نئے وزیراعظم کی رہائشگاہ کا معمہ

khabarkahani

محفلین
تحریر: محمدآصف

نئے وزیر اعظم عمران خان کی نئی رہائش گاہ کا مسئلہ مذاق اور معمہ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ خبروں سے اندازہ ہو رہا ہے اب تک نئی رہائش گاہ فائنل ہی نہیں ہوپارہی۔

پچیس جولائی کو الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے اگلے ہی روز عمران خان نے پہلے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں منتقل نہیں ہوں گے۔ وہ محل نما سرکاری عمارتوں کو عوامی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کریں گے کیونکہ ان پر ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ وہ ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنائیں گے۔

عمران خان کا عزم کیا سامنے آیا۔ میڈیا میں بھانت بھانت کے تجزیوں، تبصروں کی بھر مار ہوگئی۔ معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے تیرہ اگست کے کالم بعنوان ’’مسئلہ رہائش گاہ کا‘‘ لکھا جس میں اپنے مخصوص مزاحیہ طرز تحریر میں کہا کہ آخری خبریں آنے تک عمران خان ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ میں رہیں گے اور شنید ہے جس کی ابھی تک تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی کہ ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ ہی میں واقع ہے ۔

خاں صاحب نے اپنی رہائش کے لئے جو رہائش گاہ بھی منتخب کرنی ہے براہ کرم اولین فرصت میں فیصلہ کریں۔ قوم بہت بے چین ہے۔ اسی طرح ن لیگی بھی کہاں پیچھے رہنےوالے ہیں ۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ’’سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سادگی‘‘ کے عنوان سے مفتاح اسماعیل نے عمران خان کی رہائشگاہ کے معاملے کے تناظر میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی رہائش کا احوال لکھ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ سابق وزیراعظم عباسی کبھی بھی وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہے بلکہ اسلام آباد میں موجود اپنے گھرمیں رہنے کوپسند کیا۔ جب کبھی شام کو وہ اپنے دوستوں کےگھر دعوت پر جایا کرتے تھے تو ان کے پیچھے گاڑیوں کے لمبے قافلے نہیں ہوتے تھے۔ صرف تین گاڑیاں ہوا کرتی تھیں اور ان کیلئے ٹریفک نہیں رکتی تھی۔

ایسا لکھ کر گویا انہوں نے کپتان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ سادگی کی بڑی باتیں تو کر رہے ہیں لیکن ان سے پہلے ن لیگ کے ایک متوالے وزیر اعظم ایسے سادگی پسند بھی گزرے ہیں۔ اب جو کرنا ہے کر لو۔

ملک کے ایک صف اول کے لکھاری جاوید چوہدری نے عمران خان کے عزائم پر ’’یہ سادگی بہت مہنگی پڑے گی‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیا جس میں متوقع نئے وزیر اعظم کے وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنے کا خرچہ بتایا اور کہا یہ ’’سادگی‘‘ ممکن نہیں اور اگر یہ زبردستی فرما دی گئی تو اس میں غریب قوم کے مزید اربوں روپے ضایع ہو جائیں گے۔

خلیجی اخبارنے ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس استعمال نہ کرنےسے پونے دو ارب سے زائد کی بچت ہوگی۔ اس رہائش رہائش کے کھیل میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوگئی جب عمران خان کے منسٹر انکلیو میں اسپیکر ہاؤس میں قیام کا فیصلہ سامنے آیا۔

خورشید شاہ نے اعتراض اٹھادیا کہ عمران وزیراعظم بننے کے بعد اسپیکر ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ اسپیکر ہاؤس پارلیمنٹ کی پراپرٹی ہے اور پارلیمنٹ کی پراپرٹی میں وزیراعظم نہیں آسکتے، جس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے پھر نیا بیان میڈیا کی زینت بنا کہ نہیں کپتان تو پنجاب ہاؤس میں رہائش اختیار کریں گے ۔

ابھی اس خبر کے چرچے کو محض ایک دن ہی گزرا تھا کہ معروف تحقیقاتی رپورٹر انصار عباسی کی جنگ اخبار میں نو اگست کو خبر لگی جس کی سرخی کچھ یوں جمائی گئی ’’پرتعیش پنجاب ہاؤس میں قیام کفایت شعاری کیلئے ٹھیک نہیں‘‘ جس میں بتایا گیا کہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب ہاؤس دارالحکومت میں کسی دوسری سرکاری رہائش گاہ بشمول ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے مقابلے میں زیادہ پرتعیش ہے۔

