داستان/ شیخ چلی

:) :) :) :) :) :) :) شَیخ چِلّی :) :) :) :) :) :)

تحریر : ڈاکٹر ساجِِد اَمجَد ۔

شَیخ چِلّی اُردو اَدَب کے ایک اَفسانوی کِردارکی حَیثِیّت سے مَشہُور ہُوا ۔ اُس کی حَماقَتیں اور شَیخِیاں زُبانِ زَدِ خاص و عام ہو گَئیں یَہاں تک کہ یہ نام ہر اُس شَخص کے لِیے مَخصُوص ہو گیا جو حَماقَت آمیز گُفتگُو کرتا نظر آیا لَیکِن بَہُت کَم لوگ اُس کی حَقِیقَت سے واقِف ہونگے کہ شیخ چِلّی کوئی مَفرُوضہ اَفسانوی کِردار نَہِیں بَلکہ ایک حَقِیقی شَخصِیّت ہے۔ دَورِ اَکبَری میں وہ مُغَلِ اَعظَم جَلالُ الّدِین مُحَمَّد اَکبَر کے نَورَتنوں میں شامِل تھا۔ زیرِ نَظر سَرگُزَشت اُسی شُہرَہِ آفاق شَخصِیّت کی ہے۔ پَڑھیے اور سَر دُھنیے۔

______________________________________________________________

شَیخ اَبّو الغَنَم قَراقَری ، خاندانِ بَنی اَطفال کا نُمایاں تَرِین شَخص تھا ۔ یہ خاندان مَضافاتِ ماوَر النَہر میں آباد تھا ۔ شَیخ اَبّو الغَنَم بھیڑوں اور دُنبوں کا کاروبار کرتا تھا ۔ عِراق عَرب سے لے کر اَسپین کے بَربَری حِصے تک اُس کی تِجارَت کا سِلسِلَہ چَلا گَیا ۔ اِدَھر مَشرِق سے جَمنا پار سے کابَل کی سَرحَد اور اِس سے داہنی طَرف تِبّت کے مَشہُور مَقامات تک پُہنچا ہوا تھا ۔ اُس کے کارخانے کے کَمبَل تَمام یورَپ میں لوگوں کو سَردی سے بَچانے کا مُؤثَر تَرین ذَریعہ تھے ۔

اِس قَدر دَولَت و ناموَری کے باوُجود عُمرِ رَفتہ کے سائِبان میں عَرصہ دَراز سے کُنوارا بَیٹھا تھا۔ کون تھا جو اَپنی بیٹی اُسے خُوشی خُوشی نہ دیتا لَیکِن اُس کی شَرط ہی اَیسی تھی کہ وَقت کی گِرِفت میں نَہِیں آتی تھی۔ اُس کا کَہنا تھا کہ جب تک کوئی عَورَت اُس پر سَو جان سے فِدا نہ ہوجائے اور وہ خُود بھی اُس کے تِیرِ نَظر کا شِکار نہ ہوجائے ، وہ شادی نَہِیں کرے گا ۔ دُوسرے لَفظوں میں وہ پَسَند کی شادی کا قائِل تھا اور پَسَند بھی اَیسی کہ دونوں طَرف بَرابَر کی آگ ہو ۔ ہوتا یہ تھا کبھی کوئی اُس پر مَر مِٹتی لَیکِن اُس کی آنکھیں وِیران رہتیں ۔ کَبھی اُس کی آنکھوں میں کوئی آباد ہو جاتا تو دُوسری طَرف کا مَحَلّہ وِیران رہتا ۔

یہ کَشمَکَش جاری تھی کہ اُس کی مُلاقات صَفِیّہ نامی ایک عَورَت سے ہو گَئی ۔ دِل نے کَہا یَہِیں دَھڑَکنا ہوگا ۔ قَدموں نے کَہا یَہِیں بَہَکنا ہوگا ۔ آخِر صَفِیّہ سے اُس کی شادی ہو گئی ۔

صَفِیّہ سے اُس کی شادی سَخت نامُبارَک ثابِت ہُوئی ۔ مُلک میں سَخت قَحط پَڑ گَیا ۔ حالَت یہ ہوئی کہ اُس کے جانوَروں کا چارَہ تَک ناپَید ہو گَیا ۔ صَفِیّہ سے شادی کو چَند ہی ماہ گُزرے تھے کہ یہ اُفتاد آن پَڑی ۔ وہ نہ صَفِیّہ کو پَریشان دیکھ سَکتا تھا ، نہ جانوَروں کو بُھوکا ۔ اُس نے تھوڑے سے جانوَر ، نَقدی اور بِیوی کو ساتھ لے کر دَشتِ قُبچاق کا رُخ کیا کہ وَہاں چارَہ بہ اَفراط مِلے گا ۔ چارَہ تو مِل گیا لَیکن اُدھار نے گَھر دیکھ لیا تھا ۔ قِسمَت خِلاف تھی ، ڈاکُو گھات میں تھے ۔ نَقدی بھی گَنوائی ، جانوَر بھی ہاتھ سے گَئے ۔ بِیوی کے سِوا کُچھ نہ بَچا ۔

اَب وہ یَہاں رہ کر کیا کَرتا ۔ سامانِ سَفر کے نام پر تھا کیا جو جَمع کَرتا ، اُٹھا اور غَزنی کے طرف چَل دِیا ۔ سَلطان مَحمُود کا دَور تھا ۔ اُس نے سُلطان سے مُلاقات کی اور بھیڑوں کے مُتعلِق اَپنی مَعلُومات اِس تَفصِیل سے بَیان کِیں کہ سُلطان حَیران رہ گَیا ۔ اُسے دُنبوں کی دَروغگی کے عُہدے پر دَربار میں جَگہ مِل گَئی ۔

کُچھ دِنوں بَعد لَشکَر کی رَوانگی کا غَلغَلَہ بَلَند ہُوا ۔ مَعلُوم ہُوا سُلطان ہِندُوستان پر حَملے کے لِیے رَوانہ ہونے والا ہے ، یہ اُس کا بارھواں حَملہ تھا ۔ شَیخ نے بھی کِسی نہ کِسی طَرح لَشکَر کے ساتھ جانے کی اِجازَت طَلب کر لی ۔ اُس نے اَپنی عَزِیز بِیوی کو ساتھ لیا اور عازِمِ سَفر ہو گَیا ۔ ہِندُوستان اُسے اِتنا پَسَند آیا کہ واپسی کا اِرادَہ تَرک کر دِیا ۔ سُلطان کا لَشکَر تو فَتَح کی دُھول اُڑا کر واپَس چَلا گیا لَیکِن بَدایوں کے ایک قَصبے " چِلّہ " میں رِہائِش پَذِیر ہو گَیا ۔ آدمی ہوشیار تھا ، جَلد ہی تَرّقی کر لی ۔ اَولاد اور مال دونوں سے مالامال ہو گَیا ۔

شَیخ اَبّو الغَنَم قَراقَری کی ساتویں پُشت میں ایک شَخص " شَیخ مَلہُو " پَیدا ہُوا ۔ اُس خاندان کا تَرکَہ تَقسِیم دَر تَقسِیم کے بَعد اِتنا بھی نَہِیں رہا تھا کہ شَیخ مَلہُو خُوش حالی کی زِندگی گُزار سَکتا ۔ تھوڑی سی زَمِین تھی جِس پر مِحنَت و زَراعَت کر کے گُزَر اَوقات کر رہا تھا ۔ رَفتَہ رَفتَہ اِتنا سَرمایَہ جَمع کرلیا کہ کُچھ جانَور پال سکے ۔ اُس کی شادی اُس کی چَچازاد بہن بی بی حَمِیقَہ سے ہُوئی ۔ 1151ء میں اُس کے یَہاں بیٹا پَیدا ہُوا ۔ دائی نے بَچے کو دیکھا اور دیکھتے ہی اعلان کر دیا کہ اِس بَچے کے تو گُھٹنے ہی نَہِیں ہیں ۔ شَیخ مَلہُو کو بھی خَبر ہُوئی ۔ دیکھا تو بَچے کی ٹانگیں آسمان کی طَرف اُٹھی ہوئی ہیں ۔

" دیکھ لو ۔ گُھٹنے ہوتے تو ٹانگیں مُڑ نہ جاتیں " دائی نے کَہا ۔

" بُوا ، یہ دیکھو گُھٹنے ہیں تو " شَیخ مَلہُو نے کَہا ۔

" گُھٹنے ہوں گے مَگَر ہَڈیوں کے جوڑ صَحِیح نَہِیں بَیٹھے ہونگے ۔"

شَیخ مَلہُو نے ہَڈیوں کو ٹَٹول ٹَٹال کر دیکھا ۔ اُنہیں تو ہَڈیاں ٹِھیک ہی مَعلُوم ہُوئیں ۔ بَڑی کوشِش کے بَعد بَچے نے اَپنی ٹانگیں موڑِیں تو سَب کی جان میں جان آئی ۔ جِتنے چِہرے فِکَر مَند تھے، سَب پر ہَنسی دَوڑ گَئی ۔

" بَچّہ بَڑا بھاگوان ہے ۔ آتے ہی قَہقَہے بَرسا دِیے ۔" دائی نے کَہا " بَڑا ہو کے اِسی طرح سب کو ہَنساتا رَہے ۔"

