے۔ کچھ ہی عرصے بعد گینڈے کے بچے کی جگہ پورا جوان گینڈا آ جائے گا اور یہ داستان دلچسپ تر ہوتی جائے گی۔
ہم نے بچے کی لاش کے پیٹ کو چاک کر کے صاف کیا اور پھر چھ بندوں نے مل کر بمشکل اسے اونٹ پر لادا۔ پھر ہم نے اس کی ماں کی کھال کو اتارا اور بچے کو کیمپ لے کر روانہ ہو گئے۔ طاہر نور میری بیوی کو اپنی تلوار اور اس سے شکار کیے گئے گینڈے کے بچے کی لاش خود دکھانا چاہتا تھا۔
جب ہم کیمپ پہنچے تو بڑی تعداد میں مقامی شکاری موجود تھے جو گوشت چاہ رہے تھے۔
میرے ساتھیوں نے بتایا کہ تمہیں گوشت چاہیے تو محض بیس منٹ کی مسافت پر پورا گینڈا پڑا ہے جس کی کھال ہم نے ابھی اتاری ہے۔ ابھی گدھ وہیں جمع ہونا شروع ہوئے ہیں۔ مقامی شکاریوں نے مایوسی سے کہا کہ گدھ جمع ہو رہے ہیں تو ان کے جانے تک لاش صاف ہو چکی ہوگی۔ میرے ساتھیوں نے اصرار کیا کہ باتیں کرنے کی بجائے جلدی وہاں پہنچو تو شاید گوشت مل بھی جائے۔ بیس شکاری بھاگ پڑے۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ان کی واپسی ہوئی اور وہ بتا رہے تھے کہ ان کے جانے سے قبل ہی گدھ پوری لاش ہڑپ کر چکے تھے اور محض ہڈیاں باقی تھیں۔
گینڈے سے زیادہ آسانی سے کسی اور جانور کی کھال نہیں اترتی۔ گولی لگنے کے بعد جونہی گینڈا مرتا ہے تو عرب شکاری اس کے جسم کو ہاتھوں سے ماپتے ہیں۔ گینڈے کی کھال سے عموماً آٹھ مربع ٹکڑے نکلتے ہیں اور ہر ایک ٹکڑے سے دو مربع فٹ یا اس سے زیادہ کی ڈھال بن سکتی ہے۔ جب کھال اتارنے کے عمل کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کھال جیسے محض چپکی ہوئی ہو۔ ذرا سا مٹھی بند کر کے گھسائی جائے تو کھال الگ ہو جاتی ہے۔ مندرجہ بالا آٹھ ٹکڑے ۲ ڈالر فی ٹکڑے کے حساب سے بکتے ہیں سو گینڈے کی کھال عرب شکاریوں کے لیے کافی منافع بخش ہوتی ہے۔
جب کسی بڑے جانور کی کھال اتری ہو تو گدھ بہت تیزی سے اسے کھا جاتے ہیں۔ اگر بھینسا مرے تو اس کی کھال بہت موٹی ہوتی ہے اور گِدھ محض آنکھوں اور دم کے نیچے ہی سوراخ کر سکتے ہیں۔ تاہم جب جانور سڑنے لگے تو پھر ان کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر کھال اتری ہوئی ہو تو جنگلی بھینسے کی لاش نصف گھنٹے سے بھی کہیں کم وقت میں صاف ہو جاتی ہے۔ اباسینیہ کے اس علاقے میں دنیا کے کسی دوسرے علاقے کی نسبت زیادہ گِدھ پائے جاتے ہیں۔
بہت برس قبل فیلڈ میں دلچسپ اور طویل بحث چھڑی رہی تھی کہ گِدھوں کو ان کی خوراک قوتِ شامہ سے ملتی ہے یا قوتِ باصرہ سے۔ ظاہ رہے کہ ایک فریق نے قوتِ باصرہ کے حق میں دلائل دیے تو دوسرے فریق نے قوتِ شامہ کے حق میں۔
عقلِ سلیم سے پتہ چلتا ہے کہ اتنی اونچائی پر اڑنے والا پرندہ جو بغیر دوربین کے اکثر اوقات دکھائی بھی نہیں دیتا، اتنی اونچائی پر بلاوجہ تو نہیں جاتا ہوگا کیونکہ اونچائی پر تو کوئی خوراک دستیاب نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ وہ نیچے زمین پر موجود شکار کو دیکھنے کے لیے اونچائی پر جاتا ہے۔ اگر گِدھ قوتِ شامہ سے کام لینا چاہے تو بلندی جوں جوں بڑھتی جائے گی، بو کم ہوتی جائے گی۔ سو قوتِ شامہ کی خاطر تو اسے زمین کے قریب رہنا چاہیے نہ کہ اس سے دور جانا چاہیے۔
میں نے اس بارے بہت بار تجربات کیے ہیں۔
جب کوئی جانور شکار ہو تو اس کی کھال اتارنے سے قبل ہی کوے پہنچ جاتے ہیں۔ پھر چیلیں آتی ہیں۔ دونوں پرندے زمین کی سطح کے قریب رہتے ہیں اوران کی قوتِ شامہ بہت تیز ہوتی ہے پھر بھی انہیں اپنی بصارت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ تیسرا پرندہ سرخ گردن والا چھوٹا گِدھ ہوتا ہے جو بہت اونچائی سے اترتا ہے۔
آپ زمین پر کسی جھاڑی کے نیچے لیٹ کر آسمان کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے آسمان پر ڈھیر ساری مکھیاں اڑ رہی ہوں اور پھر ان کا حجم بڑھتا جاتا ہے اور آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ گِدھ ہیں۔ جس بلندی پر گِدھ ہوتے ہیں، وہ اونچے پہاڑوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ اس بلندی پر پہاڑ پر ابدی برف رہتی ہے۔ آپ آسمان کو دیکھ رہے ہوں گے کہ اچانک زور سے شوک کی آواز آئے گی اور آپ غور کریں گے کہ گنجے گِدھ اپنے پر سمیٹ کر ہزار فٹ کا غوطہ لگاتے ہیں تاکہ کھانے پر جلد از جلد پہنچ سکیں۔
یہ سب پرندے انتہائی بلندی پر انتھک محنت کے ساتھ اڑتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار ہی پر ہلاتے ہیں اور ہوا کی لہر پر تیرتے رہتے ہیں۔ ان کی نظر بہت تیز ہوتی ہے اور جب وہ چھوٹے گِدھوں کو اترتے دیکھتے ہیں تو انہیں علم ہو جاتا ہے کہ نیچے خوراک موجود ہے۔ سو وہ فوراً نیچے کا رخ کرتے ہیں۔ سو کہاوت صادق آتی ہے کہ جہاں مردار ہوگا وہیں گِدھ بھی ہوں گے۔ جہاں گِدھوں کا شکار نہیں کیا جاتا، وہاں ان کی ہمت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔
ایک بار میں نے دیکھا تھا کہ جنگ میں گولیوں اور دھماکوں کے باوجود گِدھ مردہ فوجیوں سے پیٹ بھر رہے ہوتے تھے۔ جب لڑائی میں وقفہ آتا تو مردہ فوجی اٹھائے جاتے۔
چیل کوے کو بھگاتی ہے اور سرخ گردن والا گِدھ چیل کو بھگاتا ہے۔ گنجے گِدھ سرخ گردن والے کو بھگاتے ہیں اور پھر سب سے بڑے گِدھ انہیں بھگا دیتے ہیں۔
جب بڑے گِدھ آتے ہیں تو باقی سب پرندے اس کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کی بڑی چونچ ظالمانہ طور پر سب کو ٹھونگے مارتی ہے۔ اس گِدھ کے گلے سے پانی کی تھیلی لٹکی ہوتی ہے اور یہ سب سے اونچا اڑتا ہے اور سب سے آخر پر پہنچتا ہے کہ اسے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب پرندے اپنی بصارت سے خوراک تلاش کرتے ہیں۔
شکار کے جانوروں سے بھرے ہوئے علاقے میں اس بات کا تجربہ آسانی ہو سکتا ہے۔ جب خشک موسم میں گھاس کو آگ لگائی جاتی ہے تو کوئی پرندہ نہیں دکھائی دے رہا ہوتا۔ جوں جوں دھوئیں کے سیاہ بادل اٹھتے جاتے ہیں، ہر طرف بیک وقت پرندوں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ چیل، مکھی خور اور تلور (جو کہ عام حالات میں کافی نایاب سمجھی جاتی ہے)، فضا میں نمودار ہوتے ہیں اور آگے سے بچنے کے کی کوشش میں مصروف ٹڈیوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کو کھانا شروع کر دیتے ہیں۔
گینڈے کا ساتھی پرندہ جو اسے کسی بھی خطرے سے آگاہ کرتا ہے، محض گینڈوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ جنگلی بھینسوں کے بدن سے بھی ضرر رساں حشرات کھاتا ہے۔ انگلستان میں تلیئر مویشیوں کے جسم سے پسو اور کیڑے تلاش کر کے کھاتے ہیں۔ یہ پرندے بطورِ خاص خطرے کا احساس نہیں دلاتے بلکہ اپنا پیٹ بھرتے ہوئے جب انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہےتو شور کرتے ہیں اور شور کی وجہ سے مطلوبہ جانور بھی خبردار ہو جاتے ہیں۔
ہندوستانی گینڈے کے ساتھ میرا واسطہ نہیں پڑا اور اس کی کھال بہت موٹی ہوتی ہے۔ اس کی عادات اور خصائل افریقی گینڈے سے مماثل ہوتی ہیں اور ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی گینڈ دلدلی علاقے کا شائق ہوتا ہے۔
میں نے افریقہ میں کبھی گینڈے دلدلی علاقے کے پاس نہیں دیکھے بلکہ وہ ہمیشہ خشک اور بلند علاقوں پر رہتے ہیں۔ ان کے مسکن میں پہاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں یا پھر دریا سے کچھ دور جنگل۔ ان کے پانی پینے کے اوقات مخصوص ہوتے ہیں اور عموماً غروبِ آفتاب کے ایک گھنٹے بعد پانی پینے آتے ہیں اور پھر کئی میل دور واپس لوٹ جاتے ہیں۔
مادہ کیٹلوا کا سینگ نر سے زیادہ لمبا ہوتا ہے مگر نسبتاً پتلا۔ نر اپنے سینگ پتھر اور درختوں کے تنوں پر رگڑ کر تیز کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جسامت گھٹ جاتی ہے۔
مادہ ایک وقت میں صرف ایک بچہ پیدا کرتی ہے اور اس بدصورت بچے کو ماں پوری توجہ اور حفاظت سے پالتی ہے۔ چند ہی ہفتوں میں یہ بچہ بہت طاقتور اور متحرک ہو جاتا ہے اور اچھی خاصی رفتار سے ماں کے ساتھ ہر جگہ آتا جاتا ہے۔ حمران عرب دو سے چار ماہ کی عمر کے بچے کو پکڑنے کے لیے اس کی ماں کا پیچھا کرتے ہیں اور پھر اسے اتنا تنگ کرتے ہیں کہ یہ ہلکان ہو جاتا ہے اور آسانی سے پکڑا جاتا ہے۔
گینڈے کی جسامت بہت بڑی ہونے کے باوجود اس کی تیز رفتاری دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور یہ رفتار طویل فاصلے تک برقرار رہتی ہے۔
میں نے حمران عربوں کے ساتھ ایسا شکار کھیلا ہے اور کم از کم دو میل تک ہمارے گھوڑے اپنی پوری رفتار سے گینڈے کا پیچھا کرتے رہے تھے مگر کبھی اس سے آگے نہ نکل پائے۔ گینڈے کی پچھلی ٹانگوں کی ساخت اس کی رفتار میں معاون ہوتی ہے۔ کولہے سے گھٹنے تک ٹانگ بہت لمبی ہوتی ہے اور جست لگانے کی صلاحیت عطا کرتی ہے اور وزن اور جسامت کے باوجود ان کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔
میدانی علاقے میں جہاں جھاڑیاں یا پتھر نہ ہوں، اچھا گھوڑا کچھ ہی دیر میں کالے گینڈے سے آگے نکل جاتا ہے مگر ایسی مناسب جگہ پر گینڈا شاید ہی کبھی دکھائی دے۔ اس کی طاقت اور تین انگلیوں والے سم کی وجہ سے دشوار مقام پر بھی اس کی تیز رفتاری اور قوتِ برداشت بہترین گھوڑے کو بھی مات کرتی ہے۔
گینڈے کے شکار میں کافی خطرہ ہوتا ہے کہ اس کے حملے کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے دو سینگوں کی وجہ سے دماغ میں گولی نہیں ماری جا سکتی کہ گولی سینگ سے ٹکرا کر نشانے سے ہٹ جائے گی۔ اگر آپ ذرا سا پہلو کی جانب ہوں تو پھر اس کی آنکھ کے آگے سے اس کے ننھے سے دماغ کی طرف سیدھی لکیر جاتی ہے جو مہلک ثابت ہوتی ہے۔ تاہم ایسا نشانہ کم ہی لگانے کو ملتا ہے۔ کھوپڑی کی ہڈی کسی بھی دوسرے جانور سے زیادہ سخت ہوتی ہے اور ایک بار ۱۰ بور کی گولی اس کی کنپٹی پر لگی مگر اندر نہ جا پائی۔ گینڈا بے ہوش ہو کر گر تو پڑا مگر جلد ہی کھڑا ہوا اور نیم بے ہوشی کی کیفیت میں میرے پاس سے بھاگتا ہوا گزرا۔ اس کے قریب دوڑتے ہوئے میں نے شانے کے پیچھے دوسری نالی کی گولی اتار دی اور گینڈا وہیں مر گیا۔
اُس وقت مجھے علم نہ تھا کہ دس بور کی گولی اس کی کھوپڑی میں داخل نہیں ہوئی، مگر بعد میں دیکھا تو وہ گولی اس کے نچلے جبڑے کے جوڑ میں پھنسی ہوئی تھی اور کھوپڑی میں معمولی سی دراڑ تو پڑی مگر گولی اندر نہ جا پائی۔
ایک دوسرے موقعے پر میں ایک نر گینڈے کا پیچھا کر رہا تھا جو کچھ فاصلے پر تھا۔ جب وہ ایک اونچائی والی جگہ کے پیچھے گم ہوا تو میں نے بھاگ کر فاصلہ طے کیا اور گینڈا بیس گز دور جھاڑیوں میں کھڑا مل گیا۔ اس جگہ بھورے رنگ کے کئی بڑے پتھر پڑے تھے اور میں نے ایک پتھر کے پیچھے گھٹنا زمین پر ٹیک کر گینڈے کے شانے پر گولی چلائی۔ وہیں گرنے کی بجائے گینڈے نے سیدھا میری جانب رخ کیا اور بارود کے دھوئیں کو دیکھتے ہی اس پر حملہ آور ہو گیا۔ تیز ہوا کی وجہ سے دھواں دائیں جانب منتقل ہو گیا تھا سو گینڈا میرے قریب سے گزرا۔ اس دوران میں نے دس بور کی پارے اور سیسے سے بنی گولی اس کے شانے میں اتار دی جو اس کے پار ہو گئی۔ تھوڑی دیر لڑکھڑانے کے بعد گینڈے نے تین سیٹی نما آوازیں نکالیں اور گر کر مر گیا۔ اس کی آواز اس کی بھاری جسامت سے میل نہیں کھاتی۔
اس سے ثابت ہوا کہ موٹی کھال والے جانور پر خالص سیسے کی گولی بیکار ہوتی ہے اور سخت گولی ہی استعمال کرنی چاہیے۔
گینڈے کا شکار خطرناک تو ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ حادثات وابستہ نہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کم شکاری اس کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
کسی بھی جنگلی جانور کا سامنا کرنے پر خطرہ کتنا لاحق ہو سکتا ہے، اس بارے کوئی لگا بندھا اصول نہیں۔ ہر جانور دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کالا گینڈا عموماً سب سے خطرناک اور بڑے سفید گینڈے کو بے ضرر مانا جاتا ہے۔ تاہم شکار میں پایا جانے والا غیر یقینی کا عنصر ہی شکاری کو اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ایک دوست کو پیش آیا جس کے بارے میں لکھتا ہوں تاکہ آپ کو بھی شکار میں غیر متوقع عوامل کا اندازہ ہو۔
جنوبی افریقہ میں جانے والے اولین شکاریوں میں اوسویل کا نام مشہور ہے۔ اُن دنوں مشہور گورڈن گمنگ بھی یہاں نئے شکاریوں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہا تھا۔ اوسویل سے زیادہ اچھا شکاری یا بہترین انسان شاید کبھی افریقہ نہیں پہنچا۔ شکار اور مہم جوئی سے اس کے بے پناہ شغف نے اسے افریقہ میں جا پہنچایا جہاں لگ بھگ سارا علاقہ ہی انجان تھا۔ اس نے سب سے پہلے لیونگ سٹون کے وجود کے بارے دنیا کو بتایا اور پھر اوسویل اور مرے ایک نئی جھیل دریافت کرنے کے بعد لیونگ سٹون کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس کی پسندیدہ بندوق دس بور کی تھی جو پرڈی نے بنائی تھی۔ اس پر نشانے کے لیے شست رائفل کی طرح بنائی گئی تھیں۔ اس کا وزن ۱۰ پاؤنڈ تھا اور بہترین ہتھیار تھی۔ جب میں پہلی بار ۱۸۶۱ میں افریقہ گیا تو اس نے اپنی بندوق مجھے عاریتاً دے دی تھی اور میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ بہترین ہتھیار تھی۔ گھوڑے پر اسے لٹکائے ہوئے جب اوسویل خاردار جھاڑیوں سے گزرتا ہوگا تو کانٹے لگتے ہوں گے اور اخروٹ کی لکڑی کا دستہ ایک انچ جتنا گھس گیا تھا۔ دستہ ایسے لگتا تھا جیسے چوہوں نے کترا ہو۔
پہلی بار اوسویل جب پہنچا تو یہاں جنگلی جانوروں کی تعداد شمار سے باہر تھی اور جوں جوں تہذیب اور آبادکاری ہوتی گئی، جنگلی جانور اسی اعتبار سے گھٹتے گئے۔ ایک جگہ تو اتنے گینڈے تھے کہ اوسویل ان کا شکار کرتے کرتے تھک گیا اور محض انتہائی بڑے سینگ والے گینڈے کو ہی شکار کرتا۔ ایک بار وہ اپنے بہترین گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ اسے ایک بڑا سفید گینڈا دکھائی دیا جس کا سینگ بہت بڑا تھا۔
اوسویل نے فوراً اس کا رخ کیا اور گینڈے نے توجہ نہ دی۔ سو گز پر پہنچ کر گینڈے نے اس پر توجہ دی۔ چونکہ سفید گینڈا خطرناک نہیں سمجھا جاتا، اس لیے اوسویل سکون سے اس کے قریب ہوتا گیا۔ یہ تو مجھے یاد نہیں کہ آیا اس نے گولی چلائی تھی یا نہیں، مگر یہ یاد ہے کہ گینڈے نے گھوڑے کی طرف رخ کیا اور پھر آہستگی سے اس کی جانب چلنے لگا۔ کسی بھیانک خواب کی مانند گینڈا قدم بقدم بڑھتا آیا۔ ماتھے پر گولی چلانا بیکار تھا، سو اوسویل نے ایک جانب ہونے کی کوشش کی تاکہ گینڈے کے شانے پر گولی چلا سکے۔ اس کا گھوڑا ایسی سینکڑوں مہمات سے سرخرو ہوا تھا مگر اس بار جیسے اس پر کوئی جادو ہو گیا ہو۔ گھوڑے کو ایڑ اور چابک بھی ہلنے پر مجبور نہ کر سکے۔ جیسے گھوڑے کو اپنی موت کا یقین ہو گیا ہو۔ چند قدم کے فاصلے پر پہنچ کر گینڈے نے حملہ کر دیا۔
اوسویل کو جب ہوش آیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہے اور اس کے ساتھی اس کو دونوں جانب سے سہارا دیے جا رہے ہیں۔ زین گھوڑے کے سر کے اوپر ڈال دی گئی تھی۔ اسے سارا منظر کسی خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ اسے یقین ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ اسے درد تو نہیں محسوس ہو رہا تھا سو اس نے ہاتھ سے اپنا جسم ٹٹولنا شروع کیا تو ایک ران پر کچھ نم اور نرم سا محسوس ہوا۔
اصل میں گینڈے کا سینگ اس کی ران سے ہو کر زین اور پھر گھوڑے کے پہلو سے ہوتا ہوا دوسرے پہلو سے نکلا اور زین کے نیچے رک گیا۔ پھر گینڈے نے گھوڑے اور سوار، دونوں کو آسانی سے اٹھا کر پھینکا۔
گھوڑا موقعے پر ہی مر گیا تھا مگر اس کے ساتھیوں نے آ کر اس کی جان بچائی اور اسے گھوڑے پر ڈال کر کیمپ لے آئے جہاں کئی ماہ تک صاحبِ فراش رہنے کے بعد اس کے زخم مندمل ہوئے۔
اوسویل نے بہت برس قبل مجھے یہ واقعہ سنایا تھا اور میرا خیال ہے کہ میں نے مِن و عَن لکھا ہے۔
واضح رہے کہ یہ بے ضرر گینڈے کا واقعہ تھا۔ اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ کوئی بھی جنگلی جانور بے ضرر نہیں ہوتا۔ بعض اوقات بہت خطرناک جانور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بعض اوقات بے ضرر جانور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۱۷
جنگلی سور
جنگلی درندے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے جانوروں کا شکار کرتے ہیں اور اگر انہیں اشتعال نہ دلایا جائے یا اگر لڑائی کا موقع نہ دیا جائے تو وہ انسان کو شاذ ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔
جنگلی بھینسے کے بارے ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ضدی اور طاقتور دشمن ثابت ہوتا ہے اور جب لڑائی شروع کرتا ہے تو اس کے اختتام تک نہیں رکتا۔ تاہم جنگلی سور دیگر تمام جانوروں سے ممتاز ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی جنگلی جانور ایسا نہیں جو لگ بھگ ہر قسم کے ماحول اور موسم میں پایا جاتا ہو۔ پالتو بننے کے بعد ان کی بے شمار اقسام بن گئی ہیں مگر یورپ اور ایشیا کے جنگلی سور میں نہ ہونے کے برابر فرق پایا جاتا ہے۔ مقامات اور خوراک کی کثرت یا قلت سے اس کی جسامت پر فرق پڑتا ہے مگر یورپ اور ایشیا کوچک کے سور کی تصاویر لے کر ملائی جائیں تو دونوں میں نہ ہونے کے برابر فرق ملے گا۔ ہندوستان اور سائیلون میں ان کی شکل و صورت ایک جیسی ہوتی ہے مگر ان کی جسامت، بالوں کی طوالت وغیرہ موسم کی مناسبت سے فرق ہوتی ہیں۔ سرد علاقوں میں بالوں کی تہہ موٹی اور لمبی ہوتی ہےجبکہ باقی ہر اعتبار سے یکساں ہوتے ہیں۔ کوئی ایسی خاصیت نہیں ملتی جو ان کو ایک سے زیادہ نسلوں میں بانٹ سکے۔
سور کو ہمہ خور گردانا جاتا ہے اور اس کے دانت ہر قسم کی خوراک اور حملے کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔بعض اوقات ان کے مولر کی تعداد فرق ہو سکتی ہے مگر عام طور پر ان کے ہر جبڑے میں ۲۸ مولر اور ۶ کترنے والے دانت ہوتے ہیں۔ بڑا دانت بہت بڑا اور الٹا مڑا ہوا ہوتا ہے اور نچلے جبڑے کی ہڈی سے ٹکراتے رہنے کی وجہ سے تیز دھار ہوتا ہے۔ اچھے سور کے دانتوں کی لمبائی ۱۰ انچ ہوتی ہے اور اس کا پانچ انچ حصہ باہر نکلا ہوتا ہے اور پانچ انچ مسوڑھے کے اندر۔ اتنے چھوٹے سے دانتوں سے بھی سور کاری زخم لگا سکتا ہے۔
جنگلی سور کو زمانہ قدیم سے شکار میں کامیابی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور ددیومالائی وینس کے محبوب کی موت اس کی کچلیوں سے ہوئی تھی۔ مقدونیہ کے جنگلی سور کو تمام تر جنگلی جانوروں سے زیادہ خطرناک مانا جاتا تھا۔ آج بھی سور سے زیادہ بہادر اور ہمت والا جانور اور کوئی نہیں۔
کسی دوسرے جانو رکی نسبست اس کا شکار زیادہ محنت طلب ہے۔ اس کا شکار مقام کی مناسبت سے کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔جنگلات میں شکاری کتوں کے ساتھ پیدل اس کا شکار کیا جاتا ہے اور جب کتے اسے گھیر لیں تو شکاری چاقو یا نیزے سے مارا جا سکتا ہے۔ میں نے ہمیشہ شکاری چاقو سے اسے مارا ہے۔
ایسے کھلے مقامات جہاں گھڑ سواری ممکن ہو، اس کا شکا رنیزے سے کرنا شکار کی افضل ترین قسم ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے اس قسم کے شکار کا بہت کم تجربہ ہوا ہے کہ جہاں میں نے اس کا شکار کھیلا ہے، وہاں میدانی علاقہ کم ہی ہوتا تھا۔ تاہم شکاری کتوں کے ساتھ اس کا شکار بہت برسوں تک کرتا رہا ہوں۔
گھنے جنگل میں جنگلی سور جب تک زخمی نہ ہو، اس کا شکار بندوق یا رائفل سے بہت آسان ہوتا ہے۔ یہ بہت عجیب جانور ہوتا ہے۔
جنگلی سور بہت خطرناک دشمن کے علاوہ ذہین اور سوچ رکھنے والا جانور ہے۔ جب یہ کسی کام کا سوچ لے تو پھر کبھی نہیں ہچکچاتا۔ اگر سور نے پیش قدمی کا فیصلہ کیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں بھیج سکتی۔ اگر وہ ہانکے والوں کی قطار توڑ کر بھاگنے کا فیصلہ کرے تو چاہے سو ہاتھیوں کی قطار ہی کیوں نہ ہو، یہ نکل جائے گا۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ اپنے سر کو دائیں بائیں گھماتا جاتا ہے اور ہاتھیوں کی ٹانگوں پر اپنی کچلیوں کے نشانات چھوڑتا جاتا ہے۔
جب تک لوگ سور کے ساتھ نہ دوڑ لیں، انہیں سور کی رفتار کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ اس کے پیر عجیب شاخت کے ہوتے ہیں اور ہر پیر کی محض دو انگلیاں نیچے لگتی ہیں۔ باقی دو انگلیاں زمین کو تب چھوتی ہیں جب زمین نرم ہو۔ تاہم نرم مٹی پر اس سے اضافی مدد ملتی ہے۔
چاہے زمین جیسی بھی ہو، جنگلی سور بھاگتے ہوئے کوئی غلطی نہیں کرتا۔ ایشیائے کوچک کے پہاڑوں پر گہری برف میں ان کے طویل سفر کے نشانات دیکھے ہیں۔
اس کی قوتِ شامہ بہت تیز ہوتی ہے اور جب سور کو آپ کی موجودگی کا علم نہ ہو تو اس کا مشاہدہ دلچسپ ہوتا ہے۔
میں نے سور کو بہت مرتبہ اپنی کمین گاہ کی طرف آتے دیکھا ہے اور جب کسی راستے پر اسے انسانی بو محسوس ہو تو فوراً رک جاتا ہے اور بغور سونگھتا اور آواز سننے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا یا پییچھے ہٹنے کا، اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ جب ہانکے والوں کا شور آتا ہے تو سور کسی گھنی جھاڑی میں چھپ جاتا ہے۔ ہانکے والوں کے شور سے میلوں تک جانور بھاگ گئے ہوں گے مگر سور وہیں ہے اور ہانکے والوں کو اس کا علم نہیں۔ ہانکے والے جنگل کے کنارے پر پہنچ کر قطار منظم کرتے ہیں اور اسی دوران اچانک بھگدڑ مچتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ سور قطار توڑ کر بھاگ گیا ہے۔
سور کی افزائشِ نسل اتنی تیزی سے ہوتی ہے کہ بعض ممالک میں تو اسے ضرر رساں سمجھا جاتا ہے۔ سفر کرتے ہوئے اس کی رفتار ۵ سے ۶ میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یہ رفتار بہت فاصلے تک یکساں رہتی ہے۔ جہاں جنگلی جانوروں کا دور دور تک نشان نہ ہو تو بھی کسان اپنی فصل کو سوروں سے بچانے کے لیے رات کھیتوں کے پاس گزارتے ہیں۔ چھ یا سات میل دور پہاڑی جنگل سے سور نکل کر کھیتوں میں چرنے آتے ہیں اور بعض اوقات یہ فاصلہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ سورج نکلنے سے قبل ہی سور واپس اپنے مسکن کو لوٹ جاتے ہیں۔ جنگلی سور کی طاقت اور پھرتی کی عمدہ مثال اس کے بچوں سے ملتی ہے جو اپنی ماوں کے نقشِ قدم پر ان کے ساتھ ہر طرف جاتے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔
عام طور پر سور مل جل کر رہنے کے شائق ہوتے ہیں اور ہندوستان میں بیس سے تیس سور عام طور پر ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ سائیلون میں ان کی تعداد کئی سو تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ میں نے اتنی تعداد میں سور دنیا کے کسی اور مقام پر نہیں دیکھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سائیلون میں سارا سال غذا دستیاب رہتی ہے اور پانی بھی بکثرت ہے۔ جڑیں، سانپ، مردار اور ہر قسم کی خوراک جو سور کو پسند ہو، بہ آسانی ملتی ہے۔ سائیلون کو سور کی بہشت کہا جا سکتا ہے۔
شمالی افریقہ کے جنگلی سور یورپ جیسے ہی ہوتے ہیں مگر وسطی افریقہ اور جنوبی افریقہ کے کچھ حصوں میں ایک اور قسم بھی ملتی ہے جسے وارتھوگ کہتے ہیں۔ یہ جانور انتہائی بدصورت ہوتا ہے اور دھڑ کی نسبت اس کا سر اتنا بڑا ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی بہت بڑے جانور کا سر ہو۔ اس کی آنکھوں کے نیچے دو ابھار ہوتے ہیں اور دو بڑے مسے بھی پائے جاتے ہیں جو اس کی شکل کو انتہائی بدصورت بنا دیتے ہیں ۔جب یہ ہیجان میں مبتلا ہو تو اس کی پتلی دم سیدھی ہو جاتی ہے اور بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی دم لکڑی کی مانند سخت اور بالکل اوپر کو اٹھ جاتی ہے اور یہ بہت مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔
وارتھوگ کی جسامت کبھی بھی یورپی اور ایشیائی جنگلی سور کے برابر نہیں ہوتی اور پیٹ چاک کر کے آلائشیں نکالنے کے بعد اس کا وزن ۱۷۰ پاؤنڈ رہ جاتا ہے۔
ہاتھی کی مانند اس کے دانتوں کی ساخت عجیب ہوتی ہے کہ اس کے مولر مستقل اگتے رہتے ہیں۔ اس کے اوپری جبڑے میں دو کاٹنے والے، چھ مولر اور دو کچلیاں ہوتی ہیں۔ نچلے جبرے میں چھ کاٹنے والے، چھ مولر اور دو کچلیاں ہوتی ہیں۔ اس کے مولر دانت بھی عجیب ساخت کے ہوتے ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے سخت مادے سے بنی تین گول سلنڈر نما قطاریں ہوں اور یہ کسی حد تک ہاتھی کے مولر جیسے دکھائی دیتے ہیں۔
مولر کی لمبائی ۲ انچ اور چوڑائی ایک انچ ہوتی ہے۔ نچلی کچلیاں ہونٹ سے چار انچ جتنی باہر ہوتی ہیں جبکہ اوپر والی آٹھ انچ نکلی ہوتی ہیں۔ یہ نچلی کچلیوں سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ان کی دھار تیز رہتی ہے۔ میں نے یہ پیمائشیں اپنے پاس موجود وارتھوگ کی کھوپڑی سے دیکھ کر لکھی ہیں۔ تاہم لمبائی اور موٹائی میں اس سے کافی بڑی کچلیاں بھی عام ملتی ہیں۔
اس کے دانتوں سے لگتا ہے کہ یہ اچھا جنگجو ہوگا مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ان کو گولی مارنے میں مجھے کبھی کوئی دشواری پیش آئی ہو۔ ہاں کتوں کے ساتھ شکار کیا جائے تو شاید مقابلہ سخت ہو۔
یہاں میں نیزے سے سور کے شکار کے بارے کچھ نہیں لکھوں گا کہ جنگلی سور کا نیزے سے شکار ہندوستان میں بہت اہمیت رکھتا ہے مگر میں نے کبھی پیدل رہ کر نیزے سے جنگلی سور کا شکار نہیں کیا۔ کتوں کے ساتھ سائیلون میں جنگلی سور کا پیچھا کر کے میں نے ہمیشہ اسے شکاری چاقو سے ہلاک کیا ہے۔ تاہم کتوں کو ایسے شکار میں اکثر مہلک زخم لگاتا ہے۔
میرا پرانا شکاری چاقو اب میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے کہ اس کی جگہ میں نے دوسرا چاقو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ چاقو دراصل شکار سے زیادہ راستہ بنانے کے لیے اور چھوٹے موٹے درخت کاٹنے کو مدِنظر رکھ کر بنوایا گیا تھا۔ نیا چاقو شکار کی نیت سے ہی بنوایا تھا۔ نیا چاقو چوڑا اور وزنی تھا۔ یہ چاقو میرے لیے پکاڈلی کے مسٹر پیجٹ نے بنایا تھا۔
نیام سمیت اس کا وزن ۳ پاؤنڈ تھا اور نیام کے بغیر ۲ پاؤنڈ۔ اس کا پھل ایک فٹ لمبا اور دو انچ چوڑا تھا اور سرے سے تین انچ پہلے دو دھارا ہو جاتا تھا۔ دستے کے پاس اس کی موٹائی دو انچ تھی۔
یہ چاقو ہمیشہ انتہائی تیز دھار رکھا جاتا تھا اور لکڑی کے کندے پر رکھے سکے کو ایک ہی وار سے دو ٹکڑے کر دیتا تھا اور دھار بھی خراب نہیں ہوتی تھی۔
یہ بہترین چاقو ہر اُس شکار پر میرے ساتھ رہا جہاں بارودی اسلحہ استعمال ہونا ممکن نہیں تھا اور شکاری کتوں اور اس چاقو کی مدد سے شکار کیا جاتا تھا۔ بہت مرتبہ اس سے نر سانبھر، سرخ ہرن، جنگلی سور اور کبھی کبھار مفرور پالتو بھینسے بھی میں نے سائیلون کے اونچے علاقے میں شکار کیے ہیں۔
میں سور کو موٹی کھال والے جانوروں میں گردانتا ہوں، اس لیے ایسے جانوروں کا تذکرہ اس باب میں ختم ہو جائے گا۔ اس چاقو کا تذکرہ بعد میں ہرنوں والے باب میں بھی آئے گا کہ یہ چاقو عین اسی علاقے اور اسی وقت ان کے لیے بھی استعمال ہوا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ ایسا چاقو ماہر چاقو زن کے ہاتھ میں تلوار کی طرح مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بہت بار میں نے نر سانبھر کے حملے کے وقت اس چاقو کی نوک سے اس کے منہ پر وار کر کے اسے روکا ہے اور یہ چاقو سنگین سے زیادہ کارآمد ہے۔
سات سال تک یہ چاقو نیوارا ایلیا میں میرے ساتھ رہا تھا جو سائیلون میں سطح سمندر سے ۶٫۲۰۰ فٹ بلند مقام ہے۔ اُس دور میں بہت بڑا علاقہ میری شکارگاہ تھا اور بدقسمتی سے محض آخری دو سال میں نے شکار شدہ جانوروں کی تفصیلات لکھنا شروع کی تھیں۔ یہ بہت صحت افزا مقام تھا۔ میرے ایک دوست نے مجھے روزنامچہ لکھنے کا مشورہ دیا تھا جو بعد میں کتب لکھنے کے دوران بہت کام آیا۔ میں نے ہر شکار کی مکمل تفصیلات اس روزنامچے میں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ اُس دور میں ہر شکار میں نے پیدل چلتے ہوئے، کتوں اور چاقو کی مدد سے کیا تھا اور اکتوبر ۱۸۵۱ سے مارچ ۱۸۵۴ کے دوران شکار کا یہ عرصہ میرے شکاری دور کا سب سے سنہرا دور تھا۔ ۱۸۵۴ کے مارچ میں مجھے شدید بیماری کی وجہ سے انگلستان واپس لوٹنا پڑا۔ میں نے اس عرصے میں جو جانور شکار کیے، روزنامچے کی رو سے ۱۳۸ سانبھر، ۱۴ جنگلی سور اور ۸ سرخ ہرن شامل تھے۔
اس عرصے میں کچھ وقت میرا بھائی میرے ساتھ رہا اور باقی سارا وقت یا تو میں اکیلا تھا یا پھر مقامی شکاریوں یا کسی دوست کے ہمراہ شکار پر جاتا تھا۔اس دوران میں نے کئی جنگلی جنگلی سور مارے مگر جنگلی سور کا شکار مجھے پسند نہیں تھا کہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتا یا تو سور کے ہاتھوں مر جاتا تھا یا پھر شدید زخمی ہوتا تھا۔
جب شکاری کتے کسی جانور کی بو جنگل میں سونگھ لیں تو پھر انہیں قابو نہیں کیا جا سکتا۔
ایک بار میں نے ایک بڑے جنگلی سور کے تازہ پگ دیکھے۔ میں ہمیشہ اپنے شکاری کتوں کو دو دو کی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیتا ہوں تاکہ وہ بو پر بھاگ نہ کھڑے ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آگے جانے والا شکاری کتا بو سونگھ کر بھونکتا تو سارا غول ہی شور مچاتا ہوا جانور کی تلاش میں بھاگ پڑتا اور میں کچھ بھی نہ کر پاتا۔
جنگلی سور کے پیچھے بھی کتے لگیں تو وہ پہلے سیدھا بھاگتا ہےاور پھر ایک کھائی کےاوپر کا رخ کرے گا اور پھر دوسری سے نیچے اترے گا اور پھر دس منٹ میں ہی کسی ایسی جگہ رک جائے گا جہاں خاردار جھاڑیاں یا گھنے بانسوں کا جھنڈ یا کوئی اور مناسب جگہ ہوگی۔ یہاں وہ کتوں کا سامنا کرے گا اور اس کا عقب اور پہلو حملے سے محفوظ ہوں گے۔
ایسی حالت میں پکڑنے والے شکاری کتوں کو خطرہ ہوتا ہے کہ انہیں سیدھا سور کی کچلیوں کی طرف سے جا کر حملہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ اطراف سے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جب اس طرح گھِر جائے تو پھر جنگلی سور اس وقت حملہ کرتا ہے جب اس کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ ایسی جگہ آپ کو جنگلی سور کی فطرت کی پوری سمجھ ہونی چاہیے۔
ہر مخلوق، چاہے وہ انسان ہو یا کوئی اور جانور، کسی نہ کسی خوبی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور شاید ہی ایسا کوئی بدقسمت جانور ہو جس میں کوئی بھی خوبی نہ پائی جاتی ہو۔ اگر کسی انسان یا جانور میں مطلوبہ خوبی نہ پائی جاتی ہو تو محض تربیت سے آپ اسے ماہر نہیں بنا سکتے۔ ہزاروں لڑکے فوج کی تربیت ایک ہی استاد اور ایک ہی ماحول میں پاتے ہیں مگر ان میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو قابل ترین جنرل بن پائیں؟ صرف وہی جن میں پیدائشی خوبیاں ہوں گی۔
ایسا ہی موسیقی کے حوالے سے ہوتا ہے۔کتنی لڑکیاں موسیقی کی تربیت کو انتہائی بیکار اور بوجھ سمجھتی ہیں، ان کی آواز سننے والوں کے لیے سماعت خراش اور ان کے والدین کے لیے شرمندگی کا سبب ہوتی ہے۔ ان کو جتنی بھی تربیت دی جائے، بیکار رہتی ہے۔ دوسری جانب کوئی لڑکی ایسی بھی نکل آتی ہے کہ اسے انتہائی معمولی سی تربیت بھی فن کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔
ایسا ہی کتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان میں عقلمندی کے مختلف درجے پائے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے احمق پیدا ہوتے ہیں کہ کوئی بھی تربیت انہیں بہتر نہیں بنا سکتی۔ ایک بار میرے پاس ایک پھرتیلا اور بہت خوبصورت سپینئل تھا۔ خوبصورتی کے حوالے سے تو اسے تمغہ ملنا چاہیے تھا۔ مگر اس کی عادات عجیب تھیں۔ جب بھی میں مرغابی شکار کرتا تو یہ کتا فوراً پانی میں اترتا اور مرغابی کو پکڑ کر لاتا۔ تاہم اگر مخالف کنارہ یا کوئی ریت کا ٹیلہ قریب ہوتا تو یہ کتا مرغابی وہاں رکھ کر میرے پاس لوٹ آتا۔ جونہی کوئی مرغابی شکار ہو کر گرتی، یہ سب سے آگے جا کر اسے اٹھاتا اور پھر نزدیک ترین خشک زمین پر اسے رکھ کر چلا آتا۔
یہ سبھی مخلوقات کے ساتھ ہوتا ہے مگر شکاری کتوں کے ساتھ عجیب کام ہوتا ہے۔ یہ شکاری کتے سیزر یعنی شکار کو پکڑنے والے کہلاتے ہیں اور بڑی جسامت کے ہوتے ہیں۔ میرے کتوں کے غول میں خالص نسل کے فاکس ہاؤنڈ، فاکس ہاؤنڈ اور پوائنٹر کے مخلوط، فاکس ہاؤنڈ اور بلڈ ہاؤنڈ کے مخلوط اور چھ بڑے کتے تھے جن میں سکاچ ڈیئر ہاؤنڈ، آسٹریلیا کے کینگرو ہاؤنڈ اور عجیب نسلوں کے کتے بھی شامل تھے۔ ان میں سے اکثر کتے اپنی حماقت سے قبل از وقت مارے گئے۔ بعض کتے طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے اور کسی ماہر شمشیر زن کی طرح وہ اپنے دشمن کا جائزہ لے کر اس پر حملہ آور ہوتے تھے۔
میرے پاس بہت طاقتور اور بہادر کتے بھی تھے اور انہیں شکار کا سلیقہ بھی تھا۔ایسے کتے جب جنگلی سور کی راہ مسدود کر کے کھڑے ہوں تو اس پر کبھی حملہ آور نہیں ہوں گے اور بس اسے روکے رہیں گے۔ مگر اس کا آقا جب حکم دے گا تو نڈر پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیدھے موت کے منہ میں بھی جست لگا دیں گے۔ ایسے کتوں کو جونہی موقع ملتا ہے، شکار کو دبوچ لیتے ہیں۔ راہگیر کو تو ایسے لگے گا کہ یہ کتے بہت بزدل ہیں اور حملہ کرتے اور پھر پسپا ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ کتے محض اپنے شکار کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں کہ کب وہ غافل ہو اور کب اس کو دبوچا جائے۔ ایک طرف سے حملہ کرتے ہوئے یہ کتے جنگلی سور کے دوسرے جانب کے کان کو پکڑ کراس طرح لٹک جائیں گے کہ سور کی تھوتھنی اوپر کو ہو جائے گی۔ اس طرح انہیں سور کی کچلیوں سے کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ یہ بہت مہارت کا کام ہے اور بعض کتے اس کے پیدائشی ماہر ہوتے ہیں جبکہ دیگر کتے کبھی یہ کام نہیں سیکھ پاتے۔
شکار کا طریقہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جونہی کتے شکار کو تلاش کر کے شور کریں تو وہیں رک جائیں۔ جب کتے شکار کو گھیر کر اس کی راہ روک لیں تو پھر ہر ممکن عجلت کے ساتھ بھاگتے ہوئے کتوں کی طرف جانا چاہیے۔
میرے پاس ہمیشہ دو بہت وفادار سیزر تھے جو کسی قیمت پر مجھے اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ جب بھی ہم کسی جگہ پھنسے ہوئے شکار کو پہنچتے تو یہ دو کتے میرا اشارہ پاتے ہی تیر کی طرح لپکتے اور زخموں کی پروا کیے بغیر شکار کو جکڑ لیتے۔اس کے بعد عجلت کرنی پڑتی تھی۔ شکاری چاقو نکال کر میں سیدھا شکار کے قریب جاتا اور ایک کتا تو ضرور اسے پکڑے ہوئے ہوتا۔ پھر دوسرا کتا دوسرا کام پکڑ لیتا تو پھر باقی کتے گلے اور دیگر جگہوں کو جکڑ لیتے۔ عین اس لمحے جھجھکے بغیر شکاری چاقو دستے تک سور کے شانے کے پیچھے اتار دیتا تھا۔
بہت مرتبہ سور اتنا بڑا ہوتا کہ شکاری کتوں کو گھیسٹ رہا ہوتا اور میں نے اس کی پشت کے بال جکڑے ہوئے ہوتے اور چاقو دستے تک اس کے شانے میں اترا ہوا ہوتا اور پھر بھی سور نہ رکتا۔ تھوڑی دیر اور بہت سخت جدوجہد کے بعد سور اچانک گر کر مر جاتا۔
ایسے مواقع پر بڑا اور بھاری شکاری چاقو بہت کارآمد ہوتا ہے۔ جنگلی سور کی کھال بہت سخت ہوتی ہے اور انتہائی تیز نوک والا چاقو ہی کام آتا ہے ورنہ نازک موقع پر ملنے والے مقام پر چاقو پھسل جاتا ہے۔ جب بڑے کتوں نے جنگلی سور کو تھاما ہوا ہو تو وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں سور کے شانے کے پیچھے چاقو اتارنا کہ کتوں کو زخم نہ لگے، کافی مشکل کام ہوتا ہے کہ سور اور کتے مسلسل جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے مقامات بدلتے رہتے ہیں۔ عین وقت پر کتوں کی مدد کو پہنچنا اور پھر مہارت سے سور کو کاری زخم لگانا ہی اصل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو جنگلی سور کئی کتوں کو مار ڈالتا ہے۔ اگر چاقو درست مقام پر لگے تو نصف منٹ میں ہی سور کی جان نکل جاتی ہے۔
پھر کتوں کو لگنے والے کاری زخموں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ کتے شدید مشقت کے بعد ہانپ رہے ہوتے ہیں اور سور کی لاش پر دانت گاڑنے کے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس طرح کی لڑائی میں کافی خطرہ بھی ہوتا ہے کہ مطلوبہ مقام پر آزادانہ نقل و حمل محدود ہو جاتی ہے۔ ایک بار میں نے ایک دوست کو سور کے حملے کے وقت ندی کی پتھریلی تہہ میں گرتے دیکھا۔ خوش قسمتی سے میں اتنا قریب تھا کہ میں نے سور کی ٹانگ پکڑ لی اور جب وہ مڑا تو اس کے شانے کے پیچھے شکاری چاقو اتار دیا۔ یہ سور زیادہ بڑا نہیں تھا، ورنہ میں اسے نہ روک پاتا۔
گھنے جنگل میں جب سور کی راہِ فرار مسدود ہو جائے تو شکاری کو جنگل میں راستہ بنا کر جانا پڑتا ہے تو اس سے کافی خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی جگہوں پر تین فٹ دور کی چیز دکھائی نہیں دیتی، سو بعض اوقات شکاری سور کے عین سامنے جا نکلتا ہے اور اگر بہت طاقتور کتوں نے اسے نہ پکڑا ہوا ہو تو سور اس پر حملہ کر دیتا ہے
شکاری کو اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے اور جب تک اسے پورا یقین نہ ہو جائے کہ کتوں نے سور کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی اسے اگر شکاری سور کے عین سامنے جا نکلے تو امکان ہوتا ہے کہ سور کتوں کو جھٹک کر شکاری کو اچھا خاصا زخمی کر سکتا ہے۔
کئی بار ایسے ہی حادثے سے بچا مگر ایک بار حادثہ بال برابر فاصلے پر رہ گیا تھا۔ یہ واقعہ نیویرا ایلیا کا ہے اور جنگل میں گھنی بیمبو گھاس اگی ہوئی تھی۔ یہ دراصل ۶٫۵۰۰ سے ۷٫۰۰۰ فٹ کی بلندی پر اگنے والے بانس کی ایک قسم ہے جہاں سردی کی شدت سے بانس پوری جسامت کے نہیں ہو پاتے۔ اس لیے اندر سے کھوکھلے ہونے کی بجائے بانس کے تنے لمبے اور پتلے ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان سے گزرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
ایک بڑا سور ایسے ہی خطرناک جنگل میں کتوں نے گھیر لیا۔ انتہائی دشواری سے میں سور سے پانچ یا چھ گز کے فاصلے پر پہنچا۔ میں نے نعرہ لگا کر کتوں کو حوصلہ دلایا اور فوراً ہی میرے طاقتور اور لمبی ٹانگوں والے کتوں نے جست لگا کر سور کو پکڑ لیا۔ بہت مشکل سے راستہ بنا کر جب میں کھلےمیں پہنچا تو سور میرے عین سامنے میری طرف منہ کیے کھڑا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے جست لگائی اور کتوں سے خود کو چھڑا کر مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں فوراً ایک طرف ہوا اور ساتھ ہی اس کی پشت پر چاقو سے وار کر دیا۔ عین اسی لمحے ایک بہت طاقتور کتا نینا نے بھی سور کی ٹانگ پکڑ لی۔ سور عین اسی جگہ گر کر مر گیا۔
ان دنوں میں زیادہ طاقت کےساتھ وار کر سکتا تھا مگر یہ وار اتنا کاری تھا کہ جب میں نے سور کی لاش اپنے قدموں میں دیکھی تو جیسے وہ دو ٹکڑے ہو چکی ہو۔ شاید اس لیے کہ سور آگے کو جست لگا رہا تھا اور کتیا نے اس کی ٹانگ پکڑ لی اور میرا بھاری چاقو انتہائی قوت سے لگا۔ ریڑھ کی ہڈی کٹ گئی تھی اور چاقو اعضائے رئیسہ تک جا پہنچا تھا۔
سور کے وزن کا تخمینہ سو کلو سے زیادہ ہوگا جو اس کی لمبائی اور چوڑائی سے میں نے اخذ کیا تھا۔ سب سے بڑا سور جو میں نے کتوں اور چاقو سے ہلاک کیا ہے، وہ دو سو کلو سے زیادہ وزنی تھا اور اس کا سر جب ایک ڈنڈے پر لٹکا کر میں اور میرا بھائی کیمپ لوٹے تو ہماری حالت بری تھی۔
سائیلون میں سور کا شکار کرنے کے لیے شکاری کتے لازمی درکار ہوتے ہیں اور پھر بھی سور کئی بار نکل جاتا ہے۔
نشیبی علاقے میں جہاں سور کثرت سے پائے جاتے ہیں، میں نے کبھی ان پر گولی نہیں چلائی۔
قلیوں کو سور کی چربی اور گوشت بہت مرغوب ہوتا ہے اور اسے اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر پیچش یا بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے اچھاسور جب بھی دکھائی دیتا تو میں گولی چلانےسے احتراز کرتا تھا کیونکہ میرے ساتھی لازمی اس کے گوشت سےدعوت اڑاتے، حالانکہ یہ گوشت ان کے لیے سختی سے منع تھا۔ گرم علاقوں کے بارے اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ موسیٰؑ اور محمدﷺنے جب سور کو حرام قرار دیا تو یہ ان کی دانشمندی تھی۔ سور بہت غلیظ جانور ہے اور کوئی بھی گندگی ایسی نہیں کہ جو سور نہ کھائے۔ گند کھانے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ اس کے گوشت پر بھی اثر ہوتا ہوگا اور استوائی خطوں کے نشیبی علاقوں کے سور مردار کھاتے ہیں اور اسی لیے ان کے گوشت پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔
نیویرا ایلیا کے جنگلی سور بہت پسند کیے جاتے ہیں کہ اتنی بلندی پر انہیں غلاظت کھانے کو نہیں ملتی۔ جنگل مختلف جڑوں اور پھلوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور کوئی بھی بری چیز انہیں کھانے کو نہیں ملتی۔
میں نے ترکی اور ایشیائے کوچک میں اکثر جنگلی سور کھایا ہے۔ نومبر کے مہینے میں ان کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے کہ وہ اخروٹ اور دیگر جنگلی پھلوں سے پیٹ بھرتے ہیں۔
کرائیمین جنگ کے دوران جب گھڑ سوارفوجی سرمائی مستقر کو سکوتری بھیجے گئے تو میں ۱۲ویں لانسر دستے کے افسران کے ساتھ رہتا تھا۔ پھر میں سبانیا کو روانہ ہوا جو اسمد کے شہر سے ۲۴ میل پرے ہے۔ یہ بہت دلچسپ اور خوبصورت جگہ ہے جو نیکومیڈیا کے شہر کی باقیات ہے۔ یہ خلیج اسمدکے انتہائی سرے پر واقع ہے اور استنبول سے دخانی جہاز پر ۱۰ گھنٹے کے سفر پر ہے۔
یہ شہر پہاڑی کی ایک سمت آباد ہے اور سرخ اینٹوں سے بنی چھتیں اور گھروں کے نفیس رنگ اور جگہ جگہ طویل القامت درختوں نے اس جگہ کو بہت خوبصورت منظر بنا دیا ہے۔ خلیج کے نیلے پانی سامنے دکھائی دیتے ہیں اور بحرِ مرمورہ کی موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔ خلیج کی دوسری جانب پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو آگے پھیلتا جاتا ہے۔
اس وادی میں ایک چھوٹا دریا بہتا ہے جو سبانیا کی جھیل سے نکلتا ہے۔ پانی کی ہموار چادر کی مانند یہ جھیل نو یل دور ہے جہاں پہاڑوں سے بارش کا پانی اس میں گرتا ہے۔ اس کی لمبائی ۱۲ میل اور چوڑائی ۳ یا ۴ میل سے زیادہ نہیں ہو پاتی۔
جب میں دوسری بار ۱۸۶۰ میں آیا تو مجھے کوئی خاص تبدیلی نہ محسوس ہوئی۔ اسمد سے سبانیا کو جانے والی سڑک زمانہ قدیم کے ترک انداز سے بنائی گئی تھی یعنی اس کے مختلف حصوں کو مختلف ٹھیکیداروں کو دے دیا گیا تھا جن میں سے بعض نے بہت عمدہ سڑک تعمیر کی تو بعضوں نے محض گزارے لائق کام کیا۔ عمدہ تعمیر بہت کم جگہوں پر تھی اور اس کی عمدہ مثال ۲۴ میل کا وہ سفر تھا جو پہاڑ کے دامن سے جنگل میں گزرتا تھا جہاں عمدہ سڑک اچانک ختم ہوتی اور دو فٹ گہری کیچڑ مسافر کو ملتی۔ سو آگے چل کر جب جھیل میں گرنے والے کئی چشمے سڑک سے گزرتے تو ان پر پل بنے ہوئے تھے تو کئی جگہوں پر پلوں سے پتھر نکل گئے جن کی وجہ سے پل ناقابلِ عبور ہو گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ انتہائی زرخیز زمین اور چند میل کے فاصلے پر مزدوروں کی دستیابی کے باوجود بھی کسی نے اس انتہائی اہمیت کی حامل سڑک پر توجہ دینا مناسب نہیں سمجھی۔
