چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

الف نظامی

لائبریرین
اس سے پہلے کہ دل کے خیال سے تعلق پر گفتگو ہو یہ جاننا ضروری ہے کہ دل کسے کہا یا سمجھا جا رہا ہے۔ کیا اس عضلے کو جو سارے دل میں خون کی فراہمی کرتا ہے۔ یا پھر سوچ کے اس مرکز کو جس کے گرد ہم اپنی اپنی دنیا کا تانا بانا بنتے ہیں
کچھ فیصلے انسان اپنے دل سے کرتا ہے تو کیا دل میں ذہن جیسی پراسیسنگ ہوتی ہے؟
 
کچھ فیصلے انسان اپنے دل سے کرتا ہے تو کیا دل میں ذہن جیسی پراسیسنگ ہوتی ہے؟
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں دل سے مراد آپ خیال کا وہ پہلو لے رہے ہیں جو ہمارے خیال کے اس پہلو کے خلاف دلائل دیتا ہے جو منطق کے مطابق سوچ کر فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔
اگر میں غلط ہوں تو براہ کرم اصلاح فرما دیجئے گا۔
انسانی سوچ بے شک ایک جال کی طرح کام کرتی ہے جس کی بہت سے گرہیں ہیں اور بہت سے راستے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم تربوز کے متعلق سوچتے ہیں لیکن ہمارا ذہن یا ہمیں کسی اور تانے بانے میں ٹیوب ویل کا منظر دکھا کر اس تربوز کو اس کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش میں مشغول ہوتا ہے اس میں کھیت ، بیل ، پانی، کسان، بیج ، دھوپ کچھ بھی آ سکتا ہے۔
یا پھر ہم ایک مسئلے کا منطقی حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں جو منطق اور اسباب و علل سے جڑا ہوا ہے جبکہ سوچ کا وہی پہلو جسے آپ دل سے تشبیہہ دیتے ہیں آپ کو کچھ ایسا کرنے کا مشورہ دے رہا ہوتا ہے جو بظاہر اس منطق اور اسباب و علل سے مرتبط نہیں ہے اور آپ اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی دوسری رائے کو پہلی رائے پر ترجیح دے کر عمل کر لیتے ہیں اور ایسی صورت میں اگر یہ عمل کامیاب ہو تو آپ کا یقین اس دوسرے پہلو پر زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ پہلے پہلو سے آپ کو اپنا تعلق نسبتا کمزور محسوس ہوتا ہے۔
ایسے میں اگر اس سوچ کے جال پر اس یوزر مینوئیل اور نقشہ کی گرفت نہ رکھی جائے تو اس سے گمراہی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ یہ سوچ عموما منطق اور اسباب و علل کی مخالفت کرتی ہے ہم اسے دل کا نام دیتےہیں اور یہی وہ دل ہے جس کا بگاڑ زندگیاں تباہ اور آخرت برباد کر دیتا ہے-اور عقل یا دماغ (جو عموما اسباب و علل کا پابند ہوتا ہے) سے زیادہ اس دل (اسباب و علل سے آزاد سوچ) کو روشن اور پاکیزہ اور مطیع ہدایت کرنے پر زور دیا جاتا ہے

اور ایمان تو نام ہی دل (اسباب و علل سے پاک سوچ) کے مان جانے کا ہے ۔ خدا پر یقین صرف چیزیں دیکھ کر کرنا چاہیں گے تو دہریہ ہونے کا خطرہ ہے جبکہ یہاں آپ کا دل آپ کو بتا رہا ہے کہ خدا ہے ہے ہے لیکن آپ اسے عقل کی حدوں میں قید کرنے کی کوشش کریں گے تو اسٹیفن ہاکنگز تو بن سکتے ہیں مومن باللہ نہیں