سب نے آمِین کَہا ۔ آخِر تِیسرے دِن اُس کے ماں باپ نے اُس کا نام " چِلّہ " کی رِعایَت سے * شَیخ چِلّی * رکھ دِیا ۔ جب ذَرا بڑا ہوا تو ایک اور لَطِیفَہ سامنے آیا ۔ دُنیا بھر کے بَچّوں کا قاعِدہ ہے کہ کِتنا ہی رو رہے ہوں ، اِدَھر ماں نے دُودھ مُنہ میں دیا اُدَھر اُن کا رونا بَند ہُوا لَیکِن شَیخ چِلّی کا تو ہر کام ہی اُلٹا تھا ۔ دُودھ مُنہ میں لیتے ہی رونے لگتا ۔ چھاتی سے اَلَگ ہوتے ہیں ہَنسنے لَگتا ۔ دُودھ پِینے میں حَرِیص بَہُت تھا لَیکِن روتا بھی بَہُت تھا ۔ اُسے زِندَہ رَکھنا مَقصُود تھا اِسی لیے اُس کے رونے کی پَرواہ کِیے بَغَیر اُس کی ماں کو اُسے دُودھ پِلانا پَڑتا ۔

شُرُوع میں تو اُس کی ماں نے اِس تَماشے کو مِحض اِتِّفاق سَمجھا لَیکِن جَب ہَمیشَہ یَہی ہُوا تو گَھر والوں کے ہاتھ کھیل گَیا ۔ جَہاں چار عَورَتیں جَمع ہوتیں ، بی بی حَمِیقَہ کو گھیر لیتیں ۔

" بہن ، اَپنے نَنّھے کا مَذاق نَہِیں دِکھاؤ گی ؟"

" بہن تُم نے تو کھیل ہی بَنا لِیا ۔"

" بَچّے تو ہوتے ہی کھیلنے کے لِیے ہَیں ۔ "

" بی بی حَمِیقَہ ہَنستے ہُوئے شَیخ چِلّی کو گود میں اُٹھاتی اور سِینے سے لگا لیتی ۔ وہ بَڑے شوق سے دُودھ پر مُنہ مارتا لَیکِن ساتھ ساتھ روتا بھی جاتا ۔ جَیسے ہی بی بی حَمِیقَہ اُسے دُودھ سے اَلَگ کَرتی ، وہ پِھر کِلکارِیاں مار کر ہَنسنے لَگتا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
:) :) :) :) :) :) :) شَیخ چِلّی 2 :) :) :) :) :) :) :)

ہَنستے روتے اِسی طَرح وہ اِس عُمر کو پُہُنچ گیا جو مُسِلمان گَھرانوں میں رَسمِ بِسمِ اللّٰہِ کی عُمر ہوتی ہے ۔ شَیخ مَلہُو نے اِس تَقرِیب کے لئے بَڑا اِہتمام کِیا ۔ عَزِیز رِشتے دار بھی بَہُتیرے تھے۔ گَھر بَھر گَیا ۔

مَسجِد کے مَولوی صاحِب کب کے آئے بَیٹھے تھے لَیکِن شَیخ چِلّی کی تِیاری ہی خَتم نَہِیں ہو رہی تھی ۔ ماں کو اَیسا اَرمان تھا کہ تِیاری کے بَعد بھی سَمجھانے بُجھانے میں دیر پر دیر ہوئے جا رہی تھی ۔ جَب مَولوی صاحِب نے بَہُت شور مَچایا کہ نَماز کا وَقت قَرِیب آرہا ہے تو بَچّوں کے جُلُوس میں شَیخ چِلّی زَنانے سے بَرآمَد ہو کر مَردانے میں آیا ۔ آتے ہی بُرے بُرے مُنہ بنا کر سب کی طَرف دیکھا اور باپ کی گود میں ٹِک گئے ۔

" یَہاں نَہِیں ہَمارا شَیخ چِلّی مَولوی صاحِب کی گود میں بَیٹھے گا بِسمِ اللہ بھی پَڑھے گا۔ شاباش ۔" شَیخ مَلہُو نے اُسے مَولوی صاحِب کی گود میں بِٹھا دیا ۔

اُس نے بَیٹھتے ہی مَولوی صاحِب کی داڑھی سے کھیلنا شُرُوع کر دِیا ۔ مَولوی صاحِب نے کَہا ، بیٹا پَڑھو! بِسمِ اللہ ۔ شَیخ چِلّی نے داڑھی چھوڑ کر پَگڑی پر ہاتھ رَکھ دِیا ۔ اب حالَت یہ تھی کہ مَولوی صاحِب کَہہ رہے تھے پَڑھو مَگَر مَجال ہے جو وہ ایک لَفظ بھی بول دے ۔ مَولوی صاحِب کی پَگڑی کُھل چُکی تھی مَگَر اُس کی زُبان نَہِیں کُھل رہی تھی ۔ شَیخ مَلہُو کو مَعلُوم تھا کہ شَیخ چِلّی کی بے چَین طَبِیعَت زِیادَہ وِیران تَقاضوں کو بَرداشت نَہِیں کر سَکے گی ۔ اِس سے پَہلے کہ کوئی اور گُل کِھلتا ، شَیخ مَلہُو نے مَولَوی صاحِب کو روک دِیا ۔

" بَچّہ گَھبرا گیا ہے ، اِس وَقت نَہِیں پَڑھے گا ۔"

دُولہا بَنے ہُوئے شَیخ چِلّی کو مَولَوی صاحِب کی گود سے اُتار کر زَنان خانے کی طَرَف ہانک دِیا گَیا ۔ ماں تو اُسے دیکھتے ہی نِہال ہو گَئی۔ چُٹ چُٹ بَلائیں لے ڈالیں ۔

" بِسمِ اللہ پَڑھ آیا میرا لَعل ۔"

شَیخ چِلّی نے تِین مَرتبَہ اَثبات میں گَردِن ہِلائی یَعنی ایک مَرتبَہ نَہِیں تِین مَرتبَہ بِسمِ اللہ پَڑھی ۔

شَیخ مَلہُو بھی اُس کے عِلم وفَضَل کے قائِل ہو گَئے کہ اُسے اِبتَداء کی ضُرُورَت ہی نَہِیں ۔ اِبتَداء ہی میں اِنتَہا کو پُہُنچا ہُوا ہے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احباب سے گزارش ہے کہ کچھ آپ بھی شیخ چلی کے بارے میں رائے کا اظہار کر دیا کریں۔
 
:) :) :) :) :) شَیخ چِلّی 3 :) :) :) :) :)

شَیخ مَلہُو نے اُسے مار مار کر گَھر سے باہر نِکلنے اور لَڑکوں کے ساتھ کَھیلنے کی تَلقِین کی تا کہ دُوسروں کا دیکھ کر اُسے بھی پَڑھنے کا شوق ہو ۔

گَھر سے باہر نِکلتے ہی اُس نے عَقل اور بے وَقُوفی کی دَرمیانی حَد پر کَھڑے ہو کر اَیسے اَیسے شاندار مُظاہرے سَراَنجام دِیے کہ شَیخ مَلہُو کیا ، پُورے قَصبے کے چَودَہ طَبَق رَوشَن ہو گَئے ۔ اُس کی ہر بات ہی اَیسی نِرالی ہوتی جو کِسی نے سُنی ہوتی نہ کِسی نے دیکھی ہوتی ۔ وہ اَعتماد سے بے وَقُوفیاں کرتا جَیسے ہر فَلسَفَہ اُس کے قَرِیب آ کر دَم توڑ گیا ہو ۔ لُطف یہ کہ اُس کی حَرکَتیں فَلسَفِیوں والی تھیں یہ اَلَگ بات کہ وہ اِتںی دُور کی کوڑی لاتا کہ سَو عَقل مَند مِل کر بھی وہاں تک نہ پُہُنچ سَکتے ۔

لَڑکوں کے ساتھ کھیلتا تھا لَیکِن اِس طَرح کہ سب کھیل رہے ہیں اور وہ اَکیلا بیٹھا کُچھ غَور کر رَہا ہے ۔ بَہُت ہوا تو گَردِن اٹھا کر دیکھا اور کوئی مَشوَرَہ دے ڈالا ۔ مَشوَرَہ بھی اَیسا کہ بَچے پَتّھر اُٹھا کر پِیچھے دوڑ پَڑتے ۔ اُس نے کسی کا مُنہ چِڑایا ، کِسی کو آنکھ دِکھائی اور گَھر چَلا آیا ۔ کَبھی اِتنا کَمزور کہ سب مِل کر مار رہے ہیں اور یہ پِٹ رہا ہے ۔ کبھی اِتنا دَلَیر کہ راہ چَلتوں کو ڈِھیلے مارنے سے نَہِیں چُوکتا ۔

ایک دِن بَچّوں نے کِسی کُمہار کا گَدھا پَکڑ لِیا اور لگے اِس پر سَواری کَرنے ۔ اُس کی رِحم دِلی نے جوش مارا ۔ مار مار کر سب لَڑکوں کا بَھگا دِیا ۔ اب گَدھا کَھڑا اُس کا مُنہ دیکھ رہا تھا ۔ اُس نے بڑے پِیار سے گَدھے کی تُھوتھنی کو تَھپ تَھپایا اور چَمکارتا ہوا گَھر لے آیا ۔ گَھر کے جانوَروں کا چارا رکھا ہُوا تھا ۔ پَہلے گَدھے کو ناشتا کروایا پھر اِس پر سَوار ہو کر کُمہار کے پاس پُہُنچ گَیا ۔

