چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

نور وجدان

لائبریرین
اگر عنوان میں چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی کے بجائے مونگ پھلی کا ذکر ہوتا تو شاید ہم جلد پہنچ جاتے اس لڑی میں۔ :)

بچپن میں ہم نے بھی ایک آدھ دفع سفید کاغذ پر سیاہ دائرہ بنا کر اُس کو کافی گھورنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوابلکہ ہماری ٹُکر ٹُکر پھرنے کی عادی آنکھیں ٹسوے بہانے لگیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس سے زیادہ مستقل مزاجی تو ہم میں تھی بھی نہیں !

سو ہم نے ہیپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کو کہانیوں کی پٹاری میں ہی بند کر دیا۔ :) اب سکون سے ہیں۔
ایسی کوشش بہت پہلے کی تھی. آنسو ہی نکلے تھے ...:)
 

جاسمن

لائبریرین
اگر عنوان میں چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی کے بجائے مونگ پھلی کا ذکر ہوتا تو شاید ہم جلد پہنچ جاتے اس لڑی میں۔ :)

بچپن میں ہم نے بھی ایک آدھ دفع سفید کاغذ پر سیاہ دائرہ بنا کر اُس کو کافی گھورنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوابلکہ ہماری ٹُکر ٹُکر پھرنے کی عادی آنکھیں ٹسوے بہانے لگیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس سے زیادہ مستقل مزاجی تو ہم میں تھی بھی نہیں !

سو ہم نے ہیپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کو کہانیوں کی پٹاری میں ہی بند کر دیا۔ :) اب سکون سے ہیں۔

:D میرے بھیا نے بہت تجربات کیے۔ ٹیلی پیتھی کی کتابوں کے ساتھ ساتھ۔ جادو کی کتابیں ۔ کٹھ پتلیوں کے تماشے۔ نجانے کیا کیا۔ ایک بار اُس نے کتاب میں غائب ہونے کا طریقہ پڑھا کہ چمگادڑ کے بائیں پر کو اپنے دائیں بازو سے باندھیں یا شاید دائیں پر کو بائیں بازو سے باندھیں۔
اُس نے کہیں سے چمگادڑ حاصل کی اور کتاب کی ہدایت پہ عمل کیا۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگا۔
"کیا میں غائب ہوگیا؟"
نہیں بھیا! آپ تو میرے سامنے ہو۔
:D
 

فلک شیر

محفلین
ہمارے زمانے میں والدین صرف ٹیلی پیتھی سے کام لے کر ہی بچوں کو سدھار لیتے تھے۔ آج کل کے بچوں پر اثر ہی نہیں ہوتا۔
آج کل بچے مندرجہ بالا "ٹیلی پیتھی" کو "ہومیوپیتھی" اور "ہاسا پیتھی" کے قبیل کی چیز گردانتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب والدہ گرامی قدر یا قبلہ والد دام عز واقبالہ کما بدر "ہاتھا پیتھی" کی طرف مائل ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ "ڈپلوماسی پیتھی" کے اصولوں پہ عمل کرتے ہوئے ہنس کر فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں تو مذاق کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو تنگ کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھذا
 

نور وجدان

لائبریرین
۱۔ ٹیلی پیتھی یا خیال خوانی کے لیئے کن چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
جی تو پہلا سوال یہ ہے کہ ٹیلی پیتھی یا خیال خوانی کے لیئے کن چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ایک ایسا عامل کا ہونا ضروری ہے جسے اس عمل پر عبور حاصل ہو دوسری ضروری چیز ایک عدد معمول کا وجود ہے جبکہ ان دونوں کے درمیان ربط/واسطہ یا خیال کی لہروں کی نقل پذیری کے لیئے ایک میڈیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ میڈیم آواز، تصویر، ذاتی موجودگی میں سے ایک متصور ہوتا ہے کچھ حالات میں اس کا وجود ضروری نہیں بھی رہتا لیکن وہ انتہائی مخصوص حالات ہوتے ہیں- اور ہر عامل ان حالات میں کام نہیں کر پاتا
ٹیلی پیتھی کے متعلق ایک بات جان لینا بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ تحریک، ترغیب یا کسی سوچ کی طرف مائل کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں البتہ مختلف رسائل ، جرائد اور کہانیوں میں ہونے والی ٹیلی پیتھی در اصل تیلی پیٹھی ہوتی ہے حقیقت سے اس کا اتنا ہی تعلق ہوتا ہے جتنا کامک فلموں کے سپر ہیروز کا ایسے رسائل ذہنی منشیات ہوتے ہیں اور آپ کو حقیقی دنیا سے دور اپنی ہی ایک دنیا بنا کر اس میں رہنے کا عادی بنا دیتے ہیں۔ نتیجہ وقت پیسے اور ذہنی صلاحیتوں کا ضیاع ہوتاہے
بس اتنا سا: ( :( :(
 
