اسوہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر عمل کی ضرورت

ام اویس

محفلین
عرب کے جس معاشرے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور بعثت ہوئی وہ سماج اور معاشرہ مختلف برائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، یہ صورت حال صرف عرب کے معاشر ے ساتھ خاص نہیں تھی بلکہ عجم اور دنیا کے دیگر خطوں میں بھی صورت حال کا بگاڑ فزوں ترتھا۔ انسان جسے الله تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا ہے اس میں اس حد تک فسادو بگاڑ آچکا تھا کہ لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، صرف جانوروں کے پانی پلانے جیسے معمولی واقعات میں سالوں اور صدیوں تک جنگیں چَلا کرتی تھیں، رحم وکرم اور عفو ودرگز ناپید تھا،ظلم وستم کا بازار گرم تھا، انسان انسانیت کے دائرے سے نکل کر حیوانوں اور درندوں کے اوصاف اختیار کر چکا تھا، شرک وکفر بھی اپنے عروج پر تھا، یہاں تک کہ لوگوں نے الله تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ میں تین سو تریسٹھ بت نصب کر رکھے تھے، جن کو الله تعالیٰ وحدہ کا شریک مان کر ان کی پوجا کی جاتی تھی۔
ایسی صورت حال میں الله تعالیٰ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو یہ کام سونپا کہ آپ لوگوں کو الله تعالیٰ کی طرف بلائیں، ان میں آخرت کی فکر پیدا کریں، ظلم وستم کا جو بازار گرم ہے اس کی اصلاح فرمائیں، مظلوم کی داد رسی کریں اور لوگوں کے قلوب وأذہان پر محنت کرکے ان کو خالق حقیقی سے روشناس کرائیں۔ چناں چہ آپ ا نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی او ران کے قلوب واذہان پر محنت کرکے ان کو اپنے خالق حقیقی سے روشناس کر ایا، ان میں آخرت کی فکر پیدا کی ، انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا، امن وسکون کا درس دیا، بود وباش کے آداب سکھائے، جہاں بانی کے طریقے سے روشنا س کرایا ، امیر وغریب، شاہ وگدا غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے آپ رحمت کا پیغام لے کر آئے دنیاوی حیات مستعار کو کس طرح کا میاب وکامران بنانا ہے اور دنیا وآخرت دونوں کی راحت کس طرح حاصل کرنی ہے؟
آپ نے اپنی دعوت وپیغام کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے خود کو اس کا عملی نمونہ بن کر دکھایا۔ امانت، دیانت، صداقت، شرافت غرض تمام عمدہ واعلیٰ اوصاف وصفات کا آپ پیکر تھے، اس لیے قرآن مجید نے آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا ﴾․ یعنی”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو الله اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے الله کا ذکر کرتا ہو۔“
جب آپ صلی الله علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:”کَلَّا وَاللَّہِ مَا یُخْزِیکَ اللَّہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الکَلَّ، وَتَکْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الحَقِّ“․ یعنی” الله تعالیٰ آپ کو ہر گز رسوا نہیں کر ے گا، آپ رشتہ داروں کا حق ادا کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کو کما کر دیتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے راستے میں آنے والی مصیبتوں میں کام آتے ہیں۔“
آج دنیابھٹک رہی ہے اور دنیا میں امن وسکون غارت ہو چکا ہے، راحت وچین اور امن وسکون حاصل کرنے کے لیے محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ کو اختیار کرنا ضروری ہے کہ جس نے ایک ایسے معاشرے کو جو ظلم وجور اور برائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنس چکا تھا، ایسا آئیڈیل معاشرہ بنایا جو دنیا وآخرت دونوں کی فلاح وکام یابی کے لیے رہتی دنیا تک راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیتا رہے گا اور اس سے راہ نمائی حاصل کرکے دنیا صحیح سمت اور درست رخ کا تعین کرسکے گی۔ شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کی ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

ربیع الاول کا مہینہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ ہمارے پاس اسوہٴ نبوی پر عمل کا پیغام لے کر آتا ہے کہ ہمیں اپنے رہن سہن، بودوباش اور صبح وشام کی زندگی میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اختیا رکرنا چاہیے کہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں کام یابی کی کلیدیہی ہے اور یہی الله رب العزت کی خوش نودی و رضا کا ذریعہ ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین۔
محمد وحید الرحمٰن
 
Top