علامہ محمداقبال کے مجموعے (اسرار خودی) کی ایک منظوم حکایت

اپنی فطرت و عادت کو خیرباد کہنا

حکایت ھے کہ ایک چمن زار میں بھیڑوں کی بہت بڑی تعداد زندگی گزار رھی تھی۔ سبزے اور پانی کی بہتات سے وہ کھا پی کر خوب فربہ ھو گئے تھے اور زندگی بہت آسودہ تھی۔
ایک دن شیروں کے ایک غول کا وھاں سے گزر ھوا جو کئی دن شکار نہ ملنے کی وجہ سے بھوکے تھے۔ وہ ایسے پلے پلائے دنبے دیکھ کر اُن پر پل پڑے اور خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر وہ وھیں کے ھو رھے کیونکہ اِتنی آسانی سے شکار جنگل کے کسی اور حصّے میں ملنا ممکن نہ تھا۔ شکار کی اِتنی آسانی سے دستیابی نے آھستہ آھستہ شیروں کو کاھل کر دیا اور وہ سارا سارا دن سبزے پر پاؤں پسار کر لیٹے رھتے تھے اور جب بھوک لگتی تو ایک دنبہ شکار کر کے کھا لیتے تھے۔
دنبوں میں ایک عمررسیدہ اور گرم و سرد چشیدہ دنبہ بھی تھا۔ وہ فکر میں پڑ گیا کہ کیسے اپنی نسل کو مکمّل نابودی سے بچائے۔

بہرِ حفظِ خویش میشی ناتوان
حیلہ ھا جوید زِ عقلِ کاردان
(اپنی حفاظت کے لئے وہ ناتوان دنبہ
مختلف حیلے بہانے سوچنے لگا)

اُس نے سوچا کہ شیروں سے طاقت میں تو ھم جیتنے سے رھے، اُنہیں عقل کی مار مارنی پڑے گی۔
شیروں کے پاس جا کر کہنے لگا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات کہنے آیا ھوں جسے اگر تم سن کر اُس پر عمل کرو گے تو تمہاری زندگیاں سنور جائیں گی۔ بات دراصل یہ ھے کہ تم گوشت کھا کھا کر بہت سخت دل ھو گئے ھو اور دوسرے جانداروں پر تمہیں ذرا سا بھی رحم نہیں آتا۔ ھماری طرح اگر تم بھی گھاس کھانا شروع کر دو تو نہ صرف یہ کہ تمہارا جسم پاک ھو جائے گا بلکہ طبیعت میں بھی ایک انشراع پیدا ھو گا اور پھر تم بھی دنیا کو ھماری نظروں سے دیکھنے لگ جاؤ گے۔ امن سے جنگل کے دوسرے جانوروں کے ساتھ رھنے لگ جاؤ گے اور وہ تمہیں دیکھ کر تم سے دُور بھاگنے کی بجائے تمہارے ساتھ گھل مل جائیں گے۔

ای که می نازی به ذبحِ گوسفند
ذبح کن خود را که باشی ارجمند
(دنبوں کو چیر پھاڑ کر کھانے کی بجائے
اپنی خودی کو ذبح کرو تاکہ فتح مند ھو جاؤ)

شیروں کا وہ غول چونکہ کاھل ھو چکا تھا اور شکار کے پیچھے تھوڑی سی بھاگ دوڑ بھی اب اُن کی طبیعت پر بار گزرتی تھی۔ اُنہوں نے اُس نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ شیروں کو گھاس راس آ گئی اور آھستہ آھستہ اُن کی فطرت بدل گئی۔

از علف آن تیزئ دندان نماند
ھیبتِ چشمِ شرار افشان نماند
(گھاس کھانے سے نہ وہ دانتوں کی تیزی رھی
نہ اُن شرر افشاں نگاھوں کا رعب باقی رھا)

دل به تدریج از میانِ سینه رفت
جوھرِ آئینه از آئینه رفت
(دل سے وہ ولولے اور جوش رخصت ھوئے
آئینے سے اُس کا جوھر چھن گیا اور صرف شیشہ رہ گیا)

صد مرض پیدا شد از بی ھمّتی
کوته دستی، بی دلی، دُون فطرتی
(بذدلی نے اُن میں سینکڑوں امراض پیدا کر دیئے
کم طاقتی، بے دلی اور ذلیل فطرتی)

شیرِ بیدار از فسونِ میش خفت
انحطاط خویش را تہذیب گفت
(بیدار شیر بھیڑ کی لوری سے سو گیا
اور اپنی انحطاط کو تہذیب کا نام دے گیا)
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم عزیزم حسن !

پہلی بار آپ کی طفیل یہ حکایت میرےملاحظے سے گزری -سبق آموز ہے -جزاک اللہ

ایک دو باتیں عرض کروں گا-ایک تو یہی کہ تحریر جس کی ہے اس کا نام لکھ دیں پھر بیشک لکھ دیں ٹائپ میں نے کیا ہے -
دوسری بات اردو میں "ہ" الگ ہے اور "ھ" الگ -ان کے خلط ملط سے بعض مرتبہ قاری کو پڑھنے میں بہت الجھن ہوتی ہے بقول غالب :

اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے هائے

آخر میں ایک بار پھر شکریہ پیشکش کا -
 
شکریہ
ہائے اور ھائے کے فرق کو آیندہ نہیں ہونے دوں گا اور آپ کی اصلاح کا شکریہ

تحریر مجھ کو میرے ایک دوست کی ڈائری سے ملی تھی جو کہ میں نے اپنے پاس محفوظ کر لی تھی تقریباً 2 سال پہلے اور آج مری لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک صاحب سے ملاقات کے دوران آسرار خودی پر بات چیت کے دوران اس تحریر کے بارے میں یاد آیا تو ان کو بھی سنا دی اور محفل کی نظر بھی کر دی۔
 
Top