اسی طرح کسی کے ذہن پر کنٹرول حاصل کر لینا۔ اس کی شخصیت بدل دینا۔ اس کی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دینا یہ سب ہوائی باتیں ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا
 
۲۔ خود آگاہی یعنی خود شناسی کا وہ مقام جس میں ہم اپنی ``میں`` سے الگ ہوتے خود کو دیکھیں (کہاں ہے) یا برائیاں دیکھتے (خود کو ) خود تنویمی (سطح) پر لا سکیں ۔ (جس کا بنیادی مقصد یہ ہو) تاکہ ہم بہترین انسان بن سکیں اور اس کے علاوہ خود کو صحت و تندرستی کی جانب لے جانا (ممکن ہو سکے)۔(اس میں سے کچھ حصہ یا) یہ سب ہم کر رہے ہوتے ہیں مگر غیر ارادی ایک ریفلیکس ایکشن کے طور پر (میں ) اس کو ارادی عمل بنانا چاہتی ہوں( تو ایسا کیسے ہو)۔
ہر تخلیق کی ایک یوزر مینیوئیل ہوتی ہےاور ایک مرکزی نمونہ ہوتا ہے اور یہ بنانے والے کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے تخلیق کنندہ نے بھی ہمیں کتاب و سنت کی شکل میں ایک یوزر مینیوئیل دے دی ہے اور سرکار دوعالم کی صورت مبارکہ میں ایک مرکزی نمونہ فراہم کر دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس مینیوئیل سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود کو اس مرکزی نمونہ جسے دوسرے الفاظ میں اسوۂ حسنہ بھی کہا جاتا ہے کے مطابق کس قدر کر پاتے ہیں- خود شناسی کا سفر یہ جان کر شروع ہوتا ہے کہ ہم من حیث الانسان خطاؤں غلطیوں اور تمام عیوب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس علیم و حکیم کی ہدایات پر عمل کر سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کی سعی کر سکتے ہیں۔مثال کے طور سے ہم سب (میرے حسن ظن کے مطابق) وضو کے طریقے سے تو واقف ہیں ہی لیکن کیا کبھی وضو کے دوران ہم نے غور کیا کہ ہم ہاتھ دھو کر اپنے تخلیق کار کو کیا دیتے ہیں یقینا ہم کچھ نہیں دیتے بلکہ حاصل کرتے ہیں وہ احساس ہے پاکیزگی کا ، اس حاضری کی اہمیت کا جو ہر روز پانچ مرتبہ کم از کم ہم اپنے مینیوفیکچرر کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی ٹیوننگ کرواتے ہیں- اسی طرح نماز میں ہر شے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم اپنے بنانے والے سے گفتگو کرتے ہیں اسی کے سکھائے ہوئے الفاظ سے ان الفاظ کے پیچھے اپنے تمام دکھ مسائل اور پیچیدگیاں کھول کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے یہ دن میں پانچ بار کا ریچارج ہونا ہمارے شعور میں وہ آسودگی فراہم کرتا ہے جو یقینا کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی- ہر ہر لمحے ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں ۔ اللہ اکبر کہا ساری دنیا پیچھے چھوڑ دی، اپنے بنانے والے کی تعریف کی اپنی ذلت کا اقرار کیا اور اس سے وعدہ کیا کہ اے مالک تجھی سے مدد مانگتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو ہی دے ہمیں ہدایت اور رہ نمائی اس راستے کی طرف جو ہدایت کا راستہ ہے ان کا راستہ ہے جو تیرے انعام یافتگان کا راستہ ہے
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسا واقعی ہوتا ہے یا یہ بس آپ لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے یہ باتیں کر رہا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم نماز میں کھڑے ہو کر چند عربی فقرے پڑھ کر بیک گراؤنڈ میں کاروبار، ہمسایوں کے کپڑے، فلم کی اسٹوریاں اور جائے نماز کا ڈیزائن دیکھیں گے تو امکان ہے کہ ایسا نہیں ہوگا لیکن پانچ منٹ کی نماز میں اگر ایک یا دو منٹ تک بھی وہ تصور آپ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ آپ اپنے بنانے والے کے سامنے کھڑے ہیں اور اوپر والا منظر جاری ہے تو دیکھیئے گا خود شناسی کا کون کون سا باب آپ پر وا ہوتا ہے - یہاں آپ میں سے خود کو الگ ہوتے ہوئے دیکھیں گے اپنی برائیاں دیکھیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک تنویمی سطح تک پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ
آہستہ آہستہ ایمبیڈمنٹ کا یہ عمل آپ کو صفائی اور اصلاح کا وہ عمل جاری کرتا ہے جس سے آگے نہ تو خالق حقیقی سے تعلق کی کوئی رکاوٹ باقی رہتی ہے نہ کوئی پردہ رہتا ہے اب اس غیر ارادی ریفلیکس کی باری آتی ہے جو آپ ارادے کے تابع کرنا چاہتی ہیں۔ تو اس کے لیئے اپنی مطابقت آپ کو اس بنیادی نمونہ کے مطابق کرنا ہوگی۔ جتنا جتنا مطابقت زیادہ ہوگی اتنا اتنا یہ ریفلیکسز ارادے کے تابع ہوتے جائیں گے۔ جو جو دعائیں پڑھیں گی اگر ترجمہ پڑھ سمجھ کر خود پر طاری کر کے پڑھیں گی نہیں بلکہ اللہ سے بات کریں گی تو یقین رکھیئے یہ سب کچھ قابو میں آجائے گا ۔ ان شاء اللہ
 