" ہَم کیا تُمہارے باپ کے نوکَر ہیں کہ تُمہارا گَدھا پَکڑتے پِھریں ۔ اَگَر اب چھوڑا تو گَھر پُھونک دُوں گا ۔ "

کُمہار اُس کی بے مثال بَہادَری سے واقِف تھا ۔ کَئی مَرتَبَہ اُس کے ہاتھ سے ڈِھیلے کھا چُکا تھا ۔ ہاتھ جوڑ کر کَھڑا ہو گیا کہ مائی باپ ، اَگَر اب گَدھے کی شَکل بھی دیکھو تو جو چوروں کی سَزا وہ میری ۔ شَیخ چِلّی نے اُس کی مَعافی قُبُول کی اور گَھر چلا آیا ۔

یہ تو چھوٹے چھوٹے مَعرکے تھے وہ اِس سے بھی کوئی بَڑا کام کرنا چاہتا تھا ۔ ایک دِن اُسے یہ دُھن سَوار ہوئی کہ آسمان پر کِس طرح چَڑھا جائے ۔ وہ سوچنے بَیٹھ گَیا ۔ اَچانَک بادَل گَھر کر آئے اور اَندھیرا ہو گَیا ۔

" شَیخ چلّی آج نوکَر نَہِیں آیا ہے ۔ گائے کا دُودھ آج تُم نِکالو ۔ کوئی تو کام کیا کَرو ۔" اُس کے باپ نے آواز دے کر کَہا ۔

" یہ کون سا مُشکِل کام ہے ۔" اُس نے جَواب دیا اور بَرتَن اُٹھا کر گائے کے پاس چلا گیا ۔ بَرتَن گائے کے تَھنوں کے نِیچے رکھا اور دُودھ دوہنا شُرُوع کر دِیا ۔ گائے کو آج نہ جانے کیا ہو گیا تھا ۔ ایک قَطرَہ نِیچے نَہِیں اُتار رہی تھی ۔ اُس نے بَہُت کوشِش کی لَیکن ناکام رَہا ۔ تَیمُوری خُون جوش میں آگیا بَرتَن اُٹھا کر پَھینک دِیا ۔

" یہ گائے اب بے کار ہو گئی ہے ۔ اِسے قَصائی کے ہاتھ بیچ دینا چاہئے ۔"

باپ کو تَعَجُب ہُوا کہ کل تک تو گائے ٹِھیک ٹھاک تھی ، آج کیا ہو گیا۔ وہ دَوڑا ہُوا آیا ۔ دیکھا تو شَیخ چِلّی ، بَیل کے نِیچے بَیٹھا اُس کا دُودھ دوہنے کی ناکام کوشِش کر رہا ہے ۔

" بے وَقُوف ! کبھی بَیل نے بھی دُودھ دِیا ہَے ۔ گائے تو وُہ بَندھی ہَے ۔ "

" سوچنا یہ پَڑے گا کہ جب گائے دودھ دے سکتی ہے تو بَیل کِیوں نِہِیں دیتا اور وہ کون سی اَیسی تَرکِیب کی جائے کہ بَیل بھی دُودھ دینے لَگے ۔" شَیخ چِلّی نے کہا اور سوچنے بَیٹھ گَیا ۔

اُس نے سوچا کہ گَھر بَیٹھ کر سوچنے کے مَواقع نَہِیں مِل سکتے ۔ کِسی باغ میں بَیٹھا جائے ۔ وہ پابَندی سے باغوں میں جانے لگا اور کَئی اِیجادات کر ڈالیں ۔

آسمان تک پُہُنچنے کا اِرادَہ تو فِلحال اُس نے مَنسُوخ کر دیا تھا البَتَہ ایک اور اَنوکھی اِیجاد کر ڈالی۔ اِس نے سوچا اگر دونوں قَدَم ایک ساتھ اُٹھیں تو آدمی کِتنی تیز چَل سکتا ہے اور ہر کام کتنی جَلدی ہو جایا کرے۔ وہ صِرف سوچتا نَہِیں تھا، عَمل بھی کرتا تھا۔ اُس نے دونوں قَدَم ساتھ اُٹھا کر چَلنے کی مَشَق شُرُوع کردی اور کُچھ دِنوں میں اَچّھا خاصہ عُبُور حاصِل کرلیا۔

ایک دِن وہ چَلنے کے نام پر اُچّھل رہا تھا کہ بَستی کے ایک آدمی نے اُسے دیکھ لیا اور بَہُت دیر تک اُسے دیکھتا رہا، پِھر اُلٹے قَدموں بَستی کی جانِب دَوڑ پڑا۔

" شَیخ مَلہُو ، جَلدی دَوڑو ۔ تُمہارا بیٹا پاگَل ہو گیا ہے ۔"

" پاگَل ہو گیا ہے ۔؟"

" ہاں ۔ باغ میں اُچّھل کُود کر رہا ہے ۔ بِالکُل پاگَلوں کی طَرح ۔"

شَیخ مَلہُو اُس کی حَرکَتوں سے واقِف تھے اِسی لِیے اُنہیں یَقِین تھا کہ وہ پاگَل نَہِیں ہُوا ہوگا ، کوئی شُعبدَہ دِکھا رہا ہوگا ۔ اُدَھر شَیخ چِلّی نے اُس آدمی کو دیکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور سَمَجھ گیا تھا کہ وہ اُس کے باپ کو لے کر ضُرُور آئے گا۔ اِس لِیے اُس کے جاتے ہی اُس نے اُچّھل کُود بَند کردی تھی اور غَور کرنے بَیٹھ گیا تھا۔ شَیخ مَلہُو وَہاں پُہُنچا تو اُسے مُؤدِب بَیٹھے ہوئے دیکھا ۔

" یَہاں تو کُچھ بھی نَہِیں ہے ۔"

" آپ چُھپ کر دیکھتے رہیں ۔ تَھک کر بَیٹھ گیا ہے ۔ اَبھی پِھر اُٹھے گا ۔"

جب بَہُت دیر ہو گئی تو شَیخ مَلہُو واپَس آگئے لَیکِن اُنہیں یہ تَشوِیش پِھر بھی تھی کہ پاگَل پَن کے آثار بَہُت ہیں وَرنَہ یہ اس باغ میں اَکیلا آکر کِیوں بَیٹھتا ۔

اُس کا دِل بَہلانے کے لِیے اُس کے باپ نے آتِش بازی لا کر دے دی کہ چَلا کر خُوش ہوگا ۔

وہ خُوش ہُوا بھی لَیکِن اُس کی بے پَناہ عَقل نے اُس کے دِل میں یہ وَہم ڈالا کہ اِس آتِش بازی میں کُچھ نَمی ہے، پَہلے اِسے خُشک کر لیا جائے۔ اُس نے آتِش بازی کا تَمام سامان ایک پَتِیلی میں رکھا اور اِسے چُولہے پر رَکھ کر نِیچے آگ لَگا دی۔

اُس کی عَقل کا یَہی تو کَمال تھا کہ جو کوئی نَہِیں سوچ سَکتا تھا ، اُسے وُہی سُوجھتی تھی ۔ پَتِیلی گَرَم ہوئی اور آتِش بازی نے زور باندھا تو دَھماکوں سے گَھر ہِل گَیا ۔ وہ تو خَیر ہوئی کہ شَیخ مَلہُو گَھر پر تھے ۔ پانی کی ایک ہی بالٹی نے کَمال کر دِکھایا اَور گَھر جَلنے سے بَچ گَیا ۔ اُس کا باپ اب تک یَہی سَمَجھ رہا تھا کہ وہ عِلم و فَضَل کی مَنزَلیں تَعلِیم کے بَغَیر ہی سَر کَر لے گا ، لیکِن اَب ضُرُوری ہو گَیا تھا کہ اُسے مَکتَب میں بِٹھا دِیا جائے ۔ نَو بَرَس کی عُمر میں ہی اُسے مُحَلّے کی مَسجِد کے مَکتَب میں بِٹھا دِیا گَیا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 
:) :) :) شَیخ چِلّی۔ 4 :) :) :)

وہ تو خَیر ہوئی کہ شَیخ مَلہُو گَھر پر تھے۔ پانی کی ایک ہی بالٹی نے کَمال کر دِکھایا ور گَھر جَلنے سے بَچ گیا۔ اُس کا باپ اب تک یَہی سَمَجھ رہا تھا کہ وہ عِلم و فَضَل کی مَنزَلیں تَعلِیم کے بَغَیر ہی سَر کر لے گا لَیکِن اب ضُرُوری ہو گیا تھا کہ اُسے مَکتَب میں بِٹھا دیا جائے۔ نو بَرس کی عُمر میں اُسے مَحَلے کی مَسجِد کے مَکتَب میں بِٹھا دیا۔ اّس کے مَکتَب میں بَیٹھنے کا ایک فائدَہ یہ ہُوا کہ دُوسرے بَچّے پِٹنے سے بَچ گَئے۔ اُسے مارنے کے بَعد مَولَوی صاحِب میں اِتنی سِکّت ہی نَہِیں رَہتی تھی کی وہ دُوسرے بَچّوں کا ماریں۔

