بزمِ جُننشِ مژگاں کے زیرِ اہتمام پروگرام *تعارفِ مہمانانِ گرامی* میں محترم نوید صادق صاحب کا انٹرویو

دائم

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویٹس ایپ گروپ *جُننشِ مژگاں* میں منفرد لب و لہجہ رکھنے والے شاعر، افسانہ نگار اور کالم نگار نوید صادق صاحب ( نوید صادق ) کو مدعو کیا گیا، آپ کی شخصیت اور فَن پر پہلے بات کی گئی پھر اُن سے مختلف سوالات کیے گئے، جن کا انھوں نے اس مشّاقی اور عُمدگی سے جواب دیا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑا.. قارئین کے عمومی استفادے کے لیے ان سوالات کے جوابات جو آڈیوز کلپس کی صورت میں تھے، انھیں تحریر میں منتقل کیا گیا اور اس محنت اور جانفشانی سے محترمہ حیا غزل صاحبہ اور محترمہ ثریا صدیق صاحبہ نے ان کو تحریر کے قالب میں ڈھالا کہ تفہیم و توضیح کا حق ادا ہو گیا، آئیے سوالات و جوابات کی اس خصوصی نشست سے ایک بار پھر استفادہ کرتے ہیں :

سوال از ثریا صدیق
کہا جاتا ہے کہ آنے والا دور غزل کے بجائے نظم کا دور ہے یہ خیال کس حد تک درست ہے؟

جواب : کوئی دور کسی ایک چیز کا نہیں ہوتا میں اٹھائیس برسوں سے سن رہا ہوں، احمد مشتاق کا خیال ہے کہ غزل کی موت ہوگئ ہے، انتظار حسین، ظفر اقبال کا بھی یہی کہنا تھا کہ غزل مر رہی ہے، نظم ہو یا غزل اپنی تخیل کے اعتبار سے جگہ بناتی رہے گی، جیسے ہائیکو، سونیٹ وغیرہ کا دور تھا اور آج بھی نظیر اکبر ابادی، راشد احمد، ندیم قاسمی، اختر شیرانی کے سونیٹ آج بھی پڑھی جاتی ہے نظم و غزل دونوں میں فکر کی گہرائی اسے زندہ رکھتی ہے ۔۔

سوال از غلام مصطفی دائم اعوان
ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ نئ نسل کیسی غزل لکھ رہی ہے?

جواب : پاکستان میں اردو غزل پر جو مقالہ لکھا تھا اس کے لئے مین نے سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں سے مواد اکٹھا کیا جو دو ہزار دس تک تھا اور ہندوستان مین بھی عمدہ کلام لکھا جارہا ہے، یہ فَقَط میرے محسوسات ہیں جو میں نے دیکھا، اب نئ نسل اس سے آگے جارہی ہے سجاد باقر رضوی کا کہنا ہے چالیس سال سے پہلے مجموعہ کلام شائع کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے دیکھا وہ لوگ بھی منظر عام پر ائے جو ایک مجموعہ یا چند اشعار دیکر اوراق گم گشتہ میں کھوگئے، میرا پہلا مجموعہ دو ہزار اٹھارہ میں شائع ہوا دوسرا مجموعہ اگلے سال تک متوقع ہے..

سوال : ثریا صدیق
تنقید کسی بھی تخلیق کو اپنے مراحل سے گزار کر لازوال بناتی ہے لیکن آج کا شاعر یا ادیب تنقیدی عوامل سے پہلوتہی کرنے کی کوشش کرتا ہے اسکی کیا وجہ ہے؟

جواب : یہ سوال آپ نے خود ہی بتادیا ہے کہ تخلیق تنقید کے مراحل سے گزر کر لازوال ہوتی ہے، نقاد وہ ہے جو باہر سے آپکی غزل کو دیکھ رہا ہے اور اندر کا نقاد جو اپنی تخلیق کار کے اندر بیٹھا ہے، ایسا درست نہیں کہ اج غزل لکھی کل مشاعرہ پڑھ لین استاذہ ا کہنا ہے کہ جو کچھ لکھا ہے پہلے خود اسے جانچو پرکھو اور پھر اسے پڑھو خالد احمد کی نم گرفتہ کی پروف ریڈنگ چھ ماہ میں تکمیل کو پہنچی نئ نسل میں یہ بھی دیکھنے میں نظر آیا کہ اکثریت اپنے اندر کے نقاد کو استعمال میں لاکر تخلیق کو سامنے لاتے ہیں۔۔

