روحانی اقوال

دورانِ گفتگو ایک دن استادِ محترم مجھ سے پوچھنے لگے۔۔(ان کا سوال پنجابی میں تھا)۔۔
یار تمہاری علمی قابلیت کتنی ہے؟؟
(ان دنوں میں تازہ تازہ لٹریچر/Literature سے جڑا ہوا تھا، جوشیلے نوجوانوں کی طرح انگریزی کے الفاظ بولنا، مختلف انگریزی، یونانی فلاسفرز کا حوالہ دینا، میری گفتگو کا لازمی جزو ہوتا تھا )۔۔
میں بڑے فخر سے انہیں اپنی ڈگریاں/Degrees، سرٹیفیکیٹس/Certificates بتانا شروع ہو گیا۔۔
چہرے پہ مسکراہٹ لئیے بڑے تحمل سے میری بات سنتے رہے، میں فخریہ انداز سے بتاتا جا رہا تھا۔۔۔
"ماشاء اللہ۔۔ پھر تم تو بہت پڑھے لکھے ہوئے۔ ہیں نا؟؟ "
"اچھا یہ بتاوْ۔۔ ماں جی (مراد میری والدہ محترم) کتنی پڑھی لکھی ہیں؟؟"
میں نے عرض کیا کہ بالکل ان پڑھ ہیں۔۔
مسکرا کر کہنے لگے ۔۔ " تم نے ابھی جو جو تعلیم ڈگریاں بتائی ہیں، ان کا عملی استعمال کبھی کیا ہے؟؟ تم اگر والدہ محترمہ کو کوئی سائنسی تھیوری سمجھانا چاہو تو سمجھا دو گے؟؟
"نہیں سر۔۔"
"پھر کیا فائدہ تمہارے پڑھنے کا ؟؟" "تمہاری والدہ تو اس وقت بھی تمہاری بات سمجھ لیتی تھی جب تمہیں بولنا نہیں اتا تھا؟؟ اب تمہیں جتنا زیادہ بولنا آ گیا ہے،اتنی زیادہ تم ماں جی کو بات سمجھانے میں مشکل محسوس کرتے ہو؟؟ ہیں نا؟؟٫۔
جی سر۔۔۔
"علم کی تعریف بتاوْ، علم کہتے کسے ہیں؟؟" دوبارہ پیار سے پوچھنے لگے
میں نے ہمت کر کے وہی انگریزی زبان والی تعریف کہ "معلومات۔۔۔۔۔"۔۔
اب وہ کھل کھلا کر مسکرائے۔۔"اچھا یار ٹھیک ہے" پر بات کچھ جچی نہیں۔۔
دوبارہ فرمانے لگے
" گورے کی ایک عادت ہے جو اس کے خمیر میں ہے کہ چیزوں کو سیسٹیمیٹکلی/Systematically، سائنٹیفکلی/Scientifically دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کا عادی ہے، اسی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا ہے۔۔۔ ہم مسلمان اس کام میں پیچھے ہیں، ہمارے سمجھنے، سوچنے کا انداز مختلف ہے۔۔۔ گورا مارکیٹنگ/Marketing کرتا ہے، اس کا انداز مارکیٹنگ والا ہے، اس کی زبان کا انداز مارکیٹنگ والا ہے، چیزوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے،۔۔ مارکیٹنگ اانداز/Style/way ہے علم نہیں ہے۔۔۔
تم کیا بتا رہے تھے مینجمنٹ سائنسز۔۔۔ تمہارے سامنے اگر کوئی فریڈرک ونسلو ٹیلر/Frederick Winslow Taylor ،ہینری فائیل/Henri Fayol کا نام لے، اس کی بات پیش کر دے تو اسے اتھارٹی/Authority سمجھ لو گے۔۔ اگر کوئی تمہارے سامنے ان انگریزی الفاظ کی بجائے مولانا رومی، غالب، واصف علی واصف ، اشفاق احمد کی بات کا حوالہ دے تو تم اسے کوئی اتھارٹی نہیں سمجھو گے اسے محض ایک روحانی سکالر، شاعر کی بات سمجھو گے؟؟ ایسا ہے نا؟؟
"انسانی رویوں پہ بات ہو اگر کوئی پنجابی میں تمہیں، سادہ زبان میں، یا اسلامی طرزِ معاشرت سے کوئی مثال دے دے تو تم اسے محض ایک بات، عام سوچ کی بات کہو گے، اگر وہ تمہارے سامنے ویہلم ونت/Wilhelm Wundt، سیگمڈ فرائیڈ/Sigmund Freud کا نام لے کر کہے تو تم اسے سمجھو گے کہ واقعی علمی بات کہی۔۔۔"
"ایسا ہی ہے نا؟؟"
" جی سر"
"اقبال یا غالب رحمت اللہ علیہ اگر کہیں کہ ذرہ کائنات تباہ کر سکتا تو تم سمجھو گے کہ شاعر نے دور کی چھوڑی ہے، آئین سٹائیں/Einstein اسے سائنسی انداز میں ثابت کردے تو تم اسے تسلیم کر لو گے۔۔ اور من و عن مانو گے۔۔"
جانتے ہو گورا رومیؒ سے کیون عقیدت رکھتا ہے؟؟ "
میں دھیان سے ان کی باتیں سن رہا تھا، بس سر ہلا کر "نہ" کا اشارہ کیا
" اس لئیے کہ وہ جانتا ہے جس مقام پہ رومی کھڑا ہے اس نے کوئی قیاسی بات نیں کہی ہے۔۔ اس کی وسعتِ نظر آسمان سے بھی پرے ہے۔۔"
"محض الفاظ سیکھ لینا، بول چال سیکھ لینا علم نہیں ہے میرے بچے۔۔۔ کسی کو بول چال کا ڈھنگ آ گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صاحبِ علم بھی ہے۔۔۔ اس نے صرف الفاظ سیکھے ہیں، علم نہیں۔۔ کوئی اگر بہتر گفتگو کرنا جانتا ہے تو اسے الفاظ کے استعمال کا فن آتا ہے۔۔۔ ، وہ اپنی بات کی اہمیت دو چار انگریزی الفاظ سے بڑھا دیتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے علم کے معاملے میں خالی ہو۔۔۔"
" ایک عام پنجابی، سندھی، یا اپنی مادری زبان بولنے والا اس عالم سے کہیں بہتر ہے جو اپنی علمی بات کم علموں کو نہیں سمجھا سکتا، ۔۔ تعلیمی اسناد، صرف رسیدیں ہوتی ہیں ، رسیدوں سے آپ کسی بابو ٹائپ بندے کو ہی متاثر کر سکتے ہو، ۔۔ایک دیہاتی کے لئے وہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" گفتگو سادہ رکھو ، جو بات کہو، جو سمجھانا چاہو، اپنے اندر سوچو کہ آیا تمہیں خود اس بات کی پوری سمجھ بھی ہے یا نہیں؟؟ جب تک تمہیں خود پوری سمجھ نہ ہو تم بات سمجھا کیسے سکتے ہو۔۔۔ " "جب خود تمہیں کسی بات کی مکمل سمجھ ہو گی تب تم اپنے ان پڑھ لوگوں کو بھی سمجھا سکتے ہو۔۔۔"
استادِ محترم یہ سب باتیں پنجابی زبان میں کہہ رہے تھے اور میں ہکا بکا تھا۔۔۔
" پہلے یہ ضرور سمجھ لینا کہ سامنے والا کس ذہنی معیار کا ہے۔۔ اسے اس کے مقام پہ جا کر بات سمجھائی جاتی ہے۔۔ اسے خود کے معیار پہ لانے کے لئے ہو سکتا تمہاری یا اس کی عمر صرف ہو جائے۔۔ لہٰذا بات کا حسن ہے کہ سامنے والے کے علمی معیار پہ آ کر بات کی جائے"
"گفتگو میں سادہ زبان استعمال کرو ۔۔ اس مین تمہارے لئے آسانی ہو گی کہ سبھی تمہاری بات سمجھ سکیں گے اگر گفتگو مشکل الفاظ میں کی تو لوگ تمہاری بات سمجھنے کی بجائے تمہیں خبطی کہیں گے ، شوخا کہیں گے۔۔۔"
"ہمیں لوگ کو متاثر نہیں کرنا۔۔۔ اللہ کے عطا کئیے ہوئے علم سے فیض دینا ہے نہ ہمیں خود کو منوانا ہے ۔۔ منوانے کے لئے تو پھر بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں"

