فراق ::::مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی! :::: Firaq -Gorakhpuri

طارق شاہ

محفلین
فِراقؔ گورکھپُوری

مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی
نہ خود یہ زندگی ہی زندگی دشمن اگر ہوتی

یہ کیا سُنتا ہُوں جنسِ حُسن مِلتی نقدِ جاں دے کر
ارے اِتنا تو ہم بھی دے نِکلتے جو خبر ہوتی

دھمک سی ہونے لگتی ہے ہَوائےگُل کی آہٹ پر
قفس میں بُوئے مستانہ بھی وجہِ دردِ سر ہوتی

کہاں تک راز کے صیغہ میں رہتی نیّتِ رِنداں
نِگاہِ مستِ ساقی بھی کہاں تک بے خبر ہوتی

تَسلّی، اُس نِگاہِ حِیلہ جُوکی پِھر تَسلّی ہے!
نہ ہوتی اُس سےتسکِینِ دِلِ غمگِیں ،مگر ہوتی

حَقیقت خُوردبِیں یا دُوربِیں سے کب نظر آئی
کبھی تو، سامنے کی چیز پر اپنی نظر ہوتی

سفر میں زندگی کی خیر تھی بڑھتے ہی رہنے میں!
ٹھہر جاتے جہاں پر پاؤں، منزِل پُر خَطر ہوتی

یہ مانا اِنقلابِ زندگی میں لاکھ خطرے ہیں
تمنّا پِھر بھی یہ ہے، زندگی زیر و زَبر ہوتی

زہے تہذیبِ نَو، ہوتا ہی کیوں تہذیب کا رونا
یہ تہذیبِ دماغ و دل، اگر اِنسان گر ہوتی

کبھی، اے کاش !مُرجھائے ہُوئے دِن اپنے کِھل اُٹھتے
کبھی تو، رُوئے رنگِیں کی گُلابی دوپہر ہوتی

بَشر بالفرض ہر دَولت سے مالامال ہو جاتا
محبّت گر نہیں ہوتی تومُشکل سے بَسر ہوتی

اَسِیرانِ قَفس کی بے نیازی، جائے عِبرت ہے!
نہ ہوتے بال وپر، خیرآرزوئے بال و پر ہوتی

فَرارِیّت کے ہم قائل نہیں، لیکن تمنّا تھی!
کہ، اپنی کوئی دُنیا آسمانوں سے اُدھر ہوتی

کبھی تو نقشِ پا کے پُھول کِھلتےاِس خیاباں میں!
کبھی تو، سرزَمِینِ دِل بھی تیری رہگُذر ہوتی

جِسے ہم شامِ غم کہتے ہیں، اِک پردہ ہے غفلت کا
فِراقؔ! اُس شامِ غم کی آنکھ کُھلتے ہی سَحر ہوتی

فِراقؔ گورکھپُوری
(شری رگھوپتی سہائے)
 
Top