شہنشاہ کونین کے دربار میں

ابن جمال

محفلین
امیرشریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی
سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر​

گذارے ہیں خوشی کے چند لمحے
انہیں کی یاد اپنی زندگی ہے
ہاں! زندگی کے چند لمحے جو شہر جلال مکہ مکرمہ میں بیتے، جو دن شہر جمال مدینہ طیبہ میں گذرے، بڑے قیمتی ہیں وہ دن ، بڑی یاد گار ہیں وہ راتیں ، ان دونوں کی یاد حاصل حیات ہے، دونوں کی یاد جب آتی ہے تو دوسری یادوں کے سارے نقوش مدھم پڑ جاتے ہیں۔ سورج نکلتاہے تو لگتاہے جیسے چراغوں کی روشنی چھن گئی ہو، دیارنبوی ؐکی یاد ساری یادوں سے دل کی نگاہوں کو ہٹادیتی ہے۔ وہاں کے ایک اِک ذرہ کا عکس جمیل قلب و نظر، دل و دماغ پر چھاتا چلا جاتاہے ، اور ایسا لگتاہے کہ سرکارذی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و رافت کی چادر میں ایک گنہگار امتی ڈھنپا چلاجارہا ہے۔​
زندگانی کا سہارا ہے تصور تیرا
ایک تیری یاد ہے اللہ کرے یاد رہے
ذرا سونچئے !کعبۃ اللہ کے پردہ کو تھام کر رونے گڑگڑانے والا انسان، اپنے ایک ایک گناہ کو یا د کرکے آنسو بہانے والا انسان ، گناہوں کو جذب کرانے کے جذبہ سے مغلوب حجر اسود کو چھونے اور چومنے والا انسان، احساس ندامت اور بیخودی کی ملی جلی کیفیت میں طواف کرنیو الا انسان، میزاب رحمت کے نیچے اللہ کی رحمت سے آس لگانے والا انسان ، جب اپنی خودی کو خود فراموشی سے بدل کر شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دیار کی طرف بڑھتا ہے تو کبھی سونچتاہے کہ
پاک دل پاک نَفَس پاک نظر کیا کہنا
بعد مکہ کے مدینہ کا سفر کیا کہنا
اور کبھی اس کے دل سے آواز آتی ہے کہ آنسو کے چند قطروں سے ہوتاکیا ہے؟ بہت سے ہیں ان قطروں کو زمین میںجذب کرانے والے ، گنا ہوں پر شرمندہ ہونے والے، توبہ کرنے والے، مگر کیا یہ چند قطرئہ اشک ان گناہوں کو بہالے جاچکے ہیںجو زندگی میں اکٹھا ہوتے گئے تھے ، نہ جانے کیاکیا احساسات تھے جن کے ساتھ کار سے آگے بڑھ رہا تھا۔کبھی جھنجھلاہٹ بھی ہوتی، یا اللہ منزل کیوں نہیں آتی ____پھر خیال آتا ،شاید یہ بھی تربیت کے مرحلے ہوں ، راہ کے پیچ وخم اور تیز سانسوں کے زیر وبم بھی ذوق قلب ونظر بخشتے ہوں ،عشق کی بھٹی میں تپ کر آدمی آدمی بنتا ہے ،خون اور لوتھرے میں رچابسادل حق شناس، حق آگاہ ہوجاتا ہے ،اسکے بعد زندگی میں لذت ہے اور موت میں بھی راحت ہے ،ورنہ
بے غم عشق وبے دل آگاہ
موت بھی جرم زندگی بھی گناہ
کچھ آبادی جو شروع ہوئی تو ایسا لگا کہ وہ منزل آگئی ،جسے دل ڈھونڈ رہا تھا، ذوق بھی ،شوق بھی ، طلب بھی ،تڑپ بھی، زبان پر درودشریف اور نگاہوں میں شہر جمال، مدینہ کی آبادی ، عمارتیں، ایسا لگتا تھا جیسے سارا جسم نگاہ بن چکا ہے اور اس نگاہ کو گنبد خضرا ء کا انتظار ہے ، اچانک دور سے عمارتوں کا سلسلہ جو ذرا ٹوٹا تو ہرے گنبد پر نگاہ جم گئی اللہم صل علی سید نا وشفیعنا و مولانا محمد زبان سے جاری اور آنکھوں سے اشک رواں ، گاڑی رکی تو حالت یہ تھی کہ۔​
اور جو ہوش کی پوچھوتو مجھے ہوش نہیں
چند ثانئے خاموش بے حس و حرکت سیٹ پر رہا ،اچانک جیسے خواب کی دنیا سے کوئی حقیقت کی دنیا میں آگیا ہو، دروازہ کھول کر جو اترنا چاہا تو قدم ذرا دیر کے لئے جم سے گئے، کیسے اتریں یہ گنہگار پاؤں اس پاک سرزمین پر، کہیں یہی وہ جگہ تو نہیں جہاں چودہ سوسال پہلے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم پڑے ہوں، شاید اسی احساس کی شدت تھی اور بڑی تیز شدت ، کہ عاشق رسول پاک حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ننگے پاؤں مدینہ طیبہ کی گلیوں ، بازاروں سے گذرتے رہے ،کبھی جوتانہیں پہنا۔

