جون ایلیا اقوالِ جون ایلیا

1:وہ باتیں کب تک ُسنے جاؤ گے جو آج تمہیں فقط پسند ہیں وہ باتیں کب کہنے دو گے جو کل تمہارے کام بھی آئیں گی
2: دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن
3:انسانیت ایک خاندان ہے نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق جو تفریق پیدا کرتے ہیں وہ اس مقدس خاندان میں شامل نہیں
4:یقین جانو تمہارے حق میں سب سے مفید بات وہ ہے جس سے تمہاری سماعت میں زہر گُھل جائے
5:گزشتہ زمانہ لکھنے والوں کے ابہام کا زمانہ تھا اور یہ زمانہ پڑھنے والوں کے الہام کا زمانہ ہے
6 :لوگوں کا احتساب حکومتوں کے احتساب سے زیادہ درشت اور سخت گیر ہے اس احتساب کا ماحصل یہ ہے کہ خبر دار ہمارے حق میں زبان نہ کھولنا جو ہمیں گڑھے میں گرنے سے باز رکھے گا ہم اسے زمین میں گاڑ دیں گے
7:یہ اُکتائے ہوئے دلوں کے ترسائے ہوئے ولولوں کی زندگی ہے
8:انسانیت دشمن چاہے پاکستان کے رہنے والوں یا امریکا اور انگلستان کے وہ ہماری نفرت کے یکساں طور پر مستحق ہیں۔
9:برائی کو اس کے بہاؤ پہ روکنا بیکار ہے
10:لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ ایسے جن سے محبت کی جاتی ہے کچھ وہ جنہیں برداشت کر لیا جاتا ہے اور باقی وہ ہیں جو یکسر ناقابلِ برداشت ہیں
11:برائی بےوقوفی سے پیدا ہوتی ہے
12:یہ لوگ بے وقوف ہیں وگرنہ بُرے ہی نہ ہوتے اور ہر بے وقوف آدمی اپنے آپ کو عقل مند اور ہوشیار سمجھتا ہے نہیں تو پھر اسے بے وقوف کون کہتا
13:آج ایک خاص بات جو بُری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کر دیا ہے
14:مقاماتِ ہدایت و ارشاد سے یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے
15:پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے
16:کامل صداقت انسانوں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہی ہے
17:بعض لوگوں کو اپنے مخالفوں کو کافر اور مرتد قرار دینے کی ایک عجیب شہوت پیدا ہو گئی ہے
18:عزیزو! اسلام ایک دین ہے اور اس کے کچھ بنیادی اُصول ہیں جو ان اُصول کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو منکر ہے وہ یقیناََ غیر مسلم وہ اصول اصلاََ تین ہیں عقیدہِ توحید عقیدہِ رسالت اور عقیدہِ قیامت
19:ایک انسان دوسرے انسان سے مایوس ہو سکتا ہے لیکن انسانیت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اس لیے کے انسان صرف زمانے میں سانس لیتے ہیں اور انسانیت زمانوں میں زندہ ہے
20:ہم جس سماج میں رہتے ہیں خود غرضی اور خود مرادی اس کا دستور اور حق تلفی اس کا رواج ہے
21 : اس سماج میں جو بُرا آدمی نہیں وہ بےوقوف ہے
 
