مسلمانان ہند کی حب الوطنی اور کرکٹ

محمد علم اللہ اصلاحی
ابھی حال ہی میں ہندوستان پاکستان میچ کے بعد ملک میں جس قسم کے حالات پیدا ہوئے اس نے سنجیدہ طبقہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک کس راہ پر گامزن ہے ۔اولا اترپردیش کے شہر میرٹھ کی سوامی ویویکا نند سوبھارتی یونیورسٹی سے56کشمیری طلبہ کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی پذیرائی کرنے اور پاکستانی بلے بازوں کی ستائش پر تالیاں بجانے کی پاداش میں ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔اور یونیورسٹی سے معطل بھی کر دیا یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی طور پر جگ ہنسائی کے بعد مقدمہ واپس بھی لے لیا گیا ۔ابھی یہ معاملہ پوری طرح حل بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی قسم کا ایک اور واقعہ پیش آیا اور میرٹھ یونیورسٹی کے رویہ پر ہی گامزن کچھ شر پسند طلبہ کے مطالبہ کے بعد شادرا یونیورسٹی گریٹر نویڈا سے6 طلبہ کو ہاسٹل سے بے دخل کیا گیا میڈیائی رپورٹوں کے مطابق جن چھ طالب علموں کو ہاسٹل سے نکالا گیا ہے ان میں چار کشمیر کے ہیں جبکہ دو کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہندوستان پاکستان میچ کے بعد خصوصاً اسقسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔اس سے قبل بھی صرف اسی طرح کے میچ کو بہانا بناکر کئی ریاستوں میں فساد کراکر مسلمانوں کے سرمایہ کو تباہ برباد کرنے کی سازش کی گئی ہے ۔تو کئی جگہ ہندو مسلم تشدد کے واقعات ہوئے ہیں ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ بعض عناصر مستقل فیس بُک اور اسی طرح سوشل میڈیا کا سہارا لے کر تشدد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے عناصر بہت تھوڑے ہیں لیکن ان کی حرکتوں سے پورے ملک کی بد نامی ہوتی ہے ،اور ان کی شرارتوں کی وجہ سے پوری قوم کو دکھ پہنچتا ہے ۔شاید اسی وجہ سے بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان میچ نہ ہو وہی بہتر ہے ۔

اس مرتبہ بھی اس میچ کو لیکر سوشل سائٹوں پرغیر سنجیدہ تبصرے اور غیر متوازن تحریریں پیش کی گئی ہیں ،ان میں مستقل مسلمانوں کے اوپر ان کی قومیت اور ملک سے محبت پر سوال اٹھائے گئے ہیں ۔بعض نوجوانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دینے کی کوشش کی گئی ، بعض جواب ایسے بھی دئے گئے جن کا موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا،مثال کے طور پر ایک نو مسلم ”ٹھاکر ایم اسلام ونئے “ نے اپنے ہندی بلاگ” ٹھاکر اسلام “ نامی بلاگ میں ”مسلمانوں ہندوستان چھوڑ دو اور پاکستان چلے جاو ؟“کے عنوان سے اپنے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے ایسے سوالوں کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں”ایک صاحب بس میں بیٹھے میری طرف اشارہ کرکے اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے تھے،میں نے پوچھا ایسا کیوں کہہ رہے ہو بھائی؟ وہ صاحب بولے تم لوگ کھاتے ہو ہندوستان کا اور گاتے ہو پاکستان کا میں نے کہا ایسا آپ سے کس نے کہا وہ بولے ہندوستان اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو مسلمان پاکستان کی تعریف کرتے ہیں جب کہ رہتے ہندوستان میں ہیں۔ میں نے کہا یہ تو کھیل کا اصول ہے جو بہتر کھیلے گا اس کی تعریف ہونی ہی چاہئے کیا انگلینڈ یا ویسٹ انڈیزکے کھلاڑی جب اچھا کھیلتے ہیں تو آپ ان کی تعریف نہیں کرتے ؟ “