رہ رہ کر خیال آتا، کیا یہ قدم اس پاک سرزمین سے لگنے کے لائق ہے ؟ دل سے آواز آئی ،جب تک ندامت کے آنسو قدموں کو نہ دھوڈالیں، یہ قدم اس پاک سر زمین پر رکھنے کے قابل نہیں ، دل کی آواز پر ایسے نازک مرحلہ میں کون لبیک نہیں کہتا، آنکھوں نے دل کا ساتھ دیا اور جب اشک ندامت نے گناہوں کے بوجھ کو ذراہلکا کیا تو قدم آگے بڑھے۔آرزؤں کے درسے دربار نبویؐمیں حاضری ہوئی ،دورکعت نماز پڑھی، سورج نصف النہار پر نہیں پہنچا تھا ، اللہ کو یاد کرنے والے ابھی دو گھڑی کے لئے آرام کررہے تھے ، ایک گنہگار امتی آقا کے دربار میں سلام پیش کرنے کے لئے بڑھ رہا تھا، عجیب کیفیت تھی دل کی ، کبھی درود ، کبھی نعت کا کوئی مصرع او رکبھی الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ، شوق، قدم کو تیز بڑھا تا، احترام ،قدم کو تھا م لیتا،’’ریاض الجنۃ‘‘ میںجگہ خالی تھی ، جی چاہا دورکعت پڑھ لی جائے پھر حاضر ہو کر سلام پیش کیا جائے گا، دل نے کہا کہ پہلے سلام پیش کیا جانا چاہئے، ایک سلام قبول ہوگیا تو حاضری مقبول، ایک سلام بھاگیا تو کون سا مرحلہ پھر رہ جاتا ہے۔​
آقا! گنہگار سلام پیش کرتاہے۔
آقا ! میرے آقا ! آنکھوں کے موتی قدموں پر نچھاور کر کے تیرے در پر آیا ہوں۔اشکوں نے سارے وجود میں جو آگ لگائی ہے اسے تیری رحمۃ للعالمینی ہی ٹھنڈا کرسکتی ہے۔
آقا ! خطا کار ہوں ، سیہ کار ہوں ، مگر ہوں تیری امت کا ایک حقیر فرد، سلام قبول ہو ۔
آقا! بڑا گنہکار ہوں، مگر ہوں تیرے در کا ذرہ، اس ذرہ کو زندگی کی رمق ہیرے کی چمک کون دے گا میرے آقا !
عربی صلاۃ وسلام کے بہت سے حصے یا دتھے ، کچھ یا د رہے کچھ بھول گیا، عربی کے ساتھ اردو کے اشعا ربھی پڑھے۔
سلام اے فخر موجودا ت فخر نوع انسانی
اور
سلا م اے ظل رحمانی ، سلام اے نور یزدانی
کاش احساسات کو زبان مل جاتی ، کاش کیفیتوں کے اظہار کے لئے الفاظ ہوتے تو بتا تا کہ کیا بیتی، اور اس دور خرافات میں بھی گنہگار ان عالم جب دربار رسالت مآب میں پہونچتے ہیں تو کیسے کیسے مرحلوں سے گذرتے ہیں ، کیسے سوز و گداز سے واسطہ پڑتاہے ، ہاں! تو سلام شوق کا یہ سلسلہ اللہ اکبر کی صدائے دلنواز سے ٹوٹا۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔مسجد نبوی ؐکے مؤذن کی صدائے صدرشک دل میں تیر بن کر اترتی اور ایمان وایقان کی کرن بن کر مردہ دلوں کو روشن کرتی چلی جاتی ہے، ایسا لگتاہے کہ اس آواز کی صحیح جگہ یہ دل ہی تو ہے، بہت مانوس ہے یہ آواز، بڑادرد ہے اس میں،بہت سنی ہیں ان کی اذانیں، ہر دفعہ نئی لذت، ہر مرتبہ یہ آواز نیا شوق ابھارتی ہے، جب وہ حی علی الفلاح کہتے ہیں تو لگتاہے کہ دنیا جہاں کی کامیابیاں قدموں میں آنے کے لئے بے چین ہیں اورجب وہ آخر میں لا الہ الا اللہ کہتے ہیں تو ’’لا ‘‘ کچھ اس انداز سے دل کی گہرائی سے نکالتے ہیں جیسے ساری دنیا کی نفی کررہے ہوں اور توحید خالص دلوں میں پیوست کرتے جارہے ہوں۔

ظہر کی اذان اور نماز میں آدھ گھنٹہ کا وقفہ ہوتاہے، اس آدھ گھنٹہ میں ایک لاکھ سے زیادہ اللہ کے بندے کشاں کشاں مسجد نبوی میں آجاتے ہیں، کتنی بڑی ہوگئی ہے مسجد نبوی ؐ__ شاہ فہد نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ سرکار ذی وقار کے عہد بابرکت میںشہر مدینہ جتنا بڑا تھا اسے مسجد نبوی میں شامل کردینا چاہتاہوں ، اور اس پورے حصہ زمین کو انہوں نے مسجد نبوی بنادیا، توسیع کا کام جاری ہے ۔ چودہ سوسال قبل جو شہر مدینہ منور ہ کے حدود تھے، آج وہ مسجد نبوی کا حلقہ ہے۔

رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اس مسجد کی بہار دیکھنے والی ہوتی ہے ، قرآن نے کہا ’’ان المساجد للہ ‘‘ (مسجدیں تو بس اللہ کے لئے ہیں) اور اللہ کے بندے کس کس طرح پاک پروردگار کو یا د کرتے ہیں اور مرضی مولیٰ کا حق ادا کرتے ہیں، اس کا نظارہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جی بھر کے ہوتاہے اور جنہیں دل کی آنکھوں سے نوازا گیا ہے، وہ نور کے اس بڑھتے پھیلتے حلقے کو بھی دیکھتے ہیں، جو انسانوں کے گرد اور اس خطہ زمین پر نظر آسکتاہے ، وہ چشم بینا ، دل کی تڑپ اور طلب ، احساس کی حدت وشدت ،جذبوں کے اخلاص و اعتماد اور روح کی پاکیزگی اور وار فتگی ، نہاں خانہ کے خضو ع و خشوع اور ہر بن موسے نکلنے والی یاد الٰہی اور حب نبویؐ کی لہروں کو دیکھ سکتی ہے، فانہ ینظر بنور اللہ ( کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتی ہے (الحدیث)

اللہ کا گھر بھی کیا چیز ہے ، کوئی انہیں سجدوں سے سجاتا ہے ، کوئی عبادتوں سے آباد کرتا ہے، کوئی اپنی آہوں سے اس کی فضا میںارتعاش پیدا کرتاہے، کوئی آنسوؤں سے گناہوں کو دھوتا ہے ،کسی کی نگاہوں کی حسرت اسمیں اعتماد اور اطمینان بھرتی ہے،کوئی ماضی کے دھبوں کو دھوتا ہے،کوئی مستقبل کے تارے دامن میں بھر لیتا ہے، اور کوئی اپنے حوصلوں کے سہارے اس کی شکل و صورت کو نیا رو پ اورجلا ل وجمال کو نئے نئے زاویے دیتاہے ۔اور عقیدت ومحبت کے نقوش عمارتوں میں جڑدیتا ہے!

مسجد نبوی بھی بار بار بنی ہے ، ماضی کی بہت سی بنی بنائی عمارتیں اب ختم ہوچکی ہیں،صرف اخلاص زندہ ہے او ر وہی سدا بہار ہے ، ابھی دوحصے مسجد نبوی کے پورے طور پر محفوظ ہیں۔ مرکزی حصہ جو ترکوں نے بنایا تھا۔ سلطان عبد الحمید نے عشق نبوی میں ڈوب کر یہ مسجد بنوائی، جو سرخ پتھروں کی ہے، خدا انہیں اپنے یہاں سرخرو رکھے، سلطان نے پیسے نہیںلگائے، اخلاص کا سرمایہ اہتمام و احترام کے طشت میں رکھ کر پیش کردیا، کہتے ہیں کہ جس نے بھی تعمیر میں حصہ لیا، مزدور ہویا مستری ، انجینئر ہو یا اَور سیر ، سب باو ضو رہتے تھے ، پتھروں کی بڑی بڑی سلیں جب کھمبوں کے لئے تراشی جاتی تھیں تو پہلے ہر سل پر ایک قرآن ختم کیا جاتا۔ یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے، مگر جذبۂ دل کے صدقہ جایئے ، دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے محبت و عقیدت اور شوق وذوق کا وہ تاج محل کھڑا کیا ہے کہ سبحان اللہ ____​
کر شمہ دامن دل می کشد کہ جا انیجاست​
دوسرا حصہ شاہ سعود کا بنوایا ہؤا ہے ترکی حصہ کے بعدکا اضافہ____ یہ اضافی حصہ نقشہ ،جاذبیت اور مضبوطی تینوں اعتبار سے خوب تر ہے۔ یہ حصہ کشادہ ، بلند و بالا اور حفظان صحت کے پیش نظر بہت کھلا ہؤا بنایا گیا ہے۔ خدا مرحوم پر رحمت کے دروازے کھولے رکھے ____ اور اب یہ تیسرا اضافہ جو تعمیر کے آخری مرحلہ میں ہے، نگاہوں کے سامنے ہے، بے حد مضبوط ، بہت آرام دہ، غیر معمولی پرسکون، سیکڑوں کھمبے کھڑے کئے گئے ہیں اور ہر کھمبا اتنا مستحکم ہے کہ اس پر اپنے یہاں کی ایک متوسط مسجد کا وزن ڈالا جاسکتا ہے، کچھ کچھ فاصلے پر کھمبوں کی جڑوں سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں نکلتی رہتی ہیں __ کئی گنبد ہیں جو کھلتے اور بوقت ضرورت بند ہوتے رہتے ہیں،بٹن دبایا گنبد سرپہ سایہ فگن، بٹن گھمایا توگنبد کھسکتے سرکتے ایک کنارہ پر آلگا، مسجدنبوی کے کھمبوں کے بیچ سے آسمان نظر آئے گا، یہ ٹکنالوجی کو آباد حرم کرنے کا بہترین انداز ہے دیوار و در پر زمین اورچھت میں ایسے ایسے اور اتنے قیمتی پتھر اس سلیقے سے لگے ہیں کہ عقیدت جھوم اٹھتی ہے اور فن تعمیر کا دلفریب روپ سامنے آتاہے۔