اُس کی عَقل مَولَوی صاحِب کی عَقل سے کُچھ اِس بُری طَرح اُلَجھ گئی تھی کہ یہ فَیصلَہ کرنا مُشکِل ہو رہا رھا تھا کہ اُستاد کون ہے اور شاگِرد کون۔ مَولَوی صاحِب اُسے سَبَق دیتے ہُوئے اِتنی مَرتَبَہ دوہراتے تھے کہ مَعلوم ہوتا، شَیخ چِلّی نَہِیں مَولَوی صاحِب سَبَق یاد کر رہے ہیں۔ حافِظَہ اِتنا بے مِثال تھا کہ آج کا سَبَق دُوسرے دِن پِھر یاد کرنا پڑتا تھا۔ شَیخ چِلّی اَیسی بے مِثال ذِہانَت کا مالِک تھا کہ اَبھی ایک سال گُذرا تھا کہ اُس نے بَغدادی قاعِدَہ خَتم کرلیا۔ اِس رَفتار سے اَندازَہ ہوتا تھا کہ عِلم کی باقی مَنزِلیں وہ کِتنی جَلدی طے کرلے گا۔

جَہاں تَک شَیخ چِلّی کا تَعَلّق تھا وہ اِس بَرق رَفتاری سے مُطمَئِن نَہِیں تھا، وہ تو اور بھی تیز چَلنا چاہتا تھا۔ اِس کے لیے اُس نے ایک تَرکِیب نِکالی کہ اَپنی کِتاب کے صَفحات پھاڑ کر کَم کر دیے تاکہ کِتاب جَلدی خَتم ہو جائے۔ مَولَوی صاحِب کو اِس سے اَیسی ضِد تھی کہ پُوری کِتاب خَتم کرانا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے فَوراً حُکم دیا کہ دُوسری کِتاب لاؤ۔ باپ نے دُوسری کِتاب خَرِید کر دے دی۔ چَند روز بَعد اُس نے پِھر کُچھ صَفحے پھاڑ دِیے۔ اَب ایک اور کِتاب لاؤ۔ دُوکاندار اُس کے دَم کو دُعائیں دیتا تھا کہ اُس کی وَجہ سے رَوزانہ ایک کِتاب بِک جاتی تھی۔ جَب اُستاد نے یہ حال دیکھا تو اِسی میں عافِیّت جانی کہ اُسے فارِغُ التَّحصِیل کر دیا جائے۔

"جاؤ مِیاں۔ اَب تُم عالِم فاضِل ہو گئے۔ اب گَھر جاؤ"

اُستاد نے کہا اور وہ فاتِحانَہ چال چَلتا ہُوا نِکَل آیا کہ آخِر مَولَوی صاحِب اُس کے عِلم کے مُعتَرِف ہو ہی گئے۔ یہ تو اُسے گَھر جا کر مَعلُوم ہُوا کہ وہ عالِم فاضِل نَہِیں ہو گیا بَلکہ اُسے مَکتَب سے نِکالا گیا ہے۔ دُوسرے دِن شَیخ مَلہُو پِھر اُسے مَکتَب میں چھوڑ آئے۔ اَب اُس نے بھی عَہد کر لیا تھا کہ مَولَوی صاحِب کو پَریشان نَہِیں کرے گا اور جی لَگا کر پَڑھے گا۔ یہ وَعدَہ تو اُس نے کر دیا لَیکِن نِچلا بَیٹھنے والا کب تھا۔ اُس کے ہاتھ کَہِیں سے کُھجلی کہ دَوا لَگ گَئی۔ اُس نے لَڑکوں کو اَپنے ساتھ مِلایا اور کُھجلی کی دَوا مَولَوی صاحِب کے لوٹے میں ڈال دی۔ یہ مَنصُوبَہ بھی تھا کہ مَوقَع دیکھ کر مَولَوی صاحِب کے کَپڑوں پر ڈال دی جائے گی، عَین اِسی وَقت مَولَوی صاحِب نے کِسی بات پر اُسے مارنا شُرُوع کردیا۔ غُصے میں آکر اُس نے عَمَل سے پَہلے ہی دَھمکی دے ڈالی۔

" جَب سارے بَدَن میں کُھجلی ہوگی تَب پتا چَلے گا کہ شَیخ چِلّی کَیسا ذَہِین ہے ۔"

مَولَوی صاحِب کے کان کَھڑے ہو گَئے" اَبّے کَیسی کُجھلی۔ کیا بَک رہا ہے ۔"

" آپ کے لوٹے میں کُھجلی کی دَوا ڈال دی گَئی ہے۔ کَپڑوں میں ڈالنا باقی ہَے ۔"

مَولَوی صاحِب اُس کی صاف گوئی سے صاف بَچ گَئے لَیکِن اُسے ایک مَرتَبہ پِھر مَکتَب سے نِکَلنا پَڑا ۔

اَب پَندرَہ بَرس کی عُمر ہو گئی تھی ۔ جَوانی دَروازے پر دَستَک دے رہی تھی ۔ اُس نے سوچا ، مُجھے جو کُچھ پَہلے سے ہی آتا ہے ، مَکتَب میں وُہی سَب پَڑھایا جاتا ہے پِھر اَیسی فُضُول جَگَہ جانے کا کیا فائدہ ۔ وہ پِھر مَکتَب نَہِیں گَیا ۔ مَکتَب کی مَصرُوفِیّت تھی ، وہ بھی خَتم ہو گَئی ۔ اَیسے عالِم فاضِل بَھلا کَہِیں نَوکری کرتے ہَیں ۔ لِہٰذَا وہ نَوکری کا قائِل تھا ہی نَہِیں ۔ صُبح گَھر سے نِکَلتا اور پُورے شَہر کا چَکّر لگا کر شام کو گَھر واپَس آ جاتا ۔ اُس کے یہ چَکّر مَعمُولی نوعِیّت کے نَہِیں تھے ۔ پُورے شِہر کو اپنے مَشوَروں سے نَوازتا پِھرتا تھا ۔ لوگ جان بُوجھ کر اَپنے مَسائِل اُس کے سامنے رَکھتے اور وہ چُٹکی بَجاتے حَل کر دیتا ۔ دانِش مَندی کے اَیسے مُظاہِرے کرتا کہ سُننے والے کو بھی غَش آ جائیں ۔

" مِیّاں شَیخ چِلّی! ایک بات تو بَتاؤ "

" جَلدی پُوچھو ۔ مُجھے اور لوگوں کے مَسئلے بھی حَل کرنے ہیں ۔"

" رات کے وَقت اَندھیرا کِیوں ہو جاتا ہے ۔"

" کِس بے وَقُوف نے کَہہ دیا کہ اَندھیرا ہو جاتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ رات آرام کے لِیے بَنائی گئی ہے۔ ہَماری آنکھوں کی رَوشنی اِس وَقت آرام کر رہی ہوتی ہے ۔ ہَم سَمَجھتے ہیں اَندھیرا ہو گَیا ۔"

" تو کیا ہَم اَندھے ہو جاتے ہیں ؟"

" بِالکُل ."

" تو پِھر رَوشنی آنے پر دیکھنے کِیوں لَگتے ہیں ۔؟"

" باہَر کی رَوشنی سے بھائی ، باہَر کی رَوشنی سے ۔"

" شَیخ چِلّی ، تُم نے مَسئلہ حَل کر دِیا ۔"

" مَسئلَہ تو حَل کر دیا لَیکِن کُچھ اَپنی عَقل بھی اِستِعمال کرنا سِیکھو ۔ خُدا نخَواستَہ مُجھے کُچھ ہو گیا تو اَیسی باتیں تُمہیں کون بَتائے گا ۔"

شَہر والوں کے ہاتھ شُغَل لگ گیا تھا ۔ جَہاں اُسے دیکھتے گھیر لیتے ۔ قَہقَہے بَرَستے ۔ شَیخ مَلہُو تَک بھی یہ باتیں پُہُنچ رہی تھیں کہ وہ اَپنی عَقل و دانِش یوں مُفت تَقسِیم کرتا پِھرتا ہے ۔ اُنہوں نے اُسے مَصرُوف کرنے کے لِیے حُکم دیا کہ وہ جَنگَل سے لَکڑِیاں کاٹ کر لایا کَرے ۔ سَعادِت مَند تو تھا ہی ۔ کُلہاڑی اُٹھا کر جانے کے لِیے وہ تَیّار ہو گَیا ۔

" اَیسے کیا سَر پر اُٹھا کر لے آئے گا ۔ گھوڑی بَندھی ہُوئی ہَے ، اُسے لے جا ۔"

وہ گھوڑی پر بَیٹھا اور جَنگَل پُہُنچ گَیا ۔ بَڑی جان فِشانی سے لَکڑِیاں کاٹِیں اور گُٹَھڑ بَنایا ۔ گُٹَھڑ اُٹھا کر جب وہ گھوڑی پر رَکھنے لگا تو اَچانَک اُس کے دِل میں رَحم کا جَذبَہ جاگ گَیا ۔ اُس کا یہ جَذبَہ اَیسے ہی بے کار مَوقعوں پر جاگتا تھا ۔ اُس نے سوچا ، گھوڑی بیچاری بے زُبان ہے ۔ اِس پر اِتنا بوجھ لادنا ظُلم ہے کہ گُٹَھڑ بھی رَکھوں اور خُود بھی بَیٹُھوں ۔ مُجھے چاہِئے کہ گُھٹَڑ خُود اُٹھاؤں ۔ گُٹَھڑ کا بوجھ میں اُٹھاؤں اور میرا بوجھ گھوڑی ۔ اِس طرح یہ بوجھ تَقسِیم ہو سکتا ہے ۔ اُس نے گُٹَھڑ اَپنے سَر پر رکھا ہوا تھا اور خُود گھوڑی پر بَیٹھا ہوا تھا ۔ لوگوں کا ہَنستے ہَنستے بُرا حال ہو گَیا ۔

