اصلاحِ سخن - خمارِ عشق و محبت اتر گیا کیسے

آدم

محفلین
سر الف عین ، یاسر شاہ اور دیگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے اور امید ہے کہ اپنے قیمتی وقت اور قیمتی رائے سے نوازیں گے۔ اس بحر میں غزل کہنے کی یہ میری پہلی کاوش ہے۔

خمارِ عشق و محبت اتر گیا کیسے
وفا کا ڈھونگ رچاتے ہیں بے وفا کیسے

فسانۂ غمِ الفت ختم ہوا کیسے
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے

وہ جس کا ورد ہر اک پل تھا تیرے ہونٹوں پر
اب اس کا نام بھی تم نے بھلا دیا کیسے

سبھی کے سامنے گل چیں نے پھول نوچ لیے
مرا چمن مرا گلشن اجڑ گیا کیسے

دیے جلائے بہت تھے حسین خوابوں کے
پر ایک جھونکے نے سب کو بجھا دیا کیسے

ترے بنا مری سانسیں مجال ہے کہ چلیں
مرے بنا ترا آنگن ہرا بھرا کیسے

بنائے وصل کے، ساحل پہ خوب منصوبے
وہ اک لہر ہی تو تھی، سب مٹا دیا کیسے

تو رہنما تھا مرا، تجھ سے آس تھی میری
میں دشت میں یوں اکیلا ہی مر گیا کیسے

میں اور چاند ترے در پہ تھے ضیا کیلئے
وہ بھر کے جھولی، میں خالی پلٹ گیا کیسے

ہوا تھا چھید مری ناؤ میں، ہے یہ معلوم
نہیں ہے یاد کنارے سے میں لگا کیسے

جسے نکالا گیا اپنے گھر سے ہی آدمؔ
اسے ہو پھر کوئی خوفِ سزا بھلا کیسے​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خمارِ عشق و محبت اتر گیا کیسے
وفا کا ڈھونگ رچاتے ہیں بے وفا کیسے
۔۔۔ پہلا مصرع دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہا ۔۔۔ ایک طرف بلند الفاظ و تراکیب ہیں، دوسری طرف وفا کا ڈھونگ ۔۔۔ کمزور لگتا ہے ۔۔
فسانۂ غمِ الفت ختم ہوا کیسے
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے
۔۔۔ ختم ۔۔۔ اس میں صرف خ پر زبر ہوتا ہے ، باقی دونوں حروف ساکن ۔۔۔
وہ جس کا ورد ہر اک پل تھا تیرے ہونٹوں پر
اب اس کا نام بھی تم نے بھلا دیا کیسے
۔۔ ایک مصرع میں تیرے، دوسرے میں تم نے ۔۔۔ ؟
سبھی کے سامنے گل چیں نے پھول نوچ لیے
مرا چمن مرا گلشن اجڑ گیا کیسے
۔۔۔ کیسے کا جواب پہلے مصرع میں موجود ہے، یہاں کیسے کا سوال ہی نہیں بنتا جو ضروری ہے ۔۔۔ کیونکہ وہ ردیف ہے۔ پہلا مصرع بدل دیں تو اچھا ہو ۔۔
دیے جلائے بہت تھے حسین خوابوں کے
پر ایک جھونکے نے سب کو بجھا دیا کیسے
۔۔۔ دئیے جلائے تھے کتنے حسین خوابوں کے ۔۔۔ دیکھ لیجئے، شاید یہ بہتر ہو ۔۔ اور دوسرے مصرع میں پر کی جگہ "اب" ۔۔۔ شاید بہتر ہو
ترے بنا مری سانسیں مجال ہے کہ چلیں
مرے بنا ترا آنگن ہرا بھرا کیسے
۔۔۔ دوسرا مصرع بہت ہی کمزور ہے ۔۔۔ کچھ اور سوچئے ۔۔
بنائے وصل کے، ساحل پہ خوب منصوبے
وہ اک لہر ہی تو تھی، سب مٹا دیا کیسے
۔۔۔ لہر والا مصرع ۔۔۔ درست نہیں ۔۔ پہلا مصرع بھی جاندار نہیں ۔۔۔
تو رہنما تھا مرا، تجھ سے آس تھی میری
میں دشت میں یوں اکیلا ہی مر گیا کیسے
۔۔۔۔ اچھا ہے ۔۔
میں اور چاند ترے در پہ تھے ضیا کیلئے
وہ بھر کے جھولی، میں خالی پلٹ گیا کیسے
۔۔ میں اور چاند ملے تجھ سے روشنی کے لیے ۔۔۔ کیسا رہے گا ؟؟
ہوا تھا چھید مری ناؤ میں، ہے یہ معلوم
نہیں ہے یاد کنارے سے میں لگا کیسے
۔۔ زیادہ گہرا خیال نہیں، لیکن تنقید کی کوئی وجہ بھی نہیں بنتی ۔۔
جسے نکالا گیا اپنے گھر سے ہی آدمؔ
اسے ہو پھر کوئی خوفِ سزا بھلا کیسے
پھر یا بھلا میں سے کوئی ایک استعمال کیجئے، دونوں کے استعمال سے مصرع کمزور ہو رہا ہے ۔۔۔​
نوٹ: میرے دئیے ہوئے مصرعے تقطیع نہیں کیے گئے ۔۔۔ دیکھ لیجئے گا ۔۔۔ نہ ہو تو بتائیے گا ۔۔۔
 