عبادت تو حسن نیت اور حسن عمل کا مجموعہ ہے، راستہ کی ٹھوکر کو ہٹانا بھی عبادت ہے، راہوں میں پڑے کانٹوں کو دور کرنا بھی عبادت ہے ، روزہ اورنماز بھی عبادت ہے اور ان سارے اعمال کا مقام و مرتبہ اللہ کے دربار میں حسن نیت کے حساب سے لگتاہے ، وہ جو حدیث شریف میں ایک ہی عمل کے لئے کہیں دس گنا ثواب ، کہیں ستر گنا ثواب ہے، اور کہیں سات سو گنا ثواب آیا ہے، یہ سب حسن نیت کی وجہ سے نتیجوں کا فرق ہے_ حسن نیت کا تعلق دل سے ہے ، دل جتنا صاف ہو او رعبادت جتنا دل لگا کر کی جائے ثواب اتناہی زیادہ ملتاہے،اور معاملہ جہاں تک ’’دل کے لگنے ‘‘ اور ’’جی کے جمنے‘‘ کا ہے، یہ کہیں اور لگے یا نہ لگے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں خوب لگتاہے، خوب جمتاہے ، ا س لئے مسجد حرام اور مسجد نبوی کی عبادت کا ثواب اور لذت ہی کچھ اور ہے ، وہ صفائی ستھرائی ، پرسکون ماحول، ہر طرف یاد الٰہی میں غرق اللہ کے بندے ، پھسلنے والی طبیعت اور پارہ کی طرح نہ ٹھہرنے والا مزاج بھی تھم جاتا ہے اور تھوڑی دیر سہی عبادت میںلگ جاتاہے ۔ سب سے بڑی بات اس در پر یہ احساس دل کا پہرہ دار ہوتاہے کہ یہ در کس کا ہے؟ یہ گھر کس کا ہے ؟__ اس احساس نے چودہ سوسال کے عرصہ میں نہ جانے کتنے پتھر دل کو موم اور قلب اسود کو قلب مبین بنادیا ہے۔ایسا لگتاہے، رحمت کی گھٹاجھوم جھوم کر آتی ہے، ٹوٹ ٹوٹ کر برستی ہے اور سب متوالے شرابور ہوتے جاتے ہیں۔

رمضان کے مہینہ میں،خاص کر اس کے اخیر عشرہ میں یہاں کا کیف او رنکھر جاتاہے ، پوری دنیا سے کشاں کشاں لوگ آتے ہیں__ ’’بلا کشان محبت بسوئے یارروند ‘‘نیکیوں کے موسم بہار میں طاعت کا ذوق اور عبادت کا شوق تو ہر اس خطہ میں ابھر آتا ہے، جہاں کسی صاحب ایمان کی جبین نیاز سجدوں کے لئے مچلتی ہے ، مگر اس خطہ کے نور کا اندازہ لگایئے جہاں سے سجدوں نے توحید خالص کا نیا سفر شروع کیا تھا، جس در پہ اس سجدہ کی مشق کرائی گئی جو’’ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات‘‘ جہاں ایسے سجدے سکھائے گئے ،جو جبین ناز کی تابندگی کو زندگی کا سبق سکھاتی ہے، جہاں ایسا جھکنا سکھایا گیا جس میں بلندیا ں ،عظمتیں او رسرفرازیاں تھیں، اس مرکز ایمان و یقین میں انسانوں کا سیلاب رمضان میں آجاتاہے۔ر نگ وروپ الگ، طور طریقہ جدا، لبا س و زبان علیحدہ علیحدہ، قدوقامت میں بھی فاصلہ مگر طاعت کا ذوق اور عبادت کا شوق ہر دل میں موجزن اور ہر شخص پر ایک کیفیت سی طاری____ اس مسجد میں عبادت کا مزہ ہی کچھ او رہے، رمضان کے آخر ی عشرہ کی ہماہمی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ ’’ہرشب شب برات ہے ہر روز عید ہے ‘‘ کا نظارہ ہوتاہے۔

عبادت وتلاوت تسبیح ووظیفہ توہے ہی ،درود وسلام اس مسجد کی بڑی خاص چیز ہے، اس موقع پر اللہ کے بندوں اور اللہ کے محبوب کے نام لیواؤں کی کیاکیفیت ہوتی ہے ؟ بیان سے باہر ہے ،بس اللہ کی شان کریمی و غفاری سے یہی امید جینے کا سہارا اور مرنے کا حوصلہ دیتی ہے کہ آنکھوں کے قطروں کو موتیوں کا درجہ ملے گا اور جہاں ان قطروں کی قدردانی کی جگہ ہے وہاں ہلکی ہلکی سی آواز آرہی ہوگی۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال میں