" شَیخ چِلّی جب گھوڑی مَوجُود ہے تو گُٹَھڑ اُس پر رکھو ۔ سَر پر کِیوں رکھا ہوا ہے ؟"

" تّم کیا جانو ، جانوَروں پر رَحم کِس طرح کھایا جاتا ہے ۔ میں گُٹَھڑ بھی گھوڑی پر رکھ دوں تو بیچاری بوجھ سے دَب نہ جائے گی ۔"

" مَگَر بوجھ تو اب بھی وُہی اُٹھائے ہوئے ہے ۔ تُم تو خَواہ مَخواہ میں دَب رَہے ہو ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
۔ :) :) :) شَیخ چِلّی 5 :) :) :)

" مَگَر بوجھ تو اب بھی وُہی اُٹھائے ہوئے ہے ۔ تُم تو خَواہ مَخواہ میں دَب رہے ہو ۔"

وہ لوگوں کے جَواب دیتا ہُوا اِسی طرح گَھر میں داخِل ہُوا ۔ باپ بھی اُسے اِس حالَت میں دیکھ کر ہَنسے بَغَیر نہ رہ سَکا ۔ اُس نے بھی وُہی سَوال کیا جِس کا جَواب وہ رَستے بھر دیتا آیا تھا ۔ باپ بھی اُس کی مَنطَق سے مُطمَئِن نَہِیں ہوا لَیکِن وہ ضُرُور رَنجِیدَہ ہو گیا کہ اِس دُنیا میں نیکی کی کوئی قِیمَت ہی نَہِیں ۔ اُس نے یہ کہہ کر جَنگَل جانا چھوڑ دیا کہ جاندار دَرَختوں کو کاٹنے سے اُسے تَکلِیف ہوتی ہے اور بے زُبان گھوڑی پر اِتنا بوجھ لاد کر میں نَہِیں لا سکتا ۔

جَب وہ سَترَہ سال کا ہُوا تو تَقاضائے شَباب نے اُسے مَجبُور کیا کہ کِسی پر عاشِق ہُوا جائے ۔ عِشق کرنے کے لِیے وہ اِس طرح رَوانَہ ہُوا جَیسے کوئی بادشاہ شِکار ہر رَوانَہ ہوتا ہے ۔ شام تک ہَزاروں گالِیاں کھا کر اِس طرح گَھر لوٹ آیا جَیسے ڈھور ڈَنگَر مُنہ لَٹکائے چَراگاہوں سے واپَس آتے ہیں ۔ اب تو روز کا مَعمُول ہو گیا تھا ، جَہاں اچھی صُورَت دیکھی ، اُس کے سامنے پُہُنچ گَیا ۔ اُدَھر سے گالِیاں مِلیں ، اُس نے بے اَختِیار ہَنسنا شُرُوع کر دِیا ۔ دِن بَھر میں سَو بار عاشِق ہوتا ، شام کو سَب بُھول جاتا ۔ لوگ اُسے جانتے تھے اِس لِیے اُس کی اِن حَرکَتوں پر اُسے رِعایَت دیتے تھے ۔ کوئی مُحَلّہ ، کوئی تَفرِیح گاہ اَیسی نہ تھی جَہاں وہ سَو سَو پھیرے نہ لگا آیا ہو ۔

ایک دِن وہ چِڑی ماروں کے مَحَلّے میں پُہُنچ گَیا ۔ ایک لَڑکی پَرِندے بیچ رہی تھی ۔ اُسے دیکھتے ہی مُحَبّت کا تِیر دِل کے آر پار ہو گَیا ۔ اُسے راہ میں روک لِیا ۔ اُس نے گَھبرا کر راستَہ بَدلا ۔ شَیخ چِلّی نے دُوسری طرف جا کر پِھر اُسے گھیر لِیا ۔ اب تو لَڑکی گَھبرائی کہ یہ کیا آفَت آگئی ہے ۔ اُس کے چِہرے سے خَوف عَیاں تھا ۔ شَیخ چِلّی سے اُس کی یہ حالَت دیکھی نہ گَئی ۔

" تُم ڈَرو نَہِیں ۔ میں تُمہارے پَرِندے نَہِیں اُڑاؤں گا ۔"

وہ اِتنا عَقل مَند تھا کہ سَمَجھ گیا کہ لَڑکی پَرِندوں کے اُڑ جانے سے خَوف زَدَہ ہے ۔ اُس نے دِلاسا دینے کے لِیے لَڑکی کو پَکَڑ لِیا ۔ اب تو اِنتَہا ہو گئی تھی۔ لَڑکی نے چِیخنا شُرُوع کر دِیا ۔ شَیخ کو جو غُصّہ آیا تو اُس کے سارے پَرِندے اُڑا دِیے اور خُود بھی وَہاں سے اُڑ گیا ۔

اُس کی یہ حَرکَت باپ کے کانوں تک بھی پُہُنچی۔ کُچھ شِکائتیں اور بھی مِلی تھیں لَیکِن اب تو حَد ہی ہو گئی تھی ۔ اب ضُرُوری تھا کہ اُس کی شادی کردی جائے ۔ شادِیاں تو سب کی ہو جاتی ہیں ۔ شَیخ مَلہُو سَمَجھ رہا تھا اُس کی بھی ہو جائے گی لَیکِن اُنہیں یہ مَعلُوم نَہِیں تھا کہ یہ شَیخ چِلّی کی شادی ہے ، کوئی مَذاق نَہِیں ۔ اُس کی خَبطُ الحّواسِیوں سے سب واقِف تھے ۔ کون اَپنی بیٹی دیتا ؟ بَڑی مُشکِل سے اُنہوں نے ایک لڑکی ڈُھونڈی ۔ رِشتَہ پَکا ہو گَیا ۔ شَیخ چِلّی بھی خُوش تھا کہ اب شادی ہو جائے گی ۔

ایک دِن وہ خُوب تَیّار ہُوا اور ہونے والے سُسرال پُہُنچ گَیا ۔ لَڑکی والوں کو تَعَجُب تو ہُوا لَیکِن ہونے والا داماد تھا ، آؤ بَھگَت بھی خُوب تھی ۔

" داماد جی کَیسے آنا ہُوا ؟ "

" ہَم یہ کَہنے آئے ہیں کہ ہَماری ہونے والی بِیوی کو اَبھی ہَمارے ساتھ کِیوں نَہِیں کر دیا جاتا ۔"

" ہَم نے سُنا تھا تُم عَجِیب عَجِیب باتیں کرتے ہو ۔ اِس کا مَطلَب ہم نے ٹِھیک سُنا تھا ۔ بَھلا شادی سے پَہلے ہم اَپنی لَڑکی کو کَیسے تُمہارے ساتھ کر دیں ۔"

" جِس لَڑکی کو ہم جانتے تک نَہِیں ، اِس سے شادی کَیسے کر لیں ۔" شَیخ چِلّی بَھڑَک اُٹھا " کُچھ دِن ہَمارے ساتھ رہے پِھر ہم سوچیں گے شادی کی جائے یا نَہِیں ۔"

بات ہی اَیسی تھی کہ بَڑی بے عِزّتی کے ساتھ وَہاں سے نِکالا گَیا ۔ نہ صِرف نِکالا گیا بَلکہ لَڑکی والوں نے شادی سے بھی اِنکار کر دِیا ۔ شَیخ مَلہُو نے ایک اور جَگہ بات پَکی کی ۔ شَیخ چِلّی نے اِس نَئی سُسرال پر بھی دھاوا بول دِیا ۔ وہاں سے تو باقاعِدَہ پِٹ کر نِکَلنا پَڑا ۔ شَیخ مَلہُو اُسے سَمجھا سَمجھا کر تَھک گَئے لَیکِن یہ بات اُسے سَمَجھ میں نَہِیں آتی تھی کہ جانچے،پَرکھے بَغَیر کِسی لَڑکی سے کَیسے شادی ہو سکتی ہے۔ یہ شَرط کوئی ماننے کو تَیّار ہی نَہِیں تھا لِہٰذا ہر جَگہ بات کَھنڈَت میں پَڑ جاتی ۔ غَرِیب باپ کو جِس قَدر دِقّت اِس مَعاملے میں اُٹھانی پَڑی ، وہ تَمام عُمر کافی تھی ۔ آخِر اُنہوں نے اِعلان کر دیا کہ اَگَر میں چاہوں تو میری ایک اور شادی ہو سَکتی ہے مَگَر تُمہاری نَہِیں ہو سکتی ۔ شَیخ مَلہُو نے اُس کی شادی کا اِرادَہ ہی تَرک کر دِیا ۔ زِندَگی پِھر اُسی رَفتار سے چَلنے لَگی ۔

جاری ہے
 
۔ :) :) :) شَیخ چِلّی۔ 6 :) :) :)