آخری تدوین:
22: انسان بھی کتنا حقیر ہے کہ باتیں تو آسمان کی کرتا ہے اور تان اپنی ذات پر توڑتا ہے
23:اے بھائی انسان ! تیری ایک ران کا وزن بھی تیرے دماغ سے زیادہ ہے
24:قلم کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ حق فیصلے رقم کرے چاہے وہ صاحبِ قلم ہی کے خلاف جاتے ہوں
25:وہ ہوس کار ہیں جنھیں نیکی کے بجائے نیک نامی پسند ہے
26:اے نیکی سے محروم نیک نامی! تیرا ستیاناس
27:میں کسی عقیدے کا پیرو نہیں صرف تہذیبی طور پر مسلمان ہوں میں انسانوں کے درمیان ظالم اور مظلوم کے سوا کسی تفریق کو نہیں مانتا میرے نزدیک کوئی علاقہ مقدس نہیں
28: ویسے اپنے جوہر میں حکومت ایک شر ہے
29:علاقوں کی بنیاد پر نفرت کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کا نقشہ اُٹھایا اور اپنے ملک کے سوا ہر ملک پر نفرت کا نشان لگا دیا
30 : مظلوم انسانیت کے درمندو! انسانیت جہاں بھی مظلوم ہو تمہاری دردمندی کی مستحق ہے
31:بستیوں میں غصے بوئے گئے تھے سو انتقام کاٹا گیا
32:میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہ آئی کے قلم کھسنے والے اپنے آپ کو لوح و قلم کا مالک کیوں سمجھتے ہیں
33: ایک اور فتنہ برپا ہوا ہے وہ ادھوری سچائیوں کا فتنہ ہے اس نے انسانیت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے ایک آنکھ ایک کان ایک ہاتھ ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے
34:جہان تم ہو وہاں انسانیت گندی اور گھناؤنی بیماریوں میں پڑی سڑ رہی ہے
35:تمہارا ہر کام اور ہر کھیل مغربی ہے پس تم ہارے تو کیا اور جیتے تو کیا ؟ بلکہ دکھ تو یہ ہے تم ان کی نقل اُتارنے میں کبھی کبھی جیت بھی جاتے ہو
36:خود پروری خود پنداری اور زبردستی کے بہت سے مسلک ہیں اور بہت سے مشرب ہیں
37:فاقہ کشوں کی بستی میں تمہیں جو آدمی فربہ دکھائی دے اس کے سلام کا جواب نہ دینا کہ اس کا وجود پوری بستی کے حق میں ایک بدترین بد اخلاقی ہے
38: اپنا سچ خود بولو! دیکھنا کہ یہ جھوٹ بولنے اور بکواس کرنے والے بھی تمہارے دباؤ میں آکر سچ بولنے لگیں گے
39:فلسفہ نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان
40:سچ تو یہ ہے کہ ہم بولتے ہیں اور اس کا زیادہ حصہ ایسا ہوتا ہے جسے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بکواس کہا جائے
41:جو اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے نہ ہونے پر بھی حجت لاتا ہے اور جو اپنے آپ کو سچا کہتا ہے دوسروں کا جھٹلاتا بھی ہے
42: وہ لوگ ہم میں سے وہ پہلے لوگ تھے جنھوں نے عقیدے کی پچ میں نہیں بلکہ معقولت کی خاطر جان دی وانہ عقیدے کے نام پر جان دینے والوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے
 
آخری تدوین:
43: سوچنے کی بات ہے کہ سائنس کس لیے ہے اور کس کے لیے ہے
44:تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے آپ سے بری طرح شکست کھائی ہے
45:تم نے اپنے علم ، اپنے تجربے ، اپنے ہنر اور اپنی مہارت کو آسمانوں میں تو سیاروں کی تسخیر کے لیے مامور کر رکھا ہے اور زمین پر انسانیت کی تخریب اور تباہ کاری کی ورزش میں لگا دیا ہے
46 : سوچنے کی بات یہ ہے ہمیں بحث کا دورہ کیوں پڑتا ہے
47:ہر آدمی کو وہ رائے رکھنے دو جو وہ رکھنا چاہتا ہے
48: میں پھر کہتا ہوں کہ بول رہے ہو تو بولنے بھی دو نہیں تو لوگ بولا جائیں گے
49:کویائی کا شوق ایک نیکی ہے پر اس نیکی کے ساتھ اگر شنوائی کی بدشوقی پائی جائے تو پھر یہ نیکی بدترین بدی بن جاتی ہے
50:سُنو اور سمجھوکہ جہاں شنوائی نہیں وہاں دانش اور دانائی نہیں
51: جتنا سُنو گے اتنا سیکھو گے سو اپنی شنوائی سے سیکھو اور اپنی کویائی سے سکھاؤ
52 : کہہ دوں کہ زبان بندی زبانوں کو بڑے غضب ناک لہجے سکھاتی ہے
53: میں آزاد بدی کو زرخرید نیکی پر ترجیح دیتا ہوں
54: نہ بِکا ہوا جھوٹ میرے نزدیک بِکے ہوئے سچ سے کہیں زیادہ قابلِ قدر ہے
55:اقتدار اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی پر ایک بات دیکھی گئی ہے کہ عام طور پر اقتدار کی تائید وہی لوگ کرتے ہیں جو برے ہوتے ہیں
56: عصمت فروشی کسی کی وفادار نہیں ہوتی
57: سچ تو یہ ہے کہ خوش بسری اور خوش حالی کی پوشاک دھاندلی اور دنایت کے قامت ہی پر سجتی ہے
58 : انسانیت کی سب سے بڑی نیکی دانائی ہے اور دانائی کا سب سے اچھا وظیفہ کلام
59 : اگر میں چند چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو انتخاب کرنے میں آزاد نہیں ہوں تو پھر میں موجود ہی نہیں ہوں
60: سچ سب سے بڑا جھوٹ ہے اور انسان بہت سچا ہے کہ اس نے جھوٹ کبھی نہیں بولا
61: سوچنا کل بھی جرم تھا اور آج بھی جرم ہے
62: شک ذہن کی عبادت ہے
63: جو یقین رکھتا ہے وہ زندگی کی آگہی سے محروم ہے اور جو دعویٰ کرتا ہے وہ دریدہ دہن ہے
64: جب تم نے چند باتوں کی صحت اور صداقت پر حلف اُٹھا لیا ہے تو اب تمہیں علم سے کیا غرض؟ ہم تمہاری خوش بختی کی ابھی سے شہادت دیتے ہیں اور ضمانت دیتے ہیں کہ علم تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا
65: کسی ایک بات کی صحت پر ضد کرنا چھوڑ دو اور آؤ کہ اختلافِ رائے پر اتفاق کر لیں!
 
