کس دل به اختیار به مهرت نمی‌دهد
دامی نهاده‌ای که گرفتار می‌کنی
(سعدی شیرازی)

کوئی بھی قصداََ دل تیری محبت میں نہیں دیتا۔ تو نے کوئی دام (جال) بچھایا ہوا کہ تو گرفتار کرلیتا ہے۔
 
تا من سماع می‌شنوم پند نشنوم
ای مدعی نصیحت بی‌کار می‌کنی

(سعدی شیرازی)
اے مدعی! جبکہ میں سماع سنتا ہوں (اور) نصیحت نہیں سنتا، تو مجھے بےکار نصیحت کرتا ہے
 
دیوارِ کج نتیجه‌ی کج‌بینیِ شماست
عیب از چگونگیِ صفت‌های خشت نیست!

(فردوسِ اعظم)

ٹیڑھی دیوار (درحقیقت) آپ کی کج‌بینی کا نتیجہ ہے (ورنہ) خِشت(اینٹ) کی صفتوں کی حالت و کیفیت میں عیب نہیں ہے!
 
بی‌عشق چار فصلِ خدا فصلِ مردن است
اصلاً دلیل گرمیِ روز آفتاب نیست!

(فردوسِ اعظم)

عشق کے بغیر خدا کے چار موسم مرنے کے موسم ہیں۔ دراصل دن کے گرم ہونے کی دلیل آفتاب نہیں ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
بهاران را از آن رُو دوست می‌دارم که این موسِم
شباهت گونه‌ای دارد به ایّامِ جوانی‌ها

(میرزا داراب جویا کشمیری)
میں بہاروں کو اِس لیے محبوب رکھتا ہوں کیونکہ یہ موسم ایّامِ جوانی کے ساتھ ایک طرح سے شباہت رکھتا ہے۔
 
محمود بوسه می‌زد پای ایاز و می‌گفت
بنگر چه می‌کند عشق سلطان محتشم را

محمود ایاز کے پاؤں کو بوسہ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ دیکھ لو عشق سلطانِ بزرگ کو کیا کردیتا ہے

بر تخت‌گاه شاهی آسوده کی توان شد
بگذار تاج کی را، بردار جام جم را
(فروغی بسطامی)

شاہی تخت گاہ پر (براجمان رہ کر) راحت کب حاصل ہوسکتی ہے. تاجِ کیانی کو چھوڑو اور جمشيد کے جام کو لے لو.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جس کو فارسی شاعری کی بحروں اور آہنگ سے ذرا بھی آشنائی ہے، اُس کو یہ سمجھنے میں مشکل نہ ہو گی۔
سندھی میں نُونِ غُنّہ کی آواز ہے، لیکن رسم الخط میں اُس کے لیے کوئی جداگانہ علامت نہیں ہے۔ جبکہ فارسی میں نُونِ غُنّہ کی آواز ہی نہیں ہے۔
اسے ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ :
فارسی کلام و تلفظ میں نون کی خاصیت ہے کہ وہ حروف مد (الف و اور ی ) کو بسا اوقات اپنے اندر جذب کر لیتا ہے جبکہ اردو کے نطق و تلفظ کا مزاج یوں ہے کہ یہی حروف مد واضح اور ظاہر رہتے ہیں اور نون کو شعری اور بحری آہنگ سے مطابق کرنے کے لیے غنہ کردیا جاتا ہے جس کی بنیادیں اردو اور فارسی میں یکساں ہیں ۔اس طرح شعر اور بحر کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں ۔ یہ بات اردو اور فارسی شاعری کے مطالعے سے خوب واضح ہو جاتی ہے ۔
 

حسان خان

لائبریرین
او ز شورِ گریهٔ من شد به خواب
خواب می‌آرد بلی آوازِ آب

(میرزا داراب جویا کشمیری)
وہ میرے گِریے کے شور سے نیند میں چلا گیا۔۔۔ ہاں! آب کی آواز نیند لاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
لب‌ریزِ مِهرِ ساقیِ کوثر بُوَد دلم
شُکرِ خدا که صافِ محبّت به جامِ ماست

(میرزا داراب جویا کشمیری)
میرا دل ساقیِ کوثر کی محبّت سے لبریز ہے۔۔۔ خدا کا شُکر کہ ہمارے جام میں محبّت کی بے غش شراب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
این دلِ غم‌دیده حالش بِه شود دل بد مکن
وین سرِ شوریده باز آید به سامان غم مخور

(حافظ شیرازی)
اِس دلِ غم دیدہ کا حال بہتر ہو جائے گا، دل بد مت کرو!۔۔۔ اور یہ سرِ شوریدہ و پریشان حال دوبارہ ترتیب و آرام و قرار پا لے گا، غم مت کھاؤ!

× نُسخوں میں مصرعِ اوّل کا یہ متن بھی نظر آیا ہے:
ای دلِ غم‌دیده حالت بِه شود دل بد مکن
ترجمہ: اے دلِ غم دیدہ، تمہارا حال بہتر ہو جائے گا، دل بد مت کرو!
 