مسجد نبوی میںبڑی خاص چیز ریاض الجنۃ ہے ، جنت کے باغوں میںا یک باغ____ یہ پہلی مسجد نبوی ؐ کا حصہ ہے، جنت کی ان کیاریوں میں کون نماز نہیں پڑھنا چاہے گا،چند سجدے ہی سہی ، تھوڑی سی عبادت ہی سہی، ہر حاضر ہونے والا جنت کی اس کیاری میں سجدوں کی مہر اور قدموں کے نشان ضرور چھوڑتا ہے ، اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی ہے ، ہاں! یہاں اسی جگہ میرے ’’آقا و مولی ٰ‘‘ نے رب کائنات کے سامنے سرجھکایا تھا، یہیں آپ کی مبارک پیشانی نے زمین کو چھوکر خدا کی عظمت و کبریائی اور توحید و ربوبیت کی تعلیم دی تھی اور بندہ مومن رسول پاک کے دیئے درس کے مطابق اپنی بلند پیشانی کو زمین پر ڈال دیتاہے تاکہ اسے اورقربتیں،اور بلندیاں ملیں،اور اسکی دعائیں عرش رسید بن جائیں۔ رسول پاک نے بتایا تھا کہ بندہ سجدہ میں خدا سے سب سے زیادہ قرب ہوتاہے ، قریب خداوندی بندہ کی معراج ہے ، بلندیوں کی انتہا، سرفرازیوں کی آخری منزل ، انسانی عظمت کی سرحد____
جنت کی اس کیاری میں قدم رکھنے و الا ٹھٹھک جاتاہے ، یہیں پڑے ہوں گے میرے آقا کے قدم،ان کے صحابہ کے قدم، وہ جھجھکتا بھی ہے کہ کیسے رکھے یہ گنہگار قدم ان نقوش پر، جنہیں زمین نے شہنشاہ کونین کا نشان قدم سمجھ کر اپنے سینہ میں محفوظ کر رکھا ہے۔ مگر اسے حوصلہ ملتاہے اس تعلیم سے کہ رسول کے نقش قدم پر چلو، وہ بے تابانہ قدم جماتاہے ، نماز پڑھتا ہے۔ جنت کی کیاری قیامت کے دن گواہی دے گی، اس بندۂ خدا نے جنت کی کیار ی میں دو رکعت نماز پڑھی تھی، بار الٰہا! تو بڑا رحیم و کریم ہے ، تونے ایک بار اسے جنت کی کیاری میں نماز پڑھنے کا موقعہ دیا تھا، تیری شان رحیمی چاہتی ہے کہ یہ برابر جنت میں رہے____اللہ کے بندے جنت کی کیاری میںہر وقت عبادت کرتے نظر آتے ہیں، ان کا ذوق وشوق د یکھنے والا ہوتاہے، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میںیہاں جگہ کاملنا اور بھی مشکل ہے ، مگروقت کی کمی اور جگہ کی قلت حاضرین کے صبر کے پیمانہ کو چھلکنے نہیں دیتی، خود بخود نظم وضبط قائم رہتاہے ، احترام و عقیدت کی چادر ہر سر پر تنی رہتی ہے۔

دل کو چھولینے والامنظر افطار کا ہوتاہے___ لباس، رنگ، زبان ، انداز، عمراورطورطریقہ کے فرق سے بے نیازمسجد نبوی کے ایک متعین حلقہ میں خواتین فائبرکے دیوار نما حصہ میں ، اوردوسرے حلقہ میں مرد حضرات افطار کرتے ہیں۔سعودی حکومت نے حرمین شریفین کی مستقل حکومت قائم کررکھی ہے جس کے بہت سارے شعبے ہیں۔ امامت و تلاوت کے اہتمام سے لے کر وعظ وتبلیغ تک اور آب زمزم سے لے کر صفائی اور بیت الخلاء تک کا نظم یہ چھوٹی سی حکومت کرتی ہے، اس کی اپنی پولیس بھی ہے، ہزاروں اللہ کے بندے اس حکومت میں ملازمت کرتے ہیں اور دنیا کے ساتھ آخرت کا حساب بھی ٹھیک کرلیتے ہیں____ یہ چھوٹی سی حکومت (الریاسۃ العامۃ للحرمین الشریفین) بڑے بڑے صاف ستھرے ڈراموں میں روزانہ مکہ مکرمہ سے زمزم کا پانی منگواتی ہے اور مسجد نبوی میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر سلیقہ کے ساتھ اسے رکھ دیا جاتا ہے ، افطار کرنے والے عصر کے بعد سے ہی آنے لگتے ہیں، تلاوت و تسبیح میں لگ جاتے ہیں ، کہیں مجلس و عظ بھی ہوتی ہے ، مسئلہ مسائل پوچھنے اور بتانے والوں کی بھی مجلس ہوتی ہے، سورج غروب ہونے لگتاہے،خضوع وخشوع ،تلاوت وانابت ،اور دعاؤں کے عروج کا وقت آتاجاتاہے، کشاں کشاں اللہ کے بندے مسجد نبوی آنے لگتے ہیں، ہر گلی سے ہر راہ سے ، فوج کی فوج چلتی نظر آتی ہے۔​