پونیوں پر ۲۴ میل کا یہ سفر تو اتنا برا نہیں مگر جب سامان ساتھ ہو تو معاملہ سنجیدہ نوعیت اختیار کر جاتا ہے۔ جہاں جہاں پل ٹوٹے ہوئے تھے وہاں خطرناک راستہ اختیار کر کے پہاڑی نالوں کی تہہ سے گزرنا پڑتا تھا۔ اُن دنوں سبانیا کا سفر سوار اور سواری دونوں کے لیے تکلیف کا سبب تھا۔ تاہم ان دقتوں کا فائدہ یہ تھا کہ شکار کی کثرت تھی اور یہاں نہ ہونے کے برابر برطانوی آتے تھے۔
سبانیا بڑا قصبہ ہے اور پہاڑی کے دامن میں بنا ہے۔ جھیل سے اس کا فاصلہ نصف میل ہے اور یہاں جھیل کی چوڑائی میل بنتی ہے۔ جھیل کے دوسرے کنارے سے پہاڑ اور جنگل شروع ہو جاتے ہیں مگر جگہ جگہ چھجے دار کھیت بنائے گئے ہیں جہاں شہتوت کے درختوں کو اگا کر ان پر شہد کے کیڑے پالے جاتے ہیں۔ اس کا بہت سا پھل اسمد اور قسطنطنیہ کو بھی جاتا ہے۔
سبانیا والی سمت کے پہاڑوں اور وادیوں میں مسلسل جنگل ہیں اور کاشتکاری محض قصبے کے ساتھ ہی ہے جہاں انگور، سیب، انجیر، ناشپاتی اور بہی/سفرجل کے درخت اور بیلیں قطاروں میں اگائے گئے ہیں اور ان کی درمیانی جگہوں پر غلہ اگتا ہے اور یہ کسی حد تک اٹلی کی نقالی ہے۔
میں نے کئی روز قبل ہرکارہ بھیج کر چند کمرے مختص کرا لیے تھے کیونکہ جب ہم ترک مقامات سے گزرے تو وہاں رکنے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور یونانی علاقے میں بھی یہی حال تھا اور جنگل قصبے سے چند گز پہلے ہی ختم ہوتا تھا۔
یہاں آرمینیائی علاقہ ختم ہوتا تھا اور ہم اپنی قیام گاہ پر پہنچے۔ پہلی منزل پر گائے اور اس کا بچھڑا بندھے تھے یعنی دودھ کا انتظام بہ آسانی ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد زینہ تھا جو چھت سے ہوتا ہوا صاف ستھرے مکان تک آیا اور یہاں ہمیں دو چھوٹے کمرے اور ایک باورچی خانہ دکھائی دیے۔ یہاں سے گائے ہمیں صاف دکھائی دے رہی تھی اور اس کی بو اور بچھڑے کی آواز بھی آ رہی تھی۔
ترک گھروں میں چمنیاں نہیں ہوتیں اور انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر کمرے کو خوب گرم کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر انگاروں سے ابھی دھواں نکل رہا ہو تو کمرے کے باشندے دم گھٹنے سے مر بھی سکتے ہیں۔ یہ ۱۸۶۰ کی سردیاں (دسمبر) تھیں جب ہم پہنچے اور چند روز بعد شدید برفباری ہوئی۔
بدقسمتی سے میرے پاس سپینل کتے نہیں تھے اور جنگلی مرغوں کے شکا رکے لیے پوائنٹر کتے بیکار تھے۔ سردی کی وجہ سے ساری جنگلی حیات نیچے اتر آئی تھی اور بھیڑیے اتنے نڈر ہو گئے تھے کہ ہمارے ساتھ والے گھر سے بچھڑے کو مار کر لے گئے کہ اس گھر کا دروازہ مضبوطی سے بند نہ تھا۔
یہ شکاری رہائش گاہ تھی اور جنگل کے کنارے پر، جنگل نامعلوم فاصلے تک پھیلا ہوا تھا۔ میں جب گھر سے نکلتا تو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر جنگلی مرغیوں کا شکار کر سکتا تھا۔ رات کو بھیڑیے اور گیدڑ ہماری کھڑکیوں کے قریب چیختے اور جنگلی سور باغیچوں کی باڑ اور جنگلے توڑ کر اندر گھس آتے کہ انہیں جنگل سے اپنی خوراک نہیں ملتی تھی۔ جنگل کے قابلِ شکا رجانوروں میں ریچھ (سرمائی نیند سو رہے تھے)، بھیڑیے، جنگلی سور، سرخ ہرن،چیتل، فیزنٹ اور جنگلی مرغیاں شامل تھیں جبکہ جھیل کنارے سنائپ اور مرغابیاں عام ملتی تھیں۔
سبانیا کی آبادی کافی تھی اور ان میں یونانی اور آرمینیائی آباد تھے مگر تعداد کے اعتبار سے ترک سب سے زیادہ تھے۔ تاہم یہ آبادی ایک دوسرے سے مل جل کر رہتی اور قصبے کے اندر الگ الگ جگہوں پر آباد تھے۔ کہیں بھی نسل یا مذہب کی بنیاد پر کوئی دشمنی نہ دکھائی دیتی تھی اور یہ عام اصول تھا۔ جمعے کو مسلمان متبرک دن گردانتے ہیں اور اس روز ترک عام طور پر شکار کو نکلتے۔ جن کے پاس بندوقیں ہوتیں تو وہ شکار کھیلتے جبکہ باقی سب ہانکے کا کام کرتے۔ میں نے آج تک کسی اور جگہ لوگوں کو شکار پر جاتے ہوئے اتنا خوش اور اتنا ہم آہنگ نہیں دیکھا۔ میں نے ان لوگوں کے ساتھ دو ماہ تک شکار کھیلا اور کبھی ایک بار بھی کوئی لڑائی یا جھگڑا نہیں ہوا۔ جمعرات کو یہاں کا منتظم آفندی مجھے پیغام بھیجتا کہ اگلے روز ہم کس وقت شکار پر نکلیں گے اور جمعے کے روز نو بجے ہم سب شہر کی دیواروں کے باہر جمع ہوتے جہاں بہت سے لوگ نشانے کی مشق کر رہے ہوتے اور سبھی لوگ شکار کے لیے خوش ہوتے۔
گھنے جنگلوں میں ہانکے کے علاوہ شکار کا کوئی طریقہ کامیاب نہیں۔
بعض لوگ اسے شکار نہ سمجھیں مگر یاد رہے کہ جب آپ دنیا کی سیر کو نکلیں گے تو کہیں بھی کوئی بھی بندہ کسی اجنبی سے اس کی رائے لے کر شکار نہیں کھیلے گا۔ ان جنگلوں میں پچاس سے زیادہ بندوقچی ایک ہی قطار میں بٹھا دیے جاتے تھے اور یقین کریں کہ ایک بار بھی کوئی حادثہ نہیں ہوا کہ یہ سارا جنگل بلوط کے انتہائی بڑے درختوں پر مشتمل تھا اور گولی کبھی بھی پچاس گز سے زیادہ دور نہ جا سکتی تھی۔
ان شکاروں میں مذہبی ہم آہنگی کی روح پائی جاتی تھی۔ اگر ترک جنگلی سور کو شکار کرتے تو اسے عیسائیوں کو دے دیتے۔ یونانی یا آرمینیائی اگر کسی ہرن کو شکار کرتے تو ترکوں کو دے دیتے۔ اکثر ترک گولی سے مارے جانے کو ذبیحے کے برابر گردانتے تھے اور آرام سے کھا لیتے۔
ان ہانکوں میں ہم نے جو جنگلی سور مارے ان میں سے کئی انتہائی بڑے اور خوب مچرب تھے۔ بازار سے ایسا گوشت نہیں ملتا تھا اور سبزیاں بکثرت اور ارزاں تھیں۔ جنگلی سور ہماری مرغوب خوراک تھی اور اسے ہرے پیاز، عام پیاز اور گوبھی سے مختلف طریقوں سے پکایا جاتا اور اس سے کبھی سیر نہ ہوتے۔ سب سے بڑا جنگلی سور میں نے یہیں مارا۔ ایک چاندنی رات کو میں بیٹھا تھا کہ برف میں اپنی خوراک تلاش کرتا ہوا سور آ نکلا۔ میرے بندوق کی مکھی پر سفید کاغذ لگا تھا اور مناسب فاصلے تک نشانہ لگانا آسان تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح برف کو کھود کر سور اپنی خوراک تلاش کر لیتے ہیں۔ میرے پاس انجیر کی لکڑی سے بنے برفانی جوتے تھے جو کم وزن اور مضبوط تھے مگر میں بھی برف پر جنگلی سور سے زیادہ تیز نہ چل پاتا۔ تاہم سور جب جمی ہوئی برف پر چلتے تو انہیں زخم بھی لگتے تھے کہ میں نے جگہ جگہ خون کے نشانات دیکھے تھے جہاں جمی ہوئی برف کی تیز تہہ نے جنگلی سور کے جسم پر زخم لگائے تھے۔
سبانیا میں شکار کے لیے بہت سارے جانور تھے اور یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ ہانکے والوں کے آگے کون سا جانور نکلے گا۔ اگرچہ ہم نے بکثرت چیتل مارے مگر میں کبھی سرخ ہرن پر گولی نہ چلا پایا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی مگر یہ جانور پہاڑی کی چوٹیوں کے قریب اس طرح چھپا ہوتا کہ مجھے دکھائی نہ دیتا۔ کئی بار میں نے ان کے بھاگنے کی آواز سنی اور صرف ایک لمحے کو دکھائی دیتے اور پھر غائب ہو جاتے۔
جھیل میں پائک اور پرچ نسل کی بہترین مچھلیاں دستیاب تھیں اور میں نے یہاں دوبارہ جانے کی ہرممکن کوشش کی ہے مگر ۲۹ سال تک دنیا کے مختلف حصوں میں پھرنے کی وجہ سے شاید لوگ اور شکار کے جانور بھی بدل گئے ہوں۔
اسمد سے چار یا پانچ میل پر سنائپ کے لیے بہترین دلدلی علاقہ تھا اور جنگلی گلابوں کی جھاڑیاں جھیل کنارے اگی ہوئی تھیں اور جنگلی مرغیاں بکثرت پائی جاتی تھیں۔ یونانی پیشہ ور شکاری تھے اور ان کے شکار کردہ پرندوں کو روزانہ دخانی جہاز کے ذریعے دس یا گیارہ گھنٹے کے سفر کے بعد قسطنطنیہ بھیجا جاتا تھا جہاں وہ بازار میں بکتے تھے۔ ان کے پاس بہترین پوائنٹر نسل کے کتے تھے جنہیں پوری تربیت دی گئی تھی اور ان کی گردن سے گھنٹیاں بندھی ہوتی تھیں۔ جہاں گھنٹی بجنا بند ہوتی، شکاری سمجھ جاتا کہ شکار موجود ہے۔ میرے خیال میں ہر شکاری کے پاس بہترین سدھے ہوئے سپینیل کتوں کا پورا غول ہونا چاہیے اور وہ اس طرح سدھائے جائیں کہ کبھی بھی جانور کے پیچھے نہ بھاگیں اور نہ ہی شکاری سے بیس گز سے زیادہ دور جائیں۔ اس طرح ہر قسم کے پرندے اور جانور دکھائی دیں گے۔ بہت سے لوگ محض اس لیے جنگلی جانوروں اور پرندوں کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں کہ انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ خرگوش ہوں یا جنگلی مرغیاں یا تیتر اور بٹیر وغیرہ، جب تک انسان ان کے عین سر پر نہ پہنچ جائے، حرکت نہیں کرتے۔
جنگل میں انسان کا بہترین ساتھی کتا ہوتا ہے جو انسان سے بہت پہلے کسی جانور کی موجودگی کو بھانپ لیتا ہے۔ میں نے سبانیا میں ایک ترک شکاری کو ملازم رکھا جس کے پاس ایک چھوٹا سا مخلوط النسل کتا تھا جس کی دم محض دو انچ تھی۔ جنگلی گلاب کی جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے کتا اچانک غائب ہو گیا اور پھر ایک منٹ بعد ڈیڑھ سو گز سے اس کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔
جب ہم مطلوبہ مقام پر پہنچے تو اس نے ایک بہت بڑے کتے کو روکا ہوا تھا۔ کتا دیوانہ وار اس پر بھونک رہا تھا مگر قریب جانے سے کترا رہا تھا۔ میرے خیال میں کتے نے کوئی جنگلی مرغی دیکھی ہوگی۔ خوش قسمتی سے بائیں نال میں گولی تھی اور میں نے اس کے شانے میں گولی ماری اور سور وہیں گر کر مر گیا۔ کتا انتہائی خوش ہوا اور مردہ سور کی تھوتھنی پکڑ کر اسے جھنجھوڑنے لگا۔ سور کتے سے کم از کم بھی بیس گنا زیادہ بھاری ہوگا۔
یہ عام سا دیہاتی کتا تھا۔ اگر آپ جنگلی سور کا شکار کرنا چاہتے ہوں تو بہت سارے کتوں کی بجائے ایک چھوٹا کتا کافی رہے گا کہ سور بھی اتنے چھوٹے سے کتے کو دیکھ کر نہیں بھاگے گا۔
طویل تجربے کے دوران میں نے مختلف علاقوں میں مختلف انداز سے شکار کرنا سیکھا ہوا ہے۔ کئی جگہوں پر جنگلی سور کو خطرناک گردانا جاتا ہے اور اس کا شکار رائفل سے کرتے ہیں۔ میں نے شکاری چاقو اور کتوں کی مدد سے جنگلی سور کا شکار کیا ہوا ہے۔ مجھے اب رائفل سے جنگلی سور کے شکار کا بالکل بھی لطف نہیں آتا۔ کبھی کبھار میں رائفل سے شکا رکی کوشش بھی کروں تو میری شہادت کی انگلی لبلبی پر جیسے جم جاتی ہے۔ اگر کبھی گولی ماروں بھی تو وہ محض اپنے ساتھیوں کی بھوک مٹانے کے لیے ہوگا۔ تاہم ایشیائے کوچک میں مجھے اس کا شکار رائفل سے کرنا پسند ہے۔ تاہم سور کے شکار کرنے والے عوامی فلاح کا کام کرتے ہیں۔ کئی ممالک میں جنگلی سور اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ وہ فصلوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ میں نے پورے پورے کھیت اس طرح کھدے ہوئے دیکھے ہیں کہ جیسے کسی نے ہل چلایا ہو اور پورا کھیت اجڑ جاتا ہے۔
سینکڑوں کی تعداد میں جنگلی سور تازہ بوئے ہوئے کھیت پر حملہ آور ہو کر اسے اجاڑ دیتے ہیں۔ گنے کے کھیت میں ان سے بہت نقصان پہنچتا ہے کہ یہ گنوں کو کترتے ہیں اور رس نکلنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس میں عملِ تخمیر ہوتا ہے جو گنے اور رس کو برباد کر دیتا ہے۔چوہوں کے بعد انسان کو سب سے زیادہ نقصان جنگلی سور پہنچاتے ہیں۔
افریقہ کے وارتھاگ کبھی ایشیا کے جنگلی سور جتنی تعداد کو نہیں پہنچ سکتے۔ شاید ببر شیر اور تیندوے اس کی تعداد پر قابو رکھتے ہیں۔ لگڑبگڑ چھوٹے وارتھاگ کو تو کھا جاتا ہے مگر کسی قیمت پر بالغ وارتھاگ پر حملہ نہیں کرے گا۔
خرطوم کے مرحوم نائب قونصل پیتھرک سفید نیل پرکے اولین تاجروں میں سے ایک تھے اور سوڈان کے دیگر تاجروں کی مانند وہ بھی یورپی چڑیا گھروں کے لیے مختلف جانور اکٹھے کرتے تھے۔ قونصل خانے کے بڑے صحن میں جانور مختلف پنجروں میں نیم قید رکھے جاتے تھے اور دو بہت بڑے جنگلی سور بھی تھے جن کی کچلیاں بہت بڑی تھیں۔ ایک رات ایک جنگلی سور پنجرے سے نکل آیا جس کی دیواریں کچی مٹی سے بنی ہوئی تھیں۔ آزادی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے جنگلی سور نے سیدھا میرے ملازم شکاری پر حملہ کر دیا جو بیچارہ چٹائی پر سو رہا تھا۔ اس کے بدن پر کئی جگہ لمبے زخم آئے۔ جنگلی سور کو تو بھگا دیا گیا مگر اس بندے کے زخم کئی ہفتوں بعد جا کر بھرے۔
چند روز بعد جب میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا تھا جہاں چڑھنے کے لیے چھ یا سات سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔ اچانک صحن کے دوسرے سرے سے شور و غل سنائی دیا اور دیوار کی اینٹیں جھڑنے لگیں۔ سارے بندے اس جانب بھاگے۔ لگ رہا تھا کہ سور فرار ہونے کی کوشش میں ہے۔ اتنے میں سور راستہ بنا کر صحن میں داخل ہو گیا۔ سب لوگ پناہ لینے کو بھاگے۔ سور نے پورے صحن کا معائنہ کیا اور دیکھا کہ ہم اس کے عین سامنے بیٹھے ہیں۔
اگلے ہی لمحے اس نے صحن میں دوڑ لگا دی۔ صحن ساٹھ گز لمبا ہوگا۔ ہمارے چبوترے کی اونچائی پندرہ مربع فٹ ہوگی۔ ہم چونکہ کچھ دن قبل ہی اباسینیہ سے آئے تھے، سو میرے شکار کردہ جانوروں کی ٹرافیاں ساتھ ہی رکھی تھیں۔ میں نے گینڈے کا ایک لمبا سینگ اٹھایا جو دس پاؤنڈ وزنی ہوگا اور جونہی سور دو یا تین سیڑھیاں چڑھا، میں نے پوری قوت سے سینگ اسے دے مارا۔
خوش قسمتی سے سینگ سیدھا سور کی آنکھوں کے عین درمیان لگا اور سور الٹ کر سیڑھیوں سے نیچے جا گرا اور پھڑکنے لگا۔ میرے بندے بھاگے اور سور کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں رسی سے باندھ کر اسے پاس کے ایک گودام میں ڈال کر اس کا دروازہ بند کر آئے۔ دوسرا جنگلی سور اتنا وحشی نہ تھا سو اسے ہم نے دوسرے پنجرے میں منتقل کر دیا۔
گینڈے کا سینگ کافی خطرناک ہتھیار تھا اور اس نے سور کو بے ہوش کر دیا۔ اگلے روز جب دروازہ کھول کر سور کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو دیکھا گیا کہ سور مر چکا تھا۔
اس وار سے مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ کسی چیز کو پھینک کر مارنے کے معاملے میں میرا نشانہ بہت برا ہے۔ کئی لوگ ایک چیز میں ماہر ہوتے ہیں اور دوسری میں بالکل اناڑی۔ سور پانچ فٹ دور تھا جو کسی چیز کے پھینک کر مارنے کے معاملے میں میرے نشانے کی انتہائی حد ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۱۸
لگڑبگڑ
جنگلی درندوں اور جانوروں کی فہرست میں لگڑبگڑ بھی شامل ہے۔ اسے ہم شکاری درندہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض مردار خور ہے اور اسے چار ٹانگوں والا گِدھ کہہ سکتے ہیں جو زمین سے گندگی صاف کرتا ہے۔ سور بھی یہی کام کرتا ہے مگر ہمہ خور ہونے کی وجہ سے وہ صرف مردار پر گزارا نہیں کرتا۔
لگڑبگڑ کی دو اقسام پائی جاتی ہیں، ایک دھاری دار اور ایک دھبے دار۔ دھبے والے کا حجم بڑا ہوتا ہے مگر دونوں کی عادات ایک جیسی ہیں۔
ہڈی توڑنے کے معاملے میں اس کی طاقت حیران کن ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملے میں شیر یا ببر شیر سے زیادہ طاقت رکھتا ہے مگر جو ہڈیاں شیر اور ببر شیر بھی چھوڑ جائیں، لگڑبگڑ انہیں آسانی سے کاٹ ڈالتا ہے۔
اس کا ہاضمہ بہت قوی ہے اور کئی ہڈیاں ثابت بھی نگل جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کی ران کی ہڈی کو توڑ کر اس کا گودا کھانے کے علاوہ دونوں سرے بھی نگل جاتا ہے۔
ہر ملک کے مقامی افراد لگڑبگڑ سے نفرت کرتے ہیں اور بعض جگہوں پر تو کہا جاتا ہے کہ لگڑبگڑ انسانی بچوں اور مویشیوں کے بچوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔ میں افریقہ میں نو سال رہا ہوں مگر کبھی بھی لگڑبگڑ کو اپنے ساتھیوں یا اپنے مویشیوں پر حملہ کرتے نہیں دیکھا۔ ان کے بارے مشہور تھا کہ بچے، بکریاں اور ہر وہ مخلوق جو اپنا دفاع نہ کر سکے، لگڑبگڑ اسے مار کھاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار لگڑبگڑ ہمارے خیمے میں گھسا تھا۔ تاہم اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ کھانے کی تلاش میں آیا تھا کہ شاید چمڑے کا جوتا یا کوئی اور چیز مل جائے۔ چاندنی رات تھی اور مطلع بالکل صاف تھا اور ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ رات کو کسی چیز نے میری آستین کو چھوا تو میری آنکھ کھل گئی۔ عین اسی وقت میری بیوی نے بتایا کہ کوئی چیز ہمارے خیمے سے نکلی ہے۔
میں نے چٹائی کے نیچے سے اپنی رائفل نکالی اور بستر میں کچھ دیر بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیمے کے دروازے میں پر سایہ سا دکھائی دیا۔پھر محتاط انداز سے وہ سایہ آدھا اندر داخل ہوا ہی تھا کہ میری چلائی ہوئی گولی اس کی آنکھوں کے بیچ لگی اور وہ وہیں گر گیا۔ یہ جانور بہت بڑا لگڑبگڑ تھا جو تجربہ کار اور بوڑھا جانور تھا کہ اس کے جسم پر ان گنت مندمل زخموں کے نشانات تھے۔
کاویے کے مطابق: ‘لگڑبگڑ کے تین نقلی مولر اوپر اور نیچے ہوتے ہیں جو سبھی مخروطی ہیں۔ اس کے دانتوں کی ساخت اسے بڑی سے بڑی ہڈی توڑنے کے قابل بناتی ہے۔ اس کی زبان کھردری ہوتی ہے اور الٹی سمت خاردار۔ اس کے پیروں میں چار چار ناخن ہوتے ہیں اور مقعد کے نزدیک غدود کی تھیلی ہوتی ہے۔ اس کی تین اقسام پائی جاتی ہیں، دھاری دار جو ہندوستان سے اباسینیہ اور سینیگال تک پھیلی ہوئی ہے، دھبے دار جو جنوبی افریقہ میں ملتا ہے اور اونی جلد والا لگڑبگڑ بھی جنوبی افریقہ میں ملتا ہے‘۔ مجھے تیسری قسم کے بارے کچھ علم نہیں۔
کاویے اس کے نچلے جبڑے کے طاقتور پٹھوں کے بارے کچھ کہنا بھول گیا ہوگا کہ جن کی وجہ سے اس کا منہ اتنا طاقتور ہوتا ہے۔
اس کی کھوپڑی کو دیکھیں تو پٹھوں کے گزرنے کے لیے کافی بڑے سوراخ پائے جاتے ہیں جو اس کے سر کی ساخت کی وجہ ہیں۔
اباسینیہ میں لگڑبگڑ اتنے زیادہ ہیں کہ سورج غروب ہوتے ہی وہ شہروں کے قریب ہی مردار کی تلاش میں دکھائی دے جاتے ہیں۔ دھبے دار کی شکل و صورت ہندوستانی لگڑبگڑ جیسی مگر آواز فرق ہے۔
اباسینیہ میں یہ معمول تھا کہ رات کا کھانا کھا کر ہم خیموں میں گھستے تو لگڑبگڑ باہر ہڈیاں چبانا شروع کر دیتے تھے۔ میرے عرب ملازم انہیں پاس ہی پھینک دیتے تھے۔ شاید لگڑبگڑ ہمارے کھانے کے دوران پاس ہی چھپے ہوتے تھے اور ہمیں جاتا دیکھ کر فوراً پہنچ جاتے تھے۔ ساری رات ان کی منحوس آواز ہمیں خیمے کے قریب سنائی دیتی مگر انہوں نے کبھی ہماری بکریوں یا مرغیوں پر بری نظر نہیں ڈالی اور محض بچی کچھی ہڈیوں سے پیٹ بھرتے تھے۔
ابتدائی سیاح جیمز بروس کہ جس نے نیلے نیل کو ۱۷۷۳ میں دریافت کیا، کی رائے لگڑبگڑ کے بارے یہ تھی کہ یہ جانور خطرناک ہیں۔ وسطی افریقہ میں بڑے شکاروں کے دوران اگر لگڑبگڑ مارا جائے تو پورے گاؤں کی عورتیں اس کی لاش کو دیکھنے اور اسے لاٹھیاں مارنے آتی ہیں۔
باب ۱۹
زرافہ
یہ خوبصورت اور بے ضرر جانور تمام حیوانات میں سب سے اونچا ہے۔ نر جب سیدھا کھڑا ہو تو سر کے بالائی سرے تک اس کی اونچائی ۱۹ فٹ بنتی ہے۔ سینگ چھوٹے اور ہرن کے سینگوں سے مشابہہ ہوتے ہیں کہ جیسے ہرن کے سینگ نکل رہے ہوں۔ اس کے سینگ نہیں جھڑتے اور کھوپڑی پر سختی سے لگے ہوتے ہیں۔ زرافے کی زبان کافی دراز ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ ٹہنیوں اور شاخوں کو پکڑ کر منہ تک لا سکتا ہے۔
اگلی ٹانگوں کی لمبائی کی وجہ سے زرافہ زمین سے بہت اوپر اپنی خوراک تلاش کرتا ہے۔ کبھی کبھار گھاس پھونس بھی کھا لیتا ہے مگر اس کا من پسند کھاجا مموسا اور دیگر جھاڑیوں کی بالائی نرم ٹہنیاں اور شاخیں ہوتی ہیں۔
زرافے کی چال اونٹ جیسی ہوتی ہے اور ایک سمت کی دونوں ٹانگیں بیک وقت حرکت کرتی ہیں۔ جب زرافہ بھاگ رہا ہو تو گردن کی حرکت دلفریب لگتی ہے۔ اس کی چال بظاہر سست محسوس ہوتی ہے مگر یہ اتنا تیز رفتار ہوتا ہے کہ اچھے اچھے گھوڑوں کو بھی اس کی رفتار کا ساتھ دینے میں مشکل ہوتی ہے۔
بظاہر اپنی اونچائی کی وجہ سے زرافہ بہت دور سے دکھائی دے جانا چاہیے اور اس کی تلاش مشکل نہیں لگتی مگر اپنے جنگلات میں مشکل سے نظر آتا ہے۔
اس کی پسندیدہ خوراک سرخ چھال والا مموسا ہے جو ۱۴ یا ۱۵ فٹ بلند ہوتا ہے۔
کئی جنگل صرف اسی درخت سے بھرے ہوتے ہیں اور ان کی اوپری سطح مسطح ہوتی ہے اور زرافہ آرام سے سر جھکا کر پیٹ بھرتا ہے۔ بہت مرتبہ دور سے کسی مردہ درخت کا تنا جو محسوس ہوتا تھا، قریب جانے پر اچانک بھاگ نکلتا تو پتہ چلتا کہ وہ زرافہ تھا۔ زرافہ شاذ ہی اپنی گردن اونچی کیے رکھتا ہے مگر جب کسی دور کی چیز کو دیکھنا ہو تو پھر کرتا ہے۔
زرافے کے قریب پہنچنے کا کام بہت مشکل ہے کہ اٹھارہ یا انیس فٹ کی اونچائی پر دو بڑی آنکھیں دور سے ہی شکاری کو بھانپ لیتی ہیں۔ تاہم جب گھنے جنگل میں ہوں تو اس سے اچانک مڈبھیڑ ہو سکتی ہے۔ حمران عرب اس کا گھوڑے پر پیچھا کرتے ہیں اور اس کی ٹانگوں کے پٹھے اپنی لمبی اور چوڑی تلوار سے کاٹ دیتے ہیں۔ جب عرب گھوڑوں کے تاجر سے گھوڑے کی خریداری کی جائے تو جب وہ کسی گھوڑے کے بارے یہ کہہ دیں کہ یہ گھوڑا زرافے سے بھی آگے نکل جاتا ہے تو اس سے بہتر گھوڑا ملنا مشکل ہوگا۔
اچھے انگریز شکاری گھوڑے کے لیے زرافے کا پیچھا کرنا مشکل نہیں مگر سوڈان کے چھوٹے گھوڑے ستر کلو سے زیادہ وزن اٹھا کر کٹی پھٹی زمین پر تیز نہیں بھاگ سکتے، ان کے لیے یہ مشکل کام ہوتا ہے۔
زرافے کے پیچھے جانے کا ایک ہی اصول ہے کہ جونہی زرافہ دکھائی دے تو فوراً گھوڑے کو ایڑ لگا دیں۔ اگر آپ نے اسے ذرا سا بھی موقع دیا تو ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پہلے پہل تو لگتا ہے کہ زرافہ بہت سست جا رہا ہے مگر جلد ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چال نہ صرف تیز ہے بلکہ اسی رفتار سے زرافہ گھنٹوں بھاگ سکتا ہے۔ اس لیے جتنا جلدی آپ اس کے قریب پہنچیں گے، اتنا ہی کامیاب رہیں گے۔ تعاقب کے دوران کوشش ہو کہ زرافے کے عین پیچھے کی بجائے کچھ پہلو پر بھاگا جائے۔ دیوانہ وار بھاگتے ہوئے زرافہ ہر قسم کی رکاوٹ سے گزرتا ہے اور مڑی ہوئی ٹہنیاں عین پیچھے موجود شکاری کے لیے مہلک بھی ہو سکتی ہیں۔
زرافے کے کُھر ہرن جیسے ہی مگر بہت بڑے، نفیس اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ پتھریلی زمین پر بھاگتے ہوئے زرافے کے پھیلے ہوئے کھروں سے پیچھے کی طرف پتھروں کی بوچھاڑ ہوتی جاتی ہے جو عین پیچھے موجود شکاری کو زخمی کرتی ہے۔ اس وجہ سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ زرافہ بھاگتے ہوئے شکار پر پتھراؤ کرتا ہے۔ قریب پہنچتے ہوئے اس کی پچھلی ٹانگوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ بھاگتے ہوئے یہ دولتی بھی چلا سکتا ہے جو گھوڑے اور سوار، دونوں کو گرا دیتی ہے۔
زرافے کی کھال کو ڈھال بنانے کے لیے قیمتی سمجھا جاتا ہے کہ یہ گینڈے اور بھینسے کی کھال سے ہلکی مگر خشک ہونے پر اتنی ہی سخت ہو جاتی ہے اور نیزے اور تلوار، دونوں کے وار کو روکتی ہے۔ عرب شکاری زرافے کا شکار اس کی کھال کی خاطر کرتے ہیں مگر گوشت کو لمبی پٹیوں کی شکل میں کاٹ کر جھاڑیوں پر ڈال کر دھوپ میں سکھاتے ہیں۔
حمران شکاری بے رحم مگر بہترین گھڑسوار ہوتے ہیں۔ اگر تین یا چار شکاری جمع ہو جائیں تو ایک ہی شکار میں سات یا آٹھ زرافے مار لینا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ان کی لمبی اور تیز دھار تلوار اس طرح کے شکار کے لیے بہترین ہوتی ہے کیونکہ زرافے کے گھٹنے کا جوڑ کافی اونچا ہوتا ہے اور شکار کو جھکے بغیر ضرب لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ گھوڑے کی رفتار ایسی ہوتی ہے کہ اس تلوار سے معمولی سی ضرب سے بھی زرافے کی ٹانگ کے پٹھے کٹ جاتے ہیں اور وہ وہیں رک جاتا ہے۔
اگر زرافہ عام چوپائے کی طرح چلتا تو وہ تین ٹانگوں پر بھی بھاگ سکتا تھا مگر چونکہ وہ ایک پہلو کی دونوں ٹانگوں کو بیک وقت اٹھاتا ہے، سو ایک ٹانگ کے پٹھے کٹتے ہی زرافہ وہیں بے بس ہو جاتا ہے۔
زرافے پر گولی چلانے سے مجھے کبھی دلی خوشی نہیں ہوئی کہ میرے خیال میں وہ انتہائی بے ضرر جانور ہیں۔ وہ نہ تو کبھی مقامی افراد کی فصلیں تباہ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی جانور پر حملہ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی اپنے انداز سے جیتے ہیں۔ ان کے دشمن یا تو ببر شیر ہیں اور یا پھر انسان۔
جب بونے مموسا اور دیگر چھوٹی جھاڑیوں والے گھاس سے بھرے میدان میں زرافوں کا بڑا جھنڈ موجود ہو تو ان کی اونچائی سے عجیب مگر خوبصورت منظر بنتا ہے۔ ایک بار میں نے تین یا چار ایکڑ کے رقبے میں کھڑے ۱۵۴ زرافے شمار کیے۔ میں نے ان پر گھات لگائی اور دو گولیوں سے دو زرافے شکار بھی کیے۔ ایک کا کندھا ٹوٹ گیا تھا اور وہ محض رینگنے کے قابل رہا۔ اگر میرے ساتھیوں کو گوشت کی ضرورت نہ ہو تو میں کبھی ان کا پیچھا نہیں کرتا کہ میرے نزدیک ان کا بلاوجہ شکار قتل کے متراف ہوتا ہے۔
زرافے کی آنکھیں دیگر تمام حیوانوں سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں۔
ماہرین کے خیال میں زرافہ ہرن کی تبدیل شدہ شکل ہے مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ سینگوں کے علاوہ اس کی کوئی بات بھی ہرنوں سے مشابہہ نہیں۔ سینگ بھی کسی نوعمر ہرن جیسے ہوتے ہیں۔ ہرن کی دم چھوٹی جبکہ زرافے کی لمبی ہوتی ہے اور کالے بال بھی ہوتے ہیں تاکہ مکھیاں وغیرہ اڑا سکے۔ ہرن دیگر چوپایوں کی طرح چلتے ہیں جبکہ زرافے کی چال اونٹ جیسی ہوتی ہے۔ اس کی شکل و صورت بھی ہرنوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے اس لیے میں زرافے کو تمام جانوروں سے الگ جانور گردانتا ہوں۔
باب ۲۰
اینٹلوپ
صحرائے صحارا کے جنوب میں ہرن کی کوئی قسم نہیں پائی جاتی۔ بربر کے ہرن دراصل یورپ سے آئے تھے۔ شاید کارتھیجی انہیں یورپ سے لائے تھے۔ پورے افریقی براعظم میں سوائے شمالی ممالک کے، کہیں بھی ہرن نہیں پائے جاتے۔ یہ عجیب بات لگتی ہے کہ دنیا کے باقی تمام خطوں میں ہرن پائے جاتے ہیں۔ افریقہ میں ہرن کی عدم موجودگی کی وجہ سے اینٹلوپ کی بہت زیادہ اقسام ملتی ہیں۔
اینٹلوپ کی کئی خصوصیات ہرن سے مماثل ہوتی ہیں مگر ان کے سینگ مستقل ہوتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں۔ اس طرح سینگوں کی ساخت اور شکل میں بہت زیادہ تنوع ہے۔ کچھ اینٹلوپ میں سینگ نر اور مادہ دونوں میں تو کچھ میں صرف نر کے سینگ ہوتے ہیں۔
اگرچہ انواع اور جسامت کی مد میں افریقہ اینٹلوپ کے حوالے سے سب سے آگے ہے مگر اینٹلوپ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی کچھ تعداد میں ملتے ہیں۔ شمالی امریکہ میں پریری میدانوں میں سب سے مشہور اینٹلوپ کسی بھی دوسرے اینٹلوپ سے سینگوں کے معاملے میں بہت فرق دکھائی دیتا ہے۔ امریکی چوسنگھا سب سے فرق ہے اور ہر سال اپنے سینگوں کی اوپری سطح اتار دیتا ہے۔ صدی کے اوائل میں اس کی تعداد ان گنت تھی اور ابھی بھی اپنی شرمیلی فطرت کی وجہ سے کافی تعداد میں بچے ہوئے ہیں۔ زندہ جانور کا وزن ۹۰ پاؤنڈ ہوتا ہے اور گوشت بھی لذیذ۔ مادہ کے سینگ نہیں ہوتے۔
دوسری قسم کینیڈا میں رہتی ہے مگر میں نے کبھی نہیں دیکھی۔
یورپی اینٹلوپ میں چاموعز اہم ہے۔ اس کی ایک اور قسم سائیگا کا اینٹلوپ بھی ہے جو روس میں ملتا ہے۔
اینٹلوپ ہمیں نسبتاً سرد ماحول میں ملتا ہے یعنی یہ جانور استوائی اور نیم استوائی مقامات کا رہائشی ہے۔
ہندوستان میں ہمیں ایک اور قسم کا اینٹلوپ ملتا ہے جس کا مقامی نام نیل گائے ہے۔ اس کے سینگ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور آٹھ انچ سے زیادہ نہیں بڑھتے۔ اس کا وزن ۶۰۰ پاؤنڈ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کا سینہ کافی گہرا ہوتا ہے اور مادہ کے سینگ نہیں ہوتے اور جسامت بھی چھوٹی اور رنگ بھی فرق ہوتا ہے۔ نیل گائے اور پالتو مویشی کافی مماثل ہوتے ہیں مگر نیل گائے کافی شرمیلا جانور ہے اور میرے تجربے کے مطابق نیل گائے کی نسبت سانبھر کے قریب پہنچنا آسان ہے۔ سبھی اینٹلوپ کی آنکھوں کے نیچے ایک گڑھا سا ہوتا ہے۔
ہندوستان کے بعض علاقوں میں نیل گائے مقامی افراد کی فصلوں میں تباہی پھیلاتے ہیں مگر ہندو اس کو نقصان نہیں پہنچاتے کہ ان کے لیے گائے مقدس جانور ہے۔ اینٹلوپ کے سینگوں پر خول چڑھا ہوتا ہے جس کے نیچے ہڈی والے سینگ ہوتے ہیں۔
افریقہ اور عرب کے غزال اور ہندوستان کے چنکارہ میں مجھے کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا۔ یہ خوبصورت جانور وسیع میدانی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور اس کے قریب پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ میں یہاں شمالی ہندوستان اور تبت میں پائے جانے والے تمام اینٹلوپ کے بارے تفصیل سے بات نہیں کر سکتا۔ یہاں چوسنگھا اینٹلوپ بھی ملتا ہےجس کے سر پر چار چھوٹے سینگ ہوتے ہیں۔ آگے والے بمشکلدو انچ لمبے جبکہ پیچھے والے چار انچ سے زیادہ نہیں بڑھتے۔ یہ زیادہ ملنے جلنے والے جانور نہیں اور ہمیشہ اکیلے یا جوڑے کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔
عام طور پر یہ اونچی گھاس میں پائے جاتے ہیں اور جب تک ہاتھی ان کے سر پر نہ پہنچ جائے، یہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ ان کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور ہودے پر بیٹھ کر ان کو رائفل سے گرانا مشکل ہوتا ہے۔ پیراڈاکس بندوق میں ایک نال میں گولی اور دوسرے میں گراپ ڈال کر اس کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
کالا ہرن سب سے بہترین شکار ثابت ہوتا ہے۔ یہ ہندوستانی قابلِ شکار جانوروں میں سب سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر اس کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ دیگر مقامات پر نہ ہونے کے برابر۔
کالا ہرن مل جل کر رہنے کا عادی ہوتا ہے اور عموماً بیس سے تیس ہرنوں کا جھنڈ عام ملتا ہے۔ یہ وسیع میدانوں کا رہائشی ہے اور مقامی کسانوں کی فصل تباہ کرتا ہے۔ نو انچ اونچی گندم کی فصل کا ازلی دشمن ہے۔ میں نے کئی سو ہرنوں کے جھنڈ بھی دیکھے ہیں مگر ایسا عام نہیں ہوتا۔ البتہ چند مربع میل کے رقبے میں کئی چھوٹے جھنڈ ملتے ہیں۔
آٹھ سال کی عمر کے نر کالے ہرن سے زیادہ خوبصورت کوئی جانور نہیں کہ اس کی کھال سیاہ کالی ہوتی ہے اور پیٹ، گلے اور چہرے پر سفید رنگ ہوتا ہے۔ ماداؤں کا رنگ زردی مائل بھورا ہوتا ہے اور ان کی رانیں اور پیٹ سفید ہوتے ہیں اور ان کا رنگ کبھی نہیں بدلتا اور سینگ بھی نہیں ہوتے۔ نر کی رنگت تین سال بعد جا کر گہری ہونے لگتی ہے اور ۲۰ انچ سینگ والے ہرن کی کھال کا رنگ پوری طرح سیاہ نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ چھ سال کی عمر تک پہنچ کر اس کی کھال پوری طرح سیاہ ہو جاتی ہے۔ ہرن کی رنگت بتدریج سیاہ ہوتی ہے اور بیس یا تین ہرنوں کے جھنڈ میں مختلف شیڈ دکھائی دے سکتے ہیں۔ پوری طرح سیاہ کھال والا واحد ہرن عموماً سردار ہی ہوتا ہے۔ جب بھی نوجوان ہرن ماداؤں پر بری نظر ڈالتے ہیں تو سردار اپنے سینگ پیچھے کو جھکائے اور ناک اوپر کیے بالائی ہونٹ کو سکوڑتا ہوا انہیں سزا دینے کو بڑھتا ہے تو بہت خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ ماداؤں کے اردگرد غرور سے چلتے ہوئے وہ اپنے سینگوں سے نوجوان ہرن پر حملہ کر کے اسے جھنڈ سے نکال دیتا ہے۔ پھر فخریہ انداز میں ماداؤں کے پاس لوٹتا ہے اور دیگر نوجوان ہرنوں کو خاموش تنبیہہ کرتا ہے کہ وہ ایسی حرکت نہ کریں۔
اپنے جھنڈ میں نظم و ضبط برقرار رکھنا شاید اس کی مستقل مصروفیت ہوتی ہے اور بیس کے قریب ماداؤں اور پانچ یا چھ نروں کی نگرانی کرتا ہے۔
کئی جھنڈوں میں ایک سے زیادہ پوری طرح کالے نر ہوتے ہیں اور ان کے درمیان اکثر خوب لڑائی ہوتی ہے۔ یہ بہت مشتعل مزاج ہوتے ہیں اور بہت بار لڑتے ہوئے نروں کو میں نے شکار کیا ہے کہ ان کا جھنڈ بھاگ جاتا ہے مگر ان کی توجہ ایک دوسرے پر ہی مرکوز رہتی ہے۔
زندہ ہرن کا وزن تقریباً ۸۵ پاؤنڈ ہوتا ہے۔ اس کے سینگ کی اوسط لمبائی کا کہنا ممکن نہیں کہ اس کی کوئی اوسط نہیں ہوتی۔ میں نے ۲۸ انچ لمبے سینگوں کے بارے بھی سنا ہے مگر میرے شکار کردہ ہرنوں میں سے کسی کے سینگ بھی ۲۳ انچ سے زیادہ نہیں تھے۔ میرے خیال میں ۱۹ انچ اوسط سمجھنی چاہیے۔ یہ بل دار ہوتے ہیں اور اچھے سینگ ایسے ہوں کہ دونوں بالکل ایک جیسے ہوں۔
شکاری چیتے کے باب میں کالے ہرن کے شکار کے بارے لکھ چکا ہوں۔ جب کالا ہرن شکاری تیندوے کے ذریعے شکار کیا جائے تو اس سے زیادہ دلچسپ منظر اور کوئی نہیں ہوتا۔
مزروعہ کھیتوں کے درمیان کوئی سڑک نہیں ہوتی اور منڈیروں پر آپ گھوڑوں پر یا بیل گاڑی پر سوار ہوں تو آپ کو سو یا دو سو گز پر ہرن دکھائی دے سکتے ہیں مگر جب پیدل ہوں تو کبھی بھی اتنا قریب نہیں آنے دیتے۔ انہیں ہاتھیوں سے بھی ڈر لگتا ہے اور ۲۰۰ گز سے قریب ہاتھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ سدھے ہوئے گھوڑے یا بیل یا گاڑ کے پیچھے چھپ کر چلتے ہوئے قریب پہنچ سکتے ہیں۔
کالے ہرن کا پسندیدہ مقام مسطح میدان ہوتے ہیں جہاں جنگل، پہاڑیاں اور کٹی پھٹی زمین قریب ہو تاکہ وہ اپنے بچوں کو وہاں پروان چڑھا سکیں اور خود بھی حفاظت سے رہ سکیں۔
چھوٹی گندم کے کھیتوں میں چند کارتوس چلائے جائیں تو ہرن ڈر کر علاقہ چھوڑ جاتے ہیں اور اگر چند میل کے رقبے میں جنگل یا پہاڑیاں نہ ہوں تو پھر یکسر غائب ہو جائیں گے۔
اگر دشوار جنگل موجود ہو تو ہرن وہاں بھی ملتے ہیں اور آپ انتہائی احتیاط سے ہوا کے رخ کا خیال رکھ کر ان کا شکار کر سکتے ہیں مگر یاد رہے کہ یہ جانور ہمیشہ محتاط رہتے ہیں۔
کھلے میدان میں جب ہرن فرار ہونے کا سوچ لیں تو ان کی رفتار اور انداز انتہائی دلفریب ہوتا ہے۔ مادائیں چند گز بھاگ کر رکتی اور منظر کا جائزہ لیتی ہیں۔ نر الگ سے رک کر جائزہ لیتے ہیں۔ جب فرار کا فیصلہ ہو جائے تو پھر ہرن نہیں رکتے۔ دوڑتے ہوئے یہ ہرن جست لگاتے ہیں اور ہوا میں سیدھا اوپر کو چھ فٹ اونچا اڑتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور جونہی ان کے سم زمین سے لگتے ہیں، ایک اور جست لگا کر آگے کو جاتے ہیں۔ ہموار میدان میں ان کی دوڑ عموماً پچاس میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی دوڑ سکتے ہیں کہ تیز ترین انگریز تازی کتے ان سے آگے نہیں نکل سکتے۔
تجربہ کیے بغیر اس بارے رائے قائم کر لینا مناسب نہیں۔ میں نے بہت مرتبہ مقامی کتوں کے ساتھ زخمی ہرن کا پیچھا کیا ہے مگر کبھی بھی تازی کتوں کو ہرن کا پیچھا کرتے نہیں دیکھا۔ ایسی جگہ تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے جہاں تازی کتے پوری رفتار سے بھاگ سکیں کیونکہ تازی کتوں کو نہ صرف ہموار بلکہ سیدھا میدان درکار ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ہل چلانے کے بعد مٹی کے ڈھیلے نہیں برابر کیے جاتے اور انسان کے سر کے برابر حجم کے ڈھیلے پڑے ہوئے ملتے ہیں جو دھوپ کی وجہ سے بہت سخت ہو جاتے ہیں۔ کالا ہرن ایسی جگہوں کا عادی ہوتا ہے مگر تازی کتے اس کے عادی نہیں ہوتے۔ سوڈان میں تازی کتے غزال کے خبردار ہونے سے قبل پوری رفتار پکڑ لیں تو ہرن نہیں بچ سکتا۔ اس لیےمیرا خیال ہے کہ اگر ہموار میدان ہو تو تازی کتوں کو کالے ہرن کو پکڑنے میں زیادہ دقت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم کتے کی دوڑ ہرن سے سو گز سے کم فاصلے پر شروع ہو جائے تو پھر ایسا ہو سکے گا۔
دو سال قبل میں ایک ایسے ضلع میں تھا جہاں کالا ہرن بکثرت پایا جاتا تھا۔ میں نے وہاں ایک گاؤں سے دو عمدہ کتے حاصل کیے۔ ان کتوں سے میرا واسطہ عجیب طور پر پڑا۔ ہمارا کیمپ ایک تالاب کے اونچے کنارے پر لگا تھا۔ یہاں املی کے کئی درخت تھے جن کا سایہ ہمارے خیموں پر پڑ رہا تھا۔ ایک بہت بڑا پیپل کا درخت بھی تھا جس کے عین وسط سے کھجور کا ایک درخت نکلا ہوا تھا جیسے کسی جہاز کا مستول ہو۔ چالیس فٹ کی بلندی پر کھجور کی شاخیں شروع ہو گئی تھیں۔ ہمارا قیام چونکہ اونچی جگہ پر تھا، سو یہاں سے ہم بسہولت دور دور تک غیر مزروعہ زمین کو دیکھ سکتے تھے۔ نصف میل دور مجھے ایک کالا ہرن اکیلا لیٹا ہوا دکھائی دیا۔
اکیلے ہرن پر گھات لگانا، غول کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ سو میں نے بیل گاڑی کے پیچھے چلتے ہوئے ہرن کی جانب رخ کیا۔ گاڑی بان تجربہ کار اور معقول انسان تھا۔
بیل گاڑی چلانا بہت محنت طلب کام ہے۔ بیل کی عجیب فطرت ہوتی ہے اور وہ مطلوبہ سمت مشکل سے ہی جاتے ہیں۔ اگر کئی بیل گاڑیاں کسی سڑک پر چل رہی ہوں تو مسئلہ نہیں ہوتا کہ سبھی بیل ایک قطار میں سڑک پر چلتے جاتے ہیں مگر جونہی سڑک سے اتر کر کچے کا رخ کیا جائے تو پھر بیلوں کی سمت برقرار رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ جب شکاری جانور چل رہا ہو تو گاڑی بان کو مطلوبہ سمت بیل ہانکنے میں بہت دقت ہوتی ہے۔
گاڑی بان ایک بیل کو آر چبھوتا ہے تو دوسری کی دم زور سے مروڑتا ہے اور پھر دونوں کی دم کے نیچے اپنے پیر سے گدگداتا ہے اور اس طرح بیل گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ اس دوران آپ بیل گاڑی کے عین پیچھے یا پہلو میں چھپ کر چلتے ہیں اور جونہی گاڑی شکار سے سو گز قریب پہنچے تو آپ رائفل سے گولی چلانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر گاڑی مناسب طور پر چلائی جائے تو شکاری جانور کو خبردار کیے بغیر اتنا قریب پہنچنا دشوار نہیں۔
اس دوران ہم لیٹے ہوئے کالے ہرن سے ۱۵۰ قریب پہنچ گئے۔ پھر جا کر ہرن اٹھا اور حیرت سے ہمیں دیکھنے لگا۔ فوراً ہی گاڑی بان نے گاڑی کو دائیں جانب موڑا تاکہ ہرن ہمارے بائیں جانب ہو۔ ہرن نے ہمیں بے ضرر مان لیا۔
نصف منٹ بعد گاڑی بان نے پھر بائیں جانب موڑ کاٹا اور ہرن کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس طرح ہم ۱۱۰ گز دور رہ گئے تھے کہ ہرن نے ہمیں گھورنا شروع کر دیا۔
میں گولی چلانے کے لیے تیار کھڑا ہو گیا اور بیل گاڑی بغیر رکے دائیں جانب مڑ گئی۔ یاد رہے کہ اگر بیل گاڑی ایک لمحے کو بھی رک جائے تو ہرن بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
میرے پاس ۳۶۰ بور کی رائفل تھی اور چونکہ ہرن میری جانب منہ کیے کھڑا تھا، سو میں ذرا سا نیچے نشانہ لیا اور اس کی اگلی ٹانگ سینے سے ذرا نیچے توڑ دی۔ ایک لمحے کو ہرن گرا مگر پھر اٹھ کر لنگڑاتا ہوا ہلکی ڈھلوان پر نیچے ندی کی سمت بھاگا۔ پھر ندی عبور کر کے اس نے دوسری جانب گھاس کے میدان پر چڑھنا شروع کر دیا اور پھر دو سو گز دور پہنچ کر رک گیا۔ مجھے صرف اتنا اندازہ تھا کہ ہرن کی ٹانگ یا شانہ ٹوٹا ہوا ہے سو میں نے رائفل بھری اور ہرن کے گرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اچانک میرے قریب سے دو کتے بھاگتے ہوئے گزرے۔ شاید دور کہیں مویشیوں کے ریوڑ کے ساتھ وہ ہوں گے اور گولی کی آواز سن کر آئے ہوں گے۔
انہوں نے پوری رفتار سے دوڑتے ہوئے ندی عبور کی اور دوسرے پر گھاس پر دوڑنے لگے جہاں گھاس دو فٹ اونچی تھی۔ خون کے نشانات کا پیچھا کرتے کرتے وہ ہرن سے تیس گز تک جا پہنچے جو ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔ ہرن ایک لمحے میں ہوا ہو گیا۔ کتوں نے پیچھا شروع کر دیا۔ اگرچہ ہرن محض تین ٹانگوں پر دوڑ رہا تھا پھر بھی پہلے ڈیڑھ سو گز تک وہ کتوں سے دور سے دور تر ہوتا گیا مگر پھر مزروعہ زمین آ گئی جہاں تازہ پانی لگا ہوا تھا۔ یہاں ہرن کو مسئلہ ہوا۔ اس کے کُھر دھنسنے لگے مگر کتوں کی رفتار پر کوئی فرق نہ پڑا اور تھوڑی دیر میں اس کو دبوچ کر بیٹھ گئے۔
مقامی دیہات کے کچھ لوگ مجھے دیکھ رہے تھے، نے کتوں کو شکار کرتے دیکھا تو اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کتوں کو موٹے بانسوں سے مارنا شروع کر دیا۔ کتوں نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔ بڑی مشکل سے میں نے انہیں روکا۔ کتے بڑی دقت سے الگ ہوئے مگر بار بار ہرن پر جھپٹنے کو آ جاتے۔ ان کا یہ رویہ شکار کے حوالے سے بہت کارآمد تھا۔
میں نے ان دونوں کتوں اور ان کے مالک کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ یہ کتے عام کتوں اور بنجاروں کے بڑے کتوں کے ملاپ سے پیدا ہوئے تھے۔ بنجارے مشرقی یورپ کے جپسیوں سے مشابہہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مستقل سفر میں رہتے ہیں اور ہندوستان کے طول و عرض میں مختلف سامان منتقل کرنے کے لیے بیلوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمیشہ انتہائی خونخوار اور بڑے کتے ہوتے ہیں جو رات کو ان کے خیموں اور سامان کی حفاظت کرتے ہیں
ان کتوں کے نام کابری اور مورا تھے۔ کابری کی عمر ایک سال تھی اور اس کے سیاہ بال نرم تھے۔ مورا بھی کالے رنگ کا تھا مگر اس کے بال بہت لمبے تھے۔ دونوں کی اونچائی ۲۶ انچ تھی۔
یہ دونوں کتے میرے عمدہ ساتھی بن گئے۔ اگرچہ کابری کو یورپی کبھی پسند نہ آئے مگر میرے ساتھ وہ ہمیشہ ٹھیک رہا۔ تاہم اسے شکار سے زیادہ دلچسپی تھی اور رائفل چلنے کی آواز اس کو پوری طرح شکار کی طرف متوجہ کر دیتی۔ مورا کافی دوستانہ رویے کا مالک تھا مگر شکار کے تعاقب میں کسی حد تک وحشی ہو جاتا۔
ایک بار طویل فاصلے سے گولی چلا کر میں نے ایک ہرن کی اگلی ٹانگ توڑی اور ہرن ایسے بھاگا جیسے اسے گولی ہی نہ لگی ہو۔ اس کی ٹانگ گھٹنے سے ذرا اوپر ٹوٹ گئی تھی۔ کابری میرے ساتھ اکیلا تھا اور تین میل تک اس نے اکیلے بھاگتے ہوئے ہرن کا تعاقب جاری رکھا۔ ہاتھی اور ہرن دونوں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ میں ایک سبک رو ہاتھی پر سوار پیچھے گیا اور راستے میں ملنے والے ہر بندے سے ہرن اور کتے کا پوچھتا گیا۔
ہر بندے نے مجھے ایک ہی بات بتائی کہ اس راستے سے ایک ہرن اور اس کے پیچھے کتا گزرا ہے اور پھر وہ ہاتھ کے اشارے سے سمت بھی بتا دیتے۔ آخرکار مزروعہ زمین پر پہنچ کر جہاں چھ انچ اونچی گندم اگی ہوئی تھی، دوربین کی مدد سے مجھے کچھ لوگ چلتے ہوئے دکھائی دیے اور کتا ان کے پیچھے چل رہا تھا۔
جب ہم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ان لوگوں نے ہرن کی ٹانگوں کو ڈنڈے سے باندھ کر اسے اٹھایا ہوا تھا اور ہمارا کتا کابری ان کے پیچھے چل رہا تھا۔ اس نے تعاقب کرتے ہوئے نالے میں ہرن کو دبوچ لیا تھا اور گاؤں قریب ہی تھا۔ مقامی افراد ہرن کو قابو کر کے ہمارے پاس تین میل دور کیمپ لا رہے تھے۔
ہرن ابھی تک زندہ تھا کہ یہ بندے ہندو تھے اور ہرن کو ہلاک نہیں کر سکتے تھے۔ کابری کی یہ ابتدائی مہم تھی اور پھر اس کی کارکردگی بہتر سے بہترین ہوتی گئی۔
اگر اینٹلوپ کو درست جگہ پر گولی نہ لگے تو ان کو مارنا ممکن نہیں۔ کالے ہرن کا شکار مزید دشوار ہوتا ہے۔ اگر آس پاس کہیں جنگل ہو تو وہ اس میں چھپ کر بے بسی کی موت مر جاتا ہے۔ تاہم پھیپھڑوں، دل یا گردن پر لگنے والی گولی فوری مہلک ثابت ہوتی ہے۔ اس کی جسامت چھوٹی ہے اور کارگر جگہ محض تین یا چار انچ چوڑی ہوتی ہے۔ اس چھوٹی سی جگہ کا نشانہ عموماً ۱۰۰ یا ۱۲۰ گز سے لیا جاتا ہے۔ میدانی علاقے میں فاصلے کا درست اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے سو چھوٹے بور کی ہائی ولاسٹی ایکسپریس رائفل استعمال کرنی چاہیے تاکہ گولی کی حرکت سیدھی ہو۔ میرے خیال میں ۴۰۰ بور اور ۴ ڈرام بارود اس مقصد کے لیے بہترین رہتے ہیں۔ یہ واحد شکار ہے جس کے لیے میں ایسی گولی کو ترجیح دیتا ہوں۔
اعشاریہ ۴۰۰ بور کی لمبی گولی بہت کھوکھلی ہوتی ہے اور اس کے درمیان ایک انچ جتنی خالی جگہ ہوتی ہے اور ایک انچ ہی موٹائی ہوتی ہے۔ یہ گولی لگنے کے بعد ریزہ ریزہ نہیں ہوتی بلکہ اگر خالص سیسے کی بنی ہو تو اگلے سرے پر نصف انچ جتنی موٹی ہو جائے گی اور کھمبی نما شکل بن جائے گی۔ اس طرح گولی ہرن کے جسم کے پار ہو کر میل بھر دور کسی دیہاتی کو لگنے کے خطرے سے بچ جاتی ہے۔
