کثرتِ ازدواج (Polygamy )

فرقان احمد

محفلین
مرد کو چاہیے بس اتنی زحمت کر لے کہ پہلی شادی کے وقت اپنا ما فی الضمیر کھل کر بیان کر دے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے کا خواہاں ہے تو واضح کر دے۔ اگر کوئی لڑکی اپنی رضامندی سے اس کے عقد میں آتی ہے تو درست، ورنہ کہیں اور قسمت آزمائی کر لے۔
آپ کی بات اصولی طور پر درست ہے۔ ہاں، مگر اب اس کا کیا علاج کہ انسان کے خیالات وقت کے ساتھ ساتھ بدل سکتے ہیں۔۔۔! :) ممکن ہے کہ ایک فرد کے خیالات بعد میں تبدیل ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک خاتون ہی وقت کے ساتھ ساتھ اس بابت اپنے خیالات سے رجوع کر لے۔۔۔! ہمارے ناقص فہم میں جو بات آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض (یا اکثر) خواتین کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے جذبات و احساسات میں شراکت داری کو پسند نہیں کرتی ہیں سو اس صورت میں ذہنی و جذباتی میلان کے تناظر میں صورت حال کو دیکھا جانا ضروری ہے۔ ایسی خاتون کے لیے بہتر ہے کہ اپنے خیالات و احساسات یا خدشات کو شادی سے قبل کسی صورت اپنے ممکنہ جیون ساتھی پر واضح کر دے۔
 

سید عمران

محفلین
نفسیات، جذبات، احساسات اور خدشات معاشرے بھی بناتے ہیں۔۔۔
ہمارے ہندو تہذیب سے متاثرہ معاشرے میں مرد اور خصوصاً عورت اگر طلاق یافتہ یا بیوہ ہوجائے تو اس کی دوسری شادی ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہوجاتی ہے۔ اور دوسری شادی ہوتی ہے تو عموماً پہلی شادی کی بنسبت انتہائی ناگوار زوجین ملتے ہیں۔۔۔
ہم صحابہ کا دور دیکھتے ہیں تو وہاں نکاح کرنا اتنا عام اور آسان تھا جس کی مثال نہیں ملتی، مرد تو کجا عورت کو بھی طلاق ہوجاتی تھی یا وہ بیوہ ہوجاتی تھی تو دوسری شادی اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھی۔۔۔
جس طرح مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے اسی طرح عورتوں میں بھی ایک سے زیادہ نکاح عام تھا۔۔۔
ہمارے یہاں کی طرح نہیں کہ عورت مطلقہ یا بیوہ ہوگئی تو اب اس سے دوسرا نکاح کرنا حرام ہوگیا یا عار کا سبب بنادیا گیا۔۔۔
بے چاری ساری زندگی گھٹ گھٹ کر گزارتی ہے۔۔۔
ہمارے معاشرے کے ہر خاندان میں کم از کم ایک نہ ایک ایسی مثال ضرور موجود ہے۔۔۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ دونوں کو نکاح کی آزادی ہو، جو جب چاہے جس سے نکاح کرلے۔۔۔
کیا نکاح عام ہونے سے حرام کاریوں کا باب بند نہیں ہوگا؟؟؟
ایک سے زیادہ نکاح جس کو عورت اپنے لیے زحمت سمجھتی ہے وہ اصل میں اس کے لیے رحمت ہے۔۔۔
کیوں کہ نکاح عام ہونے کی صورت میں بیوہ یا مطلقہ کو بھی گھٹ گھٹ کر تنہا مرنے کی بنسبت دوسرا نکاح کرکے نسبتاً بہتر زندگی گزارنے کا راستہ کھلا ملے گا!!!
 