آخری تدوین:
66 : کیسی نسل اور کہاں کا نسب کیا سید اور کیا پیشہ ور کیا برہمن اور کیا شودر یہ تفریقِ بے ہودہ ہے یہ سب کچھ محض خرافات ہے محض خرافات
67:میں ہرگز فضول اُمیدیں دلانے والا کوئی پیشہ ور صاحبِ قلم نہیں ہوں
68:فضول اُمیدیں قوموں اور قبیلوں کو تباہ کرتی ہیں
69:ہم اور تم فضول اُمیدیں کے مارے ہوئے لوگ ہیں
70:فضول اور بے جواز اُمیدوں کے مارے ہوئے لوگ ہمشہ عبرت ناک تباہی کا شکار ہوئے ہیں
71:ہم نے وقت کو جانا اور مانا ہی کیا؟ ہم نے وقت اور تاریخ کے ساتھ وہ تمسخر کیا ہے وہ تمسخر کیا ہے کہ بس!
72: ہاں! یقین کرو میں بہ اصرار ہوں کہ تم تاریخ کا بدترین مخول ور ٹھٹول ہو
73:کسی گروہ کا مقسوم کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا معیارِ عزت و شرف کیا ہے
74:ماضی کی قوموں کے عروج اور زوال کا سبب یہ تھا ان کے خواص حقیقت سے آنکھیں چُرانے لگے تھے
75:تمہارے کانوں میں سڑا ہوا میل بھرا ہوا ہے تم سے کہا کچھ اور جاتا ہے اور تم سُنتے کچھ اور ہو
76:میں ان بدبخت لوگوں میں شمار کیا جانے لگا ہوں جو خوش فہم لوگوں کی ہر بات کو حدیث ماننے اور استعداد اور اہلیت سے یکسر محروم ہوں
77:شعور ہی انسان کو اختیار سے نوازتا ہے اور شعور ہی آزادی عطا کرتا ہے
78:اگر اس دنیا میں کسی جنت کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے تو یہ کوئی منہ بسورنے کی بات نہیں
79: میں اپنے آپ کو قنوطیت اور یاسیت کا ایک بیوپاری کہلائے جانے کی ہتک کو کسی بھی حالت میں تسلیم نہیں کر سکتا
80:جو لوگ اپنے اور اپنی نوع کے دوسروں لوگوں کے لیے خواب نہیں دیکھتے وہ نیم انسان ہوتے ہیں
81:خواب انسانیت کا سب سے زیادہ اندوختہ اور سرمایہ ہیں
82:تم جو تاریخ کی قدیم تہذیب کے وارث ہونے پر نازاں ہو تو سُنو یہ تمہاری بے حیائی ہے بے حیائی اور جہل
 