جہاں ہمارا کیمپ تھا، وہاں ایک ہندو پنڈت گاؤں والوں کے لیے موجود تھا۔ یہ بندہ غیرمعمولی شخصیت کا مالک تھا اور اسے کئی شعبدے آتے تھے۔ اس کے جسم پر چھوٹی سی لنگوٹی ہوتی تھی اور سر تا پا بھبھوت ملے ہوئے تھا۔ ایسے حلیے میں اس کے منہ پر مسکراہٹ اسے عجیب مخلوق بنا کر پیش کرتی تھی۔ اس کی بڑی آنکھیں بہت چمکدار تھیں جو کہ ہندوستان میں مذہبی لوگوں کے لیے عام بات ہے۔
پنڈت اس گاؤں میں بہت اہم سمجھا جاتا تھا اور اس کے پاس ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا جو گاؤں کے کنارے واقع تھا جہاں اس علاقے کی تمام تر مذہبی رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ مندر آٹھ مربع فٹ پر بنا ہوا تھا سو زیادہ لوگ نہیں سما سکتے تھے۔ یہاں مندر پر مختلف دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں جن کی شکل سے لگتا تھا کہ انہیں لال بخار ہوا ہوگا۔
پوجا کی شروعات کے لیے ایک بڑا باجہ بجایا جاتا تھا جس سے عجیب سی آواز نکلتی تھی جو کسی بھی دوسرے آلہ موسیقی سے نہیں آ سکتی۔ یہ پجاری اس مندر کا واحد نمائندہ تھا۔ اس کا واحد مشغلہ مندر کی صفائی کرنا تھا۔ اس کا کوئی گھر نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی بستر یا زمین پر سوتا تھا۔ اس نے اپنے سونے کے لیے ایک لمبا سا ڈنڈا زمین سے تین فٹ کی اونچائی پر نصب کیا ہوا تھا اور کندھوں کے مقام پر لکڑی کا ایک آڑا ٹکڑا لگا ہوا تھا۔ اس پر وہ ہر روز رات کو مزے سے سوتا تھا۔
ہم دونوں اچھے دوست بن گئے اور میں اکثر مندر کے لیے تحائف دیتا رہتا تھا۔ مجھے مذہبی لوگ ویسے بھی پسند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی عبادت گاہوں کے لیے تحفے قبول کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ میرے ترجمان نے اس پجاری کو ‘ایک طرح کا بشپ‘ قرار دیا اور پھر ہمارے کیمپ میں اس کا یہی نام پڑ گیا۔
یہ بندہ بہت شکاری فطرت کا مالک تھا۔ مذہبی ہونے کے باوجود اسے شکار کا شوق تھا۔ ہمارے کیمپ کے نیچے موجود تالاب میں بے شمار بطخیں اور مرغابیاں تھیں اور میں مسلسل پورے کیمپ کے لیے گوشت بہم پہنچاتا رہتا تھا۔ جب بھی شکار کے دوران بشپ ہمراہ ہوتا تو زخمی اور ہلاک شدہ پرندوں کو اٹھانے کے کسی شکاری کتے کی مانند تالاب میں گھس کر اٹھا لاتا۔ تالاب کے پانی میں گھستے ہی اس کا بھبھوت اتر جاتا اور نیچے سے اچھا خاصا خوش شکل انسان نکل آتا۔ ایک بار میں نے مندر کی سجاوٹ کے لیے اسے کچھ روپے عطیہ کیے۔ وہ اتنا خوش ہوا کہ اس نے ہمیں مختلف کرتب دکھائے۔ اس کی چھلانگیں بہت اونچی ہوتی تھیں اور قلابازیاں بھی کھاتا تھا۔ پھر وہ اپنے ہاتھوں پر الٹا چلا اور اپنے ہاتھوں کو ٹانگوں کے نیچے باندھ کر اس نے مینڈک کی طرح چھلانگیں لگائیں اور پھر اس نے آخر پر سخت زمین پر ناک کے بل کھڑا ہو کر دکھایا۔ یہ ایسا عمدہ کرتب تھا کہ اگر لندن میں کرتا تو بہت کمائی ہوتی۔
ایک شکار کے دوران ہمارے بشپ نے کمال دکھایا۔ میں نے ایک کالے ہرن کو زخمی کیا جو کھلے میدان میں دوڑ پڑا۔ اگرچہ وہ کافی آگے تھا مگر میں نے اس کے پیچھے کابری کو دوڑا دیا۔ اس میدان میں آٹھ انچ اونچی گندم اگی ہوئی تھی۔
میں تیز ہاتھی پر سوار تھا، سو ہرن اور کتا ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہو پائے۔ سارے گاؤں والے بھی تماشا دیکھنے نکل آئے۔ مسافر سڑک پر اپنا سامان رک کر منظر دیکھنے لگے۔ کھتیوں میں کام کرتے کسان کتے کو ہلہ دینے اور ہرن کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس طرح مجبور ہو کر ہرن نے اپنا رخ بدلا اور سیدھا گاؤں سے گزرا اور پھر بائیں مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہمارے ہاتھی کی رفتار آٹھ میل فی گھنٹہ تھی اور مجھے یقین تھا کہ ہرن یا تو ہمارے کیمپ سے گزرے گا یا پھر تالاب میں گھس جائے گا۔ کتا اس سے سو گز پیچھے عمدگی سے دوڑ رہا تھا۔
ہم مڑ کر گاؤں سے گزرے اور اچانک ہمیں مجمع دکھائی دیا جس کے وسط میں بشپ صاحب ہرن کو سینگوں سے پکڑے کھڑا تھا۔ ہرن آزاد ہونے کے لیے بری طرح مچل رہا تھا۔ پتہ چلا کہ ہرن بھاگتے ہوئے مندر کے پاس سے گزرا تو بشپ نے جست لگا کر اسے سینگوں سے تھام لیا۔ تاہم کتے کو روکنے میں انہیں کافی مشکل ہوئی کہ قریب آتے ہی کتے نے ہرن کو گلے سے پکڑ لیا اور دیہاتیوں نے بانسوں سے اسے بری طرح مار کر ہٹایا۔
کالے ہرن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کا خوبصورت ترین جانور ہے اور رائفل سے شکار کے لیے بہترین۔ تاہم ایک جیسے واقعات بار بار لکھنے سے اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ سو میں اس باب کو یہیں ختم کرتا ہوں اور اگلے باب میں افریقہ کے اینٹلوپ پر لکھتا ہوں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۱
افریقی اینٹلوپ
یہ دلچسپ جانور افریقہ کے تقریباً تمام علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اقسام مختلف جگہوں پر اتنی فرق ہوتی ہیں کہ انہیں ایک ہی نوع میں شمار کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ تاہم یہ سب اینٹلوپ ہی ہیں جیسا کہ ان کے سینگوں کی ساخت اور آنکھوں کے نیچے آنسوں کے لیے سوراخ ہوتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، اینٹلوپ کے سینگ ہرن سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اور بیل سے مشابہہ ہوتے ہیں یعنی ہڈی کے اوپر خول کی مانند منڈھے ہوئے اور مستقل ہوتے ہیں۔
ان کی جسامت بھی بہت فرق ہوتی ہے۔ سب سے چھوٹا ڈِک ڈِک محض چھ پاؤنڈ وزنی ہوتا ہے اور روآن اینٹلوپ اور ایلانڈ جیسے جانور ۹۰۰ یا ۱٫۰۰۰ پاؤنڈ وزنی بھی ہوتے ہیں۔
سب سے عام قسم کے اینٹلوپ ہارٹے بیسٹ کہلاتے ہیں۔ اس جانور کی مزید دو اقسام ہیں جو سینگوں کی مدد سے فرق کی جا سکتی ہیں۔ اباسینیہ میں یہ پھیلے ہوئے اور بھینسوں سے مشابہہ ہوتے ہیں جبکہ وسطی افریقہ میں یہ اوپر کو اٹھے ہوئے اور قریب قریب اور ان کی بنیاد موٹی ہوتی ہے۔
ہارٹے بیسٹ کی کھوپڑی عجیب ہوتی ہے کہ مغز سے یہ چار انچ اوپر اٹھی ہوئی ہوتی ہے اور اسی ابھار سے سینگ نکلتے ہیں۔ اگر سارا سر نہ رکھنا ہو تو آری سے یہ حصہ کاٹ کر الگ کیا جا سکتا ہے اور سینگوں کی ترتیب بھی خراب نہیں ہوتی۔
سینگ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دفاع کے لیے بنائے گئے ہوں کہ کھوپڑی سے سیدھا ایک فٹ جتنا اوپر کو اٹھتے ہیں اور پھر سات یا آٹھ انچ پیچھے کو مڑتے ہیں اور ان کے سرے بہت تیز ہوتے ہیں۔ جب سر جھکا کر حملہ کو روکا جائے تو یہی سرے دشمن کو مڑے ہوتے ہیں اور سر کو جھٹکا دیتے ہی دشمن کے جسم میں پیوست ہو جاتے ہیں۔
اس کی کھال خوبصورت اور شاہ بلوط قسم کی ہوتی ہے اور سرخی مائل بھی۔ سورج کی روشنی میں خوب چمکتی ہے۔
زندہ ہارٹے بیسٹ کا وزن ۵۶۰ پاؤنڈ سے زیادہ ہو سکتا ہے اور تیز ترین اینٹلوپ میں سے ایک ہے اور اس سے آگے نکلنا کسی دوسرے اینٹلوپ سے زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ میں نے آج کوئی ایسا گھوڑا نہیں دیکھا جو اسے دوڑ میں پیچھے چھوڑ سکے اور حمران عرب تو اس کے پیچھے گھوڑا دوڑانے کو فضول ہی سمجھتے ہیں۔ میں نے کئی بار ان کے پیچھے عمدہ گھوڑے دوڑائے ہیں اور ان سے قریب بھی ہوا۔ تاہم جونہی سو گز دور ہوتا تو ایسا لگتا کہ انہیں خطرے کا احساس ہو گیا ہے اور بغیر کسی کوشش کے وہ گھوڑے سے آگے نکل جاتے۔
ان کا نام ولندیزی زبان سے آیا ہے جس کا مطلب ‘مشکل جانور‘ ہے اور ان پر رائفل سے نشانہ لگانے کے لیے کافی مہارت چاہیے۔ جب تک انہیں اعضائے رئیسہ پر گولی نہ لگے، یہ بہت دور تک بھاگ کر شکاری سے بچ جاتے ہیں۔
ان کا رنگ بہت شوخ ہے، سو سبز جھاڑیوں میں بہ آسانی دکھائی دے جاتے ہیں اور کھلے میدان میں دور سے دکھائی دیتے ہیں۔
دیگر جانوروں کی مانند ان کے قریب جانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے اور عموماً ان میں سے ایک جانور کسی اونچی جگہ کھڑا ہو کر نگرانی کرتا ہے جہاں سے دور دور تک دکھائی دیتا رہے۔ وسطی افریقہ میں دیمک کی بمیٹھیاں بہت پائی جاتی ہیں اور زمین سے پانچ یا چھ فٹ اوپر ہوتی ہیں۔ نگرانی پر مامور جانور عموماً انہی میں سے کسی ایک پر کھڑا ہو کر نگرانی کرتا ہے اور باقی جانور آرام سے پیٹ بھرتے ہیں۔
ہارٹے بیسٹ کی خوراک گھاس پر مشتمل ہوتی ہے مگر کئی اقسام کے مموسا درخت کی نرم کونپلیں بھی کھانا اسے پسند ہے۔ یہ کونپلیں برسات کے آغاز میں پھوٹتی ہیں۔ اس موسم میں بارش کی کثرت سے نہ صرف جھاڑ جھنکار کافی اونچا اگ آتا ہے بلکہ سارا علاقہ ہی ناقابلِ عبور بن کر رہ جاتا ہے اور آٹھ سے دس فٹ اونچی گھاس راہ روکے کھڑی ہوتی ہے۔
پھر یہ گھاس ایک طرح سے پکتی ہے اور جب خشک موسم شروع ہوتا ہے تو دو یا تین ماہ کے دوران یہ اتنی خشک ہو جاتی ہے کہ اسے آگ لگائی جا سکتی ہے۔ مقامی لوگ ہر طرف سے اسے آگ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ جب شمالی تیز ہوا چل رہی ہو تو منظر بہت خوبصورت لگتا ہے کہ شعلوں کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ آگ انتہائی تیزی سے پھیلتی ہے اور گھاس کے کھوکھلے تنے پھٹتے ہیں اور اونچی شاخوں پر پتے جلتے ہیں اور آگ انتہائی بپھری ہوئی سب کچھ تباہ کرتی گزرتی ہے۔ اس کے پیچھے ریشمی سیاہی مائل زمین بچ جاتی ہے۔
چند ہی روز میں بہت زیادہ علاقہ اسی طرح صاف کر دیا جاتا ہے مگر یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ گھاس کو ہوا کے رخ کی مناسبت سے آگ لگائی جاتی ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے سالانہ آتش زنی سے قبل جانور وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ خشک نالوں اور دریاؤں میں انہیں پناہ مل سکتی ہے اور ہر سال وہیں چھپ جاتے ہوں گے۔ جیسا بھی ہو، آگ لگنے سے قبل جانور غائب ہو جاتے ہیں اور چند دن بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔
شکاری کے لیے یہی وقت ہوتا ہے جب تمام جانور ندی نالوں میں پہنچ جاتے ہیں کہ وہاں سال کے خشک ترین موسم میں بھی سبزہ پایا جاتا ہے۔ ایسے دریاؤں کے کناروں پر عموماً بیری کے جھنڈ اگے ہوتے ہیں اور ان کا پھل اینٹلوپ کو بہت پسند آتا ہے۔ یہ بہت بڑی مقدار میں زمین پر گرا ہوتا ہے۔
آہستہ آہستہ ہوا سے راکھ اڑتی جاتی ہے اور جنگل بالکل پتوں سے خالی ہو جاتا ہے جیسے سردیوں میں انگلستان کے جنگل صاف ہو جاتے ہیں۔ اس دوران مموسا درخت جو آگ سے جھلسے ہوتے ہیں، ان سے گوند نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس گوند کی کئی اقسام ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ قیمتی گوند دہرے کانٹے والے درخت کی ہوتی ہے۔ اس درخت کے کانٹوں میں پھنسنے کے بعد اس سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔
سب سے اچھی گوند اباسینیہ کے پہاڑی علاقوں سے لے کر عتبارہ دریا تک ملتی ہے۔ بعض جگہوں پر جہاں یہ گوند بہت ملتی ہے، وہاں کوئی آبادی نہیں اور نہ ہی کوئی بندہ اسے جمع کرتا ہے۔ اس جگہ چونکہ کسی حکومت کی عملداری نہیں، اس لیے لوگ یہاں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ بے شمار درختوں سے گوند ایسے لٹکی ہوئی دیکھی ہے جیسے کسی درخت پر شفاف نارنگیاں لٹک رہی ہوں۔ یہ گوند تنوں اور شاخوں سے لٹک رہی ہوتی ہے اور اتنی خوبصورت لگتی ہے کہ بہت مرتبہ میں نیچے اتر کر جتنی جمع کر سکتا ہوں، کر لیتا ہوں۔ ایسی جگہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے الہ دین کے جادوئی چراغ والی داستان کے خزانے میرے سامنے ہوں۔
تازہ حالت میں یہ میٹھی اور خوش ذائقہ ہوتی ہے اور اس کے اندر مائع گوند بھی ملتی ہے جو وقت کے ساتھ سخت ہو جاتی ہے۔ یہ گوند چھوٹے مالٹے کی شکل کی ہوتی ہے اور جب اسے ڈبہ بند کر کے انگلستان بھیجا جاتا ہے تو اس کی شکل خراب ہو جاتی ہے اور خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔
خشک موسم میں جب مموسا پر گوند کی بہار ہوتی ہے تو سارے جنگلی جانور اس کی طرف آتے ہیں۔ ببون کے بڑے غول دکھائی دیتے ہیں جو گوند جمع کر رہے ہوتے ہیں۔ انسانوں کی مانند وہ چلتے ہیں اور ماداؤں نے بچوں کو اٹھایا ہوا ہوتا ہے اور جونہی گوند سے لدا ہوا کوئی درخت دکھائی دیتا ہے تو کم عمر بندروں میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور پھر بڑی عمر کے ببون آ کر نظم قائم کرتے ہیں اور سارے ببون گروہوں کی شکل میں درختوں پر ہلہ بول دیتے ہیں اور اتنا سیر ہو کر کھاتے ہیں کہ پیٹ نکل آتے ہیں۔
اینٹلوپ کو بھی یہ گوند بہت بھاتی ہے اور مموسا کے درختوں کے پاس انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
عربوں میں ہارٹے بیسٹ کی کھال کی بہت قدر کی جاتی ہے اور رنگنے کے بعد اس سے زیادہ سخت اور دیر پا کوئی اور کھال نہیں۔ پورے جانور کی کھال کسی جراب کی طرح اتاری جاتی ہے۔ اسے رنگنے کے بعد ٹانگوں، گردن اور پیچھے کے سوراخ سی دیے جاتے ہیں اور ساری کھال تھیلا بن جاتی ہے۔ اس تھیلے میں مکئی کو فروخت کرنے کے لیے بھرا جاتا ہے۔
میں نے اباسینیہ اور وسطی افریقہ میں بہت سارے ہارٹے بیسٹ شکار کیے ہیں اور ان کا تعاقب کرنے اور گولی چلانے کے لیے کافی مہارت درکار ہوتی ہے۔ نر اور مادہ، دونوں کے سینگ ہوتے ہیں۔
اس کی ایک اور قسم وسطی افریقہ میں عام ملتی ہے مگر اباسینیہ میں نہیں ہوتی۔ اس کی جسامت ذرا سی کم اور سینگ چھلے دار اور ذرا سا پیچھے کو مڑے ہوتے ہیں۔ تاہم دونوں کی عادات اور خصائل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں جنسوں میں سینگ پائے جاتے ہیں۔ اس کا رنگ انتہائی شوخ شاہ بلوط جیسا ہوتا ہے اور رانیں اور ٹانگیں کالی ہوتی ہیں۔ اس کا گوشت تمام اینٹلوپ سے بہتر ہوتا ہے۔
یہ جانور بھی پیٹ بھرنے سے قبل ایک چوکیدار مقرر کرتے ہیں اور میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ میں باقی غول کو چھوڑ کر اس سنتری پر گھات لگا کر اسے شکار کروں۔ جہاں دیمک کی بمیٹھیاں عام ہوتی ہیں، وہاں مجھے اکثر کامیابی ہو جاتی تھی کہ چھپ کر پیش قدمی آسان ہوتی تھی۔
بڑے اینٹلوپ میں کُوڈو سب سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ جانور سب سے زیادہ دلکش ہوتا ہے اور جسم پر خوبصورت نشانات ہوتے ہیں۔ اس کی اونچائی ۱۳ ہاتھ ہوتی ہے اور رنگ سرمئی اور بالکل سفید پٹیاں بنی ہوتی ہیں۔ سینگ بہت لمبے اور بل کھائے ہوتے ہیں۔ اس میں مادہ کے سینگ نہیں ہوتے۔ اس کی خوراک بھی دیگر اینٹلوپ سے فرق ہے کہ یہ کم ہی کھلے میدان میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ جگہیں گہری کھائیاں اور گھنے درختوں سے بھرے نالے ہوتے ہیں۔
اباسینیہ میں ایلانڈ نہیں ہوتے اور نہ ہی وسطی افریقہ کے سفر کے دوران کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم مغرب سے بحر غزال کے علاقے سے غلاموں کے شکاریوں کے پاس ایک بہت بڑے سینگوں کا جوڑا دیکھا ہے۔
خطِ استوا کے شمال میں سب سے بڑا اینٹلوپ روآن اینٹلوپ کی ایک قسم سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا نام ہِپو ٹراگس بیکری ہے جو جنوبی افریقہ کے روآن اینٹلوپ سے فرق ہے۔ اس کی اونچائی ۱۳ ہاتھ ۳ انچ سے ۱۴ ہاتھ تک ہوتی ہے۔ اس کی جسامت انتہائی بھاری اور بڑے کُوڈو کی نسبت سست الوجود ہوتا ہے۔ اس کے سینگ بھاری، بل دار اور پیچھے کو مڑے ہوئے ہوتے ہیں اور جب سر اٹھائے تو سینگوں کی نوک شانوں کو چھوتی ہے۔ گردن پر موجود ایال کی وجہ سے کسی حد تک گھوڑے سے مماثل لگتا ہے۔ میں نے اس کا وزن تو کبھی نہیں کیا مگر اندازہ ہے کہ زندہ روآن اینٹلوپ کا وزن ۷۰۰ پاؤنڈ ہونا چاہیے۔ نر اور مادہ دونوں کے سینگ ہوتے ہیں مگر نر کے سینگ زیادہ بڑے اور بھاری ہوتے ہیں۔
میں نے اس نسل کو پہلے پہل اباسینیہ میں بحر سلام میں دیکھا اور پھر ستیتی دریا کے کنارے۔ وسطی افریقہ میں ان کی تعداد زیادہ ہے مگر ہارٹے بیسٹ یا بڑے کُوڈو جتنی تعداد میں نہیں ہوتے۔
بڑے اینٹلوپ کی قسم کا ایک بہت خوبصورت جانور واٹر بک یا آبی اینٹلوپ کہلاتا ہے۔ یہ انتہائی بھاری جانور ہے اور اس کی کھال اور بالوں کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے۔ اس کا وزن زندہ حالت میں ۶۰۰ پاؤنڈ ہوتا ہے۔ گہرے بھورے رنگ کے سخت بال گلے پر پائے جاتے ہیں۔ سینگ لمبے اور بل دار ہوتے ہیں اور ہلکا سا پیچھے مڑتے ہیں اور پھر آخری سرے کچھ آگے کو جھکے ہوتے ہیں۔ اس کا گوشت ریشے دار اور اچھا نہیں ہوتا اور عرب بھی اسے کھانا گوارا نہیں کرتے۔
واٹر بک لفظ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ہرن دریاؤں اور تالابوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ نر بہت شاندار دکھائی دیتا ہے۔ اس کے سینگ بکری سے مماثل ہوتے ہیں۔ ماداؤں کے سینگ نہیں ہوتے اور دور سے دیکھیں تو مادہ سانبھر یا سرخ ہرن کی مادہ دکھائی دیتی ہیں۔
میں نے ان کا بہت شکار کیا ہے کہ کئی سالوں تک اپنے اور ساتھیوں کے لیے گوشت فراہم کرنا میری ذمہ داری رہا ہے۔ اس میں کوئی بہت فخر کی بات نہیں ہے مگر ایک واقعے کے بارے ضرور بیان کروں گا کہ ایک نر میرے ہاتھوں اس لیے بمشکل آ سکا کہ گولی زیادہ اندر تک نہیں گھسی تھی۔
ہمارا ۵۷ کشتیوں کا قافلہ سفید نیل پر سفر کر رہا تھا اور کبھی ایک کشتی آگے ہوتی تو کبھی دوسری کشتی اس کی جگہ لے لیتی۔ سارا قافلہ کئی میل لمبائی میں پھیلا ہوا تھا۔
میری کشتی سب سے آگے تھی اور ہم نے ایک سہ پہر کو کنارے پر لنگر ڈال دیے جہاں سے ایک ہزار ایکڑ کے لگ بھگ پہاڑیاں تھیں جن پر سبزہ دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی تک سفر کے دوران سفید نیل کی دلدلوں کے بعد یہ بہت خوبصورت منظر تھا۔ اپنی رائفل اٹھا کر اپنے چیف انجینئر مسٹر ہِگن بوتھم اور لیفٹننٹ بیکر کے ساتھ نیچے اترا۔
ہم لوگ کافی دور تک ان پہاڑیوں پر چلتے رہے مگر گولی چلانے کا موقع نہ ملا۔ تاہم کئی بار جانور بھاگنے کی آواز آئی۔ واپسی پر جب ہم نے کشتیوں کی طرف واپسی پر اترائی کا رخ کیا تو کھلے میدان میں تین نر mehedehets ہمارے سامنے راستے پر دکھائی دیے۔ کھلے میدان میں ان پر گولی چلانے کا کوئی موقع نہ تھا، سو میں نے اپنے دونوں ہمراہیوں کو وہیں رکنے کا کہا تاکہ اکیلا جا کر گولی چلا سکوں۔
اس جگہ کئی درخت موجود تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ آخری درخت اور ان جانوروں کا درمیانی فاصلہ ۲۲۰ گز ہوگا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اس درخت تک کیسے پہنچوں کہ یہ جانور مجھے نہ دیکھ سکیں۔ یہ جانور ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر تھے۔ اگر ایک جانور ہوتا تو میں آسانی سے پیش قدمی کر سکتا تھا۔ یہاں ڈیڑھ فٹ اونچی گھاس اگی تھی، سو میں اس پر لیٹ کر رینگتے ہوئے آخرکار اس آخری درخت تک پہنچ گیا۔ یہاں کئی منٹ کے لیے رک کر میں نے سانس بحال کیا اور ماتھے اور آنکھوں سے پیسنہ صاف کیا۔ آخرکار میں گولی چلانے پر تیار ہو گیا۔ فاصلہ دو سو گز سے کچھ زیادہ تھا۔ اس بڑے درخت کے تنے کا سہارا لے کر میں نے گولی چلائی۔ نر ایسے گرا جیسے اس پر بجلی گری ہو۔ اس کے قریب ترین موجود دوسرا نر چند گز بھاگ کر رکا اور دشمن کو تلاش کرنے لگا۔ جب اسے کوئی دشمن دکھائی نہ دیا تو اس نے اپنے ساتھی کو حیرت سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کا پہلو میرے سامنے آیا تو میں نے اس پر بھی گولی چلا دی۔ وہ بھی وہیں گر گیا۔ دونوں نال خالی ہو گئی تھیں اور دس سیکنڈ کے اندر اندر دو نر زمین پر گرے ہوئے تھے۔
بغیر کسی جدوجہد کے میں نے کبھی کسی جانور کو اس طرح گرتے نہیں دیکھا۔ عموماً جانور گرتا ہے، چند سیکنڈ بعد ہوش میں آتا اور پھر فرار ہو جاتا ہے۔ میں اٹھ کر ان کی جانب بھاگا اور اس دوران میرا بھائی اور ہگن بوتھم بھی اسی جانب بھاگے۔ جلد ہی ہم مل گئے۔ پہلے اینٹلوپ کو شانے کے عین وسط پر لگی تھی۔ ہم چند قدم چلے اور دوسرے نر کا جائزہ لینے لگے۔ گولی اس کے شانے کی بجائے گردن کے درمیان لگی تھی۔
ہم پاس کھڑے ان آبی اینٹلوپ کو خوشی خوشی دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہی ان میں سے ایک اٹھا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ شکر ہے کہ میں نے رائفل بھر لی تھی، سو گُدی میں گولی کھاتے ہی وہ پھر گر گیا۔
گردن پر لگی گولی کے اثر سے آزاد ہوتے ہی جانور کتنی تیزی سے بھاگ سکتا ہے، دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ میری رائفل کا نشانہ بہت عمدہ تھا اور چونکہ وہ بریچ لوڈرز کا ابتدائی دور تھا، اس لیے گولی سنائڈر کی کھوکھلی تھی اور دو ڈرام بارود استعمال ہوا تھا۔ اس گولی میں جسم کے اندر گھسنے کی صلاحیت نہیں تھی اور اکثر درست جگہ پر گولی لگنے کے باوجود بھی جانور فرار ہونے میں کامیاب ہوتے رہے تھے۔ اگر زیادہ بارود اور ٹھوس گولی ہوتی تو یہ جانور کبھی بھی نہ بچ پاتے۔ اس دوسرے نر آبی اینٹلوپ کو گولی گردن پر لگی تھی مگر گولی میں ہڈی توڑنے کی صلاحیت نہیں تھی اور ۲۲۰ گز کے فاصلے پر آبی اینٹلوپ کی گردن کی سخت کھال سے لگ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔
ان دو جانوروں کا گوشت ہمارے ساتھیوں میں بانٹ دیا گیا اور سب نے اسے خوشی خوشی وصول کیا۔
ایک اینٹلوپ ایسا بھی ہے جو سفید نیل کے کنارے دلدلی علاقوں میں رہتا ہے مگر میں نے اسے اور کہیں نہیں دیکھا۔ اس کا قد گدھے سے کچھ زیادہ ہوتا ہے اور رنگ کالا سیاہ۔ اس کے شانوں پر سفید نشان ہوت اہے اور ماتھا بھی سفید، آنکھوں کے گرد سفید دائرے جبکہ سینہ کالا اور پیٹ بالکل سفید۔ اس کے سینگ ۲۸ سے ۳۲ انچ تک ہوتے ہیں اور بہت خوبصورتی سے پیچھے کو مڑے ہوتے ہیں جو کسی اور اینٹلوپ سے مشابہہ نہیں ہوتے۔ اس کے بال کھردرے لمبے اور بکری سے مشابہہ ہوتے ہیں۔ دلدلی علاقوں میں ملنے والے تقریباً سبھی اینٹلوپ کے بال کھردرے ہوتے ہیں۔
میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ مختلف پرندوں اور جانوروں کے قریب چھپ چھپا کر جانا کہیں مشکل ہوتا ہے تو کہیں آسان۔ عام اینٹلوپ کی نسبت بڑے اور بھاری اینٹلوپ پر گھات لگانا آسان ہوتا ہے۔ ایک بار دریا کے سفر کے دوران میں نے جہاز رکوایا اور نیچے اتر کر دیکھا تو بہت سارے بڑے آبی بھینسے یعنی اینٹلوپ دکھائی دیے جو نیم خشک دلدلی مقام پر موجود تھے۔ دو پہروں میں میں نے پانچ شکار کیے اور میرے ساتھیوں کے لیے یہ گوشت نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔
اس نسل کی مادائیں بھورے رنگ کی تھیں اور سینگوں کے بغیر۔ میں نے اس جگہ یہ اینٹلوپ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے کیونکہ وہ عموماً بڑے غول کی شکل میں دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے انتہائی خشک موسم میں ملتے ہیں جب دریاؤں کا پانی کافی نیچے ہو چکا ہو اور دلدلیں بھی خشک ہو چکی ہوتی ہیں۔ ایک غول میں ان کی تعداد کا درست جاننا تو ممکن نہیں مگر پھر بھی میرا اندازہ ہے کہ ایک غول میں ہزار کے قریب جانور رہے ہوں گے۔ پلّا اینٹلوپ بھی اسی طرح بڑے غولوں میں ملتے ہیں۔ وسطی افریقہ میں یہ بکثرت ملتا ہے اور کیمپ کے لیے اچھی خوراک ثابت ہوتا ہے۔ تاہم خطِ استوا سے دس ڈگری شمال کے بعد یہ نہیں ملتا۔ نر کے سینگ بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور غزال جیسے مگر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ماداؤں کے سینگ نہیں ہوتے مگر ان کا رنگ نر سے مماثل ہوتا ہے۔ جسم کا رنگ زرد جبکہ پیٹ بالکل سفید ہوتا ہے۔ اس کی جسامت چکارے جتنی ہوتی ہے۔
جنگل میں سب سے خوبصورت جانور انگریزی میں Harnessed antelope کہلاتا ہے۔ یہ غول کی بجائے جوڑوں کی شکل میں ملتا ہے یا تین چار کی تعداد میں۔ کھلے میدانوں میں شاید ہی کبھی دکھائی دے مگر جھاڑیوں والے علاقے میں عام ملتا ہے۔ لیٹا ہوا ہو تو کافی قریب آنے دیتا ہے اور پھر اچانک فرار ہو جاتا ہے۔ اچھے نر کا وزن ۹۰ پاؤنڈ ہو جاتا ہے۔ نر کا رنگ گہرا بھورا اور اس پر سفید پٹیاں بنی ہوتی ہیں۔ جن میں سے چھ یا سات پشت سے نیچے اور پچھلے دھڑ کو جاتی ہیں۔ رانوں پر سفید دھبے ہوتے ہیں۔ پٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جیسے اس پر لگام ڈالی گئی ہو۔ بہت سی اقسام کے چھوٹے اینٹلوپ کا تذکرہ یہاں ضروری نہیں۔ یہ خط استوا سے شمال میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آریکس کو عرب لوگ بقر الوحش یعنی جنگلی گائے کہتے ہیں۔ یہ خوبصورت اینٹلوپ چند علاقوں میں ہی ملتا ہے۔ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
جنوبی افریقہ کا گنو خطِ استوا کے شمال میں نہیں پایا جاتا۔
اینٹلوپ کی یہ سب دلچسپ اقسام مختلف خصوصیات کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کچھ کی شکل اور حرکات بکریوں سے مماثل ہوتی ہیں تو کئی بھینسوں سے مشابہہ ہوتے ہیں۔ مسافر کے لیے اینٹلوپ انمول خزانہ ہوتے ہیں کہ اس کا گوشت خوراک بنتا ہے اور ان کی کھال کو دباغت کے بعد استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دباغت کے لیے مموسا درخت کی چھال اور ببول کی پھلیاں ہمیشہ دستیاب ہوتی ہیں۔ اینٹلوپ کے بچوں کو درندے بہت بڑی مقدار میں کھاتے ہوں گے کہ پیدا ہوتے وقت یہ بچے بالکل بے بس ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں پائتھن بھی ان پر ہاتھ صاف کرتے ہوں گے کہ پائتھن بالغ جانور کی بجائے بچے کو پکڑتا ہے کہ جس کی ہڈیاں توڑنا آسان ہوتا ہے۔
بعض اقسام اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ایک بار میں نے جنگلی بھینسوں کے پورے غول کو اکٹھا ہو کر ایک بچے کو بچاتے دیکھا تھا۔ ایک ملازم کے ساتھ میں شکار پر نکلا تھا جو مقامی بندہ تھا۔ اس کا نام شولی تھا اور انتہائی قابلِ اعتبار تھا۔
یہ بندہ تجربہ کار شکاری ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کھوجی بھی تھا۔ یہاں اونچی گھاس ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور زیادہ جلائی بھی نہیں گئی تھی کہ مقامی افراد نے کچھ جگہوں پر اسے جلا کر کچھ خالی قطعے پیدا کر لیے تھے۔ ایسی جگہوں پر بھی چند انچ اونچی گھاس اگ آئی تھی۔ انہی کھلی جگہوں پر شکار ملنے کی توقع تھی کیونکہ بصورتِ دیگر وہ لمبی گھاس میں چھپے رہتے۔
ہم احتیاط سے اس جگہ گشت کرتے رہے اور مسلسل اپنے اطراف کی جانب نگران رہے۔ درختوں کے ایک ذخیرے کے پاس سے گزرتے ہوئے ہمیں تقریباً چار سو گز دور ایک نر جانور دیمک کی بمیٹھی پر کھڑا دکھائی دیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا غول بھی اس کے آس پاس بکھرا ہوا اپنا پیٹ بھر رہا ہوگا۔ سو ہم درختوں کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگے۔
کچھ دیر بعد ہمیں ایک مادہ دکھائی دی جو لمبی گھاس سے نکل کر محتاط انداز سے چلتی ہوئی کھلے قطعے سے گزری اور رک گئی۔ اب ہم گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے اس کی جانب بڑھنے لگے کہ نگران نر سے ڈیڑھ سو گز کے فاصلے تک پہنچ جائیں۔ میں نے ایک ایسا درخت بھی چن لیا جس کے پیچھے نہ صرف چھپنا ممکن ہوتا بلکہ شکار بھی کر لیتا۔
تیز دھار گھاس پر چلنا بہت مشکل کام تھا مگر ہم مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے۔ پھر محتاط انداز سے ہم اٹھے اور توقع تھی کہ نگران ہمارے سامنے کھڑا ہوگا۔ تاہم وہ اور مادہ جا چکے تھے۔ ہم ان کی نظروں سے اوجھل تھے اور ہوا بھی موافق چل رہی تھی۔ شاید کسی پرندے نے ہماری پیش قدمی بھانپ کر اڑان بھری ہو اور انہیں خطرے کا احساس ہو گیا ہو۔
اب ہم نے آڑ کا خیال چھوڑ کر براہ راست اس جانب پیش قدمی شروع کی جہاں نر چوکیداری کر رہا تھا۔ اُس جگہ ہمیں گوبر کا ڈھیر ملا جو کافی دنوں سے مسلسل جمع ہو رہا تھا۔ اس سے پتہ چلا کہ گھاس کے درمیان یہ ان کی آرام گاہ تھی جہاں وہ باقاعدہ آتے تھے۔
ابھی میں یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ میں نے اپنے ہمراہی شولی کو کچھ تلاش کرتے دیکھا۔ اس نے بتایا کہ ان جانوروں کا کوئی نہ کوئی بچہ یہیں چھپا ہوا ہوگا ورنہ مادہ اس طرح اکیلی ظاہر نہ ہوتی۔
پھر میں نے اسے نیزہ بلند کر کے کسی چیز کا نشانہ لیتے دیکھا۔ اس کے قریب پہنچا تو اس نے اجازت مانگی کہ نیزہ ماروں۔ ابھی میں نے جواب بھی نہ دیا تھا کہ پاس لیٹا ہوا بچھڑا کسی خرگوش کی مانند اٹھا اور انتہائی تیزی سے دوڑ پڑا۔ اگلے لمحے نیزہ شولی کے ہاتھ سے نکلا اور بچھڑے کی پشت پر ریڑھ کی ہڈی کے اوپر کھال میں پیوست ہو گیا۔ آدھا نیزہ ایک جانب اور آدھا دوسری جانب ترچھا لٹکا ہوا تھا۔ تاہم اس رکاوٹ کے باوجود بچھڑے نے رفتار کم نہ کی۔ تاہم شولی نے اسے دوڑ کر پکڑ لیا۔
اس نے نیزہ نکال لیا اور پوچھا کہ اسے زندہ کیمپ لے چلیں؟ عین اسی لمحے زخمی اور گھبرایا ہوا بچھڑا زور سے چیخا۔ شولی کو اچانک ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے مجھے نیچے بیٹھنے کا کہا اور دوسرے ہاتھ سے بچھڑے کو مارنا شروع کر دیا۔ بچھڑے نے مدد کے لیے چیخ و پکار شروع کر دی۔ چند لمحے بعد ہمیں اونچی گھاس میں شور سنائی دیا اور بچھڑے کی چیخ کے ساتھ ساتھ مجھے زرد گھاس کے اوپر سینگ اور سر دکھائی دینے لگے جو سر پٹ دوڑتے ہوئے بچے کی چیخوں کی تحقیق کرنے آ رہے تھے۔
ابھی مجھے یہ سب بیان کرنے میں جتنا وقت لگا، اس سے بھی کم وقت میں دس یا گیارہ جانور ہمارے سامنے کھلے میں پہنچ گئے۔ ان کا رخ شولی کی جانب تھا۔ میں نے بیس گز کے فاصلے سے دائیں اور پھر بائیں نال چلائی۔ ان کا سربراہ گرا اور باقی غول کا رخ پھر گیا۔ چند گز بعد ان میں سے ایک اور جانور بھی نیچے گرا۔ میں نے تیزی سے رائفل بھری اور پھر ایک اور گولی چلائی مگر غول اس طرح گم ہو گیا جیسے مچھلی پانی میں گم ہوتی ہے۔ انہوں نے بہت ہمت کے ساتھ بچھڑے کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ شولی نے مجھے بتایا کہ اگر وہ اکیلا ہوتا تو یہ جانور اسے کچل کر بچھڑے کو لے جاتے۔
میرا خیال ہے کہ ان جانوروں کو یہی لگا کہ کسی جنگلی جانور نے بچھڑے کو پکڑ لیا ہے اور وہ اسے بچانے کو دوڑے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جانور جنگلی بھینسے کے خاندان سے متعلق ہیں۔ جو نر نیچے گرا ہوا تھا، شاید وہ اس غول کا چوکیدار تھا اور ہماری آمد کو بھانپ کر یہ سب گھاس میں چھپ گئے تھے۔
میرے ساتھی شولی نے بتایا کہ اس نسل کے زخمی جانور کا اونچی گھاس میں تعاقب کرتے ہوئے سینگوں سے مقامی افراد اکثر مہلک زخم کھاتے رہتے ہیں۔ مندرجہ بالا واقعے کے کچھ روز بعد میں شولی اور ایک اور بہترین کھوجی گمدرو کے ساتھ شکار پر نکلا۔ ہم نے ایک بڑے بھینسے کو اونچی گھاس میں درخت کے نیچے لیٹے دیکھا۔ اس کا سر دکھائی دے رہا تھا۔ شولی کو ساتھ لے کر میں نے چھپ چھپا کر پیش قدمی کی اور اس سے ساٹھ یا ستر گز قریب ایک دیمک کی بمیٹھی تک پہنچ گیا۔ اس جگہ مجھے بھینسے کی گردن پوری دکھائی دے رہی تھی، سو میں نے اسے اٹھانے کا تکلف نہ کیا اور گولی چلا دی۔ سر نیچے گم ہو گیا اور گولی کی آواز سنتے ہی ۱۲۰ گز کے فاصلے سے پندرہ یا بیس مزید سر ابھرے اور اونچی گھاس میں فرار ہو گئے۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو رہے تھے تو میں نے ان پر دوسری گولی چلا دی۔
ہمارے سامنے والا پہلا نر مردہ پڑا تھا۔ ہم نے غول کے فرار کے راستے کو دیکھا تو ہمیں کچھ فاصلے سے خون کے نشانات دکھائی دیے۔ جس مقدار میں خون بہہ رہا تھا، اس سے یہی لگتا تھا کہ زخمی جانور زیادہ دور نہ جا سکے گا۔
سو ہم نے ان نشانات کا پیچھا شروع کر دیا۔ گمدرو آگے تھا اور اس نے نیزہ تیار حالت میں اٹھایا ہوا تھا۔ گھاس اتنی خشک تھی کہ گزرتے ہوئے سرسراہٹ ہو رہی تھی۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ ہم اس بھینسے کے انتہائی قریب اس کی لاعلمی میں پہنچ جائیں۔
دو بار ہمیں قریب سے اس کے فرار کی آواز آئی۔ دونوں جگہوں پر جہاں وہ کھڑا تھا، خون دکھائی دیا۔ انتہائی احتیاط سے بڑھتے ہوئے ہم ڈیڑھ سو گز گئے ہوں گے کہ گمدرو نے اچانک اپنا نیزہ بلند کیا اور عین اسی لمحے بھینسے نے اس پر ہلہ بول دیا۔ چونکہ بھینسا سیدھا آ رہا تھا، نیزہ اس کے شانے پر لگا۔ قریب آنے پر گمدور جست لگا کر ایک طرف ہو گیا۔ جب بھینسا دوبارہ حملہ کرنے کے لیے مڑ رہا تھا تو میں نے اس کے بائیں شانے کے عین وسط پر گولی چلا دی۔ بھینسا وہیں گر گیا۔ مقامی لوگوں نے اس سے خوب لطف اٹھایا اور جی بھر کر ہنسے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اگر رائفل نہ ہو تو اس نسل کے بھینسے کا تعاقب انتہائی احتیاط سے کرنا چاہیے کہ اونچی گھاس میں جب یہ حملہ کرے تو نیزے سے اسے کو فوری ہلاک کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
اس نسل کے بھینسے کے حملے کا یہی واحد واقعہ میں نے دیکھا تھا مگر میرے ساتھی پوری طرح قابلِ اعتبار ہیں اور مجھے ان پر پورا بھروسہ ہے۔
اصولی طور پر میں ہاتھی کے سوا ہر جانور کے گرتے ہی اس کو ہمسٹرنگ کرنے کا قائل ہوں تاکہ وہ جہاں گرے، وہیں پڑا رہے۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی اچھے شکاری چاقو سے ہلکا سا چرکا لگانا کافی رہتا ہے اور نس کٹ جاتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے جانور کے مرنے سے قبل اس کو ذبح کرنا لازمی ہوتا ہے۔ بڑے جانور کے سینگ بھی بڑے ہوتے ہیں اور ان کا گلا کاٹنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اکثر ان کی کھال بھی موٹی اور سخت ہوتی ہے۔ ایک بار میں انتہائی خوبصورت کوڈو کو اسی وجہ سے گنوایا تھا۔ میری گولی مطلوبہ جگہ سے ذرا اوپر لگی تھی اور کوڈو گر گیا تھا۔ میرے آدمی میرا چاقو لے کر بھاگے مگر اس کے خوبصورت لمبے سینگوں کی وجہ سے اسے پکڑنے میں ہچکچا رہے تھے۔ انہیں میں نے جلدی کرنے کا کہا مگر بیکار۔ سو پھر میں اپنی رائفل زمین پر رکھی اور اپنے بندے سے چاقو لینے ہی والا تھا کہ کوڈو جست لگا کر اٹھا اور گھنی جھاڑیوں میں گھس کر غائب ہو گیا۔ میرے بندے ہکا بکا دیکھتے رہ گئے۔ یہ کوڈو پھر مجھے کبھی نہ دکھائی دیا۔
کوڈو کا شکار کافی اچھا ہوتا ہے اور اکثر گہری اور جنگلوں والی کھائی میں پایا جاتا ہے۔ اگر جانور نیچے سے اوپر کی جانب بھاگے تو شکاری اوپر کھڑا ہو کر شکار کر سکتا ہے۔ ایسی جگہ پر کھائیاں بمشکل ہی سو گز سے زیادہ چوڑی ہوتی ہیں اور جب شکاری کے ساتھی کھائی کے نچلے سرے پر پتھر وغیرہ پھینکتے ہیں تو جب کوڈو بھاگتا ہے تو شکاری آسانی سے گولی چلا سکتا ہے۔ تاہم ایسی صورت میں شکاری کو ہمراہیوں سے سو گز آگے ہونا چاہیے۔
میں نے کبھی کسی اینٹلوپ کو مچرب نہیں دیکھا۔ یہ جانور بہت زیادہ گوشت اور عضلات تو رکھتے ہیں اور گول مٹول سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے زیادہ سے زیادہ ایک پاؤنڈ جتنی سخت چربی گردوں کے آس پاس سے نکالی ہے۔ اکثر اینٹلوپ میں مختلف اقسام کے طفیلی کیڑے بھی پائے جاتے ہیں۔
جنگلی بھینسوں کی ایک نسل میں کھوپڑی کے اوپر جہاں سینگ ہوتے ہیں، وہاں ایک بڑا کیڑا پایا جاتا ہے۔ کچھ غزالوں میں بھی کیڑے گوشت کو کھاتے ہوئے کھال تک پہنچ کر رک جاتے ہیں اور وہاں کھال پر سرخ رنگ کے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے بہت سارے ایسے غزال شکار کیے ہیں جو بالکل تندرست دکھائی دیتے تھے مگر جب ان کا شکار کر کے کھال اتاری گئی تو پتہ چلا کہ وہ کھائے جانے کے قابل نہیں۔ کھال اتارے جانے پر پتہ چلتا تھا کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور کھال کے نیچے خون جمع ہوتا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۲
ہرن
شکاری کے لیے بہترین شکار ہمیشہ ہرن ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ کوئی بھی دوسرا جانور پوری دنیا میں یکساں نہیں پایا جاتا۔ تاہم جن ممالک یا علاقوں میں ان کے شکار پر پابندی ہو تو اور بات ہے۔ ہرن سے زیادہ کوئی بھی جانور ایسا نہیں جسے بچانے کے لیے شکاری قوانین کی ضرورت ہو۔ سکاٹ لینڈ کی مثال لیں جہاں شکار کے موسم سے ہٹ کر ہرن کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاتا تو وہاں ان کی تعداد کتنی بڑھ گئی ہے حالانکہ اونچے علاقوں میں عمومی حالات خراب ہوئے ہیں۔ سرخ ہرن کی پناہ گاہ جن جنگلات میں ہوتی تھی، وہ تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں جنگلات کو جنگلی جانوروں کی تعداد کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔ جڑی بوٹیاں، گھاس اور مختلف اقسام کی نباتات موسمِ سرما میں جانوروں کی خوراک بنتے تھے۔ اس کے علاوہ انتہائی شدید سردی کے اثرات سے بچنے کے لیے یہ نباتات پناہ گاہ کا کام دیتی تھیں۔ان کی عدم موجودگی سے جنگلی جانوروں پر کافی برا اثر پڑا ہے۔ اگر ہرن کو پیدائش سے اچھا کھانے کو ملے اور کوئی تکلیف اور مشکل نہ ہو تو اس کے سینگ زیادہ بڑے اور زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں اور وزن میں بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
سکاٹ لینڈ کے سرخ ہرن کا وسطی یورپ کے ہرنوں سے جسامت یا سینگوں کا کوئی مقابلہ نہیں کہ وسطی یورپ کے ہرن وسیع جنگلات میں سکون سے رہتے ہیں۔ سردیوں کی فاقہ کشی اور سردی سے سکاٹ لینڈ والے ہرنوں کے سینگ گر جاتے ہیں اور وزن کم ہوتا ہے۔
بارہ سال عمر کا نر ہرن جو سکاٹ لینڈ کے بالائی علاقوں میں رہتا ہے، کا وزن ۹۵ کلو کے قریب ہوتا ہے جبکہ گھنے جنگل میں رہنے والے اسی عمر کے نر ہرن کا وزن ۱۱۵ سے ۱۲۷ کلو تک بھی دیکھا گیا ہے۔ ٹرانسلوانیا کے ہرنوں کا اوسط وزن ۱۲۵ کلو ہوتا ہے اور ان کے سینگ بہت بڑے اور ان پر ۱۴ سے ۲۰ تک شاخیں ہوتی ہیں جبکہ سکاٹش ہرن میں بمشکل ۱۲ شاخیں ملتی ہیں۔
اچھی خوراک اور پناہ گاہ کی اہمیت کے بارے اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسی جگہ جہاں مویشی پیٹ بھر کر چارہ نہیں کھا سکتے، وہاں جنگلی جانور آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے مگر دوسری جانب چارے کے معیار اور موسم سے بچاؤ سے یا تو جانوروں کی صحت بہتر ہوتی ہے یا پھر خراب تر۔ تکلیف چاہے جانوروں کو ہو یا انسانوں کو، ہمیشہ کمزور کرتی ہے۔ سکاٹ لینڈ کے بالائی علاقوں سے جنگلات کے کٹاؤ سے نہ صرف ان جانوروں کی پناہ گاہیں ختم ہوئی ہیں بلکہ نباتات کے ختم ہونے سے ان کے سرمائی چارے بھی ختم ہو گئے۔ غیرملکی افراد جب سکاٹ لینڈ آتے ہیں تو انہیں یہ دیکھ کر عجیب لگتا ہے کہ جنگل کے ہرن تو پائے جاتے ہیں مگر جنگل نہیں دکھائی دیتے۔
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یورپ کے دیگر علاقوں کے برعکس سکاٹ لینڈ کا سرخ ہرن اب اتنا شاندار جانور نہیں رہا۔ کسی بھی خوبصورت اور شاندار جانور پر گھات لگا کر اور اس پر کامیاب گولی چلا کر اس کو بطور نشانی رکھا جاتا ہے مگر سکاٹ لینڈ میں اب ایسا کوئی بھی سرخ ہرن موجود نہیں جو ٹرافی کہلانے کا حق دار ہو۔
میں پہلے کہیں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ ہر جانور کی حالت مناسب ماحول ملنے پر بہتر ہوتی ہے مگر سکاٹ لینڈ میں سرخ ہرن کے لیے ماحول بد سے بدتر ہوتا چلا گیا جبکہ دوسرے ممالک میں اس کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ میرے نزدیک امریکی واپیٹی سرخ ہرن کی بہت بڑی شکل ہے۔ اگر جرمن سرخ ہرن اور واپیٹی کو ساتھ ساتھ کھڑا کر دیا جائے تو دونوں میں صرف جسامت کا فرق ہوگا۔ عین یہی فرق جرمن سرخ ہرن اور سکاٹش سرخ ہرن کے درمیان بھی ہے۔
بہت سال قبل ڈیوک آف ایتھول نے مجھے اپنے جنگل میں شکار پر مدعو کیا جہاں سرخ ہرنوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔ نتیجتاً ان کی جسامت زیادہ بڑی نہیں تھی اور بمشکل ہی کوئی جانور سو کلو سے زیادہ بڑا ہوگا۔ سینگ بھی اسی طرح نسبتاً چھوٹے تھے۔
اُن دنوں ہرن اتنے زیادہ تھے کہ ایک بار ایک پہاڑی پر ہانکے کے نتیجے میں ہزار سے زیادہ ہرن میں نے خود شمار کیے۔
ایک بار ملکہ معظمہ اور ان کے شوہر بلیئر کیسل میں قیام پذیر تھے اور ہوا کا رخ موافق تھا۔ کئی ہزار ہرن مطلوبہ جگہ لے جائے گئے۔ ورنہ پورے سکاٹ لینڈ میں اتنے زیادہ جنگلی ہرن کبھی ایک جگہ نہیں دکھائی دیتے۔
مزید شمال میں ڈنروبن نامی مقام اور بالخصوص پہاڑ کے دامن کے جنگلات میں پائے جانے والے ہرن زیادہ بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں۔ بیس سال قبل مجھے ڈیوک آف سدرلینڈ کے ہاں مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا اور ہم نے پہاڑیوں پر ہرن کا شکار کھیلا۔ میں بلیئر والے ہرنوں کا ان ہرنوں سے مقابلہ کر کے پریشان ہو گیا کہ کم تعداد، بہتر چارے اور سردیوں میں بڑے جنگل کی پناہ گاہ کی وجہ سے ان کی جسامت کافی بڑی تھی اور سترہ سے اٹھارہ سٹون یعنی ایک سو سات سے ایک سو پندرہ کلو تک وزن کے دس سے بارہ سال کی عمر کے نر عام ملتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں افزائشِ نسل کے سلسلے میں نروں کی لڑائی اکتوبر کی سردیوں میں ہوتی ہے اور یہ وہی وقت ہوتا ہے جب ان کے شکار کا موسم بند ہو جاتا ہے۔ عام طور پر جانوروں میں مستی گرم موسم یا بہار کے آغاز سے شروع ہوتی ہے جب سردی ختم ہو جاتی ہے۔
جب اکتوبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو نر اونچی آواز سے بولنے لگتے ہیں، ان کی گردن کے بال لمبے اور کھردرے ہو جاتے ہیں اور ماداؤں کے حصول کی خاطر انتہائی تندہی سے آپس میں لڑتے ہیں اور بتدریج آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ تمام لڑائیاں جیتنے والا نر ماداؤں پر قابض ہو جاتا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تمام ہرنوں کے سینگ ہر سال جھڑ جاتے ہیں تاہم ایسا نہیں۔ سرخ ہرن اور چنکاروں کے سینگ بہار میں گرتے ہیں۔ امریکہ کے واپیٹی کے سینگ بھی بہار میں گرتے ہیں مگر ہندوستان کے سانبھر کے سینگ ہر تین سال بعد گرتے ہیں۔ تاہم ہندوستان یا سائیلون میں ان کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں اور ایک ہی نسل کے جانوروں کو سارا سال شکار کیا جا سکتا ہے اور ان کے سینگوں کی عمر مختلف ہوتی ہے۔
جنگل والے ممالک میں ہرنوں کے سینگ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ چلتے ہوئے بہت محتاط رہتے ہیں۔ جب سینگ نکلنا شروع ہوتے ہیں تو کھوپڑی کی ہڈی پر ایک گول مٹول سا سینگ ابھرتا ہے جس پر مخمل ہوتی ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے سینگ بہت حساس ہوتے ہیں اور ہرن گھنی جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے بہت محتاط رہتے ہیں۔ سائیلون کے اونچے پہاڑوں میں نسبتاً نچلے حصے صاف ہوتے ہیں جہاں جنگل نہیں ہوتا اور وہاں مخمل کے سینگوں والے ہرن عام دکھائی دیتے ہیں۔ اس جگہ انہیں نقل و حمل میں آسانی رہتی ہے اور سینگوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔
ہرن کے سینگ کافی دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہرن کے سینگ بیل، بکری اور بھیڑ کی مانند خول کی طرح ہوتے ہیں جو ہڈی کے اوپر منڈھے ہوتے ہیں۔ یہ سینگ کبھی نہیں گرتے۔ نر ہرن جب دو سال کا ہوتا ہے تو اس کے سینگ نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ پہلے پہل چھ انچ لمبی ایک شاخ نکلتی ہے جو عام سینگوں کی مانند موسمِ بہار میں گر جاتی ہے۔ تاہم اس بنیاد پر بڑے سینگ نکلتے ہیں۔ اگر اچھا ماحول ہو اور خوراک کی کمی نہ ہو تو ہر سال ان کے سینگ پہلے سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ سینگ کی جڑ ہر سال زیادہ چوڑی اور زیادہ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، سینگوں کا حجم اور جسامت بڑھتی جاتی ہے۔ جب ہرن پوری طرح جوان ہو جاتا ہے تو سینگوں کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ ایسا عموماً بارہ سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے سرخ ہرن پر اس عمر میں دس سے بارہ اور کبھی کبھار ۱۴ تک بھی شاخیں آ جاتی ہیں۔ اگر نر بہت بڑا ہو جائے تو اس کے سینگ کی ایک شاخ پیالہ نما دکھائی دیتی ہے۔
سینگوں کی نشوونما بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ مئی کے شروع سے سینگ نکلنا شروع ہوتے ہیں اور جب اگست کے پہلے ہفتے مخمل اترنا شروع ہوتی ہے تو نیچے سینگ بہت مضبوط ہو چکے ہوتے ہیں۔ سینگوں کی بڑھوتری کے دوران مخمل میں موجود چھوٹی چھوٹی رگوں سے انہیں خون اور غذا ملتی ہے اور جب شاخوں کی نوکیں بن جاتی ہیں تو یہ سینگوں کی تکمیل کی علامت ہوتی ہے۔ جب ہڈی پوری طرح مضبوط ہو جائے تو مخمل کی صفائی شروع ہوتی ہے۔ پہلے یہ رگیں خشک ہو جاتی ہیں اور مخمل جھڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ جوں جوں رگیں سکڑتی اور خشک ہوتی جاتی ہیں تو ان میں خارش ہوتی ہے اور ہرن انہیں ہر مناسب جگہ پر کھجلانا شروع کر دیتا ہے۔
پہلے پہل ہرن ایک انچ موٹائی کے چھوٹے درختوں کو چنتا ہے کہ اس کے سینگ ابھی حساس ہوتے ہیں۔ چند روز بعد ہرن زیادہ بڑے درختوں سے کھجلانا شروع کرتا ہے۔
جب سانبھر یا واپیٹی کے بڑے سینگ بڑھ رہے ہوتے ہیں تو اگر شکار کے بعد انہیں آگ پر بھون کر مخمل اتارنے کے بعد ان میں سبزی ڈال کر شوربہ بنایا جائے تو بہت اچھا بنتا ہے۔
اگر سینگوں کی نشوونما کے دوران ہرن زخمی ہو جائے تو ایک یا دونوں سینگوں کی ساخت میں کوئی نہ کوئی خرابی آ سکتی ہے۔ اسی طرح اگر مخمل پر کوئی زخم لگ جائے تو وہ سینگوں پر برا اثر ڈالتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک ہرن کے سینگ میں دو شاخیں بہت بڑی دیکھی تھیں جو لازمی طور جنگل میں اس کی نقل و حرکت کو متاثر کرتی ہوں گی۔ یہ امریکہ کا واقعہ ہے۔ جب میں نے اسے شکار کیا تو اس کے سینگوں کی ان شاخوں سے خون رس رہا تھا۔ شاید سینگوں کی بڑھوتری کے دوران یہاں کوئی زخم لگا ہوگا یا سوج ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے سینگوں کی بڑھوتری ختم نہیں ہو سکی اور ان شاخوں کے کنارے گول اور کچے تھے۔
جوں جوں نر بڑھاپے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں اور طاقت کم ہوتی جاتی ہے، ان کے سینگوں کی جسامت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ شاخیں بھی جسامت اور تعداد میں کم ہوتی جاتی ہیں۔ اگر نر خصی ہو جائے تو سینگوں کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔
مادہ کا دورانِ حمل آٹھ ماہ ہے اور صرف ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ہرن کی نسل میں رینڈیئر کے علاوہ کسی قسم کی مادہ کے سینگ نہیں ہوتے تاہم مجھے رینڈیئر کا ذاتی طور پر کوئی تجربہ نہیں۔
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہمپشائر کے نئے جنگل، گلوسٹر شائر کے ڈین جنگل اور دیگر جگہوں سے سرخ ہرن ناپید ہو چکا ہے حالانکہ ۱۸۳۸ میں ان تمام مقامات پر سرخ ہرن بکثرت پایا جاتا تھا۔ جب انہیں شاہی تحفظ حاصل تھا تو ڈین کے جنگل کے سرخ ہرن سکاٹ لینڈ کے سرخ ہرنوں سے بدرجہا بہتر تھے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ ہرنوں والے جنگل کے مالکان کو کبھی یہ بات نہیں سوجھی کہ اگر وہ جرمن ہرن یہاں لا کر ان کی افزائشِ نسل کریں۔ ویانا جانے والے تمام افراد کو پراڈا کے ہرنوں کے سینگوں کو دیکھ کر رشک آتا ہوگا۔
ہرنوں کا شکار علاقے اور مقامی روایات کے مطابق فرق ہوتا ہے تاہم ان پر گولی چلانے سے کہیں بہتر ان کا دوسرے طریقے سے شکار ہے۔ تاہم شکار کے یہ طریقے مختلف علاقوں میں مختلف ہوتے ہیں۔
آپ شکار تو کہیں بھی کر سکتے ہیں مگر اس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے کھلا علاقہ ہو اور گھوڑوں کی دوڑ کے لیے مناسب ہو۔ برطانیہ میں جنگلی سرخ ہرن محض ایکسمور علاقے میں روایتی طریقے کے مطابق گھوڑوں اور شکاری کتوں کی مدد سے شکار کیے جاتے ہیں۔
رائفل اور گھوڑے پر سوار ہو کر، دونوں طرح کے طویل تجربے کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ سرخ ہرن کا شکار انتہائی عمدہ اور بہترین تجربہ ہوتا ہے۔
اس میں اتنے تغیرات ہوتے ہیں کہ ہرن پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہر قسم کے ہرن کی اپنی عادات اور خصائل ہوتے ہیں، سو ان کے بارے کوئی ایسی عمومی بات نہیں کی جا سکتی جو پوری قسم پر لاگو ہو۔ سرخ ہرن یورپ، ایشیا اور امریکہ میں پایا جاتا ہے اور فرق محض جسامت اور مسکن کی حد تک ہے۔ اس کا شکار مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
اینڈرسن نے ایک بار سائبیریا میں ایک بڑے عقاب کی مدد سے ہرن کا شکار دیکھا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار مطلوبہ مقام تک پہنچا مگر عقاب پہلے ہی ہرن کو پکڑ کر اس کا کلیجہ نکال چکا تھا۔
سکاٹ لینڈ میں اگر شکاری کتوں سے سرخ ہرن کا شکار کیا جائے تو شکار تباہ ہو کر رہ جائے گا اور ہرن جنگل سے فرار ہو جائیں گے۔ اگر ہرن غول کی شکل میں ہوں تو ان کا کبھی شکار نہیں کرنا چاہیے۔ تنہا نر ہرن عموماً کسی مخصوص جگہ پر آنے کا عادی ہو جاتا ہے اور اس جگہ کو جانچ کر اس کی آمد پر کتوں کی مدد سے اس کا شکار کیا جانا چاہیے۔ تاہم اگر تعاقب لمبا ہو گیا تو جنگل پر اثر پڑتا ہے۔ اصولی طور پر ہرنوں والے جنگل کو قبرستان کی مانند خاموش رہنا چاہیے۔
انگلستان میں بہت مداخلت کار ہیں جو عام افراد کے ذہن کو ایسے تنگ کرتے ہیں جیسے ہرنوں کو کتے بھونک کر کرتے ہیں۔ یہ انا پرست انسان بھولے بھالے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ان کے خیال میں انسان کے پیدائشی حقوق میں کیا کچھ شامل ہے۔ یہ زیادہ تر ان کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ ایک بندہ چاہے وہ جو کوئی بھی ہو، یہ سمجھتا ہے کہ اسے کسی کی زمین سے گزرنے کا پیدائشی حق ہے چاہے اگلے بندے کو وہ زمین وراثت میں ملی ہو یا اس نے خود خریدی ہو۔ اسی طرح جنگلی جانوروں کے بارے بھی ان کایہی خیال ہوتا ہے کہ انہیں خدا نے انسان کے لیےبنایا ہے سواس کے شکار پر کسی قسم کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ ان لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ پانی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے مگر کسی کے ذاتی کھدوائے ہوئے کنویں پر صرف اس کے مالک کا ہی حق ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی ذاتی زمین پر موجود چشمے پر ان کو خود بخود حق مل جاتا ہے۔ ان باتوں کی مشہوری کرتے ہوئے وہ تاریخی حقائق کو بھلا دیتے ہیں۔
ان لوگوں کو قدیم معاشروں کا کوئی علم نہیں کہ وہاں زندگی کیسے بسر کی جاتی تھی۔ وسطی افریقہ میں ان گنت قبائل موجود تھے جہاں ان لوگوں کے دلائل بیکار ہو جاتے۔ وسطی افریقہ میں قیام کے دوران میں مقامی قبائل کے بارے جو کچھ لکھا تھا، اس کے بارے ایک اقتباس یہاں پیش ہے جس سے انہیں اندازہ ہو جائے گا:
‘اگرچہ اونیورو اور فاتیکو کے درمیان کا سارا علاقہ بیابان ہے مگر یہ اسی میل کا علاقہ ہے اور اس میں ایک گز جتنی زمین بھی ایسی نہیں جس پر کوئی ملکیت کا دعویٰ نہ کرتا ہو۔ انہیں یہ وراثت میں ملتی ہے۔ یہ اصول زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے اور انگلستان میں کمیونسٹ نظام متعارف کرانے والے جہلا کو اس کے بارے سوچنا چاہیے۔ قدیم زمانے میں انسانوں کی برابری کا دعویٰ درست نہیں۔ جن قبائل میں حکومت کمزور پڑ جاتی ہے، وہاں قوانین کے نفاذ میں مشکل پیش آتی ہے ۔ بعض قبائل میں یہ اصول انہیں قابو میں رکھتا ہے اور مہذب معاشروں میں عوامی رائے یہ کام کرتی ہے۔
شکار کے قوانین کی خلاف ورزی کو ویسے ہی عوام کو برا سمجھنا چاہیے جیسے چور شکاری ہوتے ہیں۔
جائیداد کے حقوق کی اولین شکل شکار کے حقوق تھے۔ قدیم زمانے میں انسان شکار کر کے گزارا کرتا تھا اور اس کے لباس جانورں کی کھال سے بنتے تھے اور جانور کے گوشت سے وہ پیٹ بھرتا تھا۔ سو جہاں وہ شکار کرتا تھا، اس جگہ کو اپنی ملکیت شمار کرتا تھا۔ اگر اسے دوسروں سے مل کر بھی شکار کرنا ہوتا تو جو جانور کو پہلے زخمی کرتا، اسے زیادہ حصہ ملتا تھا کیونکہ اس نے جانو رکو زخمی کر کے اس کے بچ نکلنے کے امکانات کم کر دیے تھے۔ اس لیے اپنے احباب میں اسے نسبتاً بہتر درجہ ملتا تھا۔ وسطی افریقہ میں شکار کے قوانین کی ابتدا کو جاننا ممکن نہیں۔ تاہم ان قوانین یا حقوق کو عام طور پر قبول کیا جاتا ہے جہاں وسیع قطعے مختلف افراد کی ملکیت ہوتے ہیں۔یہ حقوق باپ سے بڑے بیٹے کو ملتے ہیں۔
جب گھاس اتنی خشک ہو جائے کہ اسے نذرِ آتش کیا جا سکے تو پورے قبیلے کی توجہ اس پر مرکوز ہوتی ہے مگر ایک بندے کی ملکیت زمین پر کوئی دوسرا آگ نہیں لگا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے تو اسے عوامی طور پر غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسے قبیلے سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔
یہاں میرا مقصد صرف یہ نکتہ واضح کرنا ہے کہ جنگلی حیات کا دارومدار بچاؤ پر تھا۔ اگر اس سے متعلق قوانین کو بھلا دی اجاتا تو چند ہی سال میں جانوروں کا نام و نشان تک مٹ جاتا۔ یہی مسئلہ فرانس کے زیادہ تر علاقوں میں پیش آ چکا ہے۔
انگلستان میں سرخ ہرن کی تباہی واضح ہے مگر ایکسمور اور سکاٹ لینڈ کے کچھ علاقوں میں ابھی بھی شاید چند ہرن بچے ہوں۔
جس سرزمین سے جنگلی حیات ختم ہو جائے تو اس ملک کے لوگوں کے طرز میں بھی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔
کسی بھی انسان کی مردانہ صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے شکار سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ شکار سے انسان کو برق رفتاری کا سبق ملتا ہے اور اسے جونہی موقع ملے، اس کا فائدہ اٹھانے کی عادت ملتی ہے۔ اس کو اچھا گھڑسوار ہونا چاہیے اور رائفل اور بندوق دونوں کا ماہر ہونا چاہیے۔ اسے سخت جان ہونا چاہیے اور اس کا حوصلہ بلند ہو اور ہاتھ پیر قابو میں رہیں۔ شکار چاہے گھوڑے پر سوار ہو کر ہو یا پیدل چل کر، دونوں صورتوں میں سخت کوشی کا سبق سکھاتا ہے۔
موجودہ دور کےانگلستان کو اول درجے کے ہتھیار بنانے میں پہلا درجہ حاصل ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جو افراد شکار کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں،ا ن کے لیے اسلحے کی قیمت ادا کرنا بھی چنداں دشوار نہیں۔تاہم اگر کسی ملک سے جنگلی حیات ختم ہو جائے تو اسلحہ سازی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
ہندوستان کی وسیع سلطنت میں جہاں وسیع جنگلات کو جنگلی حیات کی بقا کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا، وہاں پچھلے ایک سال سے ان جانوروں کے تحفظ کے قوانین لاگو ہو گئے ہیں ورنہ جلد ہی یہ جنگلی جانور انسان کے ہاتھوں ناپید ہو جاتے۔
سائیلون میں شکار سے متعلق سخت قوانین کافی عرصے سے موجود ہیں مگر انگلستان میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو شکار کے قوانین کے خلاف ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں ہرنوں والے جنگل کی قیمت بھیڑوں کے چارے والے کھلیانوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اب یہ کہنا بیکار کی بحث ہے کہ امیر اور غریب کو یکساں حقوق کیوں نہیں ملتے۔ امیر بندہ اپنی دولت سے اپنے لیے شکار کا شوق پورا کرتا ہے جو مقامی لوگوں کے لیے ملازمت کا ذریعہ بنتاہے۔ ورنہ یہی لوگ روزگار کی تلاش میں دوسروں ملکوں میں جاتے رہیں گے۔
ہائی لینڈز میں ہرن کا پیچھا کرنے سے زیادہ لطف کسی اور شکار میں نہیں آتا۔ پرانے زمانے میں جب لوگ مزل لوڈنگ بندوقوں اور کم مقدار کے بارود سے شکار کرتے تھے توشکار بہت مشکل ہوتا تھا۔ کم بارود کی وجہ سے گولی کی پرواز زیادہ اونچی ہوتی تھی اور فاصلے کا درست اندازہ لگانا پڑتا تھاتاکہ نشانے کی پتی اٹھائی جا سکے۔
موجودہ دور میں رائفلوں میں اتنی جدت اور بہتری آ گئی ہے کہ جدید ایکسپریس کی تیز رفتار گولی ڈیڑھ سو گز تک تقریباً سیدھی جاتی ہے اور نشانے کی پتی نہیں اٹھانی پڑتی۔اس سے زیادہ فاصلے پر گولی کم ہی چلائی جاتی ہے۔
میں نے اس کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ پرڈی نے مزل لوڈنگ ایکسپریس رائفل ایجاد کی تھی۔ اس رائفل کو ۷۰ بور کا نام دیا گیا کہ اس کی ۷۰ گولیوں کا وزن ایک پاؤنڈ بنتا تھا۔اُن دنوں انچ کے اعشاریہ کا تصور نہیں تھا، سو کسی بھی رائفل کا بور وہی ہوتا تھا جتنا ایک پاؤنڈ وزنی سیسے سے اس کی گولیاں بن سکتیں۔
میرے ایک عزیز مرحوم دوست سر ایڈورڈ کیریسن نے مجھے ایک انتہائی خوبصورت پرڈی کی رائفل تحفے میں دی تھی جو پہلی ایکسپریس تھی۔ اس میں ۴ ڈرام بارود ڈالا جاتا تھا او راس کی مخروطی دو دراڑوں والی گولی استعمال ہوتی تھی جس کا وزن ۲۰۰ گرین تھا۔ ہائی لینڈ میں ہرن کے شکار کے لیے اس سے بہترین رائفل ممکن نہیں۔ ڈیڑھ سو گز تک اس پر نشانے کی کوئی بھی پتی نہیں اٹھانی پڑتی تھی کہ شکاری معمولی سا اوپر یا نیچے کا نشانہ لیتا تھا۔ میں ۱۸۶۸ میں شکار کےموسم میں پہلے ڈیوک آف سدر لینڈ اور پھر لارڈ مڈلٹن کا مہمان بنا تو میں نے شکار کے لیے یہی رائفل استعمال کی۔ اس رائفل سے میں نے چودہ نر ہرنوں پر گولی چلائی۔ تیرہ ہرن شکار ہوئے۔ پہلی گولی چلاتے ہوئے مجھ سے غلطی ہوئی کہ لبلبی بہت نرم تھی اور غلطی سے گولی چل گئی۔ اس گولی سے ہرن کی اگلی ٹانگ کندھے سے ذرا نیچے سے ٹوٹ گئی اور مجھے نہ صرف شرمندگی بلکہ خجالت ہوئی۔
یہ چھوٹی سی گولی موجودہ ۴۰۰ بور کی گولی کے برابر تھی مگر اس کے چھوٹے وزن کی وجہ سے اس کی لمبائی کم تھی۔نرم سیسے کی گولی اور انتہائی رفتار کی وجہ سے یہ گولی جونہی سرخ ہرن کے سخت پٹھوں اور ہڈی سے ٹکراتی تو پھیل جاتی اور کبھی دوسری جانب سے باہر نہ نکلتی۔ یہ گولی دوسری جانب کی کھال کے نیچے رک جاتی تھی۔
اگرچہ سرخ ہرن کے لیے میرے خیال میں یہ بہترین رائفل تھی مگر اس کو بھرنا مشکل کام تھا۔سب سے پہلے تو باریک نالی میں بارود ڈالنا پڑتا تھا، دوسرا مرحلہ گریس لگی ہوئی لکڑی کے سرے پر سانچہ اندر جمانا تھا۔ تیسرے مرحلے پر گولی کو گریس والے کپڑے میں لپیٹ کر اسے آہستگی سے سانچے پر رکھنا ہوتا تھا۔ چونکہ یہ گولی خود سے جمانی پڑتی تھی سو گریس لگے کپڑوں کی وجہ سے دونوں حصے بخوبی چپک جاتے تھے۔ گولی پسٹن کا کام کرتی تھی اور جب لکڑی نکالی جاتی تو گریس کی وجہ سے گولی اور سانچے کے درمیان خلا پیدا ہو جاتی تھی۔ بارود گولی سے آٹھ انچ دور ہوتا تھا۔ یہ کام خطرناک تھا۔ اگرچہ رائفل کی نال کو بہت مضبوط بنایا جاتا ہے مگر پھٹنے کی بجائے بہت ساری نالیں پھیل جاتی تھیں۔ میرے اپنے ساتھ ایسا ہوا۔ تاہم جلد ہی مسٹر پرڈی نے اس کی اصلاح کر دی۔
میں نے اس رائفل کو سکاٹ لینڈ اور افریقہ میں استعمال کیا اور اس سے بہتر رائفل کبھی استعمال نہیں کی۔
ہائی لینڈ میں ہرن کا پیچھا کرنا سب سے بہترین مگر خودغرض شوق ہے۔ اگر کئی مہمان ساتھ ہوں تو ہرن کا پیچھا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے ہرنوں کا ہانکا کیا جاتا ہے تاکہ سبھی شکاریوں کو یکساں موقع مل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یاد رہے کہ پیچھا کرنے اور ہانکا کرنے میں بہت فرق ہے۔ ہانکے میں بہت ساری چیزوں کا علم ہونا ضروری ہے جس میں صبر بھی شامل ہے۔ شکاریوں کا کام محض چھپے رہنا ہے اور جب موقع ملے تو گولی چلا دینی ہوتی ہے۔ پیچھا کرنے کے لیے سرخ ہرن کی عادات سے بخوبی واقف ہونا لازمی ہوتا ہے اور اُس علاقے کے جغرافیے کا اچھا علم ہونا چاہیے اور اس کے علاوہ صبر، ٹھنڈا مزاج اور محنتی ہونا بھی ضروری ہے۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ موسم مناسب ہوگا او رفرض کرتے ہیں کہ پہاڑیوں پر دن کیسے گزاریں گے۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جو چلنے میں حارج نہ ہو اور چھپنے میں بھی مددگار ہو۔ کِلٹ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ ہلتا ہے اور ہر ہلتی ہوئی چیز توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔اس کے علاوہ رینگنے کے لیے گھٹنے ننگے نہیں ہونے چاہیئں کہ کانٹے اور جڑیں وغیرہ زخمی کر سکتی ہیں۔ ٹوئیڈ کے مضبوط ٹراوزر اور نارفوک قمیض سے بہتر کوئی لباس نہیں مگر سفید کالر نہ ہوں۔
چند ملازمین کافی رہتے ہیں۔ پیچھے ایک بندہ خچر کے ساتھ موجود رہے تاکہ شکار ہونے والے ہرن کو گھر لے جائے۔ ایک اور ملازم اطراف میں شکاری کتوں کے ہمراہ آپ سے دو سو گز پیچھے چھپا رہے۔ آپ کے ہمراہ جو شکاری ہو اور اگر آپ نے اسے اچھی طرح نہ سمجھایا ہو تو وہ تکلیف کا سبب بن سکتا ہے، اسے بالکل خاموش رہنا چاہیے، سرگوشی کرنا، آستین پکڑنا یا عین موقعے پر کسی قسم کی مداخلت شکار کا مزہ کرکرا کر سکتی ہے۔ اس کا کام محض گونگا بنے رہنا ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں درکار ہوتا۔
ہرنوں والے بعض جنگلوں میں چھپ چھپا کر چلنا کافی مشکل ہوتا ہے تو بعض جنگلوں میں بہت آسان۔ مثال کے طور پر اگر ستمبر کے مہینے میں جب ہرن کے سینگ بالکل صاف ہو جاتے ہیں تو جنگل میں مویشیوں یا بھیڑوں کو چرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اب شکاری کے لیے کشمیرے یا خرگوش ہی دشواری رہ جاتے ہیں۔ جب کشمیرا ڈر کر اڑان بھرتا ہے تو ہرن خبردار ہو جاتے ہیں، چاہے شکاری کتنا ہی چھپا ہوا کیوں نہ ہو۔ تجربہ کار شکاری کے ہمراہ آپ جب پہاڑی کی ڈھال سے نیچے اترتے ہیں تو سامنے ہرنوں کی گزرگاہیں، ڈھلوانیں، نیچے گرے ہوئے پتھر، سب دور دور تک دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں چلتے چلتے شکاری اچانک بیٹھ کر کہتا ہے کہ اب ہمیں ذرا شکار کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ جب بھی یہ شکاری تھک جائیں تو یہ بہانہ ہمیں کارآمد رہتا ہے۔ آپ دوربین نکال کر سامنے ہر چیز کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ہر پہاڑی، افق اور کھائیوں کا عمیق معائنہ ہوتا ہے مگر کچھ نہیں دکھائی دیتا۔
‘دیکھا، میں نے پہلے ہی اس بوڑھی چڑیل کو دیکھتے ہی سمجھ لیا تھا کہ آج شکار نہیں ہوگا‘، میرا شکاری بولتے ہوئے تھوک پھینکتا ہے۔ ہائی لینڈ کی روایت کےمطابق اگر صبح سویرے شکار پر نکلتے ہوئے پہلا بندہ کوئی بوڑھی عورت دکھائی دے تو یہ بدشگونی ہوتی ہے۔ متذکرہ بالا بوڑھی خاتون خصوصیت سے زیادہ منحوس سمجھی جاتی تھی۔ تاہم اس نحوست کا آسان سا حل زمین پر تھوکنا ہے۔ پھر شکاری بولتا ہے کہ اوپر پہاڑی پر جو پتھر پڑے ہیں، وہ پہلے تو اس نے کبھی نہیں دیکھے۔ میں دوربین سے دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ہرنیاں ہیں جو بیٹھی ہیں۔ تاہم ان کے آس پاس کوئی بھی نر دکھائی نہیں دیتا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا نر وہاں موجود بھی ہوں گے یا نہیں۔ دوربین سے بھی نر دکھائی نہ دیے۔ اگر ہم سیدھے تیر کی پرواز کا حساب لگائیں تو مادائیں پون میل دور تھیں۔ اگر ہم پہاڑی پر اترتے چڑھتے جاتے تو یہ فاصلہ بڑھ کر ڈیڑھ میل ہو جاتا۔ تاہم انہیں خبردار کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ پاس موجود چھپے ہوئے ہرن فوراً فرار ہو جاتے۔ واحد راستہ یہ تھا کہ چکر کاٹ کر پہاڑی کے اوپر سے نیچے اترا جائے۔ ہرن کا چھپ کر پیچھا کرتے ہوئے ہمیشہ اوپر سے نیچے کو آنا چاہیے۔ ہرن شاذ ہی اوپر کی جانب دیکھتے ہیں۔ ہرن ہمیشہ سرے پر کھڑا ہو کر نیچے کے منظر کو دیکھتا ہے۔ جب آپ سیدھا پیش قدمی نہ کر سکتے ہوں تو لمبا چکر کاٹنا ضروری ہو جاتا ہے اور یہاں آپ کو اس مقام کے جغرافیے سے واقفیت فائدہ دیتی ہے۔ ہم جلد ہی ہرنوں کے دائرہ نگاہ سے نکل گئے اور پہاڑی کا کنارہ عبور کر کے ہم دوسرے سرے پر چڑھے اور ڈیڑھ میل دور جا کر ایک پتھریلا پہاڑی نالہ ملا۔ اس جگہ ہم نے محتاط ہو کر چوٹی کی سمت پیش قدمی شروع کر دی۔ آخرکار ہم ہرنوں کے اوپر پہنچ گئے۔ تاہم ہرن ہمارے سامنے اور نیچے کی بجائے بائیں جانب پہنچ گئے تھے۔ مادائیں بیٹھی تھیں اور نر دکھائی نہ دے رہے تھے۔ ان حالات میں نیچے اترنا پڑتا ہے۔ ہم نے چکر کاٹ کر اسی ڈھلوان کا رخ کیا جس پر ہرن لیٹے تھے۔ یہاں ہم جس جگہ پہنچے، وہاں بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں موجود تھیں۔ مادائیں یہاں سے لگ بھگ تین سو گز دور مگر دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ ہم اس وقت تقریباً ایک جیسی بلندی پر تھے۔
اچانک میں اور سینڈی، دونوں ہی نیچے جھک گئے۔ دو سو گز دور ہمیں اونچی گھاس میں ہرن کے سینگ دکھائی دیے جو وہاں لیٹا ہوا تھا۔
ہوا کا رخ ہمارے خلاف تھا مگر ہم ان سے زیادہ بلندی پر تھے۔ سو ہماری موجودگی کو محسوس نہ کیا جا سکا۔ یہاں سے چھپ چھپا کر پیش قدمی ممکن نہ تھی کہ سارا راستہ محض گھاس پر مشتمل تھا۔
میں نے سرگوشی میں سینڈی کو وہیں بیٹھنے کا کہا اور خود میرا ارادہ تھا کہ رینگ کر وہاں تک پہنچوں۔ تاہم پہاڑی اتنی ڈھلوان تھی کہ سر آگے کی سمت رکھ کر رینگنا ممکن نہ تھا، سو میں کروٹیں بدل بدل کر آگے بڑھتا رہا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ اب میں سو گز دور ہوں گا تو اچانک ڈیڑھ سو گز دور مادہ اور بچہ گھاس میں سے نکل کر کھڑے ہوئے۔ میں نے گھاس میں سے جھانکا تو ۱۲۰ گز پر نر بھی کھڑا ہوا دکھائی دیا۔ ان کا رخ ہماری سمت تھا۔
شاید میری بو پہنچ گئی ہوگی۔ اگر ہرنی اور بچہ بھاگتے تو نر بھی فرار ہو جاتا۔ ہرن نیچے کی طرف دیکھ رہا تھا مگر اس کا پہلو میری جانب تھا۔ میں اپنی پشت کے بل لیٹا ہوا تھا اور انتہائی آہستگی سے میں بیٹھا اور گھاس سے ذرا اوپر رائفل اٹھائی۔ ہرنی اور بچے نے جست لگائی اور ہرن بھی بھاگنے والا ہی تھا کہ میں نے گولی چلا دی۔
ہرن وہیں گرا اور گھاس میں غائب ہو گیا۔ تاہم کئی مرتبہ اس کے سینگ دکھائی دیے کہ ہرن تڑپ رہا تھا۔ میں نے اٹھ کر اس کی طرف جاتے ہوئے قدم گننے شروع کر دیے جو میری عادت ہے۔ ابھی میں نصف راستے میں ہی تھا کہ اچانک ہرن اٹھ کر کھڑا ہوا اور ایسے بھاگا جیسے اسی کوئی زخم نہ لگا ہو۔ اس نے انتہائی تیزی سے نیچے کا رخ کیا۔
‘کتا چھوڑو‘، میں نے چلا کر اپنے شکاری سے کہا۔ مجھے شکاری پہلے ہی اسے چھوڑ چکا تھا۔ وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا اور جب ہرن گرا تو اس نے میری سمت دوڑ لگا دی۔ سو جب اس نے ہرن کو بھاگتے دیکھا تو عین اسی وقت کتے کو آزاد کر دیا۔بہترین شکاری کتا دوڑتا ہوا میرے پاس سے گزرا۔
اس کتے کا نام اوسکر تھا اور مسطح زمین پر چاہے اس کی کتنی ہی رفتار کیوں نہ ہو، پہاڑی پر وہ ہرن کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکا۔ مجھے یقین تھا کہ نیچے موجود دلدلی زمین میں ہرن کی رفتار کم ہو جائے گی اور وہاں کتا اس کے قریب ہو سکے گا۔
ہم دونوں بھی گھاس کے درمیان سے بھاگتے ہوئے گزرے اور کئی مرتبہ گرے بھی، مگر ہم نے دوڑ جاری رکھی حالانکہ اس جگہ چلتے ہوئے بھی محتاط ہونا پڑا کہ پتھر بہت تھے۔
ہرن دلدلی قطعے سے گزر رہا تھا اور اوسکر سفید رنگ کا دھبہ مسلسل ہرن کے قریب تر ہو رہا تھا۔ اگر ہرن حرکت نہ کرتا تو ہم اسے بالکل بھی نہ دیکھ سکتے کہ اس کا رنگ پسِ منظر جیسا ہی تھا۔ دونوں کی جسامت مختصر سے مختصر ہوتی گئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ ابھی ہم نیچے بھی نہیں اترے ہوں گے کہ ہرن اور کتا ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے ہوں گے۔
ایسا ہی ہوا۔ ہمارا رخ ہرن کے فرار کی سمت ہی تھااور مجھے ڈر تھا کہ اگر ہرن کتے کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو کتا اسے پھر تلاش نہیں کر پائے گا کہ اس جگہ بے شمار پتھریلے نالے تھے اور ہرن کہیں بھی چھپ کر بچ سکتا تھا۔ اوسکرکی بہترین تربیت ہوئی تھی مگر اسے شکار کو پکڑنے کی تربیت نہیں ملی تھی۔ یہ ان جنگلوں کا اصول تھا کہ شکاری کتے جانور کو کبھی نہیں پکڑیں گے۔ ان کا کام محض شکار کو کہیں روک لینا ہے۔ مجھے یہ بات ہمیشہ بیکار لگی ہے کیونکہ اگر ہرن کسی خاص جگہ جانے کی ٹھان لے تو اسے روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ شکاری کتے اس کے اتنے قریب پہنچ جائیں کہ وہ فرار کو بھول کر کسی محفوظ جگہ پر کھڑا ہو جائے۔
تب میں بہت تیز بھاگ سکتا تھا اور شکاری اور میں بہت تیزی سے بھاگتے ہوئے ایک میل دور پہنچ گئے۔ ہمارا رخ اسی جانب تھا جہاں ہرن اور اوسکر غائب ہوئے تے۔
یہاں دلدلی قطعے سے کئی گہرے نالے گزرتے تھے جو پانی کے کٹاؤ سے بنے تھے۔ یہاں پہنچ کر ہمیں کتے اور ہرن کا کوئی نشان نہ مللا۔ سو دلدل سے ایک میل آگے جا کر ہم رک گئےاور کوشش کی کہ شاید کتے یا ہرن کی آواز سنائی دے۔
اچانک ہمارے سامنے اوسکر دور سے ہماری جانب بھاگتا دکھائی دیا۔بہت سال کے تجربے سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ہرن نے کسی نالے کا رخ کیا ہوگا اور کتا اس کا پیچھا نہ کر سکا۔ اب ہرن کسی گہرے نالے میں کھڑا ہوگا۔ ہم نے کتے کو اپنی جانب بلایا اور ہماری موجودگی سے کتے کو نیا حوصلہ ملا۔ڈیڑھ میل کی دوڑ کے بعد ہمیں ایک گہرے نالے میں پانی بہتا ہوا ملا۔ اس کے کنارے ہمیں ہرن کے کھروں کے نشانات ملے جو پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں سے ہرن پوری رفتار سے بھاگتا ہوا گزرا تھا۔ یہ نالہ بہت دشوار گزار تھا سو مجھے یقین ہو گیا کہ ہرن کہیں قریب ہی چھپا ہوا ہوگا۔ سو میں نے کتے کو ہلاشیری دی اور ہرن کی بو پاتے ہی کتے نے بائیں جانب کا رخ کیا۔ چند منٹ بعد ہمیں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ دو سو گز دور ہرن اور پھر اس کے پیچھے اوسکر بھاگتے دکھائی دیے۔ ہم نے کتے کو خوب شاباش دی اور چوتھائی میل کی دوڑ کے بعد ہمیں کتا اور ہرن پہلو بہ پہلو بھاگتے دکھائی دیے۔ اگر اسے شکار کو پکڑنے کی تربیت دی گئی ہوتی تو وہ گلا یا کان پکڑ کر لٹک گیا ہوتا۔ تاہم اس کی بجائے وہ قریب رہتے ہوئے بھاگتا رہا۔ اچانک ہرن نے دولتی جھاڑی اور کتا لوٹنیاں مارتا گرا۔ جب تک وہ اٹھتا، ہرن تیس یا چالیس گز آگے نکل گیا تھا۔
ایک بار پھر کتا اور ہرن نظروں سے اوجھل ہو گئے کہ وہ زمین ناہموار اور اترائی تھی۔ جہاں میں نے گولی چلائی تھی، وہاں سے تین میل دور پہنچ کر ہم کچھ مناسب علاقے میں پہنچے۔ اب مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ ہرن کس جگہ پہنچ کر رک جائے گا۔ ایک میل دور دریا تھا اور جوں ہم آگے بڑھےتو کافی دور سفید رنگ کا دھبہ دکھائی دیا۔ ہرن اس سے آگے ہوگا مگر اتنی دور سے دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جلد ہی ہم دریا کے کنارے پہنچے جو آبشار سے ڈیڑھ میل اوپر تھا۔ یہاں ہمیں کچھ بھی نہ دکھائی دیا، مگر ہم نےر ک کر سنا تو اوسکر کی آواز آئی۔ وہ ہم سے نیچے کہیں کسی موڑ کے پاس نظروں سے اوجھل تھا۔
اس جگہ کو بھاگے تو دیکھا کہ کتے کی آواز رک چکی تھی اور شاید ہرن بھی بھاگ نکلا تھا۔ سامنے کی سیدھی چٹانوں کو عبور کرنے کی بائے ہرن نے سیدھا واپسی کا رخ کیا اور ہم سے چالیس گز کے فاصلے سے گزرا۔ کتا اس کے پیچھے تھا۔ یہاں میں نے گولی چلائی جو ہرن کی گردن کے پار ہو گئی۔ اب جا کر اوسکر نے اس کا گلا پکڑا۔ میرا نشانہ تو ہرن کے شانے کا تھا مگر چار پانچ میل کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے سانس پھولا ہوا تھا، سو گولی گردن میں جا لگی۔
میری پہلی گولی کافی اونچی گئی تھی۔ شانے کے سیدھے خط میں یہ گولی ریڑھ کی ہڈی کے عین نیچے سے گزری۔ دھکے کی وجہ سے ہرن گرا مگر اٹھنے میں اس نے دیر نہیں لگائی اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اسے گولی لگی ہی نہ ہو۔
جب بھی اپنے سے نیچے ڈھلوان پر موجود جانور پر نشانہ لیں تو نشانہ ہمیشہ کچھ نیچے کو لیں۔ اگر آپ سینے کے نچلے سرے کا نشانہ لیں گے تو گولی شانے پر لگے گی۔ میری پہلی گولی اسی غلطی کی وجہ سے درست نہیں لگی تھی۔
ہائی لینڈز کی یادیں ایک اور کتاب کی متقاضی ہیں، مگر یہاں میں سکاٹ لینڈ کے سرخ ہرن کے بارے اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھوں گا۔ بے شمار شکاری ان ہرنوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے شکارسے لطف اندوز بھی ہوئے ہیں اور ہرنوں کی عادات سے بھی واقفیت پیدا کی ہے جو اور کہیں نہ مل سکتی۔
اہرنوں کے ہانکے کی نسبت میں ہرنوں کا پیچھا کرنے کو کہیں افضل سمجھتا ہوں، تاہم ہانکے کے دوران آپ کو ہرنوں کی فطرت کے بارے کافی معلومات ملتی ہیں۔ ہرن ہمیشہ ہوا کی مخالف سمت چلتا ہے تاکہ سامنے موجود دشمنوں کی خبر پا سکے۔سو جب تک ہوا کا رخ موافق نہ ہو، ہانکے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ایتھول میں مرحوم نواب کے دور میں جس طرح ہرنوں کا ہانکا کیا جاتا تھا، اس سے بہتر انتظام میں نے کہیں دیکھا۔ان کی مہربانی سے میں نے کئی سال اس شکار کا لطف اٹھایا۔ اگر ہوا کا رخ موافق ہوتا تو گلِن ٹِلٹ کی وادی میں رائفل بردار شکاری جاتے۔
وہاں شکاریوں کے بیٹھنے کے لیے پتھروں سے چھوٹے سے کمرے بنے تھے۔ جب آپ فارسٹ لاج سے نکلیں تو یہ سڑک کے بائیں کنارے بنے ہوے تھے۔ دریا سڑک کی دائیں جانب سے گزرتا ہے۔ ہر کمرہ دوسرے سے دو سو گز دور بنا ہوا ہے اور سامنے سات سو فٹ اونچی پہاڑی ہے۔ اس پر کوئی جھاڑ جھنکار نہیں اور اتنی دور سے بھی آپ بالکل صاف دیکھ سکتے ہیں۔ دوسرے سرے پر دریا کی بائیں جانب اونچی پہاڑیاں ہیں۔
جب ہوا موافق ہو تو ان اونچی پہاڑیوں پر کیا جانے والا ہانکا یادگار ہوتا ہے۔ شکاریوں اور ملازمین کو ہدایت ہوتی ہے کہ ہرنوں کو تین بجے پہاڑی کے اوپری سرےپر دکھائی دینا چاہیے۔
تاہم اس کی خاطر شکاریوں کو صبح چار بجے قلعے سے نکلنا ہوتا ہے اور بیس میل کا چکر کاٹ کر وہ اس کی طرف لوٹتے ہیں۔ہرنوں کا ہانکا سائنس کی مانند ہے۔ چند افراد کافی رہتے ہیں اور عموماً ان کا درمیانی فاصلہ پون میل ہوتا ہے۔ اس طرح دومیل لمبے ہانکے کے لیے آٹھ افراد کافی ہوتے ہیں۔ شروع میں ان کا درمیانی فاصلہ نصف میل ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ہانکے کے اختتام کو بڑھتے ہوئے فاصلہ کم ہوتا جاتا ہے۔
ہرنوں کے مختلف غول جب انسان کو اپنے عقب میں دیکھتے ہیں اور انہیں ہوا میں سامنے کی جانب انسانی بو نہیں ملتی تو وہ آہستہ آہستہ مطلوبہ سمت چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تاہم ہانکے میں یہ امر لازم ہے کہ نہ تو کوئی شور کیا جائے اور نہ ہی کوئی ہیجانی حرکت ہو۔ ان بندوں کا کام آہستہ آہستہ پیش قدمی ہے۔ کہیں کہیں وہ رک کر ہرنوں کی حرکات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔
میں بہت مرتبہ ان ملازمین کے ساتھ گیا ہوں اور مقصد ہرنوں کو واپس لوٹنے سے روکنا ہوتا تھا۔
انہیں سیدھے خط میں چلانے اور کسی قسم کی غلط حرکت سے گریز کرنے کے لیے انتہائی محتاط رہنا پڑتا ہے۔ اس طرح غول در غول اس گشت میں شامل ہوتے جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انہیں خطرے کا احساس ہوتا جاتا ہے اور وہ پیچھے کی جانب نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب غول رک کر ہانکے والوں کا رخ کرے تو سفید رومال کو فضا میں بلند کرنا کافی رہتا ہے۔ رومال کو ہلانے کی ضرورت بھی نہیں پیش آتی۔ اگر ایک بار ایک ہرن بھی واپسی کا رخ کر کے ہانکے کی قطار توڑ نکلے تو عموماً سبھی ہرن اس کی نقل کرتے ہیں اور اگر ہزار ہرن بھی ہوں تو بھی وہ بچ نکلتے ہیں۔ہانکا ناکام رہ جاتا ہے۔
کسی بھی قسم کی نقل و حرکت میں مادائیں سب سے آگے ہوتی ہیں اور نر ان محتاط ماداؤں پر انحصار کرتے ہیں۔
جب ہانکا چل رہا ہو تو پانچ سو کے قریب ہرن آہستہ آہستہ اور ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اکثر کوئی تجربہ کار بوڑھی ہرنی رک کر ہانکے والوں کو چار سو گز کے فاصلے سے دیکھتی ہے۔ فوراً اور بھی کئی ہرنیاں اس کی نقل کرتی ہیں اور پیش قدمی اسی وقت رک جاتی ہے۔ ایسی صورت ہانکے والا فوراً رومال بلند کرتا ہے اور ہانکے میں موجود دیگر سبھی افراد بھی اپنے اپنے رومال لہراتے ہیں۔ بوڑھی ہرنی تحقیق کی نیت سے چند قدم آگے بڑھاتی ہے تو یہ بری علامت ہے اور اسے فوراً روکنا چاہیے۔ زور سے سیٹی بجائی جائے تو ہرنی فوراً رخ بدل کر چل پڑے گی۔ اس طرح ہانکا پھر جاری ہو جائے گا۔
اس طرح محتاط پیش قدمی اور مناسب ردِ عمل سے بڑی تعداد میں ہرن مطلوبہ سمت کو چلائے جاتے ہیں۔اگر کوئی نر یا مادہ کسی وجہ سے پیچھے کو بھاگنا شروع کر دے تو اسے ہر قیمت پر روکنا پڑتا ہے چاہے اس کے لیے گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑے۔ تاہم ہانکے کی بنیادی خوبی ہر قسم کے شور سے باز رہنا ہے۔
اس دوران چھ شکاری مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ چونکہ حکم یہ ہوتا ہے کہ تین بجے ہرن چوٹی پر دکھائی دیں، اس لیے ہر بندے کی گھڑی کا وقت ملا لیا جاتا ہے۔ ہر بندہ پانچ منٹ پہلے ہی بے تابی سے گھڑی پر وقت اور پھر پہاڑ کی چوٹی کو دوربین سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔
عقب میں موجود ہانکے والے بھی اپنی گھڑیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کے لیے یہ بات باعثِ افتخار ہے کہ وہ ہمیشہ وقت کے پابند ہوتے ہیں۔
ہر کام منصوبے کے مطابق ہوتا ہے اور نیچے موجود شکاریوں کو پہاڑی کی اوپری سطح پر اکا دکا ہرنوں کے سینگ اور سر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی جاتی ہے اور پہاڑی کا اوپری سرا ہرنوں سے بھر جاتا ہے۔ اس کے بعد ہرنوں کی اصل تعداد نمودار ہوتی ہے۔
اس مقام پر ماداؤں کی احتیاط دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے سامنے اور دائیں بائیں بغور معائنہ کرتے اترتی ہیں۔ سب سے پہلے بوڑھی مادہ بڑھتی ہے اور بھاگتی ہوئی نیچے اترتی ہے۔ تمام ہرن اور ہرنیاں سے غور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس کا شک کم ہو جاتا ہے اور وہ عام رفتار سے چلتے ہوئے نیچے اترتی ہے۔ اس کے پیچھے بیس یا تیس مادائیں اترتی ہیں۔ ان کے پیچھے کافی نر ہوتے ہیں اور ان کا ڈر دور ہو جاتا ہے۔
اس طرح وہ پہاڑی سے اترتے ہیں اور جلد ہی شکاری اور ملازمین پہاڑی کے اوپر دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ ہرنوں کو مطلوبہ وقت اور مطلوبہ مقام پر لانے کے بعد ان کی ذمہ داری تمام ہو جاتی ہے۔
تاہم ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ شکاریوں اور ملازمین کو نیچے اترنے میں بہت زیادہ عجلت نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہیں کھڑے ہو کر ہرنوں کو آگے بڑھاتے رہیں۔ ہرن اب پہاڑی کے بالکل نیچے آ چکے ہیں اور چند منٹ میں ہی وہ ندی عبور کر یں گے۔ چند عمدہ نر اور کافی مادائیں نیچے پہنچ چکی ہیں۔ مادائیں پانی میں اتریں اور اب پانی ان کے پیٹ کو چھو رہا ہے۔ نر پیچھے دریا میں اترنے ہی والے ہیں کہ دھوئیں کا ایک مرغولہ دکھائی دیا، پھر دوسرا اور پھر ایک نر گرا۔ سارا غول پریشان ہو کر دائیں جانب کو بھاگا اور ایک اور دھواں دکھائی دیا اور ایک اور نر گرا۔
اب افراتفری پھیل گئی۔ کچھ ہرنوں نے دریا عبور کیا تو کئی ہرن گولیوں کا شکار ہو کر نیچے گرے۔ کچھ ہرن پیچھے کو بھاگےاور پہاڑی پر چڑھ گئے۔ ملازمین کے ساتھ جانے والے شکاریوں نے آگے بڑھ کر انہیں روکنے کا فیصلہ کیا۔
آخرکار ہانکا تمام ہوا۔ زیادہ تر ہرن دری عبور کر کے اب دوسری جانب پھیلے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں۔ چند ایک واپس لوٹ گئے۔ آٹھ یا دس شکار ہوئے اور دو یا تین زخمی ہونے کے بعد کچھ دور پہاڑی ڈھلوان کے وسط میں کھڑے ہوئے ہیں۔ان کے اوپر کھڑے ہوئے کچھ شکاری کتوں کے ساتھ زخمی ہرنوں کی سمت لپکتے ہیں۔
جونہی کسی کتے کو ہرن دکھائی دیتا ہے تو وہ پٹے پر زور لگانا شروع کر دیتا ہے۔ جونہی اس کے گلے سے پٹہ نکلتا ہےتو وہ زخمی ہرن کے پیچھے لپکتا ہے۔ زخمی ہرن غول کو بھاگتےدیکھ رہے ہیں اور کتوں کی جانب توجہ نہیں کرتے۔
اچانک انہیں کتوں کا علم ہوتا ہے اور وہ سیدھا پہاڑی سے نیچے کو دوڑ لگاتے ہیں۔ جلد ہی کتے اور ہرن درختوں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ کے پیچھے غائب ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی اس سمت کو بھاگتا ہے۔ کتوں کی آواز سے پتہ چل جاتا ہے کہ ہرن دریا میں پہنچ کر کھڑا ہوگیا ہے۔
اس طرح کھڑے ہوئے ہرن سے زیادہ کوئی خوبصورت شکاری منظر نہیں کہ کتوں نے ہدایات کے مطابق ہرن کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھی ہے اور ہرن شکاریوں کو آتے نہیں دیکھتا۔ جونہی پہلا شکاری وہاں پہنچتا ہے تو گولی چلا کر ہرن کو ہلاک کر دیتا ہے
۳۲ برس قبل ہم نے یہ بحث کی تھی کہ آیا ان کتوں کو ہرن کو پکڑنا چاہیے یا نہیں۔ کتوں کو تربیت دینے والے زیادہ تر افراد کے خیال میں کتوں کو ہرن کو نہیں پکڑنا چاہیے۔دوسری جانب میرا خیال تھا کہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس طرح شکاری چاقو سے بھی ہرن کو ہلاک کرسکتا ہے۔
یہاں کے نواب کو شکار کا بہت شوق تھا سو اس نے فوراً اس طریقے کو آزمانے کی ہامی بھر لی۔ ہماری بحث سے خواتین کو بھی دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسا بندوبست کیا گیا کہ میں دو شکاری کتوں کے ہمراہ ایک تازہ دم ہرن کے پیچھے لگوں، اسے ایک جگہ روکوں اورپھر چاقو سے اسے شکار کروں۔ میرے لیے تو یہ بہت عام سی بات تھی کہ یہی کام میں بہت برسوں تک سائیلون میں کرتا رہا تھا۔ تاہم دیگر احباب کا خیال تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ محض دو کتے عام ہرن کو روک لیں کیونکہ یہ کتے محض زخمی ہرن کا پیچھا کرنے کے لیے سدھائے ہوئے تھے۔
ہیڈ فارسٹر سینڈی میکارا کے مشورے سے میں نے اوسکر اور ایک دوسرےکتے کو چنا جس کا نام مجھے یاد نہیں۔
ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ تھے اور ہم فارسٹ لاج میں جمع ہوئے جو قلعے سے دس میل دور تھا۔ اس سے زیادہ خوبصورت جگہیں کم ہی ہیں۔ سڑک یہاں بپھری ہوئی ندی کے پاس سے گزرتی ہے۔ بہت خوبصورت درخت اور جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ یہ جگہ سیاحوں میں بہت مقبول تھی اور اس سے بہتر منظر دکھائی دینا مشکل تھا۔ ستمبر کے وسط میں درختوں کے رنگ بدلنا شروع ہو جاتے تھے۔ ندی آگے چل کر ایک گہرے تالاب میں بدل جاتی تھی۔
شکار کے لیے ہر طرح سے بہترین وقت آن پہنچا۔
خواتین کی موجودگی ہمارے لیے باعثِ خوش قسمتی تھی، بہت دیر تک ہرن کی تلاش کے بعد اچانک ہمیں ایک نر دکھائی دیا جو پہاڑی پر نصف سے ذرا اوپر بیٹھا تھا۔ ایک بڑے پتھر کے پیچھے کھڑا ہرن ہمارے ساتھیوں کو اور گاڑیوں کو دیکھتا رہا۔ اس کا فاصلہ ہم سے ہزار گز رہا ہوگا۔
مجھے ڈر تھا کہیں ہرن پہاڑی کے اوپر کا رخ نہ کر لے۔ خوش قسمتی سے ہم سڑک پر تھے جہاں ہرن اکثر انسانوں کو گزرتے دیکھتے تھے اور کبھی انہیں نقصان نہ پہنچاتے تھے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ میرے ہمراہی ایک میل پیچھے چلے جائیں اور اس دوران میں اتنی دور تک چلتا جاؤں کہ ہرن کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں۔ پھر جہاں پہاڑی پر چڑھنے کا مناسب موقع ملے تو ہرن کے اوپر سے نیچے کی طرف آؤں۔سو سب ساتھی مڑ گئے جبکہ میں اور دو مقامی شکاری اور کتے میرے ساتھ تھے۔
جلد ہی ہم پہاڑی پر چڑھ گئے اور چند مادائیں اور نوجوان ہرن دکھائی دیے۔ تاہم ہمارا مطلوبہ ہرن ان سے کافی دور اور نیچے تھا۔ یہاں خاموشی اور احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے ہم نے تیزی سے فاصلہ طے کیا جو یہاں سے چوتھائی میل بنتا تھا۔
جب میں اپنے سوچے ہوئے مقام پر پہنچا اور بائیں مڑ کر دیکھا تو ہرن دکھائی نہ دیا۔ یہاں سے ایک میل دور ہماری گاڑیاں اور تماشائی کھڑے دکھائی دیے۔ شاید ہرن کو خطرے کا اندازہ ہو گیا ہوگا، تاہم میری کیفیت عجیب ہوئی۔
میرے ساتھیوں کے خیال میں ہرن نے جب گاڑیوں کو نظروں سےاوجھل ہوتے دیکھا ہوگا تو لیٹ گیا ہوگا۔ ہماری گاڑیوں نے اس کے آرام میں خلل ڈالا ہوگا۔
میں نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اور کتوں کو تیار رکھا۔ یہاں سے شکاری نے ہماری رہنمائی کی۔ ہم چند منٹ رکے ہی تھے کہ نیچے لیٹا ہوا ہرن سو گز دور سے اچھلا اور عین اسی لمحے کتوں کو بھی آزاد کر دیا گیا۔ کتوں نے بھی ہرن کو اچھلتے اور پھر بھاگتے دیکھا تھا۔
نیچے موجود گاڑیوں سے بہت عمدہ منظر دکھائی دے رہا ہوگا تاہم دوربین کے بغیر شاید وہ اس سے پوری طرح لطف اندوز نہ ہو سکتے۔
پہلے چند لمحے توہرن نے اوپر کا رخ کیا مگر کتوں نے اس طرح آڑی دوڑ لگائی کہ جیسے وہ اسے اوپر جانےسے روکنا چاہتے ہوں۔ پھر ہرن نےسیدھ میں بھاگنا شروع کر دیا۔ اس کا رخ نیچے موجود گاڑیوں کی طرف تھا۔
کتوں نے دیوانہ وار دوڑ جاری رکھی اور قریب ہوتے گئے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اس رفتار پر ہرن زیادہ دور نہیں جا سکتا، سو مشکل راستے کو چھوڑ کر ہم نے پوری رفتار سے نیچے کا رخ کیا اورسیدھا گاڑیوں کی سمت بڑھتےچلے گئے۔
جب ہم قریب پہنچے تو شکار دکھائی دینے لگا۔ ہرن ہمارے ساتھیوں کے اوپر سے گزر چکا تھا مگر اب اس کا رخ نیچے کو ندی کی جانب تھا جبکہ دونوں کتے اس سے چند گز پیچھے تھے۔ جونہی ہم آگے بڑھے تو تینوں ہی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ گاڑیاں خالی تھیں اور ہر کوئی شکار کی جانب بھاگ رہا تھا۔ چوتھائی میل بھاگنے کے بعد ہم ہمیں ہرن کے رکنے اور کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ہرن اب ندی کے اندر کھڑا تھا جبکہ کتے کنارے پر تھے۔ کتوں کو اب گولی چلنے کا انتظار تھا کہ گولی چلے اور ہرن گر جائے۔ کتوں نے ہمیشہ سے یہی دیکھا تھا۔ تاہم جلد ہی انہیں پتہ چل گیا کہ کیا ہونے والا ہے۔ دونوں کتوں کو تھپک کر انہیں ہرن کی جانب بھاگنے کا اشارہ کر کے میں نے ندی میں چھلانگ لگا دی۔ پانی میرے کولہوں تک پہنچ رہا تھا مگر بہاؤ تیز تھا۔ ہرن نے جب مجھے دیکھا تو اس نے ایک بار پھر حرکت کی اور پچاس یا ساٹھ گز دور جا کر پھر رک گیا۔ دونوں شکاری میرے ساتھ تھے اور اوسکر اپنے ساتھی کے ساتھ پانی میں اتر آیا تھا۔ تاہم پانی تیز تھا اور ہم بہتے ہوئے ہرن کے آگے جا پہنچے۔ ایک کتا پانی کے اندر تھا مگر اوسکر ہرن کے کان سے لٹک گیا۔
میں نے ایک سینگ کو پکڑا تاکہ کتوں کو آسانی ہو اور دوسرا کتا فوراً ہرن کے گلے سے لٹک گیا۔ میں نے شانے کےپیچھے چاقو اتار دیا اور دونوں ساتھیوں نے ہرن کے سینگ پکڑے رکھے تاکہ مرتے ہوا ہرن پانی میں نہ بہہ جائے۔ سارے مراحل سہولت سے طے ہوئے۔ میرے خیال میں اس طرح رکے ہوئے ہرن کو گولی مارنے کی نسبت یہ طریقہ دس گنا بہتر ہے۔