آدم

محفلین
خمارِ عشق و محبت اتر گیا کیسے
وفا کا ڈھونگ رچاتے ہیں بے وفا کیسے
۔۔۔ پہلا مصرع دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہا ۔۔۔ ایک طرف بلند الفاظ و تراکیب ہیں، دوسری طرف وفا کا ڈھونگ ۔۔۔ کمزور لگتا ہے ۔۔
فسانۂ غمِ الفت ختم ہوا کیسے
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے
۔۔۔ ختم ۔۔۔ اس میں صرف خ پر زبر ہوتا ہے ، باقی دونوں حروف ساکن ۔۔۔
وہ جس کا ورد ہر اک پل تھا تیرے ہونٹوں پر
اب اس کا نام بھی تم نے بھلا دیا کیسے
۔۔ ایک مصرع میں تیرے، دوسرے میں تم نے ۔۔۔ ؟
سبھی کے سامنے گل چیں نے پھول نوچ لیے
مرا چمن مرا گلشن اجڑ گیا کیسے
۔۔۔ کیسے کا جواب پہلے مصرع میں موجود ہے، یہاں کیسے کا سوال ہی نہیں بنتا جو ضروری ہے ۔۔۔ کیونکہ وہ ردیف ہے۔ پہلا مصرع بدل دیں تو اچھا ہو ۔۔
دیے جلائے بہت تھے حسین خوابوں کے
پر ایک جھونکے نے سب کو بجھا دیا کیسے
۔۔۔ دئیے جلائے تھے کتنے حسین خوابوں کے ۔۔۔ دیکھ لیجئے، شاید یہ بہتر ہو ۔۔ اور دوسرے مصرع میں پر کی جگہ "اب" ۔۔۔ شاید بہتر ہو
ترے بنا مری سانسیں مجال ہے کہ چلیں
مرے بنا ترا آنگن ہرا بھرا کیسے
۔۔۔ دوسرا مصرع بہت ہی کمزور ہے ۔۔۔ کچھ اور سوچئے ۔۔
بنائے وصل کے، ساحل پہ خوب منصوبے
وہ اک لہر ہی تو تھی، سب مٹا دیا کیسے
۔۔۔ لہر والا مصرع ۔۔۔ درست نہیں ۔۔ پہلا مصرع بھی جاندار نہیں ۔۔۔
تو رہنما تھا مرا، تجھ سے آس تھی میری
میں دشت میں یوں اکیلا ہی مر گیا کیسے
۔۔۔۔ اچھا ہے ۔۔
میں اور چاند ترے در پہ تھے ضیا کیلئے
وہ بھر کے جھولی، میں خالی پلٹ گیا کیسے
۔۔ میں اور چاند ملے تجھ سے روشنی کے لیے ۔۔۔ کیسا رہے گا ؟؟
ہوا تھا چھید مری ناؤ میں، ہے یہ معلوم
نہیں ہے یاد کنارے سے میں لگا کیسے
۔۔ زیادہ گہرا خیال نہیں، لیکن تنقید کی کوئی وجہ بھی نہیں بنتی ۔۔
جسے نکالا گیا اپنے گھر سے ہی آدمؔ
اسے ہو پھر کوئی خوفِ سزا بھلا کیسے
پھر یا بھلا میں سے کوئی ایک استعمال کیجئے، دونوں کے استعمال سے مصرع کمزور ہو رہا ہے ۔۔۔​
نوٹ: میرے دئیے ہوئے مصرعے تقطیع نہیں کیے گئے ۔۔۔ دیکھ لیجئے گا ۔۔۔ نہ ہو تو بتائیے گا ۔۔۔

بہت بہت شکریہ شاہد بھائی اپنے وقت اور اصلاح کیلئے۔ :)
 

آدم

محفلین
فسانۂ غمِ الفت ختم ہوا کیسے
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے
۔۔۔ ختم ۔۔۔ اس میں صرف خ پر زبر ہوتا ہے ، باقی دونوں حروف ساکن ۔۔۔