آخری تدوین:
83:لکھنے میں دُکھن ہے اور پڑھنے میں دُکھ ہے بولنے میں سینے کا آزار ہے اور سُننے میں اُداسی ہے
84:جو کچھ لکھا گیا ہے اور جو کچھ پڑھا گیا ہے وہ ہمیشہ رائگاں گیا جو کچھ بھی کہا گیا جو کچھ سُنا گیا اس میں گھاٹا ہی گھاٹا ہے
85:تمہارے شہروں کے چور کوتوال بن گئے ہیں تمہارے شہروں کے شہردار جرائم پیشہ ہیں تمہارے چوکی دار ڈکیت ہیں تمہارے سارے مسیحا مریض ہیں اور تمہارے دادرس قاتل ہیں
86:ہم نے اپنے آپ سے اتنی غیریت اختیار کر لی ہے کہ بے غیرت ہو کر رہ گئے ہیں
87: ہم جہاں رہتے ہیں اور جن کے بیچ رہتے ہیں ان سے احساس شعور اور جذبوں کو چھین لیا گیا ہے
88:مجھے جون ایلیا ہونے کے سوا کچھ بھی ہونے کی ہوس نہیں اس لیے کہ جون ایلیا سے زیادہ بے مغز اور بے دانش انسان کوئی ہو ہی نہیں سکتا
89: ہاں میں تم سے براءت چاہتا ہوں اس لیے کہ تم انسان نہیں ہو تم یہودی ہو مسیحی ہو تم مسلمان اور ہندو ہو تم سکھ اور زرتشتی ہو اور ان لفظوں کے معنی اور مفہوم سے یکسر نا واقف ہوں
90:میں اس چور اور ڈکیت کو دل سے داد دوں گا جو اپنی چوری اور ڈکیتی کا چھپانے کا ہنر جانتا ہو
91 : تاریخ اے تاریخ ! تو نے ہمیشہ شَر کی تاج پوشی کی
92:جان لیا جائے کہ میں یعنی جون ایلیا کسی بھی نسلی لسانی اور مذہبی گروہ کی خوشنودی کمانے کی حاطر بےہودہ نگاری اور قلم دوات اور کاغذ کی فحاشی کا مجرم قرار پانے کے لیے اپنے آخری سانس تک تیار نہیں ہو گا
93:محبت میرے نزدیک سب سے بڑی عبادت ہے
94: شعور ، دانائی اور دانش نے انسانیت اور انسان دوستی کو سخت مایوس کیا ہے
95:میں اپنے سمجھنے کے لیے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ فوجی کون ہوتے ہیں کیوں ہوتے ہیں اور کس لیے ہوتے ہیں اور یہ معاشرے کے شایستہ گردوپیش میں درّانا آ کر ہونے اور ہو سکنے کی فضا کو کیوں گمبھیر بنا دیتے ہیں
96:اگر تم زندگی کو سلیقے اور سمادھانی سے برت لو تو زندگی خیر ہے اور اگر زندگی تمہیں برتنے لگے تو پھر وہ شَر ہے اور ضرر ہی ضرر ہے
97:واقفیت رکھنا اور بصیرت رکھنا یہ دو جدا باتیں ہیں
98:مہذب دنیا کو تاریخ کے سب سے بڑے لفنگے گروہ یعنی امریکا کی سیاست جنایت کاروں اور جفاشعاروں سے بچ کے رہنا چاہیے
99: ہم نے اپنے آپ سے اپنے آپے سے شکست کھائی اور شکست کی شکست ہم ایسی شکست سے اپنے بدترین دشمنوں کے لیے بھی پناہ مانگتے ہیں
100: یہ دور فتنہ انگیزیوں اور خوں ریزیوں کا دور ہے
101اگر دیواریں ذی روح ہوتیں تو وہ اپنے سینوں پر لکھے ہوئے زہریلے نعروں کے اثر سے ہلاک ہو جاتیں
102: یہ حقیقت پورے ہوش گوش کے ساتھ سُن لی جائے کہ تاریخ افراد اور اقوام کے ناز اور نخرے اُٹھانے کی عادی نہیں رہی
103: ہم ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلنے کو مذہبی فریضہ ضابظہ خیال کرتے ہیں
104: جس سماج میں جرائم کو معمولات کی حیثیت حاصل ہو جائے اس سماج کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا "
 
105:مشاعرہ ایک خطرناک ہنگامہ ہے
106:تاریخ ،قوموں اور گروہوں کو نہ ان کے حق سے کم کرتی ہے نہ زیادہ
107: اے لوگو! زمانہ ان ہی سے منہ پھیرتا ہے جو خود سے منہ پھیریں
108: یہ بات کتنی اُداس اور مایوس کر دینے والی بات ہے کہ انسانی دانش اپنی تمام تر معجزنمائی کے باوجود سب سے زیادہ مہیب اور مہلک بیماری یعنی نفرت کا علاج کرنے میں آج تک بُری طرح ناکام رہی ہے
 

محمد سرمد

محفلین
بہت ہی خوب اور اسی پر ان کے چند اشعار یاد آگئے۔

یہ جو تکتا ہے آسماں کو تو
کوئی رہتا ہے آسماں میں کیا۔

یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا۔
 
آخری تدوین:
آپ کی بدولت کیا ہی شاہپارے پڑھنے کو مل رہے ہیں...
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
محبت بھائی کی
منمون ہوں بھیا
بہت ہی خوب اور اسی پر ان کے چند اشعار یاد آگئے۔

یہ جو تکتا ہے آسماں کو تو
کوئی رہتا ہے آسماں میں کیا۔

یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا
ایک ہی شخص تھا ہان میں کیا۔
شکریہ بھائی
 

احسان قمی

محفلین
بہت خوبصورت اور قابل استفادہ کاش اور بھی دوسری شخصیتوں مثلا ابن صفی صاحب مرحوم کے جملے جمع کئے جاتے تو کافی اچھا ہوتا
 
Top