سوال از سید ظہیر حسرت
میرا سوال ہے کہ آپ غزل میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں یا نظم میں؟

جواب : آجکل تو غزل میں سہولت ہورہی ہے اسی طرف مائل ہوں لیکن جب نظم کی طرف مائل ہوں تو غزل کے مصرعے بھی نظم محسوس ہونے لگتے ہیں

سوال از غلام مصطفی دائم اعوان
شاعری مصوری اور موسیقی کی بہ نسبت کتنی کاریگر ہے?

جواب : شاعری موسیقی مصوری آرٹ و فن کی قسم ہیں کوئ اواز کوئ رنگ سے مزین ہے شاعری مین اواز سے ایک تصویر بنانی ہے یہ قاری 'ناظر اور سامع پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اثر لیتا ہے شاعری مصوری اور موسیقی سب اپنی جگہ اہم ہیں۔۔

سوال از شمس الرحمن ناطق
سر میرا سوال ہے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنکا تخیل اور سوچ اعلی سطح کی ہوتی ہےلیکن وہ اسکو ادا نہیں کر پاتے ایسا کیوں ہے اور اسکا حل کیا ہے

جواب : شمس الرحمن بہت مزے کی بات کی تخیل بہت اعلی سوچ بہت عمدہ ہے استاذہ سے سیکھنے کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے اقبال کے دو مین کئ لکھنے والے تھے لیکن اقبال نے نام پایا اس مین فکر نے جلا پائ ۔اس کے لئے مطالعہ اور زخیرہ الفاظ اس فکر کو نمایا ں کرنا ہے کیونکہ ہر فن میں ریاضت کی ضرورت ہے مطالعہ اس ضمن میں اہم ہے جو فکر کو جلا بخشتا ۔۔

سوال از علی کونین
اچھا سر نوید صادق نظم کی طوالت و اختصار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے

جواب : یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ نظم طویل یا مختصر ہونی چاہئے کہ موضوع پر منحصر ہے کہ اسے کس حد تک نبھایا جاسکتا ہے مجید امجد کہ طویل نظمیں نہین لیکن میرا جی اور راشد کے یہاں طویل نظم کی کئ مثالیں ہیں جیسے حسن کوزہ گر۔۔

سوال از شمس الرحمن ناطق
ہر دور دور جدید ہے تو حقیقتا 'جدیدیت کیا ہے؟

جواب : میرا خیال ہم اپنی زندگی کی بات کرین جب ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ سے کلر ہوا پی ٹی سی ایل سے مبائل آیا تو حیران تھے خط سے ایس ایم ایس میں داخل ہوئے جیسے آج واٹس اپ میں بیٹھے ہم سب جدیدیت کی طرف راغب ہیں غالب میر ولی کے یہاں جو کچھ ہے وہی آج رائج ہے جیسے
اے نور جان و دیدہ ترے انتظار سوں
مدت ہوئ پلک سوں آشنا نہیں

اسی طرح ایک اور شعر ہے
شاید وہ گنج خوبی آوے کسی طرح سو
اسی واسطے سراپا ویرانہ ہورہا ہوں

میر کا شعر ہے
توٹتی پھوٹتی نقاش آنکھیں
کرتے ہیں ان رخنوں ہی سے نظارہ

اج بھی جدیدیت کے حوالے سے موجود ہیں، اب اج کا شاعر جو کہہ رہا ہے اج سے دس سال بعد وہ جدید رہے گا یا نہین۔۔

سوال : شمس الرحن ناطق
آج کل جو RAPگانے ہوتے ہیں انکے بارے میں کیا خیال ہے اس میں عروض اور فن کی رعایت کی جارہی ہے یا ادب کا ستیاناس کیا جاتا ہے؟

جواب : شمس الرحمن صاحب! معاشرے میں مختلف کیٹگریز ہیں یہ جو ریپ یا جو بھی چیز ہے وہ جیسے پسند ہے اسکے لئے رہنے دیں آپ کا جو ذوق سے وہ رکھیں ہر ایک کو اسکے ذوق کے مطابق چلنے دیں۔۔