ابو جہل کا دل مانتا تھا کہ خدا ہے اور اسی خدا نے اپنے محبوب کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا لیکن اس کا دماغ تمام تر دلائل دیکھنے کے باوجود اسی جال کے تانے بانے میں موجود دوسرے اسباب و علل (مال -جاہ و حشم ، تفاخر -تسلط)کو مرکز یقین بنا کر اسے حق سے تجاہل برتنے پر راضی رہا اور اس رضا میں جب اس کا دل مطیع جہل ہو گیا جس میں اسکی اپنی مرضی شامل تھی لہذا معذور نہ رہا بلکہ ابو جہل کہلایا
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اگر خود پر لاگو کرنا اتنا مشکل ہوتا تو اس کے لاگو کرنے کے حکم نامے پر ۔۔۔۔۔لکم ۔۔۔( تمہارے لیئے) کا تخاطب عام نہ ہوتا بلکہ کوئی اور تخصیص ہوتی ۔ ہاں جتنے بڑے عالم بننے کی کوشش کریں گے اتنا علم زیادہ درکار ہوگا اور جتنا علم زیادہ ہوگا ذمہ داری اور حساب بھی اتنا ہی بڑا ہوگا لہذا سب کچھ جاننا ضروری نہیں بلکہ جتنا براہ راست متعلقہ ہو اتنا ہی جاننا ضروری ہے البتہ مرکزی کونیکٹر کے ساتھ کونیکشن کا قائم رہنا بہت ضروری ہے جو عبادات کا حق ادا کرنے کی سعی سے ہی قائم رہتا ہے


صرف کوشش کریں کہ یہ سوچ سمجھ کر قرآن کا مطالعہ فرمائیں کہ اس کا مخاطب ہم ہیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے

دنیا کو درست کرنے کے سفر پر خود سے مت نکلیں اپنی اصلاح کا سفر شروع کریں اگر دوسرا سفر آپ کے لیئے مقدر ہے تو آپ اس پر چلیں گے نہیں تو اپنی اصلاح تو ہوگی ہی ہوگی

ان شاءاللہ

قران پاک کے حوالے کے بنا اگر بات ہوجائے تو اس سے بات زیادہ وضاحت سے ہوجائے گی وگرنہ کم علمی کو لفظوں سے ڈھانپنا مشکل ہوجائے گا ..... ابھی تک تو جناب والا اپنی بات کی تھی.
 

نور وجدان

لائبریرین
اس سے پہلے کہ دل کے خیال سے تعلق پر گفتگو ہو یہ جاننا ضروری ہے کہ دل کسے کہا یا سمجھا جا رہا ہے۔ کیا اس عضلے کو جو سارے دل میں خون کی فراہمی کرتا ہے۔ یا پھر سوچ کے اس مرکز کو جس کے گرد ہم اپنی اپنی دنیا کا تانا بانا بنتے ہیں
چلیں اس پر تفصیلی گفتگو ہو جائے تاکہ دل کے بارے میں علم مل سکے ... تو سوچ کا مرکز کہاں ہے؟ کس جگہ پر ہے جسم میں
 

احمد محمد

محفلین
لوسی نام کی فلم کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو چند باتیں یاد رکھیں ۔
۱۔ یہ فلم پیسہ کمانے کے لیئے بنائی گئی تھی لہذا اس میں حقائق کو اس فلم کے مرکزی خیال کے ساتھ ایسے گڈمڈ کیا گیا ہے کہ وہ سب اصل محسوس ہو اور کہانی میں دلچسپی قائم رہے اور وہ دیکھنے والے کو آخر تک بٹھا کر رکھ سکے۔
۲۔ جس دوا کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ دوا حقیقت میں موجود ہو ایسا لازم نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو اس کے ایسے اثرات ہوں ایسا بھی لازم نہیں ہے۔ بلکہ اگر ایسی کوئی دوا ہوتی اور اس کے اس کا دس فیصد بھی اثرات ہوتے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ فلم کبھی عوام الناس تک پہنچتی۔۔؟؟
۳۔ ہم انسان اپنے دماغ کا بالکل ہر حصہ استعمال کرتے ہیں اور سو فیصد دماغ کا کوئی ایک بھی حصہ ایسا نہیں جو استعمال نہ ہوتا ہو البتہ مختلف کاموں میں دماغ کے مختلف حصے استعمال ہوتے ہیں لہذا ایک ہی وقت میں پورا دماغ استعمال ہو یہ ممکن نہیں ۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک ہی لمحے میں آپ بات کر بھی رہے ہوں اور عین اسی وقت دوڑ بھی رہے ہوں اور نہا بھی رہے ہوں اور کھا بھی رہے ہوں اور پی بھی رہے ہوں اور سو بھی رہے ہوں۔ کیونکہ ان تمام کاموں میں دماغ کے مختلف حصے استعمال ہوتے ہیں بلکہ کچھ تو ایک حصہ استعمال کرنے کو کسی دوسرے کام کے ساتھ مشترکہ طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔

آپ نے درست فرمایا۔ وقتاً فوقتاً مزید آپ سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔
 
قران پاک کے حوالے کے بنا اگر بات ہوجائے تو اس سے بات زیادہ وضاحت سے ہوجائے گی وگرنہ کم علمی کو لفظوں سے ڈھانپنا مشکل ہوجائے گا ..... ابھی تک تو جناب والا اپنی بات کی تھی.
صرف عقل اور سائنسی دلائل تو شاید سوچ سے وجود کو بھی ثابت نہ کر سکیں یہ زیادہ سے زیادہ آپ کو برقی اشاریوں تک پہنچا سکتی ہے جو سوچ ، احساس لمس یا تخیل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اس سے آگے فینامینا آف نیچر شروع ہو جاتا ہے جس کے سمجھنے کے لیئے پھر روحانیت اور مذہبیت میں پناہ لینا پڑے گی اور ہمیں الہام ، کشف، وحی اور روح کی بحث میں پڑنا ہوگا۔ فی الوقت میں آپ کی خواہش پر خاموشی اختیار کرتا ہوں اور ہم سب دیکھتےہیں کہ موضوع کہاں جاتا ہے۔ آپ کی چائے ، کافی اور چلغوزے بہت اچھے تھے بسکٹ نے مزہ دوبالا کردیا
 

نور وجدان

لائبریرین
صرف عقل اور سائنسی دلائل تو شاید سوچ سے وجود کو بھی ثابت نہ کر سکیں یہ زیادہ سے زیادہ آپ کو برقی اشاریوں تک پہنچا سکتی ہے جو سوچ ، احساس لمس یا تخیل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اس سے آگے فینامینا آف نیچر شروع ہو جاتا ہے جس کے سمجھنے کے لیئے پھر روحانیت اور مذہبیت میں پناہ لینا پڑے گی اور ہمیں الہام ، کشف، وحی اور روح کی بحث میں پڑنا ہوگا۔ فی الوقت میں آپ کی خواہش پر خاموشی اختیار کرتا ہوں اور ہم سب دیکھتےہیں کہ موضوع کہاں جاتا ہے۔ آپ کی چائے ، کافی اور چلغوزے بہت اچھے تھے بسکٹ نے مزہ دوبالا کردیا
میں نے کم علمی کو چھپانے کی بات کی تھی .... میں خود سائنس کو قران پاک کے موازنے کے قابل نہین گردانتی. اک بے عمل، کم علم کو یہ بھی احساس کم تری میں مبتلا کردے گا کہ قران پڑھا نا عمل کیا ... قران پر غور و فکر نہ کیا ... آپ اس کو شاید نہ سمجھ سکیں .... مگر یہ کیا کہ اپنے انداز فکر سے محروم کر رہے..یہ فینا مینا کیا ہوتا؟ اسکے لیے روحانیت کیا تعلق کیا حیثیت رکھتا؟ ....موضوع تو سوال پر چلا جائے گا نا جیسا کہ اب کہ سوال پر)) بہت شکریہ چائے کو پسند فرمانے کا:)
 