توقف لے کر دوبارہ فرمانے لگے

" معلومات کے بارے میں دعویٰ ہو سکتا ہے کہ مکمل، یا ساری معلومات ہیں۔۔ علم لا محدود ہے، اس کے بارے میں میں دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ میں نے لا محدود کا احاطہ کر لیا ہے۔۔ واصف صاحب فرماتے ہیں کہ کہ علم ایک سفر ہے۔۔معلوم سے نا معلوم کا سفر،،، بڑے سے بڑا فلاسفر بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا، بڑے سے بڑا سائنسدان بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کا علمی سفر ختم ہو گیا، یا وہ منزل پہ پہنچ گا ہے۔۔ کیونکہ یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔۔۔ البتہ اس نے رستے میں پڑاوْ کئے ہیں، میٹرک ، اے لیول، گریجوایشن، ماسٹر، ایم فل، ڈاکٹریٹ۔۔۔ یہ سب اس کے عارضی پڑاوْ ہیں۔۔۔ ڈاکٹریٹ پہ تو اس کے سفر کا اصل آغاز ہوا ہے۔ ۔کیونکہ ابھی اس کے پاس زادِ راہ کافی ہے"۔۔۔
" سادگی میں پائیدار حُسن ہے۔۔۔ سادہ بندہ ہر جگہ فِٹ ہو جاتا ہے، مسئلہ تو اس کے لئے ہو تا ہے جو اس طریق کا عادی نیں ہوتا۔۔۔ "

"اگر تو تمہارے گرد سب لوگ ان مشکل الفاظ، اس مشکل زبان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو بے شک انہی کے لب و لہجہ میں بات کرو۔۔ اگر کثیر تعداد سادہ لوگوں کی ہے تو پھر سادہ لب و لہجہ۔۔ وہ سبھی کو سمجھ آ جائے گا۔۔"

پیار سے میری پیٹھ تھپک کر کہنے لگے " یہ لو اب چائے پیو اور یہ باتیں پلے باندھ لینا کام آئیں گی"

میں بیٹھا سوچتا ہی رہا کہ واقعی زبان سادہ ہو تو ہم یہی سمجھتے ہی کہ " بندہ ایویں ہی ہے۔"۔۔ یہ نہیں سمجھ ہوتی کہ وہ ان مغربی فلاسفروں سے بہت اوپر کی چیز ہے۔۔ لا علمی دراصل ہماری اپنی ہوتی ہے، جہالت دراصل ہمارے اندر ہوتی ہے۔۔ ہمارے اندر کی کج فہمی، ہمارے اپنے ذہن کا فتور۔۔ یا پھر ہمارے اپنے اندر کا میل غلاظت۔۔