سوال از کاظم بخاری
آپ شاعری میں مقصدیت کے کس حد تک قائل ہیں؟ کیا شاعری فقط عشوہ و غمزہ اور ملائمات زلف و رخسار ہی کے گرد گھومتی ہے یا اسے عالمگیریت ملنی چاہئے؟

جواب : اگر شاعری میں آپکا اثر آپکا زمانہ اور آپکی نفسیات اظہار پاتے تو آپ جدید بھی ہیں اپکی شاعری مقصدی ہے حالی 'آزاد اور سرسید کے دور میں مقصدیت کچھ اور تھی ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اس لئے مقصدیت پہلے اپنی شخصیت کا حصہ بننی چاہئے تب ہی وہ مناسب پیرائے میں سامنے آسکے گی۔۔

سوال از کاظم بخاری
جدید لسانی تشکیلات کے حاملین کے نزدیک اب شوکت الفاظ نظم تک درست ہے غزل کو بالکل سادہ و پرکار ہونا چاہئے آپ اس سے اتفاق یا اختلاف کرتے ہوئے کیا ارشاد فرمائین گے؟

جواب : دیکھین جدید لسانی تشکیلات یہ ہین کہ الفاظ کو تھوڑ پھوڑ دینا چاہئے میراں جی کے یہاں سادگی ہے مگر ابہام ہے جبکہ راشد اور مجید امجد کے یہاں شوکت الفاظ جدا ہیں نظم و غزل یا آرٹ کی کوئ صنف ہے وہ ہیت کے ساتھ سامنے آتی ہے ظفر اقبال کے یہاں شوکت الفاظ توڑ پھوڑ کے ساتھ نظر اتے ہیں اسے سنوارنا ہمارا کام ہے اندوب سر ستوا کا ایک شعر ہے۔
کس سےترسیل کے معنی پوچھیں
کس سے پوچھیں یہ کس نے لکھا ہے۔

سوال از سید ظہیر حسرت
آپ اپنے کام سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

جواب : میں اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوں میں جو کرنا چاہتا تھا وہ ابتک نہیں کر پایا تمام منصوبے ادھورے اور منزل سے ابھی دور ہیں.

سوال از ثریا صدیق
ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ شاعری میں انفرادیت اور جدت داخلی عوامل کا پیش خیمہ ہے یا خارجی عوامل کے پیش رو؟

جواب : اصل میں یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہم کنفیوژ کرتے آرہے ہیں ہمیشہ سے ہم چیزوں کو بہت آسان لے لیتے ہیں. کوئی انسان یہ خود پر طاری ہی نہیں کرپاتا کہ اس نے داخلی چیزوں پر چلنا ہے یا خارجی انسان ایک مکمل اکائ ہے انسانی وجود، انسانی شعور اس مکمل اکائی کا جو طرز مشاہدہ ہوگا طرز فکر ہوگا جو طرز بیان ہوگا اس کی تشکیل میں اس کے تمام عوامل، اس کا ماحول اور اس کے اردگرد جو بھی ہورہا ہے اور اس کی شخصیت کا انجذاب کیا ہورہا ہے ان سب چیزوں کے نتیجے میں تو یہی چیزیں مل کر انفرادیت کو تشکیل دیتی ہین باقی جو ہم زبردستی کرتے ہیں جیسے آپ کہہ دیں میں نے منفرد لکھنا ہےاور میں نے بالکل.....
ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کو لگے کہ آپ ایک مخصوص لہجے پر چل پڑے ہیں جیسے ہم کہتے ہین کہ بہت زیادہ کسی سے متاثر ہوجانا اور آپ کا روایت کا مطالعہ آپ کی داخلی فکر یعنی آپ محسوس کیا کررہے ہیں آپ کے اندر کھچڑی کیا پک رہی ہے اور وہ جو کھچڑی پک رہی ہے آپ کے اندر اسکا انحصار اس پر ہے کہ آپ کے اردگرد کیا ہورہا ہے اور اپنے گردوپیش سے آپ کیا چیز لے رہے ہیں کیا دے رہے ہیں تو ان تمام چیزوں کے باہمی تعاون سے ہی انفرادیت کا پہلو سامنے آتا ہے میں نے تو کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ میں منفرد ہوں لیکن یہ آپ کو محسوس ہورہا ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا یہ فیصلہ وقت اور اس دور کے نقاد کرتے ہیں.کہ کون کتنا منفرد ہے کون کتنا کامیاب ہے تو یہ چیزیں داخلی یا خارجی دونوں طرف بانٹی نہیں جاسکتی