کتنا فرق آگیا ہے چودہ سوسال میں، آج جو ایک گلی سے نکلنے والوں کی تعداد ہے، وہ اس وقت کے پورے مدینہ کی آبادی اور آنیوالوں کی تعدادسے بہت زیادہ ہے، سنہ ۲؍ ہجری میں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سو تیرہ ملے تھے ، جنہیں بدر کے میدان میں ایمان و کفر کے درمیان آہنی دیوار کھینچنے کیلئے کھڑا کیا گیا تھا، کتنی معمولی تھی وہ تعداد، کیسے آہنی عزم اور پختہ ایما ن والے تھے وہ سب ، وہ چلتے تھے تو قسمت یاوری کرتی تھی، آج کروڑوں ہیںمگر منظم ملت نہیں ، بے تکان بھیڑ ہے ، تعداد میں زیادہ مگر قدم بڑھاتے ہوئے بھی منزل سے اجنبی ، ایمان ویقین ہلتا ہؤا ، عزم کمزور اورجب ایمان و عز م ڈھیلا پڑتاہے تقدیر بھی روٹھ جاتی ہے____ ہاں ! مگر کل بھی مدینہ میں سورج غروب ہوتا تھا اور آج بھی ڈوب رہا تھا، رسول اللہ کے نام لیوا دربار رسول میں اکٹھے ہورہے تھے ،
اذان ہوتے ہوتے مسجد نبوی کا تقریبا پوراحصہ بھر جاتاہے، کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ڈبہ ، کافی قہوہ، چائے، شربت سے بھرے تھرماس ، سموسے، ، بسکٹ، مٹھائی ، دروازہ پر اگر دربان نے روک لیا تو رہئے باہر، یا سامان چھوڑ کر اندر جایئے ۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پکی ہوئی چیزوں کا لانا منع ہے ، صفائی اوراحتیاط کے لحاظ سے ایسا کرنا مناسب ہے، مگر قانون کی یہ بندش روزہ داروں کو کھلانے کے جذبہ کے سامنے اکثر ٹوٹ جاتی ہے ۔ میں نے دیکھا ہے، لوگ بڑی حکمتوں سے سموسے اور کھانے کی چیزیں لے جاتے ہیں ۔ قانون شکنی کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، ضیوف الرحمان(رحمان و رحیم کے مہمانوں) کو افطار کرانا مقصود ہوتاہے ، پلاسٹک کی پنی کے باریک لانبے دسترخوان لوگ بچھادیتے ہیں ، پلاسٹک کے چھوٹے گلاس رکھ دیئے جاتے ہیں اور قسم قسم کی کھجوریں آٹھ دس ریال کیلو سے لیکر سو سو اسو ریا ل تک کی پھیلا دی جاتی ہیں، ضیافت کا جذبہ رکھنے و الے اس میں بڑے انہماک اور خلوص کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور اللہ کے بہت سے بندے جیب میں دو چارکھجور کی پلاسٹک کی ڈبیہ لئے کبھی گنبد خضراء پر نگاہ جماتے ہیں، کبھی روضہ مطہرہ کی دیواروں کا دیدار کرتے ہیں، ذرا ان کی آنکھوں میں جھانکئے، کیسی امید نظر آتی ہے ان دو آنکھوں میں ، کسی کے گوشہ چشم پردو موتی چھلکنے کیلئے مچلتے نظر آتے ہیں، کہیںکوئی تارہ آنکھ سے ٹوٹ کر چہرہ پر پھسل جاتاہے ،____ خوشی کے آنسو ، ندامت کے آنسو، آرزوؤں کے آنسو۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ لیجئے آفتا ب غروب ہؤا ، مومنوں کی قسمت کا آفتاب نصف النہار پر پہنچا ،یہ وقت دعا کے قبول ہونے کا ہے ، خدا سے بندہ کے قرب کا ہے، جس کی قسمت نے یاوری کی ،اس کی ہر بات قبولیت کے خانہ میں رکھ دی جاتی ہے۔