فاخر رضا

محفلین
نفسیات، جذبات، احساسات اور خدشات معاشرے بھی بناتے ہیں۔۔۔
ہمارے ہندو تہذیب سے متاثرہ معاشرے میں مرد اور خصوصاً عورت اگر طلاق یافتہ یا بیوہ ہوجائے تو اس کی دوسری شادی ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہوجاتی ہے۔ اور دوسری شادی ہوتی ہے تو عموماً پہلی شادی کی بنسبت انتہائی ناگوار زوجین ملتے ہیں۔۔۔
ہم صحابہ کا دور دیکھتے ہیں تو وہاں نکاح کرنا اتنا عام اور آسان تھا جس کی مثال نہیں ملتی، مرد تو کجا عورت کو بھی طلاق ہوجاتی تھی یا وہ بیوہ ہوجاتی تھی تو دوسری شادی اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھی۔۔۔
جس طرح مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے اسی طرح عورتوں میں بھی ایک سے زیادہ نکاح عام تھا۔۔۔
ہمارے یہاں کی طرح نہیں کہ عورت مطلقہ یا بیوہ ہوگئی تو اب اس سے دوسرا نکاح کرنا حرام ہوگیا یا عار کا سبب بنادیا گیا۔۔۔
بے چاری ساری زندگی گھٹ گھٹ کر گزارتی ہے۔۔۔
ہمارے معاشرے کے ہر خاندان میں کم از کم ایک نہ ایک ایسی مثال ضرور موجود ہے۔۔۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ دونوں کو نکاح کی آزادی ہو، جو جب چاہے جس سے نکاح کرلے۔۔۔
کیا نکاح عام ہونے سے حرام کاریوں کا باب بند نہیں ہوگا؟؟؟
ایک سے زیادہ نکاح جس کو عورت اپنے لیے زحمت سمجھتی ہے وہ اصل میں اس کے لیے رحمت ہے۔۔۔
کیوں کہ نکاح عام ہونے کی صورت میں بیوہ یا مطلقہ کو بھی گھٹ گھٹ کر تنہا مرنے کی بنسبت دوسرا نکاح کرکے نسبتاً بہتر زندگی گزارنے کا راستہ کھلا ملے گا!!!
آپ نے بہت اچھا لکھا. ایک مرد کئی عورتوں سے شادی کرسکتا ہے اور اس میں نطفے کی کنفیوژن بھی نہیں ہوتی
 
قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی عہد ہو سکتا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کی زندگی میں نکاحِ ثانی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ حضرت فاطمہؓ فریاد لے کر حضورؑ کے پاس تشریف لے گئیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس سے قبل اپنے ایک داماد ابو العاص بن ربیع کو اپنے وعدے میں ثابت قدم پایا تھا۔ بعد میں حضرت علیؓ اپنی اس خواہش سے دستبردار ہو گئے تھے۔

یہ میرا اعتراض نہیں ہے بلکہ آپکے اٹھائے ہوئے ایک نکتے کو مظبوط کرنے کی وضاحت ہے۔

آپ نے فرمایا کہ "قرین قیاس یہی ہے" -- حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کے ساتھ ایک بھاری معاہدہ ، ایک مظبوط وعدہ یعنی نکاح کا کنٹریکٹ یعنی عرف عام میں شادی کی تھی، اس میں کسی قیاس کی ضرورت نہیں :) یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

شادی، جس کو عقد نکاح بھی کہا جاتا ہے، ایک "بھاری معاہدہ" یعنی "مظبوط عہد اور وعدہ " ہے۔ شادی کے اس بھاری اور مظبوط کنٹریکٹ (عقد) کے بعد مزید کسی الگ عہد ، یا الگ وعدے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔

جب مرد و عورت ، مجمع کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کرنے کا اقرار کرتے ہیں تو اس اقرار اور معاہدے کو اللہ تعالی کس طرح بیان کرتے ہیں۔

بھاری معاہدہ، پکا عہد (مِّيثَاقًا غَلِيظًا) کیا ہے

33:7 وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے بھی اور ان سے ہم نے پکا عہد لیا تھا

ایک اور مثال دیکھئے مِّيثَاقًا غَلِيظًا یعنی پکے وعدے یا پختہ عہد کی۔
4:154 وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لاَ تَعْدُواْ فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور لوگوں پر طور اٹھا کر ان سے عہد لیا
اور ہم نے کہا کہ دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئےداخل ہو اور ہم نے کہا کہ ہفتے کے بارے میں زیادتی نہ کرو اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا

اللہ تعالی کے فرمان، قرآن حکیم میں ( مِّيثَاقًا غَلِيظًا) صرف تین مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ایک تو جب طور کو اٹھا کر عہد لیا ، پھر جب نبیوں سے عہد لیا، اور اس کے بعد شادی کے معاہدے کو مِّيثَاقًا غَلِيظًا یعنی اتنا بھاری معاہدہ قرار دیا جتنا مظبوط اور بھاری معاہدہ، نبیوں اور اللہ تعالی کے درمیان ہوتا ہے۔

4:21 وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
تم اسے کیوں کر لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکا ہے اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں

مرد حضرات طلاق (چھوڑ) کر جانے کو ایک آسان کام سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی ، شادی کے معاہدہ کو مِّيثَاقًا غَلِيظًا قرار دیتے ہیں ، اس بھاری، مظبوط اور پائیدار معاہدے، وعدے، کنٹریکٹ یا عہد کو توڑنے والے حضرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کرنا کس درجے کے معاہدے کو توڑنے کے مترادف ہے۔

والسلام
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
جو مرد حضرات تیز مرچ اور کم نمک کے دائرے سے ہی نکل نہیں پاتے انہیں تو چاہیے کہ وہ کنوارے ہی مر جائیں .....
رہے وہ مرد حضرات جو خواتین کو بھی اپنے جیسی ہی مخلوق گردانتے ہیں وہ چار شادیاں کر لیں پرواہ کسے ہے .... :)
(پہلے ایک تو سنبھال لیں )
ہر بات مغرب سے شروع ہو کر مغرب پر ہی ختم نہیں ہو جاتی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے یہ بھی دیکھنا چاہیے
 

م حمزہ

محفلین
قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی عہد ہو سکتا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کی زندگی میں نکاحِ ثانی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ حضرت فاطمہؓ فریاد لے کر حضورؑ کے پاس تشریف لے گئیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس سے قبل اپنے ایک داماد ابو العاص بن ربیع کو اپنے وعدے میں ثابت قدم پایا تھا۔ بعد میں حضرت علیؓ اپنی اس خواہش سے دستبردار ہو گئے تھے۔
رسول اللہﷺکے اپنے داماد حضرت علیرضی اللہ عنہ کو حضرت جویریہ بنت ابی جہل سے نکاح کرنے سے منع کرنے میں سبب یہ نہیں کہ آپﷺنے اپنی بیٹی کی ایک سوکن کو بھی برداشت نہیں کیا سبب فقط یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی بیٹی ہے اور جویریہ رضی اللہ عنہا عدو اﷲ کی بیٹی ہے اور شریعت میں رسول اللہﷺ کی بیٹی اور عدو اﷲ کی بیٹی دونوں کو ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں چنانچہ صحیح بخاری ہی میں اسی موقعہ پر رسول اللہﷺ کا فرمان موجود ہے:
«اِنِّیْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً ، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا ، وَلٰکِنْ وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»جلد اول كتاب الجهاد باب ما ذكر من درع النبىﷺ وعصاه و سيفه الخ ص438

’’بلا شبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدواﷲکی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں‘‘
ربط
ایک با ت یہ بھی بتادوں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب جویریہ رضی اللہ عنہا نئی نئی مسلمان ہوئی تھیں۔
ایک اور بات جو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، کہیں شاید پڑھا ہے کہ حضرت علی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد جویریہ سے شادی کی تھی۔
 