سوال از حیا غزل
نوید صادق جی سب سے پہلے تو جنبش مژگاں کی اس بزم کی طرف سے آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمارے لیے اپنا قیمتی وقت نکالا، امید ہے کہ آپ کی گفتگو سے ہمیں اور ہمارے سننے اور پڑھنے والوں کو بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا۔ سب سے پہلے تو آپ ہمیں اپنے بچپن اور اُس ماحول کے بارے میں بتائیں جس نے آپ کو بنایا اور تراشا؟

جواب : میری پیدائش ۔۔4 دسمبر 1971 میں بہاولپور میں ہوئ.
گھر کا ماحول تھوڑا علمی تھا وہ اسطرح کے والد صاحب میرے استاد تھے پڑھاتے تھے ان کے سبجیکٹ جو تھے وہ اردو فاضل اور فارسی فاضل دونوں کیئے ہوئے تھےاور پڑھائ کی طرف ہمیں بٹھا کے اکثر پڑھاتے رہنا اور خاص طور پر اردو پر توجہ ان کی طرف سے زیادہ دی جاتی تھی پڑھتے پڑھتے اگر ہم تھک جاتے تھے اور چھٹی مانگتے تھے تو وہ کہتے اچھا ٹھیک ہے یہ دو الفاظ کا املا لکھ کے دکھائیں تو پھر آپ کو چھٹی مل جائے گی تو ہم فٹافٹ چھٹی کے لیئے املا دینے کے لیئے تیار ہوجاتے تھے بانگ درا ان کے سرہانے ان کے بالکل پاس ہی پڑی ہوتی تھی.ہمیشہ یہ بھی ہمیں آج تک سمجھ نہین آئ کہ کیوں....ایسے تو اقبال کی باقی کتب بھی ہیں لیکن بانگ درا ہمیشہ انکے پاس انکے نزدیک رہی انھوں نے روز اس میں سے لفظ بولنے تھے دو اور ہم نے وہ لکھ کے دکھانے ہین اور اگر وہ ٹھیک ہوں گے تو ہمیں چھٹی مل جانی ہےشاید ان چیزوں کا بھی اثر ہو اور پھر جب اسکول میں آئے تو میں اپنے دوستوں کو بھی یہ واقعہ سنا چکا ہوں.کہ میری چھٹی ،ساتویں اور آٹھویں کلاس میں ایک استاد ہوتے تھے قاضی حسن مرحوم وہ ابو کے دوست بھی تھے اور اسی اسکول میں تھے اور ابو ہیڈ ماسٹر تھے وہ ابو کو بلاکے کہتے تھے کہ یہ دیکھیں میں آپ کے بیٹے کا ٹیسٹ لے رہا ہوں. وہ اردو اور عربی گرائمر پڑھایا کرتے تھے اور انھوں نے اردو گرائمر میں سے چیزیں پوچھتے جانا پوچھتے جانا ابو سے کہنا جہاں اسکی غلطی ہوئ آپ مجھے چائے پلائیں گے، اب ظاہر ہے استاد اور شاگرد کا کیا مقابلہ ہوسکتا ہے سو میں نے کہیں نہ کہیں پھنس جانا پوری کلاس کے سامنےاردو گرائمر میں لیکن ان کے خوف سے میں نے یاد کیا ہوتا تھا سب کچھ تو پھر انہوں نے ابو سے کہنا ہوتا تھا دیکھو اسے تو یہ سب نہیں آتا یہ تو بیچ میں اٹک گیا ہےتو اب مجھے چائے پلائیں. تو ابو نے کہنا ہے کہ میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ یہ تو آپ کا شاگرد ہے تو یہ سب اسے کیوں نہیں آتا پھر انھوں نے مجھے دوچار ڈنڈے بھی مارنے ہیں اور پھر مزید ان دونوں نے بیٹھ کے چائے بھی پی لینی ہے اور ہم دور کلاس میں بیٹھے سوچ رہے ہوتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھ ہوکیا رہا ہے اس وقت بہت برا لگتا تھا کہ یہ ابو بھی قاضی صاحب کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں.لیکن اب وہ والد صاحب بھی نہ رہے وہ استاد بھی نہ رہے.تو اب یہ سب یاد کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ انکا خوف تھا کہ میں نے اس وقت اتنی دلچسپی لی شعر یاد کرنے میں... پھر تھوڑے بڑے ہوگئے تو ٹوٹے پھوٹے اشعار تو ڈائری میں لکھنے شروع کردیئے تھے بلکہ پہلے لوگوں کی چیزیں زیادہ ڈائری میں لکھا کرتے تھے .بانگ درا پڑھنے کا موقع ملا اس کے اشعار بھی اور اس کے الفاظ معنی بھی والد صاحب نے یاد کروائے.پھر ان کا خلیف ملتانی ان کا مجموعہ کلام ایک دن ہاتھ میں تھمادیا کہ یہ پڑھو