اس کے بعدوہ مزید جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ”اسلام میں کہا گیا ہے کے وطن پرستی نصف ایمان ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو کیا مسلمان اپنے پیغمبر کی بات نہیں مانیں گے ؟کیا سرحدوں پر مسلمان فوجی جنگ کے دوران کسی سے پیچھے رہتے ہیں ؟ کیاہندوستان کو آزاد کرانے میں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ نہیں دیا؟ “ پھر وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ”اگر کوئی آدمی کسی ملک میں پانچ سال مسلسل رہ لے تو اسے اس ملک کی وطنےت مل جاتی ہے جبکہ مسلمانوں کے ماں باپ دادا پردادا اسی ہندوستان میں پیدا ہوے وہ کسی اور ملک کیوں جائیں گے ؟ جب دنیا میں چار ہی تہذیبیں تھیں یعنی چار جزیرے 1 - وادی دجلہ 2 - وادی نیل3۔وادی فرات 4۔وادی سندھ یہیں پر دنیا آباد تھی نہ ہندوستان تھا نہ ہی کوئی اور ملک اس وقت آریہ آئے تھے دوسرے ممالک سے سندھ وادی پر جس نے بڑھتے بڑھتے بعد میں ہندوستان کی شکل لی کیا آریہ ہندوستان کو چھوڑ کر کسی اور ملک جا سکتے ہیں ؟ “پھر انھوں نے آگے لکھا ہے ” آر ایس ایس کے ایس کے سی سدرشن نے ریٹائر منٹ لینے کے بعد کچھ دن پہلے لکھنو¿ میں مسلمانوں کے اجلاس میں کہا تھا کہ ثقافت کبھی نہیں لڑتی ہمیں لڑاتی ہے تو صرف سیاست۔وہ لوگ میرا منہ دیکھ رہے تھے“۔

اس سلسلہ میں ایک اور بلاگر نور محمد نے اپنے بلاگ میں ایک واقعہ رقم کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں ” میرے ماموں بھارت پیٹرولیم میں ملازمت کرتے تھے،کرکٹ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا کبھی بھی میچ نہ دیکھتے تھے،ایک بارہند وپاک کا میچ چل رہا تھا، ان کے آفس ( ڈپارٹمنٹ) میں یہ واحد مسلم شخص تھے۔ تولوگوں نے ان سے کہا کہ سر آج کون جیتنا چاہیئے ماموں جان سمجھ گئے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ان سے پوچھ رہے ہیں۔ اب انہوں نے جو جواب دیا ۔ وہ بہت ہی مزے دار تھا۔ماموں جان ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر آج ہندوستان بمقابلہ پاکستان ہے تو ہندوستان کو جیتنا چاہئے اور اگر یہ مقابلہ ہندو اور مسلمان کے بیچ ہے تو مسلمان کو۔اب کہو تم کس مقابلے کی بات کر رہے ہو۔بے چارے سب اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔آگے انھوں نے لکھا ہے کہ ”۔ہم ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے وقت میں ہم اگر ہمت سے کام لیں تو ہمیشہ مدمقابل کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔پھر انھوں نے آگے لکھا ہے ”میرا گمان ہے کہ شاید ہی کوئی ہندی مسلم اس طرح کے سوالات سے بچ پاتا ہوگا۔اسی لئے میں نے اسے شیئر کرنا مناسب سمجھا کہ ہمیں اس طرح کے جذباتی سوالات کا اطمینان بخش جواب دینا آسان ہوجائے۔یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر ہم ان کے باتوں میں آ کر جذباتی ہو گئے تو پھر ہمیں ہی نقصان ہوتا ہے“۔