تاہم سینڈی کو یہ پسند نہ آیا کہ دونوں کتے اب ہمیشہ کے لیے عام شکار کے لیے بیکار ہو گئے۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ ہرن کو دیکھتے ہی پکڑ کر اس کی تکا بوٹی کر دیا کریں گے۔ تاہم میرا خیال تھا کہ یہ بہت عمدہ طریقہ ہے۔ تاہم نہ تو ہرن میرا تھا اور نہ ہی کتے، سو اس کی رائے پر کیا کہتا۔
ہائی لینڈ میں ہرن کا شکار بہت دلچسپ کھیل ہے مگر اس پر زیادہ نہیں لکھوں گا۔ تاہم یہ یادیں بہت خوبصورت ہیں اگرچہ ان میں موجود لگ بھگ تمام ساتھی ہی اب زندہ نہیں رہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۳
ہرن
سرخ ہرن کے بعد چکارے کی باری آتی ہے۔ یہ نسل سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور بعض کے خیال میں یہ یورپ کی مقامی نہیں مگر کاویے کہتا ہے کہ اسے بربر سے یہاں لایا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ جانور افریقی براعظم سے نہیں اور پورے براعظم میں محض شمالی ساحل پر ملتا ہے جو بحیرہ روم سے لگتا ہے۔ سو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس جانور کو جنوبی یورپ سے بربر لایا گیا ہوگا۔
عظیم صحرائے صحارا نے براعظم کو کسی سمندر کی مانند منقسم کر رہا ہے اور جنوب اور شمال کے جانور اسے عبور نہیں کر سکتے۔ اس لیے بربر کے جنگلی جانور افریقہ کے اصل جانور نہیں کہلائے جا سکتے۔
چیتل برطانیہ میں سرخ ہرن کی مانند جنگلی نہیں بلکہ مخصوص پارکوں تک مخصوص ہیں۔
۱۸۳۵ تک ہمپشائر کے نئے جنگل میں چیتلوں کو آزاد رکھا گیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ لڑکپن میں ۱۸۳۲ تا ۱۸۳۹ اس جنگل میں ان کی بڑی تعداد کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ابھی بھی کچھ چیتل باقی بچے ہوں گےمگر اب ہم اسے برطانیہ کے جنگلی جانوروں کی فہرست میں رکھ سکتے۔
یہ خوبصورت جانور پارک جیسے علاقوں میں پیٹ بھرتا ہے اور سردیوں میں اسے بہتر پناہ گاہ ملتی ہے اور اس کے سینگ بھی برقرار ہیں۔سینگ بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور کئی شاخیں بھی۔ سرخ ہرن اور اس کے گوشت کا مقابلہ کرتے ہوئے آرا فرق ہو جاتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر چیتل کو زیادہ پسند کرتا ہوں تاہم سکاٹ لینڈ میں ایسی بات کرنا بہت دشوار ہے۔
برطانوی ہرن کی تیسری قسم چکارے کی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹا ہرن عام بکری کی جسامت کا ہوتا ہے۔ اس کے سینگوں کی دو شاخیں ہوتی ہیں مگر بہت موٹے ہوتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی گرہیں اسے مزید خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں اس کی کافی تعداد پائی جاتی ہے اور گھنے جنگلوں میں ملتے ہیں۔ یہ جانور زیادہ بڑے غول نہیں بناتا بلکہ عموماً جوڑے کی شکل میں یا تنہا رہتا ہے۔ مادہ کا زمانہ حمل پانچ سے چھ ماہ تک ہوتا ہے اور کبھی کبھار ایک سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ وسطی یورپ میں اس کا گوشت بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے اور اسے بیکن کے ساتھ ملا کر پکاتے ہیں مگر میں اس کے گوشت کو خشک اور کمتر درجے کا سمجھتا ہوں۔ اسے بمشکل قابلِ شکار جانور سمجھا جا سکتا ہے اور بندوق سے اس کا شکار خرگوش جیسا ہوتا ہے۔ یہ یورپ اور مغربی ایشیا میں عام ملتا ہے۔
دنیا بھر میں ہرنوں کی بے شمار چھوٹی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تذکرہ وقت کا ضیاع ہے۔ میں نے محض ان ہرنوں کے بارے بات کی ہے جنہیں شکاری اس قابل سمجھتے ہیں کہ ان کا شکار کیا جائے۔ اس لیے ہم ہرنوں کا تذکرہ یہیں چھوڑ کر اب امریکہ کا رخ کرتے ہیں جہاں یورپ کا سرخ ہرن ایک بہت بڑے جانور واپیٹی کی شکل میں پایا جاتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۴
واپیٹی
میں پہلے ہی یہ وضاحت کر چکا ہوں کہ واپیٹی یورپ اور شمالی ایشیا کے سرخ ہرن کی ہی بڑی شکل ہے جو نہ صرف جسامت بلکہ سینگوں کے اعتبار سے بھی سرخ ہرن سے کہیں بڑا ہے۔ دس یا بارہ سال کا عمدہ نر جنگلی حیات میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی انسان کے لیے انتہائی خوشی کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس کی رنگت بھی سرخ ہرن سے مماثل ہے اور کولہوں کا رنگ کچھ ہلکا ہوتا ہے۔
میں نے واپیٹی کا نہ تو کبھی وزن کیا ہے اور نہ ہی اس کی پیمائش کی ہے مگر ہرن کی نسل کے دیگر جانوروں کے وزن کرنے کی وجہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ واپیٹی کا وزن ۹۰۰ سے ۱٫۰۰۰ پاؤنڈ ہو سکتا ہے اور اس کا قد شانے پر ۱۴ ہاتھ ہوگا۔ یہ شمالی امریکہ میں ہر جگہ پایا جاتا تھا مگر شکار کی کثرت کی وجہ سے لگ بھگ غائب ہونے والا ہے۔ شکار میں نر اور مادہ کی تمیز بھی نہیں رہی۔
یہ شاندار ہرن کبھی سیکرے منٹو کی وادی میں بکثرت ہوتا تھا اور سان فرانسسکو کے شہر کے قریب ہی دکھائی دیتا تھا مگر اب یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے حالانکہ شہر کو بنے چالیس برس بھی نہیں گزرے۔ جنوبی کیلیفورنیا میں شکاریوں کو ہر طرح کی سہولت ملی ہوئی ہے کہ یہاں کا موسم معتدل ہے اور سارا سال شکار کیا جا سکتا ہے اور جانوروں کو مسلسل اپنی جان بچانے پر تیار رہنا پرتا ہے۔ واپیٹی اب شمال کو چلا گیا ہے جہاں غیرآباد جنگلوں میں انسانوں سے دور سکون سے رہ رہا ہے۔
بہت سارے لوگ شکا رکے بارے لکھتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اگر جانوروں کو تنگ کیا جائے تو وہ کتنا طویل فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ بہت سارے بہترین شکاریوں نے مجھے بتایا ہے کہ کیسے وہ کسی نئی جگہ پر شکار کو گئے جہاں اتنے جانور تھے کہ چاہے انگلستان سے کتنے ہی شکاری کیوں نہ آ جائیں، پانچ چھ سال تک شکار کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ تاہم یہ شکاری بھول جاتے ہیں کہ ہر جانور مارا نہیں جاتا بلکہ جو ڈر کر بھاگتا ہے، وہ بھی شکار کے لیے بحیثیتِ مجموعی اتنا ہی نقصان دہ ہے۔
پہاڑی علاقے میں جہاں ایک ہفتہ شکار کیا جائے تو گولیوں کے دھماکے گونجتے ہیں، بہت بڑے علاقے تک جانور متاثر ہو جاتے ہیں۔ ہرن جیسے سخت جان جانور چوبیس گھنٹے میں تیس سے چالیس میل کا فاصلہ طے کر لیتے ہیں اور جلد ہی علاقہ چھوڑ جاتے ہیں۔ سارا سال ہرن ایک ہی جگہ ایک جتنی تعداد میں نہیں رہتے۔ چارے کی حالت، بدلتا موسم اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہرن کئی سو میل کے رقبے پر پھیلے ہوتے ہیں۔ یہ رقبہ پیدائش سے ہی ان کی جولان گاہ ہوتا ہے۔
واپیٹی کا مسکن زیادہ وسیع ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ وائیومنگ کی ریاست میں بِگ ہارن رینج والے واپیٹی مخصوص موسم میں راکی پہاڑوں کو چلے جاتے ہوں گے۔
غول کی شکل میں رہنے والے تمام جانور موسم کے ساتھ ہجرت کرتے ہیں، خصوصاً جب ان کی تعداد بہت بڑھ جائے۔ میں نےا یک ہی غول میں ۳۰۰ واپیٹی شمار کیے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ سیدھے بِگ ہارن رینج کی طرف گئے ہوں گے کہ دوبارہ نہ دکھائی دیے حالانکہ کئی ہفتوں تک میں ہر روزگھوڑے پر بہت دور دور تک جاتا تھا۔
میں بِگ ہارن پہاڑی سلسلے کے بارے ریچھ کے باب میں بات کر چکا ہوں اور یہاں محض اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ سکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز سے کسی حد تک مماثل مگر بہت بڑی ہے۔ اس کے پہاڑ ۱۲٫۰۰۰ فٹ سے بھی اونچے ہو جاتے ہیں۔ سپروس کے جنگل پہاڑی ڈھلانوں پر کئی میل تک پھیلے ہوتے ہیں۔ یہاں کی زمین سکاٹ لینڈ سے کہیں بہتر ہے کہ یہاں دلدل یا مرطوب خطے نہیں بلکہ عمدہ قسم کی گھاس پائی جاتی ہے جو جانوروں کو فربہہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ سیج جھاڑیاں بھی ملتی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شکار کے نکتہ نظر سے یہ کتناعمدہ مقام ہوگا۔ تاہم کئی اہم مسائل بھی ہیں۔ اگرچہ آب و ہوا بہت عمدہ ہے مگر موسم کا بھروسہ نہیں۔ اچانک ہی درجہ حرارت کم یا زیادہ ہو سکتا ہے اور شدید خشکی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
ہمارا قیام زیادہ تر سطح سمندر سے ۱۰٫۰۰۰ فٹ سے زیادہ بلندی پر ہوتا تھا۔ اس بلندی پر ہوا بہت صاف اور ہلکی ہو جاتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں رات کو کافی سردی ہو جاتی تھی۔ دن کے وقت سورج گرم لگتا تھا اور ہوا چبھنے والی ہوتی تھی۔ اس کا انسانی جلد پر برا اثر ہوتا ہے۔ اگرچہ میں موسم سے بے نیاز ہوتا ہوں مگر میرا چہرہ اور گردن کافی متاثر ہوا تھا۔ ہمارے پاس عام خیمہ تھا جو سات مربع فٹ پر تھا۔ اس کی اونچائی چھ فٹ سے کم تھی۔ بستر زمین پر ہوتا تھا جو سپروس کی نرم شاخوں سے بنا ہوتا تھا جن پر صاف چادر بچھا دی جاتی تھی اور دہرے کمبل بھی۔ معتدل موسم میں یہ انتہائی بہترین انتظام ہوتا مگر یہاں اتنی سردی ہوتی تھی کہ صبح سویرے پانی جم چکا ہوتا تھا۔ تاہم ندی سے دس پاؤنڈ جتنے وزنی گول پتھرلا کر آگ میں گرم کر کے ان پر موٹا کپڑا بچھا دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے کافی حدت ملتی رہتی تھی۔
اس جگہ جنگل کافی مختصر تھا۔ وقفے وقفے سے لگنے والی آگ سے جنگل کے بڑے حصے صاف ہو چکے تھے اور آگ سے خاکستر ہوئے کالے تنے عجیب دکھائی دیتے تھے۔
جہاں جہاں سپروس کے جنگل باقی بچے ہوئے تھے، وہاں واپیٹی کے بے شمار نشانات ملتے تھے۔ بعض جگہوں پر ایک بھی درخت ایسا نہیں تھا کہ جس پر واپیٹی نے اپنے سینگوں کی مخمل کو رگڑ کر الگ نہ کیا ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سینگ سخت ہونے کے عرصے کے دوران کتنے زیادہ واپیٹی جمع ہو جاتے ہوں گے۔ اگست کے وسط تک سینگوں سے مخمل مکمل طور پر اتر جاتی ہےا ور جولائی کے وسط سے ہی یہ جمع ہونے لگتے ہوں گے۔ تاہم مخمل کی موجودگی میں ان کا شکار بیکار ہوتا ہے۔
پندرہ اگست تک مکھیاں انتہائی تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔ اس تاریخ سے ۳۰ ستمبر تک بگ ہارن میں شکار کا موسم ہوتا ہے۔
جو شکاری ہر روز شکار پر نکلے اور طلوع آفتاب سے غروبِ آفتاب تک گھوڑے پر سوار شکار کرتا رہے، ایک مہینے میں بہت وسیع علاقے پر شکا رکھیل لیتا ہےا ور چھ ہفتے کی مہم میں اس سے زیادہ ممکن نہیں۔
میں جب یہاں پہنچا تو کھالوں کے شکاری مجھ سے چند روز پہلے پہنچ گئے تھے، سو میں نے اپنی سمت بدل لی کیونکہ وہ لوگ کافی شکار کر چکے تھے۔
بگ ہارن رینج میں زیادہ اچھے مناظر نہیں بلکہ یہ ایک طرح سے خالی منظر تھا۔ انتہائی عمدہ درخت بھی کوئی زیادہ بڑے نہیں تھے۔ نچلے علاقوں کے درخت بمشکل کالے پاپلر کی جسامت کے تھے کہ موسم کی شدت نے انہیں زیادہ نہیں بڑھنے دیا تھا۔ ڈھلوان پر ان کے آٹھ یا دس ایکڑ کے قطعے پر پھیلے جنگل ہرنوں کی پناہ گاہ تھے۔
اس علاقے کے جانوروں میں ریچھ، کالی دم والے ہرن، بائسن، جنگلی بھیڑ، اینٹلوپ، بھیڑیے اور لومڑیاں تھیں۔ قابلِ شکار پرندوں میں کشمیرے اور سیج مرغیاں تھیں۔
میں نے جانوروں کے بے رحمانہ شکار کے بارے اتنا کچھ سن رکھا تھا کہ میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں اپنے پیچھے ایسی کوئی یاد نہیں چھوڑ کر جانے والا۔ اس لیے میں نے قتل کی بجائے شکار کا فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح مجھے ایک فائدہ تو یہ ملا کہ ضرورت سے زیادہ گولیاں چلا کر پورے علاقے کے جانوروں کو خبردار نہ کرتا۔
کالی دم والے ہرن اکتوبر کےو سط میں شکار کے قابل ہوتے ہیں کہ ان کے سینگوں سے مخمل اتر جاتی ہے۔ اس سے مجھے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ ان کے سینگ مڑے ہوئے اور بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی لمبائی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ اس ہرن کی جسامت چیتل جتنی ہوتی ہے اور رنگ سرمئی مائل بھورا۔ اس کا گوشت بہترین ہوتا ہے۔ کھالوں کے شکاریوں کی وجہ سے سارا علاقہ اتنا متاثر ہو چکا تھا کہ کئی روز تک ہمیں واپیٹی نہ دکھائی دیے۔ میں حیران ہو گیا کیونکہ مجھے اس بارے یکسر مختلف معلومات ملی تھیں۔ یہاں اینٹلوپ بکثرت تھے اور ان پر چھپ کر گولی چلانے کا موقع نہیں تھا۔ سو جب یہ جانور ڈر کر بھاگتے تو واپیٹی یہاں موجود بھی ہوتے تو وہ بھی خبردار ہو جاتے کہ خطرہ آن پہنچا۔ بائسن بھی بکثرت تھے مگر ایک عمدہ نر کو شکار کرنے کے بعد میں نے انہیں فطرت کے مزے لینے کو چھوڑ دیا کہ قدرتی پارک میں ان کا وجود بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
کئی جگہوں پر تو بائسن بے فکری سے ہمارے کیمپ سے چند سو گز پر چر رہے ہوتے تھے۔بات اچھی بات تھی مگر واپیٹی کہاں گم ہو گئے تھے؟ ہماری پارٹی میں میری بیوی، میں اور ہمارے چار ملازم اور کافی گھوڑے اور خچر تھے۔
میں نے اپنے شکاری جم بورن کو ایک ہنری مارٹینی رائفل دی تھی مگر وہ میری اجازت کے بغیر گولی نہیں چلا سکتا تھا۔
میرا ایک گھوڑا بہت تربیت یافتہ تھا جس کا نام بک سکن تھا۔ جب میں ہرن کے پیچھے چلنے کے لیے اترتا تو یہ گھوڑا اسی مقام پر ہی میرا انتظار کرتا چاہے جتنا وقت گزر جائے۔ اس کے علاوہ یہ قابلِ بھروسہ اور ثابت قدم تھا اور کبھی نہ چڑھائی پر اس نے ٹھوکر کھائی اور نہ ہی اترائی پر۔ اس پر سوار ہو کر جب بھی میں نے گولی چلائی، اس نے کبھی کوئی حرکت نہ کی اور کسی مجسمے کی طرح ساکت ہو جاتا تھا۔ یہ گھوڑا میرے ساتھ بہت برس رہتا کیونکہ اس نے کبھی خود کو مشکل میں نہیں ڈالا۔ اس کو ایڑ سے نفرت تھی۔ ایک بار میں غلطی سے ایڑ بھول گیا تھا، مگر پھر کبھی یہ غلطی نہ دہرائی۔ اُس موقع پر اسے کافی خوشی ہوئی کہ وہ اپنی قدرتی رفتار سے چل سکتا تھا جو کہ عام چال تھی۔ ایڑ لگانے سے یا چابک استعمال کرنے سے چند لمحے کو اس کی رفتار بڑھتی اور پھر واپس۔
جس روز میں ایڑ بھول گیا تھا، اس روز ہم ایک وادی سے گزر رہے تھے اور بائیں جانب کی ڈھلوان پر سپروس کے جنگل تھے اور دائیں جانب کھلی گھاس۔ اچانک ہمیں دائیں جانب ۶۰۰ گز پر افق پر اینٹلوپ اترتے دکھائی دیے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی چیز سے ڈر کر بھاگے ہیں۔ مگر کئی میل تک دوسرا کوئی شکاری نہیں تھا، سو ہمیں وجہ سمجھ نہیں آئی۔
پھر ہمیں تین بڑے ریچھ ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے دکھائی دیے جو بظاہر بائیں جانب والے جنگل کی سمت جا رہے تھے۔ اگر ہم تیز بھاگتے تو انہیں راستے میں روک سکتے تھے۔ گھوڑے کو علم تھا کہ میرے جوتوں پر دھاتی ایڑ نہیں لگی ہوئی۔ اس لیے میری تمام تر کوشش کے باوجود گھوڑے نے رفتار تیز نہیں کی۔ سو میں نے اتر کر دوڑ لگا دی۔ یہ جگہ ۱۰،۵۰۰ فٹ بلند تھی، سو جلد ہی میرا سانس پھول گیا۔ ریچھوں کو سانس لینے میں بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا تھا۔ سو میرے پہنچنے سے قبل ہی وہ جنگل میں گھس چکے تھے۔ میرا ساتھی خچر پر سوار تھا، سو ریچھ بچ کر نکل گئے۔ ایڑ کے بغیر میرا گھوڑا ایسے تھا جیسے دخانی جہاز سے ایندھن نکال لیا جائے۔
مجھے یہ گھوڑا پسند تو تھا مگر بہت زیادہ نہیں۔ اس نے مجھے پہاڑوں پر اوپر اور نیچے ہمیشہ محفوظ طریقے سے پہنچایا مگر جب تک ایڑ نہ ہو، یہ بیکار تھا۔ جب گھوڑے کو مکئی کھلائی جائے تو کچھ ذہین بنتا ہے۔ تاہم انیسویں صدی میں بھی گھوڑا اتنا ہی احمق ہے جتنا کہ شاید طوفان ِ نوح کے وقت تھا۔
پارلیمان کے ایک رکن نے کئی برس قبل گھوڑے کے بارے یہ بات کی تھی: ‘مجھے گھوڑے سے کوئی ہمدردی نہیں، اگلے سرے سے یہ کاٹتا ہے تو پچھلے سرے سے دولتی مارتا ہے۔ درمیان میں محض تکلیف ہوتی ہے‘۔ درمیان کی تکلیف سے مراد اس کی سواری ہے۔ تاہم راکی پہاڑوں جیسے علاقے میں جہاں گھوڑے کو جست نہیں لگانا پڑتی، یہاں انسان اور گھوڑے کے بیچ میکسیکو والی زین سے بہتر کوئی چیز ممکن نہیں۔
یہ زین یورپی اعتبار سے بالکل الٹ ہے۔ یہ بہت بھاری ہوتی ہے اور اس کا وزن عموماً ۲۵ سے ۳۰ پاؤنڈ بنتا ہے۔ اس کے اندر کچھ نہیں بھرا ہوتا۔ درمیان میں سے کٹی ہوتی ہے یعنی طویل فاصلےل پر سفر کی صورت میں بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ اس کے آگے ایک ابھرا ہوا کیل سا لگا ہوتا ہے اور زین پیچھے سے اٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ رکابوں پر چمڑہ ہوتا ہے اس طرح دھاتی رکاب گرمیوں میں نہ گرم ہوتی ہیں اور نہ ہی سردیوں میں ٹھنڈی۔ زین کے مختلف حصوں سے ہرن کے چمڑے سے بنی پٹیاں لٹک رہی ہوتی ہیں جہاں آپ کچھ بھی مطلوبہ چیز باندھ سکتے ہیں۔
وزن کے حوالے سے کچھ ایسا ہے کہ یہ زین گھوڑے کی پوری پشت پر ہوتی ہے۔ اس لیے سوار کا وزن بہتر طور پر پھیلا ہوتا ہے۔ زین کے وسط میں موجود کٹاؤ سے ہوا کی گردش بہتر رہتی ہے جس سے گھوڑے کی پشت اور سوار کی نشست کو ہوا لگتی رہتی ہے۔ اس میں کوئی چیز اس لیے نہیں بھری ہوتی کہ اس کی جگہ ایک چھوٹا سا کمبل تہہ کیا ہوا ہوتا ہے اور اس طرح وزن گھوڑے کی پشت کی بجائے پہلو پر رہتا ہے۔
جب میں سان فرانسسکو میں تھا تو میں نے گھوڑے پر سوار حالت میں رائفل رکھنے کا مناسب طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔شہر کا زین ساز مسٹر ڈیوس اس ضمن میں بہت مفید ثابت ہوا۔ اس نے رائفل کے لیے ایک خانہ بنایا تھا جس چار انچ چوڑی موٹے چمڑے کی پٹی سے باندھا جاتا تھا اور اس میں رائفل کندے کی ابتدا تک سما جاتی تھی۔ رائفل بائیں جانب رکھی جاتی ہے۔ رائفل کا خانہ دو پٹیوں سے مضبوطی سے بندھا ہوتا ہے اور رائفل کو آسانی سے دائیں ہاتھ سے نکالا جا سکتا ہے جیسے تلوار کو نیام سے نکالا جاتا ہے۔ اس سے بہتر انتظام ممکن نہیں کہ جنگل میں آپ گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے بھی رائفل سے کوئی مشکل نہیں محسوس کرتے اور جونہی ضرورت پڑے، رائفل فوراً نکال سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا ریچھوں کو دیکھنے کے کچھ دن بعد ایک بار میں ایک پہاڑی پر سے گزر رہا تھا کہ دائیں جانب مجھے ایک چھوٹا درخت جو جنگل کے سرے پر واقع تھا، بری طرح ہلتا ہوا دکھائی دیا ۔ فوراً مجھے وجہ سمجھ آ گئی اور میں گھوڑے سے اتر کر وہیں بیٹھ گیا۔ پھر اسے طرح بیٹھے بیٹھے میں کھسکتا ہوا اس درخت کے عین مقابل پہنچ گیا۔ مجھے کوئی جانور دکھائی نہ دیا مگر ایک منٹ انتظار کے بعد مجھے اس درخت سے چند گز دور ایک اور درخت دکھائی دیا جو بری طرح ہل رہا تھا۔ مجھے علم تھا کہ کوئی واپیٹی اپنے سینگ رگڑ رکھا ہوگا۔ ہوا میرے حق میں چل رہی تھی، سو اسی طرح بیٹھے بیٹھے میں نے پیش قدمی جاری رکھی۔ بیس گز سے بھی کم فاصلے پر پہنچ گیا تو درخت پھر ہلا مگر جھاڑیاں اتنی بکثرت تھیں کہ کچھ دکھائی نہ دیا۔
جونہی میں آگے بڑھا، فوراً زور سے کسی جانور کے بھاگنے کی آواز آئی اور عین اسی لمحے ڈھلوان پر نیچے کو بھاگتے ہوئے انتہائی خوبصورت نر واپیٹی دکھائی دیا جو پندرہ گز دور تھا۔
جب میں نے لبلبی دبائی، ایسی آواز آئی جیسے کوئی گھوڑا گرا ہو۔ تاہم جانوروں کی دوڑ کی آواز آتی رہی اور جب میں چند گز چل کر کھلے میں پہنچا تو آٹھ خوبصورت نر ایک قطار میں بھاگتے ہوئے ساٹھ گز دور دکھائی دیے۔ میں نے رائفل اٹھائی، نشانہ لیا اور لبلبی کو چھو کر پھر رائفل نیچے کر لی۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا شکار مر چکا ہے۔ سو میں ان خوبصورت جانوروں کو دوڑتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔ پھر میں جنگل میں داخل ہوا اور گرے ہوئے واپیٹی تک پہنچا۔ اس کے سینگ اتنے بڑے تھے جیسے درخت کی شاخیں ہوں۔ تاہم اسے چھوئے بنا میں نے سیدھا دو میل دور کیمپ کا رخ کیا تاکہ اپنی بیوی کو لا کر یہ جانور دکھاؤں اور گوشت لادنے کے لیے خچر بھی لا سکوں۔ جب ہم نے کھال اتروائی تو اس کے پہلوؤں پر کئی انچ موٹی چربی کی تہہ تھی۔
یہ آغاز تھا۔ تاہم یہ بھی عجیب معاملہ تھا۔ میں طویل سفر کر کے یہاں شکار کے لیے آیا تھا مگر یہاں مقامی قبائل نہیں تھے۔ سو ضرورت سے زیادہ شکار کرتا تو گوشت ضائع جاتا اور یہ قتلِ عام کے مترادف ہوتا۔ سو میں ان کا مطالعہ کرتا رہا اور جہاں انتہائی خوبصورت جانور دکھائی دیا تو شکار بھی کر لیتا۔
روزانہ جب باہر نکلتے تو ہمیں کچھ تعداد میں گرے ہوئے سینگ دکھائی دیتے۔ تاہم یہ سینگ بہت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اور درختوں پر موجود رگڑنے کے نشانات سے کہیں کم تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں درختوں کی چھال جڑ سے چار یا پانچ فٹ کی بلندی تک اتری ہوئی تھی اور یہ نشانات پچھلے برس کے تھے۔ سینگوں کا جوڑا ہمیں شاید ہی کہیں دکھائی دیا ہو، زیادہ تر ایک سینگ ہوتا تھا اور اس کا جوڑا اس علاقے میں کہیں نہیں ملتا تھا۔ سینگوں کی کمیابی سے اندازہ ہوا کہ موسمِ بہار میں یہاں بہت کم ہرن ہوتے ہیں۔ یہ وہی وقت ہے جب سینگ گرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فروری میں شدید موسمِ سرما کی وجہ سے یہاں کے جانور کم بلندی پر منتقل ہو چکے ہوتے ہوں گے۔مگر ان کے سینگ کہاں گرتے ہوں گے، میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چونکہ سینگ گرانے اور نئے سینگ رگڑنے کی وجہ سے ہرن سالانہ ہجرت کرتے ہیں۔
دو مواقع پر مجھے ان کے بہت بڑے غول دکھائی دیے۔ ان مواقع پر صبح سے دوپہر تک ہمیں صرف بائسن اور کالی دم والے ہرن دکھائی دیے تھے۔ ہم ایک ہلکی سی اترائی پر جا رہے تھے جس سے ایک تیز رفتار ندی گزر رہی تھی۔ کچھ فاصلے پر ہمیں کوئی چیز دکھائی دی جو ندی کے دوسرے کنارے سے پچاس گز دور تھی۔ ایسا لگا جیسے کسی جلے ہوئے درخت کا تنا ہو۔ دوربین سے دیکھا تو پتہ چلا کہ مادہ واپیٹی ہے۔
مادہ کھلے قطعے کے تنگ حصے میں کھڑی تھی اور چوٹی اس سے ۸۰ یا ۱۰۰ گز اوپر اور مخالف سمت میں تھی۔ یہ پہاڑیاں کئی سو فٹ اونچی اور گھاس سے بھری ڈھلوانوں والی تھیں۔ مادہ ۱٫۲۰۰ گز دور تھی۔ سو ہم نیچے اترے اور اپنے گھوڑوں کو چھوڑ دیا۔ میں نے تجویز پیش کی کہ ہم ندی میں چلتے ہوئے اس سے دو سو گز کے فاصلے پر پہنچیں جہاں میرا شکاری رک جائے گا اور میں پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے مادہ کے عین مخالف سمت پہنچ جاؤں گا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ کئی نر اس کے ساتھ ہی بیٹھے ہوں گے مگر نظر نہیں آ رہے۔ اس طرح ہماری پیش قدمی شروع ہوئی۔ ہم زیادہ دور نہ گئے ہوں گے کہ مادہ کے ساتھ ایک نر بھی آ گیا۔ اس کے سینگ اچھے تھے مگر غیر معمولی نہ تھے۔
ہم مزید آگے بڑھتے رہے اور ان سے دو سو گز دور تک پہنچ گئے۔ وقفے وقفے سے ہم محتاط ہو کر کنارے سے سر ابھار کر دیکھتے بھی رہے کہ آیا ہرن بھاگ تو نہیں گئے۔ یہاں پہنچ کر میں نے اپنے شکاری کو وہیں بٹھایا اور خود آگے بڑھا تاکہ موڑ تک پہنچوں۔ وہاں سے ہرنوں کا فاصلہ سو گز ہوگا۔
یہاں پانی گھٹنے تک تھا۔ میں آسانی سے جا رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے انتہائی مشکل سے بارہ یا چودہ فٹ اونچے کنارے پر چڑھ کر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ کئی سو واپیٹی مجھ سے دو سو گز دور ندی عبور کر کے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے۔ پتھروں اور جھاڑیوں کی وجہ سے یہ پورا ریوڑ ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ شکاری کے بیان کے مطابق اس نے دیکھا کہ نر اور مادہ واپیٹی نے چلنا شروع کیا۔ اسے علم تھا کہ میں نیچے سے ان کی پیش قدمی نہیں دیکھ سکتا، سو اس نے نر پر گولی چلا دی۔
گولی چلتے ہی پورا ریوڑ خبردار ہو گیا جو ندی کےپاس ہی لیٹا اور بیٹھا تھا۔ اس جگہ جانوروں کی باقاعدہ گزرگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ سبھی واپیٹی اتنی دور جا چکے تھے کہ میں اپنے شکاری کو برا بھلا ہی کہہ سکتا تھا کہ اس نے گولی کیوں چلائی تھی۔
اس غول میں کم از کم تین یا چار سو واپیٹی رہے ہوں گے اور بہت سوں کے سینگ انتہائی بڑے تھے۔ اگر میرا ساتھی گولی نہ چلاتا تو مجھے شاندار موقع ملتا مگر اب میں ان خوبصورت جانوروں کو پہاڑ کے اوپر چڑھ کر دوسری جانب اترتے ہوئے دیکھتا رہا۔
مجھے پورا یقین ہے کہ اس ریوڑ نے سیدھا سفر جاری رکھا ہوگا اور اس خزاں میں بگ ہارن رینج واپسی کا رخ بھی نہیں کیا ہوگا۔
پہاڑوں کو عبور کر کے انہوں نے سیدھا نیچے کا رخ کیا تھا جو سات یا آٹھ میل طویل ڈھلوان تھی اور پھر ساٹھ سے ستر میل کا غیرآباد علاقہ طے کرتے ہوئے راکی پہاڑوں کی طرف چلے گئے ہوں گے۔ جس سمت وہ گئے تھے، مجھے پورا یقین ہو گیا کہ جو بھی جانور یہاں سے فرار ہوتا، وہ بھی یہی سمت اختیار کرتا۔ اگر یہی واپیٹی بیس بیس اور تیس تیس کے جھنڈ میں ہوتے تو کافی بڑے علاقے میں بکھرے ہوئے ہوتے تو یہاں بہت دن شکار ممکن ہوتا اور پھر جا کر یہ جانور علاقہ چھوڑتے۔ چھوٹے جھنڈ کی نسبت بڑا جھنڈ زیادہ طویل فاصلے طے کرتا ہے۔
تمام اجتماعات گھبراہٹ کا نتیجہ ہوتے ہیں اور بچوں اور ماداؤں کی موجودگی سے ان کی گھبراہٹ بڑھ جاتی ہے اور پانچ گھنٹوں کی دوڑ میں ہرنوں کا غول پچیس تیس میل طے کر لیتا ہے۔
دو روز تک مجھے کوئی اور واپیٹی نہ دکھائی دیا تو مجھے لگا کہ اس علاقے کے سارے ہی واپیٹی فرار ہو گئے ہیں۔ اس لیے میں نے کیمپ منتقل کر لیا۔
نئی جگہ ایک شفاف ندی کے کنارے اور ہوا سے بچاؤ والی جگہ تھی۔ یہاں گہرے سبز رنگ کے سپروس کے درخت تھے۔ یہاں جلانے کے لیے لکڑیاں، پینے کا صاف پانی اور خوبصورت مناظر تھے۔ اس کے علاوہ یہاں دس میل کے رقبے میں کوئی گولی بھی نہیں چلی تھی۔ سو ہمیں یقین تھا کہ یہاں ہمیں شکار کا بہت اچھا موقع ملے گا۔
اگلی صبح میں اپنے شکاری جِم کے ساتھ نکلا۔ جنگل کافی دشوار گزار تھے کہ جگہ جگہ درخت گرے ہوئے تھے اور جوں جوں ہم نیچے اترے گئے، جنگل نسبتاً چھدرا ہوتا گیا۔ کچھ دیر بعد کئی میل تک کا نظارہ دکھائی دینے لگا۔ ہم جنگل کے کنارے کنارے چلتے رہے اور جہاں زمین مناسب ہوتی، جانوروں کے پیروں کے نشانات دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ صرف کالی دم والے ہرن کے نشانات دکھائی دیتے رہے۔ شاید جنگل کے اندر مزید بھی جانورہوں، مگر وہاں گھوڑے پر سوار ہو کر جانا ممکن نہ تھا۔ واحد طریقہ یہی تھا جو ہم نے اپنایا ہوا تھا۔
جب ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں زمین مناسب تھی، وہاں ہم کئی کھلے قطعوں سے گزرے جن کے درمیان گھنے درختوں کی پٹیاں موجود تھیں۔ یہ شکار کے لیے مناسب مقام تھا۔ زمین ہموار اور ہلکی سی اونچی نیچی تھی اور خوبصورت گھاس اگی ہوئی تھی اور ساتھ ہی درختوں کی محفوظ چھاؤں بھی دستیاب تھی۔ یہاں ہم آرام سے گزر رہے تھے کہ اچانک مجھے ایک مردہ درخت کی شاخ ہلتی محسوس ہوئی۔ میں نے فوراً گھوڑا روکا اور دیکھنا شروع کر دیا۔ ڈیڑھ سو گز دور وہی شاخ پھر ہلی۔ میں آہستگی سے نیچے اترا۔ میرا شکاری پیچھے تھا، وہ بھی اتر آیا۔
میں نے جس شاخ کو ہلتے دیکھا تھا، وہ جانور بھی مجھے دکھائی دے گیا جو ایک بہت بڑے سینگوں والا واپیٹی تھا۔ ہم نے گھوڑوں کی لگامیں ان کے سامنے ڈال دیں اور انہیں چرنے کو چھوڑ دیا۔
ہمارے دائیں جانب اونچے درختوں کا ایک چھوٹا سا ذخیرہ تھا جو ہلکی ڈھلوان پر تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ اس جگہ ہوا ہمارے موافق ہوگی اور ہم وہاں پہنچ کر آسانی سے گولی چلا سکیں گے۔ یہاں زمین کچھ ابھری ہوئی تھی کہ واپیٹی نظروں سے اوجھل تھا اور گھوڑے سے اترنے پر اس کے سینگ بھی دکھائی نہ دے رہے تھے۔ میرے شکاری نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔
دائیں جانب چکر کاٹ کر ہم آخرکار مطلوبہ ذخیرے تک پہنچ گئے۔ اس کی نرم شاخوں سے بچ کر گزرتے ہوئے ہم سرے پر پہنچے جہاں سے ہمیں واپیٹی دکھائی دینا تھا۔یہاں سے ڈیڑھ سو گز دور تین انتہائی شاندار واپیٹی آرام سے گھاس چر رہے تھے۔ ان کی پیش قدمی کا رخ ایسا تھا کہ کچھ دیر بعد وہ ہمارے سامنے اسی گز کے قریب سے گزرتے۔ہوا ہمارے حق میں تھی۔
سب سے بڑے نر نے آہستگی سے پیٹ بھرتے ہوئے سفر جاری رکھا اور میں نے دوربین سے اس کے سینگوں کے ۱۴ سرے شمار کیے۔ باقی دو کے بارہ بارہ سرے تھے۔میں نے اسی بڑے کا شکار کرنے کا تہیہ کر لیا۔
چرتے چرتے وہ ہم سے ۱۱۰ گز پر پہنچ گئے اور درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ مگر جب وہ مزید آگے بڑھتے ہوئے عین ہمارے آگے پہنچتے تو انہیں درختوں کے ایک چھوٹے سے ذخیرے کے پیچھے سے گزرنا پڑتا۔ میں ۱۱۰ گز پر بھی اطمینان سے گولی چلا سکتا ہوں مگر مجھے انتظار کرنے اور جانوروں کو دیکھنے کا شوق ہے، سو میں نے سوچا کہ وہ اس ذخیرے کو عبور کر کے دوسری جانب پہنچیں تو پھر گولی چلاؤں گا۔
جلد ہی وہ ذخیرے کے پیچھے پہنچ گئے اور یہاں سے مشکل شروع ہوئی۔میں نے سب سے بڑے سینگوں والے واپیٹی کا نشانہ لیے رکھا اور صرف اسی پر گولی چلانے کا سوچا۔ مگر ذخیرے کے پیچھے پہنچ کر انہیں جیسے خطرے کا احساس ہو گیا۔ شاید گھوڑوں کی بو سونگھ لی ہو یا پھر کچھ اور، انہیں ہماری بو تو نہیں آئی سکتی تھی۔ انہوں نے اوپر دیکھا اور واپس مڑ کر دوڑ لگا دی۔ میں نے سب سے بڑے کے شانے پر گولی چلائی اور اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی لگنے کی مدھم آواز آئی مگر واپیٹی نہ گرا۔
‘گولی نشانے پر لگی ہے، ابھی گر جائے گا‘۔ جم نے کہا۔ میرا بھی یہی خیال تھا مگر تینوں واپیٹی ایسے بھاگتے رہے جیسے کسی کو بھی گولی نہ لگی ہو۔ ڈھلوان سے اترتے ہوئے وہ گرے ہوئے درختوں کے تنوں کو پھلانگتے گئے جیسے انہیں اس میں مزہ آ رہا ہو۔ آخرکار وہ ایک گہری کھائی میں دو سو گز دور غائب ہوئے جہاں نشیب میں کچھ درخت اگے ہوئے تھے۔
کھائی کی دوسری جانب پھر گھاس کا ایک چھوٹا سا میدان تھا جس کے بعد اصل جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ اس دوران میں نے گولی دوبارہ بھر لی تھی مگر یہ سمجھ سے باہر تھا کہ اعشاریہ ۵۷۷ کی گولی اتنے کم فاصلے سے کھانے کے بعد واپیٹی کیسے اتنی دور تک بھاگ سکتا ہے۔
میں نے اڑھائی سو گز والے نشانے کی پتی اٹھا لی تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ جب کھائی سے نکلیں گے تو واپیٹی اس کھلے میدان سے گزریں گے۔ یہاں سے گولی کا فاصلہ کافی تھا مگر زخمی واپیٹی کو روکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اگر وہ بچ جاتا تو پھر کبھی ہاتھ نہ لگتا۔
جلد ہی سینگوں کا جوڑا نمودار ہوا اور پھر بہترین واپیٹی دکھائی دیا۔ میں نے رائفل کندھے پر لگائی ہی تھی کہ جم بول پڑا، ‘یہ ہمارے والا واپیٹی نہیں‘۔ میں نے اسے چپ رہنے کو کہا مگر رائفل تیار رکھی۔ پھر دوسرا نر نمودار ہوا۔ جم پھر بولا مگر میں نے اسے چپ کرایا۔ دونوں نر بھاگ کر جنگل میں گھس گئے۔ جم پھر بولا کہ ہمارے والا جانور نیچے کھائی میں مرا پڑا ہوگا۔
مجھے بھی یہی شک ہونے لگا تھا مگر پھر بہت بڑے سینگوں کا جوڑا نمودار ہوا اور پھر واپیٹی نمودار ہوا۔ جب وہ کھلے میدان میں پہنچا اور اپنے ساتھیوں کے نقشِ قدم پر بھاگتا ہوا گزرا۔ میں نے اس پر آرام سے نشانہ جمایا اور گولی چلا دی۔ واپیٹی گھوم کر گرا اور عین اسی وقت ہمیں گولی لگنے کی آواز سنائی دی۔
‘واہ۔ بہترین رائفل کی گولی اس بار کارگر ثابت ہوئی‘۔ جم نے اس سمت دوڑتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کے پیچھے آہستگی سے چلتے ہوئے قدم گنے۔ نشیب تک ۲۴۰ طویل قدم بنے۔ ابھی چڑھائی باقی تھی۔ سو رائفل کی گولی کا سیدھا فاصلہ اڑھائی سو گز بنا ہوگا۔
ہم نے واپیٹی کا معائنہ کیا۔ ہمیں علم تھا کہ پہلی اور دوسری دونوں گولیاں بائیں جانب شانے پر لگی ہونی چاہیئں مگر ہمیں اس کے شانے کے وسط میں صرف ایک گولی کا زخم دکھائی دیا۔ ہم نے واپیٹی کی لاش کو کھول کر اس کا پیٹ صاف کیا تاکہ معائنہ آسان ہو جائے۔ گولی اس کے گولی اس کے دل کے درمیان سے گزری تھی اور دوسری جانب کے شانے کو بھی توڑ کر کھال کے نیچے رک گئی تھی۔ اس کا حجم چھوٹی کھمبی جتنا تھا۔ یہ گولی نرم سیسے کی تھی۔
چونکہ اسے صرف ایک ہی گولی لگی تھی، سو پہلی گولی کسی درخت کو لگ کر رک گئی ہوگی۔
اس واپیٹی کے سینگوں سے زیادہ خوبصورت سینگوں والا جانور میں نے کبھی نہیں شکار کیا۔ قسمت نے اس کو سینگوں پر دو اضافی نوکیں دی تھیں جو اس کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی۔ یہ نوکیں مخالف سمت مڑی ہوئی تھیں۔ سو جب بھی یہ بھاگا ہوگا تو نوکیں رکاوٹ بنتی ہوں گی۔ سینگوں والے ہرن بھاگتے ہوئے سر اٹھا کر سینگ پیچھے کو موڑ لیتے ہیں اور ناک اوپر اٹھ جاتی ہے۔ اس طرح ان کے سینگ درختوں وغیرہ میں الجھ کر رکاوٹ نہیں بنتے۔
اگرچہ سینگ پوری طرح مخمل سے پاک اور سخت تھے (۲۹ اگست ۱۸۸۱) مگر ایک نوک گول تھی اور اس سے خون بہہ رہا تھا۔ شاید مستقل رگڑ سے اس میں سوجن پیدا ہو گئی تھی اور یہ پوری طرح پختہ نہ ہو سکی۔ اس شاندار واپیٹی کو وہاں چھوڑنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا، سو ہم نے کیمپ کا رخ کیا تاکہ ملازمین اور خچر بھیج کر اس کا گوشت منگوا سکیں۔
اگلی صبح گئے تو دیکھا کہ ریچھوں نے زمین میں گڑھا کھود کر واپیٹی کو اس میں دھکیلنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم وہ انتہائی حد تک ناکام رہے کیونکہ واپیٹی کی نصف لاش بھی نہ چھپ سکی تھی۔ ریچھوں نے اندرونی اعضا کھا لیے تھے جو ہم اس کا پیٹ چاک کرنے کے بعد نکال کر پھینک گئے تھے۔ انہوں نے پسلیوں کی نرم ہڈیاں بھی کھا لی تھیں اور اس کے علاوہ ریچھوں کے پنجوں اور گھاس پھونس کے علاوہ باقی ساری لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔
اس واپیٹی کے سینگوں کی لمبائی خموں کے ساتھ ۵۳ انچ تھی۔ سینگ کی جڑ کی موٹائی ۱۲ انچ جبکہ ایک سینگ کے دوسرے تک کا فاصلہ ۵۲ انچ تھا۔
مندرجہ بالا واقعے کے اگلے روز میں دو شکاریوں کے ساتھ دس ہزار فٹ اونچے پہاڑ پر سے گزر رہا تھا کہ میں نے پون میل دور سامنے والے پہاڑ کی ڈھلان پر دو انتہائی شاندار نر واپیٹی دیکھے۔ دونوں ہم سے ترچھے اور نیچے کی طرف تھے۔ ہمارے درمیان ایک بڑا نالہ بہہ رہاتھا۔ دوربین سے انہیں کچھ دیر دیکھنے کے بعد جب اطمینان ہو گیا کہ وہ چرتے ہوئے کبھی کبھار سر اٹھا کرایک سمت میں دیکھتے ہیں، مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہاں جھاڑیوں میں مادائیں بھی چر رہی ہوں گی۔ اس لیے میں نے محتاط ہو کر پہاڑی کے اوپری سرے کا رخ کیا اور آخرکار جنگل کے سرے تک پہنچ گیا۔ یہاں آتے اتے میں نے کئی بار رک کر دوربین سے واپیٹی کو دیکھا تھا جو آہستہ آہستہ ندی کی سمت بڑھتے جا رہے تھے۔ شاید وہاں اور بھی واپیٹی موجود ہوں گے۔
چند منٹ رکنے کے بعد میں نے دیکھا کہ تھوڑا آگے جنگل میں کچھ خالی جگہ ہے کہ وہاں روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دو ایکڑ کے قریب رقبہ جھاڑ جھنکار سے یکسر پاک ہے اور وہاں گھاس اگی ہوئی ہے جو دو فٹ اونچی تھی۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ واپیٹی یہاں سے لازمی گزریں گے۔
سو ایک بڑی جھاڑی کے پیچھے میں چھپ کر بیٹھ گیا اور یہاں سے سارا قطعہ مجھے واضح دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ساتھی اور گھوڑے کافی پیچھے چھپا دیے تھے۔ یہاں میں صبر سے بیٹھا انتظار کرتا رہا۔
نصف گھنٹہ بیت گیا اور اُکڑوں بیٹھے بیٹھے میرے پیر سن ہونے لگے۔ سو میں آہستگی سے اٹھا تو فوراً سامنے خالی قطعے کے بائیں کنارے سے دو سینگ دکھائی دیے۔ میں فوراً واپس بیٹھ گیا۔ پہلے ایک اور پھر دوسرا نر نمودار ہوا۔ دونوں آہستگی سے چرتے ہوئے گزرنے لگے۔
میرے عین سامنے پہنچے تو میں نے آگے والے نر کا نشانہ لے کر گولی چلائی اور عین اسی لمحے ان کی جانب بھاگ پڑا۔ اسے گولی کندھے پر لگی اور وہیں گھومتے ہوئے بار بار گرتا اور اٹھتا۔ اس طرح وہ جھاڑیوں میں پہنچ کر گرا اور مر گیا۔ اتنی دیر میں بہت زیادہ شور سنائی دیا اور چونکہ یہ نر مر چکا تھا، سو میں نے دوڑ جاری رکھی اور پچاس گز آگے پہنچ کر کھلے آسمان تلے پہنچ گیا۔یہاں میں محض چند گز چوڑی پہاڑی ڈھلان پر تھا جس کے دونوں جانب کم از کم تین سو فٹ گہری کھائیاں تھیں۔ میرے اردگرد انتہائی عجیب منظر تھا۔
گولی کی آواز سن کر جنگل سے بہت بڑی تعداد میں واپیٹی بھاگے اور اس جگہ رکنے کے لیے کافی جگہ نہیں تھی۔ ہر عمر اور جسامت کے لگ بھگ تین سو واپیٹی نکلے تھے اور چند ایک تو مجھ سے دس یا پندرہ گز دور تھے۔ انہیں آگے جانا تھا مگر اس کے لیے انہیں انتہائی ڈھلوان پر اترنا تھا جس کے بعد وہ وادی میں سے ہو کر دوسری جانب پہاڑ پر جاتے۔
تاہم یہ ڈھال اتنی عمودی تھی کہ واپیٹی جیسے بھاری جانور کے لیے اترنا آسان نہ تھا۔ میں نے ایسا منظر دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ سبھی واپیٹی انتہائی احتیاط اور آہستگی سے نیچے اتر رہے تھے۔
میں ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا اور اس منظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اگر میں قتلِ عام کرنا چاہتا تو نجانے کتنے واپیٹی مار سکتا تھا۔ میں باری باری ہر نر کی گُدی کا نشانہ لیتا اور لبلبی کو دبائے بغیر اسے اپنا شکار شمار کر لیتا۔
آخرکار سارا غول نیچے وادی میں پہنچ گیا اور پھر دوسرے کنارے پر چڑھنے لگا۔ جب وہ دوسرے کنارے پر میرے سامنے پہنچے تو میں نے پھر اپنا فرضی شکار شروع کر دیا۔ اس طرح میں نے ہر بڑے نر کا فرضی شکار کیا اور ہر ایک کے شانوں کے عین درمیان کا نشانہ لیتا رہا مگر گولی نہیں چلائی۔ کھالوں کا شکاری کم از کم تیس نر تو مار ہی لیتا۔
کم عمر واپیٹی تھکے ہوئے لگ رہے تھے اور بچے تو میمنے کی طرح ممیا رہے تھے کیونکہ بکھرے ہوئے پتھروں پر چلنا آسان نہیں تھا۔
آخرکار وہ چوٹی پر پہنچے مگر وہاں بھی ان کا شکار کیا جا سکتا تھا کہ وہ بہت تھک گئے تھے اور ان کی حرکات بہت آہستہ تھیں۔ بتدریج وہ پہاڑ کی دوسری جانب غائب ہوتے گئے۔ میں نے واپیٹی کا اتنا بڑا غول پھر کبھی نہیں دیکھا۔
میرے ساتھی میرے ساتھ پہنچ گئے تھے اور انہیں میرا یہ رحمدلانہ رویہ پسند نہیں آیا۔ تاہم میں انہیں پہلے واپیٹی کی طرف لایا جو میں شکار کر چکا تھا۔ انہوں نے فوراً اسے صاف کرنا شروع کر دیا۔ اس کا سر ہم اگلے روز منگوا لیتے۔
فرار ہونے والے واپیٹی میں بہت سے عمدہ سینگوں والے نر بھی تھے مگر کوئی بھی میرے شکار کردہ واپیٹی کے برابر نہیں تھا۔
اس کے کچھ دن بعد ایک بار میں نے پندرہ منٹ بہت عمدہ شکار میں صرف کیے۔ یہ واحد موقع تھا جب میں نے اپنے اس اصول سے صرفِ نظر کیا تھا کہ جب ایک واپیٹی شکار ہو چکا ہو تو اس روز دوسرا واپیٹی نہیں شکار کرنا۔
اُس روز ہم اپنے کیمپ سے پہاڑ پر چڑھے تھے اور سطح مرتفع پر جا پہنچے جو کئی میل پر محیط تھی۔ اس کے دونوں جانب گہری وادیاں تھیں جہاں سے ندیاں گزرتی تھیں اور پہاڑی ڈھلوانوں پر عمدہ گھاس اگی ہوئی تھی جو جانوروں کے لیے باعثِ کشش تھی۔ میرا خیال تھا کہ شاید جانور رات کو اس سطح مرتفع پر رہتے ہوں اور دن کو جنگل میں چھپ جاتے ہوں گے جو وادی سے لگ بھگ ۵۰۰ فٹ اوپر تھے۔ اگرچہ زمین اتنی مسطح تھی کہ وہاں گھوڑا بگٹٹ دوڑایا جا سکتا تھا مگر جگہ جگہ پانی کے بہاؤ سے نالیاں بنی ہوئی تھیں۔ ریچھ یہاں بکثرت آتے تھے کیونکہ جگہ جگہ چوڑے پتھر الٹے پڑے تھے۔ واپیٹی کے علاوہ جنگلی بھینسوں اور کالی دم والے ہرنوں کے سموں کے نشان بھی تھے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ پاس موجود پہاڑوی کھائیوں میں شکار مل سکتا ہے۔
ہم یہاں سے آرام سے گزر ہے تھے اور جگہ جگہ رک کر میں دوربین سے جائزہ بھی لیتا رہا۔ ایک بار میں نے رک کر دیکھا تو کافی دور کالے رنگ کا کوئی ڈھیر سا دکھائی دیا۔ میرا خیال تھا کہ یا تو یہ ریچھ یا پھر پتھروں کا ڈھیر۔ تاہم دوربین سے اندازہ ہوا کہ یہ جنگلی بھینسا ہے۔ ہمارا فاصلہ ایک میل سے زیادہ تھا، مگر ہم اسی سمت جا رہے تھے، سو میں نے سوچا کہ شاید اس پر گولی چلانے کا موقع ملے۔
ہوا ہمارے موافق چل رہی تھی سو ہم آرام سے بڑھتے گے۔ جب ہم ۱۲۰۰ گز دور تھے تو مجھے اندازہ ہوا کہ جنگلی بھینسا ہماری سمت چلا آ رہا ہے۔ سامنے ایک خشک ندی تھی، سو میں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ وہ گھوڑے وہاں چھپا دیں۔
ہم اس ندی میں داخل ہوئے اور میں نے کنارے سے جھانک کر بھینسے کو دیکھا اور اسی جانب چل پڑا۔ بھینسے کو خطرے کا بالکل بھی اندازہ نہ ہو سکا۔ پھر بھینسا ندی میں اترا اور چالیس قدم کی دوری سے میں نے رائفل اٹھائی اور اس کے شانے کا نشانہ لیا مگر میرا ارادہ گولی چلانے کا نہ تھا۔ عین اسی لمحے بھینسے کو یا تو میں دکھائی دیا یا اس نے بو سونگھی، دم اٹھا کر اس نے دوڑ لگا دی۔ میں نے اسے فرار ہوتے دیکھا اور گولی یا اس کی جان ضائع کیے بنا میں نے اسے تصور میں شکار کر لیا۔
ہم پھر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور پہلے کی طرح شکار تلاش کرتے گئے۔ کچھ دور جا کر ہمیں ایک اور جنگلی بھینسا دکھائی دیا جو ہمارے راستے میں تھا۔ سو ہم نے پیش قدمی جاری رکھی۔ جب ۳۰۰ گز دور تھے تو بھینسے کو خطرے کا احساس ہو گیا۔ اس نے مڑ کر میدان سے گزرتے ہوئے اونچائی کا رخ کیا۔
بہت دور ہمیں کچھ دھبے سے حرکت کرتے دکھائی دیے۔ میرا خیال تھا کہ وہ کالی دم والے ہرن ہوں گے مگر جب دوربین سے دیکھا تو پتہ چلا کہ آٹھ انتہائی عمدہ واپیٹی تھے۔ یہ ہمارے سامنے ایسے حرکت کر رہے تھے جیسے وہ ابھی کسی مداخلت کی وجہ سے چلے ہوں۔
مجھے یقین ہو گیا کہ انہوں نے بھاگتے ہوئے بھینسے کو دیکھا ہوگا جس نے انہیں خبردار کیا ہوگا۔ ہم نے بھی گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور ان کا پیچھا کیا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی وہ دائیں جانب مڑ کر ڈھلوان پر موجود جنگل میں گھس جائیں گے۔
دس منٹ میں ہم کافی قریب پہنچ گئے اور وہ بھی اس سطح مرتفع کے سرے پر پہنچ گئے تھے۔ جیسا کہ مجھے خدشہ تھا، سارے واپیٹی ایک ایک کر کے نیچے اترتے اور نظروں سے اوجھل ہوتے گئے۔
جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں واپیٹی نظروں سے اوجھل ہو ئے تے تو وہاں ان کے گزرنے کے واضح نشانات موجود تے۔ یہ تنگ سی جگہ گھاس سے بھری ڈھلوان تھی۔ اس میں اکا دکا درخت بھی تھے۔
دوسری سمت کی وادی اس سے مختلف تھی کہ وہاں موجود پہاڑیاں کافی اونچی اور دیوار نما تھیں۔ تاہم وہاں گھنے جنگل نہیں تھے۔ البتہ وہاں گھاس سے بھری ڈھلوانیں تھیں جہاں جگہ جگہ گہری کھائیاں تھیں جہاں سے بارش کا پانی راستہ بنا کر گزرتا تھا۔ ان کھائیوں کے کنارے درخت تھے۔
وادی کی تہہ تین سو گز سے زیادہ چوڑی نہ تھی اور جنگل سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کئی جگہ گھاس کے کھلے میدان تھے جہاں بہترین چارہ دستیاب تھا۔ اس وادی میں بہنے والی ندی آخرکار ہمارے کیمپ کے پاس سے ہو کر گزرتی تھی جو یہاں سے تین یا چار میل دور تھا۔
جب ہم نے وادی کا جائزہ لیا تو کوئی بھی جانور نہ دکھائی دیا۔ پھر ہم نے گھوڑوں کو آرام دینے کی غرض سے اتر کر واپیٹی کے نشانات پر چلنے کا فیصلہ کیا۔