حسن منصوری
 

سلیم مہمند

محفلین
نفس وہ کتا ہے جو انسان سے غلط کام کروانے کیلئے اس وقت تک بھونکتا رہتا ہے جب تک وہ غلط کام نہ کر والے اور جب انسان وہ کام کرلیتا ہے تو یہ کتا سو جاتا ہے لیکن سونے سے پہلے ضمیر کو جگا دیتا ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ
 
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد آٹھ حصوں پر ہے۔ سخاوت، رضا، صبر، اشارہ، غربت، گدڑی، سیاحت، فقر یہ آٹھ خصلتیں آٹھ نبیوں کی ہیں۔

٭ سخاوت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیونکہ آپ نے فرزند کو قربان کیا۔

* رضا حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کیونکہ بوقت ذبح اپنی رضا دی اور اپنی جان عزیز کو بارگاہ خداوندی میں پیش کیا۔

* صبر حضرت ایوب علیہ السلام سے کہ آپ نے بے حد غایت مصائب پر صبر فرمایا اور خدا کی فرستادہ ابتلا و آزمائش پر ثابت قدم رہے۔

* اشارہ حضرت زکریا علیہ السلام سے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا "آپ نے تین دن اشارے کے سوا لوگوں سے کلام نہ کیا" اور اسی سلسلے میں ارشاد ہے کہ انھوں نے اپنے رب کو آہستہ پکارا۔

*غربت حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کہ وہ اپنے وطن میں مسافروں کی طرح رہے اور خاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔

* گدڑی یعنی صوف کا لباس حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہ انھوں نے پشمینے کپڑے پہنے۔

* سیاحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آپ نے وہ تنہا مجرد زندگی گزاری اور بجز ایک پیالہ اور ایک کنگھی کے کچھ پاس نہ رکھا۔ جب انھوں نے کسی کو دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتے دیکھا تو پیالہ توڑ دیا اور جب کسی کو انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے دیکھا تو کنگھی بھی توڑ دی۔

* اور فقر سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے کہ جنھیں روئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عنایت فرما دی گئیں تھیں اور ارشاد ہوا کہ آپ خود کو مشقت میں مت ڈالیں بلکہ آپ ان خزانوں کو استعمال کریں اور آرائش اختیار کریں لیکن بار گاہ الٰہی میں آپ نے عرض کیا "اے اللّٰہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں۔

.. اقتباس از "کشف المحجوب" از حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
 
Faisal Khan .
عورت عشق میں موحد ھے ۔۔توحید پرست ھے ۔۔اسے اپنے عشق کیلیے صرف ایک قبلہ چاھیے جس کا وہ طواف کرسکے جس پہ وہ اپنے سجدے نچھاور کرسکے جس کے عرفات دل میں وہ وقوف کرے اور منی میں اپنے تن من دھن کو قربان کرسکے ۔۔۔شاید اسی لیے برصغیر کے بالعموم اور پنجاب کے بالخصوص صوفیاء نے خود کو عورت سے تشبیھہ دے کر اپنے محبوب سے شکوے ۔ وصل وفرقت کے تقاضے اور انکی کیفیات سے خود کو مزین کیا ھے ۔۔
تصوف کی تاریخ کا یہ بھی اک بہت بڑا راز ھے کہ پنجابی اور ھندی صوفی شاعری میں عورت عاشق ھے اور مرد معشوق ۔۔جبکہ عربی صوفی شاعری میں مرد عاشق ھے اور عورت معشوق جبکہ فارسی شاعری میں مرد عاشق ھے اور امرد معشوق ۔۔۔ان تینوں خطوں میں تصوف نے تین ھی رنگ اختیار کیے ھیں ۔۔صوفیاء کے نزدیک عورت احدیت جمعی کی تجلی ھے اور مرد وحدت کا مظھر ۔۔اور امرد واحدیت کا عرش ۔۔۔
پہلے رنگ میں احدیت یعنی تنزیہ وحدت یعنی تشبیھہ پہ عاشق ھوئی ھے ۔۔جبکہ دوسرے رنگ میں تشبیھہ نے تنزیہ پہ خود کو وارا ھے ۔۔۔جبکہ تیسرے رنگ میں تشبیھہ اور تنزیہ اک دوجے میں ایسی فنا اور مستغرق ھوئیں کہ دونوں رنگ غائب بھی ھیں اور موجود بھی ۔۔۔
حال سے مزین صوفی عورت کے روپ میں حسن مطلق کے مکمل حسن کو ملاحظہ فرماتا ھے ۔۔کلام اللہ میں حق تعالی نے سورہ یوسف کو احسن القصص ارشاد فرمایا ۔۔نحن نقص علیک احسن القصص ۔۔۔اے محبوب ھم تمھیں سب سے احسن قصہ سناتے ھیں ۔۔۔اللہ جل مجدہ نے اسے قصہ فرمایا ۔۔کیونکہ عشق کے قصے ھی ھوتے ھیں ۔۔اور یہ قصے لازوال ھوتے ھیں ۔۔جس عشق کے قصے کو زوال کا گرھن لگ جاے سمجھ لو ھوس ھے ۔۔اور ھوس بھی اک قسم کا عشق ھی ھے مگر صرف جسمانی عشق ۔۔۔ایسا عشق جو جسم سے پار جانے کوتیار نھیں ۔۔اسی لیے نکاح کو نصف ایمان کہا گیا ۔۔کیونکہ نکاح میں جماع لازم ھے ۔۔۔گرچہ عشق نہ ھو ۔۔نکاح نصف ایمان ھے کیونکہ نکاح جماع جسمانی کو مستلزم ھے ۔۔اس پر مال اور دگر حقوق لازم آتے ھیں ۔۔وراثت ملتی ھے ۔۔نام ملتا ھے ۔۔نکاح محض نکاح ھے ۔۔اس میں مادیت ھے جسمانیت ھے ۔۔مگر اگر اس میں روح شامل ھوجاے ۔۔عشق ھوجاے تو پھر یہ نصف ایمان نھیں رھتا ۔۔یہ مکمل ایمان بلکہ جان ایمان بن جاتا ھے ۔۔۔جب مرد یا عورت کو آتش عشق ھست سے نیست کردے ۔۔۔تو ناسوت لاھوت میں بدل جاتا ھے ۔۔۔کیا تم نھیں جانتے کہ وہ جو جان کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں ان پر سیدہ طیبہ طاھرہ عائشہ صدیقہ کے لحاف میں وحی اترتی تھی ۔۔۔
صوفیوں پہ وحی نھیں اترتی ۔۔۔کیونکہ وحی کے دروازے بند ھوچکے ۔۔صوفیوں پہ الہام اترتے ھیں ۔۔۔قصہ ھیر لکھنے کیلیے وارث شاہ کو کوئی بھاگ بھری چاھیے ۔۔شاہ عبداللطیف کو کوئی سیدزادی ۔۔جس کے حسن میں ناسوت لاھوت میں بدل جاے اور انکے دل پہ عشق کی واردات وکیفیات کا نزول ھوسکے ۔۔
وارث شاہ نے جب تک بھاگ بھری کے ھونٹوں کو قاب قوسین ۔۔آنکھوں کو لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار ۔۔گالوں پہ قدوسیت وسبوحیت ۔۔۔اور جبین ناز پہ لاھوت کی چاندنی کا مشاھدہ نہ کرلیا تب تک ھرگز قصہ عشق نہ چھیڑا ۔۔۔
جواب ھیر با قاضی
قالوا بلی دے دن نکاح پڑھیا روح نبی دی آن پڑھایا ئے
قطب ھووکیل وچ آن بیٹھا حکم رب نیں آن کرایائے
جبرائیل میکائیل گواہ چارے عزرائیل وی آیائے
اگلا توڑ کے ھوڑ نکاح پڑھنا آکھ رب نیں کدوں فرمایائے
تحریر:فیصل خان
 