اذان اور اقامت کے درمیان چند منٹ کے فاصلے میں ایک بساط سمٹتی ہے دوسری بساط بچھادی جاتی ہے ، کیسے کیسوں او رکتنے کتنوں کا وارا نیارا ہوجاتا ہے، کوئی انسان حساب لگا سکتاہے ؟____ دیکھتے دیکھتے دسترخوان سمٹ جاتاہے اور نماز کی صفیں لگ جاتی ہیں ، نور وہدایت ، رحمت وبرکت وخشوع و خضوع، اللہ اکبر__گورے کالے، امیر غریب ، حاکم محکوم، بڑے چھوٹے ساری شناخت مٹ جاتی ہے اور صرف ایک شناخت رہ جاتی ہے عیال اللہ ، عباد اللہ ۔​
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
میرا بھی عجیب ذوق ہے، خیال آیا سنتیں پڑھ لیں، چار چھ رکعت ریاض الجنۃ میں بھی پڑھی جائے، قدم شوق ایسے موقعوں پر کہاں رکتے ہیں، بڑھتا چلا گیا ، قسمت نے یاوری کی، ریاض الجنۃ میں جگہ مل گئی، دائیں بائیں دیکھنے کا یارا کسے ، جھٹ نیت باندھ لی۔ خود فراموشی بھی بڑی دولت ہے، اپنے آپ کو بھول کر بہت کچھ پایا جاسکتا ہے ، چند رکعتیں پڑھیں، بڑی محبت سے کسی نے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو خیال آیا کہ دیر زیادہ ہوگئی ، دوسروں کا بھی حق ہے ، اٹھا اور مستی کے عالم میں دروازہ کی طرف بڑھ گیا، ابھی دروازہ کے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ ایک سپاہی کا بایاں ہاتھ میرا راستہ روک رہا تھا، میں آگے بڑھ گیا تھا، میری عقل میرے پیچھے مجھے کہیں تلاش کررہی تھی، سمجھ میں نہ آیا کہ سپاہی نے کیوں روک دیا ،جھنجھلاہٹ میں زبان سے نکلا’’ایش ھذا‘‘(یہ کیا حرکت ہے )سپاہی کے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ پڑا اور دوسرے ہاتھ والے کی زبان سے نکلا’’صل علی محمد ‘‘ تنے ہاتھ نیچے گر گئے ، میری نگاہ اس شخص پر پڑی، ہلکی مسکراہٹ، معصومانہ وقار، یہ شاہی خاندا ن کا کوئی شریف فرد تھا____ میںآگے بڑھ گیا، شہنشاہ کونینؐ کے دربار میں شاہ سے آگے بڑھ جانا خطرہ سے خالی ہوتاہے۔

مغرب کی نماز کے بعد جو سیلاب مسجد نبوی سے نکلتا ہے، عشاء کی اذان کے ساتھ وہ انسانی سیلاب مسجد نبوی میں سمانے لگتاہے، اب عشاء ادا کرنی ہے، تراویح بھی پڑھنی ہے، پھر واپسی ہوگی ۔ عشاء کی نماز اور تراویح میں امام حرم نبوی کی سوز ودرد میں ڈوبی ہوئی قرأت دل پر کیا اثر ڈالتی ہے، کیا کہا جائے ، سچ ہے قرآن پاک کے پڑھنے کا حق عربوں کو ہے، وہ قرآن پاک کے ہر لفظ کے رمز شناس ، ہر آیت کی گہرائی تک پہونچنے والے، زبان کی نزاکتوں سے اچھی طرح واقف اور لہجہ بالکل نِک سْک سے درست، سب سے بڑھ کر وہ دل جس سے امام حرم نبوی کو خدا نے نوازا ہے ، تراویح میں قرآن پاک سنئے اور سر دھنئے۔

۲۷؍ کی شب میں ختم قرآن پاک تراویح میں کرتے ہیں، ۲۹؍ کی شب میں ختم تراویح کا وہاں کا طریقہ چلا آرہا ہے ، ان دونوں راتوں میں بڑے امام صاحب کی دعاء ، دل ہلادینے والی اور دل کی پوچھئے تو عرش چھولینے والی ہوتی ہے ، امام صاحب محترم خود روتے ہیں، سبھوں کو رلاتے ہیں، سماں بندھ جاتا ہے ، ہچکیاں بندھ جاتی ہیں ، مجمع ، نمازیوںکا مجمع اپنے آپ میں نہیں رہتا،بڑی عجیب کیفیت ہوتی ہے ، امام صاحب محترم اس طرح مانگتے ہیں، اتنا تڑپ کرمانگتے ہیں اور مقتدی اتنے بے خود، اس درجہ خود فراموش ، اس طرح غرق ندامت اورایسے طالب عفو وعافیت ہوتے ہیں،کہ دل گواہی دینے لگتاہے ، بحر کرم کو جوش میں لانے کے واسطے یہ آنسو کافی ہیں، رحمت پرور دگار کو جوش آئے گا، ضرور آئے گا____ جو اشکوں سے تسبیح کے دانوںکا کام لیتے ہیں ان کے لیئے دل کی یہ گواہی بڑاا ٓسرا ہے۔