جان

محفلین
اول تو حالیہ مردم شماری کے مطابق مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہے۔ دوم مشاہدے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں خاص کر پاکستانی مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ فحاشی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عورت ذات منسلک ہے کیونکہ ہم اپنی ذاتی خواہشات اور ناکامیوں کی تشخیص اور ان کا حل دھونڈنے کی بجائے ان کا سہرا کسی اور کو پہنانے میں لگے رہتے ہیں۔ ملاوٹ، دھوکہ دہی، زیادتی، حق تلفی وغیرہ وغیرہ سب چھوٹے گناہ ہیں کیونکہ اس گنگا میں سبھی نہائے ہوئے ہیں اور اس کو سہرا کسی اور کو پہنا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں اکثریت تحقیق و تدبر کی بجائے بھیڑ چال میں مصروف ہے۔ اکژیت کے حوالے سے قران پاک کی کیا رائے ہے یہ بالکل واضح ہے۔ ہم یہ تو با آسانی کہ سکتے ہیں کہ فلاں ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے لیکن کیا ہم نے نیک نیتی سے بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو قبول کیا ہے، ان کی تشخیص اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے؟
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اول تو حالیہ مردم شماری کے مطابق مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہے۔ دوم مشاہدے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں خاص کر پاکستانی مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ فحاشی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عورت ذات منسلک ہے کیونکہ ہم اپنی ذاتی خواہشات اور ناکامیوں کی تشخیص اور ان کا حل دھونڈنے کی بجائے ان کا سہرا کسی اور کو پہنانے میں لگے رہتے ہیں۔ ملاوٹ، دھوکہ دہی، زیادتی، حق تلفی وغیرہ وغیرہ سب چھوٹے گناہ ہیں کیونکہ اس گنگا میں سبھی نہائے ہوئے ہیں اور اس کو سہرا کسی اور کو پہنا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں اکثریت تحقیق و تدبر کی بجائے بھیڑ چال میں مصروف ہے۔ اکژیت کے حوالے سے قران پاک کی کیا رائے ہے یہ بالکل واضح ہے۔ ہم یہ تو با آسانی کہ سکتے ہیں کہ فلاں ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے لیکن کیا ہم نے نیک نیتی سے بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو قبول کیا ہے، ان کی تشخیص اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے؟
ساری برائیاں جن کا آپ نے ذکر کیا اپنی جگہ بری ہیں۔۔۔
چوں کہ بات ایک خصوص موضوع پر چل رہی ہے لہٰذا اس ہی کی بات کی جائے گی۔۔۔
بے تحاشہ شواہد و دلائل کی موجودگی میں غیروں کی سازش سے صرف نظر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔۔۔
بلاشبہ ہماری اپنی کمی کوتاہیاں بھی ہیں۔۔۔
علماء کرام، اہل اللہ اور مشایخ ہر وقت ان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور ان کا علاج بھی بتاتے ہیں!!!
 

La Alma

لائبریرین
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ قرآن میں تحقیق اور تحریف کو ایک ہی معنوں میں لیتے ہیں۔ کیا قرآن کے ترجمے کا کوئی ایک بھی ورژن موجود ہے، جسے ہمارے نبؐی نے اپروو کیا ہو؟ الله نے وحی کے ذریعے قرآن کی صورت جو بھی احکامات بھیجے، ہمارے نبیؐ نے وہ سب ہم تک من و عن پہنچا دیے۔ اس میں سے نہ کچھ چھپایا اور نہ اپنی خواہشِِ نفسی سے اس میں کچھ داخل کیا۔ قرآن کا ایک ایک حرف منجانب اللہ ہی ہے۔ اختلافی مسائل زیادہ تر ان آیات کے مختلف تراجم سے جنم لیتے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر نادانستہ طور پر تراجم کرتے ہوئے نزولِ قران کے اس دور کے رہن سہن، رسم و رواج، معاشرتی نظام اور کلچر کو مذہب سے الگ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا جبکہ قرآن کے احکامات کا دائرہ کار ہر علاقے، ہر خطے اور قیامت تک آنے والے ہر دور کے لیے ہے۔
قرآن کا ہی کہنا ہے کہ اگر سارے درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی تو پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ قرآن جو کلام اللہ ہے، اس میں کیا کیا علوم اور حکمت کے مضامین پوشیدہ نہ ہونگے۔ اس رو سے قرآن پر آج تک جو تحقیق ہوئی ہے وہ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ الله خود قرآن کی آیات پر جا بجا غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے اگر کوئی بھولا بھٹکا مسلمان کسی اختلافی مسئلے پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو مذہبی حلقوں کی جانب سے اس پر ایسے تابڑ توڑ حملے اور الزام تراشی ہوتی ہے کہ الامان الحفیظ۔
 