اے رشک ِ گل انداماں ، اے پیکر ِ رعنائی
تتلی تری دیوانی ، بلبل ترا شیدائی

تُو حسن کی دیوی ہے ، یا روپ کی شہزادی
پُنّوں ترے پروانے ، سسیاں تری سودائی

تو ناز ِ غزالاں ہے ، یا جان ِ بہاراں ہے؟
لیلٰی بھی تری خواہاں ، مجنوں بھی تمنائی

رانجھے بھی ترے نوکر ، ہیریں بھی تری چاکر
مہینوال بھرے پانی ، سسی کرے ستھرائی

ہم نے تری الفت میں ، اشعار جونہی لکھے
فرہاد نے سنگت کی ، شیریں نے غزل گائی

کیا مہر و مہ و انجم ، کیا برگ و گل و لالہ
سب تیری بلائیں لیں ، اے موجہء زیبائی

تو خلد سے آئی ہے؟ کُہقاف میں رہتی ہے؟
حوروں سے تری یاری ، پریوں سے شناسائی

رنگین ترا آنچل ، بانہوں میں جو لہرایا
جھٹ قوس ِ قزخ آئی ، تعظیم بجا لائی

ہر پھول ترے صدقے ، ہرشاخ ترے قرباں
ہر گوشہء گلشن میں ، ہے تیری پذیرائی

آنکھیں تری بادامی ، اور چال ہے مستانی
آہوئے حرم ہے تُو ، یا ناقہء صحرائی

کس حسن کے سانچے میں رب نے تجھے ڈھالا ہے
نظّارہ کرے گل بھی ، بھونرا بھی تماشائی

ہم بھی ہیں ترے طالب ، بخش ایک نظر گاہے
اے مست ِ مےء ہستی ، اے محو ِ خود آرائی

آواز تری سن کر ، جان آئے مری جاں میں
ہے تیرے تکلم میں ، تاثیر ِ مسیحائی

تو مکتب ِ خوباں ہے ، جاری ہے ترا فیضاں
پھولوں نے ادا سیکھی ، کلیوں نے حیا پائی

جس نے تجھے دیکھا ہے ، میں دیکھتا ہوں اُس کو
لگتا ہے کہ آنکھوں میں ، تصویر اُتر آئی

شمعیں بھی جلائی ہیں ، کلیاں بھی سنواری ہیں
اے جان ِ غزل آ جا ، دیکھ انجمن آرائی

ہر چند کہ دل چاہے ، باتیں میں کروں تجھ سے
پر تیرے حضور اپنی ، ہوتی نہیں شنوائ

تیرے ہی لئے کی ہے ، ناصر نے یہ گلکاری
کچھ قافیہ پیمائی ، کچھ حاشیہ آرائی


شاعر: فیض الحسن ناصر
 
آخری تدوین:

رباب واسطی

محفلین
اپنےسےبڑےکی عزت کروکہ اسکی نیکیاں تم سےزیادہ ہیں
اپنےسےچھوٹےکی عزت کروکہ اسکےگناہ تم سےکم ہیں
حضرت علی ہجویری (داتا گنج بخش) رح
 