ظفری

لائبریرین
چائے پہ یاد آیا کہ چائے کا مزہ بھی بعض اوقات شراب جیسا ہوتا ہے:) ایسے چائے ملے تو خاک جگنو بن کے اڑ جائے
پھر تو شراب پینے والے بھی شراب کے"مزے " کو چائے سے تشبیہ دیتے ہونگے ۔ :D

بہرحال۔۔۔ ہمیں تو چائے اور چاہ کی اس دیس میں ہمیشہ سے ہی تلاش رہی مگر مجال ہے دونوں میں سے کوئی بھی ایک چیزہاتھ لگی ہو ۔ شاید اس دیس یہ دونوں چیزیں ہی ناپید ہیں ۔ بہرحال کافی میسر ہے تو پیتے ہیں مگر یہ کہہ نہیں سکتے اس کا ذائقہ کس چیز جیسا ہوتا ہے ۔:)
بہرحال یہاں چائے کے ساتھ مونگ پھیلیاں بھی نظر آئیں۔ پیزے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا یا کہ اس سے ہمیں تیزابیت ہوجاتی ہے ۔ چلیں ذرا سوالات کو بھی دیکھتے ہیں ۔

خیال خوانی کا عطیہ خد اوندی کے طو رپر اگر ملا ہے تو آپ کو اپنے خیالات ضرور کنٹرول کرنے آتے ہونگے۔ اگرآپ کے خیالات آپ کے کنٹرول میں ہیں تو بس سمجھ لیجئے کہ آپ میں خیال خوانی کی صلاحیت موجود ہے ۔
بصورتِ دیگر جب اپنے ہی خیالات اور سوچ کنٹرول نہ ہوسکیں تو کسی کے خیالات کیاکنٹرول ہونگیں ۔
ارتکاز دراصل یکسوئی ہے ۔ آپ اس یکسوئی کو کیسے حاصل کرتے ہیں ۔ یہ آپ پر منحصر ہے ۔ آپ تسبیح پڑھیں یا آلتی پالتی مار کی بیٹھ جائیں ۔ بس یکسوئی شرط ہے ۔
خود تنویمی رابطےکی ایک شکل ہے ۔ غیر شعوری تنویمی عموماً منتشرلہروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جو کبھی اپنے ہدف کو فوکس نہیں کرسکتی۔ جبکہ شعوری خود تنویمی ایک مکمل پریکٹس ہے ۔جو ہمالیہ کے سرد پہاڑوں پر جیسی تپسیا کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے ۔ :D
خود تنویمی محدود فاصلے سےمشروط ہے جبکہ خیال خوانی کی کوئی حد نہیں ۔ غنود دماغ کےوقفے کا پریڈ ہے ۔اس دوران دماغ شعور اور لاشعوردونوں سے جزوی طور پر غیر منسلک ہوجاتا ہے ۔اس وقفے میں دماغ ضروری اور غیر ضروری ڈیٹا پرکھ رہا ہوتا ہے ۔جو خواب صورت میں پروسیس ہو رہا ہوتا ہے ۔ اس وقفے کو شعور اور لاشعور کی درمیانی کیفیت سمجھ لیں ۔چونکہ اس دوران دماغ سلیپ موڈ میں ہوتا ہے تو اس حالت میں کمانڈ نہیں دی جاسکتی۔ :D
 
آخری تدوین:

محبوب الحق

محفلین
اہم بات تو یہ ہے کہ علم کو عملی زندگی میں کسی دنیاوی مفاد کیلئے استعمال نہ بھی کیا جائے تو بھی علم ہماری شخصیت نکھارنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ہمارے اندر موجودصلاحیتوں سے روشناس کراتا ہے یہ کسی نعمت سے کم نہیں
 

محبوب الحق

محفلین
آپ نے کسی کی رہنمائی میں شروع کیا سب؟ کیا آپ کو خیال خوانی آتی ہے؟
جب شوق عروج پر تھا اس وقت ہمیں زیادہ رہنمائی میسر نہ ہوئی میرے ایک کزن میرے ہم خیال تھے اور سسپنس ڈائجسٹ کے قاری تھے بس ہم دونوں آپس میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ،بعد ازاں کتابوں کا مطالعہ کیا اور دائرہ بینی ،سانس وغیرہ کی مشقیں کرتے رہے۔خیال خوانی تو بہت آگے کی بات ہے مصروفیات کی باعث شوق کم ہوتا گیا۔
 
Top