جان

محفلین
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ قرآن میں تحقیق اور تحریف کو ایک ہی معنوں میں لیتے ہیں۔ کیا قرآن کے ترجمے کا کوئی ایک بھی ورژن موجود ہے، جسے ہمارے نبؐی نے اپروو کیا ہو؟ الله نے وحی کے ذریعے قرآن کی صورت جو بھی احکامات بھیجے، ہمارے نبیؐ نے وہ سب ہم تک من و عن پہنچا دیے۔ اس میں سے نہ کچھ چھپایا اور نہ اپنی خواہشِِ نفسی سے اس میں کچھ داخل کیا۔ قرآن کا ایک ایک حرف منجانب اللہ ہی ہے۔ اختلافی مسائل زیادہ تر ان آیات کے مختلف تراجم سے جنم لیتے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر نادانستہ طور پر تراجم کرتے ہوئے نزولِ قران کے اس دور کے رہن سہن، رسم و رواج، معاشرتی نظام اور کلچر کو مذہب سے الگ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا جبکہ قرآن کے احکامات کا دائرہ کار ہر علاقے، ہر خطے اور قیامت تک آنے والے ہر دور کے لیے ہے۔
قرآن کا ہی کہنا ہے کہ اگر سارے درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی تو پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ قرآن جو کلام اللہ ہے، اس میں کیا کیا علوم اور حکمت کے مضامین پوشیدہ نہ ہونگے۔ اس رو سے قرآن پر آج تک جو تحقیق ہوئی ہے وہ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ الله خود قرآن کی آیات پر جا بجا غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے اگر کوئی بھولا بھٹکا مسلمان کسی اختلافی مسئلے پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو مذہبی حلقوں کی جانب سے اس پر ایسے تابڑ توڑ حملے اور الزام تراشی ہوتی ہے کہ الامان الحفیظ۔
میں بالکل اس سے متفق ہوں۔ قران پاک کے احکامات ساکت نہیں ہیں بلکہ تاقیامت نافذالعمل ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم تقلید کی روش سے باہر نکل کر زمانے اور معاشرت کے اعتبار سے ان پر تحقیق نہیں کریں گے اور تدبر سے کام نہیں لیں گے تو مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے۔ اگر دس صدیوں پہلے معاشرے کی تحقیق آج پر نافذ کی جائے تو اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی بجائے معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔ اسلام فطرت اور معاشرے سے الگ کوئی شعبہ نہیں ہے بلکہ عین فطرت اور معاشرت ہے۔ اور دین کی تحقیق الگ نہیں بلکہ معاشرے کے رویے اور حالات کے عین مطابق ہوتی ہے اس لیے قبل از دین کی تحقیق اور احکامات نافذ کرنے سے، محقق کو معاشرے کے موجودہ پہلوؤں کو سمجھنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نبوت کا اعلان کرنے کا حکم چالیس برس کی عمر میں ہوا اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اب ایک بچہ جو پانچ سال کی عمر میں مدرسے چلا جاتا ہے اس نے معاشرتی حالات اور پہلوؤں کو ابھی سمجھنا تو ایک طرف پوری طرح دیکھا ہی نہیں وہ جب دس سے پندرہ سال کے بعد عالم بن کر نکلے گا اس نے کیا معاشرے کی تربیت کرنی ہے؟ جب بھی کوئی شخص اس معاشرے میں کوئی تحقیق پیش کرتا ہے اس سے قطع نظر کہ وہ صحیح ہے یا غلط، مدارس کے عالم حضرات اس شخص کا جو حال کرتے ہیں کہ مزید پھر کسی کو تحقیق کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ کیا یہ بھی مغرب کی سازش ہے یا اس میں ہر اس شخص کا جو اس سے جڑا ہے، اپنا ذاتی مفاد وابستہ ہے؟ یہ تو قیامت والے دن ہی پتہ چلے گا کہ کون صحیح راستے پر ہے اور دین اللہ کی تحقیق اور ترویج میں کس کا کیا کردار ہے۔ اللہ کریم ہمارے حال پر رحم و کرم فرمائے۔ آمین۔
 