نور محمد کا کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے اوراس قسم کے اور بھی کئی واقعات ہیں جن کا اگر میں تذکرہ کرنے لگوں تو صرف اسی پر کئی صفحات لکھے جائیں گے ۔خود میرے ساتھ ایسے کئی واقعات پیش آچکے اورمیں نے کچھ ایسے واقعات کا شاہد ہوں جنہوں نے مجھے یہ تمام چیزیں لکھنے پر مجبور کیا ۔میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ”میں ندوہ میں طالب علم تھا شہر کسی کام سے آیا ۔میں ایک دوکان کے پاس سے گذر رہا تھا جہاں پر کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔کچھ لوگوں نے میرے اوپر کمنٹ کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو (ایک انتہائی غلیظ لفظ جسے میں یہاں نہیں لکھ سکتا)آگیاپاکستانی ۔ مجھے کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی میں نے حیرت سے پوچھا کیا ہوا ؟تو وہ لوگ آپس میں یہ کہتے ہوئے ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگے کہ دیکھا کیسا بے ہم لوگوں کو اور پھر گالیاں ۔۔“چند احباب کی جانب سے اسی قسم کی باتیں سننے اور پڑھنے کے بعد میں نے اپنے بلاگ اور فیس بک میں اسٹیٹس اپڈیٹ کیا تو کئی لوگوں نے میرے اوپر ہی کمنٹ کرنا شروع کر دیا ۔

نو مسلم ونئے کی تحریر کے کے جواب میں برادران وطن کے جانب سے جس قسم کے غلیظ کمنٹ کئے گئے ہیں ۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا ۔تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ وطن پرستی نصف ایمان ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو۔یہ حدیث نہیں ہے۔محدثین نے اسے موضوع قرار دیا جس کی دسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔حدیث حب الوطن من الایمان لا اصل لہ عند الحفاظ (المصنوع فی معرفة الحدیث الموضوع ص: 91)اسلام میں وطن پرستی مقدم ہوتی تو نبی کریم کبھی ہجرت نہ فرماتے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان کو فطری طور پر اپنے پیدائشی وطن سے محبت ہوتی ہے اور یہ نبی کریم کو بھی مکہ مکرمہ سے تھی ۔

وطن اور وطنیت کے حوالہ سے پچھلے ایک سو سال سے برصغیر پاک و ہند میں دونظریے ہیں جن میں سے ایک نظریہ کے علم برداراقبال تھے اور دوسرے کے مولانا حسین احمد مدنی ،میں اس موضوع پر نہیں جانا چاہتا تھا تاہم اپنے ایک ہندو دوست کی جانب سے کہ ہندوستانی مسلمان کھیل میں پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں کیا یہ ملک کے خلاف نہیں ہے اس سوال کے جواب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معروف پروفیسرکیسونت نے جو جواب دیا وہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں انھوں نے کہا” قومیت کے تئیں کسی ملک کے عوام کو مطمئن کرنا اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔اگر مسلمان کھیل میں پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں تو یہ اسٹیٹ کی ناکامی ہے، ان کے ساتھ ظلم اور تشدد کا رویہ اپنایا جاتا ہے اس لئے وہ اس طرح کرتے ہیں۔لیکن اس سے قومیت مجروح ہوتی ہو ،ایسا بالکل بھی نہیں ہے “۔ پروفیسر کیسونت کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشدد کا رویہ نہیں اپنایا جا رہا؟کیا انھیں انصاف مل رہا ہے؟ان کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جا رہا ہے ؟

ظاہر ہے ایسی صورت حالات میں مستقل طور پر زندگی گذارنے والا انسان جھلاہٹ اور بے بسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اس صورت حال میں ماہرین نفسیات کے مطابق وہ کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے لیکن یہاں پراس بات کی داد دینی چاہیے کہ اب تک مسلمانوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن نا انصافی اور حق تلفی کے احساس کا لاوا ان کے اندرمستقل پک رہا ہے۔اور یہ احساس اور چبھن کا نتیجہ ہے۔ جسے آپ احتجاج کی ایک شکل بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ مسلمانوں میں ناخواندگی کو بھی اس کی وجہ مانتے ہیں۔ تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد شاذ ہیں جوپاکستان کو کرکٹ میں سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی تو اپنی جگہ درست ہے کہ تمام مسلمان پاکستان کو سپورٹ نہیں کرتے ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو ہندوستان کو ہی سپورٹ کرتی ہے۔اس بارے معترضین کچھ کیوں نہیں کہتے۔ پھر ایسے بہت سے غیر مسلم بھی تو ہیں جو پاکستان کو پسند کرتے ہیں ان کو غدار کیوں نہیں کہا جا تا؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے تمل سری لنکن تمل سے ہمدردی رکھتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں تو اس پر معترضین اپنی زبان کیوں بند کر لیتے ہیں ؟

