اے شبِ ہجراں

محبوب الحق

محفلین
اے شب ہجراں ذرا نزدیک آ
ہم بھی تو دیکھیں
تیرے دامن میں کیا آسیب ہیں
لوٹتی ہے کسطرح
تو ایک انساں کا سکوں
کاٹتی ہے کیا کٹی جاتی ہے
اسکی زندگی
چل چلی آئی ہے
اب تو بیٹھ جا اور یہ بتا
دن میں تیرے کیا مشاغل
اور کیا معمول ہیں
آ کبھی دن میں نکل کر
دیکھ ہم لوگوں کے لب
کس اداکاری کی چادر تان کہ ہر درد کو
اپنی آنکھوں کی نمی کو
روند کر ہنستے ہوئے
اس خرابے میں یقیں و بے یقیں کے درمیاں
ان سبھی رشتوں کے بیچوں بیچ ہم مسرور سے
تیرے ہر آسیب کو تہہ کرکے رکھ دیتے ہیں ہم
اے شب ہجراں ذرا نزدیک آ
آ اب اپنی آنکھ میں
تجھ کو سمونا ہے مجھے
ہنس لیا دن بھر اکیلی ہوں
سو رونا ہے مجھے

سلمیٰ سید
 
Top