ساری کتابیں مطلب اسکے بعد جو کتاب ملتی گئ پڑھتے گئے
پھر جب میں لکھنا خود شروع ہوا تو 1990میں جب ہم لاہور میں کالج میں فرسٹ ایئر میں آئے تو اس وقت میں خود لکھ رہا تھا.
لیکن بے وزن اشعار کہتا تھا زیادہ تر شاید کوئ مصرعہ وزن میں ہوجاتا ہو.میں نے اپنی ڈائری اٹھا کے دیکھی جو اس زمانے کی تھی تو اس میں زیادہ تر چیزیں بے وزن ہی ہیں.پھر میرے چار پانچ دوست جو یونیورسٹی میں تھے وہ بڑا میرا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ یہ دیکھو کہ اس نے کیا کہا حالانکہ وزن کا نہیں کہنا تھا بس یہ دیکھو اس نے شعر میں یوں کہا ہے یہ کہا ہےتو وہ ایک دوست نے کہا کہ میں بہاولپور جاؤں گا تو تمہیں ایک شاعر سے ملواؤں گا.تومیں نے کہا ٹھیک ہے وہ بھی بہاولپور کے تھے جب چھٹیوں میں گئے توسید آل احمد مرحوم سے ملوایا وہ پہلی ملاقات تھی اس دن تو ہم صرف وہاں چوک میں بیٹھ کے چائے پیتے رہے اگلی ملاقات میں میں نے انھیں ایک غزل دکھائ تو انھوں نے کہا کہ اس میں تین شعر جو ہیں وہ وزن میں ہیں.ٹھیک ہے تو انھوں نے باقی اشعار سے متعلق کچھ مشورے دیئے تو پھر یہ سلسلہ چل پڑاحالانکہ ان سے بعض اوقات بہت ڈانٹ بھی پڑا کرتی تھی.غلط مصرعہ کہنے پرلیکن آہستہ آہستہ بہتر ہوتا گیا میرے خیال میں ان سب چیزوں نے بھی بنایا اور دوسرا مجھے یہ بھی تھا کہ چھوڑناکسی کو نہیں ہے ہر کتاب کو پڑھنا ہےہر شاعر کو پڑھنا ہے.تو سب کو پڑھو شروع ہوجاؤ شروع سے اور یہ بھول جاؤ کہ کس میں اگر تمہیں کسی شاعر کے بارے میں یقین ہے کہ یہ اچھا نہیں ہے تو اس کو اس نیت سے پڑھو کہ اس میں نوٹ کرو کہ کون کون سی اغلاط ہیں.اس نے کون کون سے ایسے کام کیئے ہیں جو میں نے نہیں کرنے وہاں سے یہ سبق حاصل کرو یہی چیزیں ہیں جو تربیت کے لیئے میرے خیال میں کافی ہیں تو اتنا کچھ مل جائے تو میں خوش قسمت ہوں کہ لاہور میں جب ہم ادبی حلقوں میں نکلے تو اس سے پہلے ایک صاحب کے ریفرنس سے ہی میں خورشید صاحب سے پہلی مرتبہ ملا وہ غالبا 1995کے دن تھے تو وہ ملاقات کا سلسلہ آج تک جاری ہے.اس سے بھی پہلے ہوا اختر عثمان صاحب یونی آیا کرتے تھے آتے تو ملاکرتے تھے تو ان کے توسط سے خالد احمد صاحب سے نجیب صاحب سے ملاقات ہوگئ
تو یہ ساری چیزوں نے ہماری بڑی رہنمائ بھی کی. تو ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ ایسے لوگوں کی صحبت اور ساتھ میسر آیا اور آج تک ہے.خالد علیم صاحب سے بھی انہی دنوں جس زمانے کا میں ذکر کررہا ہوں ملاقات ہوئ اور دوستی کا سلسلہ چل رہا ہے
تو ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں جو سینیئرز ملے ان سے ہم نے سیکھا جب بھی ہم نے کوئ بات غلط لکھی تو انھوں نے ہمیں ٹوکا تو یہ چیز بھی ہے