مدینہ طیبہ کی عید کا بھی اپنا ایک انداز ہے____ چاند نظر آیا تو اگلا سورج عید کی خوشیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتاہے ، یہ عید اس وقت بھی آتی تھی، جب لوگ پیوند لگے کپڑوں کو جسم پر سجاتے تھے، پرانے کپڑوں میں عید کی سچی خوشی ملتی تھی او رآج بھی عید آتی ہے ، نئے کپڑوں کے ساتھ، قیمتی ملبوسات کے ساتھ، نعمتوں کی ریل پیل کے ساتھ،دونوں مقام صبر و شکر ہیں، افلاس مرحلہ امتحان ہوتاہے ، آسودگی ظرف کا پیمانہ بن جاتی ہے، خدا کبھی چھین کر دیکھتاہے اورکبھی دے کر آزماتاہے ، مسجد نبوی نے یہ بدلتے ادوار بہت دیکھے ہیں، خدا ئے بزرگ و برتر کے حضور سجدے بجالانے والے، چاہے اس حال میں ہوں یا اس حال میں ، دونوں میں قدر مشترک ایمان کی حرارت اور عمل کا جذبہ ہے اور یہی وہ جوہر ہے جوماضی کو حال سے جوڑ تاہے، حال کو ماضی سے وابستہ رکھتاہے ، اور ظاہر کے اتار چڑھاؤ کا اثر باطن پر نہیں آنے دیتا، اپنے اعمال سے بندہ مطمئن ہے تو عید کی سچی خوشی حاصل ہوتی ہے،۔ لباس نئے ہوںیا پرانے، ایمان پر کبھی کہنگی طاری نہیں ہوتی، مسجد نبوی میں عبادتوںاور ریاضتوں کے بعد دل بہت پر سکون رہتاہے کہ گنے چنے چند دن سہی مگر عبادت خوب کی گئی، یہ دل کا سکون سچی خوشی کا بہترین ذریعہ ہے ،چاند کے اعلان کے ساتھ عبادتوں کا زور کم ہوجاتا ہے او رعید کی تیاری کی جاتی ہے ، آنے والے فجر کی نماز میںمسجد نبو ی حاضر ہوجاتے ہیں اورفجر کی نماز پڑھ کر سورج طلوع ہونے کا انتظار کرتے ہیں، سورج ذرا بلند ہؤا تو دوگانہ عید ادا کی جاتی ہے، کس زبان سے شکر ادا کیا جائے پرور دگار عالم کا ،جس نے اپنے پیارے نبی ؐکے دربار میں حاضری کی توفیق دی ،عبادتوں کی سعادت بخشی او رلاکھوں بندگان خدا کے ساتھ باربا ر عید کی نماز پڑھنے کا موقع دیا۔

دربار نبوی کی حاضری اپنے آپ میں ہر فرد کے لئے ایک یاد گاراور بڑاخوشگوار واقعہ ہے ، ہر سفر میں کچھ ایسے لمحے آئے جنہیں بھلایا نہیںجاسکتا، کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو دل کی امانت ہیں ____ کچھ وارفتگی ٔ شوق کے ایسے بھی محسوسات ہوتے ہیں جو دوسروں کے دل میں تڑپ بڑھادیتے ہیں، ان محسوسات کو لفظوں کا جامہ پہنانا چاہئے ۔

ابھی مغرب کی نماز میں چند منٹ کی دیر تھی ، اللہ کے بندے مسجد نبوی کی طرف جوق درجوق بڑھ رہے تھے ، میں بھی ایک بڑے دروازہ سے مسجد میں داخل ہوگیا، چند قدم آگے بڑھا تو سامنے دوری اور بلندی پر گنبد خضرا ء نظر آرہا تھا ، میںرک گیا، ایک نوجوان سادہ سے کپڑے میں وہاں کھڑا تھا ، بڑے انہماک، بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ اس کی نگاہ گنبد کی بلندیوں پر تھی اور دل میں حب نبوی کا سرمایہ تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو بے تابانہ نکلے چلے جارہے تھے ، میں اس نوجوان کے پیچھے کھڑا ہوگیا،تاکہ آنے والی بھیڑ کے دھکوں سے وہ محفوظ رہے ، اس کی یکسوئی میں خلل نہ آجائے، وہ گرد وپیش سے بالکل بے نیاز سراپا عجز ونیاز زیر لب کچھ گنگنا بھی رہا تھا، اس کی کیفیت نے دل پر گہرا اثر ڈالا، ایسا لگا جیسے قدم بندھ گئے ہوں، یہ بندش اس ارادت و عقیدت کی تھی ، جس کے گھیرے میں کروڑوں انسان ہیں اور جس کا سرا گنبد والے آقا تک جا پہونچا ہے۔ کیفیت گہری ہوتی گئی ۔ کتنا بڑا دربار ہے یہ، کیسی بلندیاں ہیں اس کی ، کتنی عظمت وشفقت ہے اس میں ، الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ، الصلوٰ والسلام علیک یا خیر خلق اللہ ، ادھر کتنی عظمتیں ہیں،اِ دھر کتنی پستیاں ہیں، ایک طرف روشن آفتا ب، دوسری طرف ذرہ بے نور ، پھر بھی نسبتوں نے ذروں کو چمک دمک اور زندگی کی رمق بخش دی ہے____ ذراکان لگایاتوبڑی دلگیر آواز میںبڑے ادب واحترام کے ساتھ وہ نوجوان ہدیہ عقیدت پیش کررہا تھا، اس کے الفاظ دل میں اتر تے جارہے تھے ، اس کی آواز ہر نقش ماسوا سے مجھے بے پروا کررہی تھی ۔​
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہونچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہونچا​
 
Top