میں نے کم علمی کو چھپانے کی بات کی تھی .... میں خود سائنس کو قران پاک کے موازنے کے قابل نہین گردانتی. اک بے عمل، کم علم کو یہ بھی احساس کم تری میں مبتلا کردے گا کہ قران پڑھا نا عمل کیا ... قران پر غور و فکر نہ کیا ... آپ اس کو شاید نہ سمجھ سکیں .... مگر یہ کیا کہ اپنے انداز فکر سے محروم کر رہے..یہ فینا مینا کیا ہوتا؟ اسکے لیے روحانیت کیا تعلق کیا حیثیت رکھتا؟ ....موضوع تو سوال پر چلا جائے گا نا جیسا کہ اب کہ سوال پر)) بہت شکریہ چائے کو پسند فرمانے کا:)
کسی غلط فہمی میں مت جائیے میں صرف کچھ دیر تک دیکھنا چاہتا ہوں کہ ساتھی اس گفتگو کو کہاں لے کر جاتے ہیں۔ دوسری بات جو آپ نے کی یہ سوچ ہمیشہ ہر مسلمان میں رہنی چاہیئے کہ قرآن کریم عربی زبان کی قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے اسے پڑھنا معارف کے ساتھ ہی مفید ہے ورنہ حرف حرف پر نیکیوں کی گنتی ہے۔ کم علمی کی کیا بات کہی مجھ جیسا جاہل کہاں ملے گا کہ دو باتیں سن سیکھ لیں اور سب پر رعب ڈالنے بیٹھ گیا۔ لیکن نیت صرف وضاحت کی تھی کسی کو نہ تو متاثر کرنا مقصود تھا نہ کسی قسم کی ریاکاری کا ارادہ تھا۔ اللہ ہم سب کو ہدایت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
میرا محفل کا دہائی سے زیادہ کا تعلق ہے ایسے اٹھ کر جانے والا نہیں ہوں ان شاء اللہ جب تک اٹھایا نہ جاؤں
 

نور وجدان

لائبریرین
کسی غلط فہمی میں مت جائیے میں صرف کچھ دیر تک دیکھنا چاہتا ہوں کہ ساتھی اس گفتگو کو کہاں لے کر جاتے ہیں۔ دوسری بات جو آپ نے کی یہ سوچ ہمیشہ ہر مسلمان میں رہنی چاہیئے کہ قرآن کریم عربی زبان کی قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے اسے پڑھنا معارف کے ساتھ ہی مفید ہے ورنہ حرف حرف پر نیکیوں کی گنتی ہے۔ کم علمی کی کیا بات کہی مجھ جیسا جاہل کہاں ملے گا کہ دو باتیں سن سیکھ لیں اور سب پر رعب ڈالنے بیٹھ گیا۔ لیکن نیت صرف وضاحت کی تھی کسی کو نہ تو متاثر کرنا مقصود تھا نہ کسی قسم کی ریاکاری کا ارادہ تھا۔ اللہ ہم سب کو ہدایت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
میرا محفل کا دہائی سے زیادہ کا تعلق ہے ایسے اٹھ کر جانے والا نہیں ہوں ان شاء اللہ جب تک اٹھایا نہ جاؤں
گفتگو تو آپ کے دم سے بھی چل رہی ہے اور زیادہ لوگ آپ سے علم.بھی پا رہے تو پوچھے گئے سوال کا جواب بھی گفتگو کو جاری رکھے گا. ...یہی تو اپنائیت ہے .... اچھا لگا یہ جان کر ...... آپ ماشاء اللہ.صاحب علم ہے
 