سوال از حیا غزل
شاعری کی ابتدائ تحریک؟ آپ کی نظم یا غزل ، ایک تو یہ کہ تخلیقی حوالے سے، کہ کیسے لکھتے ہیں یا یہ کہ آپ کے یہاں یہ واردات کیسے ہوتی ہے اور پھر یہ کہ آپ اپنے ریڈر یا قاری سے کیا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ انہیں کیسے پڑھے یا پڑھنے کی کوشش کرے؟

جواب : ابتدائ طور پر میں نے غزل ہی لکھی. دوسروں کی غزل پڑھنا ہی تحریک کا باعث بنی.شروع میں سارے غزل کے ہی شعر کہے اوراگر آپ یہ دیکھیں نوے پچانوے فیصد شاعر غزل سے ہی آغاز لیتے ہیں ہمارے دور کی سب سے بڑی روشن مثال بن کر آئے.تحریک کاباعث یا تربیت کا عمل غزل سے ہی شروع ہوا انکے یہاں... بلکہ یاد ہے مجھے میں نے ایک انتخاب دیکھا تھا شاعری کا جس میں لوگوں کی نظمیں بھی شامل تھیں.انتخاب کا نام یاد نہیں ہے وہ بہت ضخیم نوعیت کی کتاب تھی اس میں راشد نون میم کی کوئ دس غزلیں شامل تھیں.انکی کوئ نظم نہیں تھی لیکن دھیرے دھیرے چونکہ پڑھتے بھی تھے لکھتے بھی تو جب میں نے خود نے نظم لکھنا شروع کی تو ہم اردگرد جو ہورہا تھا ان دنوں ہائیکو کا بہت زور تھا ماہیئے کا زور بھی تھا دونوں لکھے پھر چھوٹی چھوٹی نظموں پر آگئے شارٹ کٹ محسوس ہوتا تھا.پھر ایک دن استاد سے ڈانٹ پڑی اور دوسال کی پابندی لگادی نظم کہنے پر ....پھر عرصے بعد ایک طویل نظم لکھ کے بائ ڈاک پوسٹ کی دکھانے کے لیئے. وہ نظم پڑھنے کے بعد انھون نے اجازت دی.یہ بھی تربیت کا حصہ تھا پھر مجھے بھی سمجھ آئ کہ مجھے پہلے غزل پر توجہ دینی ہے.
یہ فیصلہ دوسروں پر تھوپنا کہ اسے مجھے ایسے پڑھنا چاہے یا ایسے ایک وقت آتا ہے آپ اس سے بے نیاز ہوجاتے ہیں آپ کا ریڈر آپ کو خود پڑھے گا ہر کسی سے تقاضا غلط ہے.آپ نے خلوص سے اپنا کام کرنا ہے مقام خود بخود بن جائے گا

سوال از ثریا صدیق
بے نقص معمولی تخلیق سے پر نقص علویت بہتر ہے ''اس بات کے مصداق کیا ایک ادیب یا شاعر اپنی تخلیق کو با مقصد روئیوں سے روشناس کروا سکتے ہیں ۔۔کچھ روشنی ڈالئے سر اس بات پر۔۔

جواب : بامقصد رویئے طے نہیں ہوتے اگر آپ کی شخصیت کے اندت رحجان ہے آپ کی نفسیات یا دھیان میں یہ چیز آگئ ہے یہ ایسے نہیں ایسے ہونی چاہیئے
غلط درست کی پہنچان خود ہی ایک مقصد عطاکردیتا ہے

