دنیا ترے مزاج میں ڈھلنا تو ہے نہیں۔۔۔ اصلاح کے لئے

ایک نئی کاوش اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔ استاد محترم جناب@الف عین سر اور احباب سے توجہ کی گزارش ہے ۔۔۔
بحر مضارع : مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن

دنیا ترے مزاج میں ڈھلنا تو ہے نہیں
اور ضد سے اپنی تجھ کو بھی ہٹنا تو ہے نہیں

ہم جس کے ہم مزاج نہیں، چھوڑ دے ہمیں
اب سب سے اتنی بات پہ لڑنا تو ہے نہیں

تقدیر ہنس کے کہتی ہے کوشش کو چھوڑ دو
سکّہ تمھارے نام کا چلنا تو ہے نہیں

ہم مستقل مزاجی کے عادی مریض ہیں
اپنی روش سے ہم کو بھی ہٹنا تو ہے نہیں

کیا اسم با مسمّٰی ہو دیکھیں گے ہم ضرور
دھوکا دوبارا نام سے کھانا تو ہے نہیں

جس کا پتہ نہیں ہو وہیں ڈالتے ہیں ہاتھ
فطرت میں اپنی یوں بھی جھجھکنا تو ہے نہیں

چہرہ بگاڑ دے گا یہ تیزاب آنکھ کا
دل کی طرف کو موڑ دو رکنا تو ہے نہیں

نظروں کی اس تلاش کا کچھ فائدہ نہیں
کاشف تمھارا پیار یہ بٹنا تو ہے نہیں
سیّد کاشف


استاد محترم کیا اسم با مسمّٰی کی ترکیب کا استعمال اور شعر دونوں درست ہیں؟


 

یاسر شاہ

محفلین
استاد کے آنے تک احباب کی خدمت میں احباب کی عرض ہے کہ غزل کاقافیہ نادرست ہے بلکہ ایطائے جلی کے سبب قافیہ ندارد ہے -آسان منطق یہی ہے :


ڈھلناتو ہے نہیں = ڈھل-ناتو ہے نہیں
ہٹنا تو ہے نہیں=ہٹ-نا تو ہے نہیں
لڑنا تو ہے نہیں=لڑ-نا تو ہے نہیں
چلنا تو ہے نہیں =چل-نا تو ہے نہیں
ہٹنا تو ہے نہیں=ہٹ-نا تو ہے نہیں
____________________________________
--------------=(ڈھل-ہٹ -لڑ -چل -ہٹ )نا تو ہے نہیں

یعنی "نا " ہوبہو تکرار کی وجہ سے ردیف کا حصّہ ہوگیا (ردیف کی تعریف کے مطابق )پیچھے رہنے والے الفاظ (ڈھل-ہٹ -لڑ -چل -ہٹ )قافیے نہیں -
 
دو تین مصرعے یہی لکهہ کر ردیف اور قافیے پر سہی درست کی نشان لگا کر یہی سہی ہے اصلاح فرماتے اشاروں میں کچهہ حد تک سمجهہ آئی سہی ردیف اور قافیے پر ایسے کیسے لکهے جاتے
 
محترم
الف عین سر۔۔غزل مطلع میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ پیش ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
باغی رویہ گو مجھے زیبا تو ہے نہیں
دنیا ترے مزاج میں ڈھلنا تو ہے نہیں

کاشف ہمارا، ظرف کا اوچھا تو ہے نہیں
پر چھوٹ تم کو دے یہ ارادہ تو ہے نہیں

ہم جس کے ہم مزاج نہیں، چھوڑ دے ہمیں
اب سب سے اتنی بات پہ لڑنا تو ہے نہیں

تقدیر ہنس کے کہتی ہے کوشش کو چھوڑ دو
سکّہ تمھارے نام کا چلنا تو ہے نہیں

ہم مستقل مزاجی کے عادی مریض ہیں
اپنی روش سے ہم کو بھی ہٹنا تو ہے نہیں

کیا اسم با مسمّٰی ہو دیکھیں گے ہم ضرور
دھوکا دوبارا نام سے کھانا تو ہے نہیں

جس کا پتہ نہیں ہو وہیں ڈالتے ہیں ہاتھ
فطرت میں اپنی یوں بھی جھجھکنا تو ہے نہیں

چہرہ بگاڑ دے گا یہ تیزاب آنکھ کا
دل کی طرف کو موڑ دو رکنا تو ہے نہیں

نظروں کی اس تلاش کا کچھ فائدہ نہیں
کاشف تمھارا پیار یہ بٹنا تو ہے نہیں


 

الف عین

لائبریرین
دوسرے شعر کو بعد میں 'نا' والے قوافی کے درمیان لگا دو۔ اور کم از کم ایک شعر کا قافیہ مزید بدل دو تو ظاہری صورت بہتر ہو جائے گی.۔
مفہوم کے اعتبار سے آخری تینوں اشعار واضح نہیں یا دو لخت ہیں
 
Top