ظفری

لائبریرین
بات میں مگر وزن تھا ........
تو کیا سمجھا جائے ......
دراصل بات یہ ہے کہ اب وہ فرصت کہاں نصیب جو اس دقیق موضوع پر کوئی مفصل بات کہنےکا موقع مل سکے۔جو موضوع آپ نے بظاہر محفل کی کنٹین میں چھیڑا ہے۔ وہ اتنا آسان و سہل نہیں کہ چائےکے ایک کپ کے گھونٹ سے حل ہوجائے ۔ یہ ایک طویل سفر ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس منزل کا سراغ تو ناممکن نہیں البتہ راستے کا تعین بہت دشوار ہے ۔ بقول صابر ظفر
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے
یہ راستہ دل و دماغ کی پگڈنڈی سے ہوتا ہوا تصوف کی چوٹی پر سے اتر کر پھر شروع ہوتا ہے ۔ خیال خوانی ، خود تنویمی ، خود شناسی ، شعور ، لاشعور ، غنودگی یہ سب کفیتیں ہیں ۔ مگر ان کفیتوں کو محترک کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ چونکہ یہ دماغ اور جسم کے تعلق سے بلکل ایک الگ کمیونیکیشن ہے ۔ اس لیئے یہ مادیت سے بالاتر ہے ۔ قلب اور روح کو تعلق کو پانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ سرسری طور پر تو ہر وہ آدمی جو اس کی تھوڑی سی بھی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ ایک محدود اپروچ تو کرلیتا ہے ۔ مگر وہ صرف شعبدہ بازی کی حد کی محدود رہتا ہے ۔ اور ہم اس کی بہت سی مثالیں بھی دیکھتے ہیں ۔ مگر اس کی حقیقی معراج کو پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ۔ (میں نے اس موضوع کو خالق کے حوالے سے دیکھا ہے) ۔ اور میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس کی اصل شکل کو دیکھنا چا ہیں تو پھر وہ خالق کی مدد کے بغیر ناممکن ہے ۔اور خالق سے تعلق پیدا کرنا مقصود ہو تو پھر خالق سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیئے۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
چلیں اس پر تفصیلی گفتگو ہو جائے تاکہ دل کے بارے میں علم مل سکے ... تو سوچ کا مرکز کہاں ہے؟ کس جگہ پر ہے جسم میں
سوچ کا مرکز صرف اور صرف "دل" ہے ۔ دماغ پھر اس سوچ کو صرف پروسس کرتا ہے ۔ موقع ملا تو تفصیلی طور پر وضع بھی کرسکتا ہوں ۔میں بس ذرا فلسفے سے ہٹ کر سائنس اور مذہب کی روشنی میں دلائل دینے کی کوشش کروں گا ۔ بس تھوڑی سی فرصت نصیب ہو۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
یقی معراج کو پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ۔ (میں نے اس موضوع کو خالق کے حوالے سے دیکھا ہے) ۔ اور میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس کی اصل شکل کو دیکھنا چا ہیں تو پھر وہ خالق کی مدد کے بغیر ناممکن ہے ۔اور خالق سے تعلق پیدا کرنا مقصود ہو تو پھر خالق سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیئے۔
خالق سے تعلق کی سیڑھی کیا ہے؟ اولین ترجیحات یا ثانوی ہوں ..... کیا یہ تعلقات بناتی ہیں یا بنانے میں معاون ہیں ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
سوچ کا مرکز صرف اور صرف "دل" ہے ۔ دماغ پھر اس سوچ کو صرف پروسس کرتا ہے ۔ موقع ملا تو تفصیلی طور پر وضع بھی کرسکتا ہوں ۔میں بس ذرا فلسفے سے ہٹ کر سائنس اور مذہب کی روشنی میں دلائل دینے کی کوشش کروں گا ۔ بس تھوڑی سی فرصت نصیب ہو۔
فلسفہ ہے کیا؟ کیا تصوف بھی فلسفہ ہے؟ سوچ کیسے دل میں پیدا ہوتی ہیں؟ اگر سوچ اختیاری ہے تو کنٹرول کی جاسکتی ہے اور اگر غیر اختیاری تو گناہ ثواب کا معاملہ.بھی گیا ..... اس اختیاری کنٹرول کو کیسے جانا جائے یا پرکھا جائے؟
 
Top