شَیخ مُلہُو نے اُس کی ماں کے کَنگَن اُجالنے کے لِیے سُنار کو دِیے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے شیخ چِلّی سے کَہا کہ وہ سُنار کے پاس سے کَنگَن لے آئے۔ شَیخ چِلّی نے اُسی وَقت عِلم و فَضَل کی دَستار سَر پر رَکھی اور سُنار کے پاس پُہُنچ گئے۔
سُنار نے وہ کَنگَن اُجالنے کے لِیے بَھٹّی پر رکھے ہُوئے تھے۔ اُس کے سامنے بَھٹّی سے نِکالے اور چَمکا کر اُس کے حَوالے کر دِیے۔ وہ بَڑی دیر سے اِس کاروائی کو دیکھ رہا تھا۔ آخِر اُس سے ضَبط نہ ہو سَکا۔

"تُم نے تو یہ کَنگَن جَلا ہی دِیے۔ اَب میں اِنہیں لے کر کیا کروں گا۔"

"جَلا نَہِیں دِیے بھائی۔ بَھٹّی پر رکھ کر اِن کا میل کاٹنا پَڑتا ہے۔"

"نَہِیں، تُم نے اِنہیں جَلا دیا۔ میں یہ لے کر نَہِیں جاؤں گا۔"

"اَچھا، اَیسا کرو" سُنار نے کَہا "اَپنے باپ کو دِکھاؤ وہ خُود بَتائیں گے کہ میں نے اِنہیں جَلایا یا اُجالا۔"

یہ بات اُس کی سَمَجھ میں آگَئی۔ اُس نے کَنگَن اُٹھائے اور دُکان سے اُٹھ آیا۔ راستے میں ایک تالاب پَڑتا تھا۔ اِس تالاب کو دیکھ کر اُس کی اَنوکھی عَقل نے کَروَٹ بَدلی۔

بات اُس کی سَمَجھ میں تو آگَئی تھی لَیکِن بَغَیر تَجرِبے کے وہ قائِل کَیسے ہوتا۔ اُس نے سوچا اگر یہ کَنگَن جَل کر راکھ ہو گئے ہیں تو پانی میں فَوراً پِگَھل جائیں گے۔ یہ سوچتے ہی اُس نے دونوں کَنگَن تالاب میں ڈال دِیے۔ اُس کا اَندازَہ دُرُست نِکلا۔ کَنگَن پانی میں گِرتے ہی گُھل گئے۔ آیسے غائِب ہُوئے کہ نَظر ہی نہ آئے۔ وہ اَپنی کامیابی پر نازاں ہوتا ہوا گَھر پُہُنچ گیا۔ اَپنے اِس تَجرِ بے کو باپ کے گوش گُزار کیا اور سُنار کی شِکایَت لگا دی۔

"لوگ ٹھیک کَہتے ہیں تُو ہے ہی بے وَقُوف۔ کون دے گا اَیسے بے وَقُوف کو اَپنی بیٹی۔"

"اَچھا تو ہَم بے وَقُوف ہیں؟ مَت کرو ہَماری شادی ہم خُود ہی کر لیں گے۔"

باپ تو کَنگَنوں کی تَلاش میں تالاب کو چَلا گیا اور وہ قَصبے سے نِکَل کر بَدایوں پُہُنچ گیا۔

وہ اِس اِرادے سے یَہاں آیا تھا کہ شادی کے لِیے لَڑکی تَلاش کرے گا لَیکِن یہاں آکر سوچا، لَڑکی تو دَرکِنار یہاں تو رَہنے کا ٹِھکانَہ بھی مُشکِل سے مِلے گا۔ اَبھی وہ اِنہی خَیالوں میں غَرق تھا کہ ایک ہَم عُمر لَڑکا اُس کے قَرِیب آ کر کَھڑا ہو گیا۔

"مُسافِر ہو؟" اُس نے پُوچھا۔

"قَصبَہ چِلّہ سے آیا ہوں۔" شَیخ چِلّی نے جَواب دیا۔

"کِس سے مِلنے آئے ہو؟"

"کوئی مِل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گیا تو مِل بھی لیں گے۔"

اِس عَجِیب وغَرِیب جَواب ہر لڑکے کو ہَنسی آگئی۔ شَیخ کی وَضَع قَطع بھی اُسے دِلچَسپ لَگی۔ باتیں تو خَیر تھیں ہی۔ وہ لڑکا اُسے اپنے گَھر لے گیا۔ شَیخ یہ سوچ کر اُس کے ساتھ چَل دیا کہ ضُرُور اُس کے گَھر میں کوئی لَڑکی ہوگی جِس کے لِیے مُجھے پھانس کر لے جا رہا ہے۔ شَیخ اُس کے ساتھ گَھر تو آگیا لَیکِن کھانا پِینا کُچھ اَچھا نَہِیں لگ رہا تھا۔ اُس نے بَڑی بے دِلی سے کھانا کھایا کِیونکہ اب اُسے یَقِین ہو گیا تھا کہ اِس گَھر میں کوئی لَڑکی نَہِیں ہے۔

"دوست کیا مُجھے نَہِیں بتاؤ گے کہ اپنے گَھر سے یَہاں تک کِیوں کر آئے۔ کیا نوکَری کی تَلاش میں آئے ہو؟" لَڑکے نے پُوچھا۔

"نوکَری تو ہم نے کَبھی کی ہی نَہِیں۔ ہَم تو لَڑکی کی تَلاش میں آئے ہیں۔"

"کیا مَطلَب۔"

"مَطلَب یہ بھائی شادی کرنے آئے ہیں۔ اَگَر کرا سَکتے ہو تو ہَماری شادی کَرا دو۔"

یہ سُنتے ہی لَڑکے نے ایک ٹَھنڈی سانس بَھری "بھائی، میں تو خُود شادی کے لِیے تَرَس رہا ہوں، تُمہاری کَہاں سے کرا دوں گا۔"

شَیخ چِلّی کو مَعلُوم ہُوا کہ صاحِب زادے خُود اِسی مَرض میں مُبتَلا ہیں تو وہ سَٹپَٹا گیا۔ یہ شَخص ضُرُور مُجھ سے شادی کرنے کی تَرکِیب پُوچھے گا اور پِھر میرے بَجائے خُود شادی کرلے گا۔ بَہتَر یَہی ہے کہ یہاں سے بھاگ چَلو۔اُس نے رات تو جوں توں کاٹی صُبح ہوتے ہی اَپنے میزبان کو سوتا ہُوا چھوڑ کر بھاگ نِکلا۔

