زہر لگتی ہیں منطقی باتیں --- غزل اصلاح کے لئے

ایک تازہ غزل اصلاح، مشورؤں ، رائے اور تنقید کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
تمام محفلین اور بطور خاص الف عین سر، راحیل فاروق بھائی سے اصلاحی رائے ار تنقید کی امیّد رکھتا ہوں
شکریہ۔

بحر ہے :
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فعلن
--------------------
زہر لگتی ہیں منطقی باتیں
خشک لہجے میں اجنبی باتیں

جاں بچی خط کی بارِ ہستی سے
کھائیں دیمک نے کاغذی باتیں

میں فریبِ کلام کا قیدی
تیرے ہونٹوں پہ شبنمی باتیں

محوِ رخ دیکھ کر مجھے اس نے
کر دیں کچھ دیر ملتوی باتیں

کچھ مماثل نہیں ہے ان سب کے
تیرے انداز، سادگی، باتیں

آپسی ربط کا وہ دور بھی تھا
جب اشارے تھے معنوی باتیں

"آیتِ رنج"، دل پہ اتریں تھیں
صورتِ اشک رخصتی باتیں

اس کی چشمِ سیاہ میں کاشف
جانے کیا کیا تھیں انکہی باتیں
----------------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب ہے غزل اور درست۔ لیکن یہ شعر ؤاضح نہیں۔
جاں بچی خط کی بارِ ہستی سے
کھائیں دیمک نے کاغذی باتیں
 
خوب ہے غزل اور درست۔ لیکن یہ شعر ؤاضح نہیں۔
جاں بچی خط کی بارِ ہستی سے
کھائیں دیمک نے کاغذی باتیں
استاد محترم لفظ "بارِ ہستی" خط میں کئے جانے والے جھوٹے وعدے وعید کی جانب لطیف سا اشارہ ہے کہ دیمک نے ہستی کو تو ختم کیا ہی اس بوجھ سے بھی نجات دے دی۔
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
استاد محترم لفظ "بارِ ہستی" خط میں کئے جانے والے جھوٹے وعدے وعید کی جانب لطیف سا اشارہ ہے کہ دیمک نے ہستی کو تو ختم کیا ہی اس بوجھ سے بھی نجات دے دی۔
شکریہ
لیکن لفاظ سے تو یہ سب ظاہر نہیں ہوتا!!
اس کے علوہ ’کھائیں‘ کی جگہ ’کھا لیں‘ ہو تو بہتر بیانیہ ہو گا۔
 
Top