ملک ریاض1500ارب روپے ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں اور تاحیات نیکی کمائیں، چیف جسٹس پاکستان

جاسم محمد

محفلین
بحریہ ٹاؤن کو زمین کی منتقلی فراڈ تھی،چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار
bahria-town-604x270.jpg


اسلام آباد ( 92 نیوز) سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش زمین کی قیمت کا تعین عملدرآمد بینچ کرے گا، عدالت قرار دے چکی کہ زمین کی منتقلی فراڈ ہے، نقشہ دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ فیصلے کی زبان سخت ہوگی۔

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن نظرثانی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ملک ریاض عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پیش زمین کی قیمت کا تعین عملدرآمد بینچ کرے گا، عدالت قرار دے چکی کہ زمین کی منتقلی فراڈ ہے، اور فراڈ پر بنی ہوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔

وکیل طارق رحیم نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں ایک لاکھ 65 ہزار رہائشی ہیں، عدالت رہائشیوں کے حقوق کو بھی مدنظر رکھے ، عملدرآمد بینچ کے فیصلے تک نیب کو کارروائی سے روکا جائے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین میں صلح سے جرم ختم نہیں ہوتا، عملدرآمد بینچ عدالتی حکم کو تبدیل نہیں کر سکتا، بحریہ ٹاؤن نے غلط کام نہیں کیا تو تحقیقات سے کیوں ڈر رہا ہے؟ ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایم ڈی اے کو ٹکڑوں میں بحریہ ٹاؤن نے زمین دی، بدلے میں سپرہائی وے پر زمین لی اور بلوچستان سرحد کے پاس زمین دی، نقشہ دیکھنے کےبعد لگتا ہے فیصلے کی زبان سخت ہوگی، بحریہ ٹاؤن کو دی گئی زمین کی قیمت کا تعین ہونا چاہئے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جس طرح زمین کے تبادلے ہوئے، اس سے ملی بھگت اور بدنیتی ثابت ہوتی ہے، بحریہ ٹاؤن کو اپنی زمین خرید کر منصوبہ شروع کرنا چاہئے تھا۔

بحریہ ٹاؤن کی رہائشی بیوہ خاتون بھی عدالت میں پیش ہوئی اور کہا کہ ان کے ساتھ 25 لاکھ روپے کا فراڈ ہو چکا ہے ، ریاست غیرقانونی کام میں ملوث تھی تو ہمارا کیا قصور ہے؟، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی سے گھر چھینا جا رہا ہے نہ ہی سہولیات۔

بحریہ ٹاؤن کے رہائشی نے کہا کہ کچھ غلط ہوا تو پہلے کنٹرول کیا جانا چاہئے تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نے کنٹرول کرنا تھا وہ خود کسی کے کنٹرول میں تھے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم فنڈ میں پانچ ارب روپے رضاکارانہ طور پر نہیں بلکہ عدالتی حکم پر جمع کرائے گئے ، ملک صاحب 1500ارب روپے ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں اور تاحیات نیکی کمائیں۔

ملک ریاض نے کہا کہ میری اوقات 50 ارب روپے کی بھی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی حیثیت تین ہزار ارب روپے کی ہے۔ملک ریاض نے کہا کہ وہ اپنے اثاثوں کا 25 فیصد ڈیم فنڈ کیلئے مختص کرتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ملک ڈوبنے کی بات پر وکیل زاہد بخاری کو ڈانٹ پلادی اور کہا کہ ملک ڈوبنے کی بات دوبارہ نہ کریں، کسی کی جرأت نہیں ملک کو ڈبو سکے۔
 

فاتح

لائبریرین
ملک صاحب 1500ارب روپے ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں۔
15 بلین ڈالرز o_O:unsure:
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی حیثیت تین ہزار ارب روپے کی ہے۔
30 بلین ڈالرز
اگر واقعی ایسا ہے تب تو ملک ریاض دنیا کا 25واں امیر ترین فرد ہے۔
 
15 بلین ڈالرز o_O:unsure:

30 بلین ڈالرز
اگر واقعی ایسا ہے تب تو ملک ریاض دنیا کا 25واں امیر ترین فرد ہے۔
اگر ملک ریاض اس کا آدھا بھی دے دیتا ہے تو میں سفارش کرتا ہوں کہ ڈیم کا نام ملک ریاض ڈیم یا بحریہ ٹاؤن ڈیم رکھا جائے۔ :p
 