اس کا جواب معروف ہندی صحافی پر بھاش جوشی اپنی کتاب ”کھیل صرف کھیل نہیں ہے “ میں دیتے ہوئے کہتے ہیں ”پاکستانیوں میں بھارت کولے کر انتہائی جارحیت دکھائی دیتی ہے وہ طاقت یا اپنی طاقت کے عدم اعتماد کا نہیں ہے وہ در اصل طاقت کی کمی اور اپنے کمزور ہونے کا ڈر ہے ۔کیا ہندوستان کو بھی پاکستان کو لے کر ایسا ڈر ہے؟سب لوگوں میں ہو یا نہ ہو ان لوگوں میں تو ہے ہی جو ہوا ہوا جیسا شور مچاکر کہتے ہیں کہ ہندو نہیں جاگے تو پاکستان ہندوستان کو نگل جائے گا ۔ایک دوسرے مقام پر یہ ڈر مسلمانوں کی تعداد کو لے کر بھڑکایا جاتا ہے کہ ان میں چار شادیاں نہ روکی گئیں تو دس بیس سال میں اتنے مسلمان ہو جائیں گے کہ ہندو اپنے ہی ملک میں اقلیت ہو جائیں گے چار الگ عورتیں چار الگ آدمیوں سے شادی کریں گی تو زیادہ بچے ہونگے یا ایک آدمی چار بیویاں رکھے گا تو زیادہ بچے ہونگے ۔لیکن جس ملک میں بیاسی فیصد ہندو ہوں اور بارہ چودہ فیصد مسلمان وہاں کیا ہندو کبھی اقلیت ہو سکتے ہیں ؟ لیکن آپ پائیں گے کہ ایسی باتیں پھیلائی جاتی ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو ان پر یقین کر لیتے ہیں ۔(مزیدتفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائی ںکتاب کا صفحہ204‘۔)

اس سوال کا جواب ”رام پنیانی “نے بھی اپنی کتاب” سمپردائک راجنیتی: تتھئے ایوم متھک “میں لکھا ہے ۔وہ کہتے ہیں ”کرکٹ راشٹرواد بڑامشکل اور لاینحل عنصر ہے ۔جنوبی افریقہ،امریکہ ،انگلینڈ اور دوسرے دیشوں میں جاکر آباد ہوئے اور وہاں کی شہریت لینے والے ہندوستانی وہاں ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کی جیت پر جشن مناتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے 50سالوں میں مشکل سے ہی کوئی مسلمان پاکستان کے لئے جاسوسی کرتا ہوا پکڑا گیا ہو ۔ابھی حال ہی میں مالوانی بمبئی میں شیو سینکوں نے کچھ مسلمانوں کو پیٹا ۔یہ لوگ کرکٹ میں پاکستان پر بھارت کی جیت کا جشن منا نا چاہ رہے تھے ۔انگلینڈ،افریقہ اور جنوبی افریقہ میں ایسے ہندوستانی ہیں جو وہاں کے باشندے ہیں لیکن اپنے دیشوں میں بھارت کی جیت کا جشن مناتے ہیں ۔کسی ایک کھیل ٹیم سے تعلق اور دل چسپی اپنی پہچان ،دیش بھکتی یاوطن سے غداری کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی ۔ہمیں پوری کمیونٹی کے وسیع رویہ اور سماجی ،معاشی زندگی میں اسکی حصہ داری کو دیکھنا چاہئے اور معاشرے کے تشدد پسند افراد کی طاقت کی بنیاد پر ان کے خلاف فیصلہ سنانے کے بجائے محروم اقلیتوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔“(تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں صفحہ نمبر94 )