پنجاب ہاؤس میں چھ ایگزیکٹو سوئیٹس اور ایک وی وی آئی پی منزل ہے۔ یہ عمارت منظور وٹو نے اس وقت تعمیر کرائی تھی جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ یہ مہنگی ترین اور شاہانہ طرز کی ان تمام سرکاری عمارتوں میں سے ایک ہے جس میں وی وی آئی پی منزل پر ایک ماسٹر بیڈ ہے اور اس کا سوئیٹ دس ہزار مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ کسی بادشاہ کا کمرہ ہے اور یہاں سے مرگلہ کا بہترین منظر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کالم کے شایع ہونے کے اگلے روز پھر فواد چوہدری کا بیان آ گیا کہ نہیں نہیں عمران خان منسٹرانکلیو میں رہائش اختیارکریں گے، جس سے ملک میں نئی مثال قائم ہوگی ۔ ساتھ ہی انہوں نے مخالفین کو چت کرنے کے لئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عمران خان منسٹر کالونی کے جس گھر میں رہائش اختیار کریں گے اس کی تزئین و آرائش کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا نہیں کئے جائیں گے بلکہ جتنا بھی خرچ آئے گا وہ عمران خان ذاتی جیب سے ادا کریں گے۔ یہ ہی نہیں بلکہ بنی گالہ کے تمام سکیورٹی اخراجات بھی عمران خان خود ادا کرینگے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے دعوؤں پر ان کے حامی اور مخالفین (عوام، سیاستدان اور تجزیہ کاروں)نے اپنے اپنے دلائل کا انبار لگا دیا ہے۔ سچ کیا ہے؟ سچ کہاں ہے؟ کہاں سے ملے گی سچائی؟ ان سوالوں کے جواب تو آنے والا وقت بتاتا چلا جائے گا۔ ہماری معلومات تو محدود اور ناقص ہے لیکن بڑے بڑے نامور تجزیہ کار اور صحافی بڑے بڑے تجزئیے اور اندر کی رپورٹس لا رہے ہیں۔

حقیقت بہر حال یہ ہے کہ غربت اور ناانصافی کی چکی میں پستے عوام کو اب موہوم سے امید بندھی ہے کہ شاید اس بار نئی حکومت میں ان کی حالت بدلی جائے اور ہم بھی توقع کرتے ہیں نئے وزیر اعظم صاحب جو کہیں گے اس کی لاج بھی رکھیں گے۔محض خوش کن نعروں اور اعلانات سے عوام کو زیادہ عرصے خوش نہیں رکھا جاسکتا۔

خان صاحب آپ بھی سابق حکمرانوں جیسے نہ بن جانا۔ ایسا نہ کرنا آج ایک اعلان کردیا پھر کل بدل گئے۔ اس موقع پر پانامہ کیس کے فیصلے میں لکھا گیا شعر یا د آتا ہے، جس کا ایک مصرع یہ ہے ’’مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے‘‘۔

لہذا بس آپ جہاں بھی رہیں ۔ ہماری استدعا ہے کہ آپ غیر جانبدار فرم سے اپنی رہائش گاہ کا سالانہ آڈٹ کراکر قوم کے سامنے ضرور رکھئیے گا تاکہ نئے اور پرانے اخراجات کے موازنے میں آسانی ہو اور سب جان سکیں کہ ہر سال مبینہ ’’رہزن‘‘ قوم کے ٹیکس کا اتنا پیسہ وزیر اعظم ہاؤس میں استعمال کرکے بے دردی سے اڑا رہے تھے اور آپ نے وہ رقم بچا کر غریب عوام میں بانٹ دی۔

یہ بلاگ خبر کہانی میں شایع ہوا۔
 

خواجہ

محفلین
رہائش گاہ بدلنے سے کُچھ نہ ہوگا۔ وزیر اعظم ہاؤس سرکاری مجلسوں اور مہمانوں اور خصوصی نمائیندگان کو رکھنے اور ان سے ملاقات کے لئے بنی ہو اور اس پر بڑا خرچہ کیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے اگر سیاستدان اسکو شان سے رہنے کے لئے ہی استعمال کرتے رہے ہوں۔ اسکو چھوڑا نہیں جاسکتا۔
'جتھے دی کھوتی اُتھے آن کھلوتی'۔
 
Top