جاسم محمد

محفلین
اگر ملک ریاض اس کا آدھا بھی دے دیتا ہے
ملک ریاض کے اثاثہ جات کی کل مالیت زیادہ سے زیادہ ایک سے دو بلین ڈالر ہوگی۔ البتہ چونکہ اکثریت ریل اسٹیٹ میں لگے ہیں جن کا تخمینہ کاغذی دولت سے لگایا جاتا ہے۔ یوں اسے کیش میں کنورٹ کرنا ناممکنات میں سے ہوگا۔ اپنے کل اثاثہ جات کا 25 فیصد دینے کی آمادگی بھی محض ڈھونک کے سوا کچھ نہیں۔
ملک ریاض نے کہا کہ وہ اپنے اثاثوں کا 25 فیصد ڈیم فنڈ کیلئے مختص کرتے ہیں ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن
بحریہ ٹاؤن کی رہائشی بیوہ خاتون بھی عدالت میں پیش ہوئی اور کہا کہ ان کے ساتھ 25 لاکھ روپے کا فراڈ ہو چکا ہے ، ریاست غیرقانونی کام میں ملوث تھی تو ہمارا کیا قصور ہے؟، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی سے گھر چھینا جا رہا ہے نہ ہی سہولیات۔

بحریہ ٹاؤن کے رہائشی نے کہا کہ کچھ غلط ہوا تو پہلے کنٹرول کیا جانا چاہئے تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نے کنٹرول کرنا تھا وہ خود کسی کے کنٹرول میں تھے ۔
مطلب یہ ہوا کہ کیوں کہ ہمارے اربابِ اختیار پر ایسے انکشافات اس وقت ہوتے ہیں جب کسی کو کھڈے لائن لگانا ہو۔ اور غریب رہائشی خاتون کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ ایسی آبادی میں رہنے کا سوچ بھی سکے۔ اس کے 25 لاکھ آج کے پاکستان میں 25 پیسے جتنی اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ جس کو دیکھو وہ اربوں سے کم تو بات کرتا نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ملک ڈوبنے کی بات پر وکیل زاہد بخاری کو ڈانٹ پلادی اور کہا کہ ملک ڈوبنے کی بات دوبارہ نہ کریں، کسی کی جرأت نہیں ملک کو ڈبو سکے۔
بالکل جی۔ کسی عام بندے کی ایسی جرات کہاں۔ یہ ذمہ داری تو بِگ گنز نے لے رکھی ہے اور انھیں کچھ کہنے کے بارے میں عام بندے کا سوچنا بھی منع ہے۔
ویسے چیف صاحب کو کوئی بتائے کہ نیا پاکستان کے تو سارے بڑے چھوٹے دانشوران مسلسل یہی فرما رہے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے بلکہ کچھ کے خیال میں تو ڈوب چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
سزا صرف ملک ریاض کو ہی نہیں دی جانی چاہیے؛ بحریہ کا نام استعمال کرنے کی اجازت دینے والوں کو بھی ملنی چاہیے۔ ملک ریاض کو یہ سب مراعات دینے والوں بھی ملنی چاہیے۔ ملک ریاض بیک وقت اچھا اور برا کردار ہے۔ ان کے بنائے گئے منصوبوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ تاہم، جرم کی سزا دینا ضروری ہے تو پھر ہم عدالت سے یہ توقع رکھیں گے کہ اس نسبت سے جو فیصلہ کرنا ہے تو پھر کوئی جامع فیصلہ کر لیا جائے تو اس ملک کے باسیان پر احسان عظیم ہو گا۔ اگر عبرت کا نشانہ بنانا ہے تو ان سہولت کاروں کو بھی بنایا جائے جن کی رضامندی اور معاونت کے بغیر یہ سب جرائم ممکنات کی ذیل میں نہ آ سکتے تھے۔ ادھورا انصاف کیا گیا تو شاید سرمایہ کار طبقہ اس ملک میں سرمایہ لگانے سے ہی مکمل طور پر گریز کرنے لگ جائے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اور یہ خیال بھی رکھا جائے کہ وہ لوگ جنھوں نے اپنی ساری عمر کی کمائی سے یہاں جائیداد خریدی ہے، ان کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو۔
 

فاتح

لائبریرین
سزا صرف ملک ریاض کو ہی نہیں دی جانی چاہیے؛ بحریہ کا نام استعمال کرنے کی اجازت دینے والوں کو بھی ملنی چاہیے۔
شاید آپ کے علم میں نہیں کہ بحریہ کا نام استعمال کرنے کے حق کے پیچھے کیا داستان ہے۔ گوگل بادشاہ سے رابطہ کیجیے اور اگر نہ ملے تو میں کسی وقت تفصیل اس اجمال کی پیش کر دوں گا۔ مختصراً یہ کہ شنیدن ہے کہ ملک صاحب نیوی کے ساتھ ٹھیکے داری کرتے تھے اور انھی کے ساتھ‌ایک جوائنٹ وینچر شروع کیا جس میں‌سے نیوی کو نکال باہر کیا اور جب نیوی "بحریہ" نام کے استعمال کا حق واپس لینے عدالت میں گئی تو ملک صاحب وہ کیس جیت گئے۔
 