*اصلاح نفس کے چار اصول ہیں:*
*1- "مشارطہ"*
اپنے نفس کیساتھ"شرط" لگانا کہ"گناہ" نہیں کروں گا-
*2- " مراقبہ"*
کہ آیا "گناہ" تو نہیں کیا-
*3- "محاسبہ"*
کہ اپنا حساب کرے کہ کتنے "گناہ"کیے اور کتنی "نیکیاں" کیں-
*4- "مواخذه"*
کہ"نفس" نے دن میں جو "نافرمانیاں" کیں ہیں اس کو ان کی"سزا" دینا اور وہ سزا یہ ہے کہ اس پر "عبادت" کا بوجھ ڈالے-
(امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔ احیاء علوم الدین)
مندرجہ بالا اصلاح نفس کے اصولوں کا لب لباب مندرجہ ذیل ہے
1)هرصبح نفس کے ساتهہ شرط لگائی جائے کہ آج دن بهر گناه نہیں کروں گا.....
2) دن بهر اپنی نگرانی رهے کہ گناه نہ ہوجاے.
3) رات کو سونے سے پہلے تنہائی میں دن بهر کا جائزه لیا جائے کہ کیا غلط ہوا اور کیا اچها ہوا ......
4) جوغلط ہوا اس پر شرمندگی کے ساتھ استغفار کرلے اور جو اچها کیا اس پر خوب اللہ تعالی شکر کرے.....
 
ﺧُﺪﺍ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﯽ ﮐُﭩﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺑﺎ ﺧُﺪﺍ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩُﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﮐﭧ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻧﺸﯿﻦ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
۔
ﺩﺭﻭﯾﺶ ﯾﮧ ﺳُﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺑِﯿﭩﺎ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺻﺮﻑ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﮐُﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ، ﯾﮧ ﺻﺤﺖ، ﯾﮧ ﻣﺎﻝ، ﯾﮧ ﻋﺰﺕ، ﺳﺒﮭﯽ ﭘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺻﺮﻑ ﺗُﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﻣﺘﺎﻉ ﮨﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﻟﻠﮧُ ﺳُﺒﺤﺎﻧﮧُ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺑﮯﺣﺪ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﻋﻘﻞ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺩﻭﮌﺍﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺩُﮨﺮﺍﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﭘﻠﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﺑﮍﮮ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺑﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﻣﯿﮟ ﺑُﮩﺖ ﮐﻢ ﻓﮩﻢ ﮨﻮﮞ ﺍﻥ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﺗﻮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺷﺎﺋﺪ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻧﺎ ﮐﮧ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺴﮑﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮑﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺣﺪ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ -
ﺍُﺱ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﯿﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭ ﺯﺍﻧﻮﮞ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﺬﺏ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺗﺐ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻋﻘﻞ ﺩﯼ ﭘﺮﮐﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ، ﺷﻌﻮﺭ ﺩﯾﺎ ﺧﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺷﺮ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ، ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﺋﯿﻦ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍِﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺮ ﮐﺎ ﺭﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎﺋﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺷﺮ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﭼﻠﮯ، ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﯿﻨﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮔُﻤﺎ ﻟﮯ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮩﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ، ﯾﮩﯽ ﭼﺎﮨﺖ، ﯾﮩﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺘﺎﻉ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﯾﮩﯽ ﭼﺎﮨﺖ، ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ، ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮﺩﮮ ﺗﺠﮭﮯ ﺧُﺪﺍ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗُﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺭُﺥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺗُﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺻﺤﺮﺍﺅﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﺎﻧﻨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ ﺗﺠﮭﮯ ﺧُﺪﺍ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﯿﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﺷﮩﮧ ﺭﮒ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﯾﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﭘﺎﻟﮯ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﺗﭙﺶ ﺍﺳﻘﺪﺭ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﯾﺎ ﺗﺠﮭﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯽ ﺁﺗﺶ ﺍﺱ ﺑﮭﯿﮍ ﺳﮯ ﺳﺮﺩ ﭘﮍﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ﺗﺐ ﺟﻨﮕﻞ، ﭘﮩﺎﮌ ، ﺩﺭﯾﺎ ﺳﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺗﻮ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻟﮯ ﮔﺎ -
ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮧ ﺁﺳﺎﻥ ﺭﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑُﮩﺖ ﮐﭩﮭﻦ ﺭﺍﮦ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺭﺍﮦ ﭘﮧ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﺱ ﺭﺍﮦ ﭘﮧ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ ﺳﮯ ﻟﮍﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻦ ﺳﮯ ﻟﮍﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﺑَﭽّﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻮﭺ ﻟﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺑُﺖ ﮐﻮ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ، ﺍﻧﺎ ﮐﮯ ﺟﺎﻡ ﮐﻮ ﺑﮩﺎﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ، ﮔﺎﻟﯽ ﺑﮑﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺧﻨﺪﮦ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻣِﻠﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺗُﮩﻤﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﻣﻠﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ، ﻧﺮﻡ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﻃﻼﻕ ﺩﯾﻨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ، ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﭘﮑﻮﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﻣﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﭘﺮ ﻗﻨﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣُﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺻﺮﻑ ﻣُﺤﺒﺖ۔
ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﻔﺮﺕ، ﻏﺼﮯ، ﺣﺴﺪ ﮐﮯ ﺁﺗﺶ ﮐﺪﮮ ﭘﺮ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ﮐُﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺧُﺪﺍ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍُﺳﮑﺎ ﺍﻣﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺖ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩِﯾﺎ، ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﺳﯽ ﮐﻮ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﯾﺎ، ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﺍﻭﯾﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺑﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﮨﺮ ﻟﻤﺤﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻤﻞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﻋﻤﻞ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﻣُﻄﺎﺑﻖ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﻣُﻄﺎﺑﻖ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻭﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﻧﺮﻡ ﻭﮔﺮﻡ ﺑﺴﺘﺮ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟُﺪﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺒﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺎﻝ ﺗﯿﺮﯼ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﯾﮧ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺎﻝ ﺟﻮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺤﻨﺖ ﺳﮯ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﺩﮮ -
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺳﺨﺖ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺌﮯ ﯾﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺑُﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻟﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺭﻭﺯﮦ ﺩﺍﺭ ﺭﮨﮯ، ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺨﺖ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﻧﮧ ﭼُﮭﻮﺋﮯ ﺗﺒﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺍُﺳﯽ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺟﺎﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﺿﻮ ﮐﺮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻘﺎﺿﮧ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺗﻨﮩﺎ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﺎﻥ ﻣِﭩﺎﻟﮯ ﺗﺒﮭﯽ ﺍُﺳﮑﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺩُﮐﮫ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﺟﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺩُﮐﮫ ﺩﺭﺩ ﮐﻮ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻔﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﻣُﻨﮧ ﻧﻮﭺ ﻟﮯ ﺗﺒﮭﯽ ﺍُﺳﮑﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﮯ، ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻔﺴﺎﻧﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑُﻼﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﺗﻘﺎﺿﮧ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳِﻮﺍ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮯﻧﯿﺎﺯ ﮨﻮﺟﺎ، ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ، ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮨﮯ ﺟِﺲ ﭘﺮ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺑﻨﺪﮦ ﺧُﺪﺍ ﮐﻮ ﭘﺎﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ -
ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍِﺱ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮫ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﻮ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮐﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺍﺳﻘﺪﺭ ﺩُﺷﻮﺍﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺍﺱ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﮑﺎﻟﯿﻒ ﭘﺮ ﺻﺒﺮ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮐﺮ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮨﯽ ﺳﺮ ﮐﺮﭘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺮ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﮨﯽ ﭘﮩﻨﭻ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﺷﺎﺋﺪ ﺗُﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺻﻌﻮﺑﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺻﺒﺮ ﮐﻮ ﻋﺎﺩﺕ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﺍُﺳﮑﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ ﭘﺎﻟﮯ ﮔﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﺫﯾﺎﺩﮦ ﺁﺳﺎﻥ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ - ﺑُﻮﻝ ﭼﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﮔﺎ ﺍِﺱ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺯِﯾﺮِ ﻟﺐ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﻓﻀﻞ ﻣﺠﮫ ﮔُﻨﮩﮕﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﮨُﻮﺍ ان شاءاللہ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺁﺝ ﺷﺎﻋﺮ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﮐُﭽﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑُﮩﺖ ﻟُﻄﻒ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ -
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بَنّوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا
 