سوال از حیا غزل
لیکن سر آج کل نئے آنے والے شعراء سے یہی سوال کیا جائے تو وہ آزاد نظم کو اپنا آغاز قرار دیتے ہیں؟سر ہائیکو اور دوہے یا ماہیے لکھے ہیں تو پلیز کچھ حصہ شیئر کیجے؟

جواب : اصل میں جو ہم لوگ درمیان میں آتے ہیں انھوں نے وہ دور بھی دیکھا جس میں انٹرنیٹ نہیں تھا وہ دور بھی دیکھا جس میں انٹرنیٹ ہے ترقی ہورہی ہے.جو ہم سے پہلے لوگ تھے انھیں یہ چیز دستیاب نہیں تھی غزل کہنے کے بعد پرچے پر بھیج دیتے تھے مہینوں انتظار کرتے تھے پھر شاعری شائع ہوتی تھی اور اسکے بھی بعد اگلے مہینے مین رائے ملا کرتی تھی تو یہ ایک لمبا عرصہ لگتا تھا اب ایسا نہیں ہے. شعر لکھا پوسٹ کیا اور ادھر لائکس ملنا شروع ہوجاتے ہیں تنقید اگر کوئ کرے تو کہتے ہیں کہ اس پر تو اتنے لائکس ملے اتنے کمنٹس آچکے ہیں وہ معنی نہیں رکھتے یا تو وہ سنجیدہ لوگوں کی جانب سے کیئے گئے ہوں آزاد نظم کو نقطہ ء آغاز قرار شاید لوگ دیتے ہوں میں نے ایسے کم ہی دیکھے....اصل میں یہ وہی لوگ ہیں. جنھوں نے لائکس کی بنیاد پر شاعری کرنی ہے وہ سمجھتے ہیں آزاد نظم لکھنا آسان ہے جبکہ آزاد نظم میں مضمون کی ترسیل آسان نہیں آزاد نظم کیسی ہونی چاہیئے اس پر مضامین بھی بہت لکھے جاچکے ہین لیکن طبیعت کا میلان بھی اہم ہوتا ہے
ماہیئے ہائیکو لکھے مگر جو واقعہ میں نے سنایااسکے بعد وہ سب ضائع کردیا بے دردی سے ڈائری میں کاٹ دیا. ماہیئے تو یاد بھی نہیں. کچھ رباعیات شاید آنے والی کتاب میں شامل ہوں.دوستوں میں بھی کم چیزیں سناتے ہیں توجو چیزیں بار بار دہرانے میں آئیں وہ یاد ہیں ہائیکو شاید ہی یاد ہوں.لیکن یہ ماضی کا حصہ ہے.
ہائیکو شاید یاد ہوں ایک آدھ

کل صادق میں تنہا تھا
لیکن اس کی یادوں کا
اچھا خاصا میلہ تھا

اٹھے کیسے ہاتھ
قسمت سے ڈر لگتا ہے
کب تھی اپنے ساتھ

سوال از حیاء غزل
آپ نثر بھی بہت اچھی لکھتے ہیں اسی حوالے سے سوال ہے کہ شاعری سے نثر کی طرف کیسے آنا ہوا. کالم آرٹیکل اور تنقید نگاری ہی میں طبع آزمائ کی یا افسانہ نگاری کی طرف بھی کوشش کی آنے کی؟اور نثری نظم کبھی لکھی؟اگر لکھی تو نثری نظم کا نظم کس نوعیت کا ہونا چاہیئے؟

جواب : نثر کی طرف خالد احمد مرحوم کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے مجھے احمد مشتاق کا بیاض کا نمبر نکال رہے تھے تو انھوں نے ان پر مضمون لکھنے کا حکم دیا.میں نے لکھ کے دکھایا تو انھوں نے اس میں بہتری کے لیئے مجھے مزید مشورے دیئے. تو یوں چار پانچ ماہ میں وہ پہلا مضمون مکمل ہوا.وہ بیاض میں شائع ہوا پھر شفیق سلیمی صاحب کے ساتھ ایک شام رکھی اور کہا اس پر بھی لکھو تو یوں میرے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا.اور پھر اسی طرح مین تنقید کی طرف آہستہ آہستہ چل پڑا اور غالبا یہ 2010 کالم کی طرف رحجان بنا روزنامہ دن مین آج تک یہ کالم لکھ رہا ہوں. کچھ دوست شعری مجموعے بھیج دیتے ہین ان پر ادبی کالم بھی بن جاتے ہیں. سیاسی کالم کی تعداد زیادہ رہی باقی ناول نگاری اور افسانہ نگاری نہیں کی پڑھتا ہوں نثری نظم نہیں لکھی. سمجھ بھی نہیں آتی تو کیا گفتگو کروں اس پر،

