قصے ہڈیاں توڑنے کے

آپ کی کل کتنی ہڈیاں ٹوٹی ہیں؟

  • صفر

    Votes: 18 48.6%
  • 1

    Votes: 11 29.7%
  • 2

    Votes: 4 10.8%
  • 3

    Votes: 2 5.4%
  • 4

    Votes: 2 5.4%
  • 5

    Votes: 0 0.0%
  • 6 یا زائد

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    37

زیک

مسافر
حال ہی میں کچھ ہڈیاں ٹوٹیں جن کا ذکر محفل پر کیا۔ احباب کے استفسار پر سوچا کہ اس واقعے پر لڑی بناؤں۔

ابھی لڑی بنانے لگا تو سوچا کہ ساتھ یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ آپ لوگ ہڈیاں تڑوا چکے ہیں یا اس معاملے میں ابھی تک ورجن ہی ہیں۔

میں نے زندگی میں تین بار ہڈیاں (ٹوٹی ہڈیوں کی تعداد: 4) تڑوائی ہیں جن میں سے حالیہ واقعہ سب سے خطرناک تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں نے زندگی میں تین بار ہڈیاں (ٹوٹی ہڈیوں کی تعداد: 4) تڑوائی ہیں جن میں سے حالیہ واقعہ سب سے خطرناک تھا۔
الحمدللّٰہ آج تک ایسا خطرناک حادثہ در پیش نہیں ہوا۔ اللہ تعالی آپ کو بھی اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
 

زیک

مسافر
تو حالیہ واقعے سے آغاز کرتے ہیں۔

یہ قصہ ہے ہیلووین کا۔

لیکن ایک ماہ مزید پیچھے چلتے ہیں۔ سائیکلنگ تو میں کافی عرصے سے کر رہا تھا لیکن ستمبر میں یہیں ایک سائیکلنگ گروپ میں شامل ہو گیا جو ہفتے میں دو بار اکٹھے سائیکلنگ کرتا ہے۔ ان کے ساتھ خلاف توقع کافی مزا آیا لہذا باقاعدگی کے ساتھ ان کے ساتھ جانے لگا۔

ہیلووین کے دن گروپ کا پلان تھا کہ شام کو سب کاسٹیوم پہن کر اس علاقے میں سائیکلوں پر چکر لگائیں اور پھر ایک ریستوران میں کھانا اور گپ شپ۔

میرا اس دن سائیکلنگ کا پلان کچھ لیٹ بنا لہذا کاسٹیوم کا باقاعدہ بندوبست نہ ہو سکا۔ خیر مغرب کے قریب میں سٹی ہال پہنچ گیا جہاں سے گروپ سائیکلنگ کا آغاز کرتے ہیں۔

لوگ بھانت بھانت کے کاسٹیوم پہن کر آئے ہوئے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ اس “لباس” میں سائیکل کیسے چلا رہے ہیں۔

عام طور سے گروپ کئی گروہوں میں بٹ جاتا ہے جو مختلف رفتار سے سائیکلنگ کرتے ہیں لیکن ہیلووین کی مناسبت سے اس دن سب اکٹھے ہی تھے۔
 

زیک

مسافر
نارمل روٹ کی بجائے ہم آس پاس کی گلیوں سڑکوں پر جا رہے تھے اور لوگوں کے گھروں کی ڈیکوریشن دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ کافی تعداد میں بچے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی کاسٹیومز میں ٹرک آر ٹریٹ کر رہے تھے۔

کچھ دیر بعد اندھیرا ہو چلا۔ تمام سائیکلسٹس کے پاس ہیڈلائٹ اور بیک لائٹ موجود تھی لہذا کوئی مسئلہ نہ تھا۔

جیسے جیسے ہم چلتے رہے سائیکلنگ کی رفتار کچھ بڑھنے لگی کہ تیز سائیکل چلا کر ورزش کا شوق سب کو ہے۔

ایک اندھیری سڑک پر اترائی پر رفتار خوب تیز ہوئی تو مجھے اچانک ایک hissing sound سنائی دی۔ احساس ہوا کہ میرے اگلے ٹائر میں سے ہوا نکل رہی ہے۔

سائیکل کا ٹائر اس سے پہلے بھی چند بار پنکچر ہوا تھا۔ عام طور پر ہوا آہستہ آہستہ نکلتی ہے اور آپ آسانی سے سائیکل روک کر ٹائر میں سے ٹیوب تبدیل کر لیتے ہیں۔

لیکن اس بار ایسا کچھ نہ تھا۔ ہوا انتہائی تیزی سے نکلی۔ میں نے بریک لگائی۔ رفتار زیادہ تھی اور اگلا ٹائر فوراً گھومنے کے قابل نہ رہا۔ جیسے ہی ٹائر رکا مومینٹم نے پچھلا پہیہ اٹھایا اور مجھے سائیکل سے اچھال دیا۔
 

زیک

مسافر
بعد میں گھڑی کے جی پی ایس سے علم ہوا کہ حادثے سے پہلے رفتار بیس پچیس میل فی گھنٹہ تھی۔