ندی پر پہنچے تو یہ نشانات ندی کو عبور کر کے دوسری جانب جا رہے تھے۔ یہاں چند سو گز کی تلاش کے بعد ہمیں بہت زیادہ واپیٹیوں کے نشانات دکھائی دیے جن کے ساتھ ان آٹھ واپیٹی کے نشانات گھل مل گئے۔ اب سوال پیدا ہوا کہ یہ سب کہاں جا رہے ہیں؟ندی عبور کر کے وہ شاید ہی دوسری جانب جاتے۔ وادی میں رہنا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ سو میں نے سوچا کہ وہ کسی ایک کھائی میں چھپے ہوئے ہوں گے۔
ہم نے ہر کھائی کو الگ الگ کنگھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاں ممکن ہوتا، جِم کھائی کے نچلے سرے پر جا کر یا اگر ممکن نہ ہوتا تو اس کے کنارے پر کھڑے ہو کر پتھر پھینکتا۔ میں عین اسی وقت کھائی کے دوسرے کنارے پر ڈیڑھ سو گز آگے رہتے ہوئے اوپر کو چلتا جاتا۔
اس طرح ہم نے تین کھائیوں کو عین اس مقام تک آزمایا جہاں واپیٹی غائب ہوئے تھے۔ اب پہاڑ کے سرے پر ایک بڑی کھائی باقی بچی تھی۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ واپیٹی یہیں کہیں چھپے ہوں گے۔ میں ںے جم کو کھائی کے نیچے جا کر انتظار کرنے کا کہا تاکہ میں دوسرے کنارے پر ڈیڑھ سو گز اوپر پہنچ جاؤں۔ تھوڑی دیر میں میں مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا۔
ہم نے طے کیا ہوا تھا کہ اگر جِم کو وہاں واپیٹی دکھائی دیے تو وہ سیٹی بجائے گا۔ تاہم یہاں جھاڑیاں بہت گھنی تھیں اور ان سے گزرنا مشکل تھا، سو میں گھوڑے پر ہی سوار رہا جو کہ اچھا فیصلہ تھا۔ میں حرکت میں رہا کہ پیچھے مجھے جِم وغیرہ کے سموں تلے پتھروں کے کچلے جانے کی آوازیں آتی رہیں۔ نصف پہاڑ چڑھا ہوں گا کہ مجھے سیٹی کی آواز آئی۔ فوراً نیچے اترنے کی بجائے میں نے کچھ فاصلہ تیزی سے گھوڑے پر سوار ہو کر طے کیا۔ ابھی میں ایک مناسب مقام پر پہنچا ہی تھا کہ ۱۲۰ گز دور مجھے ایک انتہائی شاندار واپیٹی سامنے دائیں سے بائیں بھاگتا دکھائی دیا۔ جتنی دیر میں میں اتر کر گولی چلاتا، وہ ڈیڑھ سو گز تک پہنچ چکا تھا۔ مگر گولی کھاتے ہی وہ فوراً نیچے گرا اور اس کا جسم جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ محض ایک سینگ ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے بلوط کی کوئی سوکھی شاخ ہو۔ پھر سات مزید واپیٹی مجھے دو سو گز دور اس طرح جاتے دکھائی دیے کہ ان کی دمیں میری جانب تھیں۔ مجھے رائفل کی طاقت پر پورا بھروسہ تھا، سو میں نے اڑھائی سو گز کی پتی اٹھائی اور انتہائی آرام سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ گولی لگنے کی آواز آئی اور وہ نر بائیں جانب مڑ کر چند گز لڑکھڑا کر پہاڑ کی دوسری جانب غائب ہو گیا۔
باقی کے نر عین افق پر رکے جیسے وہ سوچ رہے ہوں کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ کئی نے مڑ کر مجھے اور گھوڑے کو دیکھا۔ میں نے تین سو گز کے فاصلے کی پتی اٹھائی اور سب سے آگے والے نر کے سینے پر گولی چلائی۔ گولی لگنے کی آواز سنائی دی مگر وہ سبھی دوسری جانب غائب ہو گئے۔
جِم پہنچ گیا اور میں نے کہا کہ ہم گھوڑوں پر سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں اور کنارے سے ذرا قبل اتر کر جائزہ لیں گے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ دونوں زخمی نر وہیں کہیں ہوں گے۔سو کنارے کے قریب پہنچ کر میں نیچے اترا اور ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر جائزہ لیا۔ میرے سامنے تین ایکڑ جتنا خالی میدان تھا۔ اس کے بعد اکا دکا درختوں کے جھنڈ دکھائی دیے۔ یہاں سے وادی سیدھی نیچے سات یا آٹھ ہزار فٹ گہری تھی۔
درختوں کے جھنڈ کے پاس ایک نر کھڑا دکھائی دیا جس کی اگلی ٹانگ کندھے سے ذرا نیچے ٹوٹی ہوئی تھی۔ دوسرا ہم سے ڈیڑھ سو گز دور مخالف سمت منہ کیے کھڑا تھا اور اس کی ٹانگیں پھیلی ہوئی اور ناک تقریباً زمین کو چھو رہی تھی۔ مجھے اعشاریہ ۵۷۷ بور کی گولی کی طاقت کا بخوبی احساس تھا کہ یہ گولی پچھلے حصے میں لگی اور آگے تک گئی ہوگی۔ مجھے اعشاریہ ۵۷۷ کے نشانے پر پورا اعتبار تھا مگر نے جِم سے ہنری مارٹینی مانگی جو میں نے اسے پکڑائی ہوئی تھی۔ جونہی دوسرے نر کی گردن دکھائی دی، ہنری مارٹینی کی گولی نے اسے فوراً وہیں گرا دیا۔
اب ہم آگے جھنڈ کو بڑھے تاکہ دیکھ سکیں کہ دوسرا نر کہاں ہے۔ بدقسمتی سے رائفل کی آواز سن کر وہ نیچے کو بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ جب ہم نے اسے دیکھا تو وہ کئی سو گز نیچے کو جا چکا تھا اور اگلی دائیں ٹانگ اس کے کندھے سے ٹوٹ کر لٹک رہی تھی۔ اتنی دور سے اس کا پیچھا کرنا ممکن نہ تھا۔ بوجھل دل کے ساتھ اسے بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا۔ خوش قسمتی سے میرے پورے دورے میں یہ واحد جانور تھا جو زخمی تو ہوا مگر میں اسے مار نہ سکا۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں نے پہلے دو شکار شدہ واپیٹی کا معائنہ کرنے کا سوچا۔
پہلا واپیٹی قریب تھا، اس کے پچھلے دھڑ میں گولی لگی تھی مگر یہ جاننا ممکن نہ تھا کہ کہاں کہاں سے گزری ہوگی۔ چونکہ پہلا شکار شدہ واپیٹی اس سے کہیں شاندار تھا، سو ہم نے پہلے اس کا معائنہ کرنے کا سوچا۔ سو گھوڑوں کو وہاں تک لے جانے کے بعد ہم نے کوٹ اتارے اور اس فربہہ اور انتہائی خوبصورت واپیٹی کی کھال اتارنے اور گوشت کاٹنے کا فیصلہ کیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی ہم نے آدھی کھال اتاری تھی کہ ہمارے سروں کے اوپر سے زوں کی آواز آئی اور عین اسی لمحے رائفل کا دھماکہ سنائی دیا۔ ہم ٹھٹھک کر رک گئے۔ عین اسی لمحے یہی آواز دوبارہ سنائی دی اور پھر تیسری بار۔ پھر جِم چلایا، ‘دیکھیں، انڈین‘۔ ایک اور گولی چلی اور پھر کئی گولیاں یکے بعد دیگرے سنائی دیں۔ پھر جا کر ہمیں احساس ہوا کہ یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔
جونہی ہم واپیٹی پر جھکے تو ہمارا رخ وادی کی جانب اور ہمارے پیچھے پہاڑ تھا۔ ہمیں یہاں سے پہاڑ کے اوپر چند گھڑسوار دکھائی دیے جو نیچے اترنے کا راستہ تلاش کر رہے تھے۔
عین اسی لمحے مجھے ایک جانور بھاگتا دکھائی دیا جو میں پہلے گھوڑا سمجھا تھا۔دوسرے لمحے اس کے سینگوں سے مجھے علم ہو گیا کہ یہ گھوڑا نہیں بلکہ واپیٹی ہے جو ہماری سمت سرپٹ دوڑتا آ رہا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ہمارے سامنے اور اوپر کی جانب عین اسی جگہ سے گزرے گا جہاں سے ہم نیچے اترے تھے۔
گھوڑے پر سوار ہوتے ہی میں نے مہمیز لگائی اور گھوڑے کو سیدھا اس جانب بڑھایا جہاں سے واپیٹی نے گزرنا تھا۔
جِم میرے پیچھے تھا اور میں نے بک سکن کو اس جگہ لے گیا جہاں سے واپیٹی نے گزرنا تھا۔ اس مقام سے سو گز کے فاصلے پر میں گھوڑے سے اترا اور چند قدم چل کر مناسب مقام پر پہنچا۔ ابھی میں یہاں پہنچا ہی تھا کہ مجھے کھلے میں واپیٹی کے سینگ اور سر نمودار ہوتے دکھائی دیے۔ میں نے گولی چلائی تو اس کے چند انچ سامنے زمین سے مٹی اڑی۔ گولی کنارے پر اس جگہ لگی جس کے پیچھے واپیٹی کا جسم تھا۔ اس کی گردن اور سر دکھائی دے رہے تھے۔
اگلے لمحے واپیٹی جیسے اڑتا ہوا گزرا۔ اس کا رخ نچلے علاقے کی سمت تھا جہاں وہ شکاریوں سے پیچھا چھڑا لیتا۔ بائیں نال کی گولی سے گر گیا۔ گولی اس کے کندھے کے عین وسط میں لگی اور قلابازی کھا کر وہیں مر گیا۔
ہر چیز انتہائی خوبصورتی سے سرانجام پائی۔ ایسا شاندار تجربہ میں نے اپنی طویل شکاری زندگی میں پھر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے پندرہ منٹ میں تین واپیٹی مار لیے اور چوتھا زخمی بھی کیا۔ تاہم یہ آخری واپیٹی معمہ تھا کہ اس پر گولیاں چلانے والے کون ہو سکتے ہیں جن کی گولیاں ہمارے سروں کے اوپر سے گزری تھیں۔ اس غیر آباد علاقے میں کسی انسان سے ملاقات کا اتنا ہی امکان تھا جتنا یہاں بن مانس سے ملاقات کا۔ تو پھر افق پر موجود یہ لوگ کون ہوں گے؟ سو ہم واپس اوپر کو لوٹے اور مناسب مقام پر دوربین سے دیکھا۔
اب ہمیں پانچ سفید فام لوگ گھوڑوں پر سوار دکھائی دیے جبکہ کئی اور سفید فام افراد اور مال بردار خچر نیچے کو اترتے دکھائی دیے۔ ان کا رخ اسی جانب تھا جہاں میں نے کچھ دیر قبل دو گولیاں چلائی تھیں۔ یہ لوگ مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ بگ ہارن رینج میں سفید فام آدمی کیا کر رہا ہے۔
چند منٹ بعد وہ قریب پہنچ گئے۔ معمول کی سلام دعا کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ آپ کا شکار نیچے موجود ہے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ زخمی تھا نا؟ میں نے جواب دیا کہ اس پر محض ایک ہی گولی کا نشان تھا جو کہ میری اپنی چلائی ہوئی تھی۔
یہ سب گھوڑوں سے اتر آئے اور واپیٹی کو دیکھنے لگے۔ پھر ان میں سے ایک نے نرمی سے پوچھا کہ کیا وہ تھوڑا سا گوشت لے سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے پچھلے ایک ہفتے سے بیکن کے سوا کچھ نہیں کھایا۔
میں نے انہیں بتایا یہ پورا واپیٹی بمع سینگ اور دو اور واپیٹی کا جتنا گوشت چاہیں وہ لے سکتے ہیں۔
اس طرح ہماری جان پہچان ہوئی اور پھر وہ میرے ساتھ دیگر دو واپیٹی کو دیکھنے نکلے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ پہاڑی کے عین نیچے کیمپ لگائیں تاکہ وہاں سے ندی اور خشک لکڑیاں بھی بکثرت ملیں گی اور شکار شدہ جانور بھی قریب ہی ہوں گے۔
انہیں یہ مشورہ بہت پسند آیا اور ہم مطلوبہ جگہ کو چل پڑے جہاں میں نے انہیں کیمپ لگانے کا کہا تھا۔ راستے میں انہوں نے بتایا کہ وہ چیئن سے بگ ہارن رینچ کے راستے سفر کر رہے ہیں مگر سارے سفر میں انہیں نہ ہونے کے برابر جنگلی جانور ملے اور کوئی شکار بھی نہیں ہو سکا۔ ابھی جو ہوا، وہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا مگر اس سے بہت خوش بھی ہوئے۔ جلد ہی ان کے خیمے لگ گئے اور آگ جلا کر انہوں نے کھانا بنانا شروع کر دیا۔ جِم اور میں اپنے کیمپ کو واپس لوٹے۔
اگلی صبح میں جلدی نکلا اور ارادہ تھا کہ ان امریکیوں سے سلام دعا کروں گا۔ ابھی میں نے رخ اس جانب موڑا ہی تھا کہ اسی سمت سے دھوئیں کا بادل اٹھتا دکھائی دیا۔
عین اسی وقت کھالوں کے شکاری باب سٹیوارٹ اور بِگ بِل بھی پہنچ گئے کہ انہوں نے بھی دھواں دیکھا تھا۔ ہم سب اس جانب تیزی سے لپکے اور کافی دور سے ہی ہمیں جنگل کی آگ کے آثار ملنے لگے۔ دونوں شکاریوں کے پاس کلہاڑیاں اور بالٹیاں بھی تھیں۔
وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ کل والے افراد کیمپ چھوڑ کر جا چکے تھے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں نے جاتے ہوئے آگ بجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جلتے ہوئے الاؤ چھوڑ کر گئے تھے۔ تیز ہوا سے چنگاریاں اڑ اڑ کر پاس موجود صنوبر کے خشک پتوں کے ڈھیر پر گریں جو یہاں بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جلد ہی کئی جگہ آگ لگ گئی اور کئی سوکھے ہوئے درخت بھی جل رہے تھے۔
یہ سوچ کر عجیب لگتا ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں خشک لکڑی اور پتے موجود تھے کہ جیسے انہیں محض ایک چنگاری کا انتظار رہا ہو۔ بارہ یا تیرہ مقامات پر آگ لگی ہوئی تھی اور یہ رقبہ ڈیڑھ ایکڑ پر مشتمل تھا اور تیزی سے آگ پھیل رہی تھی۔ جب آگ ایک درخت تک پہنچی تو شعلے انتہائی تیزی سے اس کے تنے پر بڑھنے لگے اور جونہی خشک ٹہنیوں تک پہنچی تو جیسے الاؤ روشن ہو گیا ہو۔ یہ چھوٹے پیمانے پر جنگل کی آگ تھی جو جلد ہی بہت بڑی ہو جاتی۔
خوش قسمتی سے ہم نے اس خطرے کو ابتدا میں ہی روک دیا۔ تاہم کم از کم دو گھنٹے کی شدید مشقت کے بعد ہم جا کر اسے بجھانے میں کامیاب ہوئے۔ ندی جنگل کے وسط سے گزر رہی تھی اور باب سٹیوارٹ کے پاس بالٹی تھی، سو اس نے کام شروع کر دیا۔ ہم نے صنوبر کی سبز شاخیں کاٹیں اور پانی میں بھگو کر ان کی مدد سے سلگتے ہوئے پتوں کو بجھانے لگے۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ تیز دھوپ میں نہ دکھائی دینے والی چنگاریاں جونہی خشک پتوں پر گرتیں، وہاں نئی آگ نمودار ہو جاتی۔
دو یا تین درختوں کی شاخوں کو آگ لگی ہوئی تھی تاہم ان کے تنے بالکل محفوظ تھے۔ کافی مشقت کے بعد ہم نے انہیں کاٹ کر گرایا اور آگ بجھائی۔ جب تک تمام تر آگ پوری طرح نہ بجھ گئی، ہم نے ہاتھ نہیں روکے۔ کاش کہ کیمپ والے بندے یہاں موجود ہوتے اور نہ صرف آگ بجھانے میں ہماری مدد کرتے بلکہ لعن طعن بھی وصول کرتے کہ یہ آگ ان کی لاپرواہی سے لگی تھی۔ میرے ساتھیوں نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر ہم یہاں قریب ہی نہ ہوتے تو یہ پورا جنگل جل کر راکھ ہو جاتا۔ یہ وہی جنگل ہے جسے میں ‘دس میل والا جنگل‘ کہتا ہوں۔ چھ ستمبر کو پہلی برف گری۔
تیس گھنٹے تک مسلسل برفباری جاری رہی اور ایک لمحہ بھی نہ رکی۔ ہلکی سی بھی ہوا نہیں چل رہی تھی اور اس کے اختتام تک ہر طرف ۸ انچ موٹی برف کی تہہ جم چکی تھی۔
صورتحال کچھ خوشگوار نہ تھی کہ ہمارے پاس صرف دو خیمے تھے۔ ایک میں ہمارے چار ملازم تھے اور دوسرے میں میں اور میری بیوی۔ صبح جب ہم بیدار ہوئے تو ابھی اندھیرا تھا۔ تاہم ہمارے جاگنے کی وجہ یہ تھی کہ برف کے بوجھ تلے خیمہ گر گیا تھا۔ اسے پھر سے ٹھیک کرنے میں کافی وقت لگا۔ خوش قسمتی سے ہمارے جرمن باورچی ہنری نے کافی ساری کافی بنا کر خیمے کی دیوار کا کپڑا ہٹا کر ہمیں دے دی۔ اس سے زیادہ لذیذ چیز میں نے آج تک کبھی نہ کھائی اور نہ ہی پی۔
پھر گھوڑے پر سوار ہو کر میں اور ٹیکساس بِل سارا دن کافی دور تک پھرتے رہے کیونکہ برف کی تہہ پر چلنے والے ہر جانور کا نشان دور سے دکھائی دے جاتا۔
جب ہم واپس لوٹے تو میری آنکھیں دھوپ کی وجہ سے سوج گئی تھیں اور چہرے اور گردن پر چھالے بن گئے تھے۔ سارا دن ہمیں ایک نر بائزن اور کالی دم والے چند ہرن دکھائی دیے۔ بگ ہارن رینج سے واپسی کا وقت ہو چلا تھا۔
کیمپ کو واپسی کی ہدایات دے کر ۸ ستمبر کو میں اور میری بیوی بغیر کسی ملازم کے روانہ ہوئے اور ہمارا رخ بیس میل دور مسٹر پیٹرز کے رینچ کی طرف تھا۔ انہوں نے ہمیں دعوت دی تھی کہ واپسی پر ان سے ملتے جائیں۔
امریکہ کے دورافتادہ علاقوں میں کسی قسم کی پگڈنڈی یا گزرگاہ کا رواج نہیں۔ افریقہ میں مختلف بستیوں کے لوگوں کی گزرگاہیں ہوتی ہیں مگر امریکہ کے پریری میدانوں اور پہاڑوں میں کوئی نہیں رہتا، اس لیے یہاں کسی قسم کی گزرگاہ یا پگڈنڈی کا تصور ہی بیکار ہے۔ میرے ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہمیں مسٹر پیٹرز کے رینچ کا راستہ نہیں ملے گا۔ تاہم چار گھنٹے کے بعد ہم لوگ اس جگہ پہنچے جہاں دریائے پاؤڈر عین نیچے تھا اور دور ہمیں پیٹرز کے تنوں سے بنی عمارت صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ہم اس خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھڑے ہو گئے اور یہ بھی خوشی تھی کہ بغیر کسی رہنما کے ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ اچانک ہمارے سامنےپانچ یا چھ گز دور ایک چار فٹ لمبے سانپ نے اپنی دم کھڑکھڑانی شروع کر دی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ ہماری موجودگی سے خفا ہے۔
اچانک سانپ نے ہماری طرف رینگنا شروع کر دیا۔ میں گولی نہیں چلانا چاہتا تھا کہ میری بیوی کا گھوڑا ڈر جاتا۔ سو ہم نے رخ موڑا اور چل پڑے۔ اگر ہمارے ساتھی ہمراہ ہوتے تو ہماری الجھن سے کافی محظوظ ہوتے۔
اگرچہ پیٹرز کا گھر ہمارے سامنے تھا مگر ہمیں اترنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہ مل سکی۔ایک مرتبہ ہم پون میل نیچے اترے مگر پھر اچانک کھائی نے ہمارا راستہ روک دیا۔ واپس مڑ کر ہم نے مختلف ڈھلوانیں استعمال کیں مگر ہر ایک کا اختتام بہت گہری کھائی پر ہی ہوتا۔ گھنٹہ اسی طرح گزر گیا اور ہم پریشان ہونے لگے کہ آیا راستہ ملے گا بھی یا نہیں۔ شاید کسی بہت قدیم زلزلے کی وجہ سے کھائیاں بن گئی ہوں گی۔
آخرکار مجھے ایک جنگل سے بھری ڈھلوان دکھائی دی جو دیگر سے زیادہ اونچی تھی۔ اگر ہم کسی طرح اس تک پہنچ جاتے تو مجھے یقین تھا کہ ہمیں نیچے اترنے کا راستہ مل جائے گا۔ وہاں جاتے ہوئے راستے میں ہمیں اکیلا بھینسا دکھائی دیا جو سو رہا تھا۔ میں نے اس پر گولی نہیں چلائی بلکہ اسے خطرناک چڑھائی پر ایسے آرام سے دوڑتے ہوئے دیکھتا رہا جیسے وہ پہاڑی بکری ہو۔ ہمارے گھوڑے اچھے تھے مگر پھر بھی کافی دقت کے بعد ہم اس پر چڑھے۔ یہ ڈھال محض اسی گز چوڑی تھی مگر اس پر راستہ بنا ہوا تھا اور جگہ جگہ درخت کٹے ہوئے تھے جو شاید ہمارے میزبانوں کی رہائش گاہ کے لیے کاٹے گئے تھے۔
رینچ کا طرزِ زندگی ان نوجوانوں کے لیے بہت اچھا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا اور یہاں وہ ہر طرح سے آزاد تھے۔
ان کا گھر ایک منزلہ تھا۔ اس میں ایک بڑا کمرہ تھا جو داخلے کا بھی راستہ تھا۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب دو کمرے تھے جو حسبِ ضرورت خوابگاہ وغیرہ کے طور پر استعمال ہو سکتے تھے۔ ایک باورچی خانہ اور چھوٹا سا سٹور اس کے عقب میں تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ ان کے ملازمین ڈین اور اس کی بیوی اور ان کا دو سالہ بہت موٹا اور لال رنگ کا بچہ کہاں سوتے تھے۔
سہ پہر کو ہمارے ساتھی آن پہنچے۔ تاہم چھوٹے خیمے میں اتنے دن گزارنے کے بعد اب ہم یہاں بہت آسودہ تھے۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ ہمارے ملازمین بھی عین ہمارے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی سانپ سے ملے اور اسے مار دیا تھا۔
مسٹر پیٹرز نے رہائش کے لیے انتہائی عمدہ مقام چنا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اسے مویشی پالنے کا کافی تجربہ ہوگا۔ گھاس عمدہ تھی اور جہاں سے ہم اترے تھے، اس کے علاوہ کسی طرف سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ سامنے پاؤڈر دریا بہہ رہا تھا۔
دریا سے دو یا تین سو فٹ کی لال رنگ کی چٹانیں بہت عجیب لگتی تھیں کہ آس پاس کی زمین کا رنگ سفید تھا۔ پاؤڈر دریا ان چٹانوں کے نیچے سے بہتا تھا اور برسات میں وادی کا زیادہ تر حصہ گھیر لیتا تھا۔ سیلاب کے دوران یہاں اتنے زیادہ بید کے درخت اگتے تھے کہ ان میں چلنا مشکل ہو جاتا تھا۔
ہمارے میزبانوں کی قیام گاہ ۶٫۵۰۰ فٹ بلند وادی میں تھی مگر ہم پچھلے تین چار ہفتوں سے دس سے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر رہے تھے، سو یہاں ہمیں یکسر مختلف موسم محسوس ہوا۔
ان نوجوانوں سے مل کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔ مہذب دنیا میں ہم دوسرے انسانوں کو مخصوص حالات میں دیکھتے ہیں اور ان کی اصلیت کا ہمیں علم نہیں ہو پاتا۔ تاہم ان نوجوانوں نے شہری زندگی کی آسانیاں چھوڑ کر ویرانے میں اپنی صلاحیتیں آزمانے کا فیصلہ کیا تھا جو کہ قابلِ تعریف تھا۔ ایسے ہی مشکل حالات میں کسی انسان کی اصل صلاحیتوں اور توانائی کا پتہ چلتا ہے۔
مسٹر پیٹر کا ایک ساتھی برطانوی تھا۔ اس بندے نے بھی لندن کی آسان اور پرتعیش زندگی چھوڑ کر یہاں کا رخ کیا تھا اور کبھی اسے لکڑیاں کاٹنی پڑتیں تو کبھی پانی لانا پڑتا۔ امریکہ میں ہر وہ چیز کرنی پڑتی ہے جو آپ کو برطانیہ میں کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
تاہم ان کا طرزِ زندگی بہت صحت مندانہ تھا۔ سبھی جوان اور صحتمند تھے۔ یہاں سے کئی سو میل دور تک نہ تو کوئی ڈاکٹر تھا اور نہ ہی کوئی پادری۔ تاہم ان کی جفاکشی اور یہاں کی آب و ہوا ہی کافی تھیں۔ میری آمد سے چند سال قبل تک دلدلی علاقے میں کالی دم والے ہرن اور سفید دم والے ہرن عام ملتے تھے مگر لگاتار شکار کی وجہ سے وہ نہ صرف محتاط ہو گئے تھے بلکہ زیادہ مشکل علاقوں کو چلے گئے تے۔
یہاں کوئی باغیچہ نہ تھا کہ یہاں بارش کم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کیلیفورنیا سے آئے ہوئے ڈبہ بند پھل کہیں سستے تھے۔ تاہم یہ سامان لانے کے لیے کم از کم ۲۴۰ میل کا سفر کرنا پڑتا تھا جو راک کرک سٹیشن پر منتج ہوتا۔
ہمیں ڈر تھا کہ ہماری وجہ سے ان جوانوں کو اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمارے آمد کی اگلی صبح تین خچروں کے ہمراہ ایک بندے کی آمد کی خبر ملی۔ ہر کوئی اس کی جانب دوڑ پڑا۔
کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کون سا سامان ساتھ ہے؟ کہاں جا رہا ہے؟ کوئی آنے والا ہے؟ یہ سبھی سوال اس سے بیک وقت کیے گئے اور خچرسوار بیچارہ پریشان ہو گیا۔
‘خیر، مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ پچھلا پورا ہفتہ میں نے برطانوی لارڈوں اور ان کے خاندان کا سامان لادتے گزارا ہے۔ ابھی جو سامان ساتھ لایا ہوں، وہ پہلی قسط ہے۔ باقی سامان راستے میں ہے اور لارڈ اور خواتین آج رات یہاں کھانے پر آ رہے ہیں اور چند روز قیام بھی کریں گے۔ پھر وہ بِگ ہارن رینج میں شکار کھیلیں گے‘۔‘برطانوی لارڈ اور ان کی خواتین؟ آج رات کو یہاں کھانا بھی کھائیں گے اور قیام بھی کریں گے؟‘ ہماری میزبان نے حیرت اور مایوسی سے جیسے سرگوشی کی۔ ‘تمہارے پاس ان کا کوئی خط ہے؟‘ خچرسوار نے انکار کیا اور کہا: ‘مہمانوں کا کہنا تھا کہ آپ سمجھ جائیں گے۔ ہاں ان کے نام یاد ہیں، ایم اور ان کی بیوی اور بہنیں، کپیٹن جی اور ان کی بیوی، یہ پانچ بندے ہوئے۔ لارڈ ایم اور جناب مسٹر ایل، سات ہوئے۔ پھر مسٹر پی اور مسٹر بی ہیں، یہ نو ہو گئے۔‘ ہم سب حیران ہو گئے کہ نو بندوں کے کھانے کے لیے جگہ پوری نہیں پڑنی، کجا کہ وہ سوئیں گے بھی یہیں۔
برطانوی لارڈ، اگر نو بندے وہ تھے تو ہم لوگ پانچ پہلے ہی یہاں موجود تھے اور ایسی جگہ جہاں صرف ڈبہ بند سبزیاں، پھل اور بیکن ملتی ہو، وہاں ان لوگوں کے شایانِ شان کیسے اہتمام کیا جائے گا؟ ان کے کھانے میں ظاہر ہے کہ سوپ، مچھلی، پالتو اور جنگلی جانوروں کا گوشت، میٹھا اور مٹھائیاں بھی لازمی ہونی چاہیئں۔
پھر ہماری میزبان خاتون بولی: ‘اگر ہم سب مل کر کام کریں تو یہ ممکن ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اچھی طرح جھاڑو لگانا ہوگا۔ پھر تختے جوڑ کر ہم کھانے کی میز بنا لیتے ہیں۔ میز پوش کے لیے بہترین کپڑا موجود ہے۔ پھر کچھ جنگلی پھول اور بیریاں بھی چن لیں گے جو کھانے کی میز کو سجانے کا کام کریں گے۔ ڈبوں میں بند سوپ بھی موجود ہے۔ میرے شوہر اور آلسٹن کے پاس جال ہے اور دریا میں مچھلیاں بکثرت ہیں۔ ایک بچھڑا ذبح کر دیتے ہیں اور اس کا گوشت کئی طرح کے کھانوں میں کام آ جائے گا۔ سبزیوں اور پھلوں کے کچھ ڈبے کھول دیتے ہیں۔ مگر جنگلی جانور کا گوشت کہاں سے آئے؟‘ میں نے کہا کہ اگر میں بیدِ لرزاں کے درختوں کی طرف جاؤں تو امید ہے کہ کچھ آبی پرندے مل جائیں گے۔ سب نے فوراً ان تجاویز کو قبول کر لیا۔ ہر بندہ اپنے اپنے حصے کے کاموں میں جُٹ گیا۔ تاہم یہ مہمان سوئیں گے کہاں؟ میرے پاس دو چھوٹے خیمے اور کیمپ بستر تھے۔ خواتین ایک ساتھ ایک کمرے میں سو سکتی تھیں جبکہ سارے مرد فرش پر کمبل اور گدے بچھا کر سو جاتے۔
فوراً ہر بندہ متحرک ہو گیا۔ پیٹرز اور السٹن نے صندوق، ڈبے اور ہر طرح کا سامان بڑے کمرے سے ہٹا دیا۔ دونوں نے پھر جھاڑو پکڑی اور سارا کمرہ پوری طرح صاف کر دیا۔ مہارت سے میز بھی بنا دی گئی۔ مسز پیٹرز نے ایک خوبصورت میز پوش بچھا دیا۔ میری بیوی اور ہماری میزبان خاتون جنگلی پھولوں کی تلاش میں باہر کو چل دیں۔ گھر سے ڈیڑھ سو گز دور ہی کافی پھول اور بیریاں موجود تھیں۔ ان سب کو انتہائی خوبصورتی سے سجا دیا گیا۔
میں ان سب کو چھوڑ کر بندوق اٹھائے آبی پرندوں کی تلاش میں نکلا۔ پیٹرز اور السٹن نے جال پکڑے اور نصف میل دور ایک تالاب کو چل دیے جہاں انہیں معلوم تھا کہ مچھلیاں بکثرت ہوتی ہیں۔
انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر تالاب میں چھلانگ لگائی۔ پہلے پہل انہوں نے خوب شور و غل کیا تاکہ مچھلیاں کناروں کی طرف چھپ جائیں۔ پھر انہوں نے جالوں کو کنارے پر اس طرح لگایا کہ جب اسے اٹھاتے تو مچھلیاں ہاتھ آتیں۔ ان کا وزن نصف سے ایک پاؤنڈ تک تھا۔ میں نے یہ کام نہیں دیکھا کیونکہ میں پاؤڈر دریا کے کنارے آبی پرندوں کی تلاش میں تھا۔
کئی بار میں نے دریا کو چل کر عبور کیا کہ اس کا بہاؤ محض گھٹنے تک ہی تھا، مجھے یقن ہو گیا کہ کوئی آبی پرندہ ہاتھ نہ لگے گا۔ یہ سوچ کر مجھے شرمندگی ہونے لگی کہ مجھے خالی ہاتھ واپس جانا پڑے گا۔ مایوسی کے عالم میں مجھے اوپر کافی بلندی پر آبی پرندوں کا ایک غول نظر آیا۔ ان کی دائرے میں حرکت سے مجھے پتہ چل گیا کہ وہ پاس ہی کہیں اتریں گے۔ چند منٹ میں انہیں نیچے اترتے دیکھ کر مجھے تسلی ہوئی اور میں سیدھا اسی جانب چل پڑا جو میرے خیال میں چوتھائی میل دور تھی۔
انتہائی محتاط انداز سے میں اس جگہ کے قریب پہنچا۔ دریا میں کئی جگہ تالاب سے بن ہوئے تھے جو پچاس یا ساٹھ گز وسیع ہوں گے۔ احتیاط سے پانی میں چلتے ہوئے کہ آواز نہ پیدا ہو، میں ایک تالاب کے کنارے پہنچا اور دیکھا کہ دس بارہ آبی پرندے مجھے سے کوئی چالیس گز دور تیر رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے اس طرح قریب تھے کہ مجھے گولی چلانے میں بہت آسانی ہوگئی۔ میں نے ان کے وسط میں کارتوس چلایا اور پانچ وہیں گر پڑے۔ انہیں پکڑنے کی بجائے میں نے دوبارہ بندوق بھری کہ مجھے علم تھا کہ اڑنےو الے پرندے بقیہ ساتھیوں کو دیکھنے لوٹیں گے۔ فوراً ہی باقی پرندے لوٹے اور میں نے پھر دو کارتوس چلائے اور دو اور پرندے گرے۔
یہ بہت اچھا ہوا۔ میں نے ان سب کو اٹھایا اور لچکیلی بیل سے انہیں باندھا اور چار چار کے دو بنڈلوں میں اٹھا لیا۔ ہماری میزبان خاتون انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوتی۔
سہہ پہر کو اچانک غل برپا ہوا۔ پتہ چلا کہ ہماری مصروفیات کے دوران ملازمین کا بچہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ اس کی ماں پاگلوں کی طرح دوڑ رہی تھی۔ تاہم بچے کی گمشدگی ایک معمہ تھی کہ پریری میں بچہ کہاں جا سکتا تھا؟ پھر ماں نے رونا شروع کر دیا۔ اس علاقے میں بھیڑیئے بھی نہیں تھے، سو اگر بچہ کسی گڑھے میں گر جاتا تو اسے خطرہ ہوتا ورنہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
آخرکار ہم نے دور سے پیٹرز کو بانہوں میں کچھ اٹھا کر لاتے دیکھا۔ پتہ چلا کہ اسے یہ بچہ نصف میل دور ایک بہتی ہوئی ندی میں سے ملا تھا۔ اگر پیٹرز نہ پہنچتا تو بچہ ڈوب کر مر چکا ہوتا۔ شکر ہے کہ پیٹرز اسے تلاش کرنے اسی سمت میں گیا تھا اور بچے کی چیخ و پکار سنائی دے گئی۔ ہر طرف سکون ہو گیا۔
شام کو ہر چیز تیار ہو گئی چاہے خیمے ہوں،بستر، گدیلے، کھانا یا کچھ اور۔ ہر چیز انتہائی بہترین تیار ہوئی۔ مہمانوں نے جھجھک کی وجہ سے الگ الگ آنا پسند کیا کہ اکٹھے نو اجنبی جمع ہو جاتے تو کافی پریشانی ہوتی۔
اس روز ہونے والی مہمان نوازی کو وہاں موجود کوئی بھی مہمان نہیں بھول سکتا۔
سونے کے لیے انتظام بہت زیادہ اچھا تو نہ تھا مگر صاف ستھرا اور آرام دہ ضرور تھا۔ تاہم جب مہمان سونے کےلیے تیار ہونے لگے تو عین اسی جگہ سے شدید بدبو کے بھبھکے آنے لگے۔ دو یا تین مہمانوں کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا: ‘سکنک‘۔ شاید کوئی سکنک فرش کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ فوراً یہ دروازے اور کھڑکیاں کھول دی گئیں اور ڈنڈوں سے فرش کو ٹھوک بجا کر شور کیا گیا تاکہ سکنک بھاگ جائے۔ سکنک فرار ہو گیا اور بدبو کم ہو گئی۔ پھر صنوبر کی لکڑیاں جلا کر بدبو مکمل طور پر دور کر دی گئی۔ 
سکنک
سکنک غیرمعمولی جانور ہے۔ اس کی شکل بجو سے ملتی ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ ایسا خوبصورت جانور کیسے اتنی گندی بدبو پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی جسامت چھوٹی بلی جیسی ہوتی ہے۔ اس کی کھال کالی سیاہ ہوتی ہے اور بال لمبے اور گھنے۔ اس کی دونوں جانب دو سفید رنگ کی پٹیاں ہوتی ہیں۔ دم کافی چوڑی اور لمبی ہوتی ہے اور جب سکنک دم کو اپنے اوپر کرے تو اس کا پورا جسم چھپ جاتا ہے۔
پھندے والے شکاری کہتے ہیں کہ اگر بجو کسی کتے کو کاٹ لے تو کتا باؤلا ہو کر مر جاتا ہے۔ مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں عار ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر کتا سکنک کو کاٹے تو اس کی بو سے مر جائے گا۔ سکنک کی خوراک میں کیڑے مکوڑے، حشرات، انڈے، گوشت، ہر قسم کا جانور شامل ہے۔ جب اسے خطرے کا احساس ہو تو دم کے نیچے سے اپنی مخصوص بو خارج کرتا ہے۔
میں نے کئی بجو شکار کیے ہیں مگر کوئی بھی بندہ ان کی کھال اتارنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ ایک بار تو میں نے جب سکنک شکار کیا تو وہ کیمپ سے ساٹھ گز تھا اور ہوا کیمپ کو جا رہی تھی۔ مجھ اس پر لکڑیاں رکھ کر اس کی لاش کو جلانا پڑا کہ کیمپ تک اس کی بو جا رہی تھی۔
پاؤڈر دریا کے کنارے سفید دم والے ہرن ابھی تک پائے جاتے ہیں اور رینچز کی وجہ سے ان کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ ان کا گوشت بہت عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے اور میرے خیال میں کالی دم والے ہرن سے ذرا کم ہوتا ہے۔
اس سارے سفر میں مجھے اس بات کا قلق ہے کہ ایک بھی بگ ہارن یا راکی پہاڑی بکرا نہ شکار کر سکا۔ کئی مادائیں تو دکھائی دیں مگر ماداؤں پر میں گولی نہیں چلاتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۵
سانبھر
موز اور واپیٹی کے بعد سانبھر تیسرا بڑا ہرن ہے۔ اس کی اونچائی ۱۳ ہاتھ ہوتی ہے اور وزن ۵۶۰ سے ۶۰۰ پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ میں نے ہندوستان اور سائیلون میں ان کا وزن کیا ہوا ہے۔ مسکن کے اعتبار سے اس کے سینگ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہ سینگ ہر سال نہیں گرتے اور ہر تیسرے یا چوتھے سال گرتے ہیں۔
یہ بات مقامی تجربہ کار شکاری بھی بتاتے ہیں اور جہاں سانبھر کو پالا جائے وہاں بھی یہ بات دیکھنے میں آتی ہے۔ سائیلون میں آٹھ سال قیام کے دوران میں نے مختلف موسموں میں بے شمار سانبھر شکار کیے تھے اور کوئی بھی مہینہ یا موسم ایسا نہیں تھا کہ جب ان کے سینگ گر چکے ہوں۔ ہمیشہ ان کے سینگوں کی طوالت مقام اور موسم کے قطع نظر الگ ہوتی ہے۔
حیرت کی بات دیکھیے کہ میں نے آج تک کسی نر سانبھر کو سینگوں کے بغیر نہیں دیکھا حالانکہ لگاتار سات سال تک میں کتوں کے ساتھ ان کا شکار کرتا رہا۔ میں نے سور کے باب میں لکھا ہے کہ میں سائیلون میں نیویرا ایلیا میں اکتوبر ۱۸۵۱ سے مارچ ۱۸۵۴ تک شکار کرتا رہا تھا۔ اس دوران میں نے چاقو اور کتوں کی مدد سے ۱۳۸ سانبھر شکار کیے۔ اگر ہم سالانہ ساٹھ بھی شمار کر لیں تو سات سال میں یہ تعداد ۴۲۰ بنے گی۔
اگر ہم یہ سوچیں کہ اگر چار سو سانبھر بھی میں نے اپنی مرضی سے چُن کر شکار کیے ہوں تو بھی کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی سانبھر ایسا بھی ملا ہو کہ جس کے سینگ چند روز قبل گرے ہوں۔ بہت مرتبہ سینگوں پر مخمل دکھائی دی تھی اور بسا اوقات تو ان کے سینگ محض چند انچ لمبے ہوتے تھے مگر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ سینگ یکسر غائب ہوں۔
اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی تھی کہ سانبھر کے سینگ کسی وقت بھی گر سکتے ہیں۔ مقامی افراد کا بھی یہی خیال تھا۔
سانبھر کے سینگ بعض اوقات بہت بڑے ہو جاتے ہیں مگر میں انہیں سب سے زیادہ خوبصورت نہیں شمار کرتا۔ ان کے ہر سینگ پر محض تین شاخیں ہوتی ہیں جس سے اس کا بڑا سر خالی خالی سا لگتا ہے۔
ایشیا میں بہت سی اقسام کے ہرنوں کے سینگوں کی چھ سے زیادہ شاخیں نہیں ہوتیں جن میں سانبھر، چیتل اور پاڑا شامل ہیں۔ میں کشمیر کے بارہ سنگھے کو الگ نسل نہیں مانتا اور میرے خیال میں یہ یورپی سرخ ہرن کی ہی ایک قسم ہے۔ اس کے علاوہ ہرنوں کی ایک اور مثال بارہ سنگھا ہے جس کے سینگوں میں چھ سے زیادہ شاخیں ہوتی ہیں۔ یہ سکاٹ لینڈ کے سرخ ہرن سے مشابہہ ہوتا ہے اور اس کے سینگوں کی شاخیں آٹھ یا دس تک بھی ہوتی ہیں۔ اس کے سینگ بھاری نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سےمیں کوئی بھی اچھے سینگوں والا نر شکار نہیں کر سکا۔
۱۸۸۸ میں میں نے پانچ بارہ سنگھے شکار کیے مگر صرف ایک کے سینگوں کی دس شاخیں تھیں۔ کم جسیم ہونے کے باوجود یہ سانبھر کے سینگوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا۔ میں اس نسل کو اصلی سرخ ہرن کی نسل سے متعلق سمجھتا ہوں تاہم اسے الگ نسل تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اگر بارہ سنگھا شکار کیا گیا ہو یا اس کو سکاٹ لینڈ کے سرخ ہرنوں کے جھنڈ میں چھوڑ دیا جائے تو شاید ہی کوئی بندہ فرق محسوس کر سکے۔ بارہ سنگھا دلدلی اور آبی علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں پاس موجود جنگل میں اسے چھپنے کی جگہ سہولت سے مل سکے۔
سانبھر کی عادات یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ اس شاندار جانور کو پتھریلی پہاڑیاں اور اونچے پہاڑ پسند ہوتے ہیں۔ سانبھر کو کیچڑ میں لوٹنے کا بہت شوق ہوتا ہے اور گرمیوں میں اکثر ایسی جگہوں پر ملتا ہے۔ دیگر جانوروں کی مانند یہ بھی شب بیدار ہوتا ہے اور اپنی پسندیدہ خوراک کی تلاش میں کافی فاصلہ طے کرتا ہے۔ زمینداروں کے لیے یہ عذاب ہوتا ہے کہ چھ فٹ سے نیچی ہر قسم کی رکاوٹ عبور کرنا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
سائیلون میں جب سنکونا کی کاشت شروع ہوئی تو دھاتی جالیوں سے پودوں کو بچانا پڑتا تھا ورنہ سانبھر بہت تباہی پھیلاتے تھے۔ تاہم جب پودا درخت بنتا تو سانبھر اس کے پتے کھانا چھوڑ دیتے تھے۔
ایشیائی ہرنوں میں سانبھر کا وزن سب سے زیادہ ہوتا ہے مگر یہ بہت چست ہوتا ہے۔ جب ہانکے والوں کے سامنے سانبھر پہاڑی ڈھلوان سے بھاگتا ہوا نیچے اترتا ہے تو بہت خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ اس کا وزن ۶۰۰ پاؤنڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے مگر جس رفتار سے یہ ڈھلوان سے اترتا ہے، سوار کے بغیر گھوڑا بھی اتنا تیزی سے نہیں اتر سکتا۔
مقامی شکاری اس کی عادات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور اس کے شکار کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بہت پکے شکاری ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں وسطی صوبجات میں شکار کے لیے خصوصی قوانین وضع کیے گئے ہیں مگر میرا یہ خیال ہے کہ یہ قوانین مقامی افراد کو ہی بچائیں گے۔
نر سانبھر دس سال میں جا کر بالغ ہوتا ہے اور اس کے سینگوں اور جسم کی نشوونما پوری ہوتی ہے۔ چونکہ ان کی بڑھوتری اتنی سست ہوتی ہے، اس لیے نوجوان نروں کو بچانے کے لیے خصوصی احتیاط کرنی چاہیے۔ تاہم شکار کے دوران شکاری اس بات پر توجہ نہیں دیتے اور دس بارہ سانبھر بھی شکار کر لیتے ہیں حالانکہ وہ ابھی پوری طرح جوان بھی نہیں ہوئے ہوتے۔ ہندوستان میں یورپی لوگ اس پر کافی بحث کرتے ہیں کہ انہیں ماداؤں اور نوجوان نروں کے شکار سے نفرت ہوتی ہے۔ تاہم بہت مرتبہ ان کے ساتھ شکار کے دوران میں نے دیکھا ہے کہ وہ ماداؤں پر بھی گولی چلانے سے نہیں جھجھکتے اور نوعمر نر بھی شکار کر لیتے ہیں۔ تاہم میں یقین دلاتا ہوں کہ میں نے کبھی ایسی غلط حرکت نہیں کی۔ ہاں جب گوشت کی انتہائی شدید ضرورت ہو تو اور بات ہے۔ تاہم ہندوستان میں یہ ضرورت کم ہی پیش آتی ہے۔ پچھلے پورے سال میں نے ایک بھی مادہ پر گولی نہیں چلائی اور اس سے پچھلے سال بھی میں نے محض ایک مادہ شکار کی تھی تاکہ اپنے ہانکے والوں کا پیٹ بھر سکوں۔ یہ ہانکے والے بہت دور سے میری خاطر آئے تھے۔ اگر ہندوستان میں بھی شکاری قوانین کی پابندی کریں تو شکار بکثرت ملے۔ تاہم حکومت نے اب پابندیاں لگائی ہیں جب پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔
تین سال قبل میں وسطی صوبجات میں شکار کھیلنے گیا تھا۔ وہاں میں نے چار یا پانچ ہفتے گزارے اور میرے ساتھ بھوپال سنگھ اور اس کے دو بھائی گلاب سنگھ اور ڈھول سنگھ تھے۔ ہم نے ۴۳ سانبھر شکار کیے اور اگر ماداؤں پر بھی گولی چلاتے تو دس بارہ مادائیں بھی شکار ہو جاتیں۔
میں نے گلاب اور ڈھول سنگھ سے زیادہ پختہ نشانے والے شکاری کم ہی دیکھے ہیں۔ ان کے پاس عام میچ لاک بندوقیں تھیں جن کی لمبائی چھ فٹ تھی۔ ان میں لوہے سے بنی گول شکل کی گولی ڈالی جاتی تھی جس کا وزن ایک اونس تھا۔ اس گولی کی جسامت کنچے جتنی تھی اور بندوق کی نال میں پوری طرح سما جاتی تھی۔
یہ لوگ ۶ ڈرام مقامی بارود بھرتے تھے اور جب میں نے انہیں ولائتی بارود دیا تو اس کی مقدار چھ سے کم ہو کر چار ڈرام فی فائر ہو گئی۔ تاہم انہیں چھ ڈرام ہی پسند تھا۔
ان کی بندوقیں عام بندوقوں سے بہتر تھیں اور عام شکاریوں کا بندوق سے کھڑے جانور پر اچھا نشانہ ہوتا تھا۔ تاہم یہ بھائی کسی بھی رفتار اور کسی بھی انداز سے دوڑتے ہوئے جانور پر گولی چلانے کو تیار ہوتے تھے اور جب بھی انہوں نے گولی چلائی، ہمیشہ جانور شکار ہوا۔
یہ دونوں ہمیشہ درست جگہ پر گولی مارتے تھے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہمیں زخمی جانور کا پیچھا کرنا پڑا ہو۔ ہانکے کے دوران اگر دو گولیاں چلتیں تو میں صرف اتنا پوچھتا کہ گولیاں کس نے چلائی تھیں۔ اگر جواب ملتا کہ گلاب سنگھ یا ڈھول سنگھ تو میں بس اتنا پوچھتا کہ نر تھا کہ مادہ۔ مجھے علم تھا کہ جانور وہیں گر گیا ہوگا۔
ان کی لوہے کی گولی جب ولائتی بارود سے چلتی تو ہمیشہ سانبھر کے پار ہو جاتی تھی۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے شکاری کتنی جلدی علاقے سے تمام قابلِ شکار جانور ختم کر دیتے ہوں گے۔ پچھلے موسمِ سرما میں میں نے انہی علاقوں میں شکار کھیلا اور محض ۱۵ سانبھر شکار ہوئے۔ ایک سال قبل یہ تعداد ۴۳ تھی۔ ان پندرہ میں سے بھی محض چھ نر تھے۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شکار کس رخ پر جا رہا ہے۔
مقامی شکاری جنگل میں صبر کے ساتھ آلتی پالتی مار کر بیٹھ سکتا ہے جو یورپیوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی بہت صابر ہوتے ہیںَ۔ ان کی جوڑ اور اعضا ربڑ کی طرح لچکدار ہوتے ہیں اور کسی بھی انداز سے مڑ سکتے ہیں۔ بیٹھنے سے ان کے جوڑ کبھی نہیں اکڑتے۔ پتھروں پر بھی وہ پورا گھنٹہ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں اور ایسی چھوٹی سی جگہ پر بھی چھپ کر بیٹھ سکتے ہیں جو بظاہر کسی یورپی کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔
اس کا فائدہ یہ ہے جنگل میں پوشیدہ رہنے کی صلاحیت سے زیادہ اہم کوئی بات نہیں ہوتی۔ مقامی افراد کی مچانیں یا کمین گاہیں بہت سادہ ہوتی ہیں۔ اگر سانبھر کے لیے ہانکا ہونا ہو تو اس دوران نکلنے والے تمام جانور بھی کمین گاہ کے سامنے سے گزر سکتے ہیں۔ اب اگر گلاب سنگھ یا اس کے بھائی جیسا شکاری ہو جسے جنگلی جانوروں کی عادات کا بخوبی علم ہو تو وہ اپنی کمین گاہ کے لیے مناسب ترین جگہ چنے گا۔ پھر وہاں انسانی کلائی کے برابر موٹائی کے ایک کم عمر درخت کو زمین سے دو فٹ اوپر سے آدھا کاٹ کر اسے جھکاتا اور پھر ساتھ موجود ایک اور درخت کے ساتھ باندھ دیتا ہے۔ ایسے درخت کی لمبائی لگ بھگ بارہ فٹ ہوتی ہے۔ پھر دوسری جانب اسی طرح کرتا ہے۔ پھر دونوں جھکے ہوئے تنوں پر درختوں کی ٹہنیاں کاٹ کر اس طرح لگا دیتا ہے جیسے وہ فطری طور پر وہیں اگی ہوں۔ اس طرح ایسا پردہ بن جاتا ہے جس کے پیچھے شکاری دکھائی نہیں دیتا۔ جب شکاری وہاں جھک کر بیٹھتا ہے تو زمین سے بیس انچ سے زیادہ اونچا نہیں ہوتا۔ یورپی کبھی بھی اس طرح نہیں بیٹھ سکتا۔ جب جانور خطرے کی تلاش میں دیکھتا ہے تو وہ زمین سے تین سے چھ فٹ اونچائی پر دیکھتا ہے۔ اس لیے دو فٹ سے نیچی چیز پر اس کی توجہ نہیں پڑتی۔
میں نے ان شکاریوں سے اکثر پوچھا ہے کہ اگر ہانکے میں شیر یا ریچھ نکل آئے تو کیا ہوگا؟ انہوں نے بتایا کہ ایسا ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں اور اگر ایسا ہو بھی تو جانور کبھی بھی انہیں تلاش نہیں کر سکتے اور پاس سے گزر جاتے ہیں۔
میں بہت مرتبہ اسی طرح بیٹھا ہوں مگر میری کمین گاہ بہت مضبوط سامان سے بنائی جاتی تھی۔ میں کافی ساری خشک گھاس بھی استعمال کرتا ہوں اور کہیں کہیں سبز ٹہنیاں بھی چپکا دیتا تھا۔ اس کے اندر میں گھومنے والے سٹول پر بیٹھتا تھا۔ جب بھی ہوا موافق چل رہی ہو تو میں بہت سارے جانوروں کو آتا دیکھتا تھا اور جب وہ میرے پاس سے گزرتے تو انہیں میری بو آتی۔
اس طرح شکار کو منصفانہ نہیں کہا جا سکتا تاہم بہت ساری جگہوں پر شکار کا یہی طریقہ ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر شکاری جوان اور چست ہو تو اسے کافی مشقت کرنی پڑے گی اور دوسروں کی نسبت بہتر شکار کر لے گا۔
مشکل جگہوں پر جانوروں کو ہانکے سے آگے دھکیلنا مشکل ہوتا تھا اور میں ان دونوں بھائیوں کو ہانکے والوں کے ساتھ بھیجتا تھا۔ زیادہ تر شکار ہونے والے جانور پیچھے کو بھاگتے ہوئے شکار ہوتے تھے۔
اکثر پہاڑوں کی ڈھلوان اتنی عمودی ہوتی تھیں کہ اس پر کسی چار ٹانگوں والے جانور کا اترنا ممکن نہیں دکھائی دیتا تھا مگر سانبھر آرام سے وہاں کسی پوشیدہ رستے پر بھاگتے ہوئے اترتے تھے۔ اکثر راستے میں رک کر سانبھر بڑے پتھروں کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ چوٹی پر موجود ہانکے والے جب انہیں بیٹھا دیکھتے تو پتھر پھینک کر انہیں بھگاتے تھے۔ ان کا شور سن کر نیچے موجود افراد بھی تیار ہو جاتے کہ سانبھر آنے والا ہوگا۔ پھر نیچے موجود شکاریوں کے لیے کھیل شروع ہو جاتا۔ ایسی بلندی پر محض تجربہ کار مقامی بندے چڑھ سکتے تھے۔ جب سانبھر بھاگتے ہوئے نیچے اترتے تو گولی کی آواز سنائی دیتی۔ اگر گلاب یا ڈھول سنگھ سانبھر سے ۱۰۰ گز کے فاصلے پر کہیں بھی ہوتے تو سانبھر کی ہلاکت یقینی تھی۔ یہ اور ان کا سب سے بڑا تیسرا بھائی بھوپال سنگھ میرے بہترین رفیق تھے مگر ان کی ایک بری عادت تھی کہ وہ ہر جانور کو شکار کر لیتے تھے۔
دی ہائی لینڈز آف سینٹرل انڈیا جیسی شاندار کتاب کے مصنف فورسائتھ نے سانبھر کا چھپ چھپا کر شکار کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے۔ شاید اب وقت اور مقام بدل گئے ہیں۔ میں پانچ مرتبہ ہندوستان گیا ہوں مگر ایک بار بھی اس طریقے سے شکار کا موقع نہیں مل سکا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سانبھروں کی تعداد بھی بہت کم ہو گئی ہے اور ان کو بہت زیادہ ڈرایا بھی گیا ہے۔
اگرچہ میں نے آٹھ سال سائیلون میں گزارے ہیں اور اس جزیرے کے ہر گوشے پر شکار کھیلا ہے مگر میں نے پانچ یا چھ سانبھروں کو بھی گولی نہیں ماری۔ ہم نے کبھی جنگل میں ہانکا نہیں کرایا تھا بلکہ مناسب جنگل میں کبھی خچروں پر تو کبھی پیدل گشت کیا کرتے تھے اور شکار کے قابل جانور ملتا تو اس کے پیچھے لگ جاتے تھے۔ زیریں علاقوں میں شاذ ہی سانبھر ملتے تھے۔نیویرا ایلیا میں سانبھر پر گولی چلانا ممکن نہ تھا کہ وہ سطح سمندر سے ۶٫۲۰۰ فٹ بلند تھا۔ یہاں جنگل گھنے تھے اور جب تک کتے ان کے پیچھے نہ لگتے، ہمیں کبھی کوئی سانبھر دکھائی نہیں دیا۔ یہاں جنگل میں بغیر آواز کے پیش قدمی ممکن نہیں۔ اس وجہ سے سانبھر خبردار ہو کر پہلے ہی غائب ہو جاتے تھے۔ میرے پاس اکثر رائفل ساتھ ہوتی تھی۔ میری عادت تھی کہ سورج نکلنے سے قبل شکار پر روانہ ہو جاتا تھا۔ یہاں کھلے میدان بھی تھے مگر کبھی کوئی سانبھر میدان میں نہ دکھائی دیا۔ نیویرا ایلیا میں سات سال قیام کے دوران میں نے ہاتھی کے علاوہ کسی اور جنگلی جانور پر گولی نہیں چلائی۔ جنگل بہت گھنے تھے اور ابھی تک گھنے ہیں۔