سوال از غلام مصطفیٰ دائم
کیا روایتی غزل سے چھٹکارا حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے۔آپ کے نزدیک غزل میں جدیدیت کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟

جواب : روایت سے کیوں چھٹکارا چاہتے ہو؟ اب تو یہ روایت چل پڑی ہے کہ اپنے سے پہلوں کی نفی کردو یا روایت کو لیا بھی انہی معنی میں جاتا ہے کہ جی پچھلے جو کہہ گئے وہ روایت ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے روایت کا جامد تصور غلط ہے روایت آگے بڑھ رہی ہے وہ تو ایک مضبوط سلسلہ ہے جس کی کڑی سے کڑی مل رہی ہےاور آگے آرہی ہے. یہ جدید جدت اسطرح کی جو ٹرمز آئیں ہیں ان کا میں کہہ چکا ہوں بچہ جب پیدا ہوتا ہے اسکی کچھ بنیادی جبلتیں ہوتیں ہیں پھر انکا پروان چڑھنا اس مین انکے گھر کا ماحول گردوپیش انکا زمانہ سب اثر انداز ہوتا ہے اور جب یہ جبلتیں پروان چڑھتیں ہیں تو وہاں سے ایک شخصیت تشکیل پاتی ہے اب اگر ایک بندہ آج کے دور میں لکھ رہا ہے جن معنی میں آپ روایت کو لے رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لکھنے والا داغ کے دور میں چلاجائے ہاں یہ تو ہے وہ اپنے گردو پیش سے کٹ جائے یا تو وہ اپنا مشاہدہ بالکل صفر کردے اسکا مطالعہ بھی صفر کردے.پھر تو شاید آپ اسی دور میں چلے جائیں. ایسا آئسیلیشن بنالیں جنھیں آپ پڑھ رہے ہیں سن رہے ہیں گذشتہ زمانے کے بس یہی لوگ تھے
آج بھی مجھ سے کہیں جتنے جدید اشعار جدید وہی نا جو آج کے دور میں منتقل ہوسکتیں ہیں
میر کے ہیں اور کس کے ہیں آج بھی میر کسی کو بولنے نہیں دیتا غالب کی فراق کی مثال لے لیں غالبا سجاد باگریزی مرحوم نے
یہ لوگ میر کے صرف ایک ایک رخ کو لے کر بڑھے ہیں میر کے سو رخ ابھی باقی ہیں
اصل شاعری وہی ہے جو آج کے دور کا اور مسائل کا احاطہ کرتی ہے.

سوال از غلام مصطفیٰ دائم
پاکستان کے مقابلے ہندوستان میں نظم کا رجحان صفر کے برابر ہے۔آپ کے نزدیک اس کی وجہ کیا ہے.. ؟

جواب : بھارت میں بھی نظم کا رحجان موجود ہے اور پاکستان میں بھی بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی فیس بک یا نیٹ یوز نہیں کرتے تو انکا کلام ہم تک نہیں پہنچ پاتا ایسے ہی ہمارے بھی بہت سے لوگ ہوں گے.جو یہ سب ذرائع استعمال نہیں کرتے اس بنیاد پر یہ سب کہنا غلط ہوگا.اور صرف نظم میں ہی نہیں پاکستان میں غزل بھی بہت عمدہ اور مضبوط کہی جارہی ہے بھارت میں کام کم سامنے آیا ہے لیکن یہاں بھی وہی مفروضہ کارفرما ہے کہ ممکن ہے وہاں کے لوگوں کی بہت سی تخلیقات ہم تک نہیں پہنچ پارہیں ہوں

محررتین : حیا غزل ، ثریا صدیق
ترتیب و پروف ریڈنگ : غلام مصطفیٰ دائم اعوان
 
Top