سائیکل سے اچھلا تو سیدھا منہ بل گرا۔ باقاعدہ سڑک پر فیس پلانٹ۔ ناک اور منہ سڑک پر رگڑے گئے۔ عینک ٹوٹ کر اتر گئی۔

ہیلمٹ پہن رکھی تھی سو سر پر چوٹ نہیں آئی۔ ویسے بعد میں ہیلمٹ پر کوئی رگڑ کے نشان نظر نہیں آئے جس سے لگتا ہے کہ سر زمین سے نہیں ٹکرایا۔ بہرحال ایسے حادثات کے بعد ہیلمٹ تبدیل کرنا لازمی ہے۔

اچھا ہوا یہ ہیلووین رائڈ تھا۔ عام طور سے سائیکلیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتی ہیں۔ اگر ایسی صورت میں میں گرتا تو دو چار لوگ اور بھی ساتھ شامل ہو جاتے۔ لیکن ہیلووین کے ریلیکسڈ ماحول میں فاصلے بہتر تھے اور میں اکیلا ہی گرا۔
 

زیک

مسافر
منہ کے بل کیوں گرا معلوم نہیں۔ ایک دوست کے پاس بیک لائٹ بائک کیمرہ تھا جو مسلسل ریکارڈ کرتا ہے۔ بعد میں اس کی ریکارڈ شدہ اپنے ٹائر پنکچر ہونے اور گرنے کی ویڈیو دیکھی۔ سب بالکل اچانک ہوا اور مجھے شاید ری ایکٹ کرنے کا خاص موقع نہیں ملا۔

میرے گرتے ہی آس پاس سائیکلسٹ رک گئے اور میری مدد کرنے لگے۔ منہ میں خون تھا وہ تھوکا تو احساس ہوا کہ دانت بھی ٹوٹے ہیں۔

ایک دوست نے سیدھا لیٹ جانے کو کہا۔ دوسرے نے فوری ایمبولینس کو کال کی۔ تیسرے نے میری آنکھوں میں روشنی ڈال کر چیک کیا کہ کنکشن تو نہیں ہوئی۔ میں نے اپنا فون اور والٹ ایک دوست کو دیا تو اس نے میری بیوی کو جال کر کے بتا دیا کہ کیا ہوا ہے اور فکر کی بات نہیں وہ مجھے ایمبولینس پر ہسپتال لے جائیں گے۔

بعد میں علم ہوا کہ کچھ دوستوں نے سائیکل چیک کی اور اسے وہیں کسی کے گھر میں رکھوا دیا۔ اسی طرح میری عینک، ہیلمٹ، پانی کی بوتل وغیرہ کسی نے سنبھال لیں۔

کچھ دیر میں ایمبولینس آ گئی۔ چونکہ انہیں علم نہ تھا کہ میری ریڑھ کی ہڈی کو کچھ نقصان ہوا ہے یا نہیں لہذا انہوں نے مجھے ایک سخت تختے پر لٹا کر ایمبولینس میں ڈالا۔

یوں میں قریب ترین ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ روانہ ہوا۔
 

زیک

مسافر
ہسپتال پہنچا۔ انہوں نے مجھ سے میری معلومات اکٹھی کیں۔ حادثے کے بارے میں پوچھا۔ بلڈ پریشر، ہارٹ بیٹ وغیرہ کے سینسر لگائے۔ ڈرپ لگائی۔

کچھ دیر بعد مجھے بستر پر ہی سی ٹی سکین کے لئے بھیج دیا۔ وہاں میری گردن کا سکین ہوا۔ واپس اپنے کمرے میں آیا۔ ڈاکٹر نے سکین دیکھا اور بتایا کہ ریڑھ کی ہڈی ٹھیک ہے البتہ ناک کی ہڈی دونوں طرف سے ٹوٹی ہوئی ہے۔

ریڑھ کی ہڈی چونکہ ٹھیک تھی لہذا جس بورڈ پر اتنی دیر سے لیٹا uncomfortable تھا وہ ہٹا دیا گیا۔

بائیں ہاتھ میں بھی درد ہو رہا تھا۔ سو اس کے ایکسرے کے لئے بھیج دیا۔ معلوم ہوا کہ چھوٹی انگلی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نے اسے باندھ دیا۔
 
اس واقعے سے دلی دکھ پہنچا. آپ اسی وجہ سے غیر حاضر بھی رہے؟ اب ریکوری کی کیا رپورٹ ہے؟
اللہ تعالٰی آپ پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائیں اور مکمل صحت یابی نصیب فرمائیں، آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
عموما فزیکل ایکٹو انسان کو رسک ٹیکر ہونے کی وجہ سے حادثات زیادہ پیش آتے۔ زیک بھائی چونکہ بہت زیادہ ورزش کرتے ہیں اس لئے آئندہ کیلئے احتیاط بہرحال لازم ہے
 

زیک

مسافر
ڈاکٹر نے فینٹانل کا ٹیکہ لگا دیا۔ واہ کیا دوائی ہے احساسِ درد فوری جاتا رہا۔