میں ۱۸۸۷ کے موسمِ بہار میں ۳۲ سال بعد لوٹا۔ اکثر مقامات بہت بدل گئے تھے مگر نیویرا ایلیا میں ترقی کی رفتار کافی سست تھی۔ سڑکیں بہتر ہو گئی تھیں اور انگلستان کی شاہراہوں سےبھی بہتر تھیں۔ پتھروں سے بنے پل ابھی تک موجود تھے مگر ۳۲ سال کے وقفے کے بعد بھی مقامی لوگوں کی آبادی اس حساب سے نہیں بڑھی تھی۔ میری روانگی کے وقت یہاں ۲۴ گھر تھے اور واپسی پر ان کی تعداد ۳۰ تھی۔
نیویرا ایلیا دلچسپ مقام ہے جو تین میل لمبا میدان ہے۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی ۶٫۲۰۰ فٹ ہے اور اس کے اطراف میں اونچے پہاڑ موجود ہیں اور سائیلون کا سب سے اونچا پہاڑ پیڈروتلاگالا بھی یہیں ہے جو سطح سمندر سے ۸٫۳۰۰ فٹ بلند ہے۔ اس میدان کے وسط سے ایک ندی گزرتی ہے جس پر کئی جگہ آبشاریں بھی ہیں۔
جہاں سے یہ ندی نکلتی ہے، وہاں ایک پختہ بند بنایا گیا ہے اور وہاں اب جھیل بن چکی ہے۔ اس وجہ سے یہاں جگہ جگہ موجود دلدلی قطعے ختم ہو گئے ہیں۔
ضلعی مجسٹریٹ نے یہاں عوامی فلاح کے لیے اپنی صلاحیتوں سے کام لیا ہے۔ اس نے اپنی جیب سے یہاں فِش نرسری بنائی ہے اور اپنی ذاتی دلچسپی سے یہاں جھیل میں ٹراؤٹ بکثرت پائی جاتی ہے۔ اس کے پاس سانبھر کے شکار کی خاطر شکاری کتوں کا پورا غول موجود ہے اور لگ بھگ میرے نقشِ قدم پر چل رہاہے۔
یہاں کا دوبارہ چکر لگانا میرے لیے بہت دلچسپ تھا۔ یہ سائیلون کا صحت افزا مقام ہے اور اس کی ترقی کے لیے میں نے ہی ابتدائی کام کیا تھا۔ جس چرچ کی تعمیر کے لیے ہم نے کام کیا تھا ، اس کے ساتھ قبرستان بھی بنایا گیا تھا اور وہاں میرا ایک بھائی دفن ہے۔ تمام قبریں ترتیب سے بنائی گئی ہیں اور جگہ جگہ یورپی پھول اگے ہوئے ہیں اور بجری سے روشیں بنائی گئی ہیں۔
نیویرا ایلیا کی بعض ڈھلوانیں اپنے اصل جنگلات کھو چکی ہیں اور وہاں چائے کے باغات چھا چکے ہیں۔ کئی جگہوں پر سنکونا کے درخت موجود ہیں۔ شروع میں تو سنکونا کافی کامیاب رہا مگر اب اتنا کامیاب نہیں۔ نیویریا ایلیا کی مٹی میں فولاد زیادہ پایا جاتا ہے جو چائے کے لیے تو اچھا ہے مگر سنکونا کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔
حکومت نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے نیویرا ایلیا کے پاس ۵٫۰۰۰ فٹ کی بلندی سے اونچی تمام جگہوں کو بیچنے سے گریز کیا ہے اور واپس آنے پرمجھے پرانی جگہیں ویسی ہی ملی ہیں۔ ہماری پرانی جائیداد کے بلند مقام سےکم و بیش ۱۸ میل دور ہورٹن کے میدان تک صاف دکھائی دیتا تھا اور ماضی کی خوشگوار یادیں لوٹ آئیں۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے چند ہفتے قبل ہی یہاں سےگیا ہوں۔
اس پورے ملک میں ہم ہر جگہ شکار کھیلتے تھے اور یہاں کوئی باقاعدہ گزرگاہیں نہیں تھیں مگر مجھے اس کے چپے چپے سے واقفیت تھی۔ اپنے پرانے گھر پہنچ کر مجھے اداسی ہوئی کہ ہمارے زیادہ تر پرانے ساتھی فوت ہو چکے تھے اور جو ابھی زندہ تھے وہ بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ میں نے جنگلات کو دیکھا اور ایک صبح میں نے ۱۴ میل لمبی سیر کی۔ واپسی پر مجھے تھکن کا احساس ہوا اور ویسے بھی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ ماضی میں یہاں میں شاید ہی کبھی پیدل چلا ہوں، عموماً دوڑتا تھا اور کبھی بھی تھکن کا احساس نہیں ہوا تھا۔ مجھے انداز ہو گیا کہ میں بھی بوڑھا ہو چلا ہوں۔
کلہاڑے سے ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ پہلے یہاں نیویرا ایلیا میں اتنے گھنے جنگل تھے کہ راستہ بنانا پڑتا تھا اور اب یہ حال تھا کہ وہ سارے جنگل غائب ہو چکے تھے اور ان کی جگہ چائے کے باغات نے لے لی تھی۔ نانا اویا نامی نیا ریلوے سٹیشن بن چکا تھا اور یہ ہوٹل سے چار میل دور ہے۔ اس صحت افزا مقام سے سے کولمبو کے جھلستے میدان آٹھ گھنٹے کی دوری پر ہیں۔
میں نے اپنی ہی ایک کتاب ‘سائیلون میں آٹھ سال‘ کو دوبارہ پڑھا جو ۱۸۵۴ میں لکھی تھی۔ مقصد اپنی یاداشت تازہ کرنا تھا کہ یہاں وقت کیسا گزرا اور لوگ کیسے تھے۔پتہ نہیں وہ کون تھا جس نے یہاں موجود بیرکوں کو ختم کر کے فوجیوں کو اس صحت افزا مقام سے محروم کر دیا تھا۔ اگرچہ یہ مقام کینڈی اور کولمبو سے چند گھنٹے کےریلوے سفر کی دوری پر تھا مگر فوجی بیرک کے انہدام کے بعد اس کے فوائد نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔
اس صحت افزا مقام کے قیام کا مقصد ہر صاحبِ حیثیت یورپی کو مناسب فاصلے اور مناسب اخراجات پر ہر سال کچھ وقت کے لیے یہاں آنےکا موقع دینا تھا۔ عقلِ سلیم کہتی ہے کہ برطانوی فوجیوں کو ہمیشہ صحت افزا ترین مقام پر رکھنا چاہیے مگر اُس دور میں نیویرا ایلیا کو معذوروں کے لیے مناسب سمجھا گیا تھا کہ ذرائع نقل و حمل بہت محدود تھےاور کئی سڑکیں برسات میں ناقابلِ عبور ہو جاتی تھیں۔
اب ریلوے موجود ہے تو نقل و حمل کی دشواری باقی نہیں رہی۔ تاہم فوجی یہاں سے نکال لیے گئے ہیں۔ ہماری فوج چھوٹی مگر مہنگی ہے۔ اس کے علاوہ فوجیوں کو جس طرح کے سلوک کا سامنا ہوتا ہے اگر وہ انگلستان میں رہنے والے جانوروں کے ساتھ بھی روا رکھا جائے تو ظلم شمار ہوگا۔ سائیلون میں کوئی بندہ اپنے کتے بھی کولمبو میں نہیں رکھے گا اور اگر رکھے گا بھی تو پہاڑی علاقوں کے معتدل موسم میں رکھے گا۔
نیویرا ایلیا میں میں نے ۴۰ سال قبل بیئر کی تیاری کا طریقہ متعارف کرایا تھا جو بہت کامیاب رہا۔ جب تک جو انگلستان سے آتا رہا، اس کا معیار بہت عمدہ تھا اور ایک کمپنی تو اب اس طریقے سے بیئر کی تیاری کے لیے یہاں سے ۱۳ میل دور ایک مقام پر اپنا جو اگانے کی تیاری میں ہے۔
نیویرا ایلیا کے زیریں علاقوں سے جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے اونچے علاقوں میں سانبھروں کی تعداد بڑھنی چاہیے تھی کہ وہاں جنگلات کو ہاتھ نہیں لگایا گیا تھا۔ تاہم آج بھی شکار کے قابل جانوروں کی تعداد ماضی کی نسبت کہیں کم ہے۔ شکاری کتوں کی تعداد اور معیار کے علاوہ شکار کا طریقہ بھی کافی بدل گیا ہے۔
کبھی کبھار ہم نیویرا ایلیا کی بجائے ہورٹن کے میدانوں یا کسی اور سمت نکل جاتے تھے تاکہ یہاں کے جانوروں کو ذرا سکون ملے۔
ملک بھر میں مختلف مواقع موجود ہیں مگر کسی کو بھی ترقی دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ سائیلون کے بلند علاقے مختلف بلندیوں پر سطح مرتفع ہیں۔ جب نیویرا ایلیا پہنچیں تو اگرچہ آپ سطح سمندر سے ۶٫۲۰۰ فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں مگر یہ پہاڑ کی چوٹی نہیں۔ تاہم یہ شملہ اور دارجلنگ جیسی جگہوں سے بھی مختلف ہے کہ اس کے اطراف میں گہری کھائیاں نہیں اور نہ ہی ایک کمرے جتنی جگہ مسطح ہے۔ یہاں کئی کئی میل تک ہر سمت میں زمین لگ بھگ مسطح ہے۔ یہاں زیادہ بلندی پر بھی کئی جگہوں پر میدان موجود ہیں۔ اونچے درختوں کے نیچے نیلہو نامی پودا اگتا ہے جس کا تنا انسانی انگلی سے ذرا موٹا ہوتا ہے۔ ہر سات سال بعد اس پر پھول آتے ہیں جن کے پیچھے بے شمار بھنورے اور شہد کی مکھیاں آتی ہیں۔ چوہے بھی بکثرت ہو جاتے ہیں۔ تاہم جب اس کا پھل خشک ہو کر نیچے گرتا ہے تو سارا علاقہ بھر جاتا ہے۔ یہاں سانبھر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے اور تلاش کے لیے کتے لازمی ہوتے ہیں۔ شکار کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہم پو پھٹتے روانہ ہوتے۔ بھاگ دوڑ کے لیے میں نے خصوصی لباس بنوایا تھا۔ یہ لباس جسم سے چپکا ہوا اور مختصر تھا۔ ان کا رنگ سبز تھا اور دو اونچے بوٹ ہوتے تھے جن کے تلے کی موٹائی چوتھائی انچ اور ان میں بارہ بارہ کیل لگے ہوتے تھے۔ چمڑے کی ایک چوڑی پٹی جو مضبوط بکل سے جڑی ہوتی تھی اور ایک شکاری چاقو کافی رہتا تھا۔ سر کے بچاؤ کے لیے چھوٹا سا ہیلمٹ ہوتا تھا۔ سورج نکلنے سے قبل گرم کافی کا ایک کپ ہماری واپسی تک کافی رہتا۔
میں نے شکار پر نکلنے سے قبل کبھی کھانے کی عادت نہیں ڈالی اور محض کافی ہی کافی رہتی تھی۔ دوپہر کے کھانے کے لیے بھی میں کبھی ساتھ سامان نہیں لے کر گیا اور نہ ہی واپسی سے پہلے کبھی شراب پی۔ واپسی اکثر غروبِ آفتاب کے بعد ہی ہوتی تھی، سو شراب نوشی بھی کم ہی ہوتی تھی۔
تاہم شکار کے لیے یہ طریقہ انتہائی مناسب ہے۔ عام طور پر میں اکیلا ہوتا تھااور میرے ساتھ ایک شکاری ہوتا تھا جو فوج سے نکالا گیا ایک فوجی تھا یا پھر میرے ساتھ میرا بھائی یا کوئی دوسرا دوست ہوتا تھا۔ تاہم سیاحت کے موسم میں نیویرا ایلیا یورپی افراد سے بھرا ہوتا تھا اور ہمارے ساتھ کافی ہجوم چلتا تھا جن میں کئی خواتین بھی شامل ہوتی تھیں۔ ایسے مواقع پر ہر بندہ گھوڑے پر سوار ہوتا تھا اور میں نے جان بوجھ کر ایسے علاقے محفوظ رکھے ہوتے تھے جہاں گھوڑوں پر سوار ہو کر جانا ممکن ہوتا تھا اور سانبھر کھلے میدان میں نکل آتے تھے۔
وہ دن بھی کیا دن تھے، صبح صبح اپنے کتا خانے کا دروازہ کھولتا تھا۔ بہترین شکاری کتے باہر نکلتے ۔ یہ کتے میں نے برسہا برس کی محنت سے مطلوبہ خواص کے اعتبار سے پیدا کیے تھے۔
ایسے علاقوں میں شکار کے لیے شکاری کتوں کا مختلف النسل ہونا لازمی ہے۔ شروع میں ہم اپنے ساتھ انگلستان سے فاکس ہاؤنڈ کا غول لائے تھے مگر جلد ہی پتہ چل گیا کہ جن جنگلات میں گھوڑے نہ استعمال ہو سکتے ہوں، وہاں فاکس ہاؤنڈ بیکار رہتے ہیں۔ ایسے جنگل میں فاکس ہاؤنڈ ہر قسم کے جانور بشمول بلیاں، نیولے اور جو کچھ بھی دکھائی دے جاتا، اس کے پیچھے لگ جاتے تھے اور سانبھر واحد جانور ہوتا تھا جو ان کی توجہ سے بچ جاتا تھا۔
آہستہ آہستہ میرے پاس کتوں کے ۱۴ جوڑے ہو گئے جو مختلف اقسام کے تھے۔ کچھ خالص فاکس ہاؤنڈ تھے، کچھ فاکس ہاؤنڈا ور پوائنٹر کے مخلوط، کچھ بلڈ ہاؤنڈ اور پوائنٹر کے مخلوط، کچھ فاکس ہاؤنڈ اور بلڈ ہاؤنڈ، کچھ مسٹیف اور بلڈ ہاؤنڈ، کچھ مسٹیف اور بلڈ ہاؤنڈ اور کنگرو ہاؤنڈ، تازی کتے اور کنگرو ہاؤنڈ ، غرض ہر ممکنہ اختلاط ہوا تھا۔ اس طرح پیدا ہونے والے کتوں کی تین اہم اقسام تھیں: کھوجی کتے، کھوجی اور پکڑنے والے اور لمبی ٹانگوں والے کتے جو شکار کے پیچھے بھاگتےتھے۔
اتنی اقسام کے کتوں کا ہونا مندرجہ ذیل وجوہات پر اہم تھا:
سانبھر شب بیدار جانور ہے۔ رات کو وہ کھلے میدان میں پیٹ بھرتا ہے۔ صبح طلوع ہونے سے قبل پانی پی کر جنگل کے بہت اندر جا کر آرام کرتا ہے۔ نر بہت اونچائی پر چلے جاتے ہیں اور مناسب جگہوں پر چھپ جاتے ہیں۔
ہمارا اصول یہ تھا کہ ہم کتوں کو جوڑوں کی شکل میں لے کر جاتے تھے تاکہ تاخیر یا گڑبڑ نہ ہو۔ ورنہ کم عمر کتے ہر جانور کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ہمارا رخ ندی کی طرف ہوتا تھا کہ پانی پینے کے بعد سانبھر ندی سے ہی پناہ گاہوں کو جاتے تھے۔ سو ان کی بو سب سے تیز وہیں ملتی تھی۔
اس طرح ہاؤنڈ کتے سب سے آگے اور سانبھر کے قریب پہنچ جاتے جبکہ دیگر کتے شور مچاتے ان کا پیچھا کرتے۔ سانبھر کو خطرے کا احساس ہی نہ ہو پاتا۔
اس کی اوجھری چارے سے بھری ہوتی اور چار پانچ لیٹر جتنا پانی بھی پینے کے بعد وہ سونے کی تیاری میں ہوتا کہ کتوں کی آواز سنائی دے جاتی۔ تاہم اسےا ندازہ نہ ہوتا کہ کئی کتے اس کے کافی قریب بھی پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح اگر سانبھر کو موقع مل جائے تو وہ آرام سے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ کر ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ تاہم یہ کتنے اس کے اتنے قریب پہنچ جاتے ہیں کہ اسے آرام سے فرار ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ بھاگتے ہوئے جلد ہی اس کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے اور خالی پیٹ بھاگتے ہوئے کتے اتنے قریب پہنچ جاتے ہیں کہ اسے رکنا ہی پڑتا ہے۔
اب وہ جنگل کا رخ کرتا ہے اور پہاڑ پر سے ترچھا بھاگتا ہوا نیچے اترتا ہے اور کتے اس کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اس کا رخ نیچے مسطح علاقے کی طرف ہوتا ہے جہاں وہ دوڑ سکے۔
اسی دوران میں اپنے کتوں کے شور سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ کتوں نے سانبھر کو چوٹی کی طرف نہیں جانے دیا بلکہ اب ان کا رخ نیچے کو ہے۔ سو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سانبھر کہاں نیچے اترے گا اور اپنے ہمراہ پکڑنے والے دو کتے لے کر اسی سمت بھاگتا ہوں۔ یہ دونوں کتے ہمیشہ میرے ساتھ اور آخری لمحے پر چھوڑے جاتے ہیں۔ اوپر سے مجھے سانبھر اور کتوں کے دوڑنے کا شور سنائی دیتا ہے۔ چند لمحے بعد سانبھر جنگل کے کنارے پر نمودار ہوتا ہے اور چند لمحے رک کر جائزہ لیتا ہے۔ جونہی وہ رکنے کے بعد دوڑ لگاتا ہے، میں اپنے ساتھ موجود دونوں کتے چھوڑ دیتا ہوں جو اڑ کر سانبھر تک پہنچتے ہیں۔
سانبھر کو نئے دشمن کا بالکل بھی علم نہیں ہوتا اور وہ زیادہ تیز نہیں بھاگ رہا ہوتا۔ جس ندی کے کنارے اس نے صبح پانی پیا تھا، اسی ندی کے کنارے کتے اس کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں۔ اچانک سانبھر کو سو گز دور یہ کتے دکھائی دیتے ہیں اور دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ تاہم چند ہی لمحوں میں دونوں کتے سانبھر کے پہلو میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایک کتے کو سانبھر کی دولتی لگتی ہے اور وہ قلابازی کھاتا ہے مگر دوسرے نے سانبھر کے کان کو پکڑ لیا تھا۔ پہلا کتا ہوش سنبھال کر سانبھر کے دوسرے کان سے لٹک جاتا ہے۔
اب سانبھر کی ہمت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ دونوں کتوں کو اٹھائے وہ بھاگتا ہے۔ زمین ناہموار ہے اور جگہ جگہ گھاس موجود ہے اور کتوں کو یہاں گھسیٹنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ جلد ہی سانبھر کی چال سست ہو جاتی ہےا ور آخرکار رک جاتا ہے۔ کتے بہت تھک چکے ہوتے ہیں مگر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتے۔اس دوران باقی کتوں کو خبر مل چکی ہوتی ہے کہ سانبھر پکڑا گیا ہے۔
اس آواز پر پورا غول لپکتا ہے۔ سارے کتے ان دو کتوں کی مدد کو لپکتے ہیں۔ چاقو ہاتھ میں ہوتا ہے اور شانے کے پیچھے ایک وار اور سانبھر شکار ہو جاتا ہے۔
ایک منٹ کے لیے کتوں کو سانبھر کی لاش بھنبھوڑنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر انہیں الگ ہٹا لیا جاتا ہے۔ سبھی کتے لاش کے گرد بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اس کا پیٹ چاک کر کے اوجھری اور دیگر اندرونی اعضا کو نکال کر پھینک دیا ہے۔ اس کے جگر کے کئی ٹکڑے کیے جاتے ہیں اور نوجوان کتوں کو باری باری ان کا نام لے کر بلائے اور کھلائے جاتے ہیں۔ پھر جب باقی کتوں کو اجازت ملتی ہے تو سانبھر کی لاش پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
اب اتنے عرصے بعد تو کسی ایک شکار کی پوری تفصیل یاد کرنا ممکن نہیں مگر اپنی ڈائری سے میں ایک دو واقعات نکال کر بیان کرتا ہوں: ۲۷ جولائی ۱۸۵۲ کو نر سانبھر ساڑھے سات بجے صبح دکھائی دیا جو پیڈرو سے دو میل دور تھا۔ اس نے پہلے سیدھا پہاڑ سے اترنا شروع کیا اور لگ رہا تھا کہ وہ میدان میں پہنچ کر کتوں کی پہنچ سے دور نکل جائے گا۔ تاہم پرانے ریسٹ ہاؤس کے پیچھے کھڑے کچھ لوگوں نے شور مچایا تو سانبھر نے واپس پہاڑ کے اوپر کا رخ کیا۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ تین بار میں پہاڑ پر چڑھا کہ شاید کتوں کی آواز سنائی دے سکے کہ وہ کسی کھائی میں ہوں گے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
پھر ہم نیویرا ایلیا کے درے کو گئے مگر اس سمت سے بھی کوئی آواز نہ آئی۔ صبح کا سارا وقت بیکار گزرا۔ دو بجے تک سبھی ہمراہی اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ دن گرم ہو گیا تھا اور ہم مچل کے گھر رک کر بیئر پینے لگے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اس کے بعد بیرکوں کے اوپر جائیں گے کہ شاید کتے پہاڑ کی چوٹی سے دکھائی دے جائیں۔
پھر چکر کاٹ کر ہم چوٹی تک پہنچے اور کچہری کو اترےمگر کوئی آواز نہ آئی۔ ہم نے سفر جاری رکھا اور سڑک کو جا پہنچے۔ وہاں نیچے ہمیں مچل ملا جو ناکام لوٹا تھا۔ تاہم ایک شکاری کتیا اسی جانب سے واپس لوٹی جس سمت کو کتے گئے تھے۔
ہم سب فوراً اسی سمت لپکےکہ ہم نے گھوڑے لے لیے تھے۔ ایک میل کی تیز دوڑ کے بعد کچھ دیہاتی ملے جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے دوکتوں کو بہت تیزی سے اسی سمت بھاگتے دیکھا تھا۔ جب ہم مطلوبہ میدان سے ایک میل دور رہ گئے تو ہم نے کیچڑ میں سانبھر کے تازہ پگ دیکھے۔ اس کے کھر پوری طرح پھیلے ہوئے تھے جو تیز رفتاری کی دلیل تھے۔ ساتھ ہی کتوں کے پگ بھی ملے۔
ہم نے پیش قدمی جاری رکھی اور آخرکار اس میدان کو پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر ہم نے بران اور لوسیفر نامی دو تازی کتوں کو واپس آتے دیکھا جو ہماری آوازیں سن کر آ رہے تھے۔ یہ کتے دیگر کے ساتھ سارا دن شکار میں مصروف رہے اور اندازہ تھا کہ سانبھر زیادہ دور نہ ہوگا۔ ہمارے ساتھ ایک تازہ دم کتیا تھی۔ سو ہم نے سڑک چھوڑ کر میدان کا رخ کیا اور رک کر سننے لگے۔
تین میل کی سرپٹ دوڑ کے بعد گھوڑوں کا سانس پھولا ہوا تھا اور ہمیں کچھ سنائی نہ دیا۔ پھر ہمیں دور دائیں جانب سے کتوں کی آوازیں سنائی دیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ کتے بہت تھک گئے ہیں کہ مسلسل بھونکنے کی بجائے وقفے وقفے سے بھونک رہے تھے۔
آواز مدھم سہی مگر واضح تھی کہ سانبھر کہیں نہیں جا رہا۔ سو ہم نے سیدھا اسی جانب کا رخ کیا اور راہ میں آنے والے گڑھوں اور رکاوٹوں کی پروا نہ کی۔ بران اور لوسیفر بھی ہمارے آگے آگے تھے۔ راستے میں اچانک میرا گھوڑااور پھر ہمراہی کا گھوڑا گرا اور ہم قلابازیاں کھا کر اٹھے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ چڑھائی پر پہنچے تو چوتھائی میل دور ہمیں دریا کے کنارے کچھ کتے کھڑے، کچھ بیٹھے اور کچھ لیٹے دکھائی دیے۔ ان کے سامنے کنارے کے قریب ہی ایک شاندار اور پلا ہوا سانبھر پانی میں کھڑا تھا۔
جلد ہی ہم کتوں کے قریب پہنچے اور انہیں جوش دلایا۔ کتوں نے بھی ہمت پکڑی اور سیدھا سانبھر کو لپکے۔ سانبھر ٹھنڈے پانی میں نہا کر تازہ د ہو چکا تھا اور حملے کا انتظار کیے بغیر اس نے کنارے پر جست لگائی اور سیدھا کتوں پر حملہ آور ہو گیا۔ کتوں کو لاتیں مارتا تیزی سے وہ جنگل کی سمت بھاگا۔
کتوں نے ہمت نہ ہاری۔ لینا تازہ دم تھی، سو اس نے اتنی تیزی سے پیچھا کیا کہ جلد ہی سانبھر سے محض چھ قدم پیچھے تھی۔ بران اور لوسیفر بھی زیادہ دور نہ تھے اور پورا غول ان سے پچاس گز پیچھے بھاگ رہا تھا۔
جنگل کھلا تھا اور جھاڑ جھنکار زیادہ تھا۔ مگر کتوں کے گزرنے کی وجہ سے باقاعدہ رستہ سا بن گیا تھا۔ دور ہوتے ہوتے پانچ منٹ بعد ہمیں کتوں کی آوازیں سنائی دینا بند ہو گئیں۔ ہر طرف سناٹا تھا۔
دریا میں پانی اس جگہ ابھی تک گدلا تھا جہاں سانبھر کھڑ اتھا۔ جنگل میں کتوں اور سانبھر کے گزرنے سے بننے والے نشانات ہی واحد نشانی تھے کہ سانبھر ابھی ابھی یہاں سے گیا ہے۔ سانبھر اتنی تیزی سے غائب ہوا کہ ہمیں اپنے حواس پر یقین نہ آیا۔
اب یہ کہنا تو مشکل تھا کہ سانبھر کس سمت گیا ہوگا۔ ہر سمت اس کے لیے کھلی تھی۔ ہاں یہ ہے کہ اس کا شکار ہونا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ واحد امکان یہی تھا کہ لینا تازہ دم تھی اور جنگل میں گھستے وقت وہ اس کے بہت قریب تھی، سو اگر وہ اس سے پیچھے نہ ہو جاتی تو امکان تھا کہ وہ سانبھر کو پکڑ لے گی۔
مجھے مایوسی اور اس سانبھر سے جلن ہونے لگی کہ کتنا سخت جان ہے کہ سبھی کتوں کو صبح سے دوڑائے جا رہا ہے اور تھکتا بھی نہیں۔ اچانک دور سے آواز آئی۔ کتے کی آواز تھی۔ آواز بتدریج ہمارے قریب تر ہو تی گئی۔ بظاہر سبھی کتے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ جھاڑ جھنکار سے سانبھر کے گزرنے کا شور قریب ہونے لگا۔ جہاں سانبھر جنگل میں داخل ہوا تھا، اس سے چند گز دوری پر سانبھر نمودار ہوا اور اس کے پیچھے لینا لگی ہوئی تھی۔ اس نے جست لگائی اور سانبھر کو پکڑا۔ سانبھر نے اسے فوراً جھٹک دیا اور سیدھا دریا کی سمت بھاگا۔ تین تازی کتے اس کے پیچھے تھے۔
جب وہ ندی کے قریب ہوا تو کتے اس کے قریب تھ۔ جونہی سانبھر نے کنارے سے پانی میں جست لگائی، کتوں نے اسے دبوچ لیا۔ سبھی ایک ساتھ پانی میں گرے۔ پانی گرہا تھا، سو سانبھر چھوٹ گیا۔
اس بار آزاد ہوتے ہی سانبھر نے کتوں کا رخ کیا مگر پانی گہرا تھا، سو اسے تیرنا پڑا۔ اس طرح وہ بے بس ہو گیا۔بران نے اسے فوراً پکڑ لیا۔ لوسیفر اور لینا نے بھی اسے پکڑا اور باقی کتے بھی پہنچ گئے۔
میرا خیال تھا کہ اب شکا رتمام ہونے والا ہے مگر اچانک سانبھر نے غوطہ لگایا اور سبھی کتے پانی میں غائب ہو گئے۔ ایک بار پھر سانبھر آزاد ہوا اور اس نے فوراً اپنے دشمنوں کا رخ کیا۔ اس نے سیدھا بہاؤ کے ساتھ تیرنا شروع کیا اور کتے پیچھے تھے۔
آخرکار سانبھر کے پیر زمین پر لگے اور اس نے مڑ کر سیدھا کتوں پر حملہ کر دیا اور پانی کے اندر ان پر لاتیں چلانے لگا۔
لینا حیران کن تیزی سے ایک اتھلے ریتلے ٹیلے پر چڑھ کر سانبھر ہر جھپٹی مگر سانبھر نے اس کا ارادہ بھانپ لیا اور سیدھا سینگ اس کی سمت کھڑے کیے۔ لینا سینگوں میں پروئی جاتی مگر عین وقت پر ایک اور کتے نے سانبھر کو کان سے پکڑا اور لٹک گیا۔ اب اس سے کان چھڑانا ممکن نہ تھا۔ فوراً ہی دوسرے کتے نے دوسرا کان پکڑ لیا۔
سانبھر نے اب سیدھا دریا کے بہاؤ کا رخ کیا اور دونوں کتے اس کے کان سے بالیوں کی طرح لٹک رہے تھے۔ سانبھر پھر اپنے پچھلے پیروں پر کھڑا ہوا اور کان چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ ناکام رہ کر اس نے پھر پانی کا رخ کیا اور پانی میں غوطہ لگایا۔ کچھ دیر بعد پھر نمودار ہوا تو کتے ابھی تک لٹک رہے تھے۔ اس دوران سانبھر نے انہیں کئی بار لاتیں بھی ماری تھیں اور ڈوبنے والے ہو رہے تھے۔
اب میں نے پانی میں جست لگائی اور کتوں کو ہلا شیری دی اور چاقو نکال لیا۔ اگلے لمحے سبھی کتے سانبھر سے چمٹ گئے۔ چاقو کے ایک ہی وار سے سانبھر کا کام تمام ہوا۔ صبح ساڑھے سات بجے سے شروع ہوا شکار اب شام کو چار بجے جا کر تمام ہوا۔ ساڑھے آٹھ گھنٹے لگے اور نامعلوم کتوں اور سانبھر نے کتنا فاصلہ طے کیا ہوگا۔ ایک کتے کو تو اتنے زخم لگے کہ وہ ایک ہفتے تک لنگڑاتا رہا۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مادہ کی نسبت نر زیادہ خطرناک ہوتا ہے مگر مادہ سانبھر کے اگلے پیروں سے مہلک زخم لگ سکتے ہیں۔ سانبھر کا قد اونچا ہوتا ہے اور جب پانی کو اس کا پیٹ چھو رہا ہو تو اس وقت وہ پانی کتوں کے سر کے اوپر سے بہہ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں مادہ سانبھر کتوں پر حملہ کر کے اگلے پیروں سے کاری زخم لگاتی ہے۔ ایک بار ایسا ہی مہلک واقعہ میں نے دیکھا تھا اور میرا ایک کاٹو نامی کتا مارا گیا تھا۔ جب مادہ سانبھر نے اس پر حملہ کیا تو پیروں سے اس کا پیٹ چاک ہو گیا اور آنتیں باہر نکل آئیں۔ کتوں کی مدد سے سانبھر کا شکار کرنے کے لیے آپ کو اس علاقے سے مکمل واقفیت کے علاوہ سانبھر کی عادات و خصائل کا بخوبی علم ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ کتوں اور مالک کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہونا چاہیے کہ مالک ہمیشہ ان کی مدد کو آئے گا۔ اگر کتوں کو یقین ہو جائے کہ ان کا مالک جلد یا بدیر ان کے پاس پہنچ جائے گا تو وہ شکا رکا کبھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ تاہم جب رات ہو جائے تو پھر کتے اسے چھوڑ کرگھر لوٹ آتے ہیں۔
میرے کتوں سے شاذ ہی سانبھر بچتا تھا۔ تاہم اگر سانبھر ان سے بچ نکلتا تو کتے رات گئے کو گھر واپس لوٹتے جس سے پتہ چلتا کہ وہ اندھیرا چھانے تک وہیں تھے۔
ایک سانبھر ایسا تھا کہ اس نے بہت بار ہمیں شکست دی تھی۔ اپنی یاداشتوں سے میں اس کے آخری شکار کا واقعہ لکھتا ہوں۔ ۱۱ مارچ ۱۸۵۳:سانبھر ہمیں پہاڑیوں کے دامن میں دکھائی دیا۔ پہلے بھی اسی مقام پر ہم اسی سانبھر کو کئی بار دیکھ اور گم کر چکے تھے۔ یہ سانبھر ہمیشہ کسی ایسے مقام کا رخ کرتا کہ ہمیں پھر دوبارہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ کتے رات گئے بہت مایوس ہو کر واپس لوٹتے تھے۔
اس بار ہمیں پھر سانبھر کے پگ دکھائی دیے اور ہم اس کا پیچھا کرتے ہوئے جنگل میں داخل ہو گئے۔ چند منٹ بعد کتے شور مچانے لگے۔جب ہم جنگل سے نکلے تو کھلے میں پہنچنے پر ہمیں چند ہی کتوں کی آوازیں سنائی دیں۔ باقی سب سانبھر کے پیچھے بھاگتے ہوئے بہت دور جا چکے تھے۔
اب سوال یہ تھا کہ سانبھر گیا کہاں ہوگا؟ ہمیشہ کی طرح لگا کہ یہ سانبھر پھر ہمیں جُل دے کر نکل جائے گا۔ ہمارا خیال تھا کہ سانبھر پہاڑی کے نچلے سرے سے بائیں سمت کو بھاگا ہوگا اور آخرکار پہاڑ کے دوسری جانب جا کر غائب ہو گیا ہوگا۔ یہ سوچ کر ہم اس جانب چل پڑے کہ دوسری جانب جا کر شاید کتوں کا شور سنائی دے۔میرا خیال یہ تھا کہ سانبھر سیدھا پہاڑ پر چڑھا ہوگا اور پیچھے رہ جانے والے کتوں کا شور ہمیں پہاڑ کے کافی اوپر سے سنائی دے رہا تھا۔
ہم اتنی عجلت سے بھاگ کر جنگل سے نکلے کہ مجھے یقین ہو گیا کہ ہم نے آگے والے کتوں کا شور سنا ہوگا۔ سو میں روانہ ہو گیا۔ میں نے پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ کا رخ کیا جہاں سے کتوں کا شور سنائی دیا تھا۔ میں نےسوچا کہ اگر کتوں کے نشانات مل گئے تو ان کا پیچھا کروں گا۔
کچھ دیر تک جنگل میں پھرنے کے بعد مجھے ایک خالی جگہ دکھائی دی اور فوراً وہاں ہاتھیوں کا بنایا ہوا بہت عمدہ راستہ دکھائی دیا۔ صاف لگ رہا تھا کہ کئی سالوں سے ہاتھی اسے استعمال کر رہے ہوں گے۔ مجھے فوراً علم ہو گیا کہ یہی آسان سا راستہ سانبھر لے کر نکلتا ہوگا اور اسے پہاڑ کے اوپر تک جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہوگی۔ اسی راستے پر میں نے ہر ممکن عجلت سے چلنا شروع کیا۔ آدھا راستہ گزرنے کے بعد مجھے سانبھر کے اور پھر کتوں کے پیروں کے نشانات صاف دکھائی دینے لگے۔ سبھی کا رخ پہاڑ کے اوپر کی جانب تھا۔
پہاڑ کا یہ حصہ ایک میل لمبا ہوگا اور اتنا آسان بھی نہ تھا۔ تاہم دلچسپی کی وجہ سے آخرکار چوٹی پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر بہت خوبصورت منظر دکھائی دیا اور کم از کم ۳۰ میل تک جنگل واضح دکھائی دے رہا تھا۔ بہت دور ہمیں کوہِ آدم کی چوٹی بھی دکھائی دی۔ چند چھوٹے گھاس کے میدان بھی تھے اور بے شمار کھائیاں بھی پہاڑوں پر موجود تھیں۔ دائیں جانب کافی کے بہت سارے باغات تھے۔
یہاں سے پانچ میل نیچے تک اترائی بھی تھی اور وہاں سے ایک بڑا دریا بہتا ہوا کافی کے باغات سے گزرتا تھا۔ آگے چل کر اس کے ساتھ ایک زیادہ بڑا دریا اس سے ملتا تھا۔ پھر پہاڑ میں گہرے رنگ کی ایک پٹی تھی۔ میں نے اسی پٹی میں سانبھر کی گزرگاہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مجھے یقین تھا کہ اتنی بھاگ دوڑ کے بعد سانبھر جلد ہی پانی پینے جائے گا۔
آسمان بالکل خالی تھا اور ذرا سی بھی ہوا نہیں چل رہی تھی۔ میں نے پوری توجہ سے سننے کی کوشش کی۔ اچانک ایسے محسوس ہوا کہ جیسے دور سے بھنبھاہٹ سی آواز آئی ہو۔ یہ میرا واہمہ نہیں تھا۔
ایک یا دو بار مجھے زیادہ اونچی آواز سنائی دی۔ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ سانبھر کی آواز ہوگی۔ کتوں نے سانبھر کو روک لیا تھا مگر وہ میرے موجودہ مقام سے کم از کم تین میل دور ہوں گے۔
ایک یا دو بار مجھے زیادہ اونچی آواز سنائی دی۔ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ سانبھر کی آواز ہوگی۔ کتوں نے سانبھر کو روک لیا تھا مگر وہ میرے موجودہ مقام سے کم از کم تین میل دور ہوں گے۔
اس مقام پر پہاڑی کی چوٹی پر تنگ سی پٹی تھی۔ تیز ہوا کی وجہ سے یہاں کوئی درخت نہ اگ سکا اور چھوٹی موٹی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ جوں جوں نیچے اتریں تو نباتات کی اونچائی بڑھتی جاتی تھی اور آخرکار اصل جنگل شروع ہو گیا تھا۔ اس مقام سے میں نے اپنے آئندہ لائحہ عمل کے لیے منظر کا جائزہ لیا اور پھر سانبھر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے میں نے بھاگنا شروع کیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جھاڑ جھنکار اور درختوں سے الجھتا ہوا میں بھاگتا رہا اور سانبھر کے نشانات غائب ہو گئے۔ تاہم میں نے اپنے اندازے کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی اور دو میل کا فاصلہ طے کر لیا۔ اس دوران کبھی کتوں کی آوازیں غائب ہو جاتیں تو کبھی پھر سنائی دینے لگتیں۔ تاہم یہ آواز ہمیشہ پہلے سے زیادہ دور محسوس ہوتی تھیں۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ سانبھر بار بار بھاگ نکلتا تھا اور پھر نئی جگہ کتے اسے روک لیتے۔ ان کا رخ دمبولا کی طرف تھا اور سانبھر محض تب رکتا جب اسے آرام کرنا ہوتا تھا۔
چار میل تک میں ایسے ہی بھاگتا رہا اور پھر ایک بار جب میں دریا کے قریب جنگل سے نکلا تو مجھے محض چوتھائی میل دور سے آوازیں سنائی دیں۔ میں نے رفتار بڑھا دی اور جلد ہی وہاں پہنچ گیا۔ سانبھر کے شاندار سینگ دیکھ کر میرا دل خوش ہو گیا۔ دریا کے وسط میں گھٹنے تک پانی میں سانبھر کھڑا تھا اور کتے اس کے اردگرد جمع تھے۔
منظر بہت خوبصورت تھا اور کتوں نے میری موجودگی محسوس کرتے ہی اپنی دمیں ہلانی شروع کر دیں اور نئے ولولے سے کام میں لگ گئے۔ ایک کتا برٹرام تو اتنا جذباتی ہو گیا تھا کہ اسے سانبھر کے سوا کسی چیز کی خبر نہ رہی۔ ہر منٹ میں سانبھر اس پر لات چلاتا اور کتا فوراً اس پر حملہ آور ہو جاتا۔
تاہم سانبھر بہت اچھے مقام پر تھا اور کتے اس کے گرد جیسے تیر رہے ہوں۔ انہیں قدم جمانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ سو میں نے اپنا چاقو نکالا اور کتوں کو بڑھاوا دیتے ہوئے پانی میں گھس گیا۔
فوراً ہی سانبھر پانی سے نکلا اور جنگل میں گھسا۔ کتے اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ چوتھائی میل دور پھر پانی میں گھس کر کھڑا ہو گیا۔ جلد ہی میں بھی پہنچ گیا اور دیکھا کہ اس نے دریا میں بہت عمدہ مقام چنا تھا جہاں اس پرحملہ ممکن نہ تھا۔ یہاں پانی کی گہرائی تین فٹ تھی اور اس کے آگے فوراً ۱۰۰ فٹ اونچی آبشار گرتی تھی۔ دریا کا ایک کنارہ عمودی اور بارہ فٹ اونچا تھا۔ اس کے نیچے سانبھر کھڑا تھا۔ دس منٹ تک تو وہ قریب آنے والے ہر کتے پر حملہ ہی کرتا رہا۔
کتوں کے پاس سانبھر کو پکڑنے کا کوئی موقع نہ تھا، سو میں نے چاقو سے کام لینے کا سوچا۔
اونچے کنارے سے میں نے دیکھا کہ ایک شاخ اس طرح لٹک رہی تھی کہ وہ میرا وزن سہار لیتی۔ سو میں نے اسے بائیں ہاتھ سے تھاما اور دائیں ہاتھ میں چاقو لے کر نیچے کو چھلانگ لگائی۔ میرا ارادہ تھا کہ کندھوں کے بیچ چاقو سے وار کروں گا اور اس لچکیلی شاخ کی مدد سے واپس اپنی جگہ لوٹ آؤں گا۔
شاخ ٹوٹ گئی اور میں سانبھر کی پیٹھ پر گرا اور پھر پانی میں جا پڑا۔
سانبھر ایسے اچھلا جیسے اسے ڈنگ لگا ہو۔ تاہم میں چاقو کندھوں کے بیچ دستے تک اتار چکا تھا۔
کتوں نے مجھے حملہ کرتے دیکھا تو فوراً ہی بھاگتے ہوئے سانبھر پر حملہ کر دیا اور ایک کتا اس کا کان پکڑ کر لٹک گیا۔ لوسیفر بھی اسے چمٹ گئی اور سانبھر دوڑتا ہوا آبشار سے بچنے کی کوشش میں اس کے ایک جانب جھاڑیوں میں جا گھسا اور کتوں سمیت نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مجھے آبشار سے کوئی بھاری چیز گرنے کی آواز آئی۔ یہاں زیادہ تر کتے دکھائی دیے جو تیس فٹ نیچے ایک چھجے پر تھے۔ ان کے نیچے سانبھر تھا۔ خوش قسمتی سے اس جگہ کچھ جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے ان کو گرنے سے زیادہ چوٹ نہ لگی۔ ایسا لگا کہ جیسے کسی کو بھی چوٹ نہ لگی ہو اور انہوں نے سانبھر کو روک کر شور کرنا شروع کر دیا۔
سو گز کا چکر کاٹ کر میں نے اترنے کی جگہ تلاش کر لی۔ کتے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ نیچے گہری کھائی تھی اور اوپر دیوار کی مانند پہاڑ تھا۔ اس جگہ اگر یہ چھجہ اور جھاڑیاں نہ ہوتیں تو کتے اور سانبھر، سبھی مارے جاتے۔
نیچے اتر کر میں اس چھجے تک پہنچا اور سانبھر کی طرف بڑھا۔ اس نے فوراً میری موجودگی کو بھانپ لیا اور جنگل کو جانے کی نیت سے اس نے سیدھا میری جانب دوڑ لگائی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے مجھ پر حملہ کیا یا میرے پاس سے گزرنے کی کوشش کی۔
مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ اپنی موجودہ جگہ سے صرف نیچے جست لگا کر اپنا خاتمہ ہی کر سکتا تھا۔ میں نے اس کا سامنا کیا اور جب وہ میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے دائیں شانے کے نیچے چاقو سے وار کر دیا۔ اگلے لمحے کتوں نے اسے گھیر لیا اور چاقو کا وار فوری طور پر مہلک ثابت ہوا اور شکار تمام ہو گیا۔ اس کے سینگ ۳۰ انچ لمبے تھے اور یہ میرے شکار کردہ سانبھروں میں سب سے خوبصورت سینگوں والا تھا۔
میں نے اس کا سر کاٹا اور گھر کی طرف واپسی کا مشکل سفر شروع کیا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ وہی سانبھر ہے کہ جس نے میرے کتوں کو بے شمار مرتبہ شکست دی تھی اور اگر اس بار میں بروقت نہ پہنچتا تو وہ پھر نکل جاتا۔ میرے مقامی شکاری جنگل میں راستہ بھول گئے تھے اور مجھے چالیس پاؤنڈ وزنی سر اٹھا کر چار میل کی دشوار چڑھائی اور پھر دو میل کا گھر تک کا مزید سفر بھی کرنا تھا۔ میں نے سانبھر کا پیٹ چاک کر کے کتوں کو اپنے بہادر دشمن کے گوشت سے پیٹ بھرنے کا پورا موقع دیا تھا۔
سانبھر کے شکار سے متعلق متذکرہ بالا چند واقعات سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اس شکار میں کتوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کتوں کو نڈر اور سمجھدار ہونا چاہیے اور ساتھ ہی شکاری کا اپنا حوصلہ اور پیش بینی بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جیسے ہر انسان کے ہاتھوں میں دس انگلیاں ہوتی ہیں، ویسے ہی ہر مرد بھی پیدائشی بہادر ہوتا ہے۔ میں اس بات کو محض اس حد تک مانتا ہوں کہ انگلستان میں رات کا کھانا کھا کر خوب شراب پینے کے بعد آتش دان کے سامنے بیٹھے ہوئے جب دور دور تک کوئی دشمن نہ ہو تو انسان بہادر ہی کہلائے گا۔ تاہم اگر رات کو تین بجے خالی پیٹ اور بغیر شراب اور آتش دان کے جب بگل کی آواز سے انسان بیدار ہو کہ دشمن سر پر آن پہنچا، تو کیا سبھی انسان یکساں بہادر ہوں گے؟ جوشیلا انسان ہو یا کتا، خطروں کا سامنا کرتے رہیں تو زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتے۔ خطرناک شکار کے لیے مخصوص کتوں کو اپنے مالک کی مانند ہونا چاہیے یعنی دفاع پر بھی توجہ دیں اور سیدھا سینگوں کی نوک پر ہی نہ حملہ کر دیا کریں۔
میں نے برٹرام کا ذکر کیا ہے۔ یہ نوجوان کتا تھا جس کا باپ سمٹ (منیلا کا بلڈ ہاؤنڈ اور کیپ مسٹیف کی اولاد تھا) اور اس کی ماں لینا تھی جو کینگرو ہاؤنڈ تھی۔ یہ ۷ جنوری ۱۸۵۲ کو پیدا ہوا اور ۱۸ مارچ ۱۸۵۳ کو مارا گیا۔ یہ بہترین کتا محض ۱۴ مہینے کی عمر کا تھا۔ اس کے کندھوں کی اونچائی ۲۸ انچ تھی اور اس کے بال بہت گھنے اور زرد رنگ کے تھے۔ اس میں مسٹیف کی زیادہ خصوصیات تھیں۔ اس جتنا بہادر ایک اور کتا بھی میں ںے کم عمری میں مرتے دیکھا تھا۔ جب تک نڈرپن اور ذہانت دونوں سے کام نہ لیا جائے، کتے بہت کم عمر میں مارے جاتے ہیں۔
برٹرام کی موت کے واقعے کے بعد میں سانبھر کا باب پورا کر دوں گا۔ ذیل میں موجود اقتباس میری ڈائری میں ۱۸ مارچ ۱۸۵۳ کی تاریخ سے لیا گیا ہے:
صبح سات بجے سانبھر دکھائی دیا۔ کتوں نے اس کی بو پر تعاقب کیا اور اسے بھگایا اور نیچے میدان تک لے گئے۔ یہاں سے مڑ کر انہوں نے بائیں جانب پہاڑ کا موڑ کاٹا۔ جب کتے کہیں دکھائی نہ دیے تو میں واپس شروع والے مقام پر پہنچا۔ یہاں دریا عبور کر کے میں خوبصورت اور چھدرے جنگل میں داخل ہوا۔ پھر میں نے آرام سے چلتے ہوئے آوازیں سننے کی کوشش کی۔ میرے ساتھ برٹرام، بران اور لوسیفر تھے۔
ایک بج رہا تھا اور ہم نے کئی میل کا سفر کر لیا تھا۔ پھر مجھے ایسے محسوس ہوا کہ بہت دور سے کتے کی بھاری آواز سنائی دی ہو۔ ہم نے رک کر کچھ دیر سنا مگر دوبارہ آواز نہ آئی۔ شاید ہوا کی وجہ سے کسی درخت کی ایک ٹہنی دوسری پر رگڑ رہی ہو۔ دوبارہ ہمیں آواز آئی اور صاف لگ رہا تھاکہ یہ آواز کتے کی ہی ہے اور بہت دور دائیں سمت سے آئی ہے۔
آدھا میل دوڑنے کے بعد مجھے پھر واضح آواز آئی مگر میں درست سمت کا اندازہ نہ لگا سکا۔ چونکہ سانبھر ابھی بھی بھاگ رہا ہوگا، سو کتے بھی مستقل ساتھ دوڑتے ہوئے بھونک رہے ہوں گے اور فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا۔
آخرکار میں ایک دم رک گیا کہ ہمارے سامنے پانچ سو فٹ گہری کھائی آ گئ یتھی۔ یہاں سے پچاس میل دور تک کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا اور کئی ہزار فٹ نیچے میدان دکھائی دے رہے تھے۔
یہ کھائی نعل کی شکل کی تھی جیسے دو یا تین میل چوڑی تماشہ گاہ ہو۔ یہاں سے کئی مختلف سمتوں میں پٹیوں کی شکل میں جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ ایسی ہی ایک پٹی میں جو کہ میرے سامنے دائیں جانب دور تک پھیلی ہوئی تھی، میں ںے تمام کتوں کی آوازیں سنیں۔ چونکہ یہاں سے اترنا ممکن نہ تھا، سو میں نے ایک میل کا چکر کاٹا اور پھر نیچے اترا۔ آخرکار میں کتوں اور سانبھر تک جا پہنچا۔ یہاں ایک چھوٹی سی کھائی میں سانبھر کھڑا تھا۔
اس میں سے ایک چھوٹی سی ندی گزر رہی تھی اور برسات میں پانی کے تیز بہاؤ سے ایک کنارہ اونچا بن گیا تھا۔ یہاں سانبھر ایسی جگہ کھڑا تھا کہ کتے نہ تو اطراف اور نہ ہی پیچھے سے حملہ کر سکتے تھے۔ حملے کا واحد موقع سامنے سے تھا۔ جو بھی کتا قریب پہنچتا تو وہ آگے بڑھ کر حملہ کرتا اور پھر واپس اسی جگہ پہنچ جاتا۔
میں نے چند لمحے خاموشی سے لڑائی کا جائزہ لیا۔ جلد ہی واضح ہو گیا کہ کتے بے بس ہیں۔ اس لیے میں ںے کتوں کو ہمت دلائی اور میری آواز سنتے ہی برٹرام نے سیدھا شیر کی مانند سانبھر پر حملہ کر دیا۔ سانبھر نے اسے سیدھا اپنے سینگوں پر لیا اور کنارے کے ساتھ دبا لیا۔ اس نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کی اور اسی دوران بران اور لوسیفر بھی اس کی مدد کو پہنچ گئے۔ اب سانبھر بھاگ نکلا اور میں نے مختصر راہ تلاش کر کے سو گز دور انہیں جا لیا۔ تینوں کتے اس کے گلے اور کانوں سے لٹکے ہوئے تھے۔ قریب پہنچتے ہی میں نے سانبھر کے شانے کے پیچھے چاقو اتار دیا اور وہ بے جان ہو کر گرگیا۔
برٹرام یہاں نہ تھا، مجھے خدشہ ہوا کہ وہ مارا نہ گیا ہو کہ سانبھر کے سینگ اس کے جسم میں پیوست ہوئے تھے۔ میں نے سانھر کے راستے پر پیچھا کیا اور تیس گز دور مجھے عالمِ نزع میں برٹرام ملا۔ سانبھر کے سینگ اس کے پھیپھڑوں کے پار ہو گئے تھے۔ میں نے اس کے منہ پر پانی ٹپکایا۔ پھر اس کے ہاتھ پیر اکڑ گئے اور اس کی جان نکل گئی۔
میرا اچھا کتا مارا گیا۔ جب تک شکاری اس قسم کے شکار پر مستقل نہ جاتا ہو، اسے ایسے کتے کی ہلاکت کا احساس نہیں ہوگا۔
اگر برٹرام زندہ ہوتا تو انمول ہوتا۔ مگر ایسے کتے زیادہ عمر نہیں پاتے اور مارے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک اور کتا کِل بک تھا جس نے ایک پارک میں چیتل کو اکیلے پکڑا اور اس کے سینگوں کی زد میں آ کر مارا گیا تھا۔ تاہم اس نے مرتے مرتے چیتل کا بھی کام تمام کر دیا تھا۔
میری ڈائری سے لیے گئے یہ اقتباسات واضح کرتے ہیں کہ سائیلون میں سانبھروں کا شکار میں کیسے کرتا تھا۔ کتوں کے ساتھ روانہ ہوتے وقت میں کسی ساتھی کو رائفل اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
مجھے اکثر اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان کے باشندے شکار کے لیے کتوں کو استعمال نہیں کرتے حالانکہ وسطی اور شمالی صوبوں کا موسم ایسے شکار کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ میرے علم میں بہت ساری جگہیں سائیلون کے جنگلوں سے کہیں آسان ہیں اور سانبھر بھی وہاں ملتے ہیں مگر وہاں چھپ کر شکاری انہیں رائفل سے ہلاک کرتے ہیں۔
سانبھر کے سینگوں کی شاخیں کم ہوتی ہیں مگر ان کی خوبصورتی کی وجہ سے ہرنوں کا اسے سرتاج ماننا چاہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۶
چیتل اور پاڑا
اس ہرن کو تمام ہرنوں میں سب سے زیادہ خوبصورت مانا جاتا ہے۔ یہ سانبھر سے مماثل ہوتا ہے مگر سینگوں کی محض چھ شاخیں ہوتی ہیں۔ سینگ بہت لمبے، سبک اور خوبصورت گولائی کی شکل میں ہوتے ہیں اور ان کے سرے بہت تیز ہوتے ہیں۔ نر زرد ہرن سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ اس کی کھال بھوری ہوتی ہے اور چمکدار ہونے کے علاوہ بال بھی مختصر ہوتے ہیں۔ اس کے سارے جسم پر سفید چتیاں ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں اسے چیتل کہتے ہیں مگر ہندوستان کے چیتل کی عادات سائیلون کے چیتل سے فرق ہوتی ہیں۔ سائیلون میں یہ میدانی علاقوں میں جنگلات کے قریب ملتے ہیں۔ یہ کھلے میدانوں میں سورج نکلنے کے نصف گھنٹہ بعد تک رہتے ہیں اور پھر چھپ جاتے ہیں۔ دوبارہ کھلے میں ان کی آمد ساڑھے چار بجے ہوتی ہے۔
شمالی اضلاع جیسا کہ جافنا وغیرہ میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں ان کو تنگ نہیں کیا گیا تھا اور سارا دن سایہ دار درختوں کے نیچے دکھائی دیتے تھے اور ان کے غول سو سے زیادہ جانوروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں چیتل عموماً دریا کے کنارے گھنے جنگلات میں ملتے ہیں جہاں زمین کٹی پھٹی ہوتی ہے اور ندی نالے گزرتے ہیں۔
سائیلون میں ان کا پیچھا کر کے شکار کرنا بہت دلچسپی کا کام ہے۔ چیتل دیگر ہرنوں کی مانند ہمیشہ خبردار رہتا ہے اور اس کے شکار کے لیے صبر اور مہارت، دونوں کے علاوہ عمدہ نشانہ بھی درکار ہوتا ہے۔
میں نےہندوستان میں سانبھروں کی تعداد کبھی بھی سائیلون کے پہلے چکر کے برابر یا اس کے قریب دیکھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار یہاں میں نے نو سانبھر ایک دن شکار کیے تھے۔ خوش قسمتی سے ہمارے ساتھ کافی قلی تھے، سو گوشت کا استعمال نکل آیا۔ تاہم پھر بھی کچھ نہ کچھ گوشت محفوظ ہونے سے قبل ہی سڑنے لگ گیا تھا۔
جب بھی استوائی علاقوں میں گوشت ضرورت سے زیادہ ہو تو اسے فوراً ایک انچ موٹی پٹیوں کی شکل میں کاٹ لینا چاہیے۔ پھر سبز ٹہنیوں سے بنے ڈھانچے پر انہیں چار فٹ اونچائی پر رکھ کر ان کے نیچے دھوئیں والی آگ جلا دینی چاہیے۔ اس طرح مکھیاں اس پر انڈے نہیں دیتیں اور گوشت ضائع نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ دھوئیں سے نہ صرف گوشت کا ذائقہ بہتر ہو جائے گا بلکہ دس یا بارہ گھنٹے بعد وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اسے دھوپ میں خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اس کام میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر مہذب ممالک میں بھی گوشت کو ایسے محفوظ کرنا چاہیے کہ قحط سالی کبھی بھی پیش آ سکتی ہے۔