باقی آئندہ
 
:) :) :) شَیخ چِلّی۔ 7 :) :) :)
کِسی مَنزِل کے بَغَیر مَحَلّہ مَحَلّہ گُھومتا پِھر رہا تھا کہ چَلتے چَلتے ایک مَحَل نُما مَکان کے آگے آ پُہُنچا۔ سوچا اِس گَھر میں پَیغام بھیجا جائے۔ شایانِ شان تو یَہی گَھر ہے۔ اَبھی اُس نے دَروازے کی طَرف قَدَم بَڑھایا ہی تھا کہ دَربان نے اُسے روک لیا۔ یہ بَھلا کِس کی دھونس میں آنے والا تھا۔ اَپنے قَصبے میں نا جانے کیا کیا کَرتا پِھرتا تھا مَگَر مَجال تھی جو کَبھی کِسی نے اُسے ٹوکا ہو۔ اُس نے دَربان کو ایک طَرف کیا لَیکِن یہ چِلّہ نَہِیں بَدایوں تھا۔ دَربان بَھلا کیا جانے وہ کِس عَظِیم ہَستی کو روکنے کی جَسارَت کر رہا ہے۔ دَربان نےجب دیکھا کہ یہ مَردِ ناداں کِسی صُورَت ماننے کو تَیّار نَہِیں تو اُس نے وُہی سُلُوک کیا جو کِسی زَمانے میں مَکتَب کے مَولَوی صاحِب کرتے تھے۔
دَربان کی بَد تَہذِیبی سے نا صِرف اُسے رُکنا پڑا بَلکہ رونے پر مَجبُور کر دیا۔ چِیخ پُکار سُن کرلوگ جَمع ہو گئے۔
" صاحِب ، یہ کیا شَرافَت ہے ۔ میں اَندَر جانا چاہتا ہوں اور یہ بَد تَمِیز مُجھے روک رہا ہے ۔" شَیخ چِلّی نے کَہا ۔
" بھائی جَب تُم کِسی کے گَھر میں گُھسو گے تو کیا کوئی روکے گا نَہِیں ۔" لوگوں نے جَواب دِیا ۔
" زَمِین خُدا کی ، مَکان خُدا کے پِھر یہ روکنے والا کون ہوتا ہے ؟"
" اُسے خُدا نے ہی بھیجا ہے ۔"
" ٹَھہرو ، میں ذَرا غَور کر لُوں ۔ غَور کرنا تو اُس کی پَیدائِشی عادَت تھی ۔ ہر کام بَڑے غَور و فِکر سے اور سَوچ سَمَجھ کر اَنجام دیتا تھا ۔ اِسی لِیے تو اِتنی عَقَل مَندی کے کام ظُہُور پَذِید ہوتے تھے ۔ وہ مَحَل کے سامنے غَور کرنے بَیٹھ گَیا ۔ لوگوں نے بھی کَہا بے چارے کو کِیوں سَتاتے ہو ۔ نہ جانے کون ہے ۔
صُبح سے شام ہو گَئی مَگَر وہ ٹَس سے مَس بھی نہ ہُوا ۔ مَحَل کے سامنے خِلقَت اَلَگ جَمع تھ ۔۔ مَجبُور ہو کر دَربان نے اُس کی آمَد کی اِطلاع مالِک مَکان کو دے دی ۔ یہ مَکان قاضئِ شہر ، قاضی بَدَرُ الہُدیٰ کا تھا ۔ اُنہوں نے جب ماجرا سُنا تو اُسے بازیابی کی اِجازَت دے دی ۔
" چَلو، قاضی صاحِب بُلاتے ہیں ۔" دَربان نے واپَس آکر کَہا ۔
" کون قاضی صاحِب ؟"
" جِن کا یہ مَکان ہے ۔"
" ہہ قاضی صاحِب کا مَکان ہے ؟"
" تو اور کیا ۔"
" پِھر تو میں بِالکُل ٹِھیک جَگَہ آیا ہوں ۔" یہ کَہہ کر وہ دَربان کے پیچھے پیچھے اَندَر آ گَیا ۔
" بھائی تُم کون ہو اور مُجھ سے کیا چاہتے ہو ؟"
" میرا نام شَیخ چِلّی ہے ۔ قَصبَہ چِلّہ سے آیا ہُوں ۔ مَطلَب میرا شادی کرنا ہے ۔ آپ تو خُود قاضی ہیں ۔ بَس جَلدی سے میری شادی کرا دِیجئے ۔"
" عَجِیب آدمی ہو تمہیں یَہاں کوئی جانتا تَک نَہِیں ۔ کون کرا دے تُمہاری شادی ؟"
" عَجِیب مُصِیبَت ہے ۔ چِلّہ میں سَب جانتے ہیں اِس لِیے شادی نَہِیں ہو سَکتی ۔ یَہاں کوئی نَہِیں جانتا اِس لِیے شادی نَہِیں ہو سَکتی ۔"
" تُمہارے والدَین نَہِیں ہَیں ؟"
" وہ تو تَھک چُکے ہَیں ۔ اب آپ ہی میرے باپ ہیں اور ذَرا جَلدی کریں کِیونکہ جَب تَک میری شادی نِہِیں ہو جاتی مُجھے آپ ہی کے گَھر رہنا پڑے گا پِھر تو سُسرال کی طِرف سے مَکان بھی مِل جائے گا ۔"
قاضی سَخت پَریشان تھے کہ عَجِیب بے تَکَلّف آدمی سے واسطَہ پَڑا ہے ۔ اُنہوں نے اِس کے ٹَھہَرنے کا بَندوبَست کر دیا ۔ کَئی ہِفتوں کی میزبانی کے بَعد قاضی صاحِب نے یہ سوچا کہ اُس کی شادی اَپنی ایک خانَہ زاد لونڈی سے کر دے ۔ جَیسے ہی اُسے یہ مَعلُوم ہُوا قاضی صاحِب نے لَڑکی ڈُھونڈ لی ہے اُس نے پِھر وُہی ضِد شُرُوع کر دی ۔
" جِس لَڑکی کو میں جانتا تَک نَہِیں اُس کے ساتھ شادی کَیسے کر لُوں ؟"
" میں تُمہیں اُس کی ایک جَھلَک دِکھلا سَکتا ہُوں ۔"
" جی نَہِیں۔ ایک جَھلَک سے کیا ہوتا ہے ۔ میں کُچھ دِن اُس کے ساتھ رہ کر دیکھوں گا کہ اُس کے ساتھ شادی کرنی بھی چاہِیئے یا نَہیں ۔"
" یہ شَرعی طور پر نامُمکِن ہے ۔"
" مُجھے اَیسی شادی کرنی ہوتی تو چِلّہ میں ایک سے بَڑھ کر ایک لَڑکی تھی ۔ یَہاں کِیوں آتا ؟"
اُس نے قاضی صاحِب کی میزبانی کو سَلام کیا اور اُن کے مَحَل سے نِکَل آیا۔ مَحَل سے کُچھ فاصلے پر ایک موڑ پر بَیٹھ گیا اور یہ عَہد کرلیا کہ جَب تَک اَپنی مَرضی کی زَوجَہ تَلاش نَہِیں کر لیتا، یَہاں سے ٹَلے گا نَہِیں۔ ایک دن گُذرا۔ دُوسرا گُذرا۔ اِس عَجِیب و غَریب جوگی کو دیکھنے کے لیے ایک خلقَت جَمع تھی۔ آخِر تیسرے دِن ایک لَڑکی کا وَہاں سے گُزَر ہُوا۔ جوں ہی نَظر سے نَظر مِلی، شَیخ نے کَہا، یَہی ہے۔ وہ اُٹھا اور اُس کے پِیچھے پِیچھے ہو لِیا۔ بے فِکروں کی بِھیڑ بھی اُس کے ساتھ تھی۔ یہ قافلَہ اُس لَڑکی کے گَھر کے سامنے رُک گیا۔ اِسی بِھیڑ میں ایک صاحِب ثَروَت آدمی بھی مَوجُود تھا جِس نے لَڑکی کے باپ سے مُلاقات کر کے رِشتَہ پیش کیا اور اَخراجات کی ذِمّہ داری بھی قُبُول کرلی۔
شَیخ کی اب بھی وُہی ضِد تھی کہ اَبھی تو صُورَت پر فَریفتَہ ہُوا، سِیرَت کا اِمتِحان تو اَبھی باقی ہے۔ اِس مَرتبَہ یہ اِنتِظام بھی ہو گیا۔ طے یہ ہُوا کہ شَیخ چِلِی کُچھ دِن لَڑکی والوں کے گَھر رہے گا اور پِھر شادی کا فَیصلَہ کرے گا۔ یہ لَڑکی اُس کے مِعیار پر پُوری اُتری اور شَیخ چِلّی نے شادی کے لیے ہاں کردی۔ جِن صاحِب نے اَخراجات کی ذِمّہ داری اُٹھائی تھی وُہی اُسے اَپنے ساتھ گَھر لے گَئے۔ اِسی مَکان میں وہ اَپنی نَوبِیاہتا دُلہَن کو بِیاہ کر لے آیا۔ چَند ہَفتے میزبانی کا لُطف اُٹھانے کے بَعد اُسے اَپنے گَھر کی یاد آنے لگی۔ اُس نے بِیوی کو ساتھ لِیا اور بَڑی شان سے چِلّہ میں داخِل ہُوا۔
ماں کا اُس کی جدائی میں بُرا حال تھا کہ میرا بَچّہ بھولا بھالا ہے، ناجانے کِس کے ہَتھے چَڑھ گیا ہوگا۔ جب اُس نے نہ صرف اُسے بَلکہ اُس کی بِیوی کو بھی ساتھ دیکھا تو خُوشی سے نِہال ہوگئی۔ باپ نے بھی اپنے خَیال میں تَبدیلی کرلی۔ ہَمارا شَیخ چِلّی اتنا بھولا بھالا نَہِیں ہے جِتنا ہَم سَمَجھ رہے تھے۔ اُس نے نہ صِرف شادی کی بَلکہ شَہر کی لڑکی سے کی۔ جو شَخص اپنے زَورِ بازُو پر شادی کر سکتا ہے وہ زِندَگی بھی کامیابی سے گُزار سکتا ہے۔ شَیخ چِلّی تو شَہر بَھر سے مُبارَک بادیں وُصُول کرنے چلا گیا اور اُس کی ماں، بَہُو کی ناز بَردارِیوں میں مَشغُول ہو گَئی ۔

باقی آئندہ
 

زیک

مسافر
شیخ چلی جیسے انسان پر نا تو کوئ قانون لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی عمر کی قید

رہی بات کہ عشق کس عمر میں کرنا چاہیے یہ تو ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئ بھی دانشور نہیں دے سکتا ۔
 
:) :) :) شَیخ چِلّی 8 :) :) :)

اُس کی شادی کو اَب پانچ سال ہو گَئے تھے ۔ ہر سال ایک بَچّے کے حِساب سے پانچ بَچّے بھی ہو گَئے تھے لَیکِن اِسی دَوران میں یہ بھی ہُوا کہ پَہلے اُس کی ماں کا اِنتِقال ہُوا اور پِھر باپ بھی داغِ مُفارَقَت دے گَئے ۔

اَثاثے میں چَند بَیل، غَلَہ، تھوڑی سی زَمِین اور مَکان مِلا ۔

وہ چاہتا تو اِس اَثاثے میں اِضافَہ بھی کر سَکتا تھا لَیکِن اُس کی تو مَنطَق ہی دُنیا سے نِرالی تھی۔ بَیلوں کو تو اُس نے رَحم کھا کر آزاد کر دیا۔ غَلَہ خَتم ہو گیا۔ مَکان میں وہ رہ رہا تھا۔ زَمِین خالی پڑی تھی۔

" اَب فاقوں کی نَوبَت آگَئی ہے۔" اُس کی بِیوی نے کَہا "تُم اَپنی زَمِین پر کاشت کِیوں نَہِیں کرتے کہ بَچّوں کے لِیے کُچھ اِنتِظام ہو ۔"

شَیخ چِلّی اِس وَقت بھی کِسی مَسئلے کی گُتھی کو سُلجھانے میں مَصرُوف تھا ۔ بِیوی کی دُہائی پر اَیسے چونکا ، آنکھیں بَند ہو گَئِیں مُنہ کُھل گیا ۔