ہڈیوں کے بعد زخموں کی باری آئی۔ گھٹنے اور بازو پر صاف کر کے پٹی باندھی گئی۔

ناک جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں بھی زخم تھا۔ اسے صاف کر کے وہاں ٹانکے لگائے۔

سب سے بڑا زخم اوپر کے ہونٹ کا تھا۔ کافی برے طریقے سے ہونٹ کٹ گیا تھا۔ اس کی صفائی کر کے ٹانکے لگانے میں کچھ وقت لگا۔

اس وقت تک رات کا ایک بج چکا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کچھ دیر میں مجھے فارغ کر دیں گے۔ بیگم کو کال کیا کہ آ کر پک کر لو۔

بیوی آئی اور دوائیاں (اینٹی بائیوٹکس اور درد کی) اور کاغذات لے کر ہم گھر روانہ ہوئے۔

راستے میں فون دیکھا تو سائیکلسٹ دوستوں کے کافی میسج تھے۔ سب حال پوچھ رہے تھے اور یہ کہ کسی مدد کی ضرورت تو نہیں۔

گھر آ کر سو گیا۔
 
چوٹیں تو بچپن سے بہت کھائیں، ایک دفعہ پاؤں کا ناخن اکھڑا، اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا سوچتے ہی جھرجھری سے آ جاتی ہے۔
موٹر سائیکل سے دو تین دفعہ گر کر ہاتھ، کہنیاں، گھٹنے وغیرہ چھلوائے، ایک بڑا ایکسڈنٹ ہوا، جس میں گاڑی کی اوپر سے ہوتا ہوا سر کے بل دوسری جانب گرا۔ ہیلمٹ کی وجہ سے بچت ہوئی، مگر آنکھ کے اوپر چوٹ آئی، اور تقریباً دو دن بعد مکمل طور پر ہوش آیا۔ ہڈی تو نہ ٹوٹی۔ مگر اسی دوران شاید کولہوں پر بھی چوٹ وغیرہ آئی، جس پر توجہ نہیں گئی۔ اور بعد میں معاملہ بگڑ کر کولہے کے جوڑ کی تبدیلی تک پہنچا۔
پچھلے سال اسی مصنوعی پرزے کے نیچے دب پڑنے سے ران کی ہڈی تین حصوں میں بٹ گئی۔
اب الحمد للہ زندگی معمول کے مطابق ہے۔
 

اے خان

محفلین
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت مند رکھے.
آج تک ایک بھی ہڈی نہیں ٹوٹی کئی بار موٹر سائیکل سے گرا ہوں لیکن صرف ایک بار ہاتھ معمولی سا فریکچر ہوا تھا پلستر کی حاجت نہیں تھی لیکن ویسے ہی شوقیہ پلستر چڑھا دیا تاکہ ہمدردیاں سمیٹ سکوں :p
 

زیک

مسافر
یکم نومبر کو اٹھ کر احساس ہوا کہ ہونٹ کے زخموں کی وجہ سے کھانا کھانا مشکل ہے۔ مائع غذا کا دوری انتظام کیا گیا۔

پہلا کام متعدد ڈاکٹروں سے ملاقات کا وقت لینے کا تھا۔

اسی دن اپنے ڈینٹسٹ کو دکھایا کہ سامنے کے تین دانت ٹوٹے تھے۔ اس نے کہا کہ دانتوں کی کافی بچت ہو گئی اور وہ انہیں ٹھیک کر دے گا جب باقی کے زخم بہتر ہو جائیں گے۔ پھر اسے شوق آیا اور اس نے میرے چہرے اور دانتوں کی خوب تصاویر لیں۔

اگلے دن انگلی کے فریکچر کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ اس نے انگلی موڑ کر اس پر سپلنٹ باندھ دیا جو چار ہفتے رہا۔

اگرچہ گردن کو کچھ نہ ہوا تھا لیکن کچھ اکڑاہٹ تھی اور اسے مکمل ہلانا مشکل لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے فزیکل تھیراپی کا مشورہ دیا۔ تھیراپسٹ کے ساتھ کچھ سیشن اور ہوم ایکسرسائزز سے معاملہ بہتر ہو گیا۔
 

زیک

مسافر
کوئی آٹھ دن بعد ناک اور ہونٹ کے ٹانکے نکل گئے۔ اس کے دس دن بعد دانت بھی ٹھیک کرا لئے۔

چار ہفتے بعد انگلی کا فیرکچر کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا لیکن انگلی مکمل مڑتی نہ تھی لہذا اس کی فزیکل تھیراپی شروع ہوئی جو ایک ماہ جاری رہی۔ اب خوب مکا بنتا ہے۔

اسی دوران سائیکل بھی مرمت کروائی۔ ہیلمٹ اور دستانے نئے خریدے۔

اور یوں حادثے کو پانچ ہفتے بھی نہ ہوئے تھے تو میں دوبارہ سائیکلنگ کر رہا تھا۔ ایک دو بار خود سے چلانے کے بعد میں دوبارہ گروپ میں شامل ہو گیا۔ اس واقعے کی بدولت اب میں مشہور و معروف تھا۔
 
Top