اس طرح گوشت کی شکل کافی عجیب سی بنتی ہے مگر جب اسے پیس کر اس کا شوربہ بنایا جائے اور اس میں ایک یا دو ابلے ہوئے انڈے یا کچھ سبزیاں ڈال دی جائیں تو کافی مناسب کھانا بنتا ہے۔ چیتل کا گوشت چربی سے بالکل پاک ہوتا ہے حالانکہ چیتل کافی گول مٹول سے ہوتے ہیں۔ تاہم چیتل کے گوشت کا ذائقہ کالے ہرن اور پاڑے سے کم تر ہوتا ہے۔ غذا سے گوشت کے ذائقے پر فرق نہیں پڑتا۔
تاہم غذا کا اثر سینگوں پر پڑتا ہے۔ ہندوستان میں اینٹلوپ کے سینگ سائیلون کی نسبت زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ شاید سائیلون میں مٹی زیادہ طاقت نہیں رکھتی اور اس میں چونے اور فاسفیٹ کی کمی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہاتھیوں کے دانت کم ہوتے ہیں اور بھینسوں اور ہرنوں کے سینگ بھی چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ میں نے ہندوستان میں چیتلوں کے بارے بتایا ہے کہ وہ انسان سے کتنا گھبراتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ مقامی شکاری ہمیشہ انہیں مارنے پر کمربستہ رہتے ہیں۔ ان شکاریوں کی فطرت میں چیتلوں کی تباہی شامل ہوتی ہے۔ چیتل کی عادات ایسی ہیں کہ وہ ہمیشہ ندیوں اور دریاؤں کے کنارے گھنے جنگل میں رہتے ہیں۔ تاہم ایسے جنگل بمشکل ہی ڈیڑھ سو گز چوڑے ہوتے ہیں۔ شکاری زمین پر بیٹھ کر خود کو جھاڑیوں میں چھپا دیتا ہے اور پھر دو لڑکوں کو جنگل میں ایسی جگہ بھیجتا ہے جہاں سے ہوا ان کی بو کو شکاری کی طرف لاتی ہے۔ جب چیتل انسانی بو محسوس کرتے ہیں تو اس کے مخالف سمت جاتے ہیں۔ تاہم چیتل اندھادھند نہیں بھاگتے بلکہ محتاط ہو کر چلتے ہیں اور راستے میں جگہ جگہ رک کر معائینہ کرتے جاتے ہیں۔ شکاری ان کے فرار کے ممکنہ راستے کو جانتا ہوتا ہے اور عموماً اپنی توڑے دار بندوق سے سات یا آٹھ گز کے فاصلےسے چیتل پر گولی چلا کر اسے گرا دیتا ہے۔ چیتل بیچارہ انسان کی بو دوسری سمت تلاش کرتے ہوئے آگے سے بے خبر رہتا ہے۔
مختلف ممالک میں شکار کے مختلف انتظامات کا فرق کافی دلچسپ ہے۔ سائیلون میں کبھی کبھار ہاتھیوں کے لیے ہانکہ تو کیا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ ہانکہ کبھی نہیں ہوتا۔ ہاتھیوں کا ہانکہ بھی تب ہوتا ہے جب وہ ایسے گھنے جنگل میں گھس جائیں کہ جہاں شکاری نہ جا سکتا ہو۔ ویسے بھی سائیلون میں شکار کے قابل جانور بہت زیادہ ہیں اور کھلے میدانوں میں بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ سائیلون کی آبادی بہت کم ہے اور اس جزیرے کا بہت بڑا حصہ بالکل غیر آباد ہے۔ اس لیے شکاری کو زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔ اب میں ماضی کو یاد کرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم ان جنگلوں میں ہانکے کراتے تو نجانے کتنے ریچھ اور تیندوے شکار ہوتے کہ یہ جانور کھلی جگہ پر کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ سائیلون میں چیتل کی تعداد کم ہوئی ہے حالانکہ قوانین سخت تر ہوئے ہیں اور شکار کا بند موسم بھی ہوتا ہے۔
برطانوی قانون عموماً دیر سے بنتا ہے۔ اگر یہی قوانین چالیس سال قبل ہوتے تو سائیلون اس وقت شکاریوں کی جنت ہوتا۔ ابھی بھی مجھے سائیلون کے رہائشیوں سے اطلاع مل رہی ہے کہ یہاں موجود قابلِ شکار دیگر زیادہ تر ممالک سے زیادہ ہیں۔ تاہم یہاں شکار کے لیے بندے کو کافی مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور ہندوستانی شکار والی سہولیات یہاں عنقا ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں آپ عموماً سردیوں میں شکار کھیلتے ہیں اور کسی قسم کے کیڑےمکوڑے اور حشرات نہیں تنگ کرتے۔ سائیلون تو حشرات کی جنت ہے۔ یہاں کچھ وقت گزارنے سے ہی اس کا پتہ چلتا ہے۔
سائیلون میں گزارے ہوئے آٹھ سالوں کے دوران میں نے شکار کی ہر قسم آزمائی تھی۔ ان میں تازی کتوں کی مدد سے میں نے چیتل کا بھی شکار کیا تھا۔ کتوں کو پالکی میں اٹھا کر نیویراایلیا سے سو میل دور لے جایا جاتا تھا۔ یہ خوبصورت مقام تھا جہاں ہر قسم کا شکار بکثرت ہوتا تھا۔ اس جگہ کو پارک کنٹری کہا جاتا تھا۔ سارا علاقہ پارک جیسا تھا اور اس میں جگہ جگہ اونچی پہاڑیاں، جنگل، دریا اور کھلے میدان بھی تھے۔ موسم انتہائی گرم تھا اور سائیلون کے دیگر نشیبی علاقوں کی مانند یہاں بھی کتوں سے شکار ممکن نہ تھا کہ بہت گرم علاقہ تھا۔ البتہ علی الصبح کتے شکار کر سکتے تھے۔
ایک بار میں دس بارہ بندوں کے ساتھ دو کتے بھی لے کر روانہ ہوا۔ شکار بکثرت تھا سو جلد ہی ہرن دکھائی دینے لگے۔ بعض اوقات بہت دور سے ہمیں چیتل دکھائی دیتے تھے۔ ہم نے چھپ چھپا کر ان تک پہنچنے کی کوشش کی۔
یہاں گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنا بہت آسان تھا کیونکہ نیویرا ایلیا میں سانبھر کے شکار کے لیےپیدل ہی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔
میں ے چیتل کے غول سے ڈیڑھ سو گز کےفاصلے پر پہنچ کر کتوں کو چھوڑ دیا۔ اعلیٰ تربیت یافتہ کتوں نے اپنا شکار چن لیا۔ کل بک کو مادائیں پسند نہیں تھیں، سو وہ ہمیشہ نر چنتا تھا۔ پھر اسے فوراً غول سے الگ کر لیتا اور اسے میدان میں بھگا کر اکیلا ہی اس کا پیچھا کرتا۔ جونہی موقع ملتا تو اس کا کان پکڑ کر لٹک جاتا۔ میں گھوڑے پر سوار زیادہ ودر نہ ہوتا اور جونہی کتا کان پکڑتا، میں فوراً پہنچ کر چاقو سے چیتل کے شانے کے پیچھے وار کر کے اسے ہلاک کر دیتا تھا۔
کل بک میرا بہترین کتا تھا مگر ایک اس کا سامنا ایک پیدائشی لڑاکا ہرن سے ہوا اور اس نے اپنی جان گنوائی۔ ہوا کچھ ہوں کہ مناسب جگہ پرچیتل دکھائی دیے۔مجھے منظر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کل بک پہلو سے ان کے قریب ہوا ۔ عین جب وہ جست لگانے والا تھا کہ چیتل نےاپنا سر اس طرح موڑا کہ اس کے سینگ چھلانگ لگاتے کتے میں پیوست ہو گئے۔ کچھ دور جا کر کتے اور چیتل نے آمنے سامنے لڑائی کی۔ کتے نےچیتل پر چھلانگ لگائی اور چیتل نے بھاگنے کی بجائے سر جھکا کر سینگوں پر اسے اٹھایا اور رگیدنا شروع کر دیا۔ چیتل کے سینگ کتے کے جسم میں گہرے گڑ گئے۔ عین اسی لمحے میں پہنچ گیا۔ چیتل گھوڑے پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ کل بک اٹھا اور اس نے چیتل کا کان پکڑ لیا۔ اسی لمحے میں نے چھلانگ لگا کرچیتل کے دل میں چاقو اتار دیا۔ چیتل وہیں گر گیا۔
کتا بہت تھک چکا تھا اور زمین پر لیٹ کر ہانپ رہا تھا۔ اس کے سینے میں دو یا تین چھوٹے سوراخ تھے اور ان سے خون بھی نہ بہہ رہا تھا۔ میرے ساتھی آئے تو ہم نے ایک ندی تلاش کر کےوہاں سے پانی لا کر کتے کو پلایا۔ کتے کی حالت بہتر ہوئی اور اسے ہم نے مادہ کے ساتھ زنجیر میں باندھ دیا۔ کتیا بھی اس چیتل کے ہاتھوں زخمی ہو چکی تھی۔ چند لمحے بعد کتا گرا اور چند بار سانس لینے کی کوشش کرنے کے بعد مر گیا۔ جب اس کا معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ چیتل کے سینگ دو جگہوں پر اس کے پھیپھڑوں سے پار ہو گئے تھے۔ ان مہلک زخموں کے باوجود اس نے چیتل کو کان سے پکڑ کر روکا تھا۔
چیتل کے تجربے سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ بہت تیز اور سینگوں کے استعمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ سو تازی کتوں کے لیے یہ مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ بھاری مگر نسبتاً سست سانبھر کتوں کے لیے خاص خطرہ نہیں بنتے۔ کئی کتوں کے ساتھ چیتل کے شکار کا لطف آتا ہے مگر اکیلا نر بہت مشکل سے ملتا ہے۔ جب بھی ان کا غول ملے تو کتے چھوڑنے پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کتے الگ الگ نروں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اکیلا کتا اکیلے نر کے مقابلے میں زیادہ تر مار کھاتا ہے کہ وہ اکثر چیتل کے سر پر جست لگاتا ہے۔
پاڑہ ایشائی ہرن کی تیسری قسم ہے جس کے دو سینگوں پر چھ نوکیں ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ بڑے نہیں ہوتے۔ اس کی کھال کا رنگ گہرا بھورا ہوتا ہے اور سینگ سانبھر جیسے مگر نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس ہرن کی عادات و اطوار دیگر تمام ہرنوں سے فرق ہوتے ہیں۔ یہ کبھی غول کی شکل میں نہیں ملتا۔ کسی بھی مقام پر ان کی کثرت بھی ہو تو بھی یہ اکیلے یا جوڑوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ ایک وقت میں مادہ عموماً دو بچے پیدا کرتی ہے۔اس کا انگریزی نام ہاگ ڈیئر مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا کہ سور سے اس کی مماثلت محض اتنی ہے کہ دونوں اونچی گھاس میں پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے بعض اضلاع میں یہ بکثرت ملتے ہیں تو بہت سی جگہوں پر بالکل بھی نہیں ملتے۔ عموماً یہ اونچی گھاس یا جھاڑیوں میں نیچے چھپے رہتے ہیں اور جب تک ہانکا نہ کیا جائے، اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ بعض اوقات تو ہاتھی ان سے ایک قدم دور ہوتے ہیں کہ یہ بھاگ نکلتے ہیں۔ ہودے سے ان پر گولی چلانا کافی مشکل کام ہوتا ہے کہ یہ اونچی گھاس میں واضح نہیں دکھائی دیتے اور جب یہ بھاگتے ہیں تو ان کی رفتار کافی تیز ہوتی ہے۔ اس لیے میں اپنی پیراڈاکس بندوق کی ایک نال میں ان کے لیے گراپ (بک شاٹ) یا بی بی کے چھرے استعمال کرتا ہوں جو عجلت میں چلانے کے لیے بہت اچھے ثابت ہوتے ہیں۔
جب ان پر گولی چلائی جائے تو چاہے زخمی ہو یا گولی خطا جائے، پچاس یا سو گز دوڑ کر یہ پھر کسی جگہ اونچی گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب تک کوئی انسان یا ہاتھی ان کے بالکل قریب نہ پہنچ جائیں، یہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ جب دوبارہ بھاگتے ہیں توپہلے کی طرح بہت تیزی سے بھاگ نکلتے ہیں۔
برہم پترا کے بعض جزائر میں پاڑے بکثرت ملتے ہی۔ چونکہ شیر اب بہت کم بچ گئے ہیں، سو مجھے یقین ہے کہ پاڑوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ پاڑے کا شکار بہت مشکل نہیں ہوتا مگر دلچسپ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھی کے اعصاب کا امتحان لینے کے لیے ان کا شکار بہت عمدہ رہتا ہے۔
جاپان میں ہرن کی ایک ایسی قسم ملتی ہے جو یورپ کے زرد ہرن جیسی ہوتی ہے۔ تاہم اس کے سینگ زرد ہرن کی طرح چوڑے اور پھیلے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ گول ہوتے ہیں۔ ہر سینگ کی چار شاخیں ہوتی ہیں۔ میں نے جاپان سے کئی ایسے ہرنوں کے سر لیے تھے۔ تاہم یہ میں نے خود شکار نہیں کیے تھے بلکہ مقامی شکاریوں کے ساتھ گیا تھا جنہوں نے میرے لیے شکار کیے تھے۔ یہ شکار جھیل بیوا کے کنارے ہوتا تھا۔ یہ علاقہ بہت ڈھلوان ہے اور یہ ہرن عام طور پر جنگلوں میں پوشیدہ رہتے ہیں جہاں گہری کھائیاں اور اوپر جھکی ہوئی چٹانیں ان کی پناہ گاہیں ہوتی ہیں۔
ایسے جنگلات میں شکار کا طریقہ یا تو ہانکا ہوتا ہے یا پھر جنگل میں کتوں کو چھوڑا جائے اور شکاری مناسب مقامات پر بیٹھ جائیں تو یہ ہرن کہیں نا کہیں دکھائی دے جاتے ہیں۔
میرے ساتھ آٹھ یا دس جاپانی شکاری تھے جن میں سے ایک ستر سالہ بزرگ شکاری بھی تھا جو اپنی چستی اور نشانے پرنازاں تھا۔ ان سب کے پاس توڑے دار رائفلیں تھیں جو ہندوستانی رائفلوں سے نسبتاً جدید تر تھیں کہ ہندوستان میں توڑے دار بندوق عام ہے۔
یہ انتھک ساتھی تھے اور ہم علی الصبح سے غروب ِآفتاب تک شکار کرتے تھے اور اکثر تاریکی چھانے کے بھی دو گھنٹے بعد ہماری واپسی ہوتی تھی۔
ان شکاریوں کی ہمت اور مہارت دیکھنے کے بعد مجھے شک ہوتا تھا کہ کوئی بھی ہرن ان سے کیسے بچتا ہوتا مگر پھر بھی ہر بار جب ہم شکار پر نکلتے تو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹتے تھے۔
میں نے اونچی چٹان پر بیٹھے ہوئے بہت بار ان ہرنوں کو دوڑتے دیکھا تھا مگر وہ کبھی میری جانب نہیں آئے۔ مقامیوں کی رائفلوں کے دھماکوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہوں نے مناسب جگہیں چنی ہوئی تھیں۔ تاہم مجھے ان ہرنوں پر گولی چلانے کا موقع کبھی نہیں مل پایا۔ کئی ہرن شکار ہوتے تھے اور اگر ان کے سینگ فرق نہ ہوتے تو میں کبھی بھی ان میں اور زرد ہرنوں میں فرق نہ کر سکتا کہ دونوں کی جسامت اور رنگت بالکل ایک جیسی ہوتی تھی۔
شمالی جزیرے میں ان ہرنوں کی بہت بڑی تعداد ملتی تھی مگر مجھے بتایا گیا کہ وہاں شکار ممکن نہیں کہ جنگل بہت گھنا ہے اور ہانکے کے لیے بہت زیادہ افراد درکار ہوتے۔ یزّو میں کالے ریچھ بھی ملتے ہیں مگر اجنبی بندہ انہیں تلاش نہیں کر سکتا اور اس کے لیے مقامی زبان اور جنگلات سے اچھی واقفیت درکار ہوتی ہے۔
میں نے ٹوکیو میں دو ایسے ریچھ دیکھے تھے جو شمالی امریکہ کے کالے ریچھوں جیسے ہی تھے۔
میں نے چین میں پالتو ہرن دیکھے تھے جو جاپان میں جنگلی ہوتے تھے۔ یہ ہرن اندرون ملک سے لائے گئے تھے۔ میں نے فارموسا میں بھی ان ہرنوں کو دیکھا ہے اور ان کے سینگ بھی گول ہوتے تھے مگر میں نے سینگوں کے سرے کبھی گنے نہیں۔
چین میں ایک انتہائی چھوٹا ہرن بھی ملتا ہے جس کا وزن ۲۵ سے ۳۰ پاؤنڈ ہوتا ہے۔ شکار پر میں نے انہیں بہت مرتبہ دیکھا ہے مگر کبھی شکار نہیں کر سکا۔ ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اور اگرچہ یہ اکیلے یا جوڑوں کی شکل میں ملتے تھے، مگر شنگھائی میں ہر سال شکار کے موسم میں ان کی بڑی تعداد شکار ہوتی تھی۔ اسی دوران ہاؤس بوٹ کی مدد سے شکاری دریاؤں اور نہروں میں روانہ ہو جاتے تھے۔ نومبر میں ایسا دورہ بہت عمدگی سے بنایا جا سکتا ہے کہ یہ ہاؤس بوٹ اسی مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں اور مرغِ زریں، جنگلی مرغیوں، سنائپ، ہرن اور جنگلی سوروں کو جی بھر کر شکار کیا جا سکتا ہے اور ذرا سی بھی تھکن نہیں ہوتی۔
سائیلون اور ہندوستان میں چھوٹے ہرنوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ کاکڑ ہلکے سرخ رنگ کا بہت خوبصورت ہرن ہوتا ہے۔ زیریں علاقوں میں اس ہرن کا شکار دلچسپ ہوتا ہے۔ شکاری کتوں کو ساتھ لے جانے سے فائدہ ہوتا ہے کہ اس ہرن کی بو بہت تیز ہوتی ہے اور کتے اس کا آسانی سے پیچھا کر سکتے ہیں۔ یہ ہرن کبھی سیدھا نہیں بھاگتا بلکہ ہمیشہ پہاڑیوں، کھیتوں اور چوٹیوں کے چکر کاٹتا ہوا جاتا ہے۔ عموماً یہ گھنی جھاڑی میں مار کھاتا ہے مگر اپنے دانتوں سے ہمیشہ کتوں کو کچھ نہ کچھ زخم پہنچاتا ہے۔
اس کے دانت سور کی طرح مگر بالائی جبڑے سے باہر اور پیچھے کو مڑے ہوتے ہیں۔ اتنی چھوٹے سے ہرن سے پہنچنے والے زخم کافی بڑے ہوتے ہیں۔
سائیلون میں ننھے ہرن کی ایک قسم ماؤس ڈیئر یا پساری کہلاتی ہے اور یہ خرگوش سے زیادہ بڑے نہیں ہوتے۔ نر اور مادہ دونوں ہی سینگوں کے بغیر ہوتے ہیں۔
اگرچہ میں نے ہرن کی اس انتہائی چھوٹی قسم کا بھی ذکر کیا ہے مگر میں نے جان بوجھ کر سب سے بڑی قسم یعنی موز کو چھوڑ دیا ہے کہ میں نے کبھی اسے آزاد حالت میں نہیں دیکھا۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے قارئین کے سامنے اپنے تجربات بیان کروں، اس لیے لازمی نہیں کہ اس کتاب میں ہر جنگلی جانور کا تذکرہ ملے۔
کئی سال قبل میں نے جی پی سینڈرسن کی کتاب ‘ہندوستان کے جنگلی جانوروں کے ساتھ تیرہ سال‘ پر اپنا تبصرہ لکھا تھا کہ کم تجربے کے ساتھ آپ جنگلی حیات کے بارے کوئی بات یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ جنگل اور جنگلی حیات کے ساتھ بہت برس گزارنے کے بعد لکھی گئی کتاب البتہ مستند شمار ہوتی ہے۔ ایک انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ساری دنیا کے جنگلات میں جا کر ہر قسم کے جانور کے ساتھ بہت برس گزار سکے۔ اس لیے جو شکاری محدود مقام اور اوقات کے مطابق تمام تر سنی سنائی روایات کو چھوڑ کر محض اپنے تجربے کو کتابی شکل میں بیان کرے تو اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنی اس کتاب میں محض ان مقامات اور ان جانوروں کے بارے لکھا ہے جن کے بارے مجھے ذاتی تجربہ ہوا ہے۔اس لیے کوہ ہمالیہ کے جانورں کے بارے میں نے کچھ نہیں لکھا کہ میں وہاں گیا ہی نہیں۔
کرنل کنلوخ نے ‘ہمالیہ اور تبت کے بڑے شکار‘ نامی کتاب میں بھیڑ، یاک اور اونچائی پر پائے جانے والے دیگر جانوروں کے بارے بہت عمدہ معلومات دی ہیں۔ ایسی کتب کو عوام الناس بھروسے سے پڑھ سکتے ہیں اور اس میں بیان کی گئی ہر بات کرنل کے ذاتی تجربے پر مبنی ہے اور سنی سنائی باتیں نہیں شامل کی گئیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب ۷
نتیجہ
اس کتاب کے اختتام پر میں کچھ ایسے جانوروں کے بارے بھی لکھنا چاہتا ہوں جو بہت نقصان دہ تو ہوتے ہیں مگر مندرجہ بالا کسی درجہ بندی میں نہیں شمار ہوتے۔ ہندوستان بھر میں ان کی تعداد بے شمار ہے، سو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ فصلوں کے لیے کتنے نقصان دہ ہوں گے۔ یہ تین دشمن بندر، طوطے اور اڑنے والی لومڑیاں یعنی چمگادڑ کی ایک قسم ہیں۔
بندر کو مقدس سمجھا جاتا ہے سو اسے ہر قسم کی تباہی پھیلانے کی آزادی ملی ہوتی ہے۔ اس سے ہونے والا نقصان انتہائی نوعیت کا ہوتا ہے مگر چونکہ بندر نسل در نسل نقصان پہنچاتا آ رہا ہے، سو لوگ اس کے بارے زیادہ نہیں سوچتے۔ عجیب بات دیکھیں کہ بندر اور اس کی نسل کے دیگر جانور انسان کے قریبی رشتہ دار ہیں مگر کبھی انہیں تربیت دے کر کوئی کام نہیں لیا گیا۔ کتے کے برعکس بندر انسان کا دوست نہیں بلکہ انسان کا مسخائیہ ہے۔ اگر کوئی ایسا نظام ہو کہ جادو کی چھڑی پھیر کر دنیا سے بندر اور اس کی نسل کے دیگر جانور غائب کر دیے جائیں تو کسی کو بھی ان کے جانے کا افسوس نہ ہوگا بلکہ ہر کوئی خوش ہوگا۔
میں نے جنگل کے کنارے ایک چھوٹے سے کھیت میں گندم اگی دیکھی اور اسی یا سو بندر وہاں اترے اور گندم کی ایک ایک بالی اٹھا کر فوراً رفوچکر ہو گئے۔ ہندوستانی لوگ اپنی فصلوں کے بارے زیادہ توجہ نہیں رکھتے اور غلیل یا مٹی کے ڈھیلے پھینک کر ایک طرح سے اپنے فرض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
مغربی ہندوستان کے بڑے شہروں میں سے ایک احمد آباد ہے۔ اس میں بندر کی ایک قسم لنگور بہت بڑی تعداد میں ہے۔ ہر وقت بندروں کے غول چھتوں پر بیٹھے انسانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کیسے احمق انسان محنت کرتے ہیں اور بندر کچھ کیے بغیر انہیں اپنے تصرف میں لے آتے ہیں۔
احمد آباد میں لوگ لنگوروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے مٹھی بھر چنے گھر پر پھینک دیتے ہیں۔ لنگور جب گزرتے ہیں تو انہیں یہ من بھاتا کھاجا دکھائی دیتا ہے۔ تاہم چھتوں کی کھپریلیں ڈھیلی ہوتی ہیں، سو کچھ چنے پھنس جاتے ہیں تو کچھ ان کے نیچے گر جاتے ہیں۔ بندر کھپریلوں کو اٹھاتے اور چنے کھاتے جاتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو مالک مکان کو بندر کی کارستانی کا علم ہوتا ہے۔
یہ منحوس جانور پھل کی فصل کو تباہ کر دیتے ہیں۔ میں نے املی کے بڑے درختوں کو پھل سے بالکل خالی دیکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے بندر کچی املی کو کھا جاتے ہیں۔ املی کے پتے بھی ان سے نہیں بچتے۔
مارچ میں جب آم کے نئے پتے آتے ہیں تو ہر قسم کے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اقسام میں شوخ سبز ہوت اہے تو بعض میں ہلکا، بعض میں تانبے کا رنگ اور بعض میں گہرے بنفشی پتے ہوتے ہیں۔ بندر ان چھوٹے پتوں کو انتہائی شوق سے کھاتے ہیں اور بعض اوقات تو پورا درخت خالی ہو جاتا ہے۔ اپریل کے آخر میں جب کیریاں بنتی ہیں تو بندروں کے گروہ تباہی پھیلاتے ہیں۔ یہ بندر کھاتے نہیں ہیں بلکہ تھوڑا سا کھا کر نیچے پھینک دیتے ہیں۔ سو سینکڑوں ہزاروں ؑآم کو محض چکھ کر نیچے پھینک دیتے ہیں۔
اڑنے والی لومڑیاں یعنی چمگادڑیں پھلوں کی دشمن ہوتی ہیں۔ یہ بڑی چمگادڑیں پھل کے علاوہ حشرات بھی کھاتی ہیں۔ یہ شب بیدار ہوتی ہیں اور دن کے وقت بڑے درختوں پر الٹی لٹکی ہوتی ہیں۔ میں نے املی کے بڑے درختوں کو دیکھا جن پر کئی کئی ہزار چمگادڑیں اپنے پیروں کے بل الٹی لٹکی ہوئی تھیں۔ ان چمگادڑوں سے تیز بو نکلتی ہے اور یہ جس درخت پر جمع ہوتی ہیں تو وہاں کے سب پتے کھا جاتی ہیں۔ ان کی جسامت تین فٹ سے چار فٹ سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے اس قسم کی سب سے بڑی چمگادڑ چار فٹ دو انچ لمبے پروں والی دیکھی ہے۔
ایک وقت میں ان کے عموماً دو بچے پیدا ہوتے ہیں جو ماں کی چھاتی اور پہلو سے دورانِ پرواز چمٹے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی چمگادڑ کا سر بہت چھوٹی سی لومڑی سے مشابہہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام بھی اڑنے والی لومڑی پڑ گیا ہے۔ اس کے دانت بھی عام چمگادڑوں سے فرق ہوتے ہیں۔ اس کے چبانے والے دانتوں کی ساخت اسے سبزی خور ظاہر کرتی ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی ان کی پرواز شروع ہو جاتی ہے اور حشرات اور کیڑے مکوڑوں کا شکار شروع کر دیتی ہے۔ ان کی پرواز کی اونچائی عموماً درختوں کی پھننگوں سے ذرا اوپر ہوتی ہے اور اڑتے ہوئے یہ چکر کاٹتی رہتی ہے۔
سائیلون میں ٹوڈی بہت بڑے پیمانے پر ناریل سے نکالی جاتی ہے۔ جہاں سے رس نکالنا ہو، اس کے نیچے مٹی سے بنی چاٹی باندھ دی جاتی ہے۔ اس کے اوپر پام کے پتوں کا ڈھکن سا بنا دیا جاتا ہے ورنہ یہ چمگادڑیں ایک قطرہ بھی نہ چھوڑیں۔
یہ چمگادڑیں غصیلی نہیں ہوتیں اور زخمی ہو جائیں تو کاٹتی بھی نہیں۔
چمگادڑیں عموماً حشرات کو کھاتی ہیں۔ سفید نیل پر ہمارے جہاز پر بے شمار لال بیگ تھے جنہیں ختم کرنا ہمارے بس سے باہر تھا۔ یہ لال بیگ عموماً رات کو زیادہ متحرک ہوتے تھے۔
اس معاملے میں چمگادڑیں ہماری مدد کرتی تھیں۔ کھلی کھڑکیوں سے چند چمگادڑیں اندر داخل ہوتیں اور صبح ہونے تک لال بیگوں کا شکار کرتی رہتیں۔
جیسے امریکی انڈین اپنے ہاتھوں قتل شدہ انسانوں کی کھوپڑیوں سے کھال اتار کر نفاست سے رکھتے تھے، اسی طرح یہ چمگادڑیں لال بیگوں کو کھا کر ان کے پروں کے خول اور سخت ٹانگوں کے دو دو یا تین تین انچ اونچے ڈھیر چھوڑ جاتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر چمگادڑ الگ ڈھیر بناتی تھی اور لگ بھگ پندرہ سے بیس لال بیگ ہر روز ان کی خوراک بنتے تھے۔
جنگلی جانوروں کی درجہ بندی میں بہت سے جانور نہیں آتے۔ ان میں صحرائی جنگلی گدھے بھی شامل ہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت اور نازک جانور ہوتے ہیں جو پالتو گدھوں سے کہیں فرق ہوتے ہیں۔ یہاں ارتقائے معکوس دکھائی دیتی ہے۔
افریقہ اور ایشیا میں جنگلی گدھے بہت جگہوں پر ملتے ہیں اور ان کا تعلق ہمیں زیبروں سے ملتا ہے۔ اصلی جنگلی گدھا صحرائی جانور ہے۔ اس کے قریب پہنچنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور تیزی اور قوتِ برداشت کے حوالے سے یہ گھوڑوں سے بھی آگے ہوتا ہے۔ ان کو پکڑنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جب ماداؤں کے ساتھ بچے ہوں تو تیز رفتار باختری اونٹوں سے ان کا پیچھا کیا جائے۔ تین یا چار عرب اونٹوں پر بیٹھ کر پیچھا کرتے ہیں اور کئی گھنٹوں کی تیز دوڑ کے بعد بچے تھک کر اپنی ماؤں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان بچوں کو پکڑ کر اونٹوں پر انہی جالوں میں باندھ دیا جاتا ہے جن میں اونٹوں کے ایسے بچے رکھے جاتے ہیں جو کم عمر ہونے کی وجہ سے کاروان کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
جنگلی گدھوں کو پالتو بنانے کے حوالے سے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انہیں محض پالتو گدھوں کے ساتھ افزائش نسل کی خاطر رکھا جاتا ہے جس سے پیدا ہونے والے بچے عام گدھوں سے کہیں بہتر ہوتے ہیں اور عرب شیخ ان کی اچھی قیمت لگاتے ہیں۔
جنگلی گدھے پانی سے اتنے دور رہتے ہیں کہ عربوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر تیسرے دن پانی پیتے ہیں۔ مجھے اس بات پر یقین ہے کیونکہ بہت جگہوں پر جانور ایسے حالات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر خشک سالی کے دوران عتبارہ دریا پر صوفی کے مقام سے قدریف تک پانی نہیں ملتا اور مویشیوں کو پچیس سے تیس میل دور جا کر پانی پینا پڑتا ہے سو وہ ہر دوسرے روز پانی پر لے جائے جاتے ہیں۔ بارشیں ہو جائیں تو یہی علاقہ بہت زرخیز بن جاتا ہے۔
جب پالتو جانور ہر دوسرے روز پانی پینے کے عادی ہو سکتے ہیں تو جنگلی جانور ان سے کہیں سخت جان ہوتے ہیں اور وہ سخت تر حالات سے بہتر مطابقت پیدا کر سکتے ہیں۔
میرا سامنا جنگلی گدھوں سے پہلی اور آخری بار ۱۸۶۱ میں ہوا تھا جب گرم ترین موسم اور انتہائی سخت تعاقب کے بعد میں نے ایک نر شکار کیا تھا۔ یہ بہت خوبصورت اور بڑا جانور تھا۔ اس کی جسامت عام گدھوں سے بڑی اور زیبرے کے برابر تھی مگر زیبرے کی طرح دھاری دار نہ تھا۔ شانے کی اونچائی چودہ ہاتھ تھی حالانکہ شانے باقی جسم کی نسبت نیچے تھے۔ اس کے کھر بہت بڑے اور پالتو گدھوں سے فرق تھے۔ رنگ شوخ سنہری مائل دودھیا تھا اور کمر پر ہلکا سا سرخ۔ پسلیوں اور شانوں سے کالی لکیر گزرتی تھی۔ آنکھیں خوبصورت، روشن اور بہت بڑی تھیں۔
اس بے ضرر جانور کو شکار کر کے مجھے افسوس ہوا مگر اگلے ہی روز اس نے بدلہ اتارا۔ ہوا کچھ یوں کہ چلچلاتی دھوپ میں شکار کرنے کی وجہ سے اگلے روز مجھے بخار ہو گیا اور چونکہ میں نے اس کا گوشت بھی کھایا تھا، سو پیٹ بھی خراب ہوا۔ اس کا گوشت خشک، سخت، بے ذائقہ اور بیکار تھا۔ تاہم میں جانتا ہوں کہ اتنے کم پانی اور بمشکل ملنے والی اور انتہائی بیکار غذا کی وجہ سے اس کا گوشت ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ صدیوں سے جنگلی گدھے گرم مٹی، لکڑی اور ایسی بیکار چیزوں پر پل رہے ہیں۔
۱۸۳۷ میں مرحوم شیخ حسین خلیفہ نے میری بیوی کو ایک انتہائی خوبصورت جنگلی گدھی تحفتاً دی جو کم عمری میں پکڑی جانے کے باوجود ابھی تک سدھائی نہیں جا سکی تھی۔ اسے ہمارے صحن تک لانے کے لیے کئی افراد درکار تھے۔ اس کی گردن میں دو رسیاں ڈالی گئی تھیں اور دونوں جانب کئی کئی بندے ان رسیوں کو پکڑے ہوئے تھے تاکہ یہ انہیں کاٹ نہ سکے۔ دولتیاں جھاڑتی، کبھی پچھلے پیروں پر کھڑی ہوتی، کبھی کاٹتی تو کبھی اگلی ٹانگیں چلاتی ہوئی یہ گدھی عجیب نظارہ پیش کر رہی تھی۔ اب یہ خوفناک سوال پیدا ہوا کہ اسے ۲۷۰ میل دور جہاز تک اور پھر سوئیز تک کیسے منتقل کیا جائے۔ اگر ہم اسے واپس کرتے تو شیخ ناراض ہو جاتا۔ میرے ذہن میں ایک خیال یہ بھی آیا کہ ہم اسے بھگا دیں مگر وہ بھی شیخ کو گراں گزرتا۔ شاید اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ہم اسے پال سکتے؟ میری بیوی نے یہ ذمہ داری لے لی حالانکہ عرب یہ سن کر دنگ رہ گئے۔
تاہم محض تین دن کی محبت بھری کوشش کے بعد یہ بالکل پالتو بن گئی۔ اس دوران میری بیوی نے بہت نرمی سے اسے روٹی، گنے اور ہر قسم کی رشوت دی۔ یہ جنگلی گدھی ایسی رام ہوئی کہ آرام سے منزل تک چل کر گئی اور اسے ہم نے خدیو اسماعیل کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کیا۔ تاہم کوئی بھی اس پر سوار ہونے کی ہمت کر سکا۔
ایک اور جانور بھی اسی طرح انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے مگر اسے آپ جنگلی جانوروں کی فہرست میں نہیں رکھ سکتے۔ مگر یہاں اس کا تذکرہ ضروی ہے کہ اکثر یہ برطانوی فوج کے کام آتا ہے۔ میں یہاں اونٹ کی بات کر رہا ہوں۔
یہ بات بحث طلب ہے کہ آیا اونٹ جنگلی بھی ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اونٹ وسطی ایشیا کے صحراؤں میں ملتے ہیں مگر آیا کہ جنگلی بھی ہوتے ہیں یا محض پالتو اونٹ جو بھاگ گئے ہوں؟ لیفٹیننٹ ینگ ہسبنڈ نے پیکنگ سے راول پنڈی کے سفر کے دوران سٹیپ میں کچھ اونٹ دیکھے تھے جو اس کے بندوں کے خیال میں جنگلی تھے۔ اس نے بتایا ہے کہ یہ اونٹ پالتو اونٹوں سے چھوٹے تھے۔ بطور سیاح یہ بہت قابلِ اعتبار بندہ ہے مگر اس معاملے میں جنگلی حیات سے واقفیت کی زیادہ اہمیت ہے کہ آیا کہ جانور مقامی ہیں یا نہیں، دوسرا جنگلی ہیں یا کسی گمشدہ یا مفرور پالتو جانور کی اولاد۔
اونٹوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک باختری اونٹ جس کی دو کوہانیں ہوتی ہیں اور دوسرا عرب یا عام اونٹ جس کا ایک کوہان ہوتا ہے۔ اونٹ ہمالیہ کے شمال میں صحراؤں میں ملتے ہیں جو جنگلی کہلاتے ہیں۔ مگر ایک کوہان ہونے کی وجہ سے ان کی ابتدا کے بارے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ دو کوہان والے اونٹوں کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ظاہر ہے کہ یہ شمالی ایشیا سے نکلے ہوں گے کیونکہ افریقہ یا عرب میں ایسے اونٹ نہیں ملتے۔ اونٹوں کے آغاز سے متعلق یہ بات ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے حالانکہ انسان کے ابتدائی پالتو جانوروں میں اونٹ بھی شامل ہیں۔ جنوبی امریکہ کا لاما اُس سرزمین کا اونٹ سمجھا جاتا ہے مگر یہ الپاکا سے زیادہ مشابہہ ہوتا ہے اور اس کی کوہان بھی نہیں ہوتی اور عادات بھی اونٹ سے یکسر مختلف۔
کوئی بھی پالتو جانور ایسا نہیں کہ جو اونٹ سے بہتر انداز میں جنگلی زندگی کو اپنا سکے۔ چاہے اس کے فرار کی وجہ محض گم ہونا ہو یا پھر مالک کے ظلم سے گھبرا کر بھاگ نکلے۔
اونٹ ہر قسم کی جھاڑی اور گھاس کھا لیتا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کے لیے سخت یا نوکیلی نہیں ہوتی۔
دو سال قبل جنوبی ڈیون میں ایک سفری چڑیا گھر سے اونٹوں کو ایک گھاس کے میدان چرنے کو بھیجا گیا تھا۔ وہاں کانٹے دار مقامی جڑی بوٹیاں بکثرت تھیں۔ مجھے علم تھا کہ اونٹ اسے کھائے گا، سو میں نے پوری توجہ سے دیکھا۔ اونٹوں نے بطورِ خاص اس کانٹے دار جھاڑی سے اپنا پیٹ بھر اور پورے میدان سے اس جھاڑی کو مٹا دیا۔
جب اونٹ گم ہو جاتا ہے اور اسے کہیں پانی اور خوراک مل جائے تو وہ پھر وہیں مستقل قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ اگر اونٹ سے مشقت کا کام نہ لیا جائے تو اسے بہت کم خوراک درکار ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اونٹ ریگستان کا صحرا ہے اور بغیر کھائے پیے بہت وزن اٹھا کر کہیں بھی جا سکتا ہے۔ دو بندوں کے سوار ہونے سے اسے کچھ نہیں محسوس ہوتا۔ ایسی صورتحال میں جب کوہان پر کجاوے کے نیچے گھاس پھونس ہو تو اونٹ رات کو کجاوہ اترتے ہی اسے کھا جاتا ہے۔ تاہم فوجی مہمات میں اونٹ ایسے ہی نظرانداز ہوتے ہیں۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جب کسی بھی فوجی مہم کی کامیابی کا براہ راست دارومدار سواری پر ہوتا ہے تو اونٹوں والے دستے کیسے اپنے اونٹوں سے بے توجہی برتتے ہیں۔
پچھلی افغان جنگ کے دوران ۶۱،۰۰۰ اونٹ محض فاقوں اور زیادہ مشقت لیے جانے سے ہلاک ہوئے تھے۔
سوڈان کی مہم کے دوران چند ہفتوں میں ہی تمام تر اونٹ بیکار ہو گئے تھے۔
صحرا میں سفر کا مجھے بہت تجربہ ہے اور میں یہی مشورہ دوں گا کہ اونٹ خریدنے کی بجائے ان کے مالکوں کے ساتھ انہیں کرائے پر لے لیا جائے۔ اگر کبھی اونٹ خریدنے بھی پڑیں تو ان پر خوب توجہ دی جائے اور ان کی کمر پر کسی بھی قسم کا نیا یا پرانا زخم ہو تو ایسا اونٹ مت خریدا جائے کیونکہ چند ہفتوں کی مشقت کے بعد ان کے زخم پھر ہرے ہو جائیں گے۔
اونٹ کے کجاوے کا بکثرت معائنہ کرتے رہنا چاہیے۔ ان کے نیچے چاول کے پودے کے خشک تنوں کی مناسب مقدار ہو اور یہ بھوسہ نہ ہو۔ کپاس سے بھرا ہوا موٹا گدا اس کے اوپر جمایا جائے۔ جب کجاوا رکھا جائے تو یہ خیال رہے کہ کجاوہ اونٹ کے کوہان سے کم از کم تین انچ اوپر ہو۔ یاد رہے کہ اونٹ جب کام کرے گا تو کچھ ہفتوں میں اس کا وزن کم ہو جائے گا۔ سو اضافی پودے اور کپاس ہونی چاہیے تاکہ کجاوہ پوری طرح چست جمایا جا سکے۔
اگر پشت پر زخم ہو جائے تو اونٹ بے موت مارا جاتا ہے۔ درد کی وجہ سے اونٹ کھانا پینا بند کر دیت اہے اور جلد ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر مر جاتاہے۔ رات کے وقت سفر سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے کہ انسانوں اور جانوروں کے لیے رات آرام اور پیٹ بھرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر رات کو اڑھائی بجے بیدار ہوں تو ساڑھے تین تک جا کر اونٹوں پر سامان لاد کر سفر شروع ہوتا ہے۔
گیارہ بجے تک سفر کیا جائے تو یہ سات گھنٹے بنتے ہیں۔ دو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ سترہ میل بنتے ہیں۔ اس طرح اونٹوں کو چرنے کے لیے سات گھنٹے مل جاتے ہیں۔ رات کو سونے سے قبل اونٹوں کو دو پاؤنڈ فی کس کے اعتبار سے جوار کھلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ رات کو ہر اونٹ کا کجاوہ اس کے ساتھ رکھ دینا چاہیے تاکہ صبح صبح الجھن نہ ہو کہ کون سا کجاوہ کس اونٹ کا ہے۔ اگر رات سرد ہو تو کجاوہ اونٹوں پر ہی رہنے دیا جائے۔ اگر زیادہ سفر کرنا مجبوری بن جائے تو صبح کو یہی اوقات رکھے جائیں اور شام کو چار بجے سے چھ بجے تک اضافی چلا جائے۔ اس طرح چار میل اضافی مل جائیں گے اور دن کی مسافت ۲۱ میل ہو جائے گی۔
سال کے گرم ترین موسم میں اسی طرح میں نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان چلتا تھا۔ تاہم وہاں صحرا اچھا ہے، اس لیے زیادہ رفتار ممکن تھی اور ہم نسبتاً زیادہ فاصلہ طے کرتے تھے۔
یاد رہے کہ اگر اونٹ واقعی صحرا میں پلا بڑھا ہو تو دن کی شدید گرمی میں بھی تین دن کے سفر کے بعد جا کر اسے پانی کی ضرورت پڑے گی۔
خریف یعنی سرما میں اونٹ کو چھ یا سات دن بعد پانی پلایا جائے گا۔ اونٹوں کو پانی پلانے کا بہترین وقت وہ ہے جب وہ سامان لاد کر چلنے کو تیار ہوں۔ اس طرح اونٹوں کی رسیاں کسی جائیں گی۔ سو انہیں ذرا ڈھیلا کر کے باندھا جائے۔
میں نے اوپر لکھا ہے کہ ‘اگر اونٹ واقعی صحرا میں پلا بڑھا ہو‘۔ اونٹ کی نسل اور اس کے خصائل بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسکندریہ میں اونٹ بہت بڑے ہوتے ہیں اور ان پر سات سے آٹھ سو پاؤنڈ جتنا وزن لادا جا سکتا ہے مگر صحرا میں وہ بیکار ہوتے ہیں۔
ان اونٹوں کو برسیم کھلائی جاتی ہے۔ برسیم کو گرمیوں کے وسط میں سبز حالت میں کاٹا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں ان اونٹوں کو روز پانی درکار ہوتا ہے اور سردیوں میں ہر دوسرے روز۔
اگر یہ اونٹ نوبیا کے صحرا میں لائے جائیں تو یہ اونٹ کی بجائے گھوڑوں کی طرح ہو جاتے ہیں کہ انہیں گھوڑوں کی طرح چارہ، پانی اور دیکھ بھال درکار ہوتی ہے۔
بشارین اونٹ بہت سخت جان مشہور ہیں مگر دیکھنے میں زیادہ طاقتور نہیں لگتے۔ مسطح زمین پر ۵۰۰ پاؤنڈ وزن اٹھا کر چلتے ہیں مگر پہاڑی علاقے میں ۴۰۰ پاؤنڈ سے زیادہ وزن نہیں لادنا چاہیے۔
ہدندیوا اونٹ پہاڑی اور ناہموار علاقوں کے لیے مشہور ہیں کہ وہ پہاڑوں میں پیدا ہوتے اور پلتے بڑھتے ہیں۔ ان کے پیر کبھی نہیں پھسلتے اور ناہموار سطح پر چلنے کی عادت کی وجہ سے پہاڑوں پر چلتے ہوئے ان کے پیر زخمی نہیں ہوتے۔ بربر اور سواقم کے درمیان کا علاقہ ایسا ہے جیسے شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتلیں بکھری ہوئی ہوں اور یہاں عام اونٹوں کے پیر شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔
سواری کا ایک کوہان والا بہترین اونٹ تلاش کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ عرب شیخ بہترین اونٹ کو کسی قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں ہوتے مگر ذاتی تعلق کی وجہ سے گھٹیا قسم کا اونٹ بہت عمدہ بیان کر کے ضرور بیچ دیتے ہیں۔
بہترین اونٹ پر جب ہلکی عرب زین رکھی جائے تو ایک دن میں پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اسی میل کا سفر کر سکتا ہے۔ تاہم یہی اونٹ چھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ساٹھ میل طے کرتا ہے۔ ایسا بہترین جانور پورا ہفتہ ہر روز ساٹھ میل کا سفر طے کر سکتا ہے اور دن کے دوران سفر میں ہلکا پھلکا آرام بھی کرتا جاتا ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیدل بندہ سو روز میں ۵٫۰۰۰ میل کا پیدل سفر کر لیتا ہے تو یہ روزانہ پچاس میل کی اوسط بنتی ہے۔ اس طرح اونٹ اگر دن میں اتنا ہی فاصلہ طے کرے تو یہ کوئی اچھبنے کی بات نہیں ہوگی۔ مگر یاد رہے کہ پیدل چلنے والا انسان جب چاہے رک کر آرام کر سکتا ہے اور کھا پی بھی سکتا ہے مگر جب اونٹ یہی فاصلہ طے کرتا ہے تو اسے راستے میں نہ رکنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی کھانے پینے کا کوئی موقع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر لدے ہوئے سامان کے ساتھ ساتھ اس کا چارہ بھی اسے خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اونٹوں کا اگر دھیان رکھا جائے تو صحرا میں بہت ہی مفید ثابت ہوتے ہیں مگر جو بندہ اونٹ کی طبعیت سے واقف نہ ہو، اس کے ذمے اونٹوں کی دیکھ بھال لگانا انتہائی فضول ثابت ہوتا ہے۔
بعض اوقات ملاپ کے موسم نر اونٹ بہت وحشی ہو جاتے ہیں اور ان کی گردن کے پیچھے سے کولتار نما چکنا مادہ بہتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے منہ سے ایک غبارہ سا بھی نکال کر پھلاتا ہے جو ایک منٹ کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ ایک بار میں نے بندھے ہوئے اونٹ کو لوگوں پر حملہ کرتے دیکھا ہے حالانکہ اسے بانسوں سے بھی مارا جا رہا تھا۔
اونٹ بہت زور سے کاٹتا ہے اور بعض اوقات مہلک بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کے دانت بھی عجیب قسم کے ہوتے ہیں۔
ان کے پیروں میں انگلیاں نیچے ایسے جڑی ہوتی ہیں جیسے ہاتھی کے پیر ہوتے ہیں۔ ان پیروں اور پانی کے بغیر کئی دن گزارنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہی اونٹ انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں۔
پانی نہ پینے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے معدے کے گرد خلیوں میں پانی پیدا اور استعمال ہوتا رہتا ہے۔ دیگر کسی جانور میں ایسا نظام نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، عرب روانگی سے ذرا قبل ہی اونٹوں کو پانی پلاتے ہیں۔ جب اونٹ پانی پیتا ہے تو بہت وقت لگاتا ہے اور درمیان میں وقفے بھی لیتا ہے۔ شاید انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ لمبے سر پر نکلتے ہوئے انہیں پانی نہیں ملے گا، سو وہ جتنا ممکن پانی پی لیتا ہے۔
اونٹ زیادہ ذہین جانور نہیں۔ یہ صرف تب مطمئن ہوتا ہے جب اس کے سامنے جوار کا ڈھیر رکھ دیا جائے اور یہ اسے چرنے بیٹھ جائے۔ ہر اونٹ کے اعتبار سے جوار کو کسی چٹائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور آٹھ اونٹ اس کے گرد بٹھا دیے جاتے ہیں۔ ہر اونٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ کھائے۔ عرب مسلسل ہر اونٹ کو برابر جوار دیتا رہتا ہے کہ طاقتور کمزور کا حصہ کھانے پر تلا ہوتا ہے۔
اونٹوں میں میری دلچسپی کبھی کم نہیں ہوئی۔ میں نے صحرا میں ان پر ہزاروں میل کا سفر طے کیا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ جب ریلوے پہنچ جائے گی تو اونٹوں کو نقل و حمل کے کام سے ہٹا کر کسی اور کام پر لگا دیا جائے گا۔ اس وقت تو اونٹ نقل و حمل کا واحد ذریعہ ہے۔
میں اپنی یاداشتوں کا سلسلہ یہاں تمام کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس کا مطالعہ قاری کے لیے دلچسپی اور علم میں اضافے کا سبب بنے گا۔ تاہم فطرت کو چاہے میں جتنا بھی پسند کرتا ہوں، اسے بہترین قرار نہیں دے سکتا کیونکہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔ ہر جگہ ہمیں جدوجہد دکھائی دیتی ہے۔ ہر خالی پیٹ کو خوراک درکار ہوتی ہے۔ ایک قسم کے جانور دوسرے سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ دہشت کا سلسلہ اِس سرے سے اُس سرے تک پھیلا ہوا ہے۔
مرغی کیڑے کو کھاتی ہے، باز مرغی کو کھاتا ہے، بلی باز کو کھا جاتی ہے، کتا بلی کو کھا جاتا ہے، تیندوا کتے کو کھا جاتا ہے، ببر شیر تیندوے کو کھا جاتے ہیں اور انسان ببر شیر کا شکار کرتا ہے۔ سو انسان سب سے بڑا قاتل ہے کہ یہ جانوروں کو تو الگ رکھیں، دوسرے انسانوں کو بھی قتل کرنے سے نہیں چوکتا۔ ہمیں محبت، رحم اور مسیحیت کا سبق دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ہمیں تارپیڈو اور دیگر مہلک ہتھیار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کے موجدوں کو بڑے بڑے انعام اور خطاب ملتے ہیں۔ انسان کی بھلا کے لیے کام کرنے والے لیبارٹریوں میں سائنس پر چپ چپاتے کام کرتے ہیں۔ ایک انسانیت کی بھلا کا کام کرتا ہے تو دوسرے کا کام انسانیت کی تباہی پر منتج ہوتا ہے۔
یہی اصول تخلیق کی ابتدا سے لاگو ہے۔ مہذب دنیا اپنی تہذیب، علم ، سائنس اور تعلیم پر نازاں ہے تو امن کے دعوے دار ممالک ہی سب سے بڑی فوجوں اور سب سے زیادہ ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ طاقت ہی ہر سطح پر کامیاب ہوتی ہے۔
انسان کی مداخلت سے پاک علاقوں میں فطرت کا مطالعہ کرنا انتہائی بڑی نعمت ہے۔ ہمیں علم ہے کہ ایک نسل دوسری کو کھاتی ہے مگر ہمیں درد بھرے منظر دکھائی نہیں دیتے۔ ایک بڑا درخت جب زمین پر گرا ہوا ہو اور اس پر مختلف اقسام کی کائی، لائکن اور موس لگی ہوئی ہوں ہمیں خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب دراصل ایک شاندار درخت کو مار کر اس سے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔جب ہم اس درخت کے تنے سے چھال اکھاڑتے ہیں تو نیچے سے کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں۔ پرندہ کسی قدیم مندر پر بیٹ کرتا ہے تو اس میں موجود برگد کا بیج اگنا شروع ہو جاتا ہے۔ جب اس کی جڑیں قدیم مندر کی دراڑوں میں اپنی جگہ بنانے لگتی ہیں۔ وہاں اسے پانی اور غذایت ملتی رہتی ہے اور درخت بڑھتا رہتا ہے۔ مستقل تبدیلی چلتی رہتی ہے۔ اس طرح مندر کے ڈھانچے پر نیا درخت اگتا ہے اور آخرکار سارے مندر پر چھا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر برگد کا بیج کسی بہت بڑے درخت کی ٹہنیوں پر گرے تو وہیں اگتا ہے اور آہستہ آہستہ اس پر اپنی جڑیں اس طرح جماتا ہے کہ اصل درخت کو مار دیتا ہے۔ یہ تبدیلیاں ایسی نوعیت کی ہوتی ہیں جو بتاتی ہیں کہ اس دنیا میں طاقتور کی حکمرانی ہوتی ہے۔ پانی کے ایک قطرے میں پوری دنیا چھپی ہوتی ہے۔ اگر خوردبین سے دیکھا جائے تو ہزاروں اقسام کے جانور دکھائی دیتے ہیں مگر عام آنکھ سے دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا۔ مکڑی کسی مچھیرے کی طرح اپنا شکار پکڑتی اور اسی پر زندہ رہتی ہے۔ اس ضمن میں اسے قدرتی قوانین اور اپنی سمجھ بوجھ سے مدد ملتی ہے۔
فطرت کے عاشق کو کبھی بھی فطرت کے مطالعے سے اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ جب بندہ جوان ہو تو سیکھتا ہے اور جب بوڑھا ہو جائے تو پھر بھی سیکھنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ فطرت کے مطالعے میں اسے ہر خالق کا پرتو دکھائی دے گا۔ تاہم مہذب انسانوں کے لیے ایسا کچھ کہنا ممکن نہیں۔
بطور نیچرلسٹ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ فطرت کے قوانین ہمیشہ اپنی جگہ قائم رہیں گے سو ان قوانین کا جاننا بھی اس کے لیے ضروری ہے اور اس کے علاوہ اس کے پاس اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل اور چھ ڈرام بارود اور خالص سیسے کی ۶۵۰ گرین کی گولی ساتھ رہے۔ یاد رہے کہ اس دنیا میں طاقت کی ہی زبان چلتی ہے۔
 
Top