" مُنہ کھول کر کیا دیکھ رہے ہو ۔ جَواب کِیوں نَہِیں دیتے ۔"

" کیا جَواب دوں تُمہاری بے کار باتوں کا ۔ شَہر کی ضُرُور ہو مَگَر پَڑھی لِکھی تو ہو نَہِیں کہ کُچھ سَمَجھ سَکو ۔"

" میں نے کون سی اَیسی بات کَہہ دی ۔"

" تُم نے یہ تو سُنا ہوگا کہ زَمِین میں خَزانے دَفَن ہوتے ہَیں ۔"

" اے سُنا تو ہے ۔ کیا نِکَل آیا ؟" وہ اِسکے قَرِیب ہو کر بَیٹھ گَئی ۔

" پِھر بھی کاشت کاری کے لِیے مَشوَرَہ دے رَہی ہو۔ میں نے کاشت کرنے کے لِیے زَمِین کھودی اور اَندَر سے خَزانَہ نِکَل آیا تو لوگ لے بھاگیں گے۔ اِسی لِیے میں اِس زَمِین کو ہاتھ بھی نَہِیں لَگاؤُں گا ۔ "

اُس کی بِیوی پِھر اُس سے دُور ہو بَیٹھی کہ اَیسے آدمی کو سَمجھانا بے کار ہے ۔ جَب گَھر کی حالَت اور بِگَڑ گَئی تو اُس نے وہ کیا جو کَبھی نَہِیں کیا تھا ۔ اُس نے گھی کے گَھڑے اُجرَت پر پُہُنچانے کی نَوکَری کر لی ۔ اِس سے فَقَط اِتنا ہُواکہ بَچوں کو رُوکھی سُوکھی روٹی مُیَسّر ہونے لَگی ۔

گَھر کے چَراغ میں تیل خَتم ہو گیا تھا ۔ ہَر طَرف اَندھیرا پَھیلا ہُوا تھا ۔ اُس کی بِیوی کو آج اُس پر بَہُت رَحم آیا ۔

" تُم کِتنی مِحنَت کرتے ہو ۔ تَھک جاتے ہوگے پِھر بھی اِتنا نَہیں کَما پاتے کہ چَراغ کا تیل ہی پُوا ہو جائے ۔ میں تو کَہتی ہُوں ، اَپنی زَمِین پر کاشت شُرُوع کر دو ۔"

" میں پِھر کَہتا ہوں کہ تُم کُچھ نَہِیں سَمَجھتیں ۔ میں نے ایک خاص مَقصَد سے یہ نَوکَری کی ہے ۔ کُچھ پَیسے بَچا لوں پِھر ایک مُرغی خَرِیدوں گا ۔ وہ مُرغی اَنڈے دے گی جِنہیں بیچ کر بَکری خَرِیدوں گا ۔ اُس بَکری سے جو بَچّے ہوں گے ، اُنہیں بیچ کر ایک بَھینس خَرِیدوں گا ۔ اُس بَھینس کے بَچّے ہوں گے پِھر اُس کے بَچّوں کے بَچّے ہوں گے اِس طَرح بَہُت ساری بَھینسیں ہو جائیں گی ۔ پِھر اُن سَب کو بَیچ کر میں گھوڑوں کا سَوداگَر بَِن جاؤں گا ۔"

اَبھی وہ کُچھ اور زَرّیں خَیالات کا اِظہار کرتا لَیکِن بِیوی کے خَراٹوں نے اُس کے مُنصُوبوں میں خَلَل ڈال دیا ۔

" یہ نادان عَورَت سَمَجھ ہی نَہِیں سَکتی کہ میرے عَزائِم کیا ہَیں ۔" وہ بَڑبَڑایا اور کَروَٹ بَدَل کر پِھر غَور و فِکر میں مُبتَلا ہو گَیا ۔ اَنڈے کِتنے بَڑے ہوں گے ۔ بَکری کے بَچّے کِس رَنگ کے ہوں گے ۔ بَھینسوں کو کَہاں باندھوں گا ۔ گھوڑوں کی تِجارَت کِس کِس مُلک میں ہوگی ۔محل بَنوانے کے لِیے کون سی جَگَہ مُناسِب رہے گی ۔ جَب تَک فَجر کی اَذان بُلَند ہُوئی وہ کَئی سَو مُنصُوبے بَنا چُکا تھا ۔

جِس طَرح اُس کے مَنصُوبے عارضی ہوتے تھے اِسی طَرح اُس کی نَوکَری بھی عارضی تھی ۔ وہ کَہِیں بھی گَھڑا رَکھ کر سوچنے بَیٹھ جاتا ۔ مالِک نے اُسے نِکال باہَر کِیا ۔ یہ سَہارا بھی چَلا گیا تو واقِع فاقوں کی نَوبَت آ گَئی ۔

بَچّے رات سے بُھوکے تھے ۔ کُچھ سُوکھی روٹی پَڑی تھی ۔ اس کی بِیوی نے وُہی بَچّوں کے آگے رَکھ دی کہ پانی میں بھگو بھگو کر کھا لیں گے ۔ وہ خُود بھی بُھوکا تھا ۔ سُوکھی روٹی دیکھی تو رال ٹَپَک پَڑی ۔ اُچّھل کر پُہُنچا اور بَچّوں کے ہاتھ سے روٹی چِھین کر کھا گَیا ۔

" کیا کرتے ہو ؟ اِن مَعصُوموں کو اَچھا کھانا کِھلانے کے بَجائے اِن کے ہاتھ سے سُوکھی روٹی بھی چِھین کر کھا رَہے ہو ۔"

" یہ سُوکھی روٹی ہے ، اِن کے پَیٹ میں دَرد ہوگا ۔ اِس لِیے میں نے خود کھا لی ۔"

" اور بُھوک سے جو اِن کے پیٹ میں دَرد ہوگا ۔ اُس کے بارے میں کُچھ نَہِیں سوچا ۔"

" کِسی سے قَرض کرو یا اُدھار ۔ اِن کے لِیے لے کے آؤ ۔ میں کُچھ نَہِیں جانتی ۔"

" میں نے آج تَک کِسی سے اُدھار نَہِیں لیا اور نہ کَبھی لوں گا ۔"

" تو کیا بُھوکا مارو گے ۔"

" یہ بھی نَہِیں ہوگا۔ میں اَبھی گیا اور اَبھی آیا ۔" وہ گَھر سے نِکلا اور بنئے کی دُکان پر پُہُنچ گَیا ۔ جِتنا راشَن لینا تھا لِیا ، اور کَندھے پر اُٹھا کر چَل دِیا ۔

" شَیخ چِلّی ! " بنیا چِیخا ۔

" کیا ہے ؟"

" پیسے نَقد دوگے یا اُدھار میں لِکھ دُوں ؟"

" نَقد ہیں نَہِیں اور اُدھار میں کِسی سے لیتا نَہِیں ۔"

" تو پِھر کیا پھوکَٹ کا مال سَمَجھ کر چَل دِیے ۔" بنئے نے اُسے پَکَڑ لِیا ۔

" مال اللہ کا ہے اور اُس کے بَنائے ہُوئے بَچّے گَھر میں بُھوکے بَیٹھے ہَیں ۔"

" وہ تو ٹِھیک ہے شَیخ جی لَیکِن اَگَر میں اِسی طَرح بانٹتا رَہا تو دُکان چَل گَئی میری ۔"

" لالہ ! اَگَر آئِندَہ پیسے مانگے تو دُکان پُھونک دُوں گا ۔"

اُس سے کُچھ بَعِید بھی نَہِیں تھا ۔ وہ اَگَر کَہہ رہا رہا تھا تو کر کے بھی دِکھا سَکتا تھا ۔ بنیا پِیچھے ہَٹ گَیا ۔

" اَچھا بَھیّا لے جاؤ لَیکِن آئِندَہ کِسی اور دُکان پر جانا ۔"

شَیخ چِلّی راشَن لے کر گَھر آ گَیا ۔ بِیوی کو یہ پُوچھنے کی کیا ضُرُورَت تھی کہ کَہاں سے لے آئے۔ اُسے تو بَچّوں کے پیٹ کا دوزَخ بَھرنے سے مَطلَب تھا ۔

جَب تَک راشَن چَلتا رہا تو چَلتا رہا، جَب خَتم ہُوا تو پھر سے فاقوں کی نَوبَت آگَئی۔ اِس مَرتَبہ وہ پِھر ایک بنئیے کی دُکان پر پُہُنچ گیا۔ یَہاں بھی وُہی حَرکَت کی۔ دھونس دَھمکی دے کر راشَن لے آیا ۔

یہ سِلسِلَہ کَب تک چَلتا۔ تَمام بَقّالوں نے ایکا کر لِیا بَلکہ دُوسرے دُوکان دار بھی اُن کے ساتھ مِل گَئے ۔

جَب بَقّالوں نے تَنگ کرنا شُروع کیا تو اُس کی غَیرَت نے اُس قَصبے میں رہنا گَوارا نَہِیں کِیا ۔ اُس نے سوچا ، جَہاں اَیسی نیچ ذاتوں کی حُکمرانی ہو جائے ، وَہاں رہنے کا کیا فائدہ ۔ کَبھی یَہاں قَدر ہی نَہِیں تو یَہاں سے نِکَل چَلو ۔

باقی آئندہ
 
Top