ٹیلی وژن پر کھیل کے دوران اور کھیل کے بعد جب ماہرین تفصیل سے کھیل کے فنی رموز اور اس کے محاسن ونقائص پر اپنی آراء پیش کرتے ہیں اور کبھی ہندوستان اورکبھی پاکستان کی ٹیم اور ان کے کھلاڑیوں کی تعریف تو کبھی ان پر تنقید کرتے ہیں ، اس وقت بھی ایسے سوالات پیدا کرنے والوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا چاہیے کہ یہ لوگ کب محب وطن ہوتے ہیں اور دوسرے ہی لمحہ کب وہ ملک سے غداری کے مرتکب ٹھہر جاتے ہیں، اس طرح کے سطحی رجحانات اگر چہ دیر پا تاثیر نہیں رکھتے لیکن وقتی طورپر ان کے ذریعہ جو فتنہ برپا ہوتا ہے اس کے نتائج بہت دور رس اور بھیانک ہوتے ہیں، اس لئے دانش مندوں کو ان سے پرہیز اور گریز کرنا چاہئے۔
 
شاباش
ہندوستانی مسلمان ایک عظیم قوم ہیں۔ پوری دنیا کی تاریخ میں وہ کام نہیں دیکھا گیا جو ہندوستانی مسلمانوں نے کیا ہے۔ایک عظیم اکثریت نے یہ طے کیا کہ وہ اپنے وطن سے ایک الگ ملک کی جدوجہد کریں جس میں وہ خود نہیں رہتے اس بنا پر کہ اس نئے بننے والے ملک میں ان کی طرح کلمہ گو رہتے ہیں کم از کم وہ اور ان کی نسلیں محفوظ ہوجائیں۔ یہ قربانی دنیا کی تاریخ میں نہیں دیکھی گئئ۔ یہ قربانی کچھ افراد کی طرف سے نہیں تھی بلکہ کروڑوں افراد کی طرف سے تھی۔ایک اکثریت کی طرف سے تھی ایک اقلیت کے لیے۔لامحالہ اس عظیم قربانی کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ اس قربانی کے اثرات ہیں کہ ہندوستانی مسلمان لکیر کے دونوں طرف اج تک قربانی کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے جو لوگ اس قربانی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوئے وہ نااہل ، نالائق، جائل، احسان فراموش، اور محسن کش ہیں۔ ہاہ اہ
 

arifkarim

معطل
بھارت اور پاکستان کو انگریز کے تسلسل سے آزاد ہوئے کوئی 60 سے زیادہ برس بیت چکے ہیں لیکن ابھی تک یہاں ہندو، مسلمان، مہاجر، عیسائی، سکھ، قادیانی ، اہل تشیع کے نام پر تشدد ، فتنہ اور تفرقہ ختم ہونے میں نہیں آرہا! چین، جاپان، کوریا، سنگاپور جیسی غیر مذہبی اقوام کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں اور ہمیں انہی مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں ہورہا!
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھی معلوماتی تحریر
جو " کھیل و وطنیت " بارے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔
بہت دعائیں محترم اصلاحی بھائی
 
گہرے مشاہدے اور مطالعے کا حاصل ایک بہت غیر جانبدار اور چشم کشا تحریر
ماشاءاللہ بہت خوب لکھا
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ ۔

بہت اچھی اور تفصیلی تحریر ہے علم اللہ بھائی ۔۔۔!

دراصل بات ساری سوچ کی ہوتی ہے۔ اگر کھیل کو کھیل سمجھا جائے تو اس قسم کی صورتحال کبھی درپیش نہ ہو۔ ہندوستان اور پاکستان کے میچز کو دونوں طرف کے میڈیا والے اپنی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں عجیب و غریب جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے میچ کو بھی اتنی اہمیت دی جائے جتنی پاکستان اور سری لنکا کے میچ کی ہوتی ہے، یعنی کھیل کو کھیل سمجھا جائے اور بس۔
 