حسان خان

لائبریرین
جدا گردان ز تن جانش خدایا
مرا هر کس که از جانان جدا کرد

(شاه شُجاع دُرّانی)
اے خدا! جس بھی شخص نے مجھ کو جاناں سے جُدا کیا، تم اُس کی جان کو تن سے جُدا کر دو!
ایک دوست نے مندرجۂ بالا فارسی بیت کا یہ منظوم ترجمہ کیا ہے:
کیا جس نے مجھے مہجورِ جاناں
خدایا اُس کی جاں، تن سے جدا کر

(حادث صلصال)
 

محمد وارث

لائبریرین
بروں آ از در و دیوانہ گرداں ہوشیاراں را
ولیکن خسروِ دیوانہ را دیوانہ تر گرداں


امیر خسرو

دروازے (پردے) سے باہر آ اور ہوشیار و عقلمند لوگوں کو (اپنا جلوہ دکھا کر) دیوانہ بنا دے، اور خسرو دیوانے کو (جو پہلے ہی تجھے دیکھ کر دیوانہ ہو چکا ہے) دیوانہ تر بنا دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رسد هر دم به سمْعِ دل ندایی
که از دنیا نبیند کس وفایی

(عماد فقیه کرمانی)
دل کے کان کی طرف ہر دم اِک ندا آتی ہے کہ: کوئی [بھی] شخص دُنیا سے ذرا وفا نہیں دیکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
غم چو نبْوَد از غمِ عشقت به عالَم صَعب‌تر
شد یقین این هم که نبْوَد نیز غم‌ناکی چو من

(امیر علی‌شیر نوایی)
جب عالَم میں تمہارے عشق کے غم سے زیاہ دُشوار غم نہیں ہے تو یہ بھی یقینی ہو گیا کہ میرا جیسا کوئی غم ناک بھی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خرابِ بادهٔ عشقت ز ننگِ عقل بری
اسیرِ حلقهٔ زُلفت ز دامِ قید خلاص

(محمد فضولی بغدادی)
جو شخص تمہارے عشق کی شراب کا بدمست ہے، وہ عقل کی بدنامی و شرمساری سے بَری ہے۔۔۔ جو شخص تمہاری زُلف کے حلقے کا اسیر ہے، وہ قید کے دام (جال) سے خلاص ہے۔
 
سخت است بی‌تو دیدنِ باران برایِ من
امشب چه قدْر از غمت آسان دلم گرفت
(فردوسِ اعظم)

تیرے بغیر باراں کا دیکھنا میرے لئے سخت و دشوار ہے۔ امشب تیرے غم سے میں کس قدر آسانی سے غمگین ہوگیا!
 
شرابم آشکار ده که مردِ ترس نیستم
به حفظِ کشتِ عمرِ خود کم از مترس نیستم
(قاآنی شیرازی)

مجھے شراب سرِعام دے کہ میں خوف زدہ آدمی نہیں ہوں۔ میں اپنی کِشتِ عمر کی حفاظت کے لئے کسی مَتَرس سے کم نہیں ہوں۔

x مترس=کھیتوں میں پرندوں کو ڈرانے کے لئے ایک انسان نما پُتلا جو چوب، سنگ یا کپڑے سے بنا ہوتا ہے۔
xکِشت=کھیت
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سُلطان سلیم خان اوّل کی ایک بیت:
به راهِ عشقِ تو جانا بسی بلا دیدم
هنوز تا ز فراقت چه‌ها به راهِ من است

(سلطان سلیم خان اول)
اے جان! میں نے تمہارے عشق کی راہ میں کئی بلائیں دیکھیں۔۔۔ [اب دیکھتے ہیں کہ] تمہارے فراق کے باعث میری راہ میں ہنوز کیا کیا [بلائیں باقی] ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سُلطان سلیم خان اوّل کی ایک بیت:
دم از محبّتِ زُلفت زدم خطایی شد
ولیک عَفْوِ تو افزون‌تر از گُناهِ من است

(سلطان سلیم خان اول)
میں نے تمہاری زُلف کی محبّت کا دعویٰ کیا، [مجھ سے] اِک خطا ہو گئی۔۔۔ لیکن تمہاری مُعافی میرے گُناہ سے [کئی] زیادہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سُلطان سلیم خان اوّل کی ایک بیت:
ز دُودِ دل ورَقی نقش کرده‌ام سویت
قبول ساز که سرنامهٔ سیاهِ من است

(سلطان سلیم خان اول)
میں نے [اپنے] دل کے دُھوئیں سے ایک ورَق تمہاری جانب نقش کر [کے بھیجا] ہے۔۔۔ قبول کرو کہ وہ میرا سیاہ سرنامہ ہے۔
× سرنامہ = عُنوانِ نامہ
 
آخری تدوین:
Top