فاخر رضا

محفلین
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ قرآن میں تحقیق اور تحریف کو ایک ہی معنوں میں لیتے ہیں۔ کیا قرآن کے ترجمے کا کوئی ایک بھی ورژن موجود ہے، جسے ہمارے نبؐی نے اپروو کیا ہو؟ الله نے وحی کے ذریعے قرآن کی صورت جو بھی احکامات بھیجے، ہمارے نبیؐ نے وہ سب ہم تک من و عن پہنچا دیے۔ اس میں سے نہ کچھ چھپایا اور نہ اپنی خواہشِِ نفسی سے اس میں کچھ داخل کیا۔ قرآن کا ایک ایک حرف منجانب اللہ ہی ہے۔ اختلافی مسائل زیادہ تر ان آیات کے مختلف تراجم سے جنم لیتے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر نادانستہ طور پر تراجم کرتے ہوئے نزولِ قران کے اس دور کے رہن سہن، رسم و رواج، معاشرتی نظام اور کلچر کو مذہب سے الگ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا جبکہ قرآن کے احکامات کا دائرہ کار ہر علاقے، ہر خطے اور قیامت تک آنے والے ہر دور کے لیے ہے۔
قرآن کا ہی کہنا ہے کہ اگر سارے درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی تو پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ قرآن جو کلام اللہ ہے، اس میں کیا کیا علوم اور حکمت کے مضامین پوشیدہ نہ ہونگے۔ اس رو سے قرآن پر آج تک جو تحقیق ہوئی ہے وہ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ الله خود قرآن کی آیات پر جا بجا غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے اگر کوئی بھولا بھٹکا مسلمان کسی اختلافی مسئلے پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو مذہبی حلقوں کی جانب سے اس پر ایسے تابڑ توڑ حملے اور الزام تراشی ہوتی ہے کہ الامان الحفیظ۔
کیا آپ اس بات کا فیصلہ کریں گی کہ کون تحقیق کررہا ہے اور کون تحریف
 
اسلام میں معاشی ذمہ داری مرد پہ ڈالی گئی ہے اور ابتک کے رائج تمام معاشی اور طبقاتی نظاموں میں یہ بات یکساں ہے کہ بعض لوگ دوسروں سے کافی زیادہ متمول ہوتے ہیں۔ اس نظام میں کثرت ازدواج ایک فطری امر ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمہ !
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)" ۔
آپ کو نہیں لگتا جو اس آیت میں عدل کی شرط سے ڈر گیا ہو دوسری شادی کرنے سے اسے پھر اس آیت سے ترغیب ملتی ہے :
اور تم خوا کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر بیچ میں معلق ہے اور اگر آپس میں موافقت (معاہدہ) کرلو اور تقویٰ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱۲۹﴾

ویسے اپنے عدل کی صفت کا پتہ کیسے چلے گامرد کو جب تک دوسری بیاہ کر نہ لے آئے -کبھی ایسا ترازو بھی دیکھا ہے جس کا ایک ہی پلڑا ہو -دو پلڑے ہوں گے تو میزان کا صحیح پتہ چلے گا -

رہ گیا مغربی معاشرہ یا مغرب زدہ لوگ تو ان کے بارے میں سنا گیا ہے کہ بڑی تعداد ایک نکاح کے بھی قابل نہیں ہوتی چہ جائیکہ دوسرا' تیسرا اور چوتھا نکاح کریں اور پھر عدل بھی کریں -یہ گنجائش تو دی گئی ہے نارمل انسان یعنی مسلمان کو جو تقویٰ کی برکت سے قوی ہوتا ہے -
 

La Alma

لائبریرین
ویسے اپنے عدل کی صفت کا پتہ کیسے چلے گامرد کو جب تک دوسری بیاہ کر نہ لے آئے -کبھی ایسا ترازو بھی دیکھا ہے جس کا ایک ہی پلڑا ہو -دو پلڑے ہوں گے تو میزان کا صحیح پتہ چلے گا -
ٹوٹلی سپیچ لیس!!!
ویسے اگر کوئی چار شادیاں کرنا چاہے تو پھر وہ اپنے عدل کی صفت کو کیسے چیک کرے گا۔ چار پلڑوں والا ترازو تو واقعی کبھی نہیں دیکھا.
images-11.jpg

ایک پلڑے والا ترازو۔
 
Top