شاہد شاہنواز اس پر بھی تھوڑی روشنی ڈال دیں۔ یہ میں نے عروض ڈاٹ کام- کسی بھی اردو شعر کی تقطیع کیجئے یا وزن معلوم کیجئے پر چیک کیا۔ مجھے تجسس تھا کیونکہ جب پہلے دیکھا تھا تو اس وقت اس نے وزن میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
Ds8kNBF.png

وہ اک لہر ہی تو تھی، سب مٹا دیا کیسے
۔۔۔ لہر والا مصرع ۔۔۔ درست نہیں
لہر کی تقطیع کیلئے کافی تلاش کی تھی اور پھر اس لڑی سے "لَہَر" کی سند مل گئی۔ اس پر بھی تھوڑا تبصرہ کریں کہ کیا اس کو اس حالت میں یہاں استعمال کیا جا سکتا ہے یا اجتناب ہی بہتر ہے۔

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
لہر کو تو دونوں طرح قبول کیا جا سکتا ہے اگرچہ معمول فاع کے وزن پر ہی ہے
ختم تو ت ساکن کے ساتھ ہی ہے عروض ڈاٹ کام پر غلط دیا گیا ہے
شاہد شاہنواز سے متفق ہوں اصلاح کے ضمن میں

پر ایک جھونکے نے سب کو بجھا دیا کیسے
پر کی جگہ میں 'اب' نہیں بلکہ 'بس' کو ترجیح دوں گا

ہوا تھا چھید مری ناؤ میں، ہے یہ معلوم
آخری ٹکڑا 'پتا ہے مجھے' کرنے سے زیادہ رواں ہو گا
 

آدم

محفلین
لہر کو تو دونوں طرح قبول کیا جا سکتا ہے اگرچہ معمول فاع کے وزن پر ہی ہے
ختم تو ت ساکن کے ساتھ ہی ہے عروض ڈاٹ کام پر غلط دیا گیا ہے
شاہد شاہنواز سے متفق ہوں اصلاح کے ضمن میں

پر ایک جھونکے نے سب کو بجھا دیا کیسے
پر کی جگہ میں 'اب' نہیں بلکہ 'بس' کو ترجیح دوں گا

ہوا تھا چھید مری ناؤ میں، ہے یہ معلوم
آخری ٹکڑا 'پتا ہے مجھے' کرنے سے زیادہ رواں ہو گا

شکریہ الف عین سر اصلاح کیلیے۔

مجھے بھی"بس" زیادہ موزوں لگا تھا تو وہ استعمال کر لیا تھا۔

ابھی شاہد شاہنواز بھائی کی اور آپ کی دی گئی ہدایات کے مطابق اس کی نوک پلک سنوار کے پھر حاظر ہوتا ہوں
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد شاہنواز اس پر بھی تھوڑی روشنی ڈال دیں۔ یہ میں نے عروض ڈاٹ کام- کسی بھی اردو شعر کی تقطیع کیجئے یا وزن معلوم کیجئے پر چیک کیا۔ مجھے تجسس تھا کیونکہ جب پہلے دیکھا تھا تو اس وقت اس نے وزن میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
Ds8kNBF.png


لہر کی تقطیع کیلئے کافی تلاش کی تھی اور پھر اس لڑی سے "لَہَر" کی سند مل گئی۔ اس پر بھی تھوڑا تبصرہ کریں کہ کیا اس کو اس حالت میں یہاں استعمال کیا جا سکتا ہے یا اجتناب ہی بہتر ہے۔

شکریہ
لفظ "ختم" پر اتنی ہی روشنی ڈال سکتا ہوں کہ جناب جس ختم کا مطلب ہے اختتام، اس میں ت ساکن ہوتی ہے۔ دوسرا ختم وہ ہو سکتا ہے جس میں قرآن کہتا ہے:
خَتَمَ اللہ علٰی قلوبہم ۔۔۔ یعنی اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ اس ختم کا مطلب مہر ہے۔ یہ الگ لفظ ہے جو شعر میں آپ کا مدعا معلوم نہیں ہوتا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
خمارِ عشق و محبت اتر گیا کیسے
وفا کا ڈھونگ رچاتے ہیں بے وفا کیسے

فسانۂ غمِ الفت ختم ہوا کیسے
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے

پہلے دو اشعار کے متبادل یہ رکھ سکتے ہیں :

خمارِ عشق اچانک اتر گیا کیسے؟
وفا کا ڈھونگ رچاتے ہیں بے وفا کیسے

فسانۂ غمِ الفت کسے سناؤں میں ؟
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے


آگے مزید بات کریں گے جب آپ غزل کی نئی شکل پیش کریں گے-
یاسر
 
Top