فاتح

لائبریرین
اور غریب رہائشی خاتون کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ ایسی آبادی میں رہنے کا سوچ بھی سکے۔ اس کے 25 لاکھ آج کے پاکستان میں 25 پیسے جتنی اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ جس کو دیکھو وہ اربوں سے کم تو بات کرتا نہیں ہے۔
اس سب کے باوجود آپ ۲۵ لاکھ رکھنے والی کو "غربا" کی فہرست میں شامل نہیں کر سکتیں۔ :laughing:
 

فرقان احمد

محفلین
شاید آپ کے علم میں نہیں کہ بحریہ کا نام استعمال کرنے کے حق کے پیچھے کیا داستان ہے۔ گوگل بادشاہ سے رابطہ کیجیے اور اگر نہ ملے تو میں کسی وقت تفصیل اس اجمال کی پیش کر دوں گا۔ مختصراً یہ کہ شنیدن ہے کہ ملک صاحب نیوی کے ساتھ ٹھیکے داری کرتے تھے اور انھی کے ساتھ‌ایک جوائنٹ وینچر شروع کیا جس میں‌سے نیوی کو نکال باہر کیا اور جب نیوی "بحریہ" نام کے استعمال کا حق واپس لینے عدالت میں گئی تو ملک صاحب وہ کیس جیت گئے۔
کچھ کچھ تو علم میں یہ واقعہ تھا تاہم ملک صاحب یہ مقدمہ جیت کیسے گئے؟ اس 'فیصلے' پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کچھ کچھ تو علم میں یہ واقعہ تھا تاہم ملک صاحب یہ مقدمہ جیت کیسے گئے؟ اس 'فیصلے' پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے۔
جیسے بڑے لوگ جیتتے ہیں اور کیسے؟
جو بندہ اپنی سلطنت میں بھرتی کے لیے خالی آسامی کا اشتہار دیتے ہوئے اہلیت میں ریٹائرڈ جنرل یا جج ہونے کی شرط یا قابلِ ترجیح ہونا لکھواتا ہو، اس کے تمام مقدمے اور ٹینڈر جیتے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔
بحریہ ٹاون کی آبادی کا علیحدہ سروے کروائیں تو علم ہو گا کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنی جیب سے کچھ خرچ کیے بغیر جائیدادوں کے مالک بنے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
میرے پاس ہوں تو میں خود کو غریب نہیں کہوں گا۔ :)
غربت کی تعریف یہ ہے کہ انسان بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا اور مکان جو ضروری نہیں کہ اپنا ہو) حاصل نہ کر سکے اور جس کے پاس 25 لاکھ روپے ہیں وہ بہرحال اس تعریف کے زمرے میں نہیں آتا۔
ہاں، اگر روٹی سیرینا سے کھانی ہے، کپڑا ہرمس، گوچی یا ڈی اینڈ جی کا پہننا ہے اور گھر میاں صاحبان کے جاتی عمرے کے محل کے مقابلے کا لینا ہے تو پھر وہ عورت واقعی بے حد غریب ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
جیسے بڑے لوگ جیتتے ہیں اور کیسے؟
جو بندہ اپنی سلطنت میں بھرتی کے لیے خالی آسامی کا اشتہار دیتے ہوئے اہلیت میں ریٹائرڈ جنرل یا جج ہونے کی شرط یا قابلِ ترجیح ہونا لکھواتا ہو، اس کے تمام مقدمے اور ٹینڈر جیتے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔
ریٹائرڈ جج بھرتی کرنے کا مجھے علم نہیں تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے پاس ہوں تو میں خود کو غریب نہیں کہوں گا۔ :)
غربت کی تعریف یہ ہے کہ انسان بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا اور مکان جو ضروری نہیں کہ اپنا ہو) حاصل نہ کر سکے اور جس کے پاس 25 لاکھ روپے ہیں وہ بہرحال اس تعریف کے زمرے میں نہیں آتا۔
ہاں، اگر روٹی سیرینا سے کھانی ہے، کپڑا ہرمس، گوچی یا ڈی اینڈ جی کا پہننا ہے اور گھر میاں صاحبان کے جاتی عمرے کے محل کے مقابلے کا لینا ہے تو پھر وہ عورت واقعی بے حد غریب ہے۔
بجا ارشاد۔
میں نے غربت کی لٹرل تعریف کے حوالے سے نہیں بحریہ ٹاون اور اربوں کے تناظر میں یہ بات کہی تھی۔ ورنہ غربت کی یونیورسل تعریف والا غریب تو ایک طرف ایک عام مڈل کلاس تک بحریہ ٹاون کی طرف رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کجا کہ وہ وہاں گھر بنا سکے۔ 25 لاکھ میں سے دو چار لاکھ تو ایسے علاقوں میں رجسٹریشن کروانے میں ہی لگ جاتے ہیں۔
25 لاکھ میرے پاس ہوں تو میں بھی خود کو امیر امیر ہی سمجھوں گی لیکن اگر یہ ساری زندگی تنکا تنکا کر کے جمع کیے ہوں تو امارت میں تو نہیں آئیں گے نا۔
 
Top