اس مضمون میں مندرجہ ذیل عبارت بہت قابل غور ہے۔
" اپنے ایک ہندو دوست کی جانب سے کہ ہندوستانی مسلمان کھیل میں پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں کیا یہ ملک کے خلاف نہیں ہے اس سوال کے جواب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معروف پروفیسرکیسونت نے جو جواب دیا وہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں انھوں نے کہا” قومیت کے تئیں کسی ملک کے عوام کو مطمئن کرنا اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔اگر مسلمان کھیل میں پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں تو یہ اسٹیٹ کی ناکامی ہے، ان کے ساتھ ظلم اور تشدد کا رویہ اپنایا جاتا ہے اس لئے وہ اس طرح کرتے ہیں۔لیکن اس سے قومیت مجروح ہوتی ہو ،ایسا بالکل بھی نہیں ہے “۔ پروفیسر کیسونت کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشدد کا رویہ نہیں اپنایا جا رہا؟کیا انھیں انصاف مل رہا ہے؟ان کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جا رہا ہے ؟"
جب کسی بھی ریاست میں سماجی انصاف نا ہو چاہے وہ نسل پرستی کی بنا پر ہو یا مذہب کی بنیاد پر تو ایسے مظاہر جنم لیتے ہیں۔ جب سماج میں ہر شخص کو بغیر کسی تخصیص کے برابر مواقع میسر آئیں گے تو ہر ایک اپنی ریاست میں یقین رکھے گا اور اپنی ریاست سے نظریاتی یا جسمانی یا کسی بھی صورت میں بغاوت نہیں کرے گا۔
مجھے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی حب الوطنی میں کوئی شبہ نہیں۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے ایک عالمی سروے رپورٹ جو بی بی سی اردو میں شایع ہوئی کے مطابق دنیا بھر میں مسلمان سب سے زیادہ محب وطن ہیں۔ چاہے وہ یورپ کے ہوں یا ایشیا یا امریکا کے۔ حتی کہ بھارتی مسلمان ہندوؤں سے زیادہ محب وطن ہیں۔
 

باباجی

محفلین
علم اللہ اصلاحی بھائی
بہت خوب تحریر آپ کی ۔۔ واقعی وہاں مسلمان صدیوں سے رہنے کے باوجود آج تک اقلیت ہیں ۔۔ اور انگریزوں کے جانے بعد ہندؤں کا صدیوں بعد حکومت ملی تو ظاہر ہے انہوں نے اپنا غصہ مسلمانوں پر ہی نکالنا تھا نا کہ ان پر حکمران رہے ۔۔ اب بات کرتے ہیں کرکٹ میچ کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے انڈیا پاکستان کے میچ میں تو واقعی ہمارا میڈیا اور ان کا میڈیا کچھ اسطرح کا ماحول پیدا کرتا ہے کہ جیسے جنگ ہونے والی ہو پھر ہمارے ذہنوں میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ انڈیا سے دشمنی ہےتو اسلیئے میچ بصورت جنگ دیکھا جاتا ہے ۔۔ لیکن ایک بات صاف ہے کہ اس معاملے میں دونوں طرف رویہ بر عکس ہے ۔۔ ہندو دراصل ایک تنگ نظر قوم ہے ہم پاکستانی جیسے بھی ہیں وسیع القلب ہیں ۔۔ ہم یہاں شغل میں یا واقعی میں انڈیا کی سپورٹ کرتے ہیں تو ہمیں کوئی برا نہیں کہتا یہی کہتا ہے کہ تیری مرضی ہے بھائی یا مذاقاً کوئی ایک آدھ گالی دیدیتا ہے لیکن اسے عزت بے عزتی یا جان جوکھوں کا مسئلہ کوئی نہیں بناتا ۔اور ہندوستان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ کے سامنے ہے ۔
میں نے کچھ عرصہ دبئی میں گزارا ہے وہاں اکثریت پاکستانی اور ہندوستانیوں کی ہے ، ساتھ مل کر کام بھی کرتے ہیں دوستی بھی ہوتی ہے حتیٰ کہ ایک دوسرے کے ممالک سے بغض رکھنے کے باوجود ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا ہے ۔۔ وہیں پاکستان انڈیا کے میچز میں ہم ایک دوسرے کے مخالف ہوتے تھے دو دھڑوں میں بٹ جاتے تھے اور ہندوستانی مسلمان ہمیشہ ہندوستانی ٹیم کے حامی ہوتے تھے لیکن "سُدھاکر" نام کا ایک ہندو لڑکا ہمیشہ پاکستان کا حامی ہوتا تھا میں نے کئی دفعہ پوچھا کہ بھائی ایسا کیوں تو وہ کہتا تھا کہ بس سر ہم کو بہت اچھا لگتا پاکستانی ٹیم ۔۔
یہاں بات آتی ہے ذہنیت کی اخلاقیات کی اور اقدار کی اور "دل" کی ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ انڈیا جاؤں ولیوں اور درویشوں کی سرزمین ہے یہ، ہزاروں سال پرانی تاریخ ان گنت کہانیاں کئی گمنام ثقافتیں لیکن کیا کریں جی دونوں ممالک کے حالات اور خاص طور انڈیا حکومت کا رویہ دیکھ کر ہمت نہیں ہوتی حالانکہ وہاں میرے ننھیالی و ددھیالی رشتہ دار رہتے ہیں لیکن پھر بھی برے وقت سے ڈر لگتا ہے ۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھی ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہندو ذہنیت صدیوں سے مسلمانوں کی دشمن چلی آرہی ہے اور دشمنی کی کئی مثالیں آپ سب کے سامنے آتی رہتی ہیں، وہاں کا مسلمان ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی ان کا دشمن ہے حالانکہ ہمیں بھی پتا ہے کہ وہاں کا مسلمان انڈیا کا زبردست حامی ہے ۔۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ ہندوستان کے تمام رہنے والے مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو
 