"..ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ.."

ﺍﺷﻔﺎﻕ ﮐﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﭼﺴﮑﮧ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﮐﺮﻭﺏ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ چھیری ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ "ﺍﮮ ﻣﯿﺎﮞ.! ﺗﻢ ﭼﻮﮨﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ.؟ ﺩِﮐﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﭼﻮﮨﮍﮮ ﮨﻮ.؟"
ﻭﮦ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ، ﺑﻮﻻ "ﺑﺎﺑﻮ ﺟﯽ.! ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﮨﻮﮞ، ﭼﻮﮨﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔"
"ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ، ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺟﺪﯼ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ.؟" ﺍﺷﻔﺎﻕ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
"ﺟﯽ ﻧﮩﯿﮟ.!" ﻭﮦ ﺑﻮﻻ "ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﺪﯼ ﮐﺎﻡ نہیں ﮨﮯ، ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ نہیں ﮨﮯ۔"
"ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ.؟"
"ﺑﺲ ﺟﯽ.! ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮨﮯ۔" ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ.
"ﮐﯿﺎ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮨﮯ.؟ ﺍﺷﻔﺎﻕ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
"ﺑﺲ ﺟﯽ.! ﻣﯿﮟ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﺟﮭﺎﮌﻭ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ۔"
"ﮐﺲ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ.؟"
"ﺟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ، ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ مُرﺷﺪ ﻧﮯ ﺳﺰﺍ ﺩﮮ ﺩﯼ۔
مُرﺷﺪ ﺑﻮﻻ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮔﻨﺪﮔﯽ ﺍُﭨﮭﺎﺅ، ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﺟﮭﺎﮌﻭ ﻟﮕﺎﺅ، ﭼﮫ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ۔"
ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺷﮩﺎﺏ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺑﻮﻻ "ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ.! ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺷﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔؟"
"ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ.!" ﻭﮦ ﺑﻮﻻ "ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﻨﺪﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ مُرﺷﺪ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ.! ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ مُرﺷﺪ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ۔ ﺁﭖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯽ۔"
"ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﻣﻨﮕﻮﺍﺋﯿﮯ۔" ﺷﮩﺎﺏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﻓﻀﻞ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ "ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭ.! ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻧﺎ ﮐﺮﯾﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ۔"
"ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﮯ.!" ﺍﺷﻔﺎﻕ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
"ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺎﺑﻮ ﺟﯽ.!" ﻭﮦ ﺑﻮﻻ۔
"ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻣﻨﺎﮨﯽ ﮨﮯ۔؟
"ﻧﮩﯿﮟ.! ﻣﻨﺎﮨﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺩﻭﺟﮯ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔"
"ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﻮﮞ۔؟"
"ﺣﮑﻢ ﺗﻮ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯽ.! ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔"
"ﮐﺲ ﻟﯿﮯ "ﻧﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ.؟"
"ﭘﭽﮭﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﯽ.! ﭘﭽﮭﻨﺎ ﺣﺠﺖ ﮨﮯ۔ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ کہ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ نے ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﺎ۔ ﺍُﺩﮬﺎﺭ نہیں ﻣﻨﮕﻨﺎ، ﭼﺎﮨﮯ ﻓﺎﻗﮯ ﺁﺋﯿﮟ، ﭘﮍﮮ ﺁﺋﯿﮟ ﻓﺎﻗﮯ۔"
"ﺑﮍﮮ ﺳﺨﺖ ﺣﮑﻢ ﮨﯿﮟ" ﺍﺷﻔﺎﻕ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﺑﺎﺑﻮ ﺟﯽ.! ﻭﮦ ﺑﻮﻻ "ﺟﻮ ﺳﺨﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺣﮑﻢ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ۔؟"
"ﺗﻢ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﻮ۔" ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ "ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ.! ﺟﻮ مُرﺷﺪ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻮﮨﮍﺍ ﮨﮯ ﭼﻮﮨﮍﺍ۔"
"ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﺟﻮ مُرﺷﺪ ﺗﻮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺮ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ۔" ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﯽ۔
"ﺑﺲ ﺟﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺭُﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺪﺭ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ، ﻭﮐﮭﻮ ﻭﮐﮫ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ہیں، ﺍﻧﮕﻼﮞ ﮨﯽ ﺍﻧﮕﻼﮞ ﻣﭩﮫ ﻧﮧ ﺑﻨﮯ۔"
"ﺳﭻ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ" ﺷﮩﺎﺏ ﮔﻨﮕﻨﺎﯾﺎ۔
"ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ.! ﺻﺮﻑ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﻞ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ، ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﮨﻮ، ﺳﮑﮫ ﮨﻮ، ﮨﻨﺪﻭ ﮨﻮ، ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ۔ ﺑﺲ ﺷﺮﻁ ﺍﮎ ﮨﮯ، ﺣﮑﻢ ﻣﻨﮯ، ﺍﮔﻮﮞ ﺑﻮﻟﻨﺎ نہیں، ﭘﭽﮭﻨﺎ نہیں، ﺑﺲ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﺣُﮑﻢ ﻣﻨﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼڑﮪ ﮔﺌﯽ، ﻧﮧ ﻣﻨﯿﺎ ﺗﮯ ﺭُﻝ ﮔﺌﯽ۔"
"ﺷﺎﺑﺎﺷﮯ" ﺍﺷﻔﺎﻕ ﺑﻮﻻ.! "تُو ﮐﮭﺮﯼ ﺑﺎﺗﺎﮞ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻓﻀﻞ، ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔؟
ﻓﻀﻞ ﻧﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ "ﻭﮦ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ.! ﭘﺮ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﮎ ﺑُﮭﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﺸﺮ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ، ﺑُﮭﻞ ﮨﻮ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﺪﯼ ﺍﮮ۔ ﺳﺰﺍ ﻣﯿﻦ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﮯ ﺟﯽ۔"
"ﺗﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ.؟" ﺍﺷﻔﺎﻕ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﮭﯿﮍﺍ۔
"ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺟﯽ، ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺟﯽ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﺑُﮭﻞ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺑُﮭﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﭘﺮﺍﺳﭽﯿﺖ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ میں ﺗﻮ ﺑُﮭﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻧﺎﻭﺍﮞ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮎ ﭼﺎﻧﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﯿﺮﺍﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺷﺮﻃﺎﮞ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﺎﻝ ﮐﮭﻮﮦ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﮏ ﮐﺮ ﻧﺎﻡ ﺟﭙﺘﺎ
ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﺎﻝ ﭘﯿﭧ ﭘﮧ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﮯ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺘﺮ ﺗﻮﮞ ﺧﻮﺩ ﻧﻮﮞ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺗﻮﺑﮧ ﺟﯽ تﻭﺑﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ "ﺟﻨﻮﮞ" ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ۔"
ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﺍﭨﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ "ﺍﭼﮭﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﭙﭩﺎ ﻟﻮﮞ۔" ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﺷﻔﺎﻕ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﭙﭩﺎ ﻟﻮﮞ ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ۔
"ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﯾﮧ ﻓﻀﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﺘﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ، ﺟﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﻣﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻥ
ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺎﮨﻞ ﮨﯿﮟ۔"

ﻣﻤﺘﺎﺯ ﻣﻔﺘﯽ " ﺍﻟﮑﮫ ﻧﮕﺮﯼ"
 
عرضِ نیازِ عشق

جب انسان کے اندر مَیں مر جائے تو تب اس کا عشق پختہ ہوتا ہے ایک دفعہ ایک عاشق اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کی غرض سے اس کے در پر پہنچا دستک دی تو اندر سے آواز آئی کون ہے ؟

عاشق نے پُرنم آنکھوں اور دلِ بے قرار کے ساتھ جواب دیا حضور مَیں ہوں آپ کی دید کو ترس گیا ہوں اجازت دیں اندر سے جواب ملا جا واپس چلا میرے چاہنے والوں میں مَیں کوئی چیز نہیں ہے ابھی تجھ سے غرور و تکبّر کی بُو آتی ہے تیری انا باقی ہے جا کچھ عرصہ اور ہجر و فراق کی آگ میں جل پھر لوٹ کر آنا عاشق نامراد مایوس ہو کر واپس لوٹ گیا کچھ سال اور گزرے محبوب کی جدائی میں جلا صدمہ فراق سہتا رہاجب پھر محبوب کے دروازے پر سودائی اور دیوانہ بنا حاضر ہُوا تو محبوب نے اس بار پھر پچھلا سوال دہرایا دروازے پر کون ہے؟ عاشق نے عجز و انکساری اور ادب سے جواب دیا میرے محبوب دروازے پر بھی تُو ہی ہے محبوب نے یہ الفاظ سنے تو کہا اب تیری مَیں ختم ہو گئی ہے جب میں و تُو کا جھگڑا ہی ختم ہُوا تو پھر دوری کیسی آ جاؤ اندر اجازت ہے.

مولانا رومی رح فرماتے ہیں :
دوئی ازخود برون کردم، یکے دیدم دو عالم را
یکے جویم یکے گویم یکے دانم یکے خوانم

ترجمہ :

میں نے دوئی کو اپنے آپ سے باہر نکال دیا ، میں نے دونوں عالم کو ایک ہی دیکھا ایک ہی کو تلاش کرتا ہوں ، ایک ہی کی بات کرتا ہوں ، ایک ہی کو جانتا ہوں اور ایک ہی کا نام لیوا ہوں۔

اِس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نفی ذات کے بغیر منزل نہیں مل سکتی اپنی میں کو مار کر ہی سب کچھ ملتا ہے

حکایاتِ مولانا رومی رحمتہ اللّہ علیہ
 
ایک مرید نے مولانا رُوم سے 5 سوال پوچھے ۔
مولانا روم کے جواب غور طلب ہیں!!!!

سوال ۔ 1 ۔ زہر کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ” زہر“ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ہو ۔ انانیت ہو ۔ دولت ہو ۔ بھوک ہو ۔ لالچ ہو ۔ سُستی یا کاہلی ہو ۔ عزم و ہِمت ہو ۔ نفرت ہو یا کچھ بھی ہو

سوال ۔ 2 ۔ خوف کس شئے کا نام ہے ؟
جواب ۔ غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے ۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک مُہِم جُوئی میں تبدیل ہو جاتا ہے

سوال ۔ 3 ۔ حَسَد کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ دوسروں میں خیر و خُوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے ۔ اگر اِس خوبی کو تسلیم کر لیں تو یہ رَشک اور کشَف یعنی حوصلہ افزائی بن کر ہمارے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے

سوال ۔ 4 ۔ غُصہ کس بلا کا نام ہے ؟
جواب ۔ جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے ۔ اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غُصہ ہے ۔ اگر کوئی تسلیم کر لے کہ یہ امر اُس کے قابو سے باہر ہے تو غصہ کی جگہ عَفو ۔ درگذر اور تحَمّل لے لیتے ہیں

سوال ۔ 5 ۔ نفرت کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ کسی شخص کو جیسا وہ ہے تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے ۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اُسے تسلیم کر لیں تو یہ محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے.
 
تاریخی حقائق کے مطابق جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔۔

سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو سُنا بھی تھا۔ لیکن کیونکہسیمسن کے عملے کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کے اندر سے انسانیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی اپنے گناہوں کو چھپاتے گزار دیتے ہیں۔

دوسرا جہاز جو قریب موجود تھا اس کا نام کیلیفورنین (Californian) تھا جو حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے چودہ میل دور تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن نے بھی ٹائی ٹینک کی طرف سے مدد کی پکار کو سنا اور باہر نکل کے سفید شعلے اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن کیونکہ وہ اس وقت برف کی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا اور اسے ان چٹانوں کے گرد چکر کاٹ کے ٹائی ٹینک تک پہنچنے میں خاصی مشکل صورتحال سے دو چار ہونا پڑتا لہذا کیپٹن نے اس کی بجائے دوبارہ اپنے بستر میں جانا اور صبح روشنی ہونے کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ صبح جب وہ ٹائی ٹینک کی لوکیشن پہ پہنچا تو ٹائی ٹینک کو سمندر کی تہہ میں پہنچے چار گھنٹے گزر چکے تھے اور ٹائی ٹینک کے کیپٹن ایڈورڈ اسمتھ سمیت 1569 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی کی مدد کرنے کو اپنی آسانی سے مشروط کر دیتے ہیں اور جب تک حالات حق میں نہ ہوں کسی کی مدد کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے۔

تیسرا جہاز کارپیتھیا (Carpathia) تھا جو ٹائی ٹینک سے 68 میل دور تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن نے ریڈیو پہ ٹائی ٹینک کے مسافروں کی چیخ و پکار سنی۔ صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی باوجود اس کے کہ یہ ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں جنوب کی طرف جا رہا تھا، اس نے فورا اپنے جہاز کا رخ موڑا اور برف کی چٹانوں اور خطرناک موسم کی پروا کئے بغیر مدد کے لئے روانہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ دور ہونے کے باعث ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے دو گھنٹے بعد لوکیشن پہ پہنچ سکا لیکن یہی وہ جہاز تھا جس نے لائف بوٹس پہ امداد کے منتظر ٹائی ٹینک کے باقی ماندہ 710 مسافروں کو زندہ بچایا تھا اور انہیں بحفاظت نیو یارک پہنچا دیا تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن کیپٹن آرتھر روسٹرن کو برطانوی نیوی کی تاریخ کے چند بہادر ترین کیپٹنز میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کے اس عمل پہ انہیں کئی سماجی اور حکومتی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔

یاد رکھیئے، ہماری زندگی میں ہمیشہ مشکلات رہتی ہیں، چیلنجز رہتے ہیں، لیکن وہ جو ان مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے بھی انسانیت کی بھلائی کے لئے کچھ کر جائیں انہیں ہی انسان اور انسانیت یاد رکھتی ہے۔

دعا کیا کریں کہ خدا کسی کی مدد کی توفیق دے کیوں کہ یہ انسانیت کی معراج اور اعلی ترین درجہ ہے۔
 
اکرم صاحب کہتے ہیں کہ ضروریات ، خواہشات ، شہوات ، جذبات اور نفس ناطقہ آمادہ عمل کرتے ہیں !
لیکن خواہشات کا پنکھ پکھیرو ہر روز نئی فضا اور نیا دانہ پانی چاہتا ہے۔
 
Top