نورمحمد

محفلین
ایک زبردست تحریر ہے ۔ ۔

مسئلہ تب آتا ہے جب برادرانِ وطن مسلمانانِ ہند کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ۔ اور ہند پاک میچ کو ۔ ۔ ۔ مسلم بمقابلہ ہندو تصور کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
اور یہ ہمارے ساتھ اکثر ہوتا ہے ۔ ۔ جب بھی انڈیا - پاک کا میچ ہوتا ہے تو اس کا اثر صبح لوکل ٹرین میں ضرور دکھائی دیتا ہے - خصوصا" جب انڈیا جیت جاتا ہے - پاک کے مقابلے میں ۔
 
مجھے یاد ہے کہ آج سے کئی سال پہلے شائد فٹبال کے ورلڈ کپ میں سعودیہ کا جرمنی کے ساتھ میچ ہورہا تھا۔ اس میچ میں جرمنی نے سعودیہ کو بہت بری طرح یعنی صفر کے مقابلے میں دس گول سے ہرادیا۔ میچ ختم ہوا تو کچھ صومالی بھنگڑے کی طرح ناچنے لگے اور انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اردگرد موجود تمام لوگ، خصوصاّ عربی لوگ بہت حیران بھی ہوئے کہ یہ کیا چکر ہے۔ سعودیہ کے عربیوں کو بھی غصہ آیا کہ یہ ہمارے ہارنے پر اتنا خوش کیوں ہورہے ہیں۔ جب کسی نے ان صومالیوں سے پوچھا کہ تم کیوں بھنگڑے ڈال رہے ہو جرمنی کے جیتنے پر؟ تو جواب میں یہ معلوم ہوا کہ ان صومالیوں نے کچھ برس سعودیہ میں کام کیا تھا اور اس قیام کے دوران سعودیوں نے عمومی طور پر انکے ساتھ جس قسم کا رویہ روا رکھا تھا اور جو توہین آمیز تجربات ان لوگوں کو ہوئے تھے، اسکے ردعمل میں پیدا ہونے والی شدید ترین گھٹن کے نکاس کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہِ اظہار نہیں ہوسکتا تھا جو ان صومالیوں نے بے اختیار پیش کیا میچ کے بعد۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
زبردست تحقیقی اور تجزیاتی مضمون ